صحیفہ سجادیہ کی باونویں دعا
کوائف | |
---|---|
موضوع: | حاجتوں کے پوری ہونے پر اصرار |
مأثور/غیرمأثور: | مأثور |
صادرہ از: | امام سجاد (ع) |
راوی: | متوکل بن ہارون |
مشہور دعائیں اور زیارات | |
دعائے توسل • دعائے کمیل • دعائے ندبہ • دعائے سمات • دعائے فرج • دعائے عہد • دعائے ابوحمزہ ثمالی • زیارت عاشورا • زیارت جامعہ کبیرہ • زیارت وارث • زیارت امیناللہ • زیارت اربعین |
صحیفہ سجادیہ کی باون ویں دعا امام سجاد علیہ السلام کی ان ماثورہ دعاوں میں سے ہے جس میں بندہ اپنے خدا کی بارگاہ میں حاجتوں کے پورا ہونے پر اصرار کرتا ہے۔ اس دعا میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا کی قدرت اور اس کا علم پوری کائنات کو احاطہ کئے ہوئے ہیں اور اسی طرح اس دعا میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ تمام موجودات کی بازگشت خدا کی جانب ہے۔ امام سجاد علیہ السلام نے اس دعا میں انسان کی کمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کئی بار خدا سے حاجتوں کی استجابت کی درخواست کی ہے۔ دنیا کے گرویدہ افراد کی خصوصیات اور مشرکین سے بیزاری اس دعا کے دیگر مضامین ہیں۔
صحیفہ سجادیہ کی باون ویں دعا کی شرحوں میں سے فارسی زبان میں جیسے شہود و شناخت تالیف حسن ممدوحی کرمانشاہی اور عربی زبان میں کتاب ریاض السالکین تالیف سید علی خان مدنی۔
دعا و مناجات |
تعلیمات
صحیفہ سجادیہ کی باون ویں دعا ان دعاوں میں سے ہے جس میں امام سجاد علیہ السلام نے خدا سے دعا میں اصرار کو بیان کیا ہے۔ اس دعا کی شرح کے سلسلے میں حسن ممدوحی کرمانشاہی نے کہا ہے کہ بندگان خدا کی نظر میں اگر چہ کسی کے سامنے اصرار انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے لیکن دعا کے وقت یہی اصرار خدا کی بارگاہ میں ایک محبوب عمل ہے۔[1]
اس دعا کے مندرجہ ذیل پیغامات ہیں:
- علم الہی تمام موجودات پر حاکم ہے (یعنی زمین اور آسمان کی کوئی بھی چیز خدا سے پوشیدہ نہیں ہے)
- خدا کے خاشع بندے سب سے زیادہ اس کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔
- خدا کا انکار انسان کے غلط تصورات کا نتیجہ ہے۔
- پیغمبروں کی تکذیب خدا سے شرک کے برابر ہے۔
- خدا کی قدرت پوری کائنات کو احاطہ کئے ہوئے ہے۔
- موت تمام مخلوقات کے لئے ایک یقینی امر ہے۔
- اس انسان سے بیزاری ضروری ہے جو خدا کے علاوہ کسی دوسرے کی عبادت کرتا ہے۔
- خدا کی بارگاہ میں اپنے عمل میں کوتاہی اور خطا و گناہ کا اقرار کرنا۔
- دنیا پر فریفتہ افراد کی خصوصیات: لادینیت، غافل اور دنیا پرست ہیں۔
- خواہشات نفس انسان کے رشد و ترقی کے لئے رکاوٹ ہیں۔
- انسان آروزوں کے دلدل میں گرفتار ہے لیکن اس کے باوجود وہ ہر چیز خدا سے طلب کرتا ہے۔
- دنیا سے وابستگی کے باوجود خدا سے انسان کا درخواست کرنا۔
- گناہوں کی کثرت کے باوجود خدا سے طلب کرنا۔
- اس خدا سے مانگنا جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے۔
- خدا کی بندگی کے نتیجے میں انسان بے نیاز ہو جاتا ہے۔
- خدا کی سخاوت اور بزرگواری پر بھروسہ کرنا ضروری ہے۔
- انسان کامل کی سب سے بڑی آرزو، خالص بندگی اور خدا کی طرف مکمل توجہ ہے [2]
شرحیں
صحیفہ سجادیہ کی باون ویں دعا کی مختلف شرحیں ہیں: فارسی میں مندرجہ ذیل شرحیں موجود ہیں: مثلا کتاب دیار عاشقان تالیف حسین انصاریان،[3] شہود و شناخت تالیف محمد حسن ممدوحی کرمانشاہی[4] اور شرح و ترجمہ صحیفہ سجادیہ تالیف سید احمد فہری۔[5]
اسی طرح اس دعا کی بعض شرحیں عربی زبان میں بھی ہیں جیسے کتاب ریاض السالکین تالیف سید علی خان مدنی،[6] فی ظلال الصحیفۃ السجادیۃ تالیف محمد جواد مغنیہ،[7] ریاض العارفین تألیف محمد بن محمد دارابی[8] اور آفاق الروح تالیف سید محمد حسین فضل اللہ۔[9] اس کے علاوہ اس دعا کے الفاظ کی لغوی شرحیں بھی موجود ہیں مثلا تعلیقات علی الصحیفۃ السجادیہ تالیف فیض کاشانی[10] اور شرح الصحیفۃ السجادیۃ تالیف عزالدین جزائری۔[11]
متن اور ترجمہ
متن | ترجمہ: (مفتی جعفر حسین) |
---|---|
(1) يَا اللَّهُ الَّذِي لا يَخْفى عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَ لا فِي السَّماءِ، وَ كَيْفَ يَخْفَى عَلَيْكَ- يَا إِلَهِي- مَا أَنْتَ خَلَقْتَهُ، وَ كَيْفَ لَا تُحْصِي مَا أَنْتَ صَنَعْتَهُ، أَوْ كَيْفَ يَغِيبُ عَنْكَ مَا أَنْتَ تُدَبِّرُهُ، أَوْ كَيْفَ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَهْرُبَ مِنْكَ مَنْ لَا حَيَاةَ لَهُ إِلَّا بِرِزْقِكَ، أَوْ كَيْفَ يَنْجُو مِنْكَ مَنْ لَا مَذْهَبَ لَهُ فِي غيْرِ مُلْكِكَ. (۲) سُبْحَانَكَ! أَخْشَى خَلْقِكَ لَكَ أَعْلَمُهُمْ بِكَ، وَ أَخْضَعُهُمْ لَكَ أَعْمَلُهُمْ بِطَاعَتِكَ، وَ أَهْوَنُهُمْ عَلَيْكَ مَنْ أَنْتَ تَرْزُقُهُ وَ هُوَ يَعْبُدُ غَيْرَكَ
(۴) سُبْحَانَكَ! مَا أَعْظَمَ شَأْنَكَ، وَ أَقْهَرَ سُلْطَانَكَ، وَ أَشَدَّ قُوَّتَكَ، وَ أَنْفَذَ أَمْرَكَ! (۵) سُبْحَانَكَ! قَضَيْتَ عَلَى جَمِيعِ خَلْقِكَ الْمَوْتَ: مَنْ وَحَّدَكَ وَ مَنْ كَفَرَ بِكَ، وَ كُلٌّ ذَائِقُ الْمَوْتِ، وَ كُلٌّ صَائِرٌ إِلَيْكَ، فَتَبَارَكْتَ وَ تَعَالَيْتَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ وَحْدَكَ لَا شَرِيكَ لَكَ. (۶) آمَنْتُ بِكَ، وَ صَدَّقْتُ رُسُلَكَ، وَ قَبِلْتُ كِتَابَكَ، وَ كَفَرْتُ بِكُلِّ مَعْبُودٍ غَيْرِكَ، وَ بَرِئْتُ مِمَّنْ عَبَدَ سِوَاكَ. (۷) اللَّهُمَّ إِنِّي أُصْبِحُ وَ أُمْسِي مُسْتَقِلًّا لِعَمَلِي، مُعْتَرِفاً بِذَنْبِي، مُقِرّاً بِخَطَايَايَ، أَنَا بِإِسْرَافِي عَلَى نَفْسِي ذَلِيلٌ، عَمَلِي أَهْلَكَنِي، وَ هَوَايَ أَرْدَانِي، وَ شَهَوَاتِي حَرَمَتْنِي. (۸) فَأَسْأَلُكَ يَا مَوْلَايَ سُؤَالَ مَنْ نَفْسُهُ لَاهِيَةٌ لِطُولِ أَمَلِهِ، وَ بَدَنُهُ غَافِلٌ لِسُكُونِ عُرُوقِهِ، وَ قَلْبُهُ مَفْتُونٌ بِكَثْرَةِ النِّعَمِ عَلَيْهِ، وَ فِكْرُهُ قَلِيلٌ لِمَا هُوَ صَائِرٌ إِلَيْهِ. (۹) سُؤَالَ مَنْ قَدْ غَلَبَ عَلَيْهِ الْأَمَلُ، وَ فَتَنَهُ الْهَوَى، وَ اسْتَمْكَنَتْ مِنْهُ الدُّنْيَا، وَ أَظَلَّهُ الْأَجَلُ، سُؤَالَ مَنِ اسْتَكْثَرَ ذُنُوبَهُ، وَ اعْتَرَفَ بِخَطِيئَتِهِ، سُؤَالَ مَنْ لَا رَبَّ لَهُ غَيْرُكَ، وَ لَا وَلِيَّ لَهُ دُونَكَ، وَ لَا مُنْقِذَ لَهُ مِنْكَ، وَ لَا مَلْجَأَ لَهُ مِنْكَ، إِلَّا إِلَيْكَ. (۱۰) إِلَهِي أَسْأَلُكَ بِحَقِّكَ الْوَاجِبِ عَلَى جَمِيعِ خَلْقِكَ، وَ بِاسْمِكَ الْعَظِيمِ الَّذِي أَمَرْتَ رَسُولَكَ أَنْ يُسَبِّحَكَ بِهِ، وَ بِجَلَالِ وَجْهِكَ الْكَرِيمِ، الَّذِي لَا يَبْلَى وَ لَا يَتَغَيَّرُ، وَ لَا يَحُولُ وَ لَا يَفْنَى، أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَ أَنْ تُغْنِيَنِي عَنْ كُلِّ شَيْءٍ بِعِبَادَتِكَ، وَ أَنْ تُسَلِّيَ نَفْسِي عَنِ الدُّنْيَا بِمَخَافَتِكَ، وَ أَنْ تُثْنِيَنِي بِالْكَثِيرِ مِنْ كَرَامَتِكَ بِرَحْمَتِكَ. (۱۱) فَإِلَيْكَ أَفِرُّ، و مِنْكَ أَخَافُ، وَ بِكَ أَسْتَغِيثُ، وَ إِيَّاكَ أَرْجُو، وَ لَكَ أَدْعُو، وَ إِلَيْكَ أَلْجَأُ، وَ بِكَ أَثِقُ، وَ إِيَّاكَ أَسْتَعِينُ، وَ بِكَ أُومِنُ، وَ عَلَيْكَ أَتَوَكَّلُ، وَ عَلَى جُودِكَ وَ كَرَمِكَ أَتَّكِلُ.
|
(1) اے وہ معبود جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ چاہے زمین میں ہو چاہے آسمان میں۔ اور اے میرے معبود وہ چیزیں جنہیں تو نے پیدا کیا ہے وہ تجھ سے کیونکر پوشیدہ رہ سکتی ہیں ، اور جن چیزوں کو تو نے بنایا ہے ان پر کس طرح تیرا علم محیط نہ ہو گا۔ اور جن چیزوں کی تو تدبیروکارسازی کرتا ہے وہ تیری نظروں سے کس طرح اوجھل رہ سکتی ہیں۔ اور جس کی زندگی تیرے رزق سے وابستہ ہو وہ تجھ سے کیونکر راہ گریز اختیار کر سکتا ہے یا جسے تیرے ملک کے علاوہ کہیں راستہ نہ ملے وہ کس طرح تجھ سے آزاد ہو سکتا ہے (2) پاک ہے تو۔ جو تجھے زیادہ جاننے والا ہے وہی سب مخلوقات سے زیادہ تجھ سے ڈرنے والا ہے اور جو تیرے سامنے سر افگندہ ہے وہی سب سے زیادہ تیرے فرمان پر کاربند ہے۔ اور تیری نظروں میں سب سے زیادہ ذلیل و خوار وہ ہے جسے تو روزی دیتا ہے اور وہ تیرے علاوہ دوسرے کی پرستش کرتا ہے۔ (3)پاک ہے تو۔ جو تیرا شریک ٹھہراۓ اور تیرے رسولوں کو جھٹلاۓ وہ تیری سلطنت میں کمی نہیں کر سکتا۔ اور جو تیرے حکم قضا و قدر کو ناپسند کرے وہ تیرے فرمان کو پلٹا نہیں سکتا۔ اور جو تیری قدرت کا انکار کرے وہ تجھ سے اپنا بچاؤ نہیں کر سکتا۔ اور جو تیرے علاوہ کسی اور کی عبادت کرے وہ تجھ سے بچ نہیں سکتا اور جو تیری ملاقات کو ناگوار سمجھے وہ دنیا میں زندگی جاوید حاصل نہیں کر سکتا۔ (4) پاک ہے تو۔ تیری شان کتنی عظیم ، تیرا اقتدار کتنا غالب ، تیری قوت کتنی مضبوط اور تیرا فرمان کتنا نافذ ہے۔ (5) تو پاک و منزّہ ہے تو نے تمام خلق کے لۓ موت کا فیصلہ کیا ہے۔ کیا کوئی تجھے یکتا جانے اور کیا کوئی تیرا انکار کرے۔ سب ہی موت کی تلخی چکھنے والے اور سب ہی تیری طرف پلٹنے والے ہیں۔ تو بابرکت اور بلند و برتر ہے۔ کوئی معبود نہیں مگر تو۔ تو ایک اکیلا ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔ (6)میں تجھ پر ایمان لایا ہوں ، تیرے رسولوں کی تصدیق کی ہے۔ تیری کتاب کو مانا ہے۔ تیرے علاوہ ہر معبود کا انکار کیا ہے۔ اور جو تیرے علاوہ دوسرے کی پرستش کرے اس سے بیزاری اختیار کی ہے۔ (7)بارالہا ! میں اس عالم میں صبح وشام کرتا ہوں کہ اپنے اعمال کو کم تصوّر کرتا ، اپنے گناہوں کا اعتراف اور اپنی خطاؤں کا اقرار کرتا ہوں، میں اپنے نفس پر ظلم و زیادتی کے باعث ذلیل و خوار ہوں۔ میرے کردار نے مجھے ہلاک اور ہواۓ نفس نے تباہ کر دیا ہے اور خواہشات نے ( نیکی وسعادت سے ) بے بہرہ کر دیا ہے۔ (8)اے میرے مالک ! میں تجھ سے ایسے شخص کی طرح سوال کرتا ہوں جس کا نفس طولانی امیدوں کے باعث غافل ، جسم صحت و تن آسانی کی وجہ سے بے خبر ، دل نعمت کی فراوانی کے سبب خواہشوں پر وارفتہ اور فکر انجام کار کی نسبت کم ہو۔
(10) بارالہا! میں تیرے اس حق کے واسطہ سے جو تیرے مخلوقات پر لازم و واجب ہے اور تیرے اس بزرگ نام کے واسطہ سے جس کے ساتھ تو نے اپنے رسول کو تسبیح کرنے کا حکم دیا اور تیری اس ذات بزرگوار کی بزرگی و جلالت کے وسیلہ سے کہ جو نہ کہنہ ہوتی ہے نہ متغیر۔ نہ تبدیل ہوتی ہے نہ فنا۔ تجھ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ تو محمد اوران کی آل پر رحمت نازل فرما اور مجھے اپنی عبادت کے ذریعہ ہر چیز سے بے نیاز کر دے۔ اور اپنے خوف کی وجہ سے دنیا سے دل برداشتہ بنا دے۔ اور اپنی رحمت سے بخشش وکرامت کی فراوانی کے ساتھ مجھے واپس کر (11) اس لئے کہ میں تیری ہی طرف گریزاں اور تجھ ہی سے ڈرتا ہوں اور تجھ ہی سے فریاد رسی چاہتا ہوں اور تجھ ہی سے امید رکھتا ہوں اور تجھے ہی پکارتا ہوں اور تجھ ہی سے پناہ چاہتا ہوں اور تجھ ہی پر بھروسہ کرتا ہوں اور تجھ ہی سے مدد چاہتا ہوں اور تجھ ہی پر ایمان لایا ہوں اورتجھ ہی پر توکل رکھتا ہوں اور تیرے ہی جود و کرم پر اعتماد کرتا ہوں۔ |
حوالہ جات
- ↑ ممدوحی کرمانشاہی، شہود و شناخت، ۱۳۸۸ہجری شمسی، ج۴، ص۳۴۱.
- ↑ ممدوحی، شہود و شناخت، ۱۳۸۸ہجری شمسی، ج۴، ص۳۴۱-۳۶۲؛ شرح فرازہای دعای پنجاہ و دوم صحیفہ از سایت عرفان.
- ↑ انصاریان، دیار عاشقان، ۱۳۷۳ ہجری شمسی، ج۷، ص۶۱۱-۶۲۲.
- ↑ ممدوحی، کتاب شہود و شناخت، ۱۳۸۸ہجری شمسی، ج۴، ص۳۳۷-۳۶۲.
- ↑ فہری، شرح و تفسیر صحیفہ سجادیہ، ۱۳۸۸ہجری شمسی، ج۳، ص۵۵۹-۵۶۵.
- ↑ مدنی شیرازی، ریاض السالکین، ۱۴۳۵ق، ج۷، ص۳۶۵-۳۹۴.
- ↑ مغنیہ، فی ظلال الصحیفۃ، ۱۴۲۸ھ ، ص۶۴۷-۶۵۵.
- ↑ دارابی، ریاض العارفین، ۱۳۷۹ہجری شمسی، ص۷۱۷-۷۲۴.
- ↑ فضلاللہ، آفاق الروح، ۱۴۲۰ق، ج۲، ص۶۱۴-۶۲۹.
- ↑ فیض کاشانی، تعلیقات علی الصحیفۃ السجادیۃ، ۱۴۰۷ق، ص۱۰۲-۱۰۳.
- ↑ جزایری، شرح الصحیفۃ السجادیۃ، ۱۴۰۲، ص۲۹۳-۲۹۵.
مآخذ
- انصاریان، حسین، دیار عاشقان: تفسیر جامع صحیفہ سجادیہ، تہران، پیام آزادی، ۱۳۷۲ہجری شمسی ۔
- جزایری، عزالدین، شرح الصحیفۃ السجادیۃ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۲ھ ۔
- دارابی، محمد بن محمد، ریاض العارفین فی شرح الصحیفۃ السجادیۃ، تحقیق حسین درگاہی، تہران، نشر اسوہ، ۱۳۷۹ہجری شمسی ۔
- فضلاللہ، سید محمد حسین، آفاق الروح، بیروت، دارالمالک، ۱۴۲۰ھ ۔
- فہری، سید احمد، شرح و ترجمہ صحیفہ سجادیہ، تہران، اسوہ، ۱۳۸۸ہجری شمسی ۔
- فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، تعلیقات علی الصحیفۃ السجادیۃ، تہران، مؤسسۃ البحوث و التحقیقات الثقافیۃ، ۱۴۰۷ھ ۔
- مدنی شیرازی، سید علی خان، ریاض السالکین فی شرح صحیفۃ سید الساجدین، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ۱۴۳۵ھ ۔
- مغنیہ، محمد جواد، فی ظلال الصحیفۃ السجادیۃ، قم، دار الکتاب الاسلامی، ۱۴۲۸ھ ۔
- ممدوحی کرمانشاہی، حسن، شہود و شناخت، ترجمہ و شرح صحیفہ سجادیہ، مقدمہ آیت اللہ جوادی آملی، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۸ہجری شمسی ۔