تسبیح
دعا و مناجات |
تَسْبیح یا سبحان اللہ، خدا کو ان سب چیزوں سے پاک و منزہ جاننا ہے جو اس کے لائق نہیں اور خدا کو پاکی اور پاکیزگی کے ساتھ یاد کرنا۔ خدا کی تسبیح میں سب سے افضل ذکر سبحان اللہ کہنا ہے۔ تسبیح مستحب ہے اور تسبیح کا مناسب ترین اور بہترین وقت طلوع و غروب آفتاب ہے۔
قرآن کی سات سورتوں کو کا آغاز تسبیح سے ہوتا ہے اور یہ سورتیں مسبحات کے نام سے مشہور ہیں۔ تسبیحات حضرت زہرا(س) بھی اہل تشیع کی مشہورترین تسبیحات اور اذکار میں سے ہے جس پر بہت سی روایات میں تاکید ہوئی ہے۔
دھاگے میں پروئے ہوئے (عام طور پر 101) دانوں کے مجموعے کو ـ جو ذکر کے لئے استعمال ہوتا ہے ـ بھی تسبیح کہا جاتا ہے۔
تعریف
تَسْبیح سے مراد خدا کو اس کے تمام سلبی صفات اور ہر قسم کے نقائص اور نیازمندی سے پاک و منزہ جاننا ہے۔[1] اسی طرح تسبیح کے رائج معانی میں سے ایک سبحان اللہ کہنا ہے۔
تسبیح قرآن میں
لفظ تسبیح اور اس کے مشتقات تذکرہ قرآن میں 90 مرتبہ آیا ہے اور ان الفاظ میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ سبحان" ہے۔ ان میں سے اکثر الفاظ و اصطلاحات کے معنی تقدیس اور تنزیہ کے ہیں۔
تسبیح قرآن کریم میں کبھی حمد کے ہمراہ ہے، جیسے ملائکہ اور رعد وغیرہ کی تسبیح۔[2] مفسرین کی رائے ہے کہ حمد و تسبیح کی اس معیت کے معنی یہ ہیں کہ کہ ہم خود تیری تسبیح کی قوت نہیں رکھتے بلکہ تیری حمد و جلال کے واسطے سے تیری تسبیح کرتے ہیں۔ یا یہ کہ اگر تیرا لطف اور تیری توفیق نہ ہوتی تو تیری تسبیح نہ کہہ سکتے۔[3]
قرآن کریم کی گواہی کے مطابق، خداوند متعال سب سے پہلے تسبیح گو ہے،[4] اور اللہ کے بعد وہ جو پروردگار کے پاس ہیں،[5] سپس آنان که نزد پروردگارند. [6] ملائکہ بھی یا حمد کے ساتھ،[7] یا اس کے بغیر،[8] خداوند متعال کی تسبیح گوئی میں مصروف رہتے ہیں اور بہت سے مفسرین نے اس تسبیح کو نماز سے تعبیر کیا ہے[9]
قرآن کریم کے مطابق، عالم وجود کے تمام اجزاء،[10] منجملہ پہاڑ اور پرندے[11] افلاک، سورج، چاند، ستارے، زمین پر زندہ موجودات اور اکثر انسان اللہ کے تسبیح گو ہیں۔[12]
تسبیح کا وقت
قرآن کی بعض آیات کریمہ ہر صبح اور ہر شام کو، تسبیح کا فرمان دیتی ہیں[13] اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر وقت خدا کی تسبیح کی / کہی جاسکتی ہے۔
لیکن بعض دوسری آیات میں خاص اوقات میں تسبیح کا حکم دیا گیا ہے؛ بطور مثال طلوع و غروب آفتاب، سے قبل،[14] آدھی رات،[15] رات کے دوران اور دن کے اطراف میں،[16] اور بعد از سجدہ۔[17]
بہرحال، طلوع اور غروب آفتاب کے وقت تسبیح پر زور دیا جاتا ہے، یعنی رات کے دن میں دن کے رات میں تبدیلی کے وقت، جو عبور اور تنزیہ کے مفہوم سے ہمآہنگ ہے؛ اگرچہ بعض نے اس کو نماز سے تعبیر کیا ہے جو تسبیح کی بہترین شکل ہے۔[18]
تسبیح کی اقسام
سبحان اللّه
تسبیح کا نمایاں ترین مصداق "سبحان اللہ" ہے۔
رکوع اور سجدے کا ذکر
نماز، کے رکوع اور سجدے کا ذکر بھی تسبیحات میں سے ہے:
تسبیحات اربعہ
تفصیلی مضمون: تسبیحات اربعہ
اسلامی آداب میں تسبیح سے عام طور پر "سُبْحانَ اللہِ" مراد ہے؛ لیکن یہ اصطلاح اپنے وسیع تر اطلاق و استعمال میں، "اللہُ اکْبَرُ" (تکبیر)، "لاٰ الٰہَ اِلّا اللہُ" (تہلیل) اور "الحَمْدُ لِلّٰہِ" (تحمید) بھی مشتمل ہے۔ تسبیحات اربعہ، جو نماز کے واجب اذکار میں شامل ہے، ان ہی چار اجزاء پر مشتمل ہے۔[19]
تسبیحات حضرت زہراؑ
تفصیلی مضمون: تسبیحات حضرت زہراؑ
مشہور ترین شیعہ اذکار میں سے ایک ـ جس پر روایات میں بہت تاکید ہوئی ہے اور اس کے لئے فضائل کثیرہ بیان ہوئے ہیں، ـ تسبیحات حضرت زہراؑ ہیں جو نماز کی اہم ترین تعقیبات اور سونے کے وقت کے اہم ترین آداب میں شمار ہوتی ہیں۔ یہ ذکر 34 مرتبہ "اللہُ اکْبَرُ"، "33 مرتبہ الحَمْدُ لِلّٰہِ" اور 33 مرتبہ "سُبْحانَ اللہِ" پر مشتمل ہے۔[20]خطا در حوالہ: Closing </ref>
missing for <ref>
tag
دھاگے میں پروئے ہوئے مٹی، پتھر، لکڑی، پلاسٹک وغیرہ کے دانوں یا مہروں کے مجموعے کو بھی تسبیح کہا جاتا ہے، جس کو ذکر یا مصروفیت یا پھر استخارے کے لئے اٹھایا جاتا ہے۔[21]
تسبیح کے دانوں یا مہروں کی تعداد عام طور پر 101 ہے جو 33 دانوں کے تین حصوں پر مشتمل ہے اور یہ حصے مختلف شکل کے دو مہروں سے ایک دوسرے سے الگ ہوئے ہیں۔ مہروں کی یہ تعداد اور تقسیم کی کیفیت تسبیحات حضرت زہراؑ سے ہمآہنگ ہے۔
تسبیح (سبحه)
دھاگے میں پروئے ہوئے دانوں کے مجموعے کو تسبیح کہا جاتا ہے جسے عموما ذکر پڑھنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ تسبیح کو عموما خاک، پتھر، لکڑی اور پلاسٹیک وغیرہ سے بنائی جاتی ہے۔ [22]
تسبیح عموما 101 دانوں پر مشتمل ہوتی ہے جو تین حصوں میں تقسیم ہوتی ہے اور ہر حصے میں 33 دانے ہوتے ہیں جبکہ ان حصوں کو جدا کرنے کے لئے دو چھوٹے یا بڑے دانے استعمال کئے جاتے ہیں۔ تسبیح کے دانوں کی تعداد اور ان کی تقسیم بندی تسبیحات حضرت زہرا(س) کے تحت معین کئے گئے ہیں۔
مُسَبِّحات
قرآن کی صف، اعلی، حدید، جمعہ، تغابن، حشر اور اسراء نامی سورتیں، جن کا آغاز تسبیح سے ہوتا ہے، مُسَبِّحات کے نام سے مشہور ہیں۔[23]
حوالہ جات
- ↑ فراہیدی، العین، ۱۹۸۱م، ج۳، ص۱۵۱-۱۵۲؛ راغب اصفہانی، المفرات، ۱۴۱۲ق، ص۲۲۱؛ فخر رازی، تفسیر کبیر، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۱۸۸۔
- ↑ وَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلاَئِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ وَيُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَيُصِيبُ بِهَا مَن يَشَاءُ وَهُمْ يُجَادِلُونَ فِي اللّهِ وَهُوَ شَدِيدُ الْمِحَالِ (ترجمہ: اور بادل کی گرج تسبیح پڑھتی ہے اس کی تعریف کے ساتھ اور فرشتے بھی اس کے ڈر سے اور وہ گرتی ہوئی بجلیاں روانہ کرتا ہے تو انہیں پہنچاتا ہے جس تک چاہتا ہے اور وہ لوگ تکرار کرتے ہیں اللہ کے بارے میں اور وہ سخت عذاب والا ہے۔)[؟–13]
- ↑ فخرالدین، تفسیر کبیر، ج2، ص 188۔ طباطبائی، المیزان، ج15، ص111۔
- ↑ اسراء، آیت، 93۔
- ↑ اسراء، آیت، 93۔
- ↑ اعراف، آیت 206۔
- ↑ بقرہ، آیت30۔
- ↑ بقرہ، آیت32۔
- ↑ طبری، جامع البیان، ج1، ص166ـ167۔، فخرالدین، تفسیر کبیر، ج2، ص189۔
- ↑ اسراء، آیت 44۔
- ↑ انبیاء، آیت79۔
- ↑ حج، آیت 18۔، طباطبائی، المیزان، ج13، ص110ـ112۔
- ↑ آل عمران، آیت 41 ۔، مریم، آیت 11 ۔، احزاب، آیت 43۔، غافر، آیت 50۔
- ↑ طہ، آیت 130۔، ق، آیت 39۔
- ↑ طور، آیت 48۔
- ↑ طہ، آیت 130۔، انسان، آیت 26۔، طور، آیت 49۔
- ↑ ق، آیت 40۔
- ↑ میبدی، کشف الاسرار، ج1، ص134۔
- ↑ نووی، الاذکار، ص282ـ285۔، مجلسی، بحار الانوار، ج87، صص251 ، 254، 287۔، مجلسی، وہی ماخذ، ج88، ص122
- ↑ صدوق، ثواب الاعمال، ص196ـ197۔حلی (علامہ)، ج1، ص511ـ512۔شہید ثانی، الروضۃ البہیہ، ج1، ص 285۔مجلسی، بحار الانوار، ج76، ص206۔مجلسی، وہی ماخذ، ج102، صص89، 240 و 260۔
- ↑ انوری، فرہنگ بزرگ سخن، ذیل لفظ "تسبیح"۔
- ↑ انوری، فرہنگ بزرگ سخن، ۱۳۸۱ش، ذیل واژہ تسبیح۔
- ↑ قریب، تبیین اللغات، ج1، ص524۔
مآخذ
- قرآن کریم.
- ابنمنظور، لسان العرب.
- خلیل بناحمد، العین، بہ کوشش مہدی مخزومی و ابراہیم سامرائی، بغداد، 1981ـ1982ع۔
- صدوق، محمد بنعلی بنبابویہ، ثواب الاعمال، بہ کوشش حسین اعلمی، بیروت، 1410ھ ق۔
- شہید ثانی، زینالدین، الروضةالبہیۃ، بیروت، 1403ھ ق۔
- طباطبائی، سیدمحمدحسین، المیزان، بیروت، 1417ھ ق۔
- طبری، محمد بنجریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بولاق، الامیر، 1323ھ ق۔
- طوسی، محمد، التبیان، بہ کوشش قصیر عاملی، نجف، 1383ھ ق۔
- حلی، حسـن (علامہ)، نہایۃالاحکام، بہ کـوشش مہدی رجایـی، قـم، 1410ھ ق۔
- فخرالدین رازی، تفسیر کبیر، بیروت، 1405ھ ق۔
- فرہنگ بزرگ سخن، بہ سرپرستی حسن انوری، تہران، سخن، 1381ھ ش۔
- قریب، محمد، تبیین اللغات لتبیان الآیات، تہران، 1366ھ ش۔
- مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، 1403ھ ق۔
- میبدی، ابوالفضل، کشف الاسرار و عدۃالابرار، بہ کوشش علیاصغر حکمت، تہران، 1361ھ ش۔
- نووی، یحیی، الاذکار، بہ کوشش احمد راتب حموش، دمشق، 1983ع۔
- نووی، یحیی، تہذیب الاسماء و اللغات، بیروت، دارالکتب العلمیہ.