غالی

ویکی شیعہ سے
(غلات سے رجوع مکرر)

غالی یا غُلات ان افراد کو کہا جاتا ہے جو امام علیؑ اور آپؑ کی اولاد کی نسبت ربوبیت یا نبوت کا دعوا کرتے ہیں اور ان کی توصیف اور مدحت میں افراط سے کام لیتے ہیں۔ فرق و مذاہب کے منابع میں غالی فرقوں کی تعداد کے بارے میں اختلاف‌ پایا جاتا ہے، ان کی تعداد کم سے کم 9 اور زیادہ سے زیادہ 100 ذکر کی گئی ہے۔ علوم مذاہب سے مربوط منابع میں شیعوں منسوب غالیوں کے بعض مشہور فرقوں میں سبائیہ (عبد اللہ بن سبا کے پیروکار)، کیسانیہ، بیانیہ، خطابیہ، بشیریہ اور مُفَوِّضہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ شیعہ ائمہ کے لئے ربوبیت اور نبوت اور ان فرقوں کے بانیوں کے لئے امامت یا نبوت کا دعوا ان فرقوں کا مشترکہ خاصہ ہے۔

غیبت صغری کے دوران ائمہ معصومینؑ کے بعض اصحاب نے امام زمانہؑ کی نیابت کے ادعا کے ساتھ ساتھ کچھ غلو آمیز عقائد کے ذریعے اپنے لئے پیروکار جمع کئے ہیں۔ موّرخین کے مطابق اس سلسلے میں امام حسن عسکریؑ کے اصحاب میں سے حسن شریعی، محمد بن علی شَلمَغانی، احمد بن ہلال عَبَرتایی اور محمد بن نصیر نُمَیری جیسے افراد کا نام لیا جا سکتا ہے۔

محققین کے مطابق شیعوں کے غالی فرقے ائمہ معصومینؑ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے کے ذریعے سادہ لوح شیعوں کو اپنی طرف راغب کر کے ان کی صفوں میں اختلاف اور تفرقہ پیدا کرتے تھے جو شیعوں کی طاقت کے ضائع ہونے اور شیعہ مذہب کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا موجب بنا ہے۔

اجمالی تعارف اور اہمیت

غالی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو امام علیؑ اور آپ کی اولاد میں سے شیعہ ائمہ معصومینؑ کی طرف ربوبیت یا نبوت کی نسبت دے اور ان کی توصیف اور فضلیت میں حد اعتدال سے ہٹ کر افراط کا شکار ہو جائے۔[1]

فرقہ‌ شناسی سے مربوط کتابوں میں غلو کی پیدائش اور غالیوں کے اعتقادات کے بارے میں بحث کی گئی ہے۔[2] شیعہ حدیثی منابع میں شیعہ ائمہؑ نے بعض غالیوں کا نام لے کر ان پر لعنت کی ہے اور ان کی ملامت کی ہے۔[3] کہتے ہیں غالیوں کے بعض عقائد ائمہ معصومینؑ کے فضائل اور بعض عقائد ائمہ کی ذات سے مربوط ہیں کہ غالی ان ہستیوں کو ربوبیت کی حد تک لے جاتے ہیں۔ اسی لئے علم کلام میں غالیوں کے اعتقادات سے بھی بحث کی جاتی ہے۔[4] علم رجال میں علمائے رجال نے بعض راویوں کی طرف غلو کی نسبت دی ہے۔[5] ان کے نزدیک کسی حدیث کے راوی کا غالی‌ ہونا اس حدیث کے ضعیف ہونے اور اس راوی کے ثقہ نہ ہونے کی علامت ہے۔[6] علم فقہ میں بھی غالیوں سے مربوط احکام بیان ہوئے ہیں۔[7]

غلو

تفصیلی مضمون: غلو

غلو ایک کلامی اصطلاح ہے جس کے معنی ہیں دینی عقائد کی متعین حدود سے ہٹ کر افراطی نظریے کا اظہار کرنا۔[8] غلو کے بعض مصادیق میں: انبیاء یا ائمہ معصومینؑ میں سے کسی کو خدا ماننا، کائنات کی تدبیر میں ان کو خدا کا شریک قرار دینا، کسی کو فرزند خدا قرار دینا،[9] ائمہ معصومین میں سے کسی کو نبوت میں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ شریک ماننا، امام علیؑ یا شیعہ ائمہؑ میں سے کسی کی نبوت کا قائل ہونا اور مہدی موعود کے علاوہ کسی کی مہدویت کا قائل ہونا شامل ہیں۔[10] تمام شیعہ فقہاء کا اجماع ہے کہ امام علیؑ یا دوسرے کسی بھی ائمہؑ کے بارے میں ربوبیت کا قائل ہونا کفر ہے اور ایسا عقیدہ رکھنے والا کافر شمار ہوگا۔[11] بعض فقہاء کے مطابق اگر غلو کا نظریہ ضروریات دین میں سے کسی کے انکار تک منتہی ہو تو یہ بھی کفر کا باعث ہے۔[12]

غالیوں کے فرقے

فرقہ‌ شناسی سے مربوط کتابوں میں غالیوں کے فرقوں کی تعداد کے بارے میں اختلاف‌ نظر پایا جاتا ہے۔[13] تاریخ کے محقق نعمت‌ اللہ صفری فروشانی فرقہ شناسی سے مربوط بعض کتابوں میں انجام دی گئی تحقیق کے مطابق کہتے ہیں کہ غالیوں کے فرقوں کی کم سے کم تعداد 9 اور زیادہ سے زیادہ تعداد 100 تک بتائی گئی ہے۔[14] غالیوں کے بعض مشہور فرقے درج ذیل ہیں:

سبائیہ (سبئیہ)

تفصیلی مضمون: عبد اللہ بن سبا

سبائیہ عبد اللہ بن سبأ کے پیروکاروں کو کہتے ہیں۔[15] فرقہ‌ شناسی سے مربوط منابع کے مصنفین سبائیہ کو شیعوں سے منسوب غالیوں کا پہلا فرقہ شمار کرتے ہیں۔[16] تیسری اور چھوتی صدی ہجری کے متکلم ابوالحسن اشعری "مقالات‌ الاسلامیّین" میں لکھتے ہیں کہ سبائیہ کا عقیدہ ہے کہ امام علیؑ وفات نہیں پائے اور قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میں واپس آئیں گے اور ظلم و جور سے بھری زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینگے۔[17] رجال کَشّی میں امام صادقؑ سے مروی حدیث میں یوں نقل ہوا ہے کہ سبائیہ فرقے کا بانی عبد اللہ بن سبأ خود کو نبی اور امام علیؑ کو خدا مانتا تھا۔[18]

کیسانیہ

کیسانیہ شیعوں کا ایک ایسا گروہ ہے جو محمد بن حنفیہ کی امامت کے معتقد تھے۔[19] شہرستانی کتاب المِلل و النَّحل میں لکھتے ہیں کہ محمد بن حنفیہ کے بعد ان کے پیروکاروں میں اختلاف پیدا ہوا۔[20] ان میں سے بعض اس بات کے قائل تھے کہ محمد بن حنفیہ وفات نہیں پائے بلکہ دوبارہ واپس آکر زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینگے۔[21] جبکہ ان میں سے بعض دوسرے گروہ کہتے تھے کہ محمد بن حنفیہ وفات پائے ہیں اور ان کے بعد امامت ان کے بیٹے ابو ہاشم کی طرف منتقل ہوئی ہے۔[22] کتاب «فرہنگ فِرَق اسلامی» کے مصنف، مورخ اور تہران یونیورسٹی کے استاد محمد جواد مشکور (متوفی: 1374ہجری شمسی) کے مطابق فرقہ کیسانیہ محمد بن حنفیہ کے بعد بارہ گروہوں میں تقسیم ہو گئے[23] البتہ محمد بن حنفیہ کی امامت ان سب کا مشترکہ عقیدہ شمار ہوتی ہے۔[24] کیسانیہ کے بعض فرقے یہ ہیں: ہاشمیہ،[25] کربیہ،[26] حمزیہ،[27] بیانیہ،[28] اور حربیہ۔[29]

خَطّابیہ

فرقہ خطابیہ اَبو الْخَطّاب مُحمّد بن اَبی‌زینب کے پیروکار تھے۔[30] شہرستانی کے مطابق ابو الخطاب ائمہ معصومینؑ کو شروع میں پیغمبر پھر اس کے بعد ان ہستیوں کو خدا مانتا تھا اور امام صادقؑ اور آپ کے آباء و اجداد کی الوہیت اور ربوبیت کا قائل تھا، وہ کہتا تھا امام صادقؑ اپنے زمانے کا خدا ہے اور امام در حقیقت وہ نہیں ہے جسے یہ حس کرتا ہے اور ان سے یہ احادیث نقل کرتا ہے بلکہ امام چونکہ عالم بالا سے تشریف لائے ہیں اس لئے انسان کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔[31] رجال کشی میں بعض احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں امام صادقؑ نے ابو الخطاب کی تکذیب کرتے ہوئے ان کو جھوٹا قرار دیا ہے اور ان سے بےزاری کا اظہار کرتے ہوئے ان پر لعنت کی ہے۔[32] خطابیہ خود چند گروہوں میں تقسیم ہوا جن میں سے بعض یہ ہیں: مُخَمَّسہ،[33] بَزیعیہ،[34] عمیریہ،[35] اور مُعَمَّریہ۔[36]

مغیریہ

فرقہ مغیریہ مُغیرۃ بن سعید عِجلی کے پیروکار تھے۔[37] کتاب فِرَقُ الشِّیعَہ میں نوبختی کے مطابق مغیرۃ بن سعید کے ماننے والے اسے امام سمجھتے تھے اور اس بات کے معتقد تھے کہ امام حسینؑ، امام سجادؑ اور امام باقرؑ نے ان کے بارے میں وصیت کر تے ہوئے ان کو اپنا جانشین مقرر کیا ہے۔[38] اسی طرح وہ امام صادقؑ کی امامت کے منکر تھے اور اس بات کے معتقد تھے کہ امام باقرؑ کے بعد امام علیؑ کی نسل اور خاندان سے کوئی امام نہیں آئے ہیں اور امام مہدی کے ظہور تک مغیرۃ بن سعید ہی امام ہونگے۔[39]

اسی طرح مغیریہ کا عقیدہ تھا کہ محمد بن عبد اللہ بن حسن جو کہ نفس ذکیہ کے نام سے معروف تھے، مہدی موعود ہیں اور جب وہ انتقال کر گیا تو انہوں نے کہا کہ ان کا انتقال نہیں ہوا بلکہ وہ مکہ میں «عَلَمیہ» نامی ایک پہاڑ پر زندگی گزار رہے ہیں یہاں تک کہ ان کے ظہور کا وقت آجائے۔[40] امام صادقؑ اور امام رضاؑ سے نقل ہونے والی احادیث میں ان پر امام باقرؑ کی طرف جھوٹ کی نسبت دینے کے سبب لعنت کی گئی ہیں۔[41]

منصوریہ

فرقہ منصوریہ ابو منصور عِجلی کے پیروکار تھے۔[42] شہرستانی کے مطابق ابو منصور عجلی نے شروع میں اپنے آپ کو امام باقرؑ کے نزدیک کیا؛ لیکن جب ان کے باطل عقائد کی وجہ سے امام باقرؑ نے ان سے بےزاری کا اظہار کیا تو امامت کا دعوا کرتے ہوئے لوگوں کو اپنی طرف دعوت دینے لگا۔[43] نوبختی کے مطابق ابو منصور دعوا کرتا تھا کہ خدا نے ان کو آسمان پر لے جا کر ان سے گفتگو کی ہے، خدا نے اپنے ہاتھوں سے ان کی نوازش کی اور سریانی زبان میں اسے اپنا بیٹا کہا۔[44] نوبختی کہتے ہیں کہ ابو منصور نے امام باقرؑ کی وفات کے بعد یہ دعوا کیا کہ امام باقرؑ نے ان کو اپنا جانشین مقرر کیا ہے۔[45] اسی طرح کہتے ہیں کہ وہ شیعوں کے پہلے پانچ ائمہ کو نبی مانتا تھا اور وہ خود اور ان کی نسل سے چھ پشت قائم کے ظہور تک پیغمبر ہیں۔[46] رجال کشی میں منقول ایک حدیث میں امام صادقؑ نے ابو منصور پر لعنت بھیجتے ہوئے ان کو شیطان کا نمائنده قرار دئے ہے۔[47]

بشیریہ

فرقہ بشیریہ محمد بن بشیر کوفی کے پیروکار تھے۔[48]ان کا عقیدہ تھا کہ امام موسی کاظمؑ نہ زندان میں قیدی تھے اور نہ ان کی وفات ہوئی ہے؛ بلکہ آپ مہدی قائم ہیں جو کہ غایب ہیں اور اپنی غیبت کے دوران آپ نے محمد بن بشیر (اس فرقہ کے بانی) کو اپنا وصی اور جانشین مقرر فرمایا ہے اور اپنی انگوٹھی، علم اور ہر وہ چیز جو دنیوی اور اخروی لحاظ سے لوگوں کی ضرورت ہے، ان کو بخش دی ہے۔[49] اسی طرح ان کا عقیدہ تھا کہ محمد بن بشیر کے بعد ان کا بیٹا سمیع ان کا وصی اور امام ہے اور جس کے بارے میں سمیع بن محمد اپنے بعد وصیت کرے وہ مفترض الطاعۃ امام ہوگا یہاں تک کہ امام موسی کاظم ظہور کرے۔[50] امام موسی کاظمؑ سے منقول ایک حدیث میں آپ نے تین مرتبہ محمد بن بشیر پر لعنت بھیجی ہے۔[51]

سرّیہ

فرقہ سرّیہ «سرّی اقصم» نامی شخص کے پیروکار تھے۔[52] ان کا عقیدہ تھا کہ سرّی پیغمبر تھا جسے امام صادقؑ نے بھیجے ہیں اور حضرت موسی کی طرح طاقتور اور امین ہے اور وہی روح ان میں بھی ہے۔[53] اسی طرح ان کا عقیدہ تھا کہ امام صادقؑ ہی اسلام ہیں اور اسلام سلام ہے اور وہ خدا ہیں اور ہم اسلام کے فرزند ہیں۔[54]سرّی کے پیروکار لوگوں کو سری کی نبوت کی طرفت دعوت دیتے تھے اور امام صادقؑ کے لئے نماز پڑھتے تھے۔ حج اور روزہ بھی امام صادقؑ کے لئے رکھتے تھے۔[55] امام صادقؑ نے ایک حدیث میں سرّی کو کذّاب قرار دیتے ہوئے ان پر لعنت بھیجی ہے۔[56]

عقیدے کے نام سے معروف فرقے

کتب ملل و نحل میں غالیوں کے بعض فرقے ان کے عقیدوں کے نام سے معروف ہوئے ہیں۔[57] ان میں سے بعض فرقے درج ذیل ہیں:

  • اِثنَینیہ: غالیوں کا ایک گروہ جو پیغمبر اکرمؐ اور امام علیؑ دونوں کو خدا مانتا تھا۔[58] ان میں سے بعض پیغمبر اکرمؐ کی ربوبیت اور الوہیت کو مقدم قرار دیتے تھے وہ «میمیہ» جبکہ ان میں سے بعض امام علی کی ربوبیت کو مقدم سمجھتے تھے وہ «عینیہ» کے نام سے معروف ہوئے۔[59]
  • ازدریہ: یہ گروہ امام علیؑ کی الوہیت کے قائل تھے اور کہتے تھے وہ علی جو حَسنَینؑ کے والد ہیں اور اس دنیا میں زندگی گزارتے ہیں وہ «علی ازدری» نامی ایک شخص ہے اور وہ علی جو امام ہیں وہ چونکہ صانع ہے اس کا کوئی بیٹا نہیں ہے۔[60]
  • مفوضہ: شیعوں کا ایک گروہ جو تفویض کے قائل‌ تھے۔[61] تفویض کے ایک معنی یہ ہیں کہ خدا نے پیغمبر اکرمؐ اور امام علیؑ کو خلق کرنے کے بعد کائنات کے امور مثلا خلق کرنا، موت اور زندگی دینا، بندوں کو رزق و روزی دینا وغیره ان دو ہستیوں کے حوالے کیے ہیں۔[62]
  • ذبابیہ، غرامیہ اور ذمامیہ: غالیوں کا ایک گروہ جو سب کے سب اس عقیدے میں مشترک‌ تھے کہ نبوت امام علیؑ کا حق ہے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ جبرئیل نے امام علیؑ اور پیغمبر اکرمؐ میں شباہت کی وجہ سے نزول وحی کے دوران غلطی سے وحی پیغمبر اکرمؐ پر اتاری ہے۔[63] سید محسن امین شیعوں کی طرف ان فرقوں کی نسبت کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مدعی ہیں کہ ایسے فرقوں کا نام شیعوں کے ان آثار میں کہیں بھی نہیں ملتا جنہیں فرقہ‌ شناسی کی خاطر لکھی گئی ہیں۔[64] وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ ان فرقوں کا نام شیعوں کو بدنام کرنے اور ان سے لوگوں کو متنفر کرنے کے لئے جعل کئے گئے ہیں۔[65]
  • شریکیہ: ایک گروہ جو اس بات کے معتقد تھے کہ جس طرح حضرت ہارون نبوت میں حضرت موسی کے ساتھ شریک تھے اسی طرح امام علیؑ بھی نبوت میں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ شریک تھے۔[66]

غیبت صغری میں جھوٹے نائبین امام زمانہؑ

کہا جاتا ہے کہ غیبت صغری کے دوران بعض معروف شیعہ شخصیات بھی غلو میں گرفتار ہوئے اور اپنے اور امام زمانہؑ کے بارے میں بعض غلط اور بے بنیاد دعوے کرتے ہوئے خو کو امام مہدیؑ کا نائب خاص قرار دئے ہیں۔[67] ان کے پیروکار بھی تھے جو ان کے باتوں کی وجہ سے ان کی پیروی کرنے لگے تھے۔[68] ذیل میں ان میں سے بعض کا تذکرہ کیا جاتا ہے:

  • شریعیہ: امام ہادیؑ اور امام حسن عسکریؑ کے اصحاب میں سے حسن شریعی کے پیروکار تھے۔[69] امام حسن عسکریؑ کی وفات کے بعد وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے غیبت صغری میں جھوٹا دعوا کرتے ہوئے اپنے آپ کو امام مہدیؑ کا نائب قرار دیا تھا۔[70] اس کے بعدامام مہدیؑ کی طرف سے ایک توقیع صادر ہوئی[71] جس کے بعد شیعوں نے ان سے بےزاری اختیا رکی اور ان پر لعنت بھیجتے تھے۔[72]
  • نمیریہ: محمد بن نصیر نُمَیری کے پیروکارو کو کہا جاتا ہے۔[73] شیخ طوسی کتاب الغیبہ کہتے ہیں کہ نمیری امام حسن عسکریؑ کے اصحاب میں سے تھا، امام کی شہادت کے بعد امام زمانہ کے وکیل اور نائب ہونے کا دعوا کیا۔[74] سعد بن عبداللہ اشعری کتاب المقالات و الفِرَق میں کہتے ہیں کہ محمد بن نصیر امام ہادیؑ کو خدا اور خود کو نبی و خدا کا بھیجا ہوا مانتا تھا۔[75] اسی طرح کہا جاتا ہے کہ وہ لواط اور دوسرے محرمات کو جائز سمجھتا تھا۔[76]
  • شلمغانیہ: محمد بن علی شَلمَغانی کے پیروکاروں کو کہا جاتا ہے، شلمغانی امام حسن عسکریؑ کے اصحاب میں سے تھا۔[77] کہا جاتا ہے کہ وہ شروع میں شیعہ فقہاء میں سے تھا اور امام حسن عسکریؑ کی شہادت کے بعد امام زمانہؑ کے نائب خاص بننے کی خواہش اور امید رکھتا تھا لیکن اس منصب پر حسین بن روح نوبختی فائز ہوئے۔ اسی بنا پر اس نے حسین بن روح کے خلاف سازش کی اور حسین بن روح اور دیگر نائبین امام زمانہ کی طرف جعلی باتوں کی نسبت دینا شروع کیا۔[78] حلول اور تناسخ کے عقیدے کی نسبت شلمغانی کی طرف دی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ کہ وہ اس بات کا عقیدہ رکھتا تھا کہ خدا کی روح حضرت آدم میں حلول کر گئی ہے پھر ان کے بعد دوسرے انبیاء میں حلول ہوئی ہے اور یہاں تک کہ امام حسن عسکری تک پہنچی ہے اور امام حسن عسکریؑ کے بعد خود شلمغانی کے بدن میں حلول کر گئی ہے۔[79] امام مہدیؑ سے نقل ہونے والی ایک توقیع میں آپؑ نے شلمغانی پر لعنت بھیجی ہیں اور ان سے بیزاری اختیار کرتے ہوئے اس کے مرتد ہونے کا حکم صادر کئے ہیں۔[80]
  • ہلالیہ: احمد بن ہلال عَبَرتایی کے پیروکاروں کو کہا جاتا ہے،[81] جو کہ امام ہادیؑ اور امام حسن عسکریؑ کے اصحاب میں سے تھا۔[82] شیخ طوسی کتاب الغیبہ میں لکھتے ہیں کہ احمد بن ہلال نے امام حسن عسکریؑ کی شہادت کے بعد محمد بن عثمان کی وکالت اور نیابت کا انکار کیا جس کے کچھ عرصے بعد امام زمانہؑ کی طرف سے ایک توقیع میں ان پر لعنت بھیجی گئی ہیں۔[83]
  • بلالیہ: محمد بن علی بن بلال سے منسوب ایک گروہ۔[84] کہ جاتا ہے کہ بلال شروع میں امام حسن عسکریؑ کے اصحاب[85] اور امام عصرؑ کے وکلاء میں سے تھا اور امام کے نام پر وجوہات بھی جمع کرتا تھا؛[86] لیکن جب محمد بن عثمان امام کی طرف سے نائب کے طور پر منتخب ہوئے اور ان سے ان کے پاس جمع شدہ اموال کا مطالبہ کیا گیا تو انہوں نے محمد بن عثمان کی نیابت کا انکار کرتے ہوئے ان اموال کو دینے سے انکار کیا اور امام زمانہؑ کا نائب خاص ہونے کا دعوا کیا۔[87]

شیعوں پر غالیوں کا اثر

محققین کے مطابق ائمہ معصومینؑ اور شیعہ علماء نے ہمیشہ غالیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کی نابودی اور شیعوں کو غالیوں کے ساتھ معاشرت سے ممانعت کی ہے تاکہ غالیوں کے غلط افکار کو شیعوں میں سرایت کرنے سے روکا جا سکے؛ لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود شیعہ غالیوں کے غلط افکار کے اثرات سے محفوظ نہیں رہا۔[88] غالی شیعہ ائمہؑ کی طرف جھوٹی نسبت دیتے ہوئے اپنے باطل اور انحرافی عقائد کو ائمہ معصومینؑ کی طرف نسبت دیتے تھے جو ائمہ معصومینؑ کو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ سادہ لوح لوگوں کے دلوں میں ائمہ کے خلاف دشمنی اور کدورت پیدا کرتے اور شیعوں کو دوسرے اسلامی مذاہب سے دور کرنے کا موجب بنا۔[89] اسی طرح غالی اپنے جھوٹے اور باطل عقائد کو ائمہ کے بعض خاص اصحاب کی طرف نسبت دینے کے ذریعے بھی شیعہ ائمہ کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے تھے۔[90]

اسی طرح شیعہ تحریکوں کو بھی بدنام کرنے میں غالیوں کا بڑا کردار رہا ہے۔[91] تاریخ کے محقق نعمت‌ اللہ صفری فروشانی کے مطابق اگرچہ شیعہ تحریکوں کو بدنام کرنے میں غالیوں کا براہ راست کوئی کردار نہیں تھا لیکن؛ شیعوں کے دشمن ان تحریکوں کو بدنام کرنے کے لئے ان کے رہنماؤں کی طرف غلو کی نسبت دیتے تھے اور ان کے نام سے جھوٹے فرقے ایجاد کرتے تھے۔[92] بعض غالی بھی اپنے آپ کو ان تحریکوں کے رہنماؤں کے ساتھ نسبت دینے کے ذریعے ان تحریکوں کو منحرف کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ مثلا غالیوں کے فرقہ مغیریہ نے نفس ذکیہ کی حمایت کے بہانے اپنے مخالفین کو قتل کیا، لیکن منصور عباسی ان تمام جرائم کی نسبت نفس ذکیہ کی طرف دے کر ان کو بدنام کرتا تھا۔[93] بہر حال غالیوں کے غلط افکار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن عام لوگوں کو شیعوں کے خلاف اکساتے اور شیعوں کو بدنام کرتے تھے یہاں تک کہ وہابی اور بعض مستشرقین ایسے غالیوں کے اعتقادات کو بھی شیعوں کی طرف نسبت دیتے تھے جن سے شیعہ ائمہ اور علماء نے بےزاری اختیار کرتے ہوئے ان کے اعتقادات کو باطل قرار دیا ہے۔[94]

صفری فروشانی کے مطابق غالی شیعہ ائمہؑ کے اذہان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے ذریعے سادہ لوح شیعوں کو اپنی طرف مائل کرنے اور شیعوں کی صفوں میں انتشار اور تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے جو شیعوں کی طاقت کے منتشر ہونے اور دشمن کی طرف سے ناقابل تلافی نقصان اٹھانے کا موجب بنا۔[95]

حوالہ جات

  1. شیخ مفید، تصحیح الاعتقادات، 1414ھ، ص131۔
  2. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: شہرستانی، الملل و النحل، 1364ہجری شمسی، ج1، ص203 و 220۔
  3. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، 1409ھ، ج1، ص304۔
  4. صفری فروشانی، «جریان‌شناسی غلو»، ص114۔
  5. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: نجاشی، رجال النجاشی، 1407ھ، ص156؛ خویی، معجم رجال الحدیث، 1409ھ، ج20، ص149-150۔
  6. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: نجاشی، رجال النجاشی، 1407ھ، ص156؛ خویی، معجم رجال الحدیث، 1409ھ، ج20، ص149-150۔
  7. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج4، ص80 و ج30، ص102۔
  8. ابن‌عاشور، التحریر و التنویر، 1420ھ، ج4، ص330۔
  9. علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج25، ص346؛ صدر، بحوث فی شرح العروۃ الوثقی، 1408ھ، ج3، ص306۔
  10. علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج25، ص346؛ مقریزی، المواعظ و الاعتبار، 1418ھ، ج4، ص184۔
  11. حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، 1391ھ، ج1، ص386۔
  12. شیخ انصاری، کتاب الطہارۃ، 1415ھ، ج5، ص150؛ حکیم، مستمسک فی شرح العروۃ الوثقی، 1391ھ، ج1، ص386۔
  13. صفری فروشانی، غالیان (چاوشی در جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص61۔
  14. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: صفری فروشانی، غالیان (چاوشی در جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص61-62۔
  15. اشعری، مقالات الاسلامیین، 1400ھ، ص15؛ شہرستانی، الملل و النحل، 1364ہجری شمسی، ج1، ص204۔
  16. نوبختی، فرق الشیعہ، انتشارات دار الاضواء، ص22؛ اشعری، المقالات و الفرھ، 1360ہجری شمسی، ص20۔
  17. اشعری، مقالات الاسلامیین، 1400ھ، ص15۔
  18. شیخ طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، 1409ھ، ج1، ص107۔
  19. نوبختی، فرق الشیعہ، انتشارات دار الاضواء، ص23۔
  20. شہرستانی، الملل و النحل، 1364ہجری شمسی، ج1، ص37۔
  21. شہرستانی، الملل و النحل، 1364ہجری شمسی، ج1، ص37۔
  22. شہرستانی، الملل و النحل، 1364ہجری شمسی، ج1، ص37۔
  23. مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، 1375ہجری شمسی، ص375۔
  24. بغدادی، الفرق بین الفرھ، 1977م، ص27۔
  25. نوبختی، فرق الشیعہ، انتشارات دار الاضواء، ص30-31؛ اشعری، مقالات الاسلامیین، 1400ھ، ص20۔
  26. خوارزمی، مفاتیح العلوم، دار المتاب العربی، ص49؛ نوبختی، فرق الشیعہ، انتشارات دار الاضواء، ص27۔
  27. اشعری قمی، المقالات و الفرھ، 1361ہجری شمسی، ص56۔
  28. نوبختی، فرق الشیعہ، انتشارات دار الاضواء، ص34؛ بغدادی، الفرق بین الفرھ، 1977م، ص28؛ مقریزی، المواعظ و الاعتبار، 1418ھ، ج4، ص182۔
  29. اشعری، المقالات و الفرھ، 1361ہجری شمسی، ص28؛ اشعری، مقالات الاسلامیین، 1400ھ، ص22۔
  30. نوبختی، فرق الشیعہ، انتشارات دار الاضواء، ص69؛ شہرستانی، الملل و النحل، 1364ہجری شمسی، ج1، ص210۔
  31. شہرستانی، الملل و النحل، 1364ہجری شمسی، ج1، ص210۔
  32. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، 1409ھ، ج2، ص275۔
  33. اشعری، المقالات و الفرھ، 1361ہجری شمسی، ص56۔
  34. صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص107۔
  35. اشعری، مقالات الاسلامیین، 1400ھ، ص12۔
  36. اشعری، مقالات الاسلامیین، 1400ھ، ص11۔
  37. نوبختی، فرق الشیعہ، انتشارات دار الاضواء، ص63؛ شہرستانی، الملل و النحل، 1364ہجری شمسی، ج1، ص207۔
  38. نوبختی، فرق الشیعۃ، انتشارات دار الاضواء، ص63۔
  39. نوبختی، فرق الشیعۃ، انتشارات دار الاضواء، ص63۔
  40. نوبختی، فرق الشیعہ، انتشارات دار الاضواء، ص62-63؛ سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج7، ص15۔
  41. شیخ طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، 1409ھ، ج1، ص223۔
  42. شہرستانی، الملل و النحل، 1364ہجری شمسی، ج1، ص209؛ اشعری، المقالات و الفرھ، 1361ہجری شمسی، ص187۔
  43. شہرستانی، الملل و النحل، 1364ہجری شمسی، ج1، ص209۔
  44. نوبختی، فرق الشیعۃ، انتشارات دار الاضواء، ص38۔
  45. نوبختی، فرق الشیعۃ، انتشارات دار الاضواء، ص38۔
  46. نوبختی، فرق الشیعۃ، انتشارات دار الاضواء، ص38۔
  47. شیخ طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، 1409ھ، ج2، ص30۔
  48. نوبختی، فرق الشیعہ، انتشارات دار الاضواء، ص83؛ اشعری، المقالات و الفرق، 1361ہجری شمسی، ص191۔
  49. نوبختی، فرق الشیعہ، انتشارات دار الاضواء، ص83؛ اشعری، المقالات و الفرق، 1361ہجری شمسی، ص191۔
  50. نوبختی، فرق الشیعہ، انتشارات دار الاضواء، ص83؛ شیخ طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، 1409ھ، ج1، ص478۔
  51. شیخ طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، 1409ھ، ج1، ص482-483۔
  52. نوبختی، فرق الشیعہ، انتشارات دار الاضواء، ص43؛ مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، 1375ہجری شمسی، ص228۔
  53. نوبختی، فرق الشیعہ، انتشارات دار الاضواء، ص43-44؛ مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، 1375ہجری شمسی، ص228-229۔
  54. نوبختی، فرق الشیعہ، انتشارات دار الاضواء، ص43-44؛ مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، 1375ہجری شمسی، ص228-229۔
  55. نوبختی، فرق الشیعہ، انتشارات دار الاضواء، ص43-44؛ مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، 1375ہجری شمسی، ص228-229۔
  56. شیخ طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، 1409ھ، ج2، ص127۔
  57. صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص142۔
  58. صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص143۔
  59. صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص143۔
  60. ابوالمعالی، بیان الادیان، 1376ہجری شمسی، ص52۔
  61. بشبیشی، الفرق الاسلامیۃ، ص29۔
  62. شیخ صدوق، الاعتقادات، 1414ھ، ص100-101۔
  63. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: طعیمۃ، الغلو و الفرق الغالیہ بین الاسلامیین، 2009م، ص241؛ صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص145-148۔
  64. امین، اعیان الشیعہ، دار التعارف للمطبوعات، ج1، ص23۔
  65. امین، اعیان الشیعہ، دار التعارف للمطبوعات، ج1، ص23۔
  66. مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، 1375ہجری شمسی، ص255۔
  67. صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص131-132۔
  68. صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص132۔
  69. مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، 1375ہجری شمسی، ص255۔
  70. مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، 1375ہجری شمسی، ص255؛ صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص131-132۔
  71. طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج2، ص474-475۔
  72. صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص133۔
  73. صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص133۔
  74. شیخ طوسی، الغیبۃ، 1411ھ، ص398۔
  75. اشعری، المقالات و الفرھ، 1361ہجری شمسی، ص100۔
  76. اشعری، المقالات و الفرھ، 1361ہجری شمسی، ص100۔
  77. صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص136۔
  78. صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص136۔
  79. صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص136۔
  80. شیخ طوسی، الغیبۃ، 1411ھ، ص410-411۔
  81. مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، 1375ہجری شمسی، ص467۔
  82. شیخ طوسی، رجال الطوسی، 1373ہجری شمسی، ص410 و 428۔
  83. شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص399۔
  84. صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص138۔
  85. خویی، معجم رجال الحدیث، 1409ھ، ج17، ص335۔
  86. صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص138۔
  87. شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص400۔
  88. صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص309۔
  89. رضازادہ عسگری، «نقش غلات در تخریب چہرہ شیعہ»، ص169۔
  90. صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص313-315۔
  91. صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص315۔
  92. صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص315۔
  93. صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص315-316۔
  94. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: قمیصی، الصراع بین الاسلام و الوثنیۃ، 1402ھ، ج1، مقدمہ، ص «ح»؛ صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص323-325۔
  95. صفری فروشانی، غالیان (جریان‌ہا و برآیندہا)، 1378ہجری شمسی، ص325-326۔

مآخذ

  • ابوالمعالی، محمد بن عبیداللہ، بیان الادیان، تہران، انتشارات روزنہ، 1376ہجری شمسی۔
  • ابن‌عاشور، محمدطاہر، تفسیر التحریر و التنویر، بیروت، مؤسسۃ التاریخ العربی، 1420ھ۔
  • اشعری قمی، سعد بن عبداللہ، المقالات و الفرق، تحقیق محمدجواد مشکور، تہران، شرکت انتشارات علمی و فرہنگی، 1360ہجری شمسی۔
  • اشعری، ابوالحسن، مقالات الاسلامیین و اختلاف المصلین، آلمان، فرانتس شتاینر، 1400ھ۔
  • امین، سیدمحسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، بی‌تا۔
  • بشبیشی، محمود، الفرق الاسلامیۃ، قاہرہ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، 1423ھ۔
  • بغدادی، عبدالقادر بن طاہر، الفرق بین الفرھ، مصر، مکتبۃ و مطبعۃ محمدعلی صبیح و اولادہ، 1977ء۔
  • حکیم، سیدمحسن، مستمسک العروۃ الوثقی، قم، دار التفسیر، 1391ھ۔
  • خوارزمی، محمد بن احمد، مفاتیح العلوم، بیروت، دار المتاب العربی، بی‌تا۔
  • خویی، سیدابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، قم، دفتر آیت‌اللہ العظمی الخوئی، 1409ھ۔
  • رضازادہ عسگری، زہرا، «نقش غلات در تخریب چہرہ شیعہ»، تاریخ فرہنگ و تمدن اسلامی، شمارہ 1، زمستان 1389ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، بحوث فی الملل و النحل، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، بی‌تا۔
  • شہرستانی، محمد بن عبدالکریم، الملل و النحل، قم، الشریف الرضی، چاپ سوم، 1364ہجری شمسی۔
  • شیخ انصاری، مرتضی، کتاب الطہارۃ، قم، کنگرہ جہانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری، 1415ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الاعتقادات، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1414ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال، مشہد، مؤسسہ نشر دانشگاہ مشہد، چاپ اول، 1409ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، کتاب الغیبۃ، تصحیح عباداللہ تہرانی و علی‌احمد ناصح، قم، دار المعارف الإسلامیۃ، 1411ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، چاپ سوم، 1373ہجری شمسی۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، تصحیح الاعتقادات، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ دوم، 1414ھ۔
  • صدر، سید محمدباقر، بحوث فی شرح العروۃ الوثقی، قم، مجمع الشہید آیت‌اللہ الصدر العلمی، 1408ھ۔
  • صفری فروشانی، نعمت‌اللہ، «جریان‌شناسی غلو»، علوم حدیث، شمارہ 1، پاییز 1375ہجری شمسی۔
  • صفری فروشانی، نعمت‌اللہ، غالیان (کاوشی در جریان‌ہا و برآیندہا)، مشہد، آستان قدس رضوی، 1378ہجری شمسی۔
  • طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج علی أہل اللجاج، مشہد، نشر مرتضی، چاپ اول، 1403ھ۔
  • طعیمۃ، صابر عبدالرحمن، الغلو و الفرق الغالیۃ بین الاسلامیین، قاہرہ، مکتبۃ مدبولی، 2009ء۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسۃ الوفاء، 1403ھ۔
  • قمیصی، عبداللہ، الصراع بین الاسلام و الوثنیۃ، قاہرہ، بی‌نا، چاپ دوم، 1402ھ۔
  • مشکور، محمدجواد، تاریخ شیعہ و فرقہ ہای اسلامی تا قرن چہارم ہجری، تہران، انتشارات شرقی، 1379ہجری شمسی۔
  • مقریزی، تقی الدین، المواعظ و الإعتبار فی ذكر الخطط و الآثار، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1418ھ۔
  • نجاشی، ابوالعباس احمد بن علی، رجال النجاشی، تحقیق سیدموسی شبیری زنجانی، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1407ھ۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1362ہجری شمسی۔
  • نوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعہ، بیروت، انتشارات دار الاضواء، بی‌تا۔