لا حکم الا للہ

ویکی شیعہ سے

لا حُكْمَ إِلّا لِلّه‏(خدا کے حکم کے علاوہ کوئی حکم نہیں ہے) جنگ صفین میں حکمیت کے مسئلے کے خلاف خوارج کا نعرہ تھا۔ اس نعرے کے ذریعہ پہلے مرحلے میں خوارج نے انسانوں کی حکمیت اور ثالثی کے خلاف اپنی مخالفت کا اعلان کیا اور ابو موسی اشعری اور عمرو بن عاص سہمی کی حکمیت کو رد کیا، جنہیں حضرت علی علیہ السلام اور معاویہ نے حَکَم کے طور پر منتخب کیا تھا اور کہا کہ حکومت صرف خدا کی ہے اور کسی کو حکمرانی کا حق نہیں ہے۔

امام علیؑ نے اس نعرے کو مضمون کے لحاظ سے صحیح اور درست نعرہ قرار دیا لیکن جس سے غلط مطلب نکالا گیا۔ وہ معاشرے کو چلانے کے لیے کسی حاکم کے وجود کو ضروری سمجھتے تھے خواہ وہ اچھا ہو یا برا۔

یہ نعرہ خوارج کی طرف سے جنگ نہروان کے بعد بھی جاری رہا اور اسے ان کے مذہبی اصولوں میں سے ایک سمجھا گیا اور یہ ان کے بعد کی بغاوتوں میں بھی استعمال ہوتا رہا۔

بعض محققین نے خوارج کی غلط سمجھ کے ساتھ ساتھ ان کے بدوپن اور امامت اور سیاست کے بارے میں صحیح فہم کی کمی کو نعرہ "لا حکم الا للّٰہ" کے نسخ شدہ تصور کی تشکیل میں اثر انداز قرار دیا ہے۔

معنی و مفہوم

"لا حکم الا اللہ" امام علیؑ کی مخالفت اور آپؑ کا مقابلہ کرنے کے لیے خوارج کا نعرہ تھا۔[1] جو اس نعرے کے استعمال کی وجہ سے "مُحَکَمہ" کے نام سے مشہور ہوئے۔[2] انہوں نے اس نعرے میں حکم کا مفہوم "تحکیم" سمجھا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے سوا کسی کو "حَکَم"(فیصلہ کرنےوالا) نہیں بنایا جا سکتا۔[3] یہ نعرہ قرآنی جملے "اِنِ الحُکمُ الّا للّہ" سے ماخوذ ہے۔[حوالہ درکار] جو قرآن کی متعدد آیتوں میں پایا جاتا ہے۔[4] بعد میں خوارج نے اپنی گفتگو اور باتوں میں اللہ کے علاوہ کسی اور کی حاکمیت کی نفی کے لیے استعمال کیا۔[5]

پہلا استعمال

نعرہ "لا حکمَ الّا للّہ" کا پہلا استعمال ان لوگوں نے کیا جنہوں نے جنگ صفین میں حکمیت کی ابتدائی قبولیت پر احتجاج کیا تھا۔ جب شامی فوج جنگ میں شکست کے دہانے پر تھی، تو عمرو بن عاص سہمی کی چال سے انہوں نے قرآن کو بر سرِ نیزہ کیا اور قرآن کو حَکَم بنانے کا مطالبہ کیا۔[6] امام علیؑ نے اپنے اردگرد کے لوگوں کے اصرار کی وجہ سے تحکیم کو قبول کیا اور اس بات کا اظہار، معاویہ کو لکھے گئے خط میں کیا۔[7] آخر میں، ایک فرمان لکھا گیا اور اس میں حکمین اور اس کے شرائط بیان کئے گئے۔ [8]

جب اشعث بن قیس کندی نے مختلف قبائل کے سامنے ابتدائی معاہدے کا متن پڑھا تو "لا حکمَ الّا للّہ" پر مبنی احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے۔ چنانچہ عنزہ قبیلے کے دو جوانوں نے "لاحکم الا للہ" کا نعرہ لگاتے ہوئے معاویہ کی فوج پر حملہ کیا۔ یہ دونوں جوان معاویہ کے خیمے کے قریب مارے گئے۔[9] بعض کا خیال ہے کہ یہ دو جوان سب سے پہلے نعرہ "لا حکم الا للہ" استعمال کرنے والے تھے۔[10] اس واقعہ کے بعد اشعث، قبیلہ مراد کے پاس گیا اور انہیں بھی معاہدے کا متن سنایا۔ قبیلے کے بزرگوں میں سے ایک صالح بن شقیق نے اس معاہدے کے جواب میں "لاحکم الا للہ" کا نعرہ لگایا۔[11] اسی طرح کا واقعہ قبیلہ بنی راسب میں بھی پیش آیا۔[12]

"لا حکم الا للہ" کو محور قرار دے کر حکمیت کی مخالفت کرنا صرف زبانی احتجاج تک محدود نہیں تھا یہاں تک کہ جب اشعث، بنی تمیم قبیلہ کے پاس پہنچا تو اس قبیلے کے لوگوں نے "لا حکم الا للہ" کا نعرہ لگا کر اس پر حملہ کردیا اور انہوں نے اس کے گھوڑے پر ضربت لگا کر اسے زخمی کردیا۔[13] انساب الاشراف کے مصنف بَلاذُری کا خیال ہے کہ مذکورہ نعرہ سب سے پہلے اسی قبیلے سے سنا گیا تھا؛[14] تیسری صدی ہجری کے مؤرخ، یعقوبی کا خیال ہے کہ پہلی بار یہ نعرہ حکمین کے اجلاس سے پہلے عروہ بن اَدیۃ تمیمی کے نام کے ایک شخص نے لگایا تھا۔[15]

خوارج کے نعرے میں تبدیل ہونا

جنگ صفین میں تحکیم کا فرمان مرتب کرنے کے بعد، 17 صفر سنہ 37 ہجری کو[16] امام علیؑ کا لشکر کوفہ واپس آیا؛ لیکن کچھ لوگ جو بعد میں خوارج کے نام سے مشہور ہوئے، "لا حکم الا للہ" کے نعرے کے ساتھ امام علی کی فوج سے الگ ہوگئے اور کوفہ کے قریب "حرورا" کے مقام پر ٹھہرے اور کوفہ واپس آنے سے انکار کر دیا۔[17] انہوں نے یہ دھمکی بھی دی کہ اگر امام حکمیت کے فیصلے کو قبول کرنے سے باز نہ آئے تو وہ ان سے بےزار ہوں گے اور ان سے جنگ کریں گے۔[18]

"لا حکم الا للہ" کے نعرے کو بنیاد بناتے ہوئے انہوں نے مذہب کے معاملے میں افراد کی حکمیت کو ترک کرنے،[19] معاویہ کے ساتھ کئے گئے معاہدے کو توڑنے اور معاویہ کے ساتھ جنگ کو جاری رکھنے کا مطالبہ کیا۔[20] ان کا دعوی تھا کہ انہوں نے حکمیت کو قبول کرنے کے گناہ سے توبہ کرلی ہے اور امام علیؑ اور دیگر مسلمانوں کو گنہگار اور کافر سمجھتے ہیں اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ بھی توبہ کریں ورنہ وہ ان سے جنگ کریں گے۔[21]

جبکہ امام علی علیہ السلام شروع سے ہی ثالثی اور حکمیت کو قبول کرنے کے خلاف تھے، آپؑ اپنے لشکریوں کی طرف سے اصرار اور دھمکیوں کی وجہ سے حکمیت کی ثالثی کو قبول کرنے پر مجبور ہوئے، جن میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو بعد میں خوارج میں شامل ہوئے، اور امام علیؑ ثالثی کو قبول کرنے کے بعد عہد شکنی پر آمادہ نہیں تھے۔[22]

خوارج کے قائدین میں سے ایک ابن کواء شروع میں ثالثی کے حق میں تھا اور وہ ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے کوفہ کی فوج کے نمائندے کے طور پر عبداللہ بن عباس کی مخالفت کی تھی اور امام پر ابو موسیٰ اشعری کو تھوپا تھا؛[23] لیکن بعد میں شبث بن ربعی تمیمی کے ساتھ ان اولین لوگوں میں سے ایک تھا جنہوں نے "لا حکم الا للہ" کا نعرہ لگا کر خدا کی حکمیت کی تجویز پیش کی۔[24]

امام علیؑ سے اختلاف

خوارج اس نعرے کی بنیاد پر مختلف مواقع پر امام سے بحث کرتے تھے۔ مثال کے طور پر جب ابو موسیٰ اشعری کو حکمیت کے معاملے کے لیے چنا گیا تو خوارج میں سے دو افراد جن کا نام زرعہ بن البرج طائی اور حُرقوص بن زُہیر سعدی تھا، امام علیؑ کے پاس آئے اور "لاحکم الا للہ" کا نعرہ لگایا اور امام سے کہا کہ وہ اپنے اعمال سے توبہ کریں اور معاویہ کے خلاف لڑنے کے لیے جلدی کریں۔ امام نے بھی ایفائے عہد کا حکم یاد دلایا اور ان کی درخواست کو قبول نہیں کیا۔[25]

کئی دیگر موقعوں پر بھی خوارج نے اس نعرے سے امام علیؑ کو تکلیف پہنچائی۔ جب امام خطبہ دینے کے لیے مسجد کوفہ جا رہے تھے تو مسجد کے پاس ایک شخص نے"لاحکم الا للہ" کا نعرہ لگایا اور کئی دوسرے لوگوں نے بھی یہی جملہ دہرایا۔[26]> اس کے علاوہ، جب امام، مسجد کوفہ میں تقریر کر رہے تھے، خوارج نے اس نعرے سے امام کی تقریر میں کئی بار خلل ڈالا[27]، یہ کام بعد میں کئی بار دہرایا گیا۔[28]

نعرے کے مفہوم میں تبدیلی

خوارج، جو شروع میں "لاحکم الا للہ" کا نعرہ لگا کر حکمیت اور فیصلہ کرنے کو صرف خدا کے لیے مخصوص سمجھتے تھے، وہ کچھ عرصے بعد اس کا دوسرا مطلب نکالنے لگے اور کہنے لگے کہ حکومت اور حکمرانی بھی صرف اللہ کے لیے ہے۔ کسی کو بھی، خواہ علیؑ ہو یا معاویہ، حکومت کرنے کا حق نہیں ہے۔ اس طرح انہوں نے حکومت سے عاری معاشرے کا مطالبہ کیا۔[29]

آیت اللہ سبحانی کتاب "الانصاف فی مسائل دام فیھا الخلاف" میں اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ معاشرے میں حکومت کے ضروری ہونے پر دلیل فراہم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسا کہ پیغمبر اکرمؐ اور معصوم ائمہ کی روایات میں اس کی اہمیت بیان ہوئی ہے۔[30] خوارج نے خدا کی حاکمیت اور توحید کو بچانے کے لئے اپنی غلط فہمی کی وجہ سے، کسی بھی انسانی حکومت کو باطل قرار دیا اور اعلان کیا کہ یہ حکمرانی صرف اللہ کا حق ہے۔[31] کچھ دوسرے محققین کا خیال ہے کہ خوارج میں سے زیادہ تر بدو تھے جو کہ امامت اور سیاست کے بارے میں ایک الگ معاملہ کے طور پر بنیادی اور صحیح سمجھ نہیں رکھتے تھے کہ یہ معاملہ قوم و قبیلے سے ماورا ہے، اس لیے انہوں نے اپنے رجحانات کو "لاحکم الا للہ" کے نعرے کو غلط پیرائے میں ظاہر کیا۔[32]

امام علی علیہ السلام کا رد عمل

امام علی علیہ السلام نے اس دعوے کے جواب میں کہ انہوں نے خدا کے دین میں لوگوں کو حکم اور ثالث بنادیا ہے، فرمایا کہ ہم لوگوں کو قرآن کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کے لیے مقرر کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا کے دین میں لوگوں کو حَکَم بنایا ہے۔[33] آپؑ نے فرمایا کہ اس کام سے راہ فرار اختیار نہیں کی جاسکتی؛ کیونکہ قرآن خود بول نہیں سکتا۔ ایک دفعہ خوارج کے ساتھ بحث میں آپؑ ایک قرآن اپنے ساتھ لے گئے اور اس سے کہا: اے قرآن! فیصلہ کر۔ خوارج نے کہا کہ قرآن کلام نہیں کرتا۔ امام علیہ السلام نے جواب دیا کہ پھر تم یہ کیسے توقع رکھتے ہو کہ قرآن انسانوں کی مداخلت کے بغیر لوگوں میں حکم کرے؟[34]

امام علیؑ نے "لا حُکم اِلّا لِلّہ»" کو ایک سچا قول قرار دیا، جس کا غلط مطلب نکالا گیا ہے۔ انہوں نے خوارج کی رائے کہ حکومت خدا کے لیے مخصوص ہے؛ کو باطل قرار دیا کہ لوگوں کے درمیان ایک حاکم ہونا ضروری ہے، خواہ وہ نیک ہو یا برا۔ وہ حکومت کے وجود کو مومنوں اور یہاں تک کہ کافروں کے لیے نظم و ضبط پیدا کرنے اور راستوں کی حفاظت اور امور کو منظم کرنے کے لیے ضروری سمجھتے تھے۔ [35] «لا حکم الا للہ» کے بارے میں حضرت علی کا رد عمل، نہج البلاغہ کے چالیسویں خطبے میں آیا ہے۔[36]

اگرچہ خوارج کے ساتھ امام علی علیہ السلام کی بحثیں [37] چار ہزار افراد کی واپسی[38] یا سارے خوارج کی اصلاح؛ [39] پر منتج ہوئیں؛ تاہم، حکمیت کے مسئلے کے بعد وہ لوگ امام علی علیہ السلام کو گنہگار اور کافر قرار دینے پر مُصِر رہے اور اسی وجہ سے انہوں نے امام علی علیہ السلام اور کوفہ کی فوج کے ساتھ معاویہ سےجنگ ​​جاری رکھنے سے انکار کر دیا۔[40] انہوں نے عبد اللہ ابن وہب راسبی [41] کے گھر بیٹھ کر امام کے ساتھ جنگ ​​کی تیاری کی، جو جنگ نہروان پر ختم ہوئی اور وہ لوگ شکست سے دوچار ہوئے۔[42]

جنگ نہروان کے بعد اس نعرے کا استعمال

نعرہ "لاحکم الا للہ" خوارج کی سب سے اہم علامت کے طور پر باقی رہا، اور بعد میں ابن ملجم نے امام علیؑ پر حملے کرتے وقت یہی جملہ دہرایا۔[43] سالوں سال بعد بھی یہ نعرہ ان کے اعتقادی اصول کی پہچان بنا رہا[44] اور اپنی مختلف جنگوں میں انہوں نے اسی نعرے کو استعمال کیا۔[45]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. نوبختی، فرق الشیعہ، 1404ھ، ص6؛ اشعری قمی، المقالات و الفرق، 1360ھ، ص5۔
  2. شوشتری، إحقاق الحق، 1409ھ، ج32، ص523، تعلیقہ آیت اللہ مرعشی نجفی۔
  3. فراہیدی، کتاب العین، قم، ج3، ص67؛ ازہری، تہذیب اللغۃ، بیروت، ج4، ص70-71۔
  4. سورہ انعام، آیت 57؛ سورہ یوسف، آیت 40، 67۔
  5. مکارم شیرازی، پیام امام امیر المومنینؑ، ج2، ص432۔
  6. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص48۔
  7. منقری، وقعۃ الصفین، 1382ھ، ص493-494۔
  8. ملاحظہ کریں: طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص53-54۔
  9. دینوری، اخبار الطوال، 1368ہجری شمسی، ص196؛ منقری، وقعۃ الصفین، 1382ھ، ص512۔
  10. دینوری، اخبار الطوال، ص196؛ منقری، وقعۃ الصفین، 1382ھ، ص512
  11. دینوری، الأخبار الطوال، 1368ہجری شمسی، ص197۔
  12. منقری، وقعۃ الصفین، 1382ھ، ص513۔
  13. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص49؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج2، ص336؛ مسعودی، مروج الذہب، ج2، ص393۔
  14. بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج2، ص336۔
  15. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ج2، ص190۔
  16. منقری، وقعۃ الصفین، 1382ھ، ص508۔
  17. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج2، ص191۔
  18. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص72؛ ابن‌ مسکویہ، تجارب الأمم، 1379ہجری شمسی، ج1، ص555-556۔
  19. بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج2، ص360۔
  20. جعفریان، حیات فکری سیاسی امامان شیعہ، 1390ہجری شمسی، ص100 – 101۔
  21. ابن‌الطقطقی، الفخری، 1418ھ، ص99۔
  22. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص49۔
  23. منقری، وقعۃ صفین، 1382ھ، ص502۔
  24. ذہبی، تاریخ الإسلام، 1413ھ، ج3، ص554۔
  25. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص72؛ ابن‌مسکویہ، تجارب الأمم، 1379ہجری شمسی، ج1، ص555-556؛ شوشتری، إحقاق الحق، 1409ھ، ج32، ص529۔
  26. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص73۔
  27. ابن‌شاذان، الإیضاح، 1363ہجری شمسی، ص474۔
  28. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص74؛ ابن‌مسکویہ، تجارب الأمم، 1379ہجری شمسی، ج1، ص555-556؛ ابن‌حیون، دعائم الإسلام، 1385ھ، ج1، ص393۔
  29. مکارم شیرازی، پیام امام امیر المومنینؑ، 1385ہجری شمسی، ج2، ص432۔
  30. سبحانی، الإنصاف، 1381ہجری شمسی، ج3، ص433۔
  31. مکارم شیرازی، پیام امام امیر المومنینؑ، 1385ہجری شمسی، ج2، ص432۔
  32. جعفریان، حیات فکری سیاسی امامان شیعہ، 1390ہجری شمسی، ص100 – 101۔
  33. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ج2، ص192۔
  34. ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج7، ص279۔
  35. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج33، ص358۔
  36. نہج‌البلاغۃ، 1414ھ، ص82۔
  37. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج2، ص191؛ بلاذری، أنساب الأشراف، 1417ھ، ج2، ص353؛ ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج7، ص280۔
  38. ذہبی، تاریخ الإسلام، 1413ھ، ج3، ص591۔
  39. ابن‌خلدون، تاریخ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج2، ص635۔
  40. دینوری، الأخبارالطوال، 1368ہجری شمسی، ص206۔
  41. دینوری، الأخبارالطوال، 1368ہجری شمسی، ص202۔
  42. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ج2، ص192-193۔
  43. ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج7، ص326۔
  44. ابن‌اعثم الکوفی، الفتوح، 1411ھ ، ج7، ص63۔
  45. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج6، ص276؛ ابن‌اعثم الکوفی، الفتوح، 1411ھ ، ج7، ص61۔

مآخذ

  • ابن‌اعثم الکوفی، ابو محمد احمد، الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالأضواء، چاپ اول، 1411ھ ۔
  • ابن‌الطقطقی، محمد بن علی، الفخری، تحقیق عبدالقادر محمد مایو، بیروت،‌ دارالقلم العربی، 1418ھ۔
  • ابن‌حیون، نعمان بن محمد مغربی، دعائم الإسلام و ذکر الحلال و الحرام و القضایا و الأحکام، قم، مؤسسۃ آل البیتؑ، چاپ دوم، 1385ھ۔
  • ابن‌خلدون، عبدالرحمن بن محمد، دیوان المبتدأ و الخبر فی تاریخ العرب و البربر و۔۔۔، تحقیق خلیل شحادۃ، بیروت، دارالفکر، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • ابن‌شاذان، فضل بن شاذان نیشابوری، الإیضاح، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، 1363ہجری شمسی۔
  • ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، 1407ھ۔
  • ابن‌مسکویہ، ابوعلی مسکویہ الرازی، تجارب الامم، تحقیق ابوالقاسم امامی، تہران، سروش، 1379ہجری شمسی۔
  • ازہری، محمد بن احمد، تہذیب اللغہ، بیروت،دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • اشعری قمی، سعد بن عبداللہ، المقالات و الفرق، تہران، مرکز انتشارات علمی فرہنگی، 1360ہجری شمسی۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی بن جابر، انساب الاشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، 1417ھ۔
  • جعفریان، رسول، حیات فکری سیاسی امامان شیعہ، تہران، نشر علم، 1390ہجری شمسی۔
  • دینوری، احمد بن داود، الأخبار الطوال، تحقیق عبدالمنعم عامر، قم، منشورات الرضی، 1368ہجری شمسی۔
  • ذہبی، شمس‌الدین محمد بن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، تحقیق عمر عبدالسلام تدمری، بیروت،‌ دارالکتاب العربی، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات ألفاظ القرآن، بیروت، دارالقلم، 1412ھ۔
  • سبحانی، جعفر، الإنصاف فی مسائل دام فیہا الخلاف، قم، مؤسسہ امام صادقؑ، 1381ہجری شمسی۔
  • شریف رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغۃ، تحقیق صبحی صالح، قم، نشر ہجرت، 1414ھ۔
  • شوشتری، قاضی نوراللہ، إحقاق الحق و إزہاق الباطل، قم، مکتبۃ آیۃ‌اللہ المرعشی النجفی، 1409ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، 1387ھ۔
  • فراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، قم، نشر ہجرت، چاپ دوم، بی‌تا۔
  • مجلسی، محمدباقر بن محمدتقی، بحارالأنوار الجامعۃ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار، بیروت،‌دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق اسعد داغر، قم،‌ دارالہجرۃ، 1409ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام امام امیر المومنینؑ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1385ہجری شمسی۔
  • منقری، نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، تحقیق عبدالسلام محمد ہارون، القاہرۃ، المؤسسۃ العربیۃ الحدیثۃ، چاپ دوم، 1382ھ۔
  • نوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعہ، بیروت، دارالاضواء، 1404ھ۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌یعقوب، تاریخ یعقوبی، بیروت،دار صادر، بی‌تا۔