بحار الانوار (کتاب)

حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
غیر جامع
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
(بحارالانوار سے رجوع مکرر)
بحار الانوار
بحار الانوار کے مجموعے کی ایک جلد
بحار الانوار کے مجموعے کی ایک جلد
مشخصات
مصنفعلامہ محمد باقر مجلسی
موضوعاحادیث ائمہ معصومین (ع)
زبانعربی
تعداد جلد110
طباعت اور اشاعت
ناشردار الکتب الاسلامیہ
سنہ اشاعتاولین نشر بواسطہ محمد حسین کمپانی 25 جلدوں میں


بِحارُ الاَنوار الجامِعَةُ لِدُرَرِ أخبارِ الأئمةِ الأطہار، بحار الانوار کے نام سے مشہور، عالم تشیع کا مفضل ترین حدیثی مجموعہ ہے، جو علامہ محمد باقر مجلسی (1037۔1110 ھ) کے زیر نظر تالیف کیا گیا ہے۔ بحار الانوار شیعہ معارف اور تعلیمات کا دائرۃ المعارف ہے؛ اس کتاب کی تالیف 36 برسوں کے طویل عرصے میں انجام پائی ہے اور علامہ مجلسی کے شاگردوں کی ایک جماعت نے اس عظیم کاوش میں ان کے ساتھ تعاون کیا ہے۔

مؤلف نے کتاب کو 25 کلی موضوعات کی بنیاد پر مرتب کیا ہے اور ان 25 موضوعات کو 25 جلدوں میں جگہ دی ہے اور ہر جلد میں متعلقہ موضوع کے ذیلی موضوعات کو ابواب کی صورت میں جمع کیا ہے۔ انھوں نے ہر باب کے آغاز میں متعلقہ آیات قرآنی کو ذکر کرکے ان کی تفسیر کا اہتمام کیا ہے اور اگلے مرحلے میں اس باب سے متعلق احادیث کو نقل کیا ہے۔

کتاب العقل و الجہل کے عنوان سے شروع ہوتی ہے اور پھر خدا شناسی و توحید، عدل الہی اور تاریخ نبیاء کے مباحث کے ساتھ اپنی بحث و تحقیق کو جاری رکھتے ہیں۔ 110 مجلدات پر مشتمل کتاب کی جلد نمبر 15 سے جلد نمبر 53 تک کو پیغمبر اسلام (ص)، حضرت زہراء (س) اور ائمۂ شیعہ (ع) کی تاریخ حیات و سیرت، فضائل و مناقب کے لئے مختص کیا گیا ہے۔

چونکہ پیغمبر اسلام(ص)، اور ائمۂ شیعہ سے منقولہ احادیث مستند ہیں، انہیں ابواب اور موضوعات میں مرتب کیا گیا ہے، روایات ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ کلامی، تاریخی اور فقہی، اخلاقی اور لغت نیز حدیث کے سے متعلق مباحث کو اہمیت دی گئی ہے، چنانچہ اس کے باوجود کہ کتاب بہت ضخیم و حجیم ہے، مختلف ادوار میں اس کی کتابت ہوئی ہے اور صنعت طباعت کے رواج کے بعد پوری کتاب یا اس کے بعض حصوں کو متعدد بار زیور طبع سے آراستہ کیا گیا ہے۔

اس کتاب کی مختلف جلدوں کے متفرقہ انداز میں فارسی میں تراجم کرکے شائع کئے گئے ہیں۔ مشہور ترین فارسی ترجمہ پچیس مجلدات میں مرتبہ بحار الانوار کی تیرہویں جلد کا ترجمہ ہے جو مہدی موعود کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ اس کتاب کو امام زمانہ(عج) اور متعلقہ موضوعات کے لئے مختص کیا گیا ہے۔

بحار الانوار کا موضوعی سافٹ ویئر بھی اس کتاب کے موضوعات تک محققین کی رسائی آسان بنانے کے لئے شائع ہو چکا ہے۔

مؤلف کا تعارف

مفصل مضمون: علامہ محمد باقر مجلسی

محمد باقر بن محمد تقی بن المقصود علی المجلسی المعروف علامہ مجلسی یا مجلسی دوم عالم اسلام کے مشہور ترین علماء فقہاء اور محدثین میں سے ہیں۔ وہ صفوی دور کے با اثر شیعہ حکام میں شمار ہوتے تھے اور مشہورِ عالَم و کتابِ حدیث بحار الانوار کے مؤلف ہیں۔

ان کے مشہور ترین اساتذہ میں ملا صالح مازندرانی، ملا محسن فیض کاشانی، سید علی خان مدنی و ملا خلیل قزوینی اور مشہور ترین شاگردوں میں میرزا عبداللہ افندی اصفہانی، سید نعمت اللہ جزائری، شیخ عبداللہ بحرانی، محمد بن علی اردبیلی، میرزا محمد مشہدی، میر محمد حسین خاتون آبادی اور سید ابو القاسم خوانساری شامل ہیں۔ مجلسی نے متعدد کتب تالیف کی ہیں جن میں بحار الانوار، مرآة العقول، حق الیقین، زاد المعاد، تحفۃ الزائر، عین الحیات، حیاة القلوب، جلاء العیون، حلیۃ المتقین وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

تالیف کے محرکات

مجلسی بحار الانوار کے دیباچے میں اس کتاب کی تالیف کے محرکات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اس کتاب کی تالیف کا سبب یہ ہے کہ میں طالب علمی کے دوران مختلف النوع علوم کے حصول پر حریص تھا اور مختلف علوم میں زندگی کا ایک حصہ گذار کر اور ان علوم کے ثمرات اور غایات و اہداف کے بارے میں تفکر کرنے کے بعد، اس نتیجے پر پہنچا کہ علم صرف سرچشمۂ وحی اور روایات اہل بیت ہی سے حاصل ہوتا ہے اور آخرت میں صرف یہی علم مفید ہے، اسی لئے میں نے معصومین علیہم السلام کی اخبار و روایات کا اہتمام کیا ہے"۔[1]

علاوہ ازیں مجلسی نے بحار الانوار میں ایسی کتب کو توجہ دی ہے جو وقت گذرنے اور کتب اربعہ کی طرف زیادہ توجہ کی بنا پر مہجور و متروک ہو چکی تھیں؛ یا پھر مفسدین کی سازشوں اور منفی اغراض، جاہلوں کی بےاعتنائی اور دشمنان اہل بیت(ع) کی موجودگی کی وجہ سے، محو و نابود ہو رہی تھیں۔[2] علامہ مجلسی کہتے ہیں: "اس قسم کی کتاب عامہ اور خاصہ کے درمیان ایسی کتاب تالیف نہيں ہوئی ہے اور اس کام ميں کوئی بھی مجھ پر سبقت نہيں لے سکا ہے اور امید ہے کہ یہ کتاب ظہور قائم آل محمد (عج) تک فضلاء اور طالبان علم و متلاشیان دانش کا مرجع اور ان تمام لوگوں کا منبع تحقیق ہو جو ائمہ اطہار (ع) کے علوم حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔[3]

تالیف کی کیفیت اور خصوصیات

مجلسی نے اپنے متعدد شاگردوں کو مختلف ممالک میں روانہ کیا تاکہ وہ دستیاب نسخوں کو تلاش کریں؛[4] اور اس راہ میں انھوں نے بہت زیادہ صعوبتیں جھیلیں؛ حتی انھوں نے ابن بابویہ کی کتاب مدینۃ العلم کو ڈھونڈ لانے کے لئے ـ جو کہا جاتا تھا کہ یمن میں ہے ـ ایک جماعت کو بے شمار تحائف و ہدایا دے کر یمن کے حاکم کے پاس روانہ کیا؛ تاکہ اس کتاب کو تلاش کرکے لے آئیں۔[5] انھوں نے کتب جمع کرکے اپنی کتاب بحار الانوار کی تالیف کا کام سنہ 1072 ہجری میں شروع کیا اور جو 36 سال تک جاری رہا اور سنہ 1106 ہجری میں مکمل ہوا۔ بحار الانوار کی تالیف میں میرزا عبداللہ افندی، میر محمد صالح خاتون آبادی، ملا عبداللہ بن نور الدین بحرینی، سید نعمت اللہ جزائری ۔۔۔ سمیت کئی شاگردوں نے علامہ مجلسی کے ساتھ تعاون کیا۔ کتاب کی تکمیل ان کی وفات کے بعد ان کے شاگردوں کے ذریعہ سے ہوئی جنہوں نے کتاب کے مسودات کو فیئر کرکے لکھا۔[6]۔[7]

علامہ تنہائی میں بھی کام کے تمام مراحل پر عبور کامل رکھتے تھے اور ان کے شاگردوں نے صرف ان ہی کے ہاتھوں مرتبہ عناوین کے تحت آیات و احادیث درج کر کر دیں جبکہ عناوین، متون، اسناد وغیرہ کا تعین اور ان کی ترتیب کا کام وہ خود انجام دیا کرتے تھے۔[8]

وہ بحار الانوار کی تالیف میں ہر جلد کے لئے ایک عنوان متعین کرتے تھے اور ہر عنوان کے ذیل میں ابواب قرار دیتے تھے۔ انھوں نے ہر باب کے آغاز میں قرآن کریم کی آیات قرار دی ہیں جو یا تو صراحت کے ساتھ یا پھر تاریخ، حدیث اور تفسیر پر مبنی قرائن اور نشانیوں کی بنیاد پر متعلقہ موضوع سے مناسبت و مطابقت رکھتی ہیں؛ اس کے بعد ضرورت کے مطابق مفسرین (عام طور پر امین الاسلام طبرسی اور فخر رازی) کے اقوال بیان کئے ہیں اور اس کے بعد ہر عنوان کے تناظر میں وارد ہونے والی احادیث کو سند کے ساتھ اور عددی ترتیب کے ساتھ ذکر کیا ہے (اور کبھی انھوں نے بحار الانوار میں ہی نقل حدیث کے اصل مقام کا حوالہ دیا ہے)۔ نیز ضرورت کے مطابق حدیث کی تشریح کے لئے وضاحتیں دی ہیں۔ یہ وضاحتیں ان جلدوں میں موجود نہیں ہیں جو ان کے شاگردوں نے فیئر کرکے لکھی ہیں۔

مجلسی اپنی عمر کے نصف دوم میں اور علمی مدارج و مراحل طے کرنے اور زیادہ ترکتب کی تالیف کے بعد اگرچہ بحار الانوار کی تالیف میں منابع و مآخذ جمع کرنے کے سلسلے میں بعض فضلاء اور علماء کے تعاون اور صفوی حکومت کی امداد اور سہولیات و وسائل سے مستفید تھے لیکن موجودہ نسخوں اور دیگر دلائل کی گواہی کے مطابق اصل کام خود ہی انجام دیتے رہے ہیں۔

کتاب کا اعتبار

آقا بزرگ تہرانی کہتے ہیں: بحار الانوار ایک جامع کتاب ہے جو اہل بیت(ع) کی روایات و اخبار پر مشتمل ہے۔ ایسی باریک بینانہ تحقیقات جس سے بہتر تحقیقات کہیں نہيں ملیں گی؛ اور کہنا چاہئے کہ اس کتاب کی مانند کوئی کتاب نے اس سے قبل تالیف ہوئی اور نہ اس کے بعد لکھی جائے گی۔[9]

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: بحار الانوار بزرگ عالم و محدث محمد باقر مجلسی کی کاوش ہے جو تقریبا 400 کتب پر مشتمل ہے؛ بحار الانوار بذات خود ایک چھوٹا کتب خانہ ہے اور مصنف نے جب دیکھا کہ حدیث کی بہت سی کتب جو حجم کم ہونے اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ، نابودی اور ناپید و نایاب ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں، تو اس کتاب کی تالیف کا فیصلہ کیا۔[10]

علامہ محمد حسین طباطبائی بھی کہتے ہیں: بحار اخبار و روایات جمع کرنے کے لحاظ سے بہترین شیعہ دائر المعارف میں سے ایک ہے، بحار کی تفصیل و تبویب میں مؤلف کا ذوق و سلیقہ حیرت انگیز اور موضوعات سے متعلق آیات کریمہ سے استناد بھی حیران کن ہے۔ علامہ مجلسی نے اس کاوش کے ذریعے دین اور آثار اہل بیت(ع) کو زندہ کیا۔[11]

بحار الانوار کے مآخذ

مجلسی نے کتاب کی ابتداء میں 386 کتب اور 25 مؤلفین کے نام ذکر کئے ہیں۔ انھوں نے حجت لانے اور شیعہ روایات کے اثبات کے لئے اہل سنت کے بعض منابع سے بھی استفادہ کیا ہے اور ان منابع و مآخذ میں سے 85 مآخذ کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے بحار الانوار کی تالیف میں بعض شرحوں اور مآخذ لغت سے بھی استفادہ کیا ہے۔ مجلسی تالیف کے ضمن میں بھی بعض مآخذ کا حوالہ دیتے ہیں۔[12]

بحار الانوار کی منزلت

مجلسی کے بعد کے ادوار میں بحار الانوار کی منزلت جاننے کے لئے ذیل کے نکات کی طرف توجہ دینا ضروری ہے:

  1. چونکہ مؤلف نے شیعہ کتب اربعہ سے بہت محدود استفادہ کیا ہے، چنانچہ فقہی لحاظ سے کتاب کی اہمیت گھٹ گئی ہے اور اس کے باوجود کہ دوسرے موضوعات میں اپنے بعد شیعہ تعلیمات و ثقافت میں بہت واضح اور کامل تسلط پا چکے ہیں لیکن فقہی مباحث میں ان کی تالیف مرجع رائج شمار نہیں ہوا ہے۔
  2. علامہ احادیث کے بارے میں جس انداز سے تجزیہ اور وضاحت پیش کرتے ہیں، اس کو معتدل اخباری تناظر میں ہی دیکھا جا سکتا ہے اور جہاں وہ عقلی مسائل کا سامنا کرتے ہیں، وہاں کلام کے ذریعے اور حدیث و روایت اور ظواہر سے استناد کرکے، اس پر تنقید کرتے ہیں اور فلسفہ سے استفادہ نہیں کرتے جس کی وجہ سے ان کی بعض تشریحات اور نکات زیادہ باریک بینی سے بہرہ مند نہیں ہیں۔

کتاب کے عناوین

ذیل میں کتاب کے عناوین 25 مجلدات پر مبنی سنگی طباعت (ليتھو چھَپائی۔سَنگی چھَپائی یا Lithography) اور آج کی 110 مجلدات پر مبنی طباعت کے مطابق پیش کئے گئے ہیں:

  1. (جلد 1 و 2) کتاب العقل و الجهل؛
    کتاب عقل و جہل، علم و علماء کی فضیلت اور ان کے طبقات، اخبار و روایات کی حجیت [یعنی ان کا حجت ہونا]، اور قیاس کی مذمت، مصادر و مآخذ کے سلسلے میں مفصل مقدمے کے ساتھ اور مفید مصادر و موضوعات کا حوالہ؛ 40 ابواب کے ضمن میں۔
  2. (جلد 3 و 4) کتاب التوحید والصفات والاسماء الحسنی؛
    کتاب توحید اور صفات اللہ اور ذات الہی کے اسماء حسنیٰ، توحید مفضل اور رسالہ اہلیلجہ اور 31 ابواب پر مشتمل۔
  3. (جلد 5 تا 8) کتاب العدل والمشیة و الارادة والقضاء والقدر؛
    یہ تین مجلدات عدل، مشیت، ارادہ، قضا، قدر، ہدایت، ضلالت، امتحان، طینت، میثاق، توبہ، احکام کے اسباب و علل، موت کے مقدمات اور اس کے مؤخرات، 59 ابواب پر مشتمل۔
  4. (جلد 9 و 10) کتاب الاحتجاجات والمناظرات؛
    احتجاجات اور مناظرات 83 ابواب میں۔
  5. (مجلدات 11 تا 14) کتاب فی احوال الانبیاء و قصصهم؛
    انبیاء کے حالات زندگی، 82 ابواب میں۔
  6. (جلد 15 تا 22) کتاب فی احوال نبینا الاکرم(ص) واحوال جمله من آبائه؛
    رسول اللہ(ص) اور آپ(ص) کے آباء و اجداد کے حالات زندگی، قرآن کے اعجاز اور قرآنی اعجاز کی کیفیت کی تشریح، صحابۂ کرام ابوذر غفاری، سلمان فارسی، عمار یاسر، مقداد بن اسود اور بعض دیگر بزرگوں کے حالات، 72 ابواب میں۔
  7. (جلد 23 تا 27) کتاب فی مشترکات احوال الائمہ علیهم السلام؛
    ان جلدوں میں ائمہ(ع) کے کے مشترکہ حالات، امامت کی شرائط و خصوصیات، ان کی ولایت کی کیفیت اور ان کے خوارق عادات و شئون غریبہ، سابقہ انبیاء پر ان کی برتری، ان کی دوستی کا ثواب اور ان کی ذریت کی فضیلت اور علماء کے بعض مناظرات، 150 ابواب میں۔
  8. (جلد 28 تا 34) کتاب فی الفتن بعد النبی(ص) ؛
    وہ فتنے جو رسول اللہ(ص) کے وصال کے بعد رونما ہوئے، خلفاء کی سیرت اور ان کے زمانوں میں رونما ہونے والے واقعات، جنگ جمل، جنگ صفین، جنگ نہروان، عراق کے اطراف میں معاویہ کی غارت گری، امیرالمؤمنین(ع) کے بعض اصحاب کے حالات زندگی، ان سے منسوب کلام منظوم کی شرح، نیز آپ(ع) کے بعض مکاتیب کی شرح، بات نمبر 62 میں۔
  9. (جلد 35 تا 42) کتاب فی احوال امیرالمؤمنین(ع) من ولادتہ الی شهادتہ؛
    امیرالمؤمنین علیہ السلام کے حالات زندگی "ولادت سے شہادت تک"، امیرالمؤمنین علیہ السلام کے والد ماجد ابوطالب(ع) کے حالات زندگی اور ایمان ابوطالب(ع)، نیز امیرالمؤمنین علیہ السلام کے بعض اصحاب کے حالات زندگی اور ائمہ(ع) کی امامت کے بارے میں وارد ہونے والی روایات؛ یہ دو مجلدات 128 ابواب پر مشتمل ہیں۔
  10. (جلد 43 تا 45) کتاب فی احوال سیدة النساء(س) والامامین الهمامین الحسن المجتبی(ع) وابي عبدالله الحسین(ع) ؛
    یہ مجلدات حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا، امام حسن مجتبی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے حالات زندگی اور قیام مختار اور کربلا کے قاتلوں سے خونخواہی و انتقام، جیسے واقعات اور مجموعی طور پر 50 ابواب پر مشتمل ہیں۔
  11. (جلد 46 تا 48) کتاب فی احوال الائمه الاربعة بعد الحسین(ع) ؛
    امام حسین علیہ السلام کے بعد کے چار ائمہ(ع) ـ امام زین العابدین علیہ السلام، امام محمد باقر علیہ السلام، امام جعفر صادق علیہ السلام، امام موسی کاظم علیہ السلام اور ان کی اولاد و اصحاب ـ کے حالات زندگی؛ یہ مجلدات 46 ابواب پر مشتمل ہیں۔
  12. (جلد 49 و 50) کتاب فی احوال الائمه الاربعه قبل الحجه المنتظر(ع) ؛
    امام زمانہ(عج) سے قبل کے چار چار ائمہ(ع) ـ یعنی امام علی رضا علیہ السلام، امام جواد علیہ السلام، امام ہادی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام اور ان کے بعض اصحاب ـ کے حالات زندگی؛ یہ مجلدات 39 ابواب پر مشتمل ہے۔
  13. (جلد 51 تا 53) کتاب فی احوال الحجه المنتظر(ع) ؛
    یہ دو مجلدات حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے حالات زندگی اور متعلقہ آیات، احادیث اور روایات اور 36 ابواب پر مشتمل ہے۔
  14. (جلد 57 تا 66) کتاب فی السماء والعالم؛
    آسمان، عالم اور ان کی خلقت، ان کے اجزاء جیسے فلکیات، ملائکہ، جنات، انسان، حیوانات، عناصر، شکار، حیوانات شکار کرنے کی روشوں، کھانے پینے کی اشیاء اور پوری کتاب طب النبی(ع) اور کتاب طب الرضا(ع) اور 210 ابواب پر مشتمل۔
  15. (جلد 67 تا 75) کتاب فی الایمان والکفر؛
    ایمان و کفر تین حصوں میں: 1۔ ایمان اور اس کی شرط، مؤمنین کی صفات اور فضیلت، اور ان کی خصوصیات؛
    2۔ اخلاق حسنہ اور دنیا کے مہالک اور تباہیوں سے نجات کے اسباب و موجبات؛
    3۔ کفر اور اس کے شعبے اور اخلاق رذیلہ؛ یہ مجلدات 108 ابواب پر مشتمل ہے۔
  16. (جلد 76) کتاب الزی والتجمل فی الآداب والسنن؛
    آداب و سنن، زینتیں اور تجملات، نظافت اور صفائی و ستھرائی، سرمہ کا استعمال، عطریات کا استعمال، شب زندہ داری (شب بیداری)، خواب، سفر، وہ اعمال جن سے بازرکھا گیا ہے اور گناہان کبیرہ، یہ جلد 131 ابواب پر مشتمل ہے۔
  17. (جلد 78 تا 88) کتاب الروضه؛
    مواعظ و نصائح اور حکمتیں، یہ مجلدات 73 ابواب پر مشتمل ہیں۔
  18. (جلد 89 تا 91) کتاب فی الطهارة والصلاة؛
    یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے: طہارت 6 ابواب پر اور دوسرا حصہ "صلاة" (نماز) پر مشتمل اور 161 ابواب نیز شاذان بن جبرئیل قمی کا رسالہ "ازاحۃ العلہ" پر مشتمل ہے۔
  19. (جلد 92 و 93) کتاب فی فضائل القرآن والذکر؛
    یہ کتاب دو حصوں یعنی "فضائل قرآن اور اس کے آداب و ثواب اور اعجاز۔ نیز پوری تفسیر نعمانی ـ اور 130 ابواب پر مشتمل ہے۔ دوسرا حصہ ذکر اور اس کی مختلف اقسام اور آداب دعا اور اس کی شرطوں، حرزوں، مختلف دردوں اور دکھوں کے لئے ماثورہ دعاؤں، صحیفہ ادریس وغیر نیز 122 مجلدات پر مشتمل ہے۔
  20. (جلد 94 تا 96) کتاب فی الزکاة والصدقة والخمس والصوم؛
    پورے سال کے مختلف ایام کے اعمال اور 122 ابواب پر مشتمل ہے۔
  21. (جلد 97 تا 100) کتاب فی الحج و العمرة؛
    یہ مجلدات حج، عمرہ، جہاد، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے فقہی ابواب، شہر مدینہ وغیرہ اور 84 ابواب پر مشتمل ہیں۔
  22. (جلد 101) کتاب فی المزار؛
    یہ کتاب ائمۂ اطہار علیہم السلام سے منقولہ زیارات اور 64 ابواب پر مشتمل ہے۔
  23. (جلد 102 و 103) کتاب فی العقود والایقاعات؛
    یہ کتاب دو فقہی ابواب عقود اور ایقاعات اور 130 ابواب پر مشتمل ہے۔
  24. (جلد 104) 'کتاب فی الاحکام الشرعیة'؛
    یہ کتاب شرعی احکام پر مشتمل ہے کتاب دیات تک اور 48 ابواب میں۔
  25. (جلد 105 تا 110) کتاب فی الاجازات۔
    یہ کتاب شیخ منتجب الدین رازی کی اجازات اور پوری فہرست، سید علی خان مدنی کی کتاب سلافۃ العصر کے خلاصے، سید بن طاؤس کی کتاب "اجازات" کے ابتدائی ابواب، "بنو زہرہ" کے لئے کا اجازہ کبیرہ اور شہید اول اور شہید ثانی کا اجازہ وغیرہ، پر مشتمل ہے۔[13]

کتب حدیث سے مقائسہ

اہم حدیثی کتب مصنف متوفی تعداد احادیث توضیحات
المحاسن احمد بن محمد برقی 274 ھ تقریباً 2604 مختف عناوین کا مجموعۂ احادیث
کافی محمد بن یعقوب کلینی 329 ھ تقریباً 16000 اعتقادی، اخلاقی آداب اور فقہی احادیث
من لا یحضر الفقیہ شیخ صدوق 381 ھ تقریباً 6000 فقہی
تہذیب الاحکام شیخ طوسی 460 ھ تقریباً 13600 فقہی احادیث
الاستبصار فیما اختلف من الاخبار شیخ طوسی 460 ھ تقریباً 5500 احادیث فقہی
الوافی فیض کاشانی 1091 ھ تقریباً 50000 حذف مکررات کے ساتھ کتب اربعہ کی احادیث کا مجموعہ اور بعض احادیث کی شرح
وسائل الشیعہ شیخ حر عاملی 1104 ھ 35850 کتب اربعہ اور اس کے علاوہ ستر دیگر حدیثی کتب سے احادیث جمع کی گئی ہیں
بحار الانوار علامہ مجلسی 1110 ھ تقریباً 85000 مختلف موضوعات سے متعلق اکثر معصومین کی روایات
مستدرک الوسائل مرزا حسین نوری 1320 ھ 23514 وسائل الشیعہ کی فقہی احادیث کی تکمیل
سفینہ البحار شیخ عباس قمی 1359ھ 10 جلد بحار الانوار کی احادیث کی الف ب کے مطابق موضوعی اعتبار سے احادیث مذکور ہیں
مستدرک سفینہ البحار شیخ علی نمازی 1405 ھ 10 جلد سفینۃ البحار کی تکمیل
جامع احادیث الشیعہ آیت اللہ بروجردی 1380 ھ 48342 شیعہ فقہ کی تمام روایات
میزان الحکمت محمدی ری شہری معاصر 23030 غیر فقہی 564 عناوین
الحیات محمد رضا حکیمی معاصر 12 جلد فکری اور عملی موضوعات کی 40 فصل

بحار الانوار کے بارے میں انجام پانے والی تحقیقات

بحار الانوار کا موضوعی سافٹ ویئر

اہم ترین اور مشہور ترین کاوش جو بحار الانوار کے حوالے سے تالیف ہوئی ہے شیخ عباس قمی کی کتاب سفینۃ البحار ہے۔

مستدرکات، معاجم اور فہارس

  • مستدرک سفینة البحار، تألیف علی نمازی شاہرودی۔
  • معالم العِبّر، مستدرک، جلد 17، تألیف میرزا حسین نوری۔
  • مستدرک مزار بحار الانوار، تألیف میرزا حسین نوری۔
  • ریاض الابرار مستدرک اجازات بحار الانوار۔
  • المعجم المفہرس لالفاظ احادیث بحار الانوار۔
  • المعجم المفہرس لالفاظ ابواب البحار، تألیف کاظم مرادخانی۔
  • المعجم المفہرس لالفاظ احادیث بحار الانوار، تألیف علی رضا برازش۔
  • فہرست ما فی البحار، سید محمد بن احمد حسین لاہیجانی۔
  • درر الاخبار، در فہرست تمام مجلدات بحارالانوار سید مہدی بن سید فضل اللہ حجازی۔
  • مصابیح الانوار فہرست تمام مجلدات بحار میرزا محمد بن رجب علی عسکری تہرانی۔

موازنے(Comparisons) اور ہدایت نامے(Guides)

  • الشافی فی الجمع بین البحار و الوافی، از محمد رضا ابن عبد المطلب تبریزی۔
  • التطبیق بین السفینة و البحار، تألیف سید جواد مصطفوی۔
  • مفتاح الابواب لکتاب البحار تألیف شیخ جواد اصفہانی۔
  • مصابیح الانوار بحار کے تمام مجلدات کی فہرست، از میرزا محمد بن رجب علی عسکری تہرانی۔
  • دلیل الآیات المفسرة و اسماء السور فی احادیث بحار الانوار۔
  • معرفی و روش استفادہ از بحار الانوار (بحار الانوار کا تعارف اور اس سے استفادہ کرنے کی روش)، تألیف حسن صفری نادری۔

تراجم

  • جلد اول کا ترجمہ؛ بقلم: شہزادہ سلطان محمد بلند اختر ہندی۔[14]
  • دوسری جلد کا ترجمہ بعنوان جامع المعارف۔[15]
  • چھٹی جلد کا ترجمہ، بقلم حاج حبیب اللہ محسنی تہرانی۔[16]
  • آٹھویں جلد کا ترجمہ (بعنوان کتاب الفتن)، بقلم علامہ کے بھتیجے محمد نصیر بن مولٰی عبداللہ۔[17]
  • اسی جلد کا دوسرا ترجمہ بعنوان مجاری الانہار فی ترجمة ثامن البحار، بقلم محمد مہدی بن محمد شیخ استر آبادی۔[18]
  • نویں جلد کا ترجمہ بقلم آقا رضی بن محمد نصیر بن مولٰی عبداللہ محمد تقی اصفہانی۔[19]
  • دسویں جلد کا ترجمہ بقلم از میر محمد عباس و میرزا محمد علی مازندرانی۔[20]
  • ترجمۂ حسن ہشترودی۔[21]
  • تیرہویں جلد کا ترجمہ بقلم میرزا علی اکبر ارومی و حسن بن محمد ولی ارومی۔[22]
  • چودہویں جلد کا ترجمہ بعنوان السماء و العالم بقلم ‌آقا نجفی اصفہانی۔[23]
  • پندرہویں جلد کا ترجمہ بعنوان حقائق الاسرار۔[24]

اقتباسات اور تلخیصیں

  • درر البحار، بقلم مولٰی نور الدین محمد بن مرتضی۔
  • انوار البحار، بقلم محمدبن محمد ہادی نائینی۔
  • تلخیص البحار، بقلم میرزا محمد صادق شیرازی۔
  • حدیقة الازہار فی تلخیص البحار، میرزا محمد بن عبد النبی نیشابوری۔
  • تلخیص الانوار بقلم مولٰی محمد تقی المعروف آقا نجفی اصفہانی۔
  • تلخیص البحار، بقلم میرزا ابراہیم بن حسین بن غفار دنبلی خوئی۔
  • درر البحار، بقلم مولٰی محمد تقی بن محمد خوئی۔
  • بنادر البحار، فیض الاسلام۔
  • منتخب بحار الانوار بقلم محمد ہادی بن مرتضی کاشانی۔

طباعتیں

پہلی طباعت محمد حسین کمپانی کے ہاتھوں انجام پائی جو سنگی طباعت کے عنوان سے مشہور ہے اور پوری کتاب ابتدائی 25 مجلدات پر مشتمل ہے۔ بعد والی طباعتوں کا اہتمام دارالکتب الاسلامیہ اور آل البیت (ع) نے کیا ہے اور ان طباعتوں میں کتاب 110 جلدوں پر مشتمل ہے۔

حوالہ جات

  1. بحار الانوار، ج1، ص2۔
  2. بحار الانوار، ج1، ص3 و4۔
  3. بحار الانوار، ج1، ص6۔
  4. الکنی و الالقاب، ج3، ص147۔
  5. نوری، 33۔
  6. امین العاملی، سید محسن، اعیان الشیعہ، ج9، ص183۔
  7. لؤلؤ البحرین، ص57۔
  8. المعجم، ج1 ص7، 8۔
  9. الذريعة الی تصانيف الشيعہ، ج3، ص16۔
  10. کشف الاسرار، ص319۔
  11. علامہ طباطبائی، مهر تابان، ص36۔
  12. بحار الانوار، ج1، ص6 – 26۔
  13. بحارالانوار، ج102، ص37 - 44۔
  14. الذریعہ، ج4، ص82۔
  15. وہی ماخذ، ج3، ص18۔
  16. وہی ماخذ، ج4، ص107۔
  17. بحار الانوار، ج102، ص57۔
  18. الذریعہ، ج3، ص20۔ ج4، ص92۔
  19. وہی ماخذ، ج3، ص20۔
  20. وہی ماخذ۔
  21. بحار الانوار، ج102، ص60۔
  22. الذریعہ، ج3، ص21۔
  23. وہی ماخذ۔
  24. وہی ماخذ، ج3، ص24۔

مآخذ

  • امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دار التعارف، بی‌تا۔
  • تهرانی، آقا بزرگ، الذریعة الی تصانیف الشیعہ، بیروت، دار الاضواء، 1389 ہجری۔
  • قمی، عباس، الکنی و الالقاب، تهران، مکتبة الصدر، 1359 ہجری۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسة الوفاء، 1403 ہجری۔
  • المعجم المفهرس لالفاظ احادیث بحار الانوار، قم، 1413 ہجری۔

بیرونی روابط