نجاسات

نامکمل زمرہ
غیر سلیس
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
(نجاست سے رجوع مکرر)

نجس ایک فقہی اصطلاح ہے اور ان چیزوں پر اطلاق ہوتا ہے جو شریعت کی نگاہ میں ناپاک (غیرطاہر) ہوں۔ وہ چیزیں جو نجس شمار ہوتی ہیں، ان کی دو قسم ہیں: ایک وہ چیزیں جو اصالتا نجس ہیں جنہیں عین نجس کہا جاتا ہے؛ جبکہ دوسری قسم وہ چیزیں ہیں جو خود سے تو پاک ہیں لیکن کسی نجس چیز کے ساتھ ملنے کی وجہ سے نجس ہو گئی ہیں جنہیں اصطلاح میں مُتَنَجِّس کہا جاتا ہے۔ نجاسات کے بارے میں مختلف تکلیفی اور وضعی احکام پائے جاتے ہیں؛ مثلا یہ کہ ان کا کھانا پینا حرام ہے یا یہ کہ نمازگزار کا لباس نجس نہ ہو وغیرہ۔

مفہوم شناسی

فقہ کی اصطلاح میں نجس ان چیزوں کو کہا جاتا ہے جو شرعی طور پر پاک نہیں ہیں۔[حوالہ درکار] اسی لئے ان کے بارے میں کچھ احکام کی رعایت کرنا مسلمانوں پر لازم ہے؛ جیسے نجس چیز کا کھانا حرام ہے۔[حوالہ درکار] نجس کا معنی طاہر اور ناپاک کا متضاد ہے گندگی کا متضاد نہیں اسی لئے ممکن ہے کہ ایک چیز گندی ہو اور شرعی لحاظ سے پاک ہو یا اس کے برعکس ایک چیز صاف ہو لیکن شرعی اعتبار سے نجس ہو۔[حوالہ درکار]


یہ لفظ؛ "نَجِس"، "نَجَس" اور "نَجْس" تین طریقوں سے استعمال ہوا ہے۔[1] لیکن "نَجَس" کا لفظ صرف دس عین نجاسات کیلئے استعمال ہوتا ہے لیکن "نَجِس" اعیان نجسہ کیلئے بھی اور ان چیزوں کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے جو متنجس ہوں۔ [2]

یہ لفظ قرآن میں صرف ایک بار استعمال ہوا ہے جس میں مشرکوں کو اس لفظ کے ساتھ یاد کیا گیا ہے: یا أَیہا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِ‌کونَ نَجَسٌ فَلَا یقْرَ‌بُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَ‌امَ بَعْدَ عَامِہمْ ہٰذَا۔۔۔[3] ترجمہ:اے ایمان والو! مشرکین ناپاک ہیں سو وہ اس سال (سنہ ۹ ہجری) کے بعد مسجد الحرام کے قریب نہ آنے پائیں۔[یادداشت 1]

عین نجس اور متنجس

وہ چیز جس کی نجاست ذاتی ہو عین نجس کہلاتی ہے؛ یعنی جب تک اس چیز کی ذات باقی ہے نجاست بھی باقی ہے جیسے سور، کتا اور خون وغیرہ دس چیزیں ہیں جن کی ذات ہی نجس ہے اور انہیں دس نجاسات کہلاتے ہیں۔

مذکورہ دس نجاسات کے علاوہ باقی اشیاء ذاتی طور پر تو پاک اور طاہر ہیں لیکن اگر نجاسات میں سے کسی ایک کے ساتھ اس طرح ملاقات کرے کہ ایک کی رطوبت دوسرے میں منتقل ہو جائے تو یہ طاہر اور پاک چیز بھی نجس ہو جاتی ہے مثلا خون سے آلودہ ہاتھ، اس چیز کو متنجس کہا جاتا ہے۔

عین نجس اور متنجس میں اہم ترین فرق یہ ہے کہ عین نجس ہرگز پاک نہیں ہو سکتا؛ لیکن متنجس چیز مطہرات کے استعمال سے دوبارہ پاک اور طاہر ہو سکتی ہے۔[4]

دس نجاسات

شیعہ فقہ کے مطابق کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کی نجاست ذاتی ہے؛ یعنی ہر حال میں وہ نجس ہیں اور انہیں پاک نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جیسے سور، کتا اور خون وغیرہ۔ ان کو عین نجاسات کہا جاتا ہے اکثر شیعہ فقہاء دس چیزوں کو عین نجس قرار دیتے ہیں جنہیں اعیان نجسہ یا عین نجاسات کہا جاتا ہے۔

خون پیشاب پاخانہ مَنی مردار کتا سور کافر شراب فُقّاع

۱۔ خون

انسان اور ہر اس حیوان کا خون نجس ہے خون جہندہ رکھتا ہے۔[5] پس ایسے جانوروں مثلاً مچھلی اور مچھر کا خون جو اچھل کر نہیں نکلتا پاک ہے۔[6] لیکن اہل سنت میں سے مالکی،شافعی اور حنفی تمام حیوانوں سے جاری ہونے والے خون کو نجس سمجھتے ہیں چاہے خون جہندہ رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔[7]

۲-۳۔پیشاب اور پاخانہ

انسان اور ہر اس حیوان کا پیشاب (بول) اور پاخانہ (غائط) نجس ہے جو حرام گوشت اور خون جہندہ رکھتا ہو۔ لیکن حرام گوشت پرندے جیسے "کوا" کا پاخانہ نجس ہونے میں اختلاف نظر ہے۔ ۔[8] لیکن شافعی اور حنفی حلال گوشت حیوانات کے پاخانے کو بھی نجس سمجھتے ہیں لیکن پرندوں کے بارے میں کچھ اور تفصیل کے قائل ہیں۔[9]

۴۔ منی

انسان اور خون جہندہ رکھنے والے تمام حیوانات کی مَنی نجس ہے۔[10]

اہل سنت کے درمیان منی کی نجاست مودر اختلاف ہے شافعی اور حنبلی اسے پاک سمجھتے ہیں۔[11]

۵۔ مردار

خون جہندہ رکھنے والے تمام حیوانات کی لاش کو مردار یا میتہ کہا جاتا ہے اور نجس ہے۔ مردہ انسان کا بدن بھی غسل میت دینے سے پہلے نجس ہے اور موت واقع ہونے کے بعد سے بدن کے ٹھنڈا ہونے تک انسان کی لاش کے نجس ہونے کے بارے میں ففہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے[12]؛ وہ حلال گوشت حیوانات جنہیں شریعت کے مطابق ذبح کیا گیا ہو وہ پاک ہیں۔ لیکن اگر حلال گوشت جانوروں کو شریعت کے مطابق ذبح نہ کیا گیا ہو تو ان کا گوشت، کھال، ہڈی اور ایسے جانور سے بننے والی جیلاٹین نجس ہیں۔ لہذا غیر مسلم ممالک میں تیار ہونے والی چمڑے کی چیزیں اگرچہ حلال گوشت جانوروں؛ جیسے گائے ای بھیڑ وغیرہ کے چمڑے سے ہی کیوں نہ بنائی گئی ہوں، نجس ہیں کیونکہ انہیں شریعت کے مطابق ذبح نہیں کیا گیا ہے۔[13]

بعض حرام گوشت حیوانات جنہیں اگر شریعت کے مطابق ذبح کیے جائیں تو وہ ان کی کھال اور بال وغیرہ پاک ہونگے ورنہ نجس ہیں۔[14]

۶-۷۔ کتا اور سور

خشکی میں رہنے والے کتا اور سور کے تمام اعضاء حتی لعاب دہن بھی نجس ہے۔[15]

اہل سنت میں سے مالکی, تمام زندہ حیوانات حتی کتے اور سور کو پاک جانتے ہیں جبکہ حنفی صرف خنزیر کو نجس جانتے ہیں۔[16]

۸۔ کافر

فقہ میں جس کافر کی نجاست کی بات ہوتی ہی اس سے مراد غیر مسلمان ہیں۔ شیعہ فقہاء سات گروہ کو کافر اور نجس (البتہ بعض موارد میں اختلاف کے ساتھ) سمجھتے ہیں:

  1. خدا کا منکر
  2. مشرکین (یعنی وہ لوگ جو خدا کیلئے کسی کو شریک قرار دیتے ہیں۔)
  3. ضروریات دین کو جانتے ہوئے ان میں سے کسی ایک کا جان بوجھ کر انکار کرنے والا
  4. وہ لوگ جو حضرت محمدؐ کی نبوت کو قبول نہ کرتے ہوں۔
  5. وہ لوگ جو ائمہ معصومینؑ کو گالی گلوچ کرتے ہوں یا ان سے دشمنی رکھتے ہوں؛ جیسے خارجی اور ناصبی۔
  6. غالی (یعنی وہ لوگ جو ائمہؑ میں سے کسی ایک کو خدا قرار دے خدا کا ان میں حلول کرنے کا عقیدہ رکھے۔
  7. تحریف شدہ آسمانی ادیان کے ماننے والے جیسے یہودی اور عیسائی (البتہ اس بارے میں اختلاف‌ نظر پایا جاتا ہے)[17]

۹۔ شراب

شیعہ فقہاء کی نظر میں شراب اور ہر وہ مایع چیز جو خود سے مایع ہو اور انسان کو مست کرے تو نجس ہے۔[18] اور ان کا کھانا پینا حرام ہے۔[19]

طبی اور صنعتی الکل کی نجاست کے بارے میں اختلاف‌ نظر پایا جاتا ہے۔[20]

انگور اور اس کا رس ابلنے کے بعد دوتہائی حصہ سوکھ نہ جائے تب تک نجس ہے چاہے خوبخود ابلنے لگے یا حرارت کے ذریعے ابالا جائے اسی طرح مست کنندہ ہو یا نہ ہو ہر صورت میں نجس ہے۔[21]

۱۰۔ فقاع

فُقّاع یا جَو کا پانی بھی نجس ہے۔[22]

دوسرے موارد

بعض فقہاء دیگر موارد کو بھی نجس جانتے ہیں:

  • حرام طریقے سے جنب ہونے والے شخص کا پسینہ۔[23]
  • اس حلال گوشت حیوان کا پسینہ جو انسان کا پاخانہ کھانے کا عادی بن چکا ہو ۔[24]

اہل سنت قے کو بھی نجس سمجھتے ہیں۔ [25] وذی اور مذی کو حنفی، مالکی اور شافعی جبکہ انسان اور حرام گوشت حیوان کی وذی اور مذی کو حنبلی نجس سمجھتے ہیں۔[26]

پاک چیزوں کا نجس ہونا

ان دس نجاسات کے علاوہ باقی تمام چیزیں خود سے پاک ہیں؛ لیکن اگر یہ پاک چیزیں ان دس نجاسات میں سے کسی سے ملیں تو وہ پاک چیز بھی نجس ہوگی اور ایسی صورت میں اس نجس ہونے والی چیز کو متنجس (یعنی وہ چیز جو نجس ہوئی ہے۔) کہا جاتا ہے۔ البتہ نجاست اس صورت میں منتقل ہوگی کہ عین نجس سے تری پاک چیز تک پہنچی ہو؛ جیسے خون آلودہ ہاتھ۔ لہذا اگر خشک چیز کتے کے جسم سے لگ جائے تو وہ چیز نجس نہیں ہوگی۔ نجس شدہ چیز کو مطہرات کے ذریعے سے پاک کیا جاسکتا ہے (یعنی ان سے نجاسات کو دور کیا جائے) تو یہ چیز پھر سے پاک ہوگی۔ مثلا جس کپڑے پر خون لگا ہے اگر اسے شرعی طریقے سے پانی کے ذریعے دھویا جائے تو دوبارہ سے وہ کپڑا پاک ہوگا۔[27] جس طرح سے عین نجس سے نجاست منتقل ہوتی ہے اسی طرح نجس ہونے والی چیز (متنجس) سے بھی نجاست منتقل ہوسکتی ہے یعنی جو چیز نجس ہوئی ہے وہ کسی پاک چیز سے (اس طرح سے) لگ جائے کہ تری اور رطوبت اس سے پاک چیز تک متنقل ہوجائے تو پاک چیز نجس ہوگی۔[28] اگرچہ فتوے کے مطابق تیسرے واسطے سے نجس ہونے والی متنجس چیز کسی اور چیز کو نجس نہیں کرسکتی ہے۔[29]

احکام نجاسات

فقہ میں نجاسات کے بارے میں بعض احکام پائے جاتے ہیں جن میں سے اہم احکام مندرجہ ذیل ہیں:

  • نجس ہونے والی چیزوں کو پاک کرنے سے مربوط قواعد کے مطابق دس نجاسات ذاتی طور پر نجس ہیں اور انہیں پاک نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن جو جو چیز نجس ہوئی ہے اس کو مطہرات میں سے کسی کے ذریعے سے دوبارہ پاک کیا جاسکتا ہے۔
  • نجاسات کھانا حرام ہے۔ لیکن نجس ہونے والی چیز کو پاک کرنے کے بعد کھایا جاسکتا ہے۔
  • نجاسات کا کھانا حرام ہے۔
  • نماز یا طواف کے وقت بدن اور لباس کا نجاسات سے پاک ہونا ضروری ہے۔
  • وضو اور غسل کا پانی پاک ہونا چاہیے۔
  • قرآن اور مسجد کو نجس کرنا حرام ہے اور ان کو فوری طور پر پاک کرنا واجب ہے۔ [30]

شیعہ اور اہل سنت مذاہب میں نجاسات کا تقابلی جایزہ

شیعہ اور اہل سنت مذاہب کے درمیان نجاسات کے احکام میں کچھ تفاوت پایا جاتا ہے وہ درج ذیل ہیں:

عنوان شیعہ مالکی شافعی حنفی حنبلی
کتا اور سور نجس ہے نجس نہیں ہے نجس ہے نجس ہے نجس ہے
جس برتن میں کتے کا لعاب دہن گرا ہو اس کی تطہیر کیلئے ایک مرتبہ خاک‌ مالی اور دو مرتبہ پانی کے ساتھ دھویا جائے تعبدی طور پر سات مرتبہ پانی کے ساتھ دھویا جائے ایک مرتبہ خاک‌ مالی اور 6 مرتبہ پانی کے ساتھ دھویا جائے --- ایک مرتبہ خاک‌ مالی اور 6 مرتبہ پانی کے ساتھ دھویا جائے[31]
جس برتن میں سور کا لعاب دہن گرا ہو اسے پاک کرنے کیلئے سات مرتبہ پانی سے دھونا تعبدی طور پر سات مرتبہ پانی سے دھویا جائے ایک مرتبہ خاک‌ مالی اور 6 مرتبہ پانی کے ساتھ دھویا جائے --- ایک مرتبہ خاک‌ مالی اور 6 مرتبہ پانی کے ساتھ دھویا جائے[32]
مردار مسلمان میت غسل میت سے پہلے، نجس اور غسل میت کے بعد پاک ہو جاتی ہے انسان کی میت پاک ہے انسان کی میت پاک ہے انسان کی میت نجس ہے اور غسل میت سے پاک ہو جاتی ہے انسان کی میت پاک ہے[33]
شہید کا خون نجس ہے پاک ہے پاک ہے پاک ہے پاک ہے۔[34]
منی انسان اور خون جہندہ رکھنے والے حیوان کی منی نجس ہے انسان اور مطلقا ہر حیوان کی منی نجس ہے انسان اور ہر حیوان کی منی نجس ہے سوائے کتا اور سور کی منی، --- انسان اور حلال گوشت حیوانات کی منی پاک ہے۔[35]
پیپ پاک ہے نجس ہے نجس ہے نجس ہے نجس ہے۔[36]
حیوانات کا فضلہ صرف خون جہندہ رکھنے والے حرام گوشت حیوانات کا فضلہ نجس ہے بقیہ حیوانات کا فضلہ پاک ہے حلال گوشت حیوانات کا فضلہ پاک اور خون جہندہ رکھنے والے حرام گوشت حیوانات کا فضلہ نجس ہے تمام حیوانات کا فضلہ نجس ہے غیر پرندگان نیز پرندوں کا فضلہ جب زمین پر گرا ہوا ہو یا ہوا میں ہو تو نجس ہے بقیہ حیوانات کا فضلہ پاک ہے حلال گوشت حیوانات کا فضلہ پاک جبکہ حرام گوشت خون جہندہ رکھنے والے حیوانات کا فضلہ نجس ہے[37]
قے پاک ہے نجس ہے نجس ہے نجس ہے نجس ہے۔[38]
مذی اور وذی پاک ہے نجس ہے نجس ہے نجس ہے اگر حلال گوشت حیوان سے خارج ہو تو پاک ہے لیکن اگر حرام گوشت حیوان سے خارج ہو تو نجس ہے[39]
حیوان کا جھوٹا کتا اور سور کا جھوٹا نجس ہے بقیہ حیوانات اور انسان کا پاک ہے تمام حیوانات اور انسان‌ کا جھوٹا پاک ہے کتا اور سور کا جھوٹا نجس ہے اور بقیہ پاک ہے کتا، سور، شرابخوار، چوہا کھائی ہوئی بلی اور وحشی حیوانات کا جھوٹا نجس اور بقیہ پاک ہے کتا اور سور کا جھوٹا نجس اور بقیہ پاک ہے[40]

متعلقہ مضامین

نوٹ

  1. اس آیہ میں "نجس" کا لفظ حکمِ شرعی کی طرف اشارہ کرتا ہے یا مشرکین کی باطنی پلیدی کی طرف، اس میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔:(محمد حسن زمانی، طہارت و نجاست اہل کتاب و مشرکان در فقہ اسلامی، قم: دفتر تبليغات اسلامی حوزہ علميہ قم، 1378)

حوالہ جات

  1. طریحی، مجمع البحرین، تحقیق:سید احمد حسین، ج ۴،ص۱۱۰، کتابفروشی مرتضوی، چاپ سوم، تہران، ۱۳۷۵ ش؛ فیروزآبادی، محمد بن یعقوب، القاموس المحیط، ج ۲،ص۲۵۳،‌دار الاحیاء التراث العربی، بیروت۔
  2. جزیری, الفقہ علی المذاہب الاربعہ، ج۱، ص۶۸
  3. سورہ توبہ آیہ 28
  4. طباطبائی یزدی، العروۃ الوثقی، تہران، ص۵۵؛ امام خمینی، تحریر الوسیلہ، ص۱۰۷ – ۱۰۲
  5. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۸۵ش، م۹۶۔
  6. رسالہ توضیح المسائل مراجع، م۹۶
  7. جزیری، الفقہ علی المذاہب الاربعہ، ج۱، ص۷۳
  8. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۸۵ش، م۸۴۔
  9. جزیری, الفقہ علی المذاہب الاربعہ، 1419ھ ج۱، ص۷۴
  10. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۸۵ش، م۸۷
  11. جزیری، الفقہ علی المذاہب الاربعة، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۷۵
  12. طباطبایی حکیم، مستمسک العروة الوثقی، ۱۳۸۴ق، ج۱، ص۳۳۶۔
  13. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۸۵ش، م۸۸
  14. توضیح المسائل (المحشی للإمام الخمینی)، ج ۱،ص۴۶۱ و ۵۷۰٫
  15. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۸۵ش، م۱۰۵
  16. جزیری, الفقہ علی المذاہب الاربعہ، ج۱، ص۷۲
  17. راشدی، رسالہ توضیح المسائل نہ مرجع، ص۷۱ – ۷۳، پیام عدالت، چاپ اول، ۱۳۸۵ ش۔
  18. توضیح المسائل (المحشی للإمام الخمینی)، ج‌۱،ص۸۰م ۱۱۱٫
  19. توضیح المسائل (المحشی للإمام الخمینی)، ج‌۱،ص۸۱؛ آیت اللہ زنجانی:اگر کوئی مایع کی زیادہ مقدار مست کرنے والی ہو تو اس کی کم مقدار بھی نجس ہے؛ آیت اللہ بہجت (رہ): شراب اور ہر وہ چیز جس کی زیادہ مقدرا مست کرتی ہو اور وہ خود سے مایع ہو تو نجس اور اس کا کھانا پینا حرام ہے اگرچہ اس کی مقدار کم اور مستی بہت کم ہی کیوں نہ ہو۔
  20. ۔ توضیح المسائل (المحشی للإمام الخمینی)، ج‌۱، ص۸۰ و۸۱،م ۱۱۲
  21. ۔ الطباطبائی الیزدی، سید محمد کاظم؛ العروۃ الوثقی، تہران، المکتبۃ العلمیۃ الإسلامیۃ، بی‌تا، المجلد الاوّل،ص۵۵۔
  22. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۸۵ش، م۱۱۵
  23. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۸۵ش، م۱۱۶
  24. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۸۵ش، م۱۲۰
  25. جزیری، الفقہ علی المذاہب الاربعة، ۱۴۱۹ھ ج۱، ص۷۶
  26. مغنیہ، محمد جواد‌، الفقہ على المذاہب الخمسۃ، ج 1، ص 24 - 27،‌ دار التیار الجدید، دار الجواد، بیروت، چاپ دہم، 1421ق۔
  27. طباطبائی یزدی، العروة الوثقی، المکتبة العلمیة الإسلامیة، ص۵۵؛ امام خمینی، تحریر الوسیلہ، ص۱۰۷-۱۰۲
  28. حائری بیارجمندی، مدارک العروة، ۱۳۸۱ق، ج‌۲، ص۱۹۰
  29. توضیح المسائل (المحشی للإمام الخمینی)، ج۱،ص۸۸ با استفادہ از سؤال ۱۷۶۹ (سایت اسلام کوئست:۱۷۵۴)
  30. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۸۵ش، م۱۳۵ و م۹۰۰
  31. الفقہ علی المذاہب الخمسہ، ج۱، ص۲۴
  32. الفقہ علی المذاہب الخمسہ، ج۱، ص۲۴
  33. الفقہ علی المذاہب الخمسہ، ج۱، ص۲۴
  34. الفقہ علی المذاہب الخمسہ، ج۱، ص۲۴
  35. الفقہ علی المذاہب الخمسہ، ج۱، ص۲۵
  36. الفقہ علی المذاہب الخمسہ، ج۱، ص۲۵
  37. الفقہ علی المذاہب الخمسہ، ج۱، ص۲۶
  38. الفقہ علی المذاہب الخمسہ، ج۱، ص۲۶
  39. الفقہ علی المذاہب الخمسہ، ج۱، ص۲۶
  40. الفقہ علی المذاہب الخمسہ، ج۱، ص۲۷

مآخذ

  • الفقہ علی المذاہب الاربعہ، عبدالرحمان جزیری، دارالثقلین، بیروت
  • توضیح المسائل مراجع، دفتر انتشارات اسلامی
  • الشہید الاول (محمد بن جمال الدین مکّی العاملی)؛ الروضہ البہیہ فی شرح اللمعۃ الدمشقیہ، بیروت – لبنان،‌دار احیاء الثراث الإسلامی
  • مشفقی پور، محمد رضا؛ روشی نوین در بیان احکام، تہران، مؤسسہ فرہنگی انتشاراتی راستان، چاپ اول ۱۳۷۶
  • طریحی، مجمع البحرین، تحقیق:سید احمد حسین، کتابفروشی مرتضوی، چاپ سوم، تہران، ۱۳۷۵ ش؛
  • فیروزآبادی، محمد بن یعقوب، القاموس المحیط،‌دار الاحیاء التراث العربی، بیروت۔
  • الطباطبائی الیزدی، سید محمد کاظم؛ العروۃ الوثقی، تہران، المکتبۃ العلمیۃ الإسلامیۃ، بی‌تا
  • بیارجمندی، یوسف، مدارک العروہ، بی‌تا، چاپ نعمان، نجف اشرف
  • رسالہ توضیح المسائل نہ مرجع، تدوین و تطبیق راشدی