مندرجات کا رخ کریں

ام ذریح عبدیہ

ویکی شیعہ سے
ام ذریح
کوائف
نام:ام ذریح العبدیہ
نسبعبد القیس
مشہور اقاربمسلم بن عبداللہ
اصحابامام علیؑ
سماجی خدماتجنگ جمل میں زخمیوں کا مداوا کرنا
تالیفاتعائشہ کی توہین اور مسلم بن عبداللہ کی غم میں اشعار


اُمّ ذَرَیح عَبدِیَّۃ جنگ جَمَل میں شریک ایک شیعہ خاتون تھی۔

اُمّ ذَرَیح کا تعلق قبیلہ عبد القیس سےتھا۔[1] مورخ اور محقق محمد ہادی امینی (وفات: 1379 ہجری شمسی) اپنی کتاب اصحاب امیرالمؤمنینؑ میں لکھتے ہیں کہ وہ جنگ جمل میں زخمیوں کی مرہم پٹی اور تیمار داری میں مصروف رہتی تھیں۔[2] چوتھی صدی ہجری کے شیعہ مؤرخ شیخ مفید کے مطابق، جب عائشہ نے امام علیؑ کے لشکر کی طرف توہین آمیز برتاؤ کرتے ہوئے گالیاں دی اور خاک پھینکا تو اُمّ ذریح نے عائشہ کی ہجو میں اشعار کہے:[3]

عَائِشُ إِنْ جِئْتِ لِتَہْزِمِینَا
وَ تَنْشُرِی الْبُرْدَ لِتَغْلِبِینَا
وَ تَقْذِفِی بِالْحَصَیَاتِ فِینَا
تُصَادِفِی ضَرْباً وَ تُنْکِرِینَا
بِالْمِشْرَفِیَّاتِ إِذَا غُزِینَا
نَسْفِکُ مِنْ دِمَائِکُمْ مَا شِینَا

ترجمہ: اے عائشہ! اگر تم اس لیے آئی ہو کہ ہمیں شکست دو، اور گالی دی تاکہ ہم پر کامیاب ہوجاؤ، اور ہم پر کنکریاں پھینک دی تو جان لو تم ایسی ضربوں کا سامنا کرو گی کہ جن کا تم نے تصور بھی نہ کیا ہوگا. جب جنگ ہمارے اوپر مسلط کی جائے گی، تو ہم اپنی مرضی کے مطابق مَشرَفی تلواروں[یادداشت 1] سے جتنا چاہیں تمہارے خون زمین پر بہائیں گے۔[4]

جنگ جمل کے آغاز سے پہلے، امام علیؑ نے مسلم بن عبداللہ کو دشمن کی فوج کی طرف بھیجا تاکہ ان سے گفتگو کرے، لیکن دشمن نے انہیں شہید کر دیا۔[5] مسلم کی شہادت کے بعد ایک عورت نے مسلم کی شہادت پر مرثیہ کہہ کر نوحہ خوانی کی۔ ساتویں صدی ہجری میں نہج البلاغہ کے مشہور شارح ابن ابی الحدید نے اس عورت کو اُمّ ذریح قرار دیا ہے، جبکہ چوتھی صدی ہجری کے مؤرخین طبری اور مسعودی نے بغیر نام لیے اسے مسلم کی ماں ہونے کا احتمال دیا ہے۔[6] شیعہ سوانح نگار سید محسن امین (وفات: 1371ھ) نے ان اقوال کا جائزہ لیتے ہوئے اس امکان کا اظہار کیا ہے کہ اُمّ ذریح ہی مسلم کی والدہ ہوں، اگرچہ انہوں نے یہ احتمال بھی رد نہیں کیا ہے کہ شاید اس وقت ایک سے زائد شاعرہ خواتین موجود ہوں۔[7]

محمد ہادی امینی نے یہ بھی احتمال ظاہر کیا ہے کہ اُمّ ذریح، خلیفہ سوم عثمان بن عفان کے خلاف بغاوت کرنے والوں میں شامل ذریح بن عباد کی ماں ہو۔[8]

حوالہ جات

  1. سمعانی، الأنساب، 1382ھ، ج‏9، ص190؛ ابن اثیر، اللباب، 1414ھ، ج2، ص314۔
  2. امینی، اصحاب أمیرالمؤمنین، 1412ھ، ج2، ص662۔
  3. شیخ مفید، الجَمَل، 1413ھ، ص348۔
  4. شیخ مفید، الجَمَل، 1413ھ، ص348۔
  5. طبری، تاریخ الاُمم، 1387ھ، ج‏4، ص511 و ص529؛ مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج2، ص361۔
  6. طبری، تاریخ الاُمم، 1387ھ، ج‏4، ص511 و ص529؛ مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج2، ص361۔
  7. امین، اعیان الشیعہ، 1406ھ، ج3، ص478۔
  8. امینی، اصحاب أمیرالمومنین، 1412ھ، ج2، ص662۔

نوٹ

  1. مشرفی تلوار مشارف الشام سے منسوب ہے یا شامی کی تلوار اور سیفِ مشرفی۔ ملاحظہ کریں: دہخدا، لغت نامہ، مشرفی کے ذیل میں

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن محمد، اللباب فی تہذیب الأنساب، بیروت، دار صادر، چاپ سوم، 1414ھ، 1994ء۔
  • ابن أبی الحدید، عبد الحمید بن ہبۃ اللہ‏، شرح نہج البلاغۃ، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، چاپ اول، 1404ھ۔
  • امین، سید محسن، اعیان الشیعۃ، تحقیق: حسن امین، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، 1406ھ۔
  • امینی، محمد ہادی، أصحاب أمیرالمؤمنین و الرواۃ عنہ، بیروت، دار الکتاب الإسلامی، چاپ اول، 1412ھ۔
  • سمعانی، عبد الکریم بن محمد، الأنساب، تحقیق: عبدالرحمن بن یحیی معلمی، حیدر آباد، انتشارات مجلس، چاپ اول، 1382ھ، 1962ء۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الجمل والنصرۃ لسید العترۃ فی حرب البصرۃ، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبوالفضل ابراہیم ، بیروت، دار التراث ، چاپ دوم، 1387ھ، 1967ء۔
  • مسعودی، مروج الذہب و معادن الجوہر، مسعودی، أبو الحسن علی بن الحسین بن علی، تحقیق اسعد داغر، قم، دار الہجرۃ، چاپ دوم، 1409ھ۔