امام علی کا ابو جہل کی بیٹی سے راشتہ مانگنے کا قصہ
حیات طیبہ | |
---|---|
یوم الدار • شعب ابی طالب • لیلۃ المبیت • واقعہ غدیر • مختصر زندگی نامہ | |
علمی میراث | |
نہجالبلاغہ • غرر الحکم • خطبہ شقشقیہ • بغیر الف کا خطبہ • بغیر نقطہ کا خطبہ • حرم | |
فضائل | |
آیہ ولایت • آیہ اہلالذکر • آیہ شراء • آیہ اولیالامر • آیہ تطہیر • آیہ مباہلہ • آیہ مودت • آیہ صادقین • حدیث مدینہالعلم • حدیث رایت • حدیث سفینہ • حدیث کساء • خطبہ غدیر • حدیث منزلت • حدیث یومالدار • حدیث ولایت • سدالابواب • حدیث وصایت • صالح المؤمنین • حدیث تہنیت • بت شکنی کا واقعہ | |
اصحاب | |
عمار بن یاسر • مالک اشتر • سلمان فارسی • ابوذر غفاری • مقداد• عبید اللہ بن ابی رافع • حجر بن عدی • مزید | |
امام علی کا ابوجہل کی بیٹی سے رشتہ مانگنے کا معاملہ شیعہ اور اہل سنت کے مابین اختلافی احادیث میں سے ایک ہے؛ بعض کا یہ دعوا ہے کہ فتح مکہ کے بعد امام علیؑ نے ابوجہل کی بیٹی کا رشتہ مانگا جس کی وجہ سے حضرت فاطمہؐ آپؑ سے ناراض ہوئیں۔ کہا گیا ہے کہ رشتہ مانگنے پر پیغمبر اکرمؐ نے عکس العمل دکھاتے ہوئے حدیث بضعہ بیان کی اور فاطمہؑ کو تکلیف دینا آنحضرتؐ کو تکلیف دینے کے مترادف قرار دیا۔
اس حدیث کو جعلی، امام علیؑ کے مخالفین کی کارستانی اور امام کی شخصیت کشی کا ایک حربہ قرار دیا گیا ہے۔ حدیث گھڑنے کا مقصد حدیث بضعہ کو بےاہمیت قرار دینا ہے؛ کیونکہ حدیث بضعہ کے مطابق خلیفہ اول اور دوم حضرت زہراؑ کی ناراضگی کا باعث بنے جو اس حدیث کے تحت رسول اللہ کو ناراض کرنے کے مترادف ہے۔ اس واقعے کے مطابق امام علیؑ نے بھی ایسا کام کیا ہے۔ اس واقعے کو رد یا ثابت کرنے کے سلسلے میں متعدد کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔
یہ واقعہ اہل سنت کی صحاح ستہ میں ذکر ہوا ہے جسے صحیح بخاری سے لیا گیا ہے۔ بخاری نے اس واقعے کو تین مختلف صورتوں میں پیغمبر اکرمؐ کے صحابی مِسْوَر بن مَخْرَمِہ سے نقل کیا ہے۔ اس کے مطابق پیغمبر اکرمؐ یہ اعلان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ کی بیٹی اور آپؐ کے دشمن کی بیٹی ایک مرد کے ہاں جمع نہیں ہوسکتی ہیں۔
اس روایت کو مسور بن مخرمہ کی وجہ سے نہیں مانی گئی ہے کیونکہ اس واقعہ کے دوران اس کی عمر بہت کم تھی اور دوسری بات یہ کہ وہ اور اس واقعہ کے دوسرے راویوں کا جھکاؤ دشمنان اہل بیتؑ کی طرف ہے۔ اس واقعے کے بارے میں منقول روایات کے باہمی اختلاف اور متضاد ہونے، اسلامی شریعت کے منافی ہونے اور چند بیویاں جائز ہونے کے بارے میں قرآن مجید کی صراحت کے خلاف ہونے کی وجہ سے اس کے مضمون میں شک و تردید کی گئی ہے۔ دوسری طرف ابوجہل کی بیٹی کبھی مدینہ نہیں آئی تاکہ امام علیؑ ان سے رشتہ مانگے۔ اور ہاں پیغمبر اکرمؐ کے دوسرے داماد نے بھی رسول اللہؐ کی بیٹی اور دشمنِ خدا کی بیٹی سے ایک ساتھ شادی کی ہے لیکن رسول اللہؐ نے ان کو منع نہیں کیا ہے اور رسول اللہؐ خود نے بھی مخالفین کے بعض سرکردوں کی بیٹیوں سے شادی کی ہے۔ اسی طرح کسی سریہ میں امام علیؑ کی طرف سے ایک کنیز کو انتخاب کرنے پر پیغمبر اکرمؐ نے امام کی حمایت اور ان کا دفاع کیا ہے۔
شیعہ علما اس واقعے کو جعلی قرار دیتے ہیں اور اس کے متن اور سند دونوں کو قابل خدشہ سمجھتے ہیں۔ شیعہ مصادر میں سے صرف شیخ صدوق کی کتاب علل الشرایع میں امام علیؑ کی طرف سے ابوجہل کی بیٹی کا رشتہ مانگنے کے بارے میں ایک روایت نقل ہوئی ہے جس کے تحت امام علیؑ کی طرف سے واقعہ کی تردید ہونے کے بعد غلط فہمی دور ہوگئی ہے۔ اس روایت کی سند کو ضعیف اور روایت کو پیغمبر اکرمؐ، امام علیؑ اور حضرت زہراؑ کی شان کے منافی سمجھا گیا ہے۔ امام صادقؑ نے بھی اس واقعے کو اسے پیغمبر اکرمؐ اور دیگر انبیاءؑ پر ناروا تہمت قرار دیا ہے۔ ایک اور حدیث میں امام علیؑ قسم کھاتے ہیں کہ حضرت زہراؑ کبھی ان سے ناراض اور رنجیدہ نہیں ہوئی ہیں۔
واقعے کی اہمیت
امام علیؑ کا ابوجہل کی بیٹی کا رشتہ مانگنا شیعہ اور سنیوں کے مابین اختلافی احادیث میں سے ایک ہے۔ بعض اس واقعے کو امام علیؑ کے اموی دشمنوں کی طرف سے گھڑنے والی ایک حدیث سمجھتے ہیں جسے ناصبی اور بعض وہابی لوگ اچھالتے ہیں۔ [1] جیسا کہ حج کے ایام میں جاجیوں کے درمیان تقسیم ہونے والے پمفلٹس اور کتابچوں، وہابی ویب سائٹوں اور ٹی وی چینلز پر اس پر بہت تاکید کرتے ہیں۔.[2] ان کے مقابلے میں شیعوں نے اس واقعے کے رد میں کئی کتابیں لکھی ہیں جن میں سید علی حسینی میلانی کی کتاب «خواستگاری ساختگی: بررسی و نقد داستان خواستگاری علی(ع) از دختر ابوجہل» ،[3] اور یوسف جمالی کی کتاب «روایات خواستگاری امام علی(ع) از دختر ابوجہل در بوتہ نقد» [4] سر فہرست ہیں۔ بعض محققین کے مطابق محمد فواد عبد الباقی اور اسحاق دبیری نے اس واقعے کے اثبات میں کتابیں لکھی ہیں۔[5]
امام علیؑ کی شخصت کشی
بعض کا کہنا ہے ابوجہل کی بیٹی سے رشتہ مانگنے کا قصہ حدیث بضعہ کی اہمیت کو ختم کرنے کے لئے گھڑی گئی ہے[6] اہل سنت عالم دین ابن ابی الحدید اپنی کتاب شرح نہج البلاغہ میں اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ حدیث ان احادیث میں سے ایک ہے جو معاویہ کے حکم سے امام علیؑ کی شخصیت کشی کی غرض سے گھڑی گئیں۔[7] یہاں تک کہ بعض نے تو اس واقعے کو پیغمبر اکرمؐ اور حضرت فاطمہ کی شان میں گستاخی اور جسارت سمجھتے ہیں۔ [8] اس حدیث کو جعل کرنے والے کو سید مرتضی ملحد اور ناصبی سمجھتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس واقعے میں امام علیؑ کی ذات سے زیادہ رسول اللہؐ کی شان میں جسارت ہوئی ہے۔[9] علامہ طباطبایی بھی کتاب المیزان میں اس جعلی واقعے کو پیغمبر اکرمؐ کی شان میں گستاخی سمجھتے ہیں۔ [10] معاصر محقق حسینی میلانی کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے راویوں میں زبیری خاندان کے وجود سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسے زبیر کے خاندان نے جعل کیا ہے تاکہ اس طریقے سے امام علیؑ کی شخصیت کُشی کی جاسکے۔[11]
پہلے دو خلفا کی کارکردگی کا دفاع
اس حوالے سے کہا گیا ہے کہ اس واقعے پر زیادہ تاکید کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اگر خلیفہ اول اور دوم نے حضرت زہراؑ کو اذیت پہنچائی ہے تو امام علیؑ نے بھی ان کو ناراض کیا ہے اور ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، ان دونوں کو اذیت پہنچانے کے سلسلے میں بری الذمہ ثابت کرنے کے لئے امام علیؑ پر تہمت لگائی گئی ہے۔[12] اسی طرح بعض کا یہ نظریہ ہے کہ اس واقعے کا اصلی راوی مسور بن مخرمہ جب امام سجادؑ سے پیغمبر اکرمؐ کی تلوار نہیں لے سکے تو اسی طرح کا واقعہ بنا لیا ہے اور اسے حدیث بضعہ سے مربوط کردیا ہے۔[13]
اہل سنت کے قدیمی مآخذ میں اس واقعے کا بیان
ابوجہل کی جُوَیْریّہ نامی [یادداشت 1] بیٹی سے امام علی کا رشتہ مانگنے کے واقعے کے بارے میں سب اہل سنت متفق ہیں۔[14] اس طرح سے کہ سوائے بعض افراد کے باقی تمام صِحاح سِتِّہ، مسانید اور سنن کے مؤلفین نے اسے ذکر کیا ہے۔[15] یہ واقعہ اہل سنت مصادر میں مختلف طریقوں سے بیان ہوا ہے،[16] لیکن یہ کہا گیا ہے کہ اس قصے کا اصل مصدر وہ روایات ہیں جنہیں محمد بن اسماعیل بُخاری (متوفی 256ھ) نے کتاب الصحیح میں نقل کیا ہے۔[17]
بخاری میں نقل شدہ تمام گزارشات میں مسور بن مخرمہ کا نام نظر آتا ہے۔ [18] بعض کا کہنا ہے کہ صحاح ستہ کے مؤلفین سب مسور بن مخرمہ سے نقل کرنے میں متفق ہیں[19] اور اس سے منقول روایت کو قابلِ اعتماد سمجھتے ہیں۔ [20] بعض محققین کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی تمام روایات کی سند مسور بن مخرمہ تک پہنچتی ہے۔[21] اگرچہ اس قصے کے بعض نقل کے راویوں میں عبداللہ بن زبیر(متوفی 73ھ)[22] عبداللہ بن عباس، [23] اور عروۃ بن زبیر وغیرہ کا نام بھی نظر آتا ہے۔ [24]
صحیح بخاری میں خواستگاری کا قصہ
بخاری میں یہ واقعہ تین طریقوں سے نقل ہوا ہے اور تینوں پیغمبر اکرمؐ کے صحابی مِسْوَر بن مَخْرَمَہ سے نقل ہوئے ہیں[25]
بخاری کی پہلی روایت مسور کی امام سجاد سے ملاقات کے بارے میں ہے جب امام سجادؑ اور دیگر اسرائے کربلا واقعہ عاشورا کے بعد شام سے مدینہ لوٹے۔ مسور نے امام سجاد سے پیغمبر اکرمؐ کی تلوار مانگی لیکن امام نے دینے سے انکار کیا۔ اس کے بعد مسور امام علیؑ کا ابوجہل کی بیٹی سے رشتہ مانگنے کو ذکر کرتا ہے اور یہ دعوا کرتا ہے کہ میں نے بالغ ہونے کے بعد پیغمبر اکرمؐ کے ایک خطبے میں سنا جس میں آنحضرتؐ نے فاطمہ زہراؑ کو اپنے سے قرار دیتے ہوئے اس پریشانی کا اظہار کیا کہ ممکن ہے کہ دین کے بارے میں امتحان میں مبتلا ہوجائے۔ پھر اپنے دوسرے داماد ابوالعاص بن ربیع کا ذکر کیا جو پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ صداقت اور وفاداری سے پیش آیا ہے۔ پھر فرمایا کہ اس نے کبھی کسی حلال کو حرام اور کسی حرام کو حلال نہیں کیا، لیکن خدا کی قسم رسول اللہؐ کی بیٹی اور دشمنِ خدا کی بیٹی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتی ہیں۔[26] یہ روایت صحیح مسلم،[27] مسند احمد[28] اور اہل سنت کے دیگر مصادر[29] میں نقل ہوئی ہے۔
بخاری کی دوسری روایت کے مطابق مسور سے منقول ہے کہ جب ابوجہل کی بیٹی سے امام علیؑ کا رشتہ مانگنے کی خبر فاطمہ زہراؑ تک پہنچی تو آپ(س)، رسول اللہؐ کے پاس امام علیؑ کی شکایت لے کر پہنچ گئی۔ پیغمبر اکرمؐ یہ خبر سن کر کھڑے ہوگئے اور زبان پر شہادتین جاری کیا اور فرمایا: «ابوالعاص بن ربیع میرے ساتھ صداقت سے پیش آیا۔ فاطمہ میرا ٹکڑا ہے اس کی ناراضگی مجھے بری لگتی ہے۔ خدا کی قسم رسول اللہؐ کی بیٹی اور دشمنِ خدا کی بیٹی ایک مرد کے پاس جمع نہیں ہوسکتی ہیں۔» امام علیؑ اس بات کو سننے کے بعد رشتے مانگنے سے دستبردار ہوگئے۔[30] یہ روایت اہل سنت کے مصادر میں سے صحیح مسلم،[31] مسند احمد،[32] اور دیگر کتابوں میں [33] نقل ہوئی ہے۔
بخاری کی تیسری روایت کے مطابق، پیغمبر اکرمؐ نے اس رشتے کی خبر دی ہے۔ اس نقل کے مطابق رسول اللہؐ منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا: ہشام بن مُغَیرہ (ابوجہل) کے بیٹوں نے علی بن ابی طالب کا ان کی لڑکی سے شادی کرنے کی اجازت مانگی ہے اور یہ اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔ رسول اللہ نے تین مرتبہ اس بات کو تکرار کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ صرف اس وقت اجازت دی جاسکتی ہے جب علی آپ کی بیٹی کو طلاق دے۔ اور چونکہ فاطمہ ان کا ٹکڑا ہے لہذا جس نے فاطمہ کو اذیت پہنچائی گویا اس نے رسول اللہ کو اذیت دی۔[34] اس بات کو مسلم نیشابوری،[35] ابی داوود،[36] ابن ماجہ،[37] نسائی،[38] تِرمِذی[39] اور دوسروں نے [40] نقل کیا ہے۔ بعض مصادر میں یہ بھی ذکر ہوا ہے کہ ابوجہل کے گھرانے نے اس رشتے کو حضرت زہراؑ کے ہوتے ہوئے اس کی مخالفت کی۔[41]
اہل سنت کے بعض محدثین نے اس خبر کو یوں نقل کیا ہے کہ امام علی نے ابوجہل کی بیٹی کا رشتہ لڑکی کے چچا حارث بن ہشام سے مانگا اور پھر رسول اللہؐ سے مشورہ کیا گیا، اور جب رسول اللہ کی ناراضگی کا پتہ چلا تو اس سے منصرف ہوئے۔[42]
شیعہ مصادر میں رشتہ مانگنے کا قصہ
شیعہ علما نے امام علیؑ کا ابوجہل کی بیٹی کا رشتہ مانگنا شیعہ ائمہؑ کی احادیث کے ساتھ سازگار نہیں سمجھا ہے،[43] شیخ صدوق اپنی کتاب اَمالی میں امام صادقؑ سے ایک روایت نقل کرتے ہیں جس میں امام اس قصے کو ان تہمتوں میں سے ایک قرار دیتے ہیں جو پیغمبر اکرمؐ اور دیگر انبیاء پر لگائی گئی ہے۔[44] جیسا کہ امام علیؑ خود ایک حدیث میں قسم کھا کر کہتے ہیں کہ میں نے کبھی فاطمہ کو ناراض نہیں کیا ہے۔[45]
کتاب علل الشرائع کے مترجم سید محمد جواد ذہنی تہرانی کہتے ہیں کہ پوری تحقیق کے بعد بھی یہ قصہ علل الشرائع کے علاوہ کسی اور حدیثی کتاب میں نہیں ملی یہاں تک کہ شیخ صدوق نے بھی اپنی دوسری کتابوں میں یہ قصہ ذکر نہیں کیا ہے۔[46]
علل الشرایع کی روایت
کتاب علل الشرایع میں شیخ صدوق، امام صادقؑ سے ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ جس میں کہا گیا ہے کہ ایک شقی شخص نے فاطمہ زہراؑ کو یہ خبر دی کہ امام علیؑ نے ابوجہل کی بیٹی کا رشتہ مانگا ہے۔ حضرت فاطمہ نے اس شخص سے تین مرتبہ پوچھا کہ کیا یہ حقیقت ہے؟ اس نے ہاں میں جواب دیا۔ حضرت زہراؑ یہ سن کر بہت ناراض ہوئی اور جب شام ہوئی تو اپنے بچوں کے ساتھ والد گرامی کے پاس گئیں اور رسول اللہؐ کو سارا ماجرا بیان کیا۔ رسول اللہؐ نے حضرت زہرا کی پریشانی کو دیکھ کر ان کو بچوں کے ساتھ امام علیؑ کے ہاں واپس جانے کا کہا۔ دوسری جانب جب امام علیؑ گھر لوٹ آئے تو دیکھا فاطمہ زہراؑ اور بچے گھر پر نہیں ہیں، اور آپ مسجد گئے اور نماز و دعا کے بعد کسی کونے میں مٹی پر سر رکھ کر سوگئے۔ رسول اللہؐ نے امام علیؑ کو اس حالت میں دیکھ کر ابوتراب کا لقب دے کر اٹھنے کو کہا اور انھیں ابوبکر، عُمر اور طلحہ کو آنحضرتؐ کے پاس لانے کا کہا۔ پھر رسول اللہؐ نے ان کے سامنے فاطمہ کو اپنا ٹکڑا کہا اور ان کی نارضگی کو اپنی ناراضگی اور اپنی ناراضگی کو اللہ کی ناراضگی کے برابر قرار دیا اور کہا کہ یہ مسئلہ صرف میری حیات تک محدود نہیں ہوگا۔ پھر اس کے بعد رسول اللہ نے امام علیؑ سے رشتہ مانگنے کے بارے میں پوچھا جس پر امام علیؑ نے قسم کھا کر کہا کہ یہ بات جھوٹ ہے۔ رسول اللہؑ نے امام کی تصدیق کی۔ فاطمہ زہرا یہ سن کر بہت خوش ہوئی اور امام علیؑ اور بچوں کے ہمراہ گھر لوٹ آئی۔[47]
ذہنی تہرانی اس حدیث کی سند کو ضعیف سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس حدیث کے سلسلہ سند میں واقع بعض افراد ضعیف یا مجہول ہیں اور اسی طرح حدیث کا متن بھی معتبر نہیں ہے کیونکہ اس طرح کی باتیں رسول اللہؐ، امام علیؑ اور حضرت زہراؑ کی شان کے خلاف ہیں۔ [48]
رشتہ مانگنے کے قصے کی تحقیق
شیعہ علما نے امام علیؑ کا ابوجہل کی بیٹی سے رشتہ مانگنے کی روایت کو سند [49] اور متن دونوں اعتبار سے ناقابلِ اعتبار [50] قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس قصے کے متن پر توجہ دی جائے تو اس کا جعلی ہونا آشکار ہوجاتا ہے۔[51]
پانچویں صدی ہجری کے شیعہ متکلم اور محدث سید مرتضی (متوفی 436ھ) نے امام علیؑ کا ابوجہل کی بیٹے سے رشتہ مانگنے کے قصے کو جعلی اور من گھڑت اور غیر مشہور قرار دیا ہے۔[52] چھٹی صدی ہجری کے شیعہ محدث ابن شہر آشوب بھی اس ماجرا کا جعلی ہونے پر تاکید کرتے ہیں۔ [53] معاصر محققین بالخصوص جعفر مرتضی،[54] سید محمد حسینی قزوینی[55] وغیرہ[56] نے بھی اس ماجرا کو جعلی اور من گھڑت قرار دیا ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ اگر یہ رشتہ مانگنے والی بات صحیح ہوتی تو بنی امیہ جیسے امام علیؑ کے دشمن اس سے استفادہ کرتے جبکہ کہیں اس کا تذکرہ نہیں ملتا ہے۔[57] البتہ بعد کے ادوار میں مروان بن ابی حفصہ (متوفی 189ھ) جیسا شاعر جو اہل بیت کی دشمنی میں مشہور تھا،[58] نے عباسی خلیفہ ہارون کی مدح کرتے ہوئے اس واقعے کی طرف اشارہ کر کے امامؑ کی تحقیر کی ہے۔[59]
اصل راوی کی کمسنی
اگرچہ مسور کو اصحاب پیغمبرؑ میں شمار کیا گیا ہے،[60] لیکن یہ واقعہ اس کی کم عمری کے باعث اس سے قبول نہیں کیا گیا ہے۔[61] کیونکہ یہ واقعہ فتح مکہ کے بعد 8 ہجری میں واقع ہوا ہے [62] جبکہ مسور کی پیدائش دوسری ہجری[63] کو ہوئی ہے جس کے مطابق وہ اس وقت چھ سال کا بچہ تھا۔[64] دوسری طرف مسور کے ایک نقل میں یہ دعوا بھی کیا گیا ہے کہ واقعہ نقل کرتے وقت وہ احتلام ہوتا تھا (اور بالغ ہوا تھا)۔ [65] بعض اہل سنت مصنفین نے اس بات کی توجیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔[66] مثلا ابن حَجَر عَسْقَلانی نے احتلام سے مراد عقلی کمال تک پہنچنا لیا ہے۔ [67] لیکن یہ توجیہ عقل اور عرف کے خلاف قرار دی گئی ہے[68] اور عصر نبوی میں مسور کے کردار کو[69] بھی اس کے برخلاف قرار دیا گیا ہے۔[70] اسی طرح یہ سوال بھی اٹھا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اصحاب پیغمبر میں سے صرف دو چھوٹے بچے مسور اور عبداللہ بن زبیر جو 1ھ کو پیدا ہوا ہے،[71] نے اس قصے کو نقل کیا ہے اور دوسرے اصحاب نے اس قصہ اور پیغمبر اکرمؐ کے خطبے کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہے۔[72]
سلسلہ سند میں دشمنان اہل بیتؑ کا وجود
بعض شیعوں نے مسور کا خوارج سے رابطہ[73] اور اس کا معاویہ اور [74] و زبیریوں[75] کی طرف تمایل کی وجہ سے اس روایت کو غیر معتبر قرار دیا ہے۔[76] اسی طرح اس ماجرا کے دوسرے راوی بھی امام علیؑ کے دشمنوں میں شمار ہوتے ہیں اور ان کی روایت کو اسی وجہ سے ضعیف سمجھا ہے؛ سید مرتضی اس رشتہ مانگنے کے واقعے کو کَرابیسی کی وجہ سے ضعیف اور جعلی سمجھتے ہیں کیونکہ وہ اہل بیت سے دشمنی میں مشہور تھا۔[77] دوسروں نے اس ماجرا کے نقل میں ابو ہریرہ کا کردار اور امام علیؑ کی شخصیت کشی کو بیان کیا ہے۔[78] اسی طرح زُہری، (متوفی 124ھ) [79] شَعْبی اور ابن مَخْدوم کا سلسلہ سند میں ہونے اور ان کی امام علی سے دشمنی کی وجہ سے حدیث کو ضعیف سمجھا ہے۔[80] جیسا کہ کہا گیا ہے کہ شبعی نے قسم کھایا تھا کہ امام علیؑ کی وفات تک قرآن نہیں پڑھے گا اور ابن مخدوم نے بھی ایک دن میں امام علیؑ پر 12000 بار لعن کیا تھا۔[80]
روایت کے نقل میں اختلاف اور باہمی عدم توافق
اس قصے کی مختلف روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے اور اسی چیز کو اس کے اعتبار میں کمی[81] یا اس ماجرا کا حقیقت نہ ہونے[82] کا باعث قرار دیا ہے۔ بخاری کی پہلی روایت پر یہ اعتراض ہوا ہے کہ امام سجادؑ کا مدینہ میں آنا اور مسور کی طرف سے کسی ربط کے بغیر آپ سے پیغمبر اکرمؐ کی تلوار مانگنا اور اس کے بعد امام علیؑ کی ابوجہل کی بیٹی سے رشتہ مانگنے کو بیان کرنے کو ایک دوسرے سے غیر مربوط سمجھا ہے۔[83] البتہ بعض نے کہا ہے کہ مسور کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح سے پیغمبر اکرمؐ نے اس شادی کی مخالفت میں حضرت زہراؑ کی رضایت اور سکون کو مدنظر رکھا تھا میں بھی اس تلوار کو آپ سے لیکر آپ کے لئے اس کی حفاظت کرنے اور آپ کے سکون کا باعث بنے کا سوچ رہا تھا۔[84] یہ توجیہ اور دیگر توجیہات بعض مصنفین کی طرف سے نقد ہوئی ہیں۔[85]
شریعت اور قرآن کی مخالفت
رشتہ مانگنے کے قصے کو قرآن کے منافی جانا گیا ہے؛[86] کیونکہ قرآن میں کئی شادیاں جائز ہیں؛[87] لیکن اس قصے میں بعض نقل کے مطابق[88] رسول اللہؐ، امام علیؑ کی دوسری شادی کو حرام سمجھتے ہیں۔[89] ساتویں صدی ہجری کے معتزلی ادیب، ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ اگر یہ رشتہ مانگنا صحیح بھی ہو تو امام علیؑ پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا ہے؛ کیونکہ قرآنی تعلیمات کے مطابق وہ چار شادیاں کر سکتے تھے اور اس وقت ابوجہل کی بیٹی مسلمان ہوچکی تھی اور شادی کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔[90]
بعض نے کہا ہے کہ یہ ایک خاص حکم ہے جس کے تحت پیغمبر اکرمؐ کی بیٹی کے ہوتے ہوئے دوسری عورت سے شادی کرنا حرام تھا،[91] لیکن پھر کہا ہے اس صورت میں بھی امام کو یہ بات پہلے نہیں بتائی گئی تھی تاکہ رسول اللہؐ اس رشتے کی وجہ سے آپ کی ملامت کرے[92] اور یہ مسئلہ پیغمبر اکرمؐ کے مخصوص احکام میں بھی ذکر نہیں ہوا ہے۔[93]
قصہ پیغمبر اکرمؐ کی شان کے منافی ہونا
رشتہ مانگنے کا قصہ پیغمبر اکرمؐ کی شان کے منافی سمجھا گیا ہے کیونکہ تاریخی نقل کے مطابق آنحضرتؐ غصے کی حالت میں اس طرح سے مسجد میں تشریف لے آئے کہ آپ کی ردا زمین پر کھچتی جارہی تھی اور منبر پر جاکر امام علیؑ سے اپنی بیٹی کی طلاق مانگا، یوں ایک حلال کام پر اس قدر غصہ ہونا آپ کے اخلاقِ حسنہ سے سازگار نہیں ہے۔[94] بعض نے یہاں تک کہا ہے کہ اگر یہ کام حرام بھی ہوتا تو اس طرح سے بتانے کی ضرورت نہیں تھی اور پیغمبر اکرمؐ اکیلے میں امام علیؑ کو بتا دیتے اور امام آپ کی بات بلاتامل مان لیتے۔[95] سید مرتضی کہتے ہیں کہ جو شخص بھی تاریخ سے آشنا ہو تو وہ جانتا ہے کہ امام علیؑ ہر حال میں رسول اللہ کے فرمانبردار تھے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی کام کی وجہ سے آپ کی سرزنش ہوئی ہو۔[96] اسی طرح بعض کا کہنا ہے[97] کہ رسول اللہ سے یہ کیسے ممکن ہے کہ ابوجہل کی بیٹی کو جو مسلمان ہوئی ہے اسے دشمنِ خدا کی بیٹی سے پکارے جبکہ دوسری طرف اپنے اصحاب کو ابوجہل کے بیٹے عکرمہ جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوا تھا کو دشمن خدا کا بیٹا کہنے سے منع کرے؟ کیونکہ اس سے عکرمہ کو تکلیف پہنچتی ہے۔[98]
قصہ امام علیؑ کی شان کے منافی ہونا
بعض کا کہنا ہے کہ اگر اس قصے کو مان لیں تو یہ سوال پیش آتا ہے کہ کیا امام علیؑ بنی مغیرہ کے برابر بھی پیغمبر اکرمؐ کی ادب نہیں کرتے تھے کہ آپ سے اس کام کی اجازت لیں؟[99] اسی لیے اس قصے کو امام کی علمیت کے منافی قرار دیا ہے جن کو پیغمبر اکرمؐ کی بیٹی اور ایک مشرک کی بیٹی کو ایک ساتھ جمع کرنے کی برائی کا علم نہیں ہے۔[100] اسی طرح پیغمبر اکرمؐ اور ان کی بیٹی سے امام علیؑ کی محبت اور ان کے تقوی کے منافی سمجھا ہے۔[101] کلی طور پر یہ قصہ، پیغمبر اکرمؐ کی امام علیؑ کی فضیلت میں وارد متعدد روایات کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔[102]
قصہ حضرت زہرا کی منزلت کے منافی ہونا
یہ قصہ حضرت زہراؑ کے ایمان اور منزلت کے بھی منافی سمجھا گیا ہے۔[103] کیونکہ بعض رویات کے مطابق رسول اللہؐ کو یہ تشویش اور پریشانی تھی کہ کہیں ان کی بیٹی، دین کے حوالے سے امتحان میں مبتلا نہ ہو۔[104] اسی طرح یہ داستان صحیح ہو بھی تو حضرت فاطمہؑ کی شأن و منزلت اس سے کہیں بالاتر ہے کہ وہ اللہ کے حکم کے خلاف رسول اللہؐ کے پاس جاکر شکایت کرے۔[105]
تاریخی اعتراضات
بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے امام علیؑ کی طرف سے ابو جہل کی بیٹی کا رشتہ مانگنا تاریخی اعتبار سے ممکن نہیں تھا۔ کیونکہ وہ فتح مکہ سے پہلے تک کافر تھی[106] اور مسلمان ہونے کے بعد عَتّاب بن اُسَیْد سے شادی کی ہے۔[107] لہذا ابوجہل کی بیٹی کبھی بھی مدینہ نہیں آئی تاکہ امام علیؑ اس کا رشتہ مانگ سکے۔[108] اگرچہ بعض مؤلفین نے فتح مکہ میں حضرت زہرا کے حضور کو بھی بیان کیا ہے[109] لہذا بعض نے کہا ہے کہ ابوجہل کی بیٹی کی عتاب سے شادی امام علیؑ کا رشتہ مانگنے اور منصرف ہونے کے بعد ہوئی ہے۔[110] بعض کا یہ دعوا ہے کہ عتاب نے جب یہ خبر سنی تو حضرت زہراؑ کو پیغام دیا کہ میں اس مسئلے کو حل کرتا ہوں اور اسی لئے اس نے ابوجہل کی بیٹی سے شادی کیا۔[111]
بعض محققین نے ابوجہل کی بیٹی کے فتح مکہ کے بعد رسول اللہ اور اسلام دشمنی میں کہے جانے والے الفاظ،[112] اور اذان دیتے ہوئے بلال حبشی کی توہین[113] کی وجہ سے اس کے اسلام کو ظاہری قرار دیا ہے اور اس طرح کی لڑکی سے امام علیؑ کا رشتہ مانگنے کو رد کیا ہے۔[114]
اس جیسے دوسرے واقعات
اس قصے کو نقد کرتے ہوئے محققین نے اس جیسے بعض دیگر واقعے بیان کیے ہیں جن میں پیغمبر اکرمؐ کی ایک بیٹی ایسے شخص کی بیوی ہے جس کی ایک بیوی مشرک خاندان سے ہے؛ جیسے عثمان،[115] جنہوں نے پیغمبر اکرم کی بیٹی رقیہ [یادداشت 2] کے ہوتے ہوئے شیبہ کی بیٹی رملہ،[116] فاطمہ بنت ولید بن عبد الشمس[117] (ابوجہل کی نواسی)[118] اور ام البنین بنت عیینہ [119] سے شادی کی[120] جن کے باپ سب پیغمبر اکرمؐ کے دشمن تھے۔
بعض تاریخی گزارشات کے مطابق رسول اللہؐ نے حیی بن اخطب کی بیٹی سے شادی کی[121] جو یہودیوں کے سرکردہ اور رسول اللہؐ کے دشمنوں میں سے تھے۔[122] اسی لئے بعض نے کہا ہے کہ رسول اللہؐ نے کیسے اپنی بات کی نفی کی ہے اور دشمنِ خدا کی بیٹی سے شادی کی ہے۔[123] جعفر مرتضی کہتے ہیں کہ معیار اسی شخص کا ایمان ہے لہذا رسول اللہؐ بعض ایسی خواتین سے شادی کرتے تھے جن کے باپ مشرک دنیا سے گئے تھے۔[124]
اس قصے سے مشابہ ایک اور واقعہ بھی ہے جس کو اس قصے پر نقد کے طور پر پیش کیا گیا ہے وہ یمن کی جنگ کے بعد امام علیؑ کی شان میں گستاخی کرنے پر رسول اللہؐ کا برہم ہونا ہے۔[125] کہا گیا ہے کہ امامؑ نے غنائم میں سے ایک کنیز اپنے لئے انتخاب کیا تھا تو امام کے ساتھیوں میں سے کوئی شخص رسول اللہؐ کے پاس گیا تاکہ امام کے خلاف شکایت کرے۔ کسی صحابی نے کہا رسول اللہؐ اپنی بیٹی کی نسبت بہت حساس ہیں اور علیؑ پر غصہ ہونگے۔ لیکن پیغمبر اکرم نے جواب میں کہا فیئ کی تقسیم کرنے میں علیؑ میری طرح ہیں اور جس طرح چاہیں وہ تقسیم کرسکتے ہیں۔[126]
حوالہ جات
- ↑ محسنی، «خواستگاری علی(ع) از دختر ابوجہل»، 1395شمسی، ص97-98۔
- ↑ عابدی، «ماجرای خواستگاری امیرالمؤمنین از دختر ابوجہل/چہ کسانی مورد غضب صدیقہ طاہرہ (س) بودند؟»، باشگاہ خبرنگاران جوان۔
- ↑ حسینی میلانی، خواستگاری ساختگی، 1386ہجری شمسی۔
- ↑ جمالی، روایات خواستگاری امام علی(ع) از دختر ابوجہل در بوتہ نقد، 1401ہجری شمسی۔
- ↑ عابدی، «ماجرای خواستگاری امیرالمؤمنین از دختر ابوجہل/چہ کسانی مورد غضب صدیقہ طاہرہ (س) بودند؟»، باشگاہ خبرنگاران جوان۔
- ↑ «اہل سنت، پیغمبر اکرمؐ کی مشہور حدیث (فاطمہ بضعۃ منی و...) کو امام علیؑ کا ابوجہل کی بیٹی کا رشتہ مانگنے سے جوڑتے ہیں»، مرکز ملی مطالعات و پاسخگویی بہ شبہات حوزہ علمیہ قم۔
- ↑ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج4، ص63-64۔
- ↑ حسینی میلانی، خواستگاری ساختگی، 1386شمسی، ص17۔
- ↑ سید مرتضی، تنزیہ الانبیاء،1377شمسی، ص 168۔
- ↑ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1402ھ، ج14، ص229۔
- ↑ حسینی میلانی، خواستگاری ساختگی، 1386شمسی، ص131-132۔
- ↑ عابدی، «ماجرای خواستگاری امیرالمؤمنین از دختر ابوجہل/چہ کسانی مورد غضب صدیقہ طاہرہ (س) بودند؟»، باشگاہ خبرنگاران جوان۔
- ↑ رضوانی، «حدیث خواستگاری امام علی(ع) از دختر ابوجہل چرا و چگونہ ساختہ شد؟»، خبرگزاری بین المللی قرآن۔
- ↑ حسینی میلانی، خواستگاری ساختگی، 1386شمسی، ص17۔
- ↑ حسینی میلانی، خواستگاری ساختگی، 1386شمسی، ص21۔
- ↑ ملاحظہ ہو: بخاری، صحیح البخاری، 1410ھ، ج5، ص207-208، ج6، ص125-126، ج8، ص199؛ ابن حنبل، مسند احمد، 1416ھ، ج31، ص226، 227-229؛ مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، 1412ھ، ج4، ص1902، 1903-1904۔
- ↑ محسنی، «خواستگاری علی(ع) از دختر ابوجہل»، 1395شمسی، ص101۔
- ↑ بخاری، صحیح البخاری، 1410ھ، ج5، ص207، ج6، ص125، ج8، ص199۔
- ↑ حسینی میلانی، خواستگاری ساختگی، 1386شمسی، ص69۔
- ↑ حسینی میلانی، خواستگاری ساختگی، 1386شمسی، ص69۔
- ↑ محسنی، «خواستگاری علی(ع) از دختر ابوجہل»، 1395شمسی، ص105۔
- ↑ ترمذی، سنن ترمذی، 1419ھ، ج5، ص511۔
- ↑ ابن بکار، الاخبار الموفقیات، 1416ھ، ص618-619۔
- ↑ ابی داوود، سنن ابی داوود، 1420ھ، ج2، ص886۔
- ↑ بخاری، صحیح البخاری، 1410ھ، ج5، ص207-208، ج6، ص125-126، ج8، ص199۔
- ↑ بخاری، صحیح البخاری، 1410ھ، ج5، ص207-208۔
- ↑ مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، 1412ھ، ج4، ص1903۔
- ↑ ابن حنبل، مسند احمد، 1416ھ، ج31، ص228-229۔
- ↑ ابی داوود، سنن ابی داوود، 1420ھ، ج2، ص885-886۔
- ↑ بخاری، صحیح البخاری، 1410ھ، ج6، ص125-126۔
- ↑ مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، 1412ھ، ج4، ص1903-1904۔
- ↑ ابن حنبل، مسند احمد، 1416ھ، ج31، ص226، 227-228۔
- ↑ ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، 1418ھ، ج3، ص412-413؛ ابونعیم، معرفۃ الصحابہ، 1422ھ، ج4، ص253۔
- ↑ بخاری، صحیح البخاری، 1410ھ، ج8، ص199۔
- ↑ مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، 1412ھ، ج4، ص1902۔
- ↑ ابی داوود، سنن ابی داوود، 1420ھ، ج2، ص886۔
- ↑ ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، 1418ھ، ج3، ص412۔
- ↑ نسائی، السنن الکبری، 1411ھ، ج5، ص147۔
- ↑ ترمذی، سنن ترمذی، 1419ھ، ج5، ص510-511۔
- ↑ ابونعیم، معرفۃ الصحابہ، 1422ھ، ج4، ص253؛ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج58، ص159-160۔
- ↑ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج3، ص173۔
- ↑ ابن حنبل، فضائل الصحابہ، 1430ھ، ج2، ص944-945؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج3، ص173۔
- ↑ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1402ھ، ج14، ص229۔
- ↑ صدوق، الامالی، 1376شمسی، ص102-105۔
- ↑ اربلی، کشف الغمہ، 1381ھ، ج1، ص363۔
- ↑ ذہنی تہرانی، ترجمہ علل الشرایع، 1380شمسی، ج1، ص605۔
- ↑ صدوق، علل الشرایع، 1385شمسی، ج1، ص185-186۔
- ↑ ذہنی تہرانی، ترجمہ علل الشرایع، 1380شمسی، ج1، ص605۔
- ↑ «ماجرای خواستگاری حضرت علی(ع) از دختر ابوجہل؛ دروغ یا واقعیت!؟»، خبرگزاری رسمی حوزہ۔
- ↑ «ماجرای خواستگاری حضرت علی(ع) از دختر ابوجہل؛ دروغ یا واقعیت!؟»، خبرگزاری رسمی حوزہ۔
- ↑ محسنی، «خواستگاری علی(ع) از دختر ابوجہل»، 1395شمسی، ص106۔
- ↑ سید مرتضی، تنزیہ الانبیاء،1377شمسی، ص 167۔
- ↑ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ھ، ج1، ص4۔
- ↑ مرتضی عاملی، الصحیح من سیرۃ الامام علی(ع)، 1430ھ، ج3، ص61، 65۔
- ↑ حسینی قزوینی، «خواستگاری از دختر ابوجہل/ازدواج موقت»، موسسہ تحقیقاتی حضرت ولی عصر(عج)۔
- ↑ حسینی میلانی، خواستگاری ساختگی، 1386شمسی، ص131؛ محسنی، «خواستگاری علی(ع) از دختر ابوجہل»، 1395شمسی، ص97-98۔
- ↑ سید مرتضی، تنزیہ الانبیاء،1377شمسی، ص 169۔
- ↑ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج13، ص144؛ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج57، ص287۔
- ↑ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج4، ص65۔
- ↑ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج58، ص158۔
- ↑ «ماجرای خواستگاری حضرت علی(ع) از دختر ابوجہل؛ دروغ یا واقعیت!؟»، خبرگزاری رسمی حوزہ۔
- ↑ ابن حجر، فتح الباری، 1379ھ، ج7، ص86؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج4، ص66۔
- ↑ ابونعیم، معرفۃ الصحابہ، 1422ھ، ج4، ص252؛ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج58، ص162۔
- ↑ محسنی، «خواستگاری علی(ع) از دختر ابوجہل»، 1395شمسی، ص106۔
- ↑ بخاری، صحیح البخاری، 1410ھ، ج5، ص208؛ ابن حنبل، مسند احمد، 1416ھ، ج31، ص229؛ مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، 1412ھ، ج4، ص1903۔
- ↑ طحاوی، شرح مشکل الآثار، 1431ھ، ج12، ص515؛ ابن حبان، صحیح ابن حبان، 1414ھ، ج15، ص407؛ ابن قیم جوزی، حاشیۃ ابن القیم علی سنن ابی داود، 1415ھ، ج6، ص55۔
- ↑ ابن حجر، تہذیب التہذیب، 1325ھ، ج10، ص151-152۔
- ↑ محسنی، «خواستگاری علی(ع) از دختر ابوجہل»، 1395شمسی، ص107۔
- ↑ مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، 1412ھ، ج1، ص268؛ ابن قانع، معجم الصحابہ، 1424ھ، ج3، ص1232، ج14، ص4953؛ ابن حجر، الاصابہ، 1415ھ، ج6، ص94۔
- ↑ محسنی، «خواستگاری علی(ع) از دختر ابوجہل»، 1395شمسی، ص107-108۔
- ↑ ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج3، ص905۔
- ↑ حسینی میلانی، خواستگاری ساختگی، 1386شمسی، ص132-133۔
- ↑ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج58، ص161۔
- ↑ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج58، ص168۔
- ↑ ابونعیم، معرفۃ الصحابۃ، 1422ھ، ج4، ص252؛ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج58، ص161، 164۔
- ↑ حسینی میلانی، خواستگاری ساختگی، 1386شمسی، ص131؛ محسنی، «خواستگاری علی(ع) از دختر ابوجہل»، 1395شمسی، ص105۔
- ↑ سید مرتضی، تنزیہ الانبیاء،1377شمسی، ص 167-168۔
- ↑ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج4، ص63-64۔
- ↑ حسینی میلانی، خواستگاری ساختگی، 1386شمسی، ص73-83۔
- ↑ 80.0 80.1 عابدی، «ماجرای خواستگاری امیرالمؤمنین از دختر ابوجہل/چہ کسانی مورد غضب صدیقہ طاہرہ (س) بودند؟»، باشگاہ خبرنگاران جوان۔
- ↑ مرتضی عاملی، الصحیح من سیرۃ الامام علی(ع)، 1430ھ، ج3، ص65۔
- ↑ حسینی میلانی، خواستگاری ساختگی، 1386شمسی، ص87۔
- ↑ محسنی، «خواستگاری علی(ع) از دختر ابوجہل»، 1395شمسی، ص106۔
- ↑ ابن حجر، فتح الباری، 1379ھ، ج6، ص214۔
- ↑ حسینی میلانی، خواستگاری ساختگی، 1386شمسی، ص90-96۔
- ↑ محسنی، «خواستگاری علی(ع) از دختر ابوجہل»، 1395شمسی، ص108۔
- ↑ قرآن کریم، سورہ نساء، آیہ 3۔
- ↑ بخاری، صحیح البخاری، 1410ھ، ج8، ص199؛ مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، 1412ھ، ج4، ص1902؛ ابی داوود، سنن ابی داوود، 1420ھ، ج2، ص886۔
- ↑ سید مرتضی، تنزیہ الانبیاء،1377شمسی، ص 168۔
- ↑ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج4، ص65-66۔
- ↑ ابن حجر، فتح الباری، 1379ھ، ج7، ص86۔
- ↑ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1402ھ، ج14، ص229؛ قزوینی حائری، الامامۃ الکبری و الخلافۃ العظمی، 1427ھ، ج1، ص53۔
- ↑ «ماجرای خواستگاری حضرت علی(ع) از دختر ابوجہل؛ دروغ یا واقعیت!؟»، خبرگزاری رسمی حوزہ۔
- ↑ محسنی، «خواستگاری علی(ع) از دختر ابوجہل»، 1395شمسی، ص111-112۔
- ↑ مرتضی عاملی، الصحیح من سیرۃ الامام علی(ع)، 1430ھ، ج3، ص70۔
- ↑ سید مرتضی، تنزیہ الانبیاء،1377شمسی، ص 169۔
- ↑ مرتضی عاملی، الصحیح من سیرۃ الامام علی(ع)، 1430ھ، ج3، ص72.
- ↑ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج3، ص270-271؛ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج41، ص59۔
- ↑ مرتضی عاملی، الصحیح من سیرۃ الامام علی(ع)، 1430ھ، ج3، ص70-71۔
- ↑ «ماجرای خواستگاری حضرت علی(ع) از دختر ابوجہل؛ دروغ یا واقعیت!؟»، خبرگزاری رسمی حوزہ۔
- ↑ «ماجرای خواستگاری حضرت علی(ع) از دختر ابوجہل؛ دروغ یا واقعیت!؟»، خبرگزاری رسمی حوزہ۔
- ↑ «خواستگاری علی بن ابی طالب(ع) از دختر ابو جہل!!!»، پایگاہ اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی۔
- ↑ مرتضی عاملی، الصحیح من سیرۃ الامام علی(ع)، 1430ھ، ج3، ص71۔
- ↑ بخاری، صحیح البخاری، 1410ھ، ج5، ص207-208؛ مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، 1412ھ، ج4، ص1903؛ ابن حنبل، مسند احمد، 1416ھ، ج31، ص228-229۔
- ↑ رضوانی، «حدیث خواستگاری امام علی(ع) از دختر ابوجہل چرا و چگونہ ساختہ شد؟»، خبرگزاری بین المللی قرآن۔
- ↑ خطیب عمری، الروضۃ الفیحاء فی تواریخ النساء، 1420ھ، ص 292۔
- ↑ ذہبی، تاریخ الاسلام، 1413ھ، ج3، ص531۔
- ↑ محسنی، «خواستگاری علی(ع) از دختر ابوجہل»، 1395شمسی، ص113-114۔
- ↑ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج2، ص829-830؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص110۔
- ↑ ابن اثیر، اسد الغابہ، 1409ھ، ج6، ص56؛ ابن حجر، الاصابہ، 1415ھ، ج5، ص35، ج8، ص72۔
- ↑ ابن حجر، تہذیب التہذیب، 1325ھ، ج7، ص89-90۔
- ↑ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج2، ص846؛ مقریزی، امتاع الاسماع، 1420ھ، ج1، ص396، ج13، ص385۔
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج1، ص356؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، 1385ھ، ج2، ص254۔
- ↑ حسینی قزوینی، «پاسخ بہ شبہہ ازدواج حضرت علی(ع) با دختر ابوجہل»، موسسہ تحقیقاتی حضرت ولی عصر(عج)۔
- ↑ مرتضی عاملی، الصحیح من سیرۃ الامام علی(ع)، 1430ھ، ج3، ص71۔
- ↑ ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، بی تا، ج1، ص625، 639؛ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص148۔
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج5، ص498، 601؛ طبری، تاریخ طبری، 1387ھ، ج4، ص420۔
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج5، ص116؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج5، ص601۔
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج3، ص40؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج5، ص498، 575، 593، 601؛ طبری، تاریخ طبری، 1387ھ، ج4، ص420-421۔
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج3، ص39-40؛ طبری، تاریخ طبری، 1387ھ، ج4، ص420-421۔
- ↑ ابن حبیب، المحبر، بی تا، ص 90؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بی تا، ج2، ص56۔
- ↑ ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، بی تا، ج2، ص24؛ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج2، ص455۔
- ↑ عابدی، «ماجرای خواستگاری امیرالمؤمنین از دختر ابوجہل/چہ کسانی مورد غضب صدیقہ طاہرہ (س) بودند؟»، باشگاہ خبرنگاران جوان۔
- ↑ مرتضی عاملی، الصحیح من سیرۃ الامام علی(ع)، 1430ھ، ج3، ص71۔
- ↑ مرتضی عاملی، الصحیح من سیرۃ الامام علی(ع)، 1430ھ، ج3، ص65-68۔
- ↑ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص160-161؛ نسائی، السنن الکبری، 1411ھ، ج5، ص135-136۔
نوٹ
- ↑ اس کے نام کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض مصادر میں اس کا نام جویریہ (واقدی، المغازی، 1409ھ، ج2، ص846؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج8، ص206) اور بعض میں عوراء (ابن حنبل، فضائل الصحابہ، 1430ھ، ج2، ص946؛ ابن حجر، فتح الباری، 1379ھ، ج7، ص86) یا جمیلہ (ابن اثیر، اسد الغابہ، 1409ھ، ج6، ص53) ذکر ہوا ہے۔
- ↑ بعض کا کہنا ہے کہ رقیہ اور ام کلثوم پیغمبر اکرمؐ کی منہ بولی بیٹیاں تھیں۔ (مرتضی عاملی، بنات النبی(ص) ام ربائبہ، 1413ھ، ص113-114)
مآخذ
- قرآن کریم.
- ابن ابی الحدید، عبدالحمید بن ہبۃ اللہ، شرح نہج البلاغہ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، 1404ھ۔
- ابن اثیر، عزالدین علی بن محمد، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابہ، بیروت، دارالفکر، 1409ھ۔
- ابن اثیر، عزالدین علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، دار صادر، 1385ھ۔
- ابن بکار، زبیر، الاخبار الموفقیات، تحقیق سامی مکی العانی، قم، الشریف الرضی، 1416ھ۔
- ابن حبان، محمد بن احمد، صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان، تحقیق شعیب الارنووط، بیروت، موسسۃ الرسالہ، چاپ دوم، 1414ھ۔
- ابن حبیب، محمد بن حبیب بن امیہ، المحبر، تحقیق ایلزۃ لیختن شتیتر، بیروت، دار الآفاق الجدیدہ، بی تا.
- ابن حجر، احمد بن علی بن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، تحقیق عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1415ھ۔
- ابن حجر، احمد بن علی بن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، بیروت، دار صادر، 1325ھ۔
- ابن حجر، احمد بن علی بن حجر عسقلانی، فتح الباری، تحقیق محمد فواد عبدالباقی و محب الدین الخطیب، بیروت، دار المعرفہ، 1379ھ۔
- ابن حنبل، احمد بن محمد، فضائل الصحابہ، تحقیق وصیاللہ بن محمد عباس، قاہرہ، دار ابن الجوزی، چاپ چہارم، 1430ھ۔
- ابن حنبل، احمد بن محمد، مسند احمد، تحقیق عبداللہ بن عبدالمحسن ترکی و دیگران، بیروت، موسسۃ الرسالہ، 1416ھ۔
- ابن سعد، محمد بن سعد بن منیع، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1410ھ۔
- ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب(ع)، قم، علامہ، 1379ھ۔
- ابن عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دار الجیل، 1412ھ۔
- ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشق، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالفکر، 1415ھ۔
- ابن قانع، عبدالباقی، معجم الصحابہ، تحقیق خلیل ابراہیم قوتلای، بیروت، دارالفکر، 1424ھ۔
- ابن قتیبہ، عبداللہ بن مسلم، المعارف، تحقیق ثروت عکاشۃ، قاہرہ، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، چاپ دوم، 1992ء۔
- ابن قیم جوزی، محمد بن ابی بکر، حاشیۃ ابن القیم علی سنن ابی داود، بیروت، دار الکتب العلمیہ، چاپ دوم، 1415ھ۔
- ابن ماجہ، محمد بن یزید، سنن ابن ماجہ، تحقیق بشار عواد معروف، بیروت، دار الجیل، 1418ھ۔
- ابن ہشام، عبدالملک بن ہشام حمیری، السیرۃ النبویہ، تحقیق مصطفی السقا و ابراہیم الابیاری و عبد الحفیظ شلبی، بیروت، دار المعرفۃ، بی تا.
- ابو نعیم، احمد بن عبداللہ، معرفۃ الصحابہ، تحقیق محمدحسن اسماعیل شافعی و مسعد عبدالحمید سعدنی، بیروت، دار الکتب العلمیہ، منشورات محمد علی بیضون، 1422ھ۔
- ابی داوود، سلیمان بن اشعث، سنن ابی داوود، تحقیق سید ابراہیم، قاہرہ، دار الحدیث، 1420ھ۔
- اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمہ(ع)، تحقیق ہاشم رسولی محلاتی، تبریز، بنی ہاشمی، 1381ھ۔
- «اہل تسنن جملہ معروف پیامبر(فاطمہ بضعۃ منی و...) در مورد حضرت فاطمہ را مربوط بہ خواستگاری حضرت عل (ع) از...»، سایت مرکز ملی مطالعات و پاسخگویی بہ شبہات حوزہ علمیہ قم، تاریخ بازدید: 6 آذر 1402ہجری شمسی۔
- بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، قاہرہ، وزارۃ الاوقاف المجلس الأعلی للشئون الإسلامیۃ و لجنۃ إحیاء کتب السنہ، چاپ دوم، 1410ھ۔
- بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، ط الأولی، 1417ھ۔
- ترمذی، محمد بن عیسی، سنن ترمذی، تحقیق احمد محمد شاکر، قاہرہ، دار الحدیث، 1419ھ۔
- جمالی، یوسف، روایات خواستگاری امام علی(ع) از دختر ابوجہل در بوتہ نقد، قم، نور المصطفی، 1401ہجری شمسی۔
- حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1411ھ۔
- حسینی قزوینی، سیدمحمد، «پاسخ بہ شبہہ ازدواج حضرت علی(ع) با دختر ابوجہل»، سایت موسسہ تحقیقاتی حضرت ولی عصر(عج)، تاریخ درج مطلب: 26 فروردین 1390شمسی، تاریخ بازدید: 6 آذر 1402ہجری شمسی۔
- حسینی قزوینی، سیدمحمد، «خواستگاری از دختر ابوجہل/ازدواج موقت»، سایت موسسہ تحقیقاتی حضرت ولی عصر(عج)، تاریخ درج مطلب: 9 فروردین 1390شمسی، تاریخ بازدید: 6 آذر 1402ہجری شمسی۔
- حسینی میلانی، سیدعلی، خواستگاری ساختگی بررسی و نقد داستان خواستگاری علی(ع) از دختر ابوجہل، قم، مرکز حقایق اسلامی، 1386ہجری شمسی۔
- خطیب بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد او مدینۃ السلام، تحقیق مصطفی عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1417ھ۔
- خطیب عمری، یاسین، الروضۃ الفیحاء فی تواریخ النساء، تحقیق حسام ریاض عبدالحکیم، بیروت، موسسۃ الکتب الثقافیہ، 1420ھ۔
- «خواستگاری علی بن ابی طالب(ع) از دختر ابو جہل!!!»، پایگاہ اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی، تاریخ درج مطلب: 18 دی 1391شمسی، تاریخ بازدید: 6 آذر 1402ہجری شمسی۔
- ذہبی، شمس الدین محمد بن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، تحقیق عمر عبد السلام تدمری، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ دوم، 1413ھ۔
- ذہنی تہرانی، محمدجواد، ترجمہ علل الشرایع، قم، انتشارات مومنین، 1389ہجری شمسی۔
- رضوانی، علی اصغر، «حدیث خواستگاری امام علی(ع) از دختر ابوجہل چرا و چگونہ ساختہ شد؟»، سایت خبرگزاری بین المللی قرآن، تاریخ درج مطلب: 2 بہمن 1400شمسی، تاریخ بازدید: 6 آذر 1402ہجری شمسی۔
- سید مرتضی، علی بن حسین، تنزیہ الانبیاء، قم، دار الشریف الرضی، 1377ہجری شمسی۔
- صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، الامالی، تہران، کتابچی، چاپ ششم، 1376ہجری شمسی۔
- صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، علل الشرایع، قم، کتاب فروشی داوری، 1385ہجری شمسی۔
- طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1390ھ۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، چاپ دوم، 1387ھ۔
- طحاوی، احمد بن محمد، شرح مشکل الآثار، تحقیق شعیب الارنووط، دمشق، دار الرسالۃ العاملیہ، چاپ سوم، 1431ھ۔
- عابدی، احمد، «ماجرای خواستگاری امیرالمؤمنین از دختر ابوجہل/چہ کسانی مورد غضب صدیقہ طاہرہ (س) بودند؟»، سایت باشگاہ خبرنگاران جوان، تاریخ درج مطلب: 19 بہمن 1397شمسی، تاریخ بازدید: 6 آذر 1402ہجری شمسی۔
- قزوینی حائری، محمدحسن، الامامۃ الکبری و الخلافۃ العظمی، تحقیق جعفر قزوینی، قم، دار المجتبی، 1427ھ۔
- «ماجرای خواستگاری حضرت علی(ع) از دختر ابوجہل؛ دروغ یا واقعیت!؟»، سایت خبرگزاری رسمی حوزہ، تاریخ درج مطلب: 25 آذر 1398شمسی، تاریخ بازدید: 6 آذر 1402ہجری شمسی۔
- محسنی، غلام رسول، «خواستگاری علی(ع) از دختر ابوجہل»، چاپ شدہ در مجموعہ موسوعہ رد شبہات امام علی(ع)، جلد دوم، بہ کوشش حوزہ نمایندگی ولی فقیہ در امور حج و زیارات، قم، سازمان حج و زیارت، 1395ہجری شمسی۔
- مرتضی عاملی، جعفر، الصحیح من سیرۃ الامام علی(ع)، بیروت، المرکز الاسلامی للدراسات، 1430ھ۔
- مرتضی عاملی، جعفر، بنات النبی(ص) ام ربائبہ، بی جا، مرکز الجواد للتحقیق و النشر، 1413ھ۔
- مسلم نیشابوری، ابوالحسین بن حجاج، صحیح مسلم، تحقیق محمد فواد عبدالباقی، قاہرہ، دار الحدیث، 1412ھ۔
- مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، تحقیق موسسۃ آل البیت(ع)، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
- مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع بما للنبی من الاحوال و الاموال و الحفدۃ و المتاع، تحقیق محمد عبدالحمید النمیسی، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1420ھ۔
- نسائی، احمد بن علی، السنن الکبری، تحقیق عبد الغفار سلیمان بنداری و دیگران، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1411ھ۔
- واقدی، محمد بن عمر، المغازی، تحقیق مارسدن جونس، بیروت، موسسۃ الاعلمی، چاپ سوم، 1409ھ۔
- یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، بیروت، دار صادر، بی تا.