مکہ مکرمہ
ابراہیمؑ نے بارگاہ ربوبی میں التجا عرض کیا:
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَـَذَا بَلَداً آمِناً وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلاً ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ۔
ترجمہ:اور وہ وقت جب ابراہیم علیہ السلام نے کہا اے میرے پروردگار اس کو امن والا شہر بنا اور اس میں رہنے والوں کو پھلوں سے روزی عطا کر ، انہیں کہ جو ان میں سے اللہ اور آخرت پر بھی ایمان لائیں ارشاد ہوا کہ اور جو کفر اختیار کرے گا میں اسے بھی کچھ دن تو مزے اٹھالینے دوں گا۔ پھر اسے بہ جبردوزخ کے عذاب کی طرف لے جاؤں گا اور وہ کیا برا ٹھکانا ہے۔
پیغمبر اسلامؐ شہر مکہ سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں:
ما أطيبك من بلد ! وأحبك إلي! ولو لا أن قومي أخرجوني منك ما سكنت غيرك۔
ترجمہ: کس قدر پاک شہر ہے تو اور کس قدر محبوب ہے میرے لئے، اگر تیرے باشندوں نے مجھے نکال باہر نہ کیا ہوتا تو میرے تیرے سوا کہیں بھی سکونت اختیار نہ کرتا۔
مکہ، مسلمانوں کا مقدس ترین شہر نیز اسلام اور پیغمبر اسلام(ص) کا مولد، جزیرہ نمائے عرب میں واقع ہے۔ اس کے دوسرے ناموں میں "بکہ" "بلد الحرام"، "بلد الامین" اور "ام القری" شامل ہیں۔
اس شہر میں کعبہ واقع ہوا اور اس حوالے سے مسلمانوں کی قبلہ گاہ سمجھا جاتا ہے۔
ہر سال کروڑوں مسلمان مناسک حج اور مقامات مقدسہ کی زیارت کے لئے اس شہر کا سفر کرتے ہیں۔
مسجد الحرام، عرفات، مشعر الحرام اور سرزمین منٰی اس شہر کے بعض اہم ترین مقامات مقدسہ ہیں۔
شیعیان مکہ کی آبادی دسویں صدی ہجری میں بڑھنا شروع ہوئی۔ مختلف اسلامی ادوار میں شیعہ علماء اس شہر میں قیام پذیر رہے ہیں۔ جزیرہ نمائے عرب میں آل سعود کے دور میں نیز وہابیوں کی انتہا پسندانہ شیعہ دشمنی کی وجہ سے، اس سرزمین میں شیعیان اہل بیت کو مذہبی اعمال کی انجام دہی میں رکاوٹوں نیز معاشی حوالے سے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔
شہرت
شہر کا اصل نام "مکہ" ہے۔ یہ نام قرآن میں بھی مذکور ہے:
"وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُم بِبَطْنِ مَكَّةَ مِن بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيراً (ترجمہ: اور وہ وہ ہے جس نے ان کے ہاتھوں کو روک دیا تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے "مکہ" کے علاقے میں جب کہ تمہیں ان کے مقابلے میں پورا دسترس عطا کر دیا تھا اور اللہ اس کا جو تم کرتے ہو، دیکھنے والا ہے)[؟–24]"
وجہ تسمیہ
شخصیتها | |
---|---|
پیغمبر اسلامؑ • حضرت علیؑ • حضرت فاطمہؑ • صحابہ | |
غزوات | |
غزوہ بدر • غزوہ احد • غزوہ خندق • غزوہ خیبر • غزوہ فتح مکہ • دیگر غزوات | |
شہر اور مقامات | |
مکہ • مدینہ • طائف • سقیفہ • خیبر • جنۃ البقیع | |
واقعات | |
بعثت • ہجرت حبشہ • ہجرت مدینہ • صلح حدیبیہ • حجۃ الوداع • واقعۂ غدیر | |
متعلقہ مفاہیم | |
اسلام • تشیع • حج • قریش • بنو ہاشم • بنو امیہ | |
تاریخ اور حدیث کے مآخذ میں اس شہر کی نام گذاری کے لئے بعض وجوہات بیان ہوئی ہیں جن میں سے بعض حسب ذیل ہیں:
- مکّہ، مک (بمعنی بیت) اور رب کا آمیزہ تھا اور مکہ کے معنی "بیت الرب" یا "بیت اللہ" کے ہیں؛
- مکہ، مک (بمعنی واحہ اور وادی) اور رب سے مرکب ہوا ہے اور مکہ کے معنی "وادی الرب" کے ہیں؛
- مکہ در اصل، "مکرابا" جو لفظ "مقرب" سے ماخوذ ہے اور یہ لفظ ایسے مقام کے معنی میں ہے جہاں خدا کی قربت کے اسباب فراہم ہوں؛
- * مکہ "مکک" (بمعنی ہلاک ہونا اور کم ہوجانا) کی جڑ سے مشتق ہوا ہے اور مکہ یعنی وہ مقام جس کی طرف کوئی بھی ظالم بد نیتی سے دیکھے گا اس کا انجام ہلاکت اور نابودی کے سوا کچھ نہ ہوگا؛
- مکہ مادہ "مک (بمعنی "جذب") سے مشتق ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ ہر سرزمین و دیار سے لوگ کھچ آتے ہیں۔[1]
دیگر اسماء
شہر مکہ تاریخ میں مختلف اسماء سے مشہور رہا ہے جن میں سے بعض نام قرآن کریم میں بھی مذکور ہیں:
- بکّہ: "إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكاً وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ (ترجمہ: یقینا سب سے پہلا گھر جو تمام لوگوں کے لیے مقرر ہوا، وہی ہے جو مکہ میں ہے، بابرکت اور سرمایہ ہدایت تمام جہانوں کے لیے)[؟–96]"
- البلد الامین: "وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ۔ وَطُورِ سِينِينَ۔ وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ۔ (ترجمہ: قسم ہے انجیر اور زیتون کی۔ اور طور سینا کی۔ اور امن وامان والے شہر مکہ کی۔)[؟–1-3]"۔
- امّ القری: "وَهَـذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا (ترجمہ: اور یہ وہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے اتارا ہے تصدیق کرنے والی اس کی جو اس کے پہلے ہے اور اس لئے کہ آپ متنبہ کریں مکہ ان کو جو مکہ اور اس کے ارد گرد ہیں)[؟–92]"۔
- نیز:
العَروض، السَّیل، مُخرَجُ صِدق، أمُ رُحم، أمُ صبح، البلد، حرم اللہ تعالی، فادان، الناسہ، الباسّہ، طیبہ، حاطِمہ[2]"بَیتُ العَتیق، القادسیہ[3]
عام معلومات
جغرافیائی محل وقوع
حجاز کا اہم ترین شہر اور مقدس ترین علاقہ شہر مکہ ہے، یہ شہر بحر احمر سے 80 کیلومیٹر مشرق کی جانب، خط استوا پر 40 درجے 9 دقیقے طول بلد اور 31 درجے 28 دقیقے عرض بلد پر واقع ہے اور سطح سمندر 330 میٹر بلند ہے۔[4] بقول دیگر مکہ معظمہ 21 درجے 25 دقیقے عرض بلد شمالی اور 39 درجے 49 دقیقے طول بلد مشرقی پر واقع ہے اور سطح سمندر سے قریباً 300 میٹر بلند ہے۔[5]
معرض وجود میں آنے کا سبب
کہا گیا ہے کہ شہر مکہ کے معرض وجود میں انے اور اس کی توسیع کے دو اہم اسباب تھے:
- یہ کہ خداوند متعال کی عبادت کے لئے ایک عبادی مرکز ہو اور
- یہ علاقہ حجاز اور جزیزۃ العرب میں تجارت اور لین دین کا مرکز تھا اور یہ تجارتی راستے میں واقع ہے۔[6]
مکہ کی معیشت
ظہور اسلام سے کچھ عرصہ قبل، شہر مکہ ـ کعبہ کی اہمیت نیز یمن سے شام، فلسطین اور مصر کے درمیان تجارتی راستے پر واقع ہونے کے بموجب ـ کاروبار تجارت کا مقام تھا۔ گوکہ قریش صرف مکہ کی حدود میں تجارت کرتے تھے،[7] ہاشم بن عبد مناف، نے مکہ کے اطراف کے ساتھ تجارت کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے اپنے بھائیوں عبد شمس اور نوفل کے ساتھ مل کر شام، عراق اور حبشہ کے حکمرانوں سے ان سرزمینوں میں تجارت کی اجازت حاصل کی تھی اور یوں مکہ اہم تجارتی مرکز میں بدل گیا۔[8]
قریش کے زیادہ تر تجارتی اجتماعات ماہ ذوالقعدہ کے دوران عرفات کے قریب عکاظ نامی بازار میں ہوتے تھے۔[9]۔[10]
ربا (= سود) مکہ کے عوام کی کمائی کا ایک ذریعہ تھا اور ربا کو ایک قسم کی تجارت شمار کیا جاتا تھا۔[11]
آب و ہوا
شہر مکہ، جو منطقۂ حجاز کی مغربی بلندیوں میں واقع ہے، کی آب و ہوا، گرم اور خشک ہے۔ اس شہر کا موسم گرما گرم ہے جبکہ جاڑے میں بارشوں کی بہتات ہوتی ہے۔[12]
تاریخ مکہ
قبل از اسلام
مکہ کے اہم دینی واقعات میں، جو قبل از اسلام رونما ہوئے ہیں، بعض کچھ یوں ہیں:
- تعمیر کعبہ: حضرت ابراہیم(ع) نے خدا کے حکم سے کعبہ کی بنیاد رکھی۔ کعبہ کی تعمیر میں ان کے فرزند اسمعیل(ع) نے مدد کی۔[13]۔[14]۔[15] البتہ، اس سلسلے میں اقوال مختلف ہیں کہ کعبہ کی بنیاد سب سے پہلے کب رکھی گئی ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ کعبہ آدم(ع) کی خلقت سے قبل تعمیر ہوا ہے۔[16]
- ابرہہ کا حملہ: یمن کے فرمانروا ابرہہ نے سنہ 571 عیسوی میں انہدام کعبہ کی غرض سے مکہ پر حملہ کیا۔ وہ ہاتھیوں کا لشکر لے کر مکہ کی طرف آیا لیکن مکہ پہنچ کر انہیں ہوا سے پرندوں کے حملے کا سامنا کرنا پڑا جو سنگریزے ان کے اوپر پھینک رہے تھے۔ یہ سنگریزے جس کو بھی لگتے وہ موقع پر ہلک ہوجاتا تھا۔[17]۔[18]
- پیغمبر خدا(ص) کی ولادت: پیغمبر اسلام(ص) (شیعہ قول کے مطابق) 12 ربیع الاول سنہ 1 عام الفیل کو یا (سنی قول کے مطابق 12 ربیع الاول کو (سنہ 569 و سنہ 570 عیسوی کے درمیان) شہر مکہ میں پیدا ہوئے۔[19]۔[20]
- کعبہ کے اندر حضرت علی(ع) کی ولادت: روز جمعہ 13 رجب سنہ 30 عام الفیل کو امام علی(ع) خانۂ کعبہ میں پیدا ہوئے۔ امیرالمؤمنین(ع) واحد شخصیت ہیں جن کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی ہے۔[21] اہل سنت کے بعض منابع میں بھی یہ واقعہ نقل ہوا ہے۔ حاکم نیشابوری نے اپنی کتاب المستدرک علی الصحیحین میں لکھا ہے کہ متواتر احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ امیرالمؤمنین(ع) کعبہ کے اندر فاطمہ بنت اسد سے متولد ہوئے۔[22]
اسلامی دور
- پیغمبر(ص) کے دور میں: مکہ پیغمبر(ص) کے حیات طیبہ کے دوران اہم تاریخی اور مذہبی حوادث و وقائع سے گذرا جن میں سے بعض حسب ذیل ہیں:
- ظہور اسلام
- مسلمین کی ایک جماعت کی ہجرت حبشہ جعفر طیار کی سربراہی میں؛ (5 سال بعد از بعثت)
- شعب ابی طالب میں مسلمانوں کی معاشی ناکہ بندی؛ (7 سال بعد از بعثت)
- وفات حضرت ابو طالب کی وفات؛ (10 سال بعد از بعثت)
- وفات خدیجۂ کبری سلام اللہ علیہا (10 سال بعد از بعثت)
- ہجرت کی ہجرت بسوئے یثرب (مدینہ)؛
- فتح مکہ (سنہ 9 ہجری)
- حجۃ الوداع (10 ہجری)
- واقعۂ غدیر خم (سنہ 10 ہجری)
- امویوں کے دور میں:
- یزید کی ولایت عہدی کے خلاف بغاوت؛
- مکہ میں عبداللہ بن زبیر کی بغاوت (سنہ 62 ہجری)؛
- کعبہ اور مسجد الحرام پر لشکر یزید کا حملہ (سنہ 64 ہجری)؛
- عبداللہ بن زبیر کے ہاتھوں کعبہ کی تعمیر نو اور حجاج بن یوسف کے ہاتھ اس کا انہدام؛
- مکہ پر عبدالملک بن مروان کے حکم پر، حجاج کا حملہ اور کعبہ کو نذر آتش کیا جانا۔ (سنہ 73 ہجری)
- عباسیوں کا دور:
- نفس زکیہ کا ظہور (سنہ 145 ہجری)؛
- واقعۂ فخ(سنہ 169 ہجری)؛
- واقعۂ احباش(سنہ 173 ہجری)؛
- افطس کا قیام(سنہ 199 ہجری)؛
- مکہ پر قرمطیوں کا قبضہ (سنہ317 ہجری)؛
- قرمطیوں کے ہاتھوں خانۂ کعبہ کی بے حرمتی اور حجر الاسود کی چوری (سنہ 317 ہجری)۔
- فاطمیون اور شرفائے مکہ کے دور میں:
- ممالیکِ عثمانیہ کے دور میں:
- سلطنت عثمانیہ کی طرف سے ایرانی حجاج کے ساتھ تشدد آمیز سلوک؛
- مکہ میں پردہ کعبہ کے شیعہ حجاج کے ہاتھوں نجس ہونے کی تشہیر کرکے شیعہ قتل عام کرنا (سنہ 1088 ہجری)؛
- مکہ میں بعض شیعہ علماء ـ منجملہ: زین العابدین کاشانی (سنہ 1040 ہجری قمری) اور سید محمد مؤمن رضوی (1088 ہجری) ـ کا قتل۔
- خطباء کو رسمی منابر سے لعن شیعہ پر مجبور کیا جانا (سنہ 1157 ہجری)؛
- علمائے مکہ کا تکفیر شیعہ کا فتوی حکم جاری کرنا۔
- آل سعود کا دور':
- مکہ میں یمنی حجاج کا قتل عام (سنہ 1341 ہجری)؛
- مکہ پر حملہ اور قبضہ اور مسلمانوں کا قتل عام (سنہ 1342 ہجری)؛
- مکہ کے مقابر ـ منجملہ: ابو طالب، عبدالمطلب، خدیجہ کبری وغیرہ کی قبروں ـ کا انہدام (سنہ 1342 ہجری)؛
- مکہ پر آل سعود کا قبضہ (سنہ 1344 ہجری)؛
- سرزمین مِنٰی میں مصری حجاج کا قتل عام (سنہ 1344 ہجری)؛
- مکہ میں ایرانی حجاج کا قتل عام (سنہ 1366 ہجری شمسی/ 1987 عیسوی)۔[23]
- مسجد الحرام کی توسیع اور طواف کے لئے نئے مقام کی تعمیر (سنہ 1434 ہجری قمری).
مکہ کے فضائل
امام صادق(ع) فرماتے ہیں:
أحب الارض إلى اللہ تعالى مكۃ، وما تربۃ أحب إلى الله عزوجل من تربتها، ولا حجر أحب إلى الله عزوجل من حجرها، ولا شجر أحب إلى الله عزوجل من شجرها، ولا جبال أحب إلى الله عزوجل من جبالها، ولا ماء أحب إلى الله عزوجل من مائها ۔
ترجمہ: االلہ کے نزدیک پسندیدہ ترین سرزمین مکہ ہے؛ اللہ کے ہاں کوئی مٹی اس کی مٹی کی طرح، کوئی پتھر اس کے پتھروں سے، کوئی درخت اس کے درختوں سے، کوئی پہاڑ اس کے پہاڑوں سے اور کوئی پانی اس کے پانی سے زیادہ محبوب نہیں ہے۔
شہر مکہ مسلمانوں کے نزدیک نہایت اعلی اہمیت اور قدر و قیمت کا حامل ہے۔ اس اہمیت و قدر و قیمت کا سبب وہ مقدس اور متبرک مقامات ہیں جو اس شہر میں واقع ہیں؛ منجملہ کعبہ، مسجد الحرام، اعمال و مناسک حج نیز معصومین(ع) کی طرف سے اس شہر میں خاص اہتمام پر تاکید بھی اس قدر و منزلت کا موجب ہے۔ بہت سی احادیث میں اس شہر اور اس مسجد میں نماز کی فضیلت پر زور دیا گیا ہے؛ [[امام جعفر صادق علیہ السلام{امام صادق(ع)]] فرماتے ہیں:
- الصلاۃ في المسجد الحرام تعدل مائۃ ألف صلاۃ۔
ترجمہ: مسجد الحرام میں ایک نماز [کا ثواب] ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔[25] اس شہر کو اللہ، رسول اللہ(ص) اور امیرالمؤمنین(ع) کا حرم قرار دیا گیا ہے۔[26]
مقامات مقدسہ
رسول اللہ(ص) فرماتے ہیں:
صلاۃ في مسجدي تعدل عند الله عشرۃ آلاف صلاۃ في غيره من المساجد إلا المسجد الحرام فان الصلاۃ فيه تعدل مائۃ ألف صلاۃ۔
ترجمہ: میری اس مسجد مسجد نبی(ص) میں ایک نماز دوسری مساجد میں ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے سوائے مسجد الحرام کے جہاں ایک نماز [کا ثواب] ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔
مسجد الحرام
مفصل مضمون: مسجد الحرام
مسجد الحرام (عربی: المسجد الحرام) اسلام کی مشہور ترین اور مقدس ترین مسجد ہے جو سعودی عرب کے شہر مکہ میں واقع ہے اور مسلمانوں کا قبلہ ـ یعنی کعبہ بھی اسی مسجد میں واقع ہوا ہے۔ کعبہ کے علاوہ دیگر اشیاء، عمارات اور مقدس مقامات ـ منجملہ: حجر الاسود، ملتزم، مستجار، حطیم، اور حجر اسماعیل ـ مسجد الحرام میں واقع ہیں اور یہ سب مسلمانوں کے نزدیک اعلی معنوی اور دینی منزلت رکھتے ہيں۔ فقہ اسلامی مسجد الحرام پر دیگر مساجد کے تمام احکام کا اطلاق ہوتا ہے اور اس کے لئے بہت زیادہ خصوصی احکامات بھی وارد ہوئے ہیں۔ شریعت اسلامی میں ہر مسلمان پر فرض ہے کہ استطاعت کی صورت میں اپنی زندگی میں ایک مرتبہ مکہ کا سفر (سفر حج) اختیار کرے اور وہ مناسک بجا لائے جن میں سے بعض کو اسی مسجد میں بجا لایا جاتا ہے۔
کعبہ
مفصل مضمون: کعبہ
کعبہ مسلمانوں کا قبلہ اور ان کی اہم ترین عبادتگاہ ہے جس کی زیارت ـ استطاعت اور ضروری کوائف کی شرط پر ـ زندگی میں ایک بار ہر مسلمان پر واجب ہے۔ بعض روایات کے مطابق، ابراہیم خلیل(ع) اور ان کے فرزند اسماعیل (ع) نے خدا کے حکم پر کعبہ کی بنیاد رکھی۔ بعض قرآنی آیات بھی اس مدعا کا ثبوت دیتی ہیں۔ ہجرت کے دوسرے سال مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس سے کعبہ کی طرف تبدیل ہوا۔[27]۔[28]۔[29]
مساجد
- مسجد البیعہ یا مسجد الغنم، "قرن مسقلہ" یا "مصقلہ" میں واقع ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں فتح مکہ کے بعد رسول اللہ(ص) تشریف فرما ہوئے اور مکہ میں تازہ مسلمان ہونے والوں نے آ کر آپ(ص) کے ہاتھ پر بیعت کی۔[30]
- مسجد خیف، بعض روایات کے مطابق رسول اللہ(ص) نے حجۃ الوداع کے دوران اس مسجد میں خطبہ دیا اور ائمہ معصومین(ع) نے فرمایا ہے کہ اس مسجد میں نماز بجالانے کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔[31] یہ مسجد سرزمین مِنٰی میں واقع ہے۔
- مسجد النحر، سرزمین مِنٰی میں واقع ایک مسجد کا نام ہے اور خداوند متعال نے اس مقام پر حضرت اسمعیل(ع) کے بجائے ایک بکرا ابراہیم(ع) کے لئے حاضر کیا۔[32]
- مسجد شجرہ وہ مقام ہے جہاں صلح حدیبیہ کے دوران بیعت رضوان انجام پائی۔
- مسجد غدیر خم؛ یہ مسجد غدیر خم کے مقام پر واقع ہے اور اس مقام پر حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کا اعلان ہوا۔
- مسجد تنعیم
- مسجد نمرہ یا مسجد حضرت ابراہیم
- مسجد جن
- مسجد الاجابہ
- مسجد انشقاق القمر
- مسجد الرایہ یا "ردم الاعلی"
- ام ہانی کا گھر
- مسجد الصفائح[33]
مشاعر
- سرزمین عرفات: یہ وہ سرزمین ہے جہاں حجاج روز عرفہ ظہر سے مغرب تک وقوف کرتے (= ٹہرتے) ہیں۔
- مشعر الحرام یا مُزدَلفہ: یہ علاقہ عرفات اور سرزمین مِنٰی کے بیچ واقع ہوا ہے اور حجاج عرفات سے پلٹنے کے بعد عید الضحی کی رات صبح تک وقوف کرتے (= ٹہرتے) ہیں۔
- سرزمین مِنٰی: یہ وہ علاقہ ہے جہاں حجاج 10 ذوالحجہ (روز عید) سے 12 ذوالحجہ تک ٹہرتے ہیں۔ رمی جمرات، (= شیطان کو کنکریاں مارنے) حلق (= سر مونڈنے) یا تقصیر (= قربانی، حلق و تقصیر (= سر یا داڑھی کے کچھ بال یا کچھ ناخن کاٹنے) اور بیتوتہ (= قیام کرنے) جیسے اعمال اسی سرزمین میں بجا لائے جاتے ہیں۔
مواقیت
- مسجد شجرہ: یہ مسجد جو مدینہ سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اہل مدینہ اور اس شہر سے حج کے لئے مکہ عزیمت کرنے والوں کا میقات ہے۔
- جُحْفَہ: [جحفہ کے مقام] پر ایک مسجد ہے مصر، شام، شمالی افریقہ سے آنے والے حجاج [نیز ہوائی راستے سے جدہ آنے والے ان حجاج] کا میقات ہے جو سرزمین مکہ چلے جاتے ہیں۔
- وادی عقیق: یہ عراق اور نجد کے حجاج نیز ان لوگوں کے لئے میقات کے طور پر متعین ہے جو یہاں سے گذر کر مکہ کی طرف عزیمت کرتے ہیں۔
- قرن المنازل: یمن اور طائف کے حجاج کا میقات۔
- یلَمْلَمْ: یہ وہ آخری میقات ہے جو روایات میں اہلیان یمن اور وہاں سے گذر کر مکہ جانے والے حجاج کے لئے معین ہوا ہے۔[34][35]
دینی اور تاریخی آثار
- پیغمبر اسلام کا مقام ولادت: یہ مقام شعب ابی طالب میں سوق اللیل کے قریب واقع ہے اور آل سعود کی حکومت کے دوران منہدم کیا جا چکا ہے اور اس مقام پر ایک عمارت تعمیر کی جاچکی ہے۔
- خدیجۂ کبری(س) کا گھر: زوجۂ نبی(ص) سیدہ خدیجہ کبری(س) کا گھر، مولد النبی(ص) کے بعد مکہ کا اہم ترین مقام ہے۔ اس گھر میں ذیل کے چند اہم واقعات رونما ہوئے ہیں:
- خدیجہ کبری(س) کے ساتھ رسول اللہ(ص) کی شادی؛
- میلاد حضرت فاطمہ (س)؛
- رسول خدا(ص) کی تین دیگر بیٹیوں کی پیدائش؛
- خدیجہ کبری(س) کی وفات؛
- لیلۃ المبیت کا واقعہ؛
- رسول خدا(ص) کی ہجرت مدینہ کا آغاز؛
- ارقم بن ابی ارقم کا گھر: ارقم کا گھر دین اسلام کی تبلیغ کا اولین خفیہ مرکز تھا۔
- ابو طالب(ع) کا گھر: یہ گھر امام علی(ع) کا مسکن تھا اور رسول خدا(ص) بھی اسی گھر میں پروان چڑھے تھے۔
- عبداللہ بن جدعان کا گھر: عبداللہ کا گھر حلف الفضول نامی معاہدے کے انعقاد کا مقام تھا۔
- حضرت حمزہ(ع) کا مولد: یہ مقام مکہ کے زیریں علاقے "بازان" میں واقع تھا۔
- حارث بن عبد المطلب کا گھر: حارث کے گھر میں رسول اللہ(ص) سب سے پہلی بار اعلانیہ تبلیغ اسلام کا آغاز کیا اور اپنے اقرباء کو قبول اسلام کی دعوت دی؛ (رجوع کریں: حدیث یوم الدار)۔
- ام ہانی کا گھر: رسول اللہ(ص) کی معراج کا آغاز ہوا۔
- امام صادق(ع) کا مولد: امام صادق(ع) "دار ابی سعید" نامی گھر میں متولد ہوئے۔ یہ گھر "دار العجلہ" کے قریب واقع ہے اور جعفر طیار(ع) بھی اسی گھر میں پیدا ہوئے تھے۔[36]
- جنۃ المعلاۃ: یہ مکہ کا مشہور قبرستان ہے جو "قبرستان ابو طالب(ع) کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اس قبرستان میں جناب عبدالمطلب(ع)، جناب ابو طالب(ع) اور جناب خدیجۂ کبری(س) مدفون ہیں۔
- شہدائے فخ کا مقبرہ: یہ مقبرہ شہدائے فخ کا مقام شہادت بھی ہے۔ شہدائے فخ سپاہ بنی عباس کے خلاف لڑ کے اسی مقام پر شہید اور مدفون ہوئے ہیں۔[37] (رجوع کریں: صاحب فخ)۔
بین الحرمین زیارتگاہیں
- شہدائے بدر کا مزار: یہ وہ مقام ہے جہاں اسلام کی پہلی بڑی اور اہم جنگ لڑی گئی۔ یہ مقام مدینہ منورہ سے 150 کلومیٹر جنوب مغرب کی طرف واقع ہے۔ اس مقام پر 14 مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا اور یہیں مدفون ہوئے۔
- مسجد عریش: یہ مسجد شہدائے بدر کے مزار کے قریب واقع ہے اور جنگ بدر کی شب رسول اللہ(ص) کی عبادت، دعا اور نماز شب کے مقام پر تعمیر ہوئی ہے۔
- ربذہ: یہ علاقہ مدینہ کے مشرق میں بحر احمر کے ساحل کے قریب واقع ہے اور ابوذر غفاری کا مزار یہیں واقع ہے۔
- غدیر خم: یہ جحفہ کے قریب واقع ایک علاقہ ہے جو مکہ کے شمال مغرب میں 156 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور واقعۂ غدیر یہیں رونما ہوا ہے۔
- زیارتگاہ ابواء: یہ جحفہ کے راستے سے 45 کلومیٹر دور ہے اور رسول اللہ(ص) کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ بنت وہب(س) کا مزار یہیں واقع ہے۔[38]
اہم پہاڑیاں
- ابو قُبیس: روایات کے مطابق، یہ پہاڑ مکہ کے با فضیلت ترین پہاڑوں میں سے ہے جس کی اونچائی 420 میٹر ہے اور مسجد الحرام کے شمال مشرق میں واقع ہے۔ یہ پہاڑ مسجد الحرام کی مجاورت میں واقع ہونے کے بموجب مقدس پہاڑوں میں شمار ہوتا ہے۔ مروی ہے کہ طوفان نوح کے دوران یہ پہاڑ حجر الاسود کا امانت دار تھا اسی بنا پر اس کو "امین" بھی کہا گیا ہے۔ سب سے پہلا اعلان رسالت اسی پہاڑ کی چوٹی سے انجام پایا۔[39] کوہ صفا جو سعی کے راستے میں واقع ہوا ہے اسی پہاڑ کے دامن میں ہے۔
- جبل النور یا حراء: یہ پہاڑ مکہ سے شمال مشرقی جانب 4 کلومیٹر کے فاصلے پر منٰی سے عرفات کے راستے میں واقع ہے۔ غار حراء، جو اس پہاڑ کے بلند ترین نقطے پر واقع ہے،[بعثت]] سے قبل رسول اللہ(ص) کا مقام اعتکاف و عبادت ہے۔ علی علیہ السلام ان ایام میں رسول اللہ(ص) کے ساتھ رہتے تھے۔[40] نیز قرآن کریم کی ابتدائی آیات کریمہ بھی اسی غار میں رسول خدا(ص) پر اتری ہیں۔[41]
- کوہ ثور: اس پہاڑ کی بلندی 759 میٹر بلند ہے اور مکہ کے جنوب میں 3 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ رسول اللہ(ص) ہجرت مدینہ کے وقت ـ دشمن کو منحرف کرنے کی غرض سے ـ کئی روز اسی پہاڑ میں واقع غار میں قیام پذیر رہے۔[42]
- شعب ابی طالب: شعب یا درۂ ابی طالب ـ جو آج شعب علی(ع) بھی کہلاتا ہے،[43] وہ مقام ہے جہاں مسلمانوں نے مشرکین قریش کی اذیت و آزار سے محفوظ رہنے کے لئے 3 سال تک پناہ لی تھی۔[44]
مکہ کے دوسرے پہاڑوں میں "حجون"، " قُعَیقعان" یا "جبل ہندی"، "خَندمہ"، "عُمَر" اور "ثبیر" شامل ہیں۔[45]
مکہ میں شیعیان اہل بیت کی صورت حال
مکہ میں شیعیان علی(ع) کی موجودگی ـ خواہ انفرادی طور پر خواہ اجتماعی طور پر ـ ظہور اسلام کے ابتدائی ایام سے تعلق رکھتی ہے۔ اس شہر میں "بنی الحسن" کے شیعہ خاندان کے خودمختار سلسلے کی موجودگی اس شہر میں شیعیان اہل بیت کی سماجی حیثیت کی غماز ہے۔[46] مکہ دسویں صدی ہجری میں اصلی شیعہ مراکز میں شمار ہوتا تھا؛ یہاں تک کہ ابن حجر ہیتمی نے لکھا ہے کہ اس نے اپنی کتاب الصواعق المحرقہ مکہ میں اہل تشیع کی تعداد میں اضافہ ہونے کے باعث لکھی تھی۔[47] مشہور مسلم سیاح ابن جبیر (پیدائش سنہ 540؛ وفات 614 ہجری قمری/ سنہ 1145-1217 عیسوی)، نے اپنے سفرنامے میں بیان کیا ہے کہ جس سال وہ مکہ گیا اس سال مکہ کے حکمران نے علوی شیعہ مذہب کے مطابق ماہ مبارک رمضان کے حلول کا اعلان کیا۔[48] ابن جبیر نے مزید کہا ہے کہ مسجد الحرام میں ایک خاص مقام شیعیان زیدیہ کو مختص کیا گیا تھا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ مکہ کے اشراف زیدی مذہب کے پیرو تھے جو اذان میں حی علی خیر العمل کی عبارت کا اضآفہ کرتے ہیں۔[49] بعض دیگر سفرناموں میں ہے کہ بعد کی صدیوں میں مکہ میں اہل تشیع کی موجودگی کم ہوچکی تھی۔ محمد حسین فراہانی ـ جس نے سنہ 1302 ہجری قمری (سنہ 1224 ہجری شمسی) میں سفر [[حج انجام دیا ہے ـ لکھتا ہے کہ مکہ میں شیعہ آبادی بہت قلیل ہے اور وہاں سکونت پذیر شیعہ عام طور پر حجاج کی راہنمائی کا کام سر انجام دیتے ہیں۔[50] سنہ 1341 ہجری قمری (1301 ہجری شمسی) میں سفر حج پر مکہ جانے والے "حاج ایازخان قشقائی" لکھتے ہیں کہ شیعیان اہل بیت(ع) کو جدہ، مکہ اور مدینہ میں تقیہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور تشیع کے اظہار میں آزاد ہیں۔[51]
شرفائے مکہ باقاعدہ طور پر ـ کم از کم پندرہویں صدی عیسوی کے اوائل تک ـ شیعیان زیدیہ کی حمایت کرتے تھے۔[52] بعض سفرناموں میں دعوی کیا گیا ہے کہ شرفائے مکہ شیعہ تھے جو اپنا عقیدہ چھپایا کر رکھتے تھے۔[53] پندرہویں صدی عیسوی میں عثمانی ممالیک کے دباؤ کے تحت انھوں نے مذہب شافعی اختیار کیا اور زیدیہ سے اپنا ناطہ توڑ دیا۔[54] اس کے باوجود، بعض مآخذ کے مطابق وہ اپنی حکومت کے آخری ایام تک اہل تشیع کے ساتھ ہمیشہ رواداری اور نرم رویہ روا رکھنے کے خواہاں تھے۔[55]
آل سعود برسر اقتدار آئے تو شیعیان مکہ ـ جو کم تعداد میں اس شہر میں پھیلے ہوئے ہیں ـ کو شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا اور وہابی مفتیوں کے فتؤوں کی وجہ سے اس ملک میں رہنے والے اہل تشیع کو مالی اور کبھی جانی خطرات لاحق ہوجاتے ہیں اور اس آزار و اذیت کی وجہ سے انہیں تقیہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر شہر مکہ میں وہ اپنے مذہبی مراسمات اپنے گھروں میں بجا لانے پر مجبور رہے ہیں اور انہیں عمومی حلقوں میں سنی بن کر ظاہر ہونا پڑتا ہے۔۔[56]
مارچ 2103 عیسوی میں آل سعود کی پولیس نے مکہ میں معترض شیعہ عالم دین "شیخ بدرالطالب" اور جدہ میں "شیخ محمد العطیہ" کو گرفتار کیا۔[57]
نئی تعمیرات
حالیہ برسوں میں خانۂ خدا کے زائرین کی تعداد میں بےتحاشا اضافہ ہونے کے پیش نظر، مسجد الحرام کے اطراف میں نئے ہوٹلوں کی تعمیر کا آغاز ہوا ہے۔ اس سلسلے میں ان 26 ہوٹلوں کے منصوبے کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے جن میں 13000 کمرے تعمیر کرنا طے پایا ہے۔ مکہ میں مونو ریل (=ایک پَٹڑی پر چلنے والی ریل گاڑی) کے منصوبے کا پہلا مرحلہ 2011 عیسوی میں مکمل ہوا جس پر مکہ منٰی، عرفات اور مزدلفہ کو متصل کرنے کی غرض سے عمل کیا جارہا ہے۔
گھنٹہ مینار نئی تعمیرات کے ضمن میں تعمیر کیا گیا ہے جو دنیا کا سب سے بڑا گھنٹہ گھر ہے اور چار جہتوں میں چار صفحات پر مشتمل ہے۔
اس عمارت نیز اطراف کے ہوٹلوں کی تعمیر کو عالمی سطح پر مسلمانوں کی تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ ان کی رائے میں اس طرح کی تعمیرات مسجد الحرام کے معنوی اور روحانی پہلو کو متاثر کرتی ہیں۔[58]
سنہ 2014 کے آغاز میں مسجد الحرام میں ایک نئے توسیعی منصوبے کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں اس وقت ایک دو منزلہ مقام طواف کے لئے تعمیر کیا جاچکا ہے۔ پہلی منزل کی بلندی تین سے چار میٹر تک ہے اور دوسری منزل کی بلندی 13 میٹر ہے۔ اس مطاف کی تعمیر کے بموجب بعض فقہی مباحث کا آغاز ہوا۔ شیعہ فقہاء کے مطابق پہلی منزل میں طواف صحیح ہے لیکن بعض فقہاء کے فتاوی کے مطابق دوسری منزل میں طواف صرف معذور افراد کے لئے جائز ہے۔[59] آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے فتوی کے مطابق معذور اور مجبور ہونے کی صورت میں دوسری منزل میں طواف کرنے کی صورت میں حاجی کو احتیاطا کسی کو نائب بنانا چاہئے۔[60]
مآخذ برائے مطالعہ
شہر مکہ کے بارے میں مکتوب آثار بہت زیادہ ہیں۔ اس شہر ان شہروں میں سے ہے جس کے بارے میں بہت زیادہ لکھا گیا ہے۔ ان مکتوبات و تالیفات میں شہر کے جغرافئے، تاریخ، شہر کے واقعات، حکام اور امراء، علمائے دین اور شہر کے مشاہیر اہم طبیعی اور غیر طبیعی حوادث، شہر کی ثقافتی، دینی، علمی اور مذہبی و دینی صورت حال وغیرہ کو موضوع بنایا گیا ہے۔
تاریخی اور جغرافیائی تالیفات
تاریخ اور جغرافئے میں مکہ شناسی کے بارے میں مکتوبہ آثار ہمیں نہیں مل سکے ہیں گو کہ ان آثار میں مندرجہ مسائل بعد کے آثار میں مذکور ہیں۔ موجودہ آثار و مکتوبات میں ذیل کی کتب کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے:
نام کتاب | مؤلف | تاریخ تالیف | ناشر | تاریخ اشاعت |
---|---|---|---|---|
اخبار مکۃ و ما جاء فیہا من الاثار | محمد بن عبداللہ ازرقی | صدی 2 اور 3 ھ | دارالاندلس | 1983ء |
اخبار مکۃ فی قدیم الدہر و حدیثہ | محمد بن اسحاق فاکہی | صدی 3ھ | مکتبہ الاسدی | 1414ھ |
العقد الثمین فی تاریخ البلد الامین | محمدبن احمد الفاسی | صدی 8 اور 9ھ | موسسہ الرسالۃ | 1406ھ |
اتحاف الوری باخبار ام القری | عمر بن فہمد بن محمد | صدی 9ھ | جامعۃ ام القری | 1410ھ |
غایۃ المرام باخبار سلطنۃ البلد الحرام | عبدالعزیز بن عمر | صدی 9 اور 10ھ | جامعۃ ام القری | 1410ھ |
الاعلام باعلام بیت اللہ الحرام | محمد بن احمد نہروانی | صدی 11ھ | المکتبہ التجاریہ | 1416ھ |
تاریخ مکۃ المشرفۃ و المسجد الحرام و المدینہ الشریفۃ | محمد بن محمد مکی | صدی 9ھ | المکتبۃ التجاریۃ | 1416ھ |
الارج المسکی فی التاریخ المکّی | علی بن عبدالقادر طبری | صدی 11ھ | المکتبۃ التجاریۃ | 1416ھ |
تہنئۃ اہل الاسلام بتجدید بیت اللہ الحرام | ابراہیم بن محمد | صدی 11ھ | المکتبہ التجاریۃ | 1418ھ |
منائح الکرم فی اخبار مکۃ و البت و ولاۃ الحرم | علی بن تاج الدین سنجاری | صدی 12ھ | جامعۃ ام القری | 1419ھ |
تاریخ امراء مکہ | عارف عبدالغنی | معاصر | دمشق | 1992ء |
تاریخ مکہ، دراسات فی السیاسۃ و العلم و الاجتماع و العمران | احمد السباعی | معاصر | 1414ھ | |
التاریخ القویم لمکۃ و بیت اللہ الکریم | محمد طاہر کردی مکی | معاصر | دار خضر | 1420ھ |
سفر نامے
شہر مکہ کی دینی اور سیاسی اہمیت کے پیش نظر، یہ شہر بہت سے سیاحوں کی منزل مقصود رہا ہے۔ علاوہ ازیں ہر سال دنیا کے مختلف ممالک سے بے شمار مسلمان حج اور زیارت کی غرض سے اس شہر کا سفر اختیار کرتے ہیں۔ بعض مسافرین نے اپنے سفر کی روداد سفرناموں کے سانچے میں تحریر کی ہے۔ یہ سفرنامے مختلف تاریخی ادوار میں اس شہر کے بارے میں مفید معلومات قارئین کو پیش کرتے ہیں۔ مکہ معظمہ کے بارے میں دستیاب معلومات کا ایک اہم حصہ ان ہی سفرناموں سے حاصل ہوا ہے۔
حج کے اہم ترین اور قدیم ترین سفرناموں میں دو سفرنامے تذکیر بالاخبار عن اتفاقات الامصار بقلم ابن جبیر (ولادت 540۔وفات 614 ہجری/1145-1217 عیسوی) اور تحفۃ النُظّار بقلم ابن بطوطہ (متوفی 779 ہجری/1369 عیسوی) شامل ہیں۔
ایک قدیم اور مشہور سفرنامہ حجہ جذب القلوب الى ديار المحبوب ہے جو ہندوستان کے مشہور عالم و فقیہ عبدالحق محدث دہلوی (ولادت سنہ 958 وفات 1052 ہجری) نے لکھا ہے۔ وہ کافی عرصے تک سرزمین حرمین شریفین میں قیام پذیر رہے۔ انھوں نے اس کتاب کا آغاز سنہ 998 ہجری میں مدینہ میں کیا اور سنہ 1001 ہجری قمری میں پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ یہ کتاب درحقیقت سمہودی کی کتاب خلاصۃ الوفاء کا فارسی ترجمہ ہے۔ یہ کتاب 17 ابواب پر مشتمل ہے اور 1286 ہجری سے متعدد بار شائع ہوئی ہے۔[61]
ایران کے شیعہ حجاج نے بھی مسجد الحرام اور مکہ کے بارے میں بہت سے موضوعات پر قلم فرسائی کی ہے؛ اور اس سلسلے میں اہم ترین تالیفات ناصر خسرو قبادیانی (متوفی سنہ 481 ہجری/1088 عیسوی)، کا سفرنامہ، فرہاد میرزا معتمد الدولہ (متوفی سنہ 1305 ہجری) کا سفرنامہ حسام السلطنہ (متوفی 1300 ہجری) کا سفرنامہ دلیل الانام فی سبیل زیارۃ بیت اللہ الحرام و القدس الشریف ومدینۃ السلام، شامل ہیں۔ ماضی کے شیعہ کئی سفر نویسوں کی فارسی تحریریں کتب اور مجامیع کی صورت میں شائع ہوئی ہیں۔ ان مجموعوں میں سے اہم ترین مجموعہ پنجاہ سفرنامۂ حج قاجاری ہے جو رسول جعفریان کے زیر اہتمام مرتب ہوکر سنہ 2011 میں تہران کے مطبعہ نشر علم سے شائع ہوا ہے۔
حوالہ جات
- ↑ جعفری، نام ہای شہر مکہ، ص205۔
- ↑ فاسی المکی، شفاء الغرام باخبار البلدالحرام، ص76۔
- ↑ نہروانی المکی، الاعلام باعلام بیت اللہ الحرام، ص28۔
- ↑ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، صص32و33۔
- ↑ مکہ کے تاریخی مقامات....۔
- ↑ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ص30۔
- ↑ یعقوبی، تاریخ، ص242۔
- ↑ جواد علی، ص21؛ یعقوبی، 241؛ طبری، ج2، ص252-251۔
- ↑ ازرقی، اخبار مکہ، ج2، ص382۔
- ↑ قزوینی، آثار البلاد و اخبار العباد، ص85۔
- ↑ الشریف، مکۃ والمدینۃ فی الجاہلیۃ وعہد الرسول، ص213۔
- ↑ قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ ومدینہ، ص44۔
- ↑ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج1، صص81 و 82۔
- ↑ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج1، ص378۔
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، ج1، ص251۔
- ↑ ازرقی، اخبار مکہ، ج1، ص68۔
- ↑ سعد بن حسین عثمان و عبدالمنعم ابراہیم الجمیعی، الاعتداءات علی الحرمین... ص18- 24۔
- ↑ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج1، ص342- 345۔
- ↑ شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص37۔
- ↑ آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ص43۔
- ↑ مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، ج1، ص5۔
- ↑ حافظ نیشابوری، ج3، ص593۔
- ↑ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ص50-62۔
- ↑ حکومت وہابی سعودی۔
- ↑ کلینی، الکافی، ج4، ص526۔
- ↑ مجلسی، محمدتقی، لوامع صاحبقرانی، ص207۔
- ↑ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج2، صص82 و 82۔
- ↑ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج2، ص378۔
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، ج2، ص252۔
- ↑ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ص147۔148۔
- ↑ کلینی، الکافی، ج4، ص519۔
- ↑ کردی، التاریخ القویم لمکہ و بیت اللہ الکریم، ج6، ص28۔
- ↑ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، صص141-148۔
- ↑ نجفی، ج18، ص133۔
- ↑ خوئی، مناسک حج، ج1، صص72-73۔
- ↑ قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ ومدینہ، صص144-153۔
- ↑ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، صص161-168۔
- ↑ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ص194-200۔
- ↑ قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ ومدینہ، ص110۔
- ↑ حضرت علی(ع) در غار حراء (حضرت علی(ع) غار حراء میں)۔
- ↑ قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ ومدینہ، ص108۔
- ↑ فاکہی، اخبار مکۃ في قديم الدہر وحديث، ج4، ص80-83۔
- ↑ قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ ومدینہ، ص113-114۔
- ↑ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج2، ص375-376۔
- ↑ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، صص37و 38۔
- ↑ MORTEL, p455-472۔
- ↑ مارکو سَلَتی، ص66۔
- ↑ ابن جبیر، تذکیر بالاخبار عن اتفاقات الامصار، ص187۔
- ↑ ابن جبیر، تذکیر بالاخبار عن اتفاقات الامصار، صص138 و 139 و 140۔
- ↑ جعفریان، پنجاہ سفرنامہ حج قاجار، «سفرنامہ مکہ»، ج5، ص203۔
- ↑ جعفریان، پنجاہ سفرنامہ حج قاجار، «سفرنامہ حاج ایازخان قشقایی»، ج5، ص395، 409۔
- ↑ دحلان، خلاصۃ الکلام فی بیان امراء البلد الحرام، ج2، ص461۔
- ↑ جعفریان، پنجاہ سفرنامہ حج قاجاری، «گزارش سفر حج نوشتہ نویسندہ ناشناختہ سال 1299 قمری»، ج4، ص776۔
- ↑ MORTEL، صص 467 و 468۔
- ↑ جعفریان، پنجاہ سفرنامہ حج قاجاری، «سفرنامہ تحفۃالحرمین و سعادۃالدارین»، ج5، ص441۔
- ↑ http://www.rohama.org/fa/content/1839۔
- ↑ آل سعود حکومت کی آمریت۔
- ↑ پروژہہای ساخت و سازہای غیر متعارف در مکہ ادامہ دارد (مکہ میں غیر معمولی تعمیراتی منصوبے جاری ہیں)۔
- ↑ پاسخ مراجع تقلید دربارہ طواف در سازہہای جدید مسجدالحرام۔
- ↑ نئے مطاف میں طواف کے بارے میں مراجع تقلید کے فتاوی۔
- ↑ جذب القلوب الى ديار المحبوب۔
مآخذ
- قرآن. اردو ترجمہ: سید علی نقی نقوی لکھنوی (نقن)۔
- * ابن أبي جمہور، محمد بن على بن ابراہيم الاحسائي، ؛ عوالي اللآلي، الطبعۃ الاولى، مطبعۃ سيد الشہداء قم، 1403 ہجری قمری، 1983 عیسوی۔
- ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، تحقیق:ابی الفداء عبداللہ القاضی، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1407 ہجری۔
- ابن جبیر، سفرنامہ ابن جبیر، ترجمہ پرویز اتابکی، انتشارات آستان قدس رضوی، مشہد، 1370 ہجری شمسی۔
- ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، تحقیق: دکتر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی، مصر، ہجر للطباعۃ والنشر والتوزیع والاعلان، 1997 ء۔
- *ابن ہشام، عبدالملک بن ہشام الحمیری؛ السیرۃ النبویۃ، تحقیق مصطفی السقا، بیروت، دارالمعرفہ۔
- ازرقی، محمد بن عبداللہ، اخبار مکہ، روائع التراث العربی.
- آیتی، محمدابراہیم، تاریخ پیامبر اسلام، تجدیدنظر و اضافات از: ابوالقاسم گرجی، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، 1378 ہجری شمسی۔
- جعفریان، رسول، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، قم، نشر مشعر، چاپ سوم.، 1384 ہجری شمسی۔
- جعفریان، رسول، پنجاہ سفرنامہ حج قاجاری، نشر علم، تہران، 1389 ہجری شمسی۔
- جعفری، یعقوب، نام ہای شہر مکہ، مجلہ میقات حج، شمارہ 2، ص205-222. زمستان1372 ہجری شمسی۔
- جواد علی،المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، بیروت، دارالعلم للملایین و مکتبۃ النہضۃ بغداد، 1970 عیسوی۔
- خوئی، ابوالقاسم، مناسک الحج، قم، موسسہ احیاء آثار الامام خوئی، بیتا.
- زینی دحلان، خلاصۃ الکلام فی بیان امراء البلد الحرام، قاہرہ، 1305 ہجری قمری۔
- سعد بن حسین عثمان و عبدالمنعم ابراہیم الجمیعی، الاعتداءات علی الحرمین الشریفین عبر التاریخ، 1992 عیسوی۔
- الشریف، احمد ابراہیم؛ مکہ والمدینہ فی الجاہلیہ و عہد الرسول، قاہرہ، دار الفکر العربی، چاپ دوم.
- شہیدی، سید جعفر، تاریخ تحلیلی اسلام، تہران، مرکز نشر دانشگاہی، 1390 ہجری قمری۔
- الصدوق، محمد بن على بن الحسين بن بابويہ القمى، من لا يحضرہ الفقيہ، تصحیح: على اكبر الغفاري، منشورات جماعۃ المدرسين في الحوزۃ العلميۃ في قم المقدسۃ۔
- الصدوق، محمد بن على بن الحسين بن بابويہ القمى، * صدوق، ثواب الاعمال، تصحیح: الشیخ حسین الاعلمی، طلیعہ نور، طبعۃ الخامسۃ، مطبعۃ سلیمان زادہ، 1431 ہجری قمری.
- طبری، تاریخ الطبری، نحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم، مصر، دار المعارف، 1968 ہجری۔
- فاسی المکی، محمد بن احمد، شفاء الغرام باخبار البلد الحرام، تحقیق: عمر عبدالسلام تدمری، بیروت، دارالکتاب العربی، 1405 ہجری قمری۔
- فاکہی، محمد بن اسحاق، اخبار مکہ فی قدیم الدہر و حدیثہ، تحقیق: عبدالملک بن عبداللہ، مکہ، مکتبۃ النہضۃ الحدیثۃ، 1407 ہجری قمری۔
- قائدان، اصغر، تاریخ و آثار اسلامی مکہ ومدینہ، قم، نشر مشعر، 1381ش، چاپ چہارم.
- قزوینی، زکریا بن محمد، آثار البلاد و اخبار العباد، بیروت، دار صادر، بیتا.
- کردی، محمد طاہر، التاریخ القویم لمکہ و بیت اللہ الکریم، مکتبہ النہضہ الحدیثہ، 1412 ہجری۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی اکبر غفاری، تہران، دار الکتب السلامیہ، 1367ش، چاپ سوم.
- مجلسی، محمد تقی، لوامع صاحبقرانی، قم، دار التفسیر، 1416 ہجری قمری۔
- مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، مؤسسۃ آل البیت لإحیاءالتراث، 1416 ہجری۔
- نہروانی المکی، قطب الدین، الاعلام باعلام بیت اللہ الحرام، بیروت، دار الرائق التراث العربی، بیتا.
- یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، دار الصادر، چاپ دوم، 1988 عیسوی۔
- R . MORTEL, "Zaydi shiism and the Hasanid Sharifs of Mecca", IJMES 19 ,2987