صحاح سِتّہ، اہل سنت کی چھ حدیثی کتابوں کے مجموعے کے لئے بولا جاتا ہے۔ اہل سنت کے ہاں یہ کتابیں بہت زیادہ معتبر مانی جاتی ہیں؛ چنانچہ وہ انہیں قرآن کریم کے بعد اہم ترین دینی مآخذ و منابع شمار کرتے ہیں۔ گوکہ ان مجموعوں میں صرف دو کا عنوان "صحیح" اور باقی چار کا عنوان "سنن" ہے لیکن ان سب کو "صحاح" (صحیح کی جمع) کہا جاتا ہے۔ ان مآخذ کے عناوین مندرجہ ذیل ہیں:

اہم کتب حدیث
شیعہ
اصول کافیمن لایحضرہ الفقیہتہذیب الاحکاماستبصارکمال الدین و تمام النعمہنہج البلاغہصحیفہ سجادیہ
سنی
صحیح بخاریصحیح مسلمسنن ابی داوودسنن ابن ماجہسنن ترمذیسنن نسائی


صحاح ستہ

سنی کے بعض علماء اورحدیث شناسی کے شیعہ ماہرین کے مطابق ان کتب کی بعض احادیث ضعیف اور یہانتک کہ موضوعہ بھی ہیں۔

صحیح بخاری

صحیح بخاری کا مکمل نام الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول الله(ص) وسننه وایامه، ہے یہ اہل سنت کے ہاں ـ قرآن کریم کے بعد ـ معتبر ترین ماخذ حدیث ہے جس کو محمد بن اسماعیل بخاری (ولادت سنہ 194، وفات 256 ہجری قمری) نے 16 سال کے عرصے میں تالیف کیا ہے اور اس کے مندرجات کو 600000 حدیثوں کے مجموعے سے اخذ کیا گیا ہے۔[1] یہ کتاب اعتقادی اور فقہی موضوعات پر مشتمل ہے۔

صحیح بخاری کو 97 کتابوں اور 4350 ابواب میں مرتب کیا گیا ہے۔ مختلف ابواب میں بخاری کی احادیث کی تعداد مختلف ہے۔[2]

ابن صلاح کا کہنا ہے کہ اگر اس کتاب میں منقولہ مکررہ احادیث کو بھی الگ الگ شمار کیا جائے تو منقولہ احادیث کی تعداد 7275 تک پہنچتی ہے اور ابن صلاح اور نووی کے بقول اگر مکررات کو حذف کیا جائے تو یہ تعداد 4000 تک پہنچتی ہے جبکہ ابن حَجَر کے بقول یہ تعداد 2761 ہے۔[3]

بخاری نے اپنی کتاب مکمل کی تو اس کو اہل سنت کے اکابرین اور ائمۂ حدیث ـ منجملہ: احمد بن حنبل، علی بن مَدینی اور یحیی بن معین کے سامنے پیش کیا، اور انھوں نے صرف چار حدیثوں کے سوا باقی احادیث کو صحیح قرار دیا۔[4]

اہل سنت کا اتفاق ہے کہ قرآن کے بعد صحیح ترین کتاب صحیح بخاری اور اس کے بعد صحیح مسلم ہے۔[5]۔[6]۔[7]۔[8]

شرحیں اور تعلیقات

صحیح بخاری پر 100 سے زائد شرحیں اور تعلیقات لکھی گئی ہیں[9] جن میں اہم ترین مندرجہ ذیل ہیں:

  • فتح الباری فی شرح صحیح البخاری، تألیف: ابن حجر عسقلانی۔
  • تغلیق التعلیق علی صحیح بخاری، تالیف: ابن حجر عسقلانی۔
  • عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری، تالیف: عینی حنفی۔
  • الكواكب الدراری فی شرح صحیح البخاری، تالیف: اہل سنت کے ایک عالم المسمٰی بہ "کرمانی"۔
  • ارشاد الساری إلی صحیح البخاری، تالیف: شہاب الدین قسطلانی۔[10]

عدم اعتماد کے دلائل

  • بخاری حضرت حضرت امام ہادی(ع) اور حضرت حضرت امام عسکری(ع) کے ہم عصر تھے؛ لیکن ان کی کتاب میں حتی ایک بھی حدیث ان دو اماموں یا ان سے پہلے کے ائمہ(ع) سے نقل نہیں ہوئی ہے۔ ان کا تعصب اس حد تک ہے کہ وہ حتی ائمہ(ع) کے اصحاب اور فرزندوں سے بھی کوئی حدیث نقل نہیں کرتے، حالانکہ ان کے درمیان عظیم محدثین اور علماء موجود تھے۔ تاہم وہ خوارج سے بکثرت حدیث نقل کرتے ہیں جبکہ انہیں خوارج کی اہل بیت دشمنی کا بخوبی علم تھا۔
  • اہل بیت(ع) کے بعض فضائل اور مناقب صحیح مسلم میں نقل ہوئی ہیں لیکن بخاری نے انہیں نقل کرنے سے اجتناب کیا ہے۔
  • صحیح بخاری میں احادیث میں تحریف و تصرف بہت زیادہ ہے۔ مثل کے طور پر صحیح مسلم میں ایک حدیث نقل ہوئی ہے اور وہی حدیث صحیح بخاری میں اسی سند سے نقل ہوکر کئی احادیث میں تبدیل کی گئی ہے اور مختلف صورتوں میں نقل ہوئی ہے۔
  • احادیث کی تقطیع ( ٹکڑوں میں تقسیم کرنا)۔
  • احادیث کے الفاظ چھوڑ کر اسے اپنے الفاظ میں نقل کرنا)۔
  • احادیث کے الفاظ کی عدم حفاظت
  • ان کی پوری کتاب میں موضوعہ یا ضعیف احادیث کی موجودگی۔
  • پوری کتاب کے بخاری سے انتساب کی عدم صحت۔[11]

صحیح مسلم

یہ کتاب المسند الصحیح المسند اور الجامع الصحیح جسے عناوین سے پہچانی جاتی ہے۔ اس کو مسلم بن حجّاج نیشابوری (متوفی سنہ 261 ہجری قمری) نے تالیف کیا ہے۔[12] کتاب صحیح بخاری کے بعد اہل سنت کی اہم ترین کتاب سمجھی جاتی ہے۔[13]۔[14]۔[15]۔[16] گوکہ یہ کتاب حضرت حضرت امام ہادی (ع) اور حضرت حضرت امام عسکری (ع) کے زمانے میں تالیف ہوئی ہے لیکن اس میں ان کے آثار و اخبار کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہوا ہے۔[17]

صحیح مسلم 54 کتابوں پر مشتمل ہے اور اس کی ابواب بندی بظاہر مؤلف کے ہاتھوں انجام نہیں پائی ہے۔ اس کتاب میں 7275 حدیثیں نقل ہوئی ہیں جنہیں 300000 احادیث کے مجموعے سے منتخب کیا گیا۔[18]

صحیح مسلم میں صحیح بخاری کے برعکس اہل بیت(ع) کے مناقب پر مشتمل بعض احادیث نقل ہوئی ہیں جیسے:

شرحیں

صحیح مسلم پر لکھی جانے والی اہم ترین شرحیں درج ذیل ہیں:

  • المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج، یہ شرح نووی نے لکھی ہے اور علمی حلقوں میں قابل اعتماد سمجھی جاتی ہے۔[20]
  • دیباج، تالیف: سیوطی
  • منہاج الابتہاج، تالیف: عسقلانی

تلخیصیں

  • تلخیص المسلم، تالیف: قرطبی
  • مختصر المسلم، تالیف: منذری۔[21]

نقائص اور خامیاں

صحیح مسلم، سَنَدی اور متنی نقائص اور خامیوں سے خالی نہیں ہے؛ جیسے:

  • بعض اسناد میں مؤلف اور راوی کے درمیان واسطہ حذف ہوا ہے (تعلیق)
  • بعض روایات میں راوی کا کلام بھی درج کیا گیا یعنی احادیث میں اندراج انجام پایا ہے (مدرج، مقطوع)۔[22]
  • ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب وقوف علی ما فی صحیح المسلم من الموقوف اسی سلسلے میں تالیف کی ہے اور اس کتاب میں لکھا ہے کہ اس کتاب میں 192 موقوف یا مقطوع روایات درج ہوئی ہیں[23] اور 14 اسناد میں تعلیق اور بعض احادیث و اسناد میں تدلیس دکھائی جاتی ہے۔[24]
  • نیز صحیح مسلم میں بعض جعلی روایات بھی مندرج ہیں جو اس کتاب کے اعتبار کو متنازعہ بناتی ہیں۔[25]

سنن ابو داؤد

اس کتاب کے مؤلف کا نام سلیمان بن اشعث المعروف بہ ابو داؤد سجستانی (متوفی سنہ 272 ہجری قمری) ہے۔

یہ کتاب 5274 حدیثوں اور 40 فقہی ابواب پر مشتمل ہے اور اس میں "المہدی"، "الملاحم" اور "رضاع کبیر" جیسے مباحث مندرج ہیں۔[26]

ابو داؤد کی کتاب میں منقولہ احادیث کو دیگر سنی علماء قدح و جرح کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اہل سنت کے بعض اکابرین کے اعتراف کے مطابق سنن ابی داؤد میں ضعیف اور حتی کہ موضوعہ حدیثوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ابن جوزی نے ان احادیث میں بعض کو اپنی کتاب الموضوعات میں نقل کیا ہے، محمّد ناصرالدین البانی نے ضعیف سنن ابی داؤد کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے اور اس میں سنن ابی داؤد کی ضعیف احادیث کا تعین کیا ہے۔ وہ 800 احادیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں اور ان کی رائے میں ابو داؤد کی کتاب میں 50 منکر حدیثیں، 50 شاذ حدیثیں مندرج ہیں۔[27]

شرحیں

سنن ابی داؤد کی اہم ترین شرحیں مندرجہ ذیل ہیں:

  • غایۃ المقصود، تالیف: محمد شمس الدین؛[28]
  • معالم السنن، تالیف: احمد بن محمد خطابی؛
  • مرقاۃ الصعود، تالیف: جلال الدین سیوطی۔[29]

تلخیصیں

  • مختصر سنن ابی داؤد، بقلم: منذری؛
  • تہذیب السنن، بقلم: ابن قیم،[30]

سنن ترمذی

اس کتاب کے مؤلف کا نام محمد بن عیسی ترمذی (متوفی سنہ 279 ہجری قمری) ، جو بخاری کے شاگردوں میں سے ہے؛ اور 46 کتابوں پر مشتمل ہے۔[31]

سنن ترمذی منقولہ بعض حدیثیں مجعول ہیں اور رسول اللہ(ص) کو جھوٹی نسبت دینے کے زمرے میں آتی ہیں۔ حافظ ابن جوزی اور بعض دیگر اکابرین اہل سنت نے صراحت کے ساتھ اس کتاب کی بعض حدیثوں جعلی قرار دیا ہے۔[32]

[تاہم]] ترمذی کی کتاب میں حدیث ثقلین، آیت تطہیر کی شان نزول اور امیرالمؤمنین، امام حسن مجتبی اور امام حسین علیہم السلام کے مناقب مذکور ہیں۔[33] اس نوعیت کی حدیثوں کی بنا پر ابن تیمیہ نے سنن ترمذی پر شدید حملے کئے ہیں اور اور وہابیوں اور ابن تیمیہ کے حامیوں کے ہاں اس کتاب کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔[34]

سنن ترمذی میں منقولہ امیرالمؤمنین (ع) کے فضائل پر مشتمل احادیث میں تحریف واقع ہوئی ہے، حدیث "انا مدینة العلم و علی بابها" ، جو کتاب جامع الاصول میں سنن ترمذی کے حوالے سے نقل ہوئی ہے جو سنن ترمذی [کے موجودہ نسخوں] میں موجود نہیں ہے۔[35]

سنن نسائی

سنن نسائی، سنن کبیر نسائی اور سنن کبیر کے نام سے بھی مشہور ہے، جس کے مؤلف ابو عبد الرحمن احمد بن علی بن شعیب نسائی (متوفی سنہ 303 ہجری قمری) ہیں۔[36]

ضعیف روایات نسائی کی کتاب میں بکثرت ہیں۔ ابن قیم اپنی کتاب زاد المعاد فی هدی خیر العباد، میں کتاب نسائی سے بعض حدیثیں نقل کرتے ہیں؛ اور اہل حدیث کے اکابرین نے ان کی سند، دلالت یا دونوں کو مخدوش قرار دیا ہے۔

ناصرالدین ألبانی نے بھی کتاب صحیح و ضعیف سنن نسائی میں 80 سے زائد احادیث کو ضعیف الاسناد اور 300 سے زائد احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔[37] نسائی نے سنن کی تمام احادیث کی درستی کے بارے میں لوگوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے: اس کی تمام احادیث صحیح نہیں ہیں، اور پھر انھوں نے اپنی کتاب کے مجموعے کی صحیح احادیث کو استخراج اور جدا کیا اور اس کو المجتبی یا سنن صغیر کا نام دیا۔[38]

سنن ابن ماجہ

اس کتاب کے مؤلف محمد بن یزید بن ماجہ قزوینی المعروف بہ ابن ماجہ (متوفی سنہ 273 ہجری قمری) ہیں۔[39]

یہ کتاب 4000 حدیثوں پر مشتمل ہے جن میں 428 حدیثیں صحیح، 199 حسن، 613 ضعیف اور 99 منکر ہیں۔[40]

حاشیۂ سنن ابن ماجہ کے مؤلف السندی کے مطاباق سنن ابن ماجہ میں 400 حدیثیں ضعیف الاسناد ہیں۔ ضعیف اور موضوعہ (جعلی) حدیثيں سنن ابن ماجہ میں اس قدر بکثرت ہیں کہ جن کی بنا پر یہ کتاب صحاح ستہ کے زمرے سے خارج سمجھی گئی ہے اور محدثین کا خیال ہے کہ سنن ابن ماجہ میں یہ اہلیت نہیں ہے کہ یہ صحاح کے زمرے میں شمار کی جائے انھوں نے کتاب موطا مالک کو صحاح ستہ کا چھٹا رکن گردانا ہے۔[41]

بہت سے سنی علماء کی رائے کے مطابق سنن ابن ماجہ موضوعہ اور ضعیف احادیث سے بھری پڑی ہے! البانی نے صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ میں اور عبد الباقی نے کتاب مفتاح السنن میں ابن ماجہ کی سنن پر تنقید کی ہے۔[42]

اہل سنت کے ہاں صحاح کا اعتبار

یہ کتابیں عقائد، احکام، تفسیر اور اسلام صدر اول کی تاریخ کے حوالے سے اہل سنت کے معتبرترین منابع و مآخذ میں شمار ہوتی ہیں؛ چنانچہ وہ اپنے تمام مباحث میں ان کتابوں سے استناد اور ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ لہذا مشہور ہے کہ "جو کچھ بھی صحاح ستہ میں مذکور ہے وہ صحیح ہے"۔

ان کے نزدیک صحیح بخاری اور صحیح مسلم چار دیگر کتب کی نسبت زیادہ معتبر ہیں[43]، چنانچہ وہ ان دو کتابوں میں مندرجہ تمام احادیث کو صحیح اور قابل قبول سمجھتے ہیں اور ان کی صحت میں شک و تردد کو اجماع کے خلاف سمجھتے ہیں۔

البتہ اہل سنت کے بعض علماء کا خیال ہے کہ صحاح ستہ میں ضعیف اور موضوعہ حدیثیں موجود ہیں چنانچہ سنی علماء نے اس حوالے سے بھی کتب تالیف کی ہیں۔[44]

علمائے شیعہ

شیعہ علماء کی آراء کے مطابق، ان کتب میں معتبر حدیثیں بھی ہیں اور غیر معتبر حدیثیں بھی ہیں؛ حتی کہ ان میں منقولہ بعض حدیثیں قرآن، نص اور عقل کے منافی ہیں۔ چنانچہ ان کی حدیثوں کے بارے میں سند اور متن کا جائزہ لے کر ہی اظہار خیال کرنا چاہئے۔

اگر ان کتب کی تمام حدیثیں صحیح ہوں تو انہیں ایک رتبے میں قرار پانا چاہئے۔[45]

حوالہ جات

  1. عسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ص 490۔
  2. حاجی خلیفہ، کشف الظنون، ج1، ستون545۔
  3. عسقلانی، فتح الباری،ص 465، 478۔
  4. عسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ص 491۔
  5. حاجی خلیفہ، کشف الظنون، ج1، ستون541۔
  6. قسطلانی، ارشادالساری، ج1، ص19۔
  7. ابن حجر هیتمی، الصواعق المحرقہ، ص 9۔
  8. نَوَوی، شرح صحیح مسلم، ج1، ص120۔
  9. ضمیری، ص386۔
  10. میلانی، جواہر الكلام، ص72۔
  11. میلانی، جواهر الكلام، ص82-84۔
  12. طبسی، درسنامہ رجال مقارن، ص199۔
  13. حاجی خلیفہ، کشف الظنون، ج 1، ستون 541۔
  14. قسطلانی، ارشادالساری، ج1، ص19۔
  15. ابن حجر هیثمی، صواعق المحرقہ، ص9۔
  16. نَوَوی، شرح صحیح مسلم، ج 1، ص 120۔
  17. صحاح سته۔
  18. طبسی، درسنامہ رجال مقارن، ص202۔
  19. طبسی، درسنامہ رجال مقارن، ص203۔
  20. میلانی، جواهر الكلام، ص72۔
  21. درس نامہ رجال مقارن، طبسی، درسنامہ رجال مقارن، ص204۔
  22. نجم الدین طبسی، درسنامه رجال مقارن، ص200-201۔
  23. طبسی، درسنامہ رجال مقارن، ص200۔
  24. طبسی، درسنامہ رجال مقارن، ص200۔
  25. برای دیدن این روایات: دیکھیں: نجم الدین طبسی، درس نامہ رجال مقارن، ص200-201۔
  26. نجم الدین طبسی، درسنامہ رجال مقارن، ص203۔
  27. میلانی، جواهر الكلام، ص97۔
  28. نجم الدین طبسی، درسنامہ رجال مقارن، ص203۔
  29. ضمیری، ص392۔
  30. نجم الدین طبسی، درسنامہ رجال مقارن، ص203۔
  31. نجم الدین طبسی، درسنامہ رجال مقارن، ص204۔
  32. میلانی، جواهر الكلام، ص94۔
  33. نجم الدین طبسی، درسنامہ رجال مقارن، ص204۔
  34. میلانی، جواهر الكلام، ص94۔
  35. میلانی، جواهر الكلام، ص94۔
  36. طبسی، درسنامہ رجال مقارن، ص202۔
  37. طبسی، درسنامہ رجال مقارن، ص202۔
  38. صحاح سته۔
  39. بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سنن ابن ماجہ کے بجائے موطا مالک، صحاح ستہ کا جزو ہے؛ دیکھیں: جامع الاصول، ج1، ص19-180 بحوالہ از میلانی، جواهر الكلام، ص70۔
  40. نجم الدین طبسی، درسنامہ رجال مقارن، ص204۔
  41. میلانی، جواهر الكلام، ص98۔
  42. نجم الدین طبسی، درسنامہ رجال مقارن، ص204۔
  43. میلانی، جواهر الكلام، ص70۔
  44. میلانی، جواهر الكلام، ص99-100۔
  45. میلانی، جواهر الكلام، ص70۔

مآخذ

  • حسینی میلانی،علی‏، جواهر الكلام فی معرفة الامامة والامام‏، ناشر: الحقائق‏، قم‏، چ:اول، 1389ہجری شمسی۔
  • ابن حجرعسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، (مقدمه: هدی الساری) ، بیروت 1408ہجری قمری/1988عیسوی۔
  • مصطفی بن عبدالله حاجی خلیفه، کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون، بیروت 1410ہجری قمری/1990عیسوی۔
  • احمدبن محمد قسطلانی، ارشادالساری فی شرح البخاری، بولاق 1305ہجری قمری۔
  • ابن حجر هیتمی، الصواعق المحرقة، چاپ عبدالوهاب عبداللطیف، قاهره 1385ہجری قمری/1965عیسوی۔
  • طبسی، نجم الدین، درسنامه رجال مقارن(آشنایی اجمالی با علم رجال و علمای رجالی شیعه و سنی)، گردآورنده: سید حمیدرضا روحانی، قم، موسسه آموزشی و پژوهشی مذاهب اسلامی، 1385ہجری شمسی۔
  • یحیی بن شرف نَوَوی، شرح صحیح مسلم، ج1، چاپ خلیل میس، بیروت 1407ہجری قمری/ 1987عیسوی۔
  • ضمیری، محمدرضا، کتاب شناسی تفصیلی مذاهب اسلامی،موسسه آموزشی و پژوهشی مذاهب اسلامی، قم، 1382ہجری شمسی۔