سوره مؤمنون مکی سورہ اور قرآن مجید کی 23ویں سورت ہے۔ یہ سورہ 18ویں پارے میں واقع ہے۔ مومنین کی 15 صفات کا اس سورت میں ذکر ہونے کی وجہ سے اسے سورہ مومنون کا نام دیا گیا ہے۔ حجم کے اعتبار سے درمیانی درجے کی سورت ہے جس کا شمار مئون سورتوں میں ہوتا ہے۔ یہ سورہ نصف پارے پر محیط ہے۔ بےہودہ امور سے اجتناب، نیک کاموں کی طرف سبقت، حضرت موسیؑ اور حضرت نوحؑ کا واقعہ، خلقتِ انسان اور معاد اس سورت کے مباحث میں سے ہیں۔
99 اور 100 نمبر کی آیات اس سورت کی مشہور آیات میں سے ہیں جن میں کافروں کا موت کے وقت دوبارہ دنیا لوٹ آکر نیک اعمال انجام دینے کی آرزو کا اظہار کرنے کا ذکر ہوا ہے۔ اس سورت کی فضیلت کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ اللہ تعالی کے فرشتے اس سورت کی تلاوت کرنے والے کو قیامت میں آسائش اور سکون نیز عزرائیل کا روح قبض کرتے ہوئے سکون کی بشارت دیتے ہیں۔
تعارف
اور کہدیجئے! اے میرے پروردگار! تو بخش دے اور رحم فرما۔ اور تو بہترین رحم کرنے والا ہے۔ » (آیہ۱۱۸)
نام
اس سورت کو مؤمنون کا نام اسلئے دیا گیا ہے کہ اس کی ابتدائی آیت (قد افلح المؤمنون) میں مؤمنین کی کامیابی کی طرف اشارہ ہوا ہے اور اس کے بعد پھر 16 آیتوں میں 15 صفات ذکر ہوئی ہیں۔[1]بعض نے اس سورت کا نام اس کی پہلی آیت کی ابتدائی عبارت یعنی «قد افلح» کا نام دیا ہے۔[2]
ترتیب اور محل نزول
سورہ مؤمنون مکی سورت اور پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہونے والی 74ویں سورت ہے اور قرآن مجید کے موجودہ مصحف کے مطابق 23ویں سورت ہے[3] اور یہ سورت قرآن مجید کے 18ویں پارپ میں واقع ہے۔
آیات کی تعداد اور دیگر خصوصیات
سورہ مؤمنون میں 118 آیات، 1055 کلمات اور 4486 حروف ہیں اور حجم کے اعتبار سے متوسط سورت ہے جو ایک پارے کے آدھے سے کچھ کم پر مشتمل ہے۔[4] مؤمنوں اور کافروں کے انجام کا بیان کرنا اس سورت کی اہم خصوصیات میں سے ایک ہے اور اسی وجہ سے «فلاح» کا لفظ مؤمنوں کی کامیابی اور کافروں کی ناکامی کی طرف اشارہ کرتا ہےجو اس سورت کی ابتدائی اور آخری آیات میں ذکر ہوا ہے۔[5]
مضمون
علامہ طباطبائی نے اس سورت کے اہم مباحث میں اللہ اور قیامت پر ایمان، مومنوں کی پسندیدہ صفات، کافروں کی اخلاقی پستیاں، مؤمنوں اور کافروں کے لیے اللہ تعالی کی خوشخبری اور تہدید، حضرت نوحؑ سے حضرت عیسی تک کی گزشتہ امتوں پر نازل ہونے والی بلاؤں کا تذکر قرار دیا ہے۔[6]
تفسیر نمونہ کے مطابق اس سورت میں بعض اعتقادی، عملی، اور بیدار کرنے والے مسائل نیز مؤمنوں کا ابتدا سے آخر تک کا راستہ بیان کیا ہے اور اس کے موضوعات کو مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
مؤمنوں کی اچھی صفات کا بیان 16 آیتوں میں (آیات 1 سے 11 تک اور 57 سے 61 تک)؛
خداشناسی کی مختلف نشانیوں میں سے کائنات میں موجود آیات آفاق اور آیات انفس کی طرف اشارہ؛
بعض انبیاء جیسے حضرت نوح، ہود، موسی اور عیسی کی تاریخ کا تذکرہ؛
سورہ مومنون کی آیت 2 اور 72 کے لئے روایات میں شان نزول ذکر ہوا ہے۔
نماز کے وقت خشوع و خضوع
بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کی نظریں نماز کے وقت آسمان پر ہوتی تھیں یہاں تک کہ سورہ مومنون کی دوسری آیت «الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ؛ جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع کرتے ہیں۔» نازل ہوئی اس کے بعد سے نظر زمین پر رکھ دیا۔[9]
بے دینی کی وجہ سے قحط
ابن عباس سے منقول ہے کہ مسلمانوں نے ثمامۃ بن اثل نامی شخص کو گرفتار کر کے پیغمبر اکرمؐ کے پس لے آئے اور وہ مسلمان ہوگیا، قید سے رہا ہونے کے بعد یمن واپس چلا گیا اور مکہ جانے والے کاروانوں کا راستہ روک لیا جس کی وجہ سے قریش میں قحط آگئی اور علہز (کرک اور اونٹ کے خون سے مخلوط ایک چیز) کھانے پر مجبور ہوگئے۔ ابوسفیان پیغمبر اکرمؐ کے پاس آیا اور کہا اے محمدؐ خدا اور ہماری آپس کی رشتہ داری کی قسم، کیا تم رحمۃ للعالمین ہونے کا دعوا نہیں کرتے ہو؟ پیغمبر اکرمؐ نے ہاں میں جواب دیا تو ابوسفیان نے کہا: ہمارے ابا و اجداد کو تلوار سے مار ڈالا اور اب ان کی اولاد کو بھوک سے مار رہے ہو۔ ابوسفیان کی اس بات کے جواب میں سورہ مومنون کی 76ویں آیت «وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُم بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ؛ اور ہم نے انہیں سزا میں گرفتار بھی کیا مگر وہ پھر بھی اپنے پروردگار کے سامنے نہ جھکے اور نہ تضرع و زاری کی۔» نازل ہوئی اور قحط کو بےدینی اور استکبار سے مربوط قرار دیا۔[10]
مشہور آیات
آیات 99 اور 100
«حَتَّیٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ ﴿۹۹﴾ لَعَلِّی أَعْمَلُ صَالِحًا فِیمَا تَرَکتُ ۚ کلَّا ۚ إِنَّهَا کلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَیٰ یوْمِ یبْعَثُونَ﴿۱۰۰﴾» (ترجمہ: (کافروں کی یہی حالت رہتی ہے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آکھڑی ہوتی ہے تو (تب) کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار! مجھے (ایک بار) اسی دنیا میں واپس بھیج دے جسے میں چھوڑ آیا ہوں۔ تاکہ میں نیک عمل کر سکوں (ارشاد ہوگا) ہرگز نہیں! یہ محض ایک (فضول) بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے اور ان کے (مرنے کے) بعد برزخ کا زمانہ ہے ان کے (دوبارہ) اٹھائے جانے تک۔)
یہ آیات مشرکوں اور بدکاروں کی موت کے وقت کے حالات بیان کرتی ہیں۔[11]اس وقت ان کی آنکھوں سے پردے ہٹیں گے اور اپنے انجام کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور اپنے انجام سے آگاہ ہونگے۔ اسی لئے اپنے پروردگار سے کہیں گے کہ انہیں دوبارہ زندگی بخش دے تاکہ وہ اپنے اعمال کا ازالہ کرسکیں، لیکن قانونِ خلقت ایسا اجازہ کسی کو نہیں دیتا ہے اور واپسی کا امکان نہیں ہے۔[12]
آیات الاحکام
فقہا سورہ مؤمنون کی بعض آیات جیسے 5، 6 ،7 ، 8 اور 51ویں آیت کو فقہی احکام استنباط کرنے کے لئے استفادہ کیا ہے۔[13]وہ آیتیں جو شرعی حکم استبناط کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں انہیں آیات الاحکام کہا جاتا ہے۔[14] سورہ مؤمنون میں موجود آیات الاحکام نماز میں خشوع و خضوع کی رعایت کرنے، شرمگاہ کی حفاظت، حیوانات کے نفع کا حلال ہونا اور عہد و پیمان پر پابند رہنے کے بارے میں ہیں۔
سانچہ:اصلی مضمون
سورہ مومنون کی تلاوت کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ سے روایت ہوئی ہے کہ جو بھی اس سورت کی تلاوت کرے گا قیامت کے دن فرشتے اسے آسایش اور آرامش نیز موت کا فرشتہ آتے وقت اسے سکون کی بشارت دیں گے۔[15]امام صادقؑ سے بھی ایک روایت منقول ہے کہ جو شخص سورہ مؤمنون کی تلاوت کرے گا اللہ تعالی اس کا انجام سعادت مند اور خوش بخت قرار دے گا اور اگر ہر جمعہ کے دن اس سورت کی تلاوت کرے تو اس کا ٹھکانہ جنت ہوگا۔[16]
(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
یقیناً وہ اہلِ ایمان فلاح پاگئے۔ (1) جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع کرتے ہیں۔ (2) اور جو بیہودہ باتوں سے منہ موڑتے ہیں۔ (3) اور جو زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ (4) اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ (5) سوائے اپنی بیویوں کے اور ان کنیزوں کے جو ان کی ملکیت ہیں کہ اس صورت میں وہ قابل ملامت نہیں ہیں۔ (6) اور جو اس (دو طرح) کے علاوہ کوئی خواہش کرے تو ایسے ہی لوگ (حد سے) تجاوز کرنے والے ہیں۔ (7) اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا لحاظ رکھتے ہیں۔ (8) اور جو اپنی نمازوں کی پوری حفاظت کرتے ہیں۔ (9) یہی لوگ وارث ہیں۔ (10) جو فردوس (بریں) کے وارث ہوں گے (اور) وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (11) یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (12) پھر ہم نے اسے نطفہ کی صورت میں ایک محفوظ مقام (رحم) میں رکھا۔ (13) پھر ہم نے نطفہ کو منجمد خون بنایا اور پھر ہم نے اس منجمد خون کو گوشت کا لوتھڑا بنایا پھر اس لوتھڑے سے ہڈیاں پیدا کیں پھر ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر ہم نے (اس میں روح ڈال کر) ایک دوسری مخلوق بنا دیا۔ پس بڑا بابرکت ہے وہ اللہ جو بہترین خالق ہے۔ (14) پھر تم اس کے بعد ضرور مرنے والے ہو۔ (15) پھر اس کے بعد تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤگے۔ (16) اور یقیناً ہم نے تمہارے اوپر سات راستے (آسمان) پیدا کئے ہیں اور ہم (اپنی) مخلوق سے غافل نہیں تھے۔ (17)
اور ہم نے ایک خاص اندازہ کے ساتھ آسمان سے پانی برسایا اور اسے زمین میں ٹھہرایا اور یقیناً ہم اسے لے جانے پر بھی قادر ہیں۔ (18) پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے تمہارے لئے کھجوروں اور انگوروں کے باغات اگائے ان باغوں میں تمہارے لئے بہت سے پھل ہیں اور ان میں سے تم کھاتے بھی ہو۔ (19) اور (ہم نے) ایک درخت ایسا بھی (پیدا کیا) جو طور سینا سے نکلتا ہے (زیتون کا درخت) جو کھانے والوں کیلئے تیل اور سالن لے کر اگتا ہے۔ (20) اور تمہارے لئے چوپایوں میں بڑا سامانِ عبرت ہے ہم تمہیں اس سے (دودھ) پلاتے ہیں جو ان کے پیٹوں میں ہے اور تمہارے لئے ان میں اور بہت سے فائدے ہیں اور انہی کے (گوشت) سے تم کھاتے بھی ہو۔ (21) اور ان پر اور کشتیوں پر تمہیں سوار کیا جاتا ہے۔ (22) اور بےشک ہم نے نوح(ع) کو ان کی قوم کی طرف ہدایت کیلئے بھیجا۔ تو آپ نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا کوئی اللہ نہیں ہے۔ کیا تم (اس کی حکم عدولی سے) نہیں ڈرتے؟ (23) تو ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا کہ یہ (نوح(ع)) نہیں ہے مگر تم ہی جیسا ایک بشر (آدمی) ہے جو تم پر بڑائی حاصل کرنا چاہتا ہے اور اگر خدا (یہی) چاہتا تو وہ فرشتوں کو بھیجتا۔ ہم نے تو یہ بات اپنے پہلے باپ داداؤں سے نہین سنی۔ (24) بس یہ ایک آدمی ہے۔ جسے کچھ جنون ہوگیا ہے۔ پس تم اس کے بارے میں کچھ مدت تک انتظار کرو۔ (25) آپ نے کہا اے میرے پروردگار! تو میری مدد کر کیونکہ انہوں نے مجھے جھٹلایا ہے۔ (26) سو ہم نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ تم ہماری نگرانی اور ہماری وحی کے مطابق کشتی بناؤ۔ پس جب ہمارا عذاب آجائے۔ اور تنور سے پانی ابلنے لگے تو ہر قسم کے نر اور مادہ (جانوروں) میں سے جوڑا جوڑا (اس میں) داخل کرلو۔ اور اپنے گھر والوں کو بھی سوا ان کے جن کے خلاف پہلے سے فیصلہ ہو چکا ہے۔ اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے کوئی بات نہ کرنا کیونکہ یہ اب یقیناً غرق ہونے والے ہیں۔ (27)
اور جب تم اور تمہارے ساتھی کشتی پر سوار ہو جائیں تو کہنا۔ الحمدﷲ۔ سب تعریف اس اللہ کیلئے ہے۔ جس نے ہمیں ظالم قوم سے نجات دی ہے۔ (28) اور کہنا اے میرے پروردگار! مجھے بابرکت، اتار تو سب سے بہتر اتارنے والا ہے۔ (29) بےشک اس (واقعہ) میں بڑی نشانیاں ہیں اور ہم (لوگوں کی) آزمائش کیا کرتے ہیں۔ (30) پھر ہم نے ان کے بعد ایک اور نسل پیدا کی۔ (31) پھر ہم نے انہی میں سے ایک پیغمبر بھیجا (جس نے ان سے کہا) اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ کیا تم (اس کی حکم عدولی) سے ڈرتے نہیں ہو؟ (32) اور اس کی قوم کے وہ سردار جو کافر تھے اور آخرت کی حاضری کو جھٹلاتے تھے اور جنہیں ہم نے دنیوی زندگی میں آسودگی دے رکھی تھی۔ وہ کہنے لگے کہ یہ نہیں ہے مگر تمہارے ہی جیسا ایک بشر (آدمی) ہے یہ وہی (خوراک) کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو اور وہی (مشروب) پیتا ہے۔ جو تم پیتے ہو۔ (33) اور اگر تم نے اپنے ہی جیسے ایک بشر کی اطاعت کر لی تو تم گھاٹے میں رہوگے۔ (34) کیا وہ تم سے وعدہ کرتا ہے کہ جب تم مر جاؤگے اور مٹی اور ہڈیاں ہو جاؤگے تو پھر تم (قبروں سے) نکالے جاؤگے؟ (35) (حاشا و کلا) بہت بعید ہے بہت بعید ہے وہ بات جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ (36) کوئی اور زندگی نہیں سوائے اس دنیوی زندگی کے جس میں ہمیں مرنا بھی ہے اور جینا بھی۔ اور ہمیں (دوبارہ) نہیں اٹھایا جائے گا۔ (37) وہ نہیں ہے مگر ایک ایسا شخص جس نے خدا پر جھوٹا بہتان باندھا ہے اور ہم تو (اس کو) ماننے والے نہیں ہیں۔ (38) اس (رسول) نے کہا اے میرے پروردگار! تو میری مدد کر! کیونکہ ان لوگوں نے مجھے جھٹلایا ہے۔ (39) ارشاد ہوا کہ عنقریب یہ لوگ (اپنے کئے پر) پشیمان ہوں گے۔ (40) چنانچہ بجاطور پر انہیں ایک سخت آواز نے آپکڑا اور ہم نے انہیں خس و خاشاک بنا دیا سو ہلاکت ہے ظالم قوم کیلئے۔ (41) پھر ہم نے ان کے بعد دوسری قومیں پیدا کیں۔ (42)
کوئی قوم اپنے مقررہ وقت سے نہ آگے بڑھ سکتی ہے۔ اور نہ پیچھے ہٹ سکتی ہے۔ (43) پھر ہم نے لگاتار اپنے رسول بھیجے جب بھی کسی امت کے پاس اس کا رسول آیا تو انہوں نے اسے جھٹلایا تو ہم بھی ایک کے بعد دوسرے کو ہلاک کرتے رہے۔ اور ہم نے انہیں قصہ پارینہ (اور افسانہ) بنا دیا۔ پس تباہی ہو اس قوم کیلئے جو ایمان نہیں لاتے۔ (44) پھر ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون کو اپنی نشانیوں اور کھلی ہوئی دلیل کے ساتھ۔ (45) فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ لوگ بڑے سرکش لوگ تھے۔ (46) چنانچہ وہ کہنے لگے کہ ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں پر ایمان لائیں حالانکہ ان کی قوم ہماری خدمت گزار ہے۔ (47) پس ان لوگوں نے ان دونوں کو جھٹلایا (نتیجہ یہ نکلا کہ) وہ بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہوگئے۔ (48) اور ہم نے موسیٰ کو کتاب (توراۃ) عطا کی تاکہ وہ لوگ ہدایت پائیں۔ (49) اور ہم نے ابن مریم اور اس کی ماں کو (اپنی قدرت کی) نشانی بنایا اور ان دونوں کو ایک بلند مقام پر پناہ دی جو ٹھہرنے کے قابل بھی تھا اور جہاں چشمے جاری تھے۔ (50) اے (میرے) پیغمبرو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ بیشک تم جو کچھ کرتے ہو میں اسے خوب جانتا ہوں۔ (51) اور یہ تمہاری امت (جماعت) ایک امت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں سو تم مجھ ہی سے ڈرو۔ (52) مگر ان لوگوں نے اپنے (دینی) معاملہ کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا پس ہر گروہ کے پاس جو (دین) ہے وہ اس پر خوش ہے۔ (53) پس (اے رسول(ص)) آپ ان کو ایک خاص وقت تک اپنی غفلت و مدہوشی میں پڑا رہنے دیجئے۔ (54) کیا یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم جو مال و اولاد (کی فراوانی) سے ان کی امداد کر رہے ہیں۔ (55) تو ہم ان کے ساتھ بھلائیاں کرنے میں جلدی کر رہے ہیں؟ (ایسا نہیں) بلکہ انہیں (اصل حقیقت کا) شعور نہیں ہے۔ (56) بےشک جو لوگ اپنے پروردگار کی ہیبت سے ڈرتے ہیں۔ (57) اور جو اپنے پروردگار کی آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔ (58) اور جو اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے۔ (59)
اور وہ جو دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں (پھر بھی) ان کے دل اس خیال سے ترساں رہتے یں کہ انہوں نے اپنے پروردگار کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ (60) یہی لوگ بھلائیاں کرنے میں جلدی کیا کرتے ہیں اور بھلائیوں میں سبقت لے جانے والے ہیں۔ (61) ہم کسی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور ہمارے پاس وہ کتاب (نامۂ اعمال) ہے جو حق کے ساتھ بولتی ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (62) بلکہ ان کے دل اس (دینی) معاملہ میں غفلت و سرشاری میںپڑے ہیں اور اس کے علاوہ بھی ان کے کچھ (برے) عمل ہیں جو یہ کرتے رہتے ہیں۔ (63) یہاں تک کہ جب ہم ان کے خوشحال لوگوں کو عذاب کی گرفت میں لیتے ہیں تو وہ چیخنے چلانے لگتے ہیں۔ (64) آج کے دن چیخو چلاؤ نہیں (آج) ہماری طرف سے تمہاری کوئی مدد نہیں کی جائے گی۔ (65) (وہ وقت یاد کرو جب) میری آیتیں تمہارے سامنے پڑھی جاتی تھیں تو تم (سنتے ہی) الٹے پاؤں پلٹ جایا کرتے تھے۔ (66) تکبر کرتے ہوئے داستان سرائی کرتے ہوئے (اور) بے ہودہ بکتے ہوئے۔ (67) کیا ان لوگوں نے اس کلام میں کبھی غور نہیں کیا یا ان کے پاس ایسی چیز آئی ہے جو ان کے پہلے والے باپ داداؤں کے پاس نہیں آئی تھی؟ (68) یا کیا انہوں نے اپنے رسول کو پہچانا نہیں ہے؟ اس لئے منکر ہوگئے۔ (69) یا وہ کہتے ہیں کہ یہ مجنون ہے؟ بلکہ وہ تو ان کے پاس حق لے کر آیا ہے اور اکثر لوگ حق کو ناپسند کرتے ہیں۔ (70) اور اگر حق لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرتا تو آسمان و زمین اور جو ان کے اندر ہے سب درہم برہم ہو جاتے۔ بلکہ ہم تو ان کے پاس نصیحت لے کر آئے مگر وہ اپنی نصیحت سے ہی روگردانی کرتے ہیں۔ (71) کیا آپ ان سے کوئی معاوضہ طلب کرتے ہیں؟ تمہارے لئے تو تمہارے پروردگار کا معاوضہ بہت بہتر ہے اور وہ بہترین رازق ہے۔ (72) اور بےشک آپ ان لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف بلاتے ہیں۔ (73) اور جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ راہ سے ہٹے ہوئے ہیں۔ (74)
اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور جس تکلیف میں مبتلا ہیں وہ بھی دور کر دیں تو بھی یہ لوگ اپنی سرکشی میں اندھا دھند بڑھتے جائیں گے۔ (75) اور ہم نے انہیں سزا میں گرفتار بھی کیا مگر وہ پھر بھی اپنے پروردگار کے سامنے نہ جھکے اور نہ تضرع و زاری کی۔ (76) یہاں تک کہ جب ہم ان پر سخت عذاب کا دروازہ کھول دیں گے تو وہ ایک دم ناامید ہو جائیں گے۔ (77) اور اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے جان، آنکھیں اور دل بنائے (لیکن) تم لوگ بہت کم شکر ادا کرتے ہو۔ (78) وہ وہی ہے جس نے تمہیں روئے زمین پر (پیدا کرکے) پھیلا دیا ہے اور اسی کی طرف تم اکٹھے کئے جاؤگے۔ (79) وہ وہی ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور رات اور دن کی آمد و رفت اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ (80) ان لوگوں نے وہی بات کہی ہے جو ان کے پہلے (کافر) کہتے رہے ہیں۔ (81) کہتے ہیں کہ جب ہم مر جائیں گے اور خاک اور ہڈیاں ہو جائیں گے تو کیا ہم دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ (82) ہم سے بھی اور اس سے پہلے ہمارے باپ داداؤں سے بھی یہ وعدہ ہوتا آیا ہے۔ یہ کچھ بھی نہیں صرف پہلے عہدوں کے افسانے ہیں۔ (83) آپ کہہ دیجیے اگر تم جانتے ہو تو (بتاؤ) کہ زمین اور جو اس میں رہتے ہیں کس کیلئے ہیں؟ (84) وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ کیلئے ہیں۔ تو کہئے کہ تم غور کیوں نہیں کرتے؟ (85) آپ کہئے کہ سات آسمانوں اور اس بڑے تخت سلطنت کا پروردگار کون ہے؟ (86) وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ ہے! کہئے کیا تم پھر بھی پرہیزگار نہیں بنتے (اس سے نہیں ڈرتے؟)۔ (87) آپ کہئے کہ اگر جانتے ہو تو بتاؤ کہ ہر چیز کی بادشاہی کس کے قبضہ میں ہے۔ جو سب کو پناہ دیتا ہے۔ مگر اس کے مقابلہ میں پناہ نہیں دی جا سکتی۔ (88) وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ کے! تو کہئے! کہ پھر تم پر کہاں سے جادو کیا جا رہا ہے؟ (89)
بلکہ ہم ان کے سامنے حق لے آئے ہیں۔ اور یقیناً وہ جھوٹے ہیں۔ (90) اللہ نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی الہ ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنی مخلوق کو لے کر الگ ہو جاتا اور پھر ایک خدا دوسرے خدا پر چڑھ دوڑتا۔ پاک ہے خدا اس سے جو لوگ بیان کرتے ہیں۔ (91) وہ غیب و شہادت یعنی پوشیدہ اور ظاہر سب کا جاننے والا ہے۔ اور وہ اس شرک سے بلند و بالا ہے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں۔ (92) (اے رسول(ص)) آپ کہئے کہ اے میرے پروردگار اگر تو مجھے وہ عذاب دکھا دے جس کی ان لوگوں کو دھمکی دی جا رہی ہے۔ (93) تو اے میرے پروردگار! مجھے ظالم لوگوں میں شامل نہ کرنا۔ (94) اور ہم اس عذاب کے آپ کو دکھانے پر قادر ہیں جس کی ان کو دھمکی دی جا رہی ہے۔ (95) (اے رسول(ص)) آپ برائی کو احسن طریقہ سے دفع کریں۔ ہم خوب جانتے ہیں جو وہ (آپ کی نسبت) بیان کرتے ہیں۔ (96) اور آپ کہئے! اے میرے پروردگار! میں شیطانوں کے وسوسوں سے تجھ سے پناہ مانگتا ہوں۔ (97) اور اے میرے پروردگار! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ (شیطان) میرے پاس آئیں۔ (98) (کافروں کی یہی حالت رہتی ہے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آکھڑی ہوتی ہے تو (تب) کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار! مجھے (ایک بار) اسی دنیا میں واپس بھیج دے جسے میں چھوڑ آیا ہوں۔ (99) تاکہ میں نیک عمل کر سکوں (ارشاد ہوگا) ہرگز نہیں! یہ محض ایک (فضول) بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے اور ان کے (مرنے کے) بعد برزخ کا زمانہ ہے ان کے (دوبارہ) اٹھائے جانے تک۔ (100) پھر جب صور پھونکا جائے گا تو اس دن نہ تو ان کے درمیان رشتے ناطے رہیں گے اور نہ ہی ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔ (101) (ہاں البتہ) جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی کامیاب ہوں گے۔ (102) اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو یہ وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا (اور) وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (103) آگ ان کے چہروں کو جھلسا رہی ہوگی اور ان کی شکلیں اس میں بگڑ گئی ہوں گی۔ (104)
(ان سے کہا جائے گا) کیا تمہارے سامنے ہماری آیتیں نہیں پڑھی جاتی تھیں اور تم انہیں جھٹلاتے تھے؟ (105) (وہ اس وقت) کہیں گے اے ہمارے پروردگار! ہم پر ہماری بدبختی غالب آگئی تھی۔ اور واقعی ہم گمراہ لوگ تھے۔ (106) اے ہمارے پروردگار! (ایک بار) ہمیں اس سے نکال دے۔ پھر اگر ہم ایسا کریں گے تو بےشک ہم سراسر ظالم ہوں گے۔ (107) ارشاد ہوگا اور مجھ سے کوئی بات نہ کرو۔ (108) (تمہیں یاد ہے) کہ بےشک میرے بندوں میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو کہتا تھا: اے ہمارے پروردگار! ہم ایمان لائے ہیں! پس تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر اور تو بہترین رحم کرنے والا ہے۔ (109) تو تم ان کا مذاق اڑاتے تھے یہاں تک کہ (گویا) انہوں نے تمہیں میری یاد بھی بھلا دی اور تم ان پر ہنستے تھے۔ (110) (دیکھو) آج میں نے انہیں ان کے صبر کی جزا دی ہے۔ وہی کامران ہیں۔ (111) ارشاد ہوگا تم کتنے برس تک زمین میں رہے ہو؟ (112) وہ کہیں گے: ایک دن یا ایک دن کا بھی کچھ عرصہ۔ سو تو گننے والوں سے پوچھ لے۔ (113) ارشاد ہوگا: تم نہیں رہے۔ مگر تھوڑا عرصہ کاش تم نے یہ بات سمجھی ہوتی۔ (114) کیا تمہارا یہ خیال تھا کہ ہم نے تمہیں بلا مقصد پیدا کیا ہے اور تم نے کبھی ہماری طرف پلٹ کر نہیں آنا ہے؟ (115) اللہ جو حقیقی بادشاہ ہے (ایسی بات سے) بلند و برتر ہے اس کے سوا کوئی الہ نہیں ہے۔ وہ عزت و عظمت والے عرش کا مالک ہے۔ (116) اور جو کوئی اللہ کے سوا کسی دوسرے (خود ساختہ) الہ (خدا) کو پکارتا ہے تو اس کے پاس اس کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے تو اس کا حساب و کتاب پروردگار کے پاس ہے۔ اور جو کافر ہیں وہ کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔ (117) اور (اے رسول(ص)) آپ کہئے! اے میرے پروردگار! تو بخش دے اور رحم فرما۔ اور تو بہترین رحم کرنے والا ہے۔ (118)