امام علی‌ؑ کی شہادت

ویکی شیعہ سے
(امام علیؑ کی شہادت سے رجوع مکرر)
امام علیؑ پر ابن ملجم کی وار، پینٹنگ: یوسف عبدی نژاد

امام علی علیہ السلام کی شہادت پہلی صدی ہجری کے واقعات میں سے ایک ہے جس نے شیعوں کے حالات پر بہت گہرا اثر ڈالا۔ امام علیؑ کی شہادت شیعوں کے قتل و غارت اور امام علیؑ کی فوجوں کے خاتمے کا سبب بنی۔ امام کی شہادت کے ساتھ ہی اہل کوفہ کے درمیان مختلف رجحانات، اختلافات اور رنجشیں ظاہر ہو گئیں۔ امام علیؑ کے بعض اصحاب نے امام کی شہادت کے بعد کوفہ کی فوج کو اس ریوڑ سے تشبیہ دی ہے جس نے اپنا چرواہا کھو دیا ہے اور ہر طرف سے بھیڑیوں کے حملے کی زد میں ہیں۔

خوارج کا ایک گروہ حج کے بعد جمع ہوا جو مسلمانوں کی حالت پر نالاں تھے۔ آخر کار تین لوگوں نے امام علیؑ، معاویہ اور عمرو عاص کو قتل کرنے کی قسم کھائی۔ ابن ملجم نے امام علیؑ کو قتل کرنے کا عہد کیا۔ امام علی انیسویں رمضان کو اپنی بیٹی ام کلثوم کے مہمان تھے۔ صبح کی اذان سے پہلے آپ مسجد چلے گئے۔ آپ نے ابن ملجم سمیت مسجد میں سوئے ہوئے لوگوں کو نماز کے لیے جگایا اور محراب میں نماز کے لیے کھڑے ہوے۔

ابن ملجم نے سجدے میں یا سجدے سے سر اٹھاتے وقت امام کے سر پر تلوار ماری۔ امام کو گھر لے جایا گیا اور اثیر بن عمرو نامی ماہر طبیب نے امام کا معائنہ کیا۔ اثیر تابعین میں سے تھے۔ اثیر کو جب پتہ چلا کہ ضربت دماغ تک پہنچی ہے، تو اس نے امام سے وصیت کرنے کو کہا؛ کیونکہ زیادہ دیر زندہ رہنے کی امید نہیں رہی تھی۔ شہادت سے پہلے، امام کئی بار بیہوش ہوئے۔ آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھی اور اپنے بچوں کو وصیتیں کیں۔

امام علیؑ کو امام حسن مجتبیؑ، امام حسینؑ، محمد حنفیہ اور عبد اللہ بن جعفر نے غسل دیا۔ امام حسنؑ نے امام کے جنازے پر نماز پڑھی۔ امام علیؑ کو رات میں دفنایا گیا۔ خوارج کی طرف سے نبش قبر اور بنو امیہ کی دشمنی کے خوف سے امام علیؑ کے مدفن کو مخفی رکھا گیا۔ پھر بنی عباس کے دور میں امام صادقؑ نے قبر کی نشاندہی کی۔

امام علیؑ کی شہادت کا شیعوں کے حالات پر اثر

پینٹر علی بحرینی

امام علیؑ رمضان المبارک 40 ہجری میں شہید ہوئے۔[1] امام کی شہادت ایسے وقت میں ہوئی جب بہت سے مسائل تھے؛ سپاہیوں کو امام کی پوری معرفت نہیں تھی جس کی وجہ سے ان کا ساتھ دینے میں سستی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ دوسری طرف معاویہ کی کمان میں شام کی فوج کافی مضبوط ہو چکی تھی۔[2] اس دور میں معاویہ نے حالات کو جانتے ہوئے امام علیؑ کی حکومت کے مختلف علاقوں پر حملہ کر کے امام کے پیروکاروں اور شیعوں کو قتل و غارت کرتا تھا۔[3]

جب ابن ملجم نے امام علیؑ پر ضربت ماری اس وقت آپؑ شام کی طرف بڑھنے اور معاویہ کے خلاف لڑنے کے لیے لشکر تیار کر رہے تھے۔[4] امام علی علیہ السلام کی شہادت نے کوفہ کے لشکر کے درمیان دراڑ پیدا کر دیا جس کے بارے میں نوف بکالی امام علیؑ کے اصحاب سے نقل کرتے ہیں کہ لشکر شام کی طرف بڑھنے کی تیاری کر رہے تھے کہ امام علیؑ پر ابن ملجم نے وار کیا اور لشکر واپس کوفہ پہنچ گئے۔ نوف نے اس دور میں امام علی علیہ السلام کی فوج کی صورت حال کو اس ریوڑ سے تشبیہ دی جس نے اپنا چرواہا کھو دیا ہے اور بھیڑیے انہیں ہر جگہ سے اٹھا رہے ہیں۔[5]

امام علیؑ کی شہادت کے بعد اہل کوفہ نے امام حسنؑ کی بیعت کی؛ لیکن بعض محققین کے نزدیک کوفہ کی حقیقت مختلف رجحانات، اختلاف رائے اور لوگوں کے درمیان نفرت کے اظہار کے سوا کچھ نہیں تھی۔ اسی وجہ سے امام حسنؑ کی فوج شام کے لشکر کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی۔[6] شیعہ مورخ آیت اللہ سبحانی کا خیال ہے کہ امام علیؑ کی شہادت اسلامی معاشرے کے جسم پر ایک کاری ضربت اور دشمنوں کی طرف سے شیعوں کے قتل، حملے اور ایذا رسانی کے آغاز کا سبب بنی۔[7] امام کی شہادت اور امام حسنؑ کی حکومت کے مختصر عرصے کے بعد اموی دور کا آغاز ہوا جو شیعوں کے لیے سب سے کٹھن دور تھا۔[8] معاویہ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد شیعوں کے لئے حالات استقدر سخت ہوئے کہ ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ شیعہ جہاں بھی تھے یا تو قتل کر دیے جاتے یا ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جاتے یا ان کا مال لوٹ لیا جاتا اور انہیں قید کر دیا جاتا تھا۔[9]

شیعہ مسلمان 21 رمضان المبارک کی رات کو جس میں شب قدر ہونے کا احتمال پایا جاتا ہے،[10] امام علیؑ کی شہادت کا سوگ مناتے ہیں۔[11] ایران کے بعض علاقوں میں اس رات کو قنبر اور حضرت علیؑ کے نام سے تعزیہ خوانی کی جاتی ہے۔[12] اس کے علاوہ، کچھ شیعہ اس رات کو ہدیہ، افطار اور سحری تقسیم کرتے ہیں۔[13] "اللّہمَّ العَن قَتلَۃ اَميرِ المُومِنين"؛ یعنی اللہ امیر المومنین کے قاتلوں پر لعنت کرے، کا ذکر سو مرتبہ دہرانا رمضان المبارک کی 19ویں اور 21ویں رات کے اعمال میں سے ایک ہے۔[14]

کیا امام علیؑ کو اپنی شہادت کی خبر تھی؟

بعض روایات کے مطابق امام علیؑ کو اپنی شہادت کب اور کیسے واقع ہونی ہے کے بارے میں تفصیلات معلوم تھے۔[15] شیعہ کتب اربعہ میں سے کتاب الکافی میں اس عنوان سے ایک باب موجود ہے کہ ائمہؑ جانتے ہیں کہ ان کی موت کب واقع ہوگی۔[16] شیخ مفید، علامہ حلی اور سیدِ مرتضی نے بھی اپنی تحریروں میں اس بارے میں بات کی ہے۔[17] شیعہ متکلم شیخ مفید (متوفی: 413ھ) کے مطابق اس بارے میں احادیث متواتر ہیں۔[18] اس سوال کے جواب میں کہ اگر امام علی سمیت ائمہ کے پاس شہادت کے وقت علم تھا تو انہوں نے اپنی جانوں کی حفاظت کیوں نہیں کی، آپ نے دو احتمال دئے ہیں:

  • شاید انہیں اپنی شہادت کا وقت، مقام اور قاتل کے بارے میں تفصیلی معلومات نہ تھیں۔
  • اگر انہیں اپنی شہادت کی تفصیل معلوم تھی تو پھر انہیں صبر کرنا ان کا وظیفہ تھا۔[19]

ایک اور شیعہ متکلم سیدِ مرتضی (وفات: 436ھ)، نے بھی کہا کہ امام علی جانتے تھے کہ کون کس طرح انہیں شہید کرے گا لیکن شہادت کا وقت انہیں معلوم نہ تھا؛ کیونکہ اگر انہیں معلوم ہوتا تو اپنے آپ کو قتل ہونے سے ضرور بچاتے تھے۔[20]

شہادت کے بارے میں علم ہونے اور اسے عصمت سے سازگار نہ ہونے کے حوالے سے لکھے گئے ایک مقالے میں لکھتے ہیں کہ جن صورتوں میں ائمہؑ شہادت کے لئے تیار ہوئے ہیں انہوں نے نفس کی حفاظت کی ذمہ داری کے حکم کی مخالفت نہیں کی ہے۔ اس مصنف کے مطابق ائمہ کا علم روایتی اور متعارف طریقوں سے حاصل نہیں ہوا ہے۔ اسی وجہ سے ایسا علم انسان پر ذمہ داری لاگو نہیں کرسکتا ہے اور اگر ذمہ داری لاگو کرے بھی تو شاید معاشرے کی سعادت اور۔۔۔ کے لئے ائمہؑ کی کوئی خاص ذمہ داری بنتی تھی جس پر انہوں نے عمل کیا ہے۔[21] امام رضاؑ سے بھی منقول ہے کہ امام علیؑ نے انیسویں شب کو تقدیر الہی کے سامنے سر تسلیم خم کیا۔[22] اصول کافی کے مفسرملاصالح مازندرانی امام رضاؑ کا امیر المومنینؑ کے بارے میں اس جملے (خُيِّر فيہا بين البقاء و اللقاء فاختار اللقاء ليمضى تقدير اللّہ تعالى) کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ انیسویں رمضان کو امام علیؑ نے اس دنیا میں رہنے اور لقاء اللہ میں سے خدا سے ملاقات کو انتخاب کیا تاکہ تقدیر الہی پوری ہوجائے اور اگر یہ کام خدا کے حکم سے اور اس کی رضامندی سے ہو تو یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ واجب بھی ہے جیسا کہ امام حسین نے بھی ایسا ہی کیا اور ہم بھی دشمن کے خلاف جہاد کے دوران ایسا ہی کرتے ہیں۔[23]

شہادت امام علیؑ میں قطام کا کردار

تاریخی اطلاعات کے مطابق امام علی علیہ السلام کی شہادت میں قطام بنت شجنہ کا کردار تھا۔ ابن ملجم کی طرف سے رشتہ مانگنے پر اس اس نے اپنا مہر ایک ہزار درہم، ایک لونڈی، اور امام علیؑ کے قتل کو مقرر کیا۔[24] ان شرائط کو قبول کرتے ہوئے ابن ملجم نے قطام سے شادی کی۔[25] قطام کے والد[26] اور بھائی[27] جنگ نہروان میں مارے گئے تھے۔

29 ہجری میں حج کے دوران امام علی اور معاویہ کے نمائندوں کے درمیان جھگڑا ہوا۔ مناسک حج کے بعد خوارج کا ایک گروہ مکہ مکرمہ میں جمع ہوا اور کہا کہ انہوں نے کعبہ کی حرمت کا خیال نہیں رکھا ہے۔[28] ان کو مسلمانوں کی حالت پر شکایت تھی اور جنگ نہروان میں اپنے مرنے والوں کا ذکر کیا[29] اور آخر کار تین لوگوں نے علی، معاویہ اور عمرو بن عاص کو قتل کرنے کی قسم کھائی۔ ابن ملجم مرادی نے امام علیؑ کو قتل کرنے کا عہد کیا۔[30] ابن ملجم 20 شعبان 40 ہجری کو کوفہ میں داخل ہوا[31] اور وہاں قطام سے ملاقات کی۔[32]

امام علیؑ پر ضربت

شہادت امام علیؑ کے بارے میں احسان افشار کی پینٹنگ

امام علیؑ 19 رمضان المبارک کی رات افطاری کے لیے اپنی بیٹی ام کلثوم کے مہمان تھے۔[33] شیعہ مورخ جعفریان نقل کرتے ہیں کہ اہل بیتؑ اور اہل سنت سے منقول بہت سی روایات میں ذکر ہوا ہے کہ 19ویں رات میں امام علیؑ کی خاص حالت تھی۔[34] اہل سنت مؤرخ ابن اثیر اپنی کتاب الکامل[35] اور کتاب کافی،[36] کی روایت کے مطابق شب ضربت جب امام گھر سے نکل رہے تھے تو بطخیں ان کے سامنے آئیں اور جب ان کو بھگا دیا گیا تو امام نے کہا کہ انہیں رہنے دو، وہ نوحہ خوانی کرتی ہیں۔ علامہ مجلسی نے کافی کی اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔[37]

علامہ مجلسی اپنی کتاب بحار الانوار میں نقل کرتے ہیں کہ امام علیؑ مسجد میں تشریف لے گئے اور گلدستے پر جاکر اذان کہی۔[38] مسجد میں سوئے ہوئے لوگوں کو نماز کے لیے جگایا۔ ابن ملجم کو بھی جگایا جو مسجد میں پیٹ کے بل سو رہا تھا اور اسے اس طرح سونے سے منع فرمایا۔[39] پھر محراب میں نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ ابن ملجم نے سجدے کے وقت[40] یا سجدے سے سر اٹھاتے ہوئے[41] امام کے سر پر تلوار ماری۔[42] بعض اطلاعات کے مطابق، امام، مسجد میں داخل ہوتے ہوئے ان پر حملہ ہوا۔[43] ابن ملجم کے ساتھ شبیب بن بجرہ اشجعی[44] اور وَردان[45] تھے۔ ابن ملجم نے وار کرنے کے بعد کہا:لا حکم الا للہ؛ فیصلہ صرف خدا کے لیے ہے نہ کہ آپ اور آپ کے ساتھیوں کے لیے۔[46] ایک روایت میں ہے کہ امام علیؑ پر ضربت لگنے کے بعد جبرائیل نے خدا کی قسم کھاتے ہوئے کہا کہ ہدایت کے ارکان منہدم ہوگئے، اور آسمان کے ستارے مدھم پڑ گئے اور تقویٰ کے آثار مٹ گئے۔[47] یہ عبارت قدیمی مصادر میں نہیں ملتی ہے اور صرف متاخر مصادر[48] میں نقل ہوئی ہے۔ [یادداشت 1]

مزید معلومات کے لئے دیکھئے: شب ضربت امام علی علیہ السلام

فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَہ

تیسری صدی کے ایک مورخ ابن قتیبہ دینوری کے مطابق، امام علیؑ نے ضربت لگنے کے بعد کہا: "فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَہ؛ربِ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوا۔"[49] شیعہ علما میں سیدِ رضی،[50] ابن شہر آشوب[51] اور اہل سنت علما میں ابن اثیر[52] اور بلاذری[53] جیسوں نے اس بات کو نقل کیا ہے۔

ابن ابی الحدید کے مطابق، امام کو ضربت لگنے کے بعد کوفے کے اطباء کو امام کے معائنے کے لیے جمع کیا۔[54] امام کے سر کے زخم کا معائنہ کرنے کے بعد اثیر بن عمرو اس نتیجے پر پہنچے کہ ضربت دماغ تک پہنچی ہے۔ اس لیے اس نے امام سے کہا کہ وصیت کریں؛ کیونکہ یہ زیادہ دیر تک دنیا میں نہیں رہیں گے۔‏[55]

ضربت کے بعد امام علیؑ کی وصیتیں

پینٹنگ «وداع غریب» امام علی کی تشییع، فنکار علی بحرینی

امامؑ پر ضربت لگنے اور شہید ہونے کے درمیانی عرصے میں آپ سے مختلف کلمات اور وصیتیں نقل ہوئی ہیں۔ امام علیؑ ضربت سے شہادت تک بارہا بےہوش ہوتے تھے۔[56] آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھی اور اپنے بچوں کو کچھ وصیتیں کی۔[57] آپ نے امام حسنؑ اور امام حسینؑ سے ایک خصوصی وصیت بھی کی جو نہج البلاغہ میں نقل ہوئی ہے۔[58] اس دوران امام نے موت کے بارے میں بھی بات کی۔[59] امام علیؑ 21 رمضان 40 ہجری کو شہید ہوئے۔[60] بعض ذرائع نے آپ کی شہادت کی دوسری تاریخیں بھی بیان کی ہیں۔[61]

ابن ملجم سے قصاص کے بارے میں وصیت

امام علیؑ نے ابن ملجم کو قصاص کے طور پر صرف ایک ضرب مارنے کی وصیت کی۔[62] اگر وہ اسی ضرب سے مارا گیا ہو تو اس کے جسم کو ٹکڑے نہ کریں۔[63] بعض منابع کے مطابق آپ نے ابن ملجم کو کھانا، پانی دینے اور اس کے ساتھ صحیح سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔[64] البتہ بعض مصادر کے مطابق امام حسنؑ نے جب ابن ملجم کون قصاص کیا[65] تو لوگوں نے اس کی میت کو جلایا۔[66] اور اسی طرح بعض کا کہنا ہے کہ ابن ملجم کے جنازے کو مثلہ (ٹکڑے) کیا گیا۔[67]

تشییع و تدفین

امام علیؑ کو امام حسن مجتبیؑ، امام حسینؑ، محمد حنفیہ اور عبد اللہ بن جعفر نے غسل دیا۔[68] امام حسنؑ نے امام کے جنازے پر نماز پڑھائی۔[69] امام علیؑ کو رات میں دفنایا گیا اور انہیں دفن کرنے کے لیے کئی جگہیں تیار کی گئیں تاکہ قبر کی جگہ پوشیدہ رہے۔[70] خوارج کی طرف سے نبش قبر[71] اور بنو امیہ کی دشمنی کے خوف سے[72] امام علیؑ کے مدفن کو مخفی رکھا گیا۔ پھر بنی عباس کے دور میں امام صادقؑ نے قبر کی نشاندہی کی۔[73] امام علیؑ کی تدفین شہر نجف میں ہوئی جس کا ذکر منابع میں مختلف ناموں سے آیا ہے۔[74] اور شیعوں کے درمیان اس پر سب کا اتفاق ہے۔[75]

مونوگراف

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. ابن کثیر‏، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج8، ص130۔
  2. ابن کثیر‏، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج7، ص323۔
  3. جعفریان، حیات سیاسی و فکری امامان شیعہ، 1381شمسی، ص54-53۔
  4. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1381شمسی، ص110۔
  5. نہج البلاغۃ، 1414ھ، ص264۔
  6. نصیری رضی، تاریخ تحلیلی صدر اسلام، 1384شمسی، ص191۔
  7. سبحانی، الشیعہ فی موکب التاریخ، 1413ھ، ج1، ص22۔
  8. نصیری رضی، تاریخ تحلیلی صدر اسلام، 1384شمسی، ص135۔
  9. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج11، ص43۔
  10. مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ھ، ج16، ص381۔
  11. مجیدی خامنہ، «شب ہای قدر در ایران»، ص19۔
  12. مجیدی خامنہ، «شب ہای قدر در ایران»، ص20۔
  13. مجیدی خامنہ، «شب ہای قدر در ایران»، ص21۔
  14. قمی، مفاتیح الجنان، اسوہ، ص226۔
  15. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص530۔
  16. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج‏1، ص258-260۔
  17. ملاحظہ کریں: ربانی گلپایگانی و رحمانی زادہ، «علم امام بہ شہادت و شبہہ ناسازگاری آن با عصمت»، ص105۔
  18. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص319۔
  19. شیخ مفید، المسائل العکبریہ، 1413ھ، ص69-72۔
  20. سید مرتضی، رسائل الشریف المرتضی، 1415ھ، ج3، ص131۔
  21. ربانی گلپایگانی و رحمانی زادہ، «علم امام بہ شہادت و شبہہ ناسازگاری آن با عصمت»، ص111۔
  22. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص259۔
  23. مازندرانی، شرح اصول،الناشر : المكتبۃ الإسلاميۃ کافی، ج6، ص37۔
  24. شیخ مفید، الإرشاد، 1413ھ، ج1، ص 18ـ 19
  25. ابن قتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ، 1410ھ، ج1، ص180۔
  26. شیخ مفید، الإرشاد، 1413ھ، ج1، ص18۔
  27. ابن قتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ، 1410ھ، ج1، ص180۔
  28. ابن قتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ، 1410ھ، ج1، ص179۔
  29. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج6، ص113۔
  30. ذہبی، تاریخ الإسلام، 1409ھ، ج3، ص607۔
  31. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ج2، ص212۔
  32. شیخ مفید، الإرشاد، 1413ھ، ج1، ص18۔
  33. حسینی مطلھ، شہید تنہا، 1386ھ، ص114
  34. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1381شمسی، ص111۔
  35. ابن اثیر، الکامل، 1385ھ، ج3، ص388۔
  36. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج‏1، ص259۔
  37. مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ھ، ج3، ص122۔
  38. مجلسی، بحار الأنوار، 1410ھ، ج42، ص281۔
  39. مجلسی، بحار الأنوار، 1410ھ، ج42، ص281۔
  40. شیخ طوسی، الأمالی، 1414ھ، ص365۔
  41. مجلسی، بحار الأنوار، 1410ھ، ج42، ص281۔
  42. ابن اعثم کوفی، الفتوح، ج4، ص278۔
  43. طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج5، ص145۔
  44. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1418ھ، ج3، ص 25-28
  45. ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، 1408ھ، ج2، ص646۔
  46. ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، 1408ھ، ج‏2، ص646۔
  47. مجلسی، بحار الأنوار، 1410ھ، ج42، ص282۔
  48. مجلسی، بحار الأنوار، 1410ھ، ج42، ص282۔
  49. ابن قتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ، 1410ھ، ج1، ص180۔
  50. سید رضی، خصائص الأئمۃ، 1406ھ، ص63۔
  51. ابن شہر آشوب‏، مناقب آل ابی طالب‏، 1379ھ، ج2، ص119۔
  52. ابن اثیر، اسد الغابہ، 1409ھ، ج3، ص618۔
  53. بلاذری، أنساب الأشراف‏، 1417ھ، ج2، ص488۔
  54. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج6، ص119۔
  55. مدنی شیرازی، الطراز الأول، 1384شمسی، ج7، ص14۔
  56. مجلسی، بحار الأنوار، 1410ھ، ج42، ص289۔
  57. مجلسی، بحار الأنوار، 1410ھ، ج42، ص290۔
  58. نہج البلاغۃ، 1414ھ، ص421 - 422۔
  59. نہج البلاغۃ، 1414ھ، خطبہ 149، ص207۔
  60. شیخ مفید، الارشاد، 1428ھ، ج1، ص9۔
  61. ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، 1408ھ، ج2، ص645۔
  62. مقدسی، البدء و التاریخ، بورسعید، ج5، ص233۔
  63. نہج البلاغۃ، 1414ھ، ص422۔
  64. فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، 1375شمسی، ج1، ص137۔
  65. خزاز رازی، کفایۃ الأثر، 1401ھ، ص162۔
  66. ابن کثیر‏، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج7، ص330۔
  67. ابن قتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ، 1410ھ، ج1، ص181۔
  68. ابن قتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ، 1410ھ، ج1، ص181۔
  69. ابن قتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ، 1410ھ، ج1، ص181۔
  70. قائدان، عتبات عالیات عراق، 1383شمسی، ج1، ص30۔
  71. ابن قتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ، 1410ھ، ج1، ص181۔
  72. شیخ مفید، الإرشاد، 1413ھ، ج1، ص10۔
  73. مجلسی، بحار الأنوار، 1410ھ، ج42، ص338۔
  74. قائدان، عتبات عالیات عراق، 1383شمسی، ج1، ص32۔
  75. مجلسی، بحار الأنوار، 1410ھ، ج42، ص338۔
  76. ابن ابی الدنیا، مقتل امیر المؤمنین(ع)، 1379 شمسی، ص12 - 23۔
  77. ابن ابی الدنیا، مقتل امیر المؤمنین(ع)، 1379 شمسی، ص23۔
  78. «مقتل علی (ع): شہید تنہا»، خانہ کتاب و ادبیات ایران۔

نوٹ

  1. « تہدمت واللہ أركان الہدى ، وانطمست واللہ نجوم السماء و أعلام التقى ، وانفصمت واللہ العروۃ والوثقى ، قتل ابن عم محمد المصطفى ، قتل الوصي المجتبى ، قتل علي المرتضى ، قتل واللہ سيد الاوصياء ، قتلہ أشقى الاشقياء»«خدا کی قسم ہدایت کے ستون منہدم ہو گئے، خدا کی قسم آسمان کے ستارے بے نور ہو گئے، پرہیزگاری کے پرچم سرنگوں ہو گئے، عروۃ الوثقی کو کاٹ دیا گيا، رسول خداؑ کے ابن عم کو شہید کر دیا گيا، سید الاوصیاء علی مرتضی کو شہید کر دیا گيا، انہیں شقی ترین شقی (ابن ملجم) نے شہید کر دیا۔»

مآخذ

  • نہج البلاغہ، تحقیق: صبحی صالح، قم، ہجرت، چاپ اول، 1414ھ۔
  • ابن ابی الحدید، عبدالحمید بن ہبہ اللہ، شرح نہج البلاغۃ، تصحیح: محمدابوالفضل ابراہیم،‏ قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، چاپ اول، 1404ھ۔
  • ابن ابی الدنیا، عبداللہ، مقتل امیرالمومنین، قم، مجمع إحیاء الثقافۃ الإسلامیۃ، 1411ھ۔
  • ابن ابی الدنیا، عبداللہ، مقتل علی، ترجمہ مہدوی دامغانی، مشہد، تاسوعا، 1379ہجری شمسی۔
  • ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، 1385ہجری شمسی۔
  • ابن اعثم کوفی، احمد بن اعثم، الفتوح، تحقیق: علی شیری، بیروت، دار الاضواء، 1411ھ۔
  • ابن خلدون، عبدالرحمن بن محمد، تاریخ ابن خلدون‏ (دیوان المبتدأ و الخبر)، تحقیق: خلیل شحادۃ، بیروت، دار الفکر، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • ابن قتیبہ، عبداللہ بن مسلم‏، الامامۃ و السیاسۃ، تحقیق: علی شیری، بیروت، دارالأضواء، چاپ اول، 1410ھ۔
  • ابن کثیر‏، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، 1407ھ۔
  • جعفریان، رسول، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، قم، انصاریان، 1381ہجری شمسی۔
  • خزاز رازی، علی بن محمد، کفایۃ الاثر فی النصّ علی الأئمۃ الإثنی عشر، محقق و مصحح: عبداللطیف حسینی کوہکمری،‏ قم، بیدار، 1401ھ۔
  • ربانی گلپایگانی، علی و محسن رحمانی زادہ، «علم امام بہ شہادت و شبہہ ناسازگاری آن با عصمت»، در مجلہ کلام اسلامی، شمارہ 110، تیر 1398ہجری شمسی۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام، تحقیق: عمر عبدالسلام تدمری، بیروت، دارالکتاب العربی، چاپ دوم، 1409ھ۔
  • سبحانی، جعفر، الشیعہ فی موکب التاریخ، قم، معاونیۃ شؤون التعلیم والبحوث، 1413ھ۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، رسائل الشریف المرتضی، مہدی رجایی و احمد حسینی اشکوری، قم دار القرآن الکریم، 1415ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن‏، الامالی، قم، دارالثقافۃ، چاپ اول، 1414ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، المسائل العکبریۃ، علی اکبر الہی خراسانی، قم، المؤتمر العالمی لألفیۃ الشیخ المفید، 1413ھ۔
  • شیخ مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری (تاریخ الامم و الملوک)، تحقیق: محمد أبوالفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، چاپ دوم، 1387ھ۔
  • «علی آن شیر خدا شاہ عرب»، سایت حوزہ نت، تاریخ بازدید:26 آذر 1402ہجری شمسی۔
  • فتال نیشابوری، محمد بن احمد، روضۃ الواعظین و بصیرۃ المتعظین، قم، انتشارات رضی، چاپ اول، 1375ہجری شمسی۔
  • قمی، عباس، مفاتیح الجنان، قم، اسوہ، بی تا.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح: علی اکبر غفاری، محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسۃ الطبع و النشر، چاپ اول، 1410ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، مرآۃ العقول فی شرح أخبار آل الرسول، محقق و مصحح: سیدہاشم رسولی، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ دوم، 1404ھ۔
  • مجیدی خامنہ، فریدہ، «شبہای قدر در ایران»، مجلہ گلستان قرآن، شمارہ 37، آذر 1379ہجری شمسی۔
  • مدنی شیرازی، علی خان بن أحمد، الطراز الاول و الکناز لما علیہ من لغۃ العرب المعول‏، مشہد، مؤسسۃ آل البیت لإحیاء التراث‏، چاپ اول، 1384ہجری شمسی۔
  • «مقتل علی (ع): شہید تنہا»، خانہ کتاب و ادبیات ایران، تاریخ بازدید: 3 دی 1402ہجری شمسی۔
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، بور سعید، بی تا.
  • نصیری رضی، محمد، تاریخ تحلیلی اسلام، قم، دفتر نشر معارف، 1384ہجری شمسی۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب‏، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، چاپ اول، بی تا.