صحیفہ سجادیہ کی تیرہویں دعا

ویکی شیعہ سے
صحیفہ سجادیہ کی تیرہویں دعا
کوائف
دیگر اسامی:فِی طَلَبِ الْحَوَائِجِ إِلَی اللَّہ تَعَالَی
موضوع:پروردگار سے طلب حاجات، بندوں کی محتاجی اور خداوند متعال کی بے نیازی
مأثور/غیرمأثور:مأثور
صادرہ از:امام سجاد علیہ السلام
راوی:متوکل بن ہارون
شیعہ منابع:صحیفۂ سجادیہ
مشہور دعائیں اور زیارات
دعائے توسلدعائے کمیلدعائے ندبہدعائے سماتدعائے فرجدعائے عہددعائے ابوحمزہ ثمالیزیارت عاشورازیارت جامعہ کبیرہزیارت وارثزیارت امین‌اللہزیارت اربعین


صحیفۂ سجادیہ کی تیرہویں دعا امام سجادؑ کی مأثور دعاؤں میں سے ایک ہے جو بندوں کی نیاز مندی اور خداوند متعال کی بے نیازی کے بارے میں ہے۔ امام سجادؑ نے اس دعا میں بے شمار نعمتوں اور کبھی نہ تبدیل ہونے والی حکمت الہیہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ اس دعا میں، ناامیدی و محرومیت کو غیر خدا سے مانگنے کا انجام اور گناہوں کو بارگاہ خداوندی سے دوری کا سبب بتایا ہے۔ اسی طرح امام سجادؑ نے حالت سجدہ میں دعا کرنے اور محمدؐ و آل محمدؑ پر صلوات بھیجنے کو دعاؤں کی قبولیت کا راز بتایا ہے۔

یہ تیرہویں دعا جس کی متعدد شرحیں، مختلف زبانوں میں لکھی گئیں ہیں جیسے دیار عاشقان جو حسین انصاریان کی شرح فارسی زبان میں ہے اور اسی طرح ریاض السالکین جو سید علی خان مدنی کی عربی زبان میں شرح موجود ہے۔

دعا و مناجات

تعلیمات

صحیفۂ سجادیہ کی تیرہویں دعا کا بنیادی موضوع یہ ہے کہ انسان خدا کا محتاج ہے اور اسے ہر حالت میں خدا کی بارگاہ میں پلٹ کر جانا ہے۔ امامؑ نے اس دعا میں اپنی ضروریات کو پورا کرنے سے مخلوقات کے قاصر ہونے کی نشاندہی کی ہے اور پھر خدا سے اپنی ضرورتوں کا مطالبہ کیا ہے[1]۔ اس دعا کی تعلیمات جو 25 فراز[2] میں امام سجادؑ سے صادر ہوئی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

  • خداوند عالم دعا کرنے والوں کی آخری پناہ گاہ ہے۔
  • تمام مخلوقات قدرت الہی کے آگے سر بہ سجود ہیں۔
  • خداوند عالم کی بے شمار اور بغیر منّت کی نعمتوں کا نزول۔
  • بندوں کی محتاجی اور خدا کی بے نیازی۔
  • کبھی نہ ختم ہونے والا الہی خزانہ۔
  • ہر شئی کا مقصد ذات خداوندی۔
  • کبھی نہ تبدیل ہونے والی حکمت الہیہ۔
  • خداوند عالم کمال مطلق۔
  • تمام مشکلات کا حل صرف پروردگار کے ہاتھ میں ہے۔
  • مایوسی اور محرومی غیر خدا سے مانگنے کا نتیجہ ہے۔
  • صرف خدا سے مانگنا، بس اسی سے مدد طلب کرنا اور اس کی نسبت نیک نیت رکھنا۔
  • عنایات و توفیقات الہی، گمراہی و نافرمانی سے دوری کا نتیجہ ہے۔
  • صرف خدا سے امید لگانا۔
  • گناہ، بارگاہ خداوندی سے دوری کا سب سے بڑا عنصر ہے۔
  • عدل الہی کے بجائے فضل الہی کی درخواست کرنا۔
  • بارگاہ الہی میں گریہ و زاری۔
  • خدائی فضل اور رحمت سے محروم نہ ہونے کے لئے دعا۔
  • تمام امور خدا کے حوالے کر دینا۔
  • محمدؐ و آل محمدؑ پر صلوات کی وجہ سے ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے۔
  • عطائے الہی، سکون انسانی کی دلیل ہے۔
  • خدائی نعمتوں کے بدلے بندوں سے کچھ طلب نہ کرنا۔
  • خداوند عالم بندوں کی دعاؤں سے تھکتا نہیں۔
  • توفیق دعا، لطف الہی سے حاصل ہوتی ہے۔
  • سجدہ میں دعا کرنا.[3]

شرحیں

صحیفۂ سجادیہ کی تیرہویں دعا کی بھی شرح دوسری دعاؤں کی طرح کی گئی ہے۔ یہ دعا حسین انصاریان [4] نے اپنی کتاب دیار عاشقان میں بطور تفصیل فارسی زبان میں شرح کی ہے۔ اسی طرح سے یہ دعا محمد حسن ممدوحی کرمانشاہی کی کتاب شہود و شناخت [5] میں اور سید احمد فہری کی کتاب شرح و ترجمۂ صحیفہ سجادیہ[6] میں فارسی زبان میں شرح کی گئی ہے۔

اسی طرح بعض دوسری کتابوں میں جیسے، سید علی خان مدنی کی کتاب ریاض السالکین [7]، جواد مغنیہ کی فی ظلال الصحیفہ السجادیہ [8]، محمد بن محمد دارابی [9] کی ریاض العارفین اور سید محمد حسین فضل اللہ [10] کی کتاب آفاق الروح میں اس تیرہویں دعا کی عربی زبان میں شرح لکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس دعا کے الفاظ کی توضیح، فیض کاشانی کی کتاب تعلیقات علی الصحیفۃ السجادیۃ میں بھی دی گئی ہے[11]۔

متن اور ترجمہ

متن ترجمہ: (مفتی جعفر حسین)
وَ کانَ مِنْ دُعَائِهِ علیه ‌السلام فِی طَلَبِ الْحَوَائِجِ إِلَی اللَّهِ تَعَالَی:

(۱) اللَّهُمَّ یا مُنْتَهَی مَطْلَبِ الْحَاجَاتِ،

(۲) وَ یا مَنْ عِنْدَهُ نَیلُ الطَّلِبَاتِ،

(۳) وَ یا مَنْ لَا یبِیعُ نِعَمَهُ بِالْأَثْمَانِ،

(۴) وَ یا مَنْ لَا یکدِّرُ عَطَایاهُ بِالامْتِنَانِ

(۵) وَ یا مَنْ یسْتَغْنَی بِهِ وَ لَا یسْتَغْنَی عَنْهُ

(۶) وَ یا مَنْ یرْغَبُ إِلَیهِ وَ لَا یرْغَبُ عَنْهُ

(۷) وَ یا مَنْ لَا تُفْنِی خَزَائِنَهُ الْمَسَائِلُ

(۸) وَ یا مَنْ لَا تُبَدِّلُ حِکمَتَهُ الْوَسَائِلُ

(۹) وَ یا مَنْ لَا تَنْقَطِعُ عَنْهُ حَوَائِجُ الْمُحْتَاجِینَ

(۱۰) وَ یا مَنْ لَا یعَنِّیهِ دُعَاءُ الدَّاعِینَ.

(۱۱) تَمَدَّحْتَ بِالْغَنَاءِ عَنْ خَلْقِک وَ أَنْتَ أَهْلُ الْغِنَی عَنْهُمْ

(۱۲) وَ نَسَبْتَهُمْ إِلَی الْفَقْرِ وَ هُمْ أَهْلُ الْفَقْرِ إِلَیک.

(۱۳) فَمَنْ حَاوَلَ سَدَّ خَلَّتِهِ مِنْ عِنْدِک، وَ رَامَ صَرْفَ الْفَقْرِ عَنْ نَفْسِهِ بِک فَقَدْ طَلَبَ حَاجَتَهُ فِی مَظَانِّهَا، وَ أَتَی طَلِبَتَهُ مِنْ وَجْهِهَا.

(۱۴) وَ مَنْ تَوَجَّهَ بِحَاجَتِهِ إِلَی أَحَدٍ مِنْ خَلْقِک أَوْ جَعَلَهُ سَبَبَ نُجْحِهَا دُونَک فَقَدْ تَعَرَّضَ لِلْحِرْمَانِ، وَ اسْتَحَقَّ مِنْ عِنْدِک فَوْتَ الْإِحْسَانِ.

(۱۵) اللَّهُمَّ وَ لِی إِلَیک حَاجَةٌ قَدْ قَصَّرَ عَنْهَا جُهْدِی، وَ تَقَطَّعَتْ دُونَهَا حِیلِی، وَ سَوَّلَتْ لِی نَفْسِی رَفْعَهَا إِلَی مَنْ یرْفَعُ حَوَائِجَهُ إِلَیک، وَ لَا یسْتَغْنِی فِی طَلِبَاتِهِ عَنْک، وَ هِی زَلَّةٌ مِنْ زَلَلِ الْخَاطِئِینَ، وَ عَثْرَةٌ مِنْ عَثَرَاتِ الْمُذْنِبِینَ.

(۱۶) ثُمَّ انْتَبَهْتُ بِتَذْکیرِک لِی مِنْ غَفْلَتِی، وَ نَهَضْتُ بِتَوْفِیقِک مِنْ زَلَّتِی، وَ رَجَعْتُ وَ نَکصْتُ بِتَسْدِیدِک عَنْ عَثْرَتِی.

(۱۷) وَ قُلْتُ: سُبْحَانَ رَبِّی کیفَ یسْأَلُ مُحْتَاجٌ مُحْتَاجاً وَ أَنَّی یرْغَبُ مُعْدِمٌ إِلَی مُعْدِمٍ

(۱۸) فَقَصَدْتُک، یا إِلَهِی، بِالرَّغْبَةِ، وَ أَوْفَدْتُ عَلَیک رَجَائِی بِالثِّقَةِ بِک.

(۱۹) وَ عَلِمْتُ أَنَّ کثِیرَ مَا أَسْأَلُک یسِیرٌ فِی وُجْدِک، وَ أَنَّ خَطِیرَ مَا أَسْتَوْهِبُک حَقِیرٌ فِی وُسْعِک، وَ أَنَّ کرَمَک لَا یضِیقُ عَنْ سُؤَالِ أَحَدٍ، وَ أَنَّ یدَک بِالْعَطَایا أَعْلَی مِنْ کلِّ یدٍ.

(۲۰) اللَّهُمَّ فَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ احْمِلْنِی بِکرَمِک عَلَی التَّفَضُّلِ، وَ لَا تَحْمِلْنِی بِعَدْلِک عَلَی الِاسْتِحْقَاقِ، فَمَا أَنَا بِأَوَّلِ رَاغِبٍ رَغِبَ إِلَیک فَأَعْطَیتَهُ وَ هُوَ یسْتَحِقُّ الْمَنْعَ، وَ لَا بِأَوَّلِ سَائِلٍ سَأَلَک فَأَفْضَلْتَ عَلَیهِ وَ هُوَ یسْتَوْجِبُ الْحِرْمَانَ.

(۲۱) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ کنْ لِدُعَائِی مُجِیباً، وَ مِنْ نِدَائِی قَرِیباً، وَ لِتَضَرُّعِی رَاحِماً، وَ لِصَوْتِی سَامِعاً.

(۲۲) وَ لَا تَقْطَعْ رَجَائِی عَنْک، وَ لَا تَبُتَّ سَبَبِی مِنْک، وَ لَا تُوَجِّهْنِی فِی حَاجَتِی هَذِهِ وَ غَیرِهَا إِلَی سِوَاک

(۲۳) وَ تَوَلَّنِی بِنُجْحِ طَلِبَتِی وَ قَضَاءِ حَاجَتِی وَ نَیلِ سُؤْلِی قَبْلَ زَوَالِی عَنْ مَوْقِفِی هَذَا بِتَیسِیرِک لِی الْعَسِیرَ وَ حُسْنِ تَقْدِیرِک لِی فِی جَمِیعِ الْأُمُورِ

(۲۴) وَ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، صَلَاةً دَائِمَةً نَامِیةً لَا انْقِطَاعَ لِأَبَدِهَا وَ لَا مُنْتَهَی لِأَمَدِهَا، وَ اجْعَلْ ذَلِک عَوْناً لِی وَ سَبَباً لِنَجَاحِ طَلِبَتِی، إِنَّک وَاسِعٌ کرِیمٌ.

(۲۵) وَ مِنْ حَاجَتِی یا رَبِّ کذَا وَ کذَا [وَ تَذْکرُ حَاجَتَک ثُمَّ تَسْجُدُ وَ تَقُولُ فِی سُجُودِک:] فَضْلُک آنَسَنِی، وَ إِحْسَانُک دَلَّنِی، فَأَسْأَلُک بِک وَ بِمُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، صَلَوَاتُک عَلَیهِمْ، أَن لَا تَرُدَّنِی خَائِباً.

طلب حاجات کے سلسلے میں حضرت کی دعا

(1) ا ے معبود ! اے وہ جو طلب حاجات کی منزل منتہا ہے۔

(2) اے وہ جس کے یہاں مرادوں تک رسائی ہوتی ہے

(3) اے وہ جو اپنی نعمتیں قیمتوں کے عوض فروخت نہیں کرتا

(4) اور نہ اپنے عطیوں کو احسان جتا کر مکدر کرتا ہے

(5) اے وہ جس کے ذریعہ بے نیازی حاصل ہوتی ہے اور جس سے بے نیاز نہیں رہا جا سکتا۔

(6) اے وہ جس کی خواہش و رغبت کی جاتی ہے اور جس سے منہ موڑا نہیں جا سکتا۔

(7) اے وہ جس کے خزانے طلب و سوال سے ختم نہیں ہوتے

(8) اور جس کی حکمت و مصلحت کو وسائل و اسباب کے ذریعہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا

(9) اے وہ جس سے حاجتمندوں کا رشتہ احتیاج قطع نہیں ہوتا

(10) اور جسے پکارنے والوں کی صدا خستہ و ملول نہیں کرتی

(11) تو نے خلق سے بے نیاز ہونے کی صفت کا مظاہرہ کیا ہے اور تو یقینا ان سے بے نیاز ہے

(12) اور تونے ان کی طرف فقر و احتیاج کی نسبت دی ہے اور وہ بیشک تیرے محتاج ہیں۔

(13) لہذا جس نے اپنے افلاس کے رفع کرنے کے لیے تیرا ارادہ کیا اور اپنی احتیاج کے دور کرنے کے لۓ تیرا قصد کیا اس نے اپنی حاجت کو اس کے محل و مقام سے طلب کیا اور اپنے مقصد تک پہنچنے کا صحیح راستہ اختیار کیا

(14) اور جو اپنی حاجت کو لے کر مخلوقات میں سے کسی ایک کی طرف متوجہ ہوا یا تیرے علاوہ دوسرے کو اپنی حاجت برآری کا ذریعہ قرار دیا وہ حرماں نصیبی سے دوچار اور تیرے احسان سے محرومی کا سزاوار ہوا۔

(15) بار الہا ! میری تجھ سے ایک حاجت ہے جسے پورا کرنے سے میری طاقت جواب دے چکی ہے اور میری تدبیر و چارہ جوئی بھی ناکام ہو کر رہ گئی ہے اور میرے نفس نے مجھے یہ بات خوش نما صورت میں دکھائی کہ میں اپنی حاجت کو اس کے سامنے پیش کروں جو خود اپنی حاجتیں تیرے سامنے پیش کرتا ہے اور اپنے مقاصد میں تجھ سے بے نیاز نہیں ہے یہ سراسر خطا کاروں کی خطاؤں میں سے ایک خطا اور گنہگاروں کی لغزشوں میں سے ایک لغزش تھی

(16) لیکن تیرے یاد لانے سے میں اپنی غفلت سے ہوشیار ہوا اور تیری توفیق نے سہارا دیا تو ٹھوکر کھانے سے سنبھل گیا اور تیری راہنمائی کی بدولت اس غلط اقدام سے باز آیا اور واپس پلٹ آیا۔

(17) اور میں نے کہا واہ سبحان اللہ ! کس طرح ایک محتاج دوسرے محتاج سے سوال کر سکتا ہے۔ اور کہاں ایک نادار دوسرے نادار سے رجوع کر سکتا ہے (جب یہ حقیقت واضح ہوگئی)

(18) تو میں نے اے میرے معبود! پوری رغبت کے ساتھ تیرا ارادہ کیا اور تجھ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی امیدیں تیرے پاس لایا ہوں

(19) اور میں نے اس امر کو بخوبی جان لیا ہے کہ میری کثیر حاجتیں تیری تونگری کے آگے کم اور میری عظیم خواہشیں تیری وسعت رحمت کے سامنے ہیچ ہیں۔ تیرے دامن کرم کی وسعت کسی کے سوال کرنے سے تنگ نہیں ہوتی اور تیرا دست کرم عطا و بخشش میں ہر ہاتھ سے بلند ہے۔

(20) اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور اپنے کرم سے میرے ساتھ تفضل و احسان کی روش اختیار اور اپنے عدل سے کام لیتے ہوئے میرے استحقاق کی رو سے فیصلہ نہ کر کیونکہ میں پہلا وہ حاجت مند نہیں ہوں جو تیری طرف متوجہ ہوا اور تو نے اسے عطا کیا ہو حالانکہ وہ رد کئے جانے کا مستحق ہو اور پہلا وہ سائل نہیں ہوں جس نے تجھ سے مانگا ہو اور تو نے اس پر اپنا فضل کیا ہو حالانکہ وہ محروم کئے جانے کے قابل ہو۔

(21) اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور میری دعا کا قبول کرنے والا میری پکار پر التفات فرمانے والا، میری عجز و زاری پر رحم کرنے والا اور میری آواز کا سننے والا ثابت ہو،

(22) اور میری امید جو تجھ سے وابستہ ہے اسے نہ توڑ اور میرا وسیلہ اپنے سے قطع نہ کر۔ اور مجھے اس مقصد اور دوسرے مقاصد میں اپنے سوا دوسرے کی طرف متوجہ نہ ہونے دے

(23) اور اس مقام سے الگ ہونے سے پہلے میری مشکل کشائی اور تمام معاملات میں حسن تقدیر کی کار فرمائی سے میرے مقصد کے برلانے، میری حاجت کے روا کرنے اور میرے سوال کے پورا کرنے کا خود ذمہ لے

(24) اور محمد اوران کی آل پر رحمت نازل فرما۔ ایسی رحمت جو دائمی اور روز افزوں ہو۔ جس کا زمانہ غیر مختتم اورجس کی مدت بے پایاں ہو اور اسے میرے لیے معین اور مقصد برآری کا ذریعہ قرار دے۔ بیشک تو وسیع رحمت اورجود و کرم کی صفت کا مالک ہے

(25) اے میرے پروردگار! میری کچھ حاجتیں یہ ہیں (اس مقام پر اپنی حاجتیں بیان کرو۔ پھر سجدہ کرو اور سجدہ کی حالت میں یہ کہو) تیرے فضل وکرم نے میری دل جمعی اور تیرے احسان نے رہنمائی کی۔ اس وجہ سے میں تجھ سے تیرے ہی وسیلہ سے اور محمد و آل محمد علیہم الصلوة والسلام کے ذریعہ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے (اپنے در سے) ناکام و نامراد نہ پھیر۔


حوالہ جات

  1. ممدوحی، شہود و شناخت، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۵۶۲.
  2. ترجمہ و شرح دعای سیزدہم صحیفہ سجادیہ، سایت عرفان.
  3. انصاریان، دیار عاشقان، ۱۳۷۲ش، ج۵، ص۱۶۵-۲۱۸؛ ممدوحی، شہود و شناخت، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۵۶۲-۶۰۸۔
  4. انصاریان، دیار عاشقان، ۱۳۷۱ش، ج۵، ص۱۶۵-۲۱۸۔
  5. ممدوحی، کتاب شہود و شناخت، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۵۶۲-۶۰۸۔
  6. فہری، شرح و تفسیر صحیفہ سجادیہ، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۶۹-۹۲۔
  7. مدنی شیرازی، ریاض السالکین، ۱۴۳۵ھ، ج۳، ص۳-۴۱۔
  8. مغنیہ، فی ظلال الصحیفہ، ۱۴۲۸ھ، ص۱۸۳-۱۹۰۔
  9. دارابی، ریاض العارفین، ۱۳۷۹ش، ص۱۵۹-۱۶۹۔
  10. فضل اللہ، آفاق الروح، ۱۴۲۰ھ، ج۱، ص۳۱۷-۳۳۲۔
  11. فیض کاشانی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، ۱۴۰۷ھ، ص۳۷-۳۸۔

مآخذ

  • انصاریان، حسین، دیار عاشقان: تفسیر جامع صحیفہ سجادیہ، تہران، پیام آزادی، ۱۳۷۲ ہجری شمسی۔
  • دارابی، محمد بن محمد، ریاض العارفین فی شرح الصحیفہ السجادیہ، تحقیق حسین درگاہی، تہران، نشر اسوہ، ۱۳۷۹ ہجری شمسی۔
  • فضل‌ اللہ، سید محمد حسین، آفاق الروح، بیروت، دارالمالک، ۱۴۲۰ھ۔
  • فہری، سید احمد، شرح و ترجمہ صحیفہ سجادیہ، تہران، اسوہ، ۱۳۸۸ ہجری شمسی۔
  • فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، تہران، مؤسسہ البحوث و التحقیقات الثقافیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • مدنی شیرازی، سید علی‌ خان، ریاض السالکین فی شرح صحیفۃ سید الساجدین، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ۱۴۳۵ھ۔
  • مغنیہ، محمد جواد، فی ظلال الصحیفہ السجادیہ، قم، دار الکتاب الاسلامی، ۱۴۲۸ھ۔
  • ممدوحی کرمانشاہی، حسن، شہود و شناخت، ترجمہ و شرح صحیفہ سجادیہ، مقدمہ آیت ‌اللہ جوادی آملی، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۸ ہجری شمسی۔

بیرونی روابط