کتابت قرآن

ویکی شیعہ سے

کتابتِ قرآن سے مراد قرآن مجید کی تحریر اور جمعِ قرآن ہے۔ قرآن کی کتابت چونکہ مختلف قسم کی تحریفات سے قرآن محفوظ رہنے کا ذریعہ ہے اس لیے رسول خدا نے اس کی تاکید فرمائی تھی۔ پیغمبر اسلامﷺ نے حضرت علیؑ اور زید بن ثابت جیسے بعض اصحاب کو کتابتِ قرآن کی ذمہ داری سونپ دی تھی۔ آغاز کے صُحف قرآنی علی بن ابی طالب، زید بن ثابت، عبداللہ بن مسعود اور ابی بن کعب جیسے افراد کے ہاتھوں سے تحریر کیے گئے تھے لیکن بعد میں قرآن کے بہت سے اور مختلف نسخوں نے لوگوں کے درمیان اختلافات کو جنم دیا۔ اسی وجہ سے عثمان بن عفان نے قرآن کو یکجا کرنے کے لیے ایک شوریٰ تشکیل دی جس کےذریعے قرآن کا ایک نسخہ پیش کیا گیا۔ اس جمع شدہ قرآن کو ائمہ معصومینؑ نے بھی قبول کیا۔

صدرِ اسلام میں قرآن کی تحریر کا آغاز ابتدائی رسم الخط کے ساتھ ہوا۔ اس ابتدائی دورمیں الفاظ پر کوئی نشان یا نقطے نہیں ہوتے تھے، اس وجہ سے لوگ قرآن کی قرائت میں اکثر و بیشترغلطیاں کیا کرتے تھے۔ لہٰذا ابو الاسود دوئلی، نصر بن عاصم اور خلیل بن احمد فراہیدی نے الفاظِ قرآن پر نقطے اور اعراب لگائے؛ نیز قرآن کی تلاوت کو آسان بنانے کے لیے نشانات کا استعمال بھی کیا۔

قرآن کی تحریر میں خوشنویسی، تذہیب، صفحات کی ترتیب اور اس کی طباعت جیسے مختلف فنون استعمال کیے گئے ہیں، کیونکہ مسلمان فنی لحاظ سے ہر اس چیز کو استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کتابت قرآن کی خوبصورتی میں اثر انداز ہوتی ہو۔ اسی وجہ سے انہوں نے خطاطی کی مخلتف شکلیں ایجاد کیں جن میں سے خط ثلث، خط نسخ، خط ریحان اور خط نستعلیق قابل ذکر ہیں۔ رسم الخط کے سلسلے میں خط نسخ کتابت قرآن کا ایک واضح خط ہونے کی بنا پر اسے اختیار کیا گیا اور اسے قرآن لکھنے کے لیے موزوں رسم الخط کے طور پر متعارف کرایا گیا۔

مقامِ بحث

کتابتِ قرآن کی بحث کا تعلق علوم قرآنی سے ہے[1] اور اس میں کتابت قرآن کی تاریخ، اس کی کیفیت اور جمعِ قرآن جیسے موضوعات پر بحث کی جاتی ہے۔[2] کتابتِ قرآن چونکہ قرآن کی حفاظت کے عوامل میں سے ایک اہم عامل ہے اس لیے پیغمبر اکرمﷺ نے اس کی تاکید فرمائی ہے۔[3] کتابتِ قرآن کی کیفیت آیات قرآنی کو سمجھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے چنانچہ کہتے ہیں کہ آیات قرآنی کے معانی میں چند امکانات اور احتمالات پیدا ہونے کا ایک اہم سبب صدر اسلام میں ایک واضح کتابت کا فقدان تھا۔[4]

محققین کے مطابق اسلامی دنیا میں کتابت و تحریر کا آغاز قرآن کی تحریر سے ہوا اور خط اور کتابت قرآن کے درمیان تعلق کی وجہ سے اسلامی دنیا میں خط کو اہمیت حاصل ہوئی۔[5] اسلام کی آمد اور قرآن کے نزول کے ساتھ خط اور تحریر مورد توجہ قرار پائی۔ کیونکہ قرآن رسول اکرمﷺ کا معجزہ تھا اس لیے اسے پڑھنا اور لکھنا ایک مقدس فریضہ سمجھا جاتا تھا۔[6]

کتابتِ قرآن کی تاریخ

اسلام کی آمد کے دوران حجاز میں عربوں کے درمیان خط و کتابت عام طور پر رائج نہیں تھی اور بیس نفر سے کم لوگ خط و کتابت سے واقف تھے۔ اس لیے رسول اکرمﷺ نے انہیں وحی الہی کو لکھنے کی ذمہ داری سونپ دی اور مسلمانوں کو خط و کتابت سیکھنے کی ترغیب دی۔[7] قرآن کو حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ رسول خداﷺ نے اس کی کتابت پر بھی توجہ دی اور علی ابن ابی طالب اور زید ابن ثابت جیسے لوگوں کو قرآن لکھنے کا حکم دیا۔[8] وہ لوگ جانور کی کھالوں، کھجور کے پتوں، چوڑی ہڈیوں اور کاغذ پر قرآن لکھا کرتے تھے۔[9]

آغاز کے صُحف‌ قرآنی

حضرت امام علیؑ سےمنسوب دستخط میں تحریر شدہ قرآن

چوتھی صدی ہجری کے کتابیات نگار ابن ندیم نے اپنی کتاب "الفہرست" میں امام علیؑ کے مصحف کو قرآن کے پہلے مکمل مصحف کے طور پر متعارف کرایا ہے۔[10] پیغمبر اکرمﷺ کی رحلت کے بعد امام علیؑ نے اپنے گھر میں ہی قرآن کو نزول کی ترتیب کے ساتھ ایک مصحف میں جمع کیا اور لوگوں اور اصحاب رسول کو دکھایا۔[11] بعض صحابہ نے اس مصحف کو قبول کرنے سےانکار کیا۔ اسی وجہ سے امام علیؑ نے اسے عوام کی دسترسی سے دور کر دیا۔[12]

پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت اور امام علیؑ کے مصحف کی عدم قبولیت کے بعد زید بن ثابت کے علاوہ بعض دیگر اصحاب جن میں عبد اللہ بن مسعود، ابی بن کعب، مقداد بن اسود، سالم مولی ابی حذیفہ، معاذ بن جبل اور ابو موسی اشعری شامل ہیں؛ نے جمعِ قرآن کا آغاز کیا۔[13]

مختلف صُحف کو یکساں کرنے کا مرحلہ

مصر میں قرآن کا ایک نسخہ جس کے بارےمیں کہا جاتا ہے کہ یہ مصحف‌ عثمانی کا ایک نسخہ ہے

صحابہ رسول نے متعدد صُحف قرآنی اپنے لیے تحریر کیے رکھے تھے جو ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ صحف میں موجود یہی اختلاف اور مختلف قرائت لوگوں میں اختلاف ظاہر ہونے کا سبب بنی۔[14] اسی وجہ سے خلیفہ سوم عثمان نے تمام صحف میں یکسانیت پیدا کرنے کا عزم کیا۔[15] جمع قرآن کے سلسلے میں اصحاب رسول خدا میں سے 12 افراد منجملہ زید بن ثابت، عبد الله بن زُبَیْر اور عبد الله بن عباس نے اُبیّ بن کعب کے زیر سرپرستی عملی قدم اٹھایا۔[16] اصحاب رسول کی جانب سے جمع کیے گئے قرآن کو امام علیؑ نے بھی قبول کیا اور مسند خلافت پر فائز ہونے کے بعد بھی اسی قرآن پر عمل پیرا رہے[17] امام علیؑ کے بعد بھی دیگر ائمہ معصومینؑ نے عثمان کی جانب سے جمع کیے گئے قرآن کو مورد قبول قرار دیا اور اسی کی حفاظت کے لیے تاکید کرتے رہے۔[18]

کتابتِ قرآن کا رواج

ایران میں صفوی دور میں اور ترکی میں عصر عثمانی میں کتابت قرآن بے حد توجہ کا مرکز قرار پائی۔[19] اس زمانے میں قرآن مجید کو کبھی تو مکمل طور پر، بعض اوقات چار، پندرہ، تیس اور ساٹھ جلدوں میں لکھا جاتا تھا۔[20] طباعت کی صنعت رائج ہونے کے بعد مطبوعہ قرآن رائج ہوا اس طرح قرآن مجید کی کتابت آہستہ آہستہ متروک ہوتی چلی گئی۔[21]

رسم‌ المُصحف

رسم المصحف، مصحف عثمانی کے ساتھ مختص رسم‌ الخط۔ ہے اس رسم الخط میں قرآنی کلمات کو کتابت کے اصولوں کے برخلاف لکھا جاتا ہے؛[22] جیسے «الصلوٰة» کو[23] «الصلاة» کی جگہ اور «ابرٰهــٖم»[24] کو«ابراهیم» کی جگہ لکھا جاتا ہے۔[25] رسم‌ المصحف کے اپنے مخصوص چھے اصول یہ ہیں: قاعدۀ حذف، زیادت، همزه، اِبدال، وصل اور فصل۔ یہ سارے، اصول کتابت میں سے کسی ایک سے بھی مطابقت نہیں رکھتے۔[26] بعض قرآنی محققین کا کہنا ہے کہ عثمانی رسم الخط اس حد تک اہمیت کا حامل ہے کہ اگر کوئی دوسری قرائت اس سے متصادم ہو تو اس کی اصلاح کی جانی چاہیے۔[27] محققین کے مطابق رسم المُصحف کی قواعد کتابت کے ساتھ مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے کاتبین وحی کی جانب سے غلطیاں سرزد ہوا کرتی تھیں، نیز آغاز اسلام میں رسم الخط کی ابتدائی صورت حال اور مختلف قرائات میں فرق کی وجہ سے قرآنی رسم الخط کی اثر پذیری بھی مذکورہ عدم مطابقت کا نتیجہ تھی۔[28] دوسری طرف، بعض اہل سنت قرآن کے رسم الخط کو توقیفی سمجھتے ہیں؛ یعنی ان کا عقیدہ ہے کہ رسول خداﷺ نے کاتبین وحی کو وحی کے ذریعے کلمات قرآن کی کتابت کا طریقہ سکھایا ہے۔[29]

رسم المصحف میں تبدیلی جائز ہے یا نہیں؟ اس کے بارے میں درج ذیل نظریات پائے جاتے ہیں:

  • رسم المصحف توقیفی ہونے کی وجہ سے قرآن کو دوسرے رسم الخط میں لکھنا جائز نہیں ہے۔[30]
  • اگرچہ رسم المصحف توقیفی نہیں ہے، لیکن قرآن میں دیگر تبدیلوں کے سلسلے کو روکنے کے لیے قرآن کا رسم المُصحف باقی رہنا چاہیے۔[31]
  • رسم المُصحف کی رعایت کرنا ضروری نہیں ہے لہذا قرآن کو کسی اور رسم الخط میں بھی لکھنا ممکن ہے۔[32]
  • موجودہ دور کے لوگ رسم المُصحف سے ناواقف ہونے کی وجہ سے قرآن کو غلط پڑھتے ہیں۔ لہذا اس کی روک تھام کے لیے قرآن کو رسم المصحف کی بنیاد پر نہیں لکھا جانا چاہیے۔ تفسیر نمونہ کے مصنف ناصر مکارم شیرازی نے قرآن کے رسم المصحف کے تبدیل کرنے کو ایک ضروری امر سمجھا ہے۔

[33]

خط قرآن میں تبدیلی

پیغمبراسلامﷺ کے دوران حیات میں خط حازی(پانچویں ہجری کے خط نسخ کی مانند خط) کے ذریعے قرآن کی کتابت ہوتی تھی۔[34] سنہ 17 ہجری میں شہر کوفہ کے قیام کے بعد خط کوفی رائج ہوا۔ بعد از آں قرآن کو(بشمول اس قرآن کے جو عصر عثمان میں رائج تھا اور جہاں جہاں قرآن لکھا جاتا تھا اسے دیکھ کر لکھا جاتا تھا) خط کوفی میں لکھا جانے لگا۔[35] شروع میں جب قرآن لکھا جاتا تھا تو اس وقت کلمات قرآن پر نقطہ یا اعراب(زبر، زیر اور پیش) نہیں ہوا کرتا تھا اور یہی چیز غلطی کا سبب بنتی تھی۔[36]

قرآن کا خطی نسخہ، یہ نسخہ پہلی صدی ہجری سے متعلق ہے، تصویر میں سورہ نساء کی آیات 43 تا 56 دکھائی جاتی ہے

اَبوالاَسْوَدِ دُؤَلی (متوفیٰ: 69ھ) نے امام علیؑ کی رہنمائی میں قرآن پر حرکات (زبر، زیر اور پیش) لگانےکا سلسلہ شروع کیا، البتہ حرکت کے بجائے نقطے استعمال کیے جاتے تھے؛[37] طریقہ کار یہ تھا کہ فتحہ کی علامت کے لیے متعلقہ حرف پر ایک نقطہ، کسرہ کے اظہار کے لیے اس حرف کے نیچے ایک نقطہ، ضمہ (پیش) کے لیے اس حرف کے آگے ایک نقطہ لگایا جاتا تھا۔ ان نقاط کا رنگ اصل متن قرآن سے الگ ہوتا تھا تاکہ آپس میں مخلوط نہ ہونے پائے۔[38] ابو الاسود کے بعد ان کے شاگرد نصر بن عاصم (متوفی: 89 ہجری) نے نقطوں کے بغیر حروف کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کے لیے نقطوں کا استعمال کیا (جیسے ح، خ، اور ج، جو بغیر نقطوں ہوں تو ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں) اور اغلاط سے محفوظ رکھنے کے لیے استاد کے اختراع کردہ نقطوں کوحروف کے اسی اصلی رنگ میں لکھا جاتا تھا۔[39] کچھ عرصے کے بعد خلیل بن احمد فراہیدی (متوفی: 175ھ) نے ابوالاسود کے استعمال کردہ نقطوں کو حرکات یعنی ــَـ ــِـ ــُـ میں تبدیل کر دیا اور قرآن کی تلاوت کو آسان بنانے کے لیے تشدید اور ہمزہ وغیرہ کی علامات کا استعمال کیا۔[40]

پہلی صدی ہجری میں مسلمانوں نے قرآن کی کتابت پر خصوصی توجہ دینی شروع کردی اور کتابت کے طریقہ کار کی اصلاح کی کوشش کی۔[41] چوتھی صدی ہجری میں کتابت قرآن کے نئے طریقے ایجاد ہونا شروع ہوگیا اور اسلامی دنیا میں کتابتِ قرآن کے بیس سے زیادہ نئے اسلوب پیدا ہوگئے۔[42] ان نئے طرزوں کے تنوع نے کاتبین اور قارئین کے لیے مشکلات پیدا کیں۔[43] اسی وجہ سے ابن مقلہ (متوفی: 328ھ) نے ایجادہ شدہ اسالیب کی اصلاح کی کوشش کی[44] اور خط کی چھے قسموں (1. ثُلْث 2. مُحَقَّق 3. ریحان 4. نَسْخ 5. توقیع 6. رُقاع) کے لیے جس کے ساتھ قرآن لکھا جاتا تھا، کچھ اصول قائم کیے۔[45]

کتابتِ قرآن میں فن کی تجلیاں

اسلامی دور میں خطاطی اور خوشنویسی کے علاوہ دیگر فنون مثلاً تذہیب، صفحہ کی ترتیب اور قرآن کی طباعت وغیرہ کتابتِ قرآن کی مختلف تجلیاں ہیں۔[46] کتابت قرآن کے سلسلے میں مسلمانوں کے مابین قرآن کی خطاطی کے علاوہ ہراس چیز کا استعمال عام ہوتا تھا جس سے خطاطی کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا تھا (جیسے تذہیب و تصحیف وغیرہ)۔[47] محققین کے مطابق، چونکہ قرآن لکھنے کا فن قارئین کو وحی الہی سے روشناس کراتا ہے اور یہ چیز دینی مفاہیم پر مشتمل ہے اس لیے دیگر فنون کے مقابلے میں یہ فن بہت ہی اہمیت کا حامل قرار پایا ہے۔[48] کتابتِ قرآن ساتویں صدی ہجری (عصر ایلخانی) میں اپنے عروج پر پہنچی اوراس دور میں لکھے گئے قرآن کو خوشخطی، تذہیب اور نسخہ شناسی کے لحاظ سے بہت اہمیت حاصل ہے۔[49]

خطاطی

خط نستعلیق میں سورہ فاتحہ کی کتابت، از قلم: میرعماد حسنی قزوینی

ابن مُقلہ (متوفی: 328 ہجری) نے خط ثُلْث، خط مُحَقَّق، خط ریحان، خط نَسْخ، خط توقیع اور خط رُقاع جیسے جیسے مختلف خط ایجاد کیے۔[50] انہوں نے حروف کو ہندسی اصولوں اور ان کی شکل کو سطح کے اصول (جیسے الف اور ب) اور گول حروف (جیسے ج اور ن) کی بنیاد پر ایجاد کیا۔[51] ابن مُقلہ کے بعد پانچویں صدی ہجری میں ابن بوّاب اور پھر ساتویں صدی میں یاقوت مستعصمی نے خط نسخ کو ترقی کے عروج پر پہنچایا اور اسے کتابت قرآن کے لیے موزوں رسم الخط کے طور پر متعارف کرایا۔[52] خط نسخ والا رسم الخط خود مختلف نوعیت کا تھا جن میں سب سے اہم عربی، ترکی اور ایرانی مکاتب ہیں۔[53] تیموری دور میں خطاطی کے فن نے مزید بہت سی ترقیاں پائیں۔[54] اس دور میں خط رُقاع اور خط توقیع کے امتزاج سے خط تعلیق وجود میں آیا جبکہ خط نسخ اور خط تعلیق کی ترکیب سے خط نستعلیق بنایا گیا۔[55] ہندوستان میں مسلمان قرآن کو بہاری رسم الخط میں اور چین میں سینی رسم الخط (ایک خاص قسم کا رسم الخط) میں لکھا کرتے تھے۔[56]

خط نسخ کوایک واضح طریقہ تحریر ہونے کی وجہ سے کتابتِ قرآن میں اہم مقام حاصل ہے۔[57] مُسْتَعْصِمی کا لکھا ہوا ایک قرآن موجود ہے جسے انہوں نے سنہ 669 ھ میں خط ثلث، خط نسخ اور خط ریحان کی ترکیب سے لکھا ہے۔[58] احمد نیریزی کے رسم الخط میں لکھا گیا قرآن ایرانی رسم الخط میں لکھا گیا سب سے مشہور قرآن ہے۔[59] خط نستعلیق ادبی متون میں وسیع پیمانے پر استعمال ہوتا ہے، لیکن چونکہ اس رسم الخط میں حرکات دینا ایک مشکل کام ہے، اس لیے اس کے ساتھ مکمل قرآن کم ہی لکھتے ہیں۔[60] میر عماد حسنی قزوینی نے خط نستعلیق میں سورہ فاتحہ الکتاب لکھا جو بہت مشہور ہے۔[61] صفوی دور میں، قرآنی آیات کا فارسی ترجمہ آیات کے نیچے خط نستعلیق میں باریک خط میں لکھا گیا۔[62]

خوشنویسی وتذہیب

خوشنویسی و تذہیب قرآن، سنہ1710ء

قرآن مجید کے صفحات یا اس کے سرورق کو سونے اور دیگر رنگوں سے سجانے کو فن تذہیب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔[63] عام طور پر قرآن کے سوروں اور اجزاء کا تعین کرنے کے لیے فن تذہیب کا استعمال کیا جاتا ہے۔[64] اس فن نے خطاطی کے ساتھ ساتھ ترقی کی یہاں تک کہ قرآن کے خطاط بھی اسے بروئے کار لاتے تھے۔ [65] قرآن سے متعلق قدیم ترین نقاشی اور فن تذہیب جو آج بھی موجود ہیں، تیسری صدی ہجری اور اس کے بعد کے ہیں۔[66] اس فن سے زینت شدہ قرآن اکثراً اس وقت کے سلاطین کے حکم سے تیار کیے جاتے تھے۔[67] چھٹی صدی ہجری کے آخر اور ساتویں صدی کے آغاز میں، تبریز شہر فن تذہیب کے اہم مراکز میں شمار ہوتا تھا اور اس دور میں مکتب تبریز وجود میں تھا۔[68] تیموری دور میں فن تذہیب مزید پروان چڑھا کیونکہ اس دور کے سلاطین کو فن سے گہری دلچسپی تھی۔[69]

قرآنی کتبوں کی کندہ کاری

محراب میں خط ثلث میں تحریر شدہ آیت نور کا کتبہ، از قلم: سید محمد حسینی موحد، حرم امام رضاؑ

کتبہ سے مراد قرآن کی آیات اور سورے لکھے ہوئے مختلف شکل کی تختیاں ہیں جو مقدس مقامات جیسے مسجد کے محراب اور گنبدوں اسی طرح حرم اور مقدس مزارات کے گنبد اور ان کی دیواروں پر نصب کی جاتی ہیں۔[70] کتبوں کو مختلف رسم الخط جیسے خط کوفی، خط ثُلث، خط نَسخ، خط نستعلیق اور خط مُعَلّیٰ جیسے رسم الخط کے ساتھ لکھا جاتا ہے اور ٹائلوں، اینٹوں یا چکنی مٹی سے بنی تختیوں کی شکل میں نصب کیے جاتے ہیں۔[71] کتبہ نگاری تیموری دور میں مقبول تھی اور صفوی دور میں اپنے عروج پر پہنچی۔[72]

قرآن مجید کی جلد بندی

مسلمانوں نے قرآن کی حفاظت کے لیے جلد بندی کے فن کا استعمال کیا۔[73] قرآن مجید کی جلد بندی کا فن بھی خطاطی کی طرح قرآن کے تقدس کا حامل ٹھہرا اور کافی پروان چڑھا۔[74] پہلے دور میں قرآن مجید کی جلدیں سادہ ہوا کرتی تھیں لیکن چوتھی صدی ہجری سے جلدوں کی درمیانی حصے میں ہندسی نقشہ کاری کے ساتھ دائروں اور بیضوی شکل میں ہندسی نقشہ کاری کا کام شروع ہوا۔[75] کچھ مدت کے بعد قرآنی جلدوں کو سونے کے پانی سے سجایا گیا اور فن تذہیب کا استعمال کیا گیا[76] ایران میں تیموری دور اور مصر میں ممالیک دور میں چمڑے کی جلد بنانے کی اہمیت اجاگر ہونے لگی[77] اور جلد بندی کا فن تیموری دور میں اپنے عروج پر پہنچ گیا۔[78]

قرآن مجید کی پہلی طباعت

قرآن مجید پہلی بار سنہ 950 ہجری میں شہر بُنْدُقیّه میں زیور طبع سے آراستہ ہو؛ لیکن اہل کلیسا کے حکم سے اسے معدوم کردیا گیا۔[79] اس کے بعد، سنہ 1104 ہجری میں، ایک جرمن اسلام شناس سکالر ابراہم هینْکِلمان نے جرم نی کے شہر ہیمبرگ میں قرآن کو شائع کیا۔[80] قرآن کا پہلا اسلامی ایڈیشن سنہ 1200 ہجری میں ملا عثمان نامی شخص کے ہاتھوں روس کے شہر سینٹ پیٹرزبرگ انجام پایا۔[81] ایران پہلی اسلامی ریاست تھا جس نے قرآن کو دو مرتبہ لتھوگرافی میں تیار کیا، ایک تہران میں سنہ 1243 ہجری میں جبکہ دوسری مرتبہ شہر تبریز میں سنہ 1248 ہجری میں۔[82] ایران کے بعد ترکی کی عثمانی حکومت نے سنہ 1294 ہجری میں قرآن مجید کو مختلف نسخوں میں طبع کیا۔[83] سنہ 1342 ہجری میں حکومت مصر اور سنہ 1370 ہجری میں حکومت عراق نے بھی قرآن کے شاندار نسخے شائع کیے۔[84]

متعلقہ مضامین

فوٹو گیلری

حوالہ جات

  1. رکنی، آشنایی با علوم قرآنی، 1379شمسی، ص4۔
  2. جعفری، «مقدمه»، در رسم‌الخط مصحف، 1376شمسی، ص5۔
  3. طاهری، درس‌هایی از علوم قرآنی، 1377شمسی، ج1، ص329۔
  4. مطلب، «تأثیر کتابت در پیام‌رسانی قرآن»،‌ ص69-72۔
  5. شیرازی، و صحراگرد، «سیر تحول خطوط قرآنی در جهان اسلام»، ص55۔
  6. حاج سید جوادی، «سیر کتابت قرآن»، ص22۔
  7. معرفت، علوم قرآنی، 1381شمسی، ص170۔
  8. مظلومی، پژوهشی پیرامون آخرین کتاب الهی، 1403ھ، ج1، ص38۔
  9. صبحی صالح، مباحث فی علوم القرآن، 1372شمسی، ص69-70۔
  10. ابن‌ندیم، الفهرست، 1417ھ، ص45۔
  11. معرفت، علوم قرآنی، 1381شمسی، ص122۔
  12. معرفت، علوم قرآنی، 1381شمسی، ص122۔
  13. معرفت، علوم قرآنی، 1381شمسی، ص125۔
  14. معرفت، علوم قرآنی، 1381شمسی، ص133۔
  15. معرفت، علوم قرآنی، 1381شمسی، ص136۔
  16. معرفت، علوم قرآنی، 1381شمسی، ص137۔
  17. معرفت، علوم قرآنی، 1381شمسی، ص138۔
  18. معرفت، علوم قرآنی، 1381شمسی، ص139۔
  19. شیرازی، و صحراگرد، «سیر تحول خطوط قرآنی در جهان اسلام»، ص65۔
  20. شیرازی، و صحراگرد، «سیر تحول خطوط قرآنی در جهان اسلام»، ص64۔
  21. شیرازی، و صحراگرد، «سیر تحول خطوط قرآنی در جهان اسلام»، ص66۔
  22. سرشار، «رسم المصحف»، ص793۔
  23. سوره بقره، آیه 164۔
  24. سوره بقره، آیه 125۔
  25. ملاحظہ کیجیے: معرفت، علوم قرآنی، 1381شمسی، ص166-169۔
  26. سرشار، «رسم المصحف»، ص793۔
  27. سرشار، «رسم المصحف»، ص795۔
  28. رجبی، «رسم المصحف؛ ویژگی‌ها و دیدگاه‌ها»، ص22-31۔
  29. معارف، درآمدی بر تاریخ قرآن، 1383شمسی، ص187۔
  30. معارف، درآمدی بر تاریخ قرآن، 1383شمسی، ص187۔
  31. خمینی، تفسیر القرآن الکریم، 1418ھ، ج1، ص224۔
  32. صبحی صالح، مباحث فی علوم القرآن، 1372شمسی، ص278-279۔
  33. مکارم شیرازی، استفتائات، 1427شمسی، ج4، ص490۔
  34. حاج سید جوادی، «سیر کتابت قرآن»، ص23۔
  35. حاج سید جوادی، «سیر کتابت قرآن»، ص23۔
  36. میرمحمدی زرندی، تاریخ و علوم قرآن، 1377شمسی، ص160۔
  37. میرمحمدی زرندی، تاریخ و علوم قرآن، 1377شمسی، ص161-163۔
  38. رامیار، تاریخ قرآن، 1369شمسی، ص534۔
  39. میرمحمدی زرندی، تاریخ و علوم قرآن، 1377شمسی، ص163-165۔
  40. میرمحمدی زرندی، تاریخ و علوم قرآن، 1377شمسی، ص165۔
  41. کاظمی، «سیر تحول کتابت قرآن تا سدۀ هشتم هجری (دوره ایلخانی)»، ص50۔
  42. کاظمی، «سیر تحول کتابت قرآن تا سدۀ هشتم هجری (دوره ایلخانی)»، ص50۔
  43. کاظمی، «سیر تحول کتابت قرآن تا سدۀ هشتم هجری (دوره ایلخانی)»، ص50۔
  44. کاظمی، «سیر تحول کتابت قرآن تا سدۀ هشتم هجری (دوره ایلخانی)»، ص50۔
  45. حاج سید جوادی، «سیر کتابت قرآن»، ص23۔
  46. کاظمی، «سیر تحول کتابت قرآن تا سدۀ هشتم هجری (دوره ایلخانی)»، ص47۔
  47. کاظمی، «سیر تحول کتابت قرآن تا سدۀ هشتم هجری (دوره ایلخانی)»، ص52۔
  48. کاظمی، «سیر تحول کتابت قرآن تا سدۀ هشتم هجری (دوره ایلخانی)»، ص47۔
  49. کاظمی، «سیر تحول کتابت قرآن تا سدۀ هشتم هجری (دوره ایلخانی)»، ص57۔
  50. گروهی از نویسندگان، نامه دانشوران ناصری، دار العلم و دار الفکر، ج5، ص73-74۔
  51. کاظمی، «سیر تحول کتابت قرآن تا سدۀ هشتم هجری (دوره ایلخانی)»، ص50۔
  52. حاج سید جوادی، «سیر کتابت قرآن»، ص23۔
  53. حاج سید جوادی، «سیر کتابت قرآن»، ص24۔
  54. عباس‌ زاده، و مندالی، «نقش حاکمان تیموری در تحول خوشنویسی اسلامی»،‌ ص126۔
  55. حاج سید جوادی، «سیر کتابت قرآن»، ص23-24۔
  56. شیرازی، و صحراگرد، «سیر تحول خطوط قرآنی در جهان اسلام»، ص62-63۔
  57. شیرازی، و صحراگرد، «سیر تحول خطوط قرآنی در جهان اسلام»، ص56۔
  58. حاج سید جوادی، «سیر کتابت قرآن»، ص23۔
  59. حاج سید جوادی، «سیر کتابت قرآن»، ص24۔
  60. شیرازی، و صحراگرد، «سیر تحول خطوط قرآنی در جهان اسلام»، ص64۔
  61. حاج سید جوادی، «سیر کتابت قرآن»، ص24۔
  62. شیرازی، و صحراگرد، «سیر تحول خطوط قرآنی در جهان اسلام»، ص64۔
  63. نجارپور جباری، «مفاهیم تذهیب‌های قرآنی در عصر صفوی»، ص35۔
  64. کاظمی، «سیر تحول کتابت قرآن تا سدۀ هشتم هجری (دوره ایلخانی)»، ص52۔
  65. برزین، «نگاهی به تاریخچه تذهیب قرآن»، ص36۔
  66. برزین، «نگاهی به تاریخچه تذهیب قرآن»، ص36۔
  67. برزین، «نگاهی به تاریخچه تذهیب قرآن»، ص36۔
  68. برزین، «نگاهی به تاریخچه تذهیب قرآن»، ص37۔
  69. شایسته‌فر، «کتابت و تذهیب قرآن‌های تیموری در مجموعه‌های داخل و خارج»، ص100۔
  70. مزنگی، اسماعیل‌پور، «کتابت و کتیبه‌نگاری در خوشنویسی اسلامی»، ص12۔
  71. مزنگی، اسماعیل‌پور، «کتابت و کتیبه‌نگاری در خوشنویسی اسلامی»، ص14۔
  72. حسینی، و طاووسی، «تحول هنر کتیبه‌نگاری عصر صفوی با توجه به کتیبه‌های صفوی مجموعۀ حرم مطهر امام رضا(ع)»، ص60۔
  73. طالب‌پور، و یزدانی، «مطالعه تطبیقی جلدهای چرمی قرآن کریم در دوره تیموری با جلدهای چرمی قرآن کریم در دوره مملوکی مصر»، ص5۔
  74. هاشمی، «هنر جلدسازی»،‌ ص313۔
  75. عتیقی، «جلدسازی قرآن در ایران»، ص92۔
  76. عتیقی، «جلدسازی قرآن در ایران»، ص92۔
  77. طالب‌پور، و یزدانی، «مطالعه تطبیقی جلدهای چرمی قرآن کریم در دوره تیموری با جلدهای چرمی قرآن کریم در دوره مملوکی مصر»، ص12۔
  78. عتیقی، «جلدسازی قرآن در ایران»، ص92۔
  79. معرفت، التمهید، 1415ھ، ج1، ص405۔
  80. معرفت، التمهید، 1415ھ، ج1، ص405۔
  81. معرفت، التمهید، 1415ھ، ج1، ص405۔
  82. معرفت، التمهید، 1415ھ، ج1، ص406۔
  83. معرفت، التمهید، 1415ھ، ج1، ص406۔
  84. معرفت، التمهید، 1415ھ، ج1، ص406۔

مآخذ

قرآن کریم