استخارہ

فاقد سانچہ
ویکی شیعہ سے

اِسْتِخارہ‌، طلب خیر اور شک و تردید کے موقع پر اپنے امور کے انتخاب کو خدا پر چھوڑنے کو کہا جاتا ہے۔ استخارہ مختلف طریقوں سے انجام پاتا ہے؛ من جملہ ان میں نماز اور دعا کے ذریعے استخارہ کرنا، قرآن کے ذریعے استخاره کرنا، استخارہ ذات‌الرِّقاع (کاغذ کے ذریعے استخارہ کرنا) اور تسبیح کے ذریعے استخارہ کرنا شامل ہیں۔

علماء استخارے کی مشروعیت کو ثابت کرنے کے لئے مختلف احادیث سے استناد کرتے ہیں۔ شیخ عباس قمی نے استخارہ کے بعض طریقوں کو مفاتیح الجنان میں ذکر کئے ہیں۔ استخارہ کے بعض آداب یہ ہیں: قرآن کی بعض آیتوں یا سورتوں کی تلاوت کرنا، پیغمبر اکرمؐ اور آپ کی آل پر صلوات بھیجنا نیز بعض مخصوص اذکار کا پڑھنا۔

علامہ مجلسی کے مطابق اصل یہ ہے کہ ہر شخص خود اپنے لئے استخارہ کرے؛ لیکن بعض علماء اس کام کے لئے دوسرے کی طرف بھی رجوع کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں اور موجودہ دور میں استخارہ کے لئے لوگ علماء کی طرف مراجعہ کرتے ہیں۔

بعض مشہور استخارے نقل ہوئے ہیں؛ من جملہ ان میں عبدالکریم حائری مؤسس حوزہ علمیہ قم کا قم میں اقامت کے لئے استخارہ اور محمدعلی شاہ قاجار کا مجلس شورای ملی میں شامل ہونے کے لئے استخارہ۔

بعض کتابیں جو مستقل طور پر استخارہ کے بارے میں لکھی گئی ہیں درج ذیل ہیں: فَتحُ‌الاَبواب، تحریر سید بن طاووس، اِرشاد المُستَبصِر فی الاِستخارات، تألیف سید عبداللہ شُبَّر اور الاِثارۃ عن معانی الاِستخارہ، تحریر فیض کاشانی۔

مفہوم‌ شناسی

استخارہ لغت‌ میں طلب خیر،[1] دو کاموں میں سے بہترین کے انتخاب کی درخواست[2] اور دعا[3] کے معنی میں آیا ہے؛ لیکن موجودہ دور میں کسی ایسے کام کے انتخاب کو خدا پر چھوڑنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جس کے متعلق انسان تردد کا شکار ہو اور دوسروں کے ساتھ مشورت کے ذریعے اس کام میں موجود خیر و شر کی تشخیص ممکن نہ ہو۔[4]

استخارہ کے طریقے

حدیثی منابع میں استخارہ کے مختلف طریقے بیان ہوئے ہیں جن میں نماز، دعا، قرآن اور تسبیح کے ذریعے استخارہ کرنا نیز استخارہ ذات‌الرِّقاع (کاغذ کے استخارہ کرنا) کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان طریقوں میں سے ہر ایک میں مختلف صورتوں میں استخارہ انجام دیا جاتا ہے۔ کتاب مفاتیح‌الجنان میں شیخ عباس قمی نے استخارہ کے بعض طریقوں کو ذکر کئے ہیں۔[5]

نماز کے ذریعے استخارہ کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے دو رکعت‌ نماز ادا کی جائے پھر نماز کے بعد سجدے میں جا کر 100 دفعہ کہے : "اَستخیر اللّہ فی جمیع اُموری خيرة فی عافی" (میں تمام امور میں خدا سے طلب خیر کرتا ہوں)۔ اس کے بعد خدا اس کے دل میں جو بھی خطور کرے اسی کو انجام دے گا۔[6]

امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث میں قرآن کے ساتھ استخارہ کرنے کا ایک طریقہ یوں آیا ہے: اگر انسان کسی کام کو انجام دینے اور نہ دینے میں مردد ہو تو جب نماز کے لئے تیار ہو جائے تو قرآن کھولیں اور اس میں سب سے پہلے جس چیز کا مشاہدہ ہو اس پر عمل کرے۔[7]

کاغذ کے ساتھ استخارہ‌ کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ کاغذ کے دو ٹکروں میں سے ایک پر "اِفْعَل" (انجام دے دو) اور دوسرے پر "لا تَفْعَل" (انجام مت دو) پھر خاص اعمال انجام دینے کے بعد ان میں سے کسی ایک کو اٹھا لے اور اسی کے مطابق عمل کرے۔[8]

ابن ادریس حلی کاغذ کے ساتھ استخارہ‌ کرنے کے بارے میں موجود احادیث کو غیر معتبر قرار دیتے ہیں؛[9] لیکن شہید اول ان کی بات کو یہ کہ کر رد کرتے ہیں کہ کاغذ کے ساتھ استخارہ کرنا امامیہ کے نزدیک مشہور ہے۔[10]

تسبیح کے ساتھ استخارہ کرنا یوں انجام دیا جاتا ہے کہ سورہ حمد(حداقل تین مرتبہ یا کم از کم ایک مرتبہ) اور سورہ قدر دس مرتبہ نیز مخصوص‌ دعا [یادداشت 1] پڑھ کر تسبیح کے ایک حصے کو یا کچھ مقدار میں کنکریوں کو جدا کریں پھر انہیں دو دو کر کے گنا شروع کریں۔ اگر باقی ماندہ زوج ہو تو مطلوبہ کام کو ترک کریں گے اور اگر فرد ہو تو اسے انجام دیں گے۔[11]

شہید اول کے مطابق تسبیح یا کنکریوں کے ساتھ استخارہ‌ کرنے کی سند رضی الدین آبی تک پہنچتی ہے۔[12] البتہ سید ابن طاووس‌ نے اس سند کو ائمہ تک پہنچایا ہے۔[13] اور صاحب جواہر (۱۲۰۲-۱۲۶۶ھ) کے مطابق ان کے زمانے میں علماء اسی طریقے سے استخارہ کرتے تھے۔[14]

مشروعیت

ظہور اسلام سے پہلے استخارہ کی ایک قسم "استقسام بہ ازلام" کے نام سے رایج تھی[15] جو تیرِ و کمان کے ذریعے انجام دیا جاتا تھا۔[16] بعض علماء من جملہ سنی عالم دین شیخ شلتوت نے سورہ مائدہ کی آیہ نمبر 3 سے استناد کرتے ہوئے استخارہ کی اس قسم کو حرام قرار دیتے ہوئے اسے ایک نا مشروع عمل قرار دیا ہے؛[17] لیکن شیعہ مرجمع تقلید آیت‌اللہ صافی گلپایگانی استسقام اور استخارہ کے درمیان تفاوت قائل ہوتے ہوئے شیخ شلتوت کی بات کو رد کرتے ہیں[18] اور استخارہ کی استحباب کو متعدد احادیث سے ثابت کرتے ہیں۔[19]

آداب و شرایط

استخارہ کے آداب و شرایط بھی ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں:

  • جس کام کے لئے استخارہ کر رہا ہو اس کا مباح‌ ہونا: استخارہ مباح کاموں میں تردید کو ختم کرنے کے لئے ہے، نہ نیک کاموں کے لئے۔
  • استخارہ خود لئے انجام دے: علامہ مجلسی کے مطابق کوئی ایسی حدیث نہیں ہے جس میں کسی اور شخص کی وکالت میں استخارہ کرنے کی بات ہوئی ہو۔ اس بنا پر بہتر یہ ہے کہ ہر انسان اپنے لئے خود استخارہ انجام دے۔[20]البتہ علامہ مجلسی سید ابن طاووس سے نقل کرتے ہیں کہ انسان کسی دوسرے کے لئے بھی استخارہ کر سکتا ہے۔[21]
  • استخارہ مشورت کے بعد ہے: یعنی استخارہ سے پہلے مشورت کرنا چاہئے، اگر مشورت کے ذریعے کسی نتیجے تک نہ پہنچ پائے تو پھر استخارہ کرنا چاہئے۔[22]
  • استخارہ کرنے کی جگہ: شہید اول کے مطابق بہتر یہ ہے کہ استخارہ دعا کے ہمراہ مسجد اور حرموں میں کرنا چاہئے۔[23] بعض احادیث میں حرم امام حسین میں استخارہ کرنے کے بارے میں آیا ہے۔[24]
  • استخارہ کا وقت: فیض کاشانی نے کتاب تقویم المحسنین میں قرآن کے ساتھ استخارہ کرنے کے لئے ہر روز مخصوص اوقات ذکر کئے ہیں؛‌ لیکن بعض میں انہوں نے خود اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ اوقات اہل‌ ایمان کے یہاں مشہور ہے کسی حدیث میں نہیں آیا ہے۔[25] صاحب‌ جواہر کے مطابق نماز استخارہ کے لئے کوئی خاص وقت معین نہیں ہے۔[26] البتہ قرآن کے ساتھ استخارہ کرنے کے لئے اوقات نماز میں استخارہ کرنا چاہئے۔[27]
  • استخارہ پر عمل کرنا: استخارہ پر عمل کرنا ضروری نہیں، لیکن بہتر ہے اس پر عمل کیا جائے۔[28]

مخصوص دعاوں کا پڑھنا،[29] قرآن کی بعض سورتوں کی تلاوت کرنا[30] اور صلوات بھیجنا[31] نیز استخارہ کے آداب میں ذکر ہوا ہے جنہیں استخارہ سے پہلے انجام دینے کی سفارش ہوئی ہے۔

معروف استخارے

بعض معروف استخارے درج ذیل ہیں:

  • محمدعلی شاہ قاجار کے استخارے: وہ مختلف امور کے لئے استخارہ کیا کرتے تھے من جملہ ان میں سنہ 1287ش کو مجلس شورای ملی پر حملہ کرنے نیز بعض افراد کو جلاوطن کرنے کے لئے استخارہ کرتے تھے۔[32]
  • ناصرالدین شاہ کی طرف سے ہرات پر ایران کی حاکمیت کو قبول کرنے کے لئے کیا گیا استخارہ: [33]سنہ ۱۲۹۶ش انگلستان نے نامعلوم مدت کے لئے ہرات کو ایران میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا، ناصرالدین شاہ نے اسے قبول کرنے کے لئے مشورتوں کے بعد استخارہ سے سے مدد لیا۔[34]
  • عبدالکریم حائری یزدی کا قم میں اقامت کے لئے استخارہ: آیت‌ اللہ حائری موسس حوزہ علمیہ قم سنہ 1340ھ کو قم تشریف لے گئے۔ اس سفر کے دوران بعض علماء اور قم کے باسیوں کی جانب سے انہیں یہاں قیام کرنے کی درخواست کی گئی۔ شروع میں آپ مردد تھے لیکن جب علماء نے زیادہ زور دیا تو آپ نے قم میں رہنے کے لئے استخارہ کیا اور قم میں قیام پذیر ہوئے۔[35]
  • نجف کے بزرگان کی طرف سے ملا قربان علی زنجانی کے لئے استخارہ: آپ زنجان میں زندگی بسر کرتے تھے اور مشروطہ کے مخالفین میں سے تھے۔ مشروطہ‌ کے حامی انہیں تہران میں تحت‌ نظر رکھنا چاہتے تھے، لیکن نجف کے بزرگان جو مشروطہ کے حامی تھے نے استخارہ کیا اور ا­نہیں نجف عراق بھیجنے کی درخواست کی۔[36]

کتاب "کندوکاوی دربارہ استخارہ و تفأل" میں بعض شیعہ علماء من جملہ شیخ انصاری، فیض کاشانی، شہید ثانی اور سید ابن طاووس کے استخارہ کا ذکر ملتا ہے۔[37]

کتابیات

استخارہ کے بارے میں مستقل طور پر بعض کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں عیاشی کی کتاب "استخارہ" اور زبیری شافعی کی کتاب "الاستخارہ و الاستشارہ" کو اس سلسلے میں لکھی گئی ابتدائی کتب کے طور پر جانا جاتا ہے۔ استخارہ کے بارے میں لکھی گئی بعض دیگر کتب درج ذیل ہیں:

  • فَتحُ الأبواب بَینَ ذَوی الألباب وَ بَینَ رَبّ الأرباب فِی الإستخارات، تألیف سید بن طاووس (متوفی 664ھ): یہ کتاب عربی میں لکھی گئی ہے جس میں استخارہ کی مشروعیت اور اس کے مختلف طریقے بیان کی گئی ہیں۔
  • "کندوکاوی دربارہ استخارہ و تفأل"، تحریر ابوالفضل طریقہ‌دار: اس کتاب میں استخارہ کے مختلف طریقوں کو مطلق، قلبی، مشورتی، قرآن، کاغذ اور تسبیح کے ساتھ استخاره میں تقسیم کئے گئے ہیں۔[38]

نوٹ

  1. تین مرتبہ: اللہم إني أستخيرك لعلمك بعاقبۃ الأمور، و أستشيرك لحسن ظني بك في المأمول و المحذور۔ اللہم إن كان الأمر الفلاني مما قد نيطت بالبركة اعجازہ و بواديہ، و حفّت بالكرامة أيامہ و لياليہ، فخر لي اللہم فيہ خيرة ترد‌ شموسہ ذلولا، و تقعض أيامہ سرورا۔ اللہم إما أمر فائتمر، و اما نہي فانتہي۔ اللہم إني أستخيرك برحمتك خيرة في عافية؛ (ترجمہ: خدایا میں تجھ سے خیر کی درخواست کرتا ہوں توں مجھے میرے کاموں کے انجام خیر سے مطلع فرما اور میں آپ کے ساتھ مشورت کرتا ہوں چوں مجھے تجھ پر نیک گمان ہے ان چیزوں میں جن کے بارے میں مجھ خوف اور میرے آرزو ہے۔ خدایا یہ کام اگر ان کاموں میں سے ہو جسکا آغاز اور انجام خیر اور نیکی پر ہو اور دین اور رات کرامت والی ہو تو اس کام کو میرے لئے انتخاب فرما۔ خدایا اس کام کی نیکی میں موجود سختی کو سہل اور آسان اور اس کے دنوں کو خوشگوار بنا دے۔ خدایا اگر اس میں آپ حکم کریں تو انجام دوں گا اور اگر نہی فرمائے تو اس سے دوری اختیار کروں گا۔ خدایا میں تیری رحمت کا سوالی ہوں (شہید اول، ذکری الشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۲۶۹و۲۷۰)۔)

حوالہ جات

  1. ابن‌اثیر، النہایۃ، مؤسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان، ج۲، ص۹۱، ذیل واژہ «خیر»۔
  2. ابن‌فارس، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۲۳۲، ذیل واژہ «خیر»۔
  3. ابن‌ادریس، السرائر، ۱۴۱۰ق‌، ج۱، ص۳۱۴۔
  4. ضميرى و حسينى‌زادہ، «استخارہ»۔
  5. رجوع کریں: قمی، مفاتیح‌الجنان، ۱۳۷۶ش، ص۸۴۲تا۸۵۱، حاشیہ کتاب۔
  6. ابن‌ادریس، السرائر، ۱۴۱۰ق‌، ج۱، ص۳۱۴۔
  7. طوسی‌، تہذیب‌ الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۳۱۰۔
  8. کلینی‌، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۴۷۳۔
  9. ابن‌ادریس حلی، السرائر، ۱۴۱۰ق‌، ج۱، ص۳۱۳و۳۱۴۔
  10. شہید اول، ذکری الشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۲۶۶-۲۶۷۔
  11. شہید اول، ذکری لشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۲۶۹و۲۷۰۔
  12. شہید اول، الذکری الشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۲۶۹۔
  13. شہید اول، الذکری الشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۲۶۹-۲۷۰۔
  14. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق‌، ج۱۲، ص۱۶۳۔
  15. ابن‌حبیب، المحبر، دار الآفاق الجدیدہ، ص۱۹۶۔
  16. جصاص، احکام القرآن، ۱۴۰۵ق، ج۳، ص۳۰۶۔
  17. عباسی‌مقدم، «بررسی مبانی و ماہیت استخارہ»، ص۳۲۔
  18. گلپایگانی، بحوث حول الاستسقام (مشروعیۃ الاستخارہ)، ص۸-۱۔
  19. گلپایگانی، بحوث حول الاستسقام (مشروعیۃ الاستخارہ)، ص۷تا۹۔
  20. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۸، ص ۲۸۵۔
  21. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۸، ص ۲۸۵۔
  22. «دعانویسی و استخارہ‏»، دفتر حفظ و نشر آیت‌اللہ العظمی خامنہ‌ای۔
  23. شہید اول، ذکری‌الشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۲۶۷۔
  24. شہید اول، ذکری‌الشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۲۶۷۔
  25. فیض کاشانی، تقویم‌المحسنین، ۱۳۱۵ق، ص۵۸و۵۹۔
  26. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق‌، ج۱۲، ص۱۵۵۔
  27. طوسی‌، تہذیب‌ الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۳۱۰۔
  28. «دعانویسی و استخارہ‏»، دفتر حفظ و نشر آیت‌اللہ العظمی خامنہ‌ای۔
  29. کلینی‌، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۴۷۳۔
  30. شہید اول، الذکری الشیعہ، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۲۶۹-۲۷۰۔
  31. کلینی‌، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۴۷۲۔
  32. توکلی، «ورقی از تاریخ مشروطہ، چند استخارہ از محمدعلی شاہ با جواب‌ہای آنہا»، ص۵۷۔
  33. تیموری، ««ناصرالدین شاہ و استخارہ برای قبول حاکمیت ایران بر ہرات»، ص۲۶۵۔
  34. تیموری، «ناصرالدین شاہ و استخارہ برای قبول حاکمیت ایران بر ہرات»، ص۲۵۲-۲۵۳۔
  35. طریقہ‌دار، کندوکاوی دربارہ استخارہ و تفأل، ۱۳۷۷ش، ص۳۸۔
  36. شبیری زنجانی، جرعہ‌ای از دریا، ۱۳۹۳ش، ج۳، ص۳۵۲و۳۵۳۔
  37. طریقہ‌دار، کندوکاوی دربارہ استخارہ و تفأل، ۱۳۷۷ش، ص۲۵تا۷۷۔
  38. طریقہ‌دار، کندوکاوی دربارہ استخارہ و تفأل، ۱۳۷۷ش، ص۱۰۱-۱۱۳۔

مآخذ

  • ابن‌اثیر، مبارک بن محمد، النہایۃ فی غریب الحدیث و الاثر، قم، مؤسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان، بی‌تا۔
  • ابن‌‌ادریس‌ حلی، محمد بن منصور، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، قم‌، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۰ق‌۔
  • ابن‌حبیب، محمد بن حبیب، المحبر، تحقیق ایلزہ لیختن شتیتر، بیروت، دار الآفاق الجدیدہ، بی‌تا۔
  • اسفندیاری، آمنہ، «استخارہ اینترنتی صحیح است؟!!»، تبیان، تاریخ درج مطلب:‌ ۱۳ تیر ۱۳۹۱ش، تاریخ مشاہدہ: ۳۰ تیر ۱۳۹۸ش۔
  • ابن‌فارس، احمد بن فارس، معجم مقائیس اللغۃ، تحقیق عبدالسلام محمد ہارون، قم، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، ۱۴۰۴ق۔
  • توکلی، احمد، ورقی از تاریخ مشروطہ: چند استخارہ از محمدعلی‌شاہ با جواب‌ہای آنہا، در مجلہ یادگار، شمارہ ۴۸ و ۴۹، فروردین و اردیبہشت ۱۳۲۸ش۔
  • تیموری، ابراہیم، «ناصرالدین شاہ و استخارہ برای قبول حاکمیت ایران بر ہرات»، در مجلہ بخارا، شمارہ ۱۰۰، خرداد و تیر ۱۳۹۳ش۔
  • جصاص، احمد بن علی، احکام‌القرآن، تحقیق محمد صادق قمحاوی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۵ق۔
  • «دعانویسی و استخارہ»، دفتر حفظ و نشر آیت‌اللہ العظمی خامنہ‌ای، تاریخ مشاہدہ: ۳۰ تیر ۱۳۹۸ش۔
  • شبیری زنجانی، سید موسی، جرعہ‌ای از دریا: مقالات و مباحث شخصیت‌شناسی و کتاب‌شناسی، قم، انتشارات مؤسسہ کتاب‌شناسی شیعہ، ۱۳۹۳ش۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، ذکری‌الشیعہ فی احکام الشریعہ، قم، مؤسسہ آل‌البیت علیہم‌السلام، ۱۴۱۹ق۔
  • ضميرى و حسينى‌زادہ، «استخارہ»، در دایرۃ المعارف بزرگ قرآن، تاریخ مشاہدہ:‌ ۳۰ تیر ۱۳۹۸ش۔
  • طریقہ‌دار، ابوالفضل، کندوکاوی دربارہ استخارہ و تفأل، قم، مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، ۱۳۷۷ش۔
  • طوسی، محمد بن حسن، تہذیب‌‌الاحکام‌، تصحیح حسن‌ موسوی‌ خرسان‌، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق۔
  • فیض کاشانی، تقویم‌المحسنین، در کتاب توضیح‌المقاصد بہ ضمیمۃ تقویم‌المحسنین، نوشتہ شیخ بہایی، بی‌جا، بی‌نا، ۱۳۱۵ق۔
  • قمی، شیخ عباس، مفاتیح‌الجنان، تصحیح حسین استادولی، قم، صدیق، چاپ اول، ۱۳۷۶ش
  • نجفی، محمدحسن‌، جواہرالکلام‌ فی شرح شرائع‌الاسلام، تحقیق عباس قوچانی و علی آخوندی، بیروت‌، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۴ق‌۔
  • عباسی‌مقدم، مصطفی، «بررسی مبانی و ماہیت استخارہ»، در مجلہ مطالعات تاریخی قرآن و حدیث، شمارہ ۴۲، بہار و تابستان ۱۳۸۷ش۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق۔