قطام بنت شجنہ بن عدی

ویکی شیعہ سے
(قطام بنت شجنۃ بن عدی سے رجوع مکرر)

قَطام بنت شَجنۃ بن عَدی کا شہادت امام علی میں ابن ملجم کو اکسانے میں کردار رہا۔ اس کی ہمدردیاں خوارج کے ساتھ رہیں۔ کہا گیا کہ وہ نہایت خوبصورت تھی اور اس کی خوبصورتی کا چرچا تھا۔ابن ملجم جب امام علی ؑ کو قتل کرنے کیلئے کوفہ آیا تو اس نے قطامہ سے ملاقات کے موقع پر اس سے شادی کی خواہش ظاہر کی۔ قطام کا بھائی اور باپ حضرت علی کے مقابل جنگ نہروان میں مارے گئے تھے لہذا اس نے اپنی شادی کو امام علی کے قتل کے ساتھ مشروط کیا۔ اس بنا پر ابن ملجم نے علی کے قتل کا مزید محکم عزم و ارادہ کیا۔ اس کے مقابلے میں بعض محققین اس واقعے کو ایک بناوٹی داستان سمجھتے ہیں۔

اصل و نسب

قَطَامِ بِنْتُ شَجْنَۃَ بْنِ عَدِيّ بْنِ عَامِر کا تعلق قبیلہ تیم الرباب سے تھا۔[1] اس کے باپ کے نام میں اختلاف ہے۔لہذا بلاذری ایک جگہ اس کے باپ کا نام علقمہ[2] اور دوسری جگہ شجنہ ذکر کرتا ہے۔[3] جبکہ بعض مصادر میں اخضر بن شجنہ[4][5] لکھا گیا ہے پس اس بنا پر شجنہ اس کے باپ کا نام نہیں بلکہ دادا کا نام ہے۔

حسن و جمال

قطام کو حسین و جمیل خاتون سمجھتے ہیں[6] اور وہ اسی کی وجہ سے مشہور تھی یہں تک کہ جب ابن ملجم نے اسے دیکھا تو بے خود ہو گیا۔[7] بلعمی نے اسے کوفہ کی خوبصورت ترین عورت کہا ہے[8] جبکہ مسعودی اور ابوالفرج اصفہانی اسے اپنے زمانے کی زیباترن خاتون شمار کرتے ہیں۔[9] در برخی منابع آمدہ کہ ابن ملجم با دیدن وی شفگت زدہ شد.[10]

عداوت امام علی

قطام خوارج سے تھی[11] اور اسی فکر کو قبول کرتی تھی۔[12] جبکہ خوارج حضرت علی کو کافر سمجھتے تھے۔[حوالہ درکار]

اس کا باپ : شجنہ بن عدی اور بھائی:اخضر بن شجنہ خوارج میں سے تھے اور یہ دونوں نہروان میں علی علیہ السلام کے مقابل جنگ میں مارے گئے تھے۔[13]

شہادت حضرت علی(ع) میں نقش

ابن ملجم حضرت علی(ع) کے قتل کے ارادے سے کوفہ آیا ہوا تھا ،جہاں اس نے قطامہ سے ملاقات کی اور اسے شادی کی دعوت دی (البتہ بعض کا کہنا ہے کہ ابن ملجم نے قطام سے شادی کی خواہش ظاہر نہیں کی بلکہ قطام سے اس کی بیٹی رباب سے رشتہ مانگا تھا۔[14])، قطام نے اس سے شادی کو کچھ شرائط کے ساتھ مشروط کیا ان میں سے ایک شرط علی کو قتل کرنے کی تھی ایک نقل کے مطابق ابن ملجم امام ابن ملجم نے علی کو قتل کرنے سے پہلے اس سے شادی کی اور تین راتیں اس کے پاس رہا۔[15]

قطام نے شادی کیلئے قتل حضرت علی(ع) کے علاوہ[16]، ابن ملجم کو اس کام پر اکسایا۔ [17] حتی کہ اس پر خوف کی تہمت لگائی تا کہ ابن ملجم میں قتل علی کے متعلق مزید پختہ عزم پیدا ہو۔[18]

کہا گیا کہ قطام نے وردان نام کے ایک شخص کو ابن ملجم کے ہمراہ کیا تا وہ امام علی کے قتل میں اس کی مدد کرے۔[19] وردان بن مجالد تیمی قطام کے چچا کا بیٹا تھا۔[20] وردان نے قطام سے کئی مرتبہ کہا تھا کہ میرے ساتھ اگر کوئی ہوتا میں علی کو قتل کر دیتا۔اسی وجہ سے قطام ابن ملجم اور وردان کو اکٹھا کرتی ہے۔[21]

[22]
و لم أر مهرا ساقه ذو سماحه کمهر قطام من فصیح و اعجم
و لم أر مهرا ساقه ذو سماحه کمهر قطام من فصیح و اعجم
ثلاثة آلاف و عبدا و قینة و ضرب علی بالحسام المصمم
تین ہزار،غلام ،کنیز تیز دھار تلوار سے علی کا قتل
فلا مهر اغلی من علی و ان غلا و لا فتک الا دون فتک ابن ملجم
قتل علی سے زیادہ کوئی گران بہا مہر نہیں ہے قتل ابن ملجم سے زیادہ کوئی قتل اور غافلگیری زیادہ نہیں ہے۔

وفات

جرجی زیدان کے مطابق قطام شہادت حضرت علی(ع) کی شہادت کے بعد مصر فرار کر گئی لیکن عمروعاص کو اس چال سے باخبر نہ کرنے کے جرم میں زندانی ہوئی،[23] زندان سے فرار کر کے دمشق روانہ ہوئی لیکن راستے میں ماری گئی اور اس کا سر تن جدا کیا گیا۔[24] سر کا جچھ حصہ مصر بھیجا گیا۔ عمروعاص اس کے قاتل کو ایک ہزار درہم انعام دیتا ہے۔[25]

تاریخی داستان میں تردید

شہادت امام علی میں قطام کا ماجرا تاریخی اعتبار سے ضد و نقیض اخبار پر مشتمل ہونے کی وجہ سے سید جعفر شہیدی کی طرف سے ساختگی اور جعلی قرار دیا گیا ہے وہ لکھتے ہیں: گویا اس داستان کو بنایا گیا اور اس میں ابن ملجم کے ساتھ دو اور افراد ملائے گئے تا کہ اس کے ذریعے لوگوں کے اذہان میں اسے بہتر طریقے سے بٹھایا جا سکے۔[26]

ادب اور میڈیا میں قطام

عیسائی مصنف جرجی زیدان نے ۱۷ رمضان کے نام سے شہادت امام علی کے بارے میں کتاب لکھی اور اس میں حضرت علی کی شہادت میں قطام کے کردار کو بہت زیادہ اجاگر کیا ہے۔

ایران میں فارسی زبان کے سیریل امام علی(ع) میں کوفہ کے واقعات اور خاص طور پر شہادت امام علی میں قطام کے کردار کو نمایاں کیا گیا ہے۔

حوالہ جات

  1. ابن اثیر الجزری، أسدالغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص:۶۱۶
  2. أنساب الأشراف، ج۲، ص:۴۸۷ (چاپ زکار، ج۳، ص۲۴۸)؛ نک: الإمامۃ و السیاسۃ، ج۱، ص۱۸۰
  3. أنساب الأشراف، ج۱۱، ص۲۷۸.
  4. شیخ مفید، الإرشاد، ۱۴۰۳ق، ج۱، ص۱۸
  5. مقاتل الطالبیین،ص۴۶
  6. ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۳، ص۱۱۲۴
  7. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۱۴۴؛ ابن کثیر، البدایۃوالنہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۳۲۶
  8. تاریخ نامہ طبری،ج۴،ص:۶۷۳
  9. مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۴۱۱؛ مقاتل الطالبیین، ص:۴۶
  10. ابن اثیر الجزری، أسدالغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۶۱۶
  11. تاریخ ابن خلدون،ج۲،ص:۳۸۱؛ جمہرۃأنساب العرب، متن،ص:۲۰۰
  12. الأخبارالطوال،ص:۲۱۳
  13. أنساب الأشراف،ج۲،ص:۴۹۱(چاپ زکار،ج۳،ص:۲۵۲؛ أنساب الأشراف،ج۱۱،ص:۲۷۸
  14. الفتوح/ترجمہ،متن،ص:۱۰۴۱
  15. ابن کثیر، البدایۃوالنہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۳۲۶
  16. ابن اثیر الجزری، أسدالغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۶۱۶
  17. فرزندان آل ابیطالب/ترجمہ،ج۱،ص:۳۶
  18. إحقاق الحق، شوشتری،ج۳۲،ص:۶۳۱
  19. ابن کثیر، البدایۃوالنہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۳۲۶
  20. أنساب الأشراف،ج۲،ص:۴۹۳(چاپ زکار،ج۳،ص:۲۵۴)
  21. تاریخنامہ طبری،ج۴،ص:۶۷۳
  22. الأخبارالطوال،ص:۲۱۴؛ اخبارالطوال/ترجمہ،ص:۲۶۱
  23. جرجی زیدان،ص ۲۸۹
  24. جرجی زیدان، ص۳۰۲
  25. جرجی زیدان، ص۳۱۰
  26. شہیدی، ص۱۶۴؛ شہیدی ایک ہی وقت میں خوارج میں سے تین افراد :علی ،معاویہ اور عمرو بن عاص، کے قتل کے نقشے کو بھی تردید کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کے نزدیک کوفہ میں امام علی کے قتل اور شام میں (معاویہ) کے قتل کو (اشعث بن قیس) میں دیکھنا چاہئے۔صص ۱۵۸-۱۵۹.

مآخذ

  • ابن اثیر الجزری، علی بن محمد، أسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، بیروت،‌ دار الفکر، ۱۴۰۹ق.
  • ابن اعثم کوفی، الفتوح، مترجم محمد بن احمد مستوفی ہروی (ق ۶)، تحقیق غلامرضا طباطبائی مجد، تہران، انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی، ۱۳۷۲ش.
  • ابن عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت،‌ دار الجیل، چاپ اول، ۱۴۱۲ق.
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت،‌ دار الفکر، ۱۴۰۷ق.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، کتاب جمل من انساب الأشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت،‌ دار الفکر، چاپ اول، ۱۴۱۷ق.
  • ابو الفرج الأصفہانی، علی بن الحسین، مقاتل الطالبیین، تحقیق سید احمد صقر، بیروت،‌ دار المعرفۃ، بی‌تا.
  • ابو الفرج الأصفہانی، علی بن الحسین، فرزندان ابو طالب، ترجمہ جواد فاضل، تہران، کتابفروشی علی اکبر علمی، ۱۳۳۹ش.
  • جرجی زیدان، قطام و نقش او در شہادت حضرت علی(ع)، مترجم ایرج متقی زادہ، قم، میراث ماندگار، ۱۳۸۱ش.
  • ابن قتیبہ دینوری، ابوعبداللہ بن مسلم، الإمامۃ و السیاسۃ المعروف بتاریخ الخلفاء، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالأضواء، چاپ اول، ۱۴۱۰ق.
  • ابوحنیفہ دینوری، احمد بن داود، الأخبار الطوال، تحقیق عبد المنعم عامر مراجعہ جمال الدین شیال، قم، منشورات الرضی، ۱۳۶۸ش.
  • ابوحنیفہ دینوری، احمد بن داود، الأخبار الطوال، مترجم محمود مہدوی دامغانی، تہران، نشر نی، چاپ چہارم، ۱۳۷۱ش.
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، ۱۴۰۳ق.
  • شہیدی، سیدجعفر، علی از زبان علی یا زندگانی امیرالمومنان علی علیہ‌السلام، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، چاپ پانزدہم، ۱۳۷۹ش.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت،‌ دار التراث، چاپ دوم، ۱۳۸۷ق.
  • شوشتری، قاضی نور اللہ، قم، احقاق الحق، چاپ اول، ۱۴۰۹ق.
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق اسعد داغر، قم،‌ دار الہجرۃ، چاپ دوم، ۱۴۰۹ق.