صحیفہ سجادیہ کی اکیسویں دعا
| کوائف | |
|---|---|
| موضوع: | رنج وغم کے وقت کی دعا |
| مأثور/غیرمأثور: | مأثور |
| صادرہ از: | امام سجادعلیہ السلام |
| راوی: | متوکل بن ہارون |
| شیعہ منابع: | صحیفۂ سجادیہ |
| مشہور دعائیں اور زیارات | |
| دعائے توسل • دعائے کمیل • دعائے ندبہ • دعائے سمات • دعائے فرج • دعائے عہد • دعائے ابوحمزہ ثمالی • زیارت عاشورا • زیارت جامعہ کبیرہ • زیارت وارث • زیارت امیناللہ • زیارت اربعین | |
صحیفۂ سجادیہ کی اکیسویں دعا امام سجادؑ سے منقول ہے جسے رنج و غم کے وقت پڑھا جاتا ہے۔ امام سجادؑ نے اس دعا میں توحید افعالی کو بیان فرمانے کے ساتھ خداوند متعال کی ذات کو کائنات میں تنہا مؤثر کے طور پر شناخت کروایا ہے۔ امام سجادؑ کے مطابق، انسان کی تنہا پناہ گاہ خدا کی رحمت ہے نیز آرزؤں تک پہونچنے کا تنہا وسیلہ خدا کی ذات ہے۔ امامؑ نصیحت فرماتے ہیں کہ دعا کے قبول ہونے میں تأخیر ہونے کی صورت میں خدا سے مایوس اور نا امید نہ ہوں، اپؑ فقط اطاعت کو قرب خدا اور منزل کمال تک پہنچنے کا راستہ جانتے ہیں۔
اس اکیسویں دعا کی صحیفۂ سجادیہ کی متعدد شرحوں میں، جیسے حسین انصاریان کی کتاب دیار عاشقان میں، فارسی زبان میں اور سید علی خان مدنی کی کتاب ریاض السالکین میں ، عربی زبان میں شرح کی گئی ہے۔
تعلیمات
صحیفہ سجادیہ کی اکیسویں دعا، رنج و غم ، گناہوں و غفلتوں کی وجہ سے آنے والی مصیبتوں اور بلاؤں کے وقت کی دعا ہے[1] ، اس دعا کی تعلیمات مندرجہ ذیل ہیں:
- خداوند عالم کمزوروں کو بے نیاز بنانے والا ہے۔
- توحید افعالی کے دروس کے تذکرہ ۔
- خدا کے بغیر امنیت کا نہ ہونا ( انسانوں کیلئے محفوظ علاقہ فقط خدا کی رحمت ہے)
- خدا کے سوا کوئی ناصر و مددگار نہیں۔
- الہی غضب کے مقابل انسان ناتوان ہے۔
- طاقت اور قدرت صرف، الہی مدد کے زیر سایہ ممکن ہے۔
- خدا سے فرار و گریز کے با وجود اس کی جانب پلٹنا لازمی ۔
- کائنات کا تنہا مؤثر، واحد پروردگار، مددگار اور موجودات سے مطالبہ کرنے والا ، صرف خدا ہے۔
- تمام موجودات پر خدا کا اختیار ہے ۔
- تمام اسباب و وسایل ارادۂ خدا کے ہاتھوں میں ہیں ۔
- اپنی امیدوں کے برآنے کا وسیلہ ۔
- بندوں کے حق میں قضا و قدر الہی، عین عدالت ہے۔
- خدا کی اطاعت، قرب الہی تک پہنچنے کا ذریعہ۔
- انسان کا اپنی کمزوری پر اعتراف۔
- عبادت الہی نعمتوں تک رسائی کا راستہ۔
- اپنی عاجزی و بے بسی اور ذلت و محتاجی کا اعتراف۔
- خدا کی رضا اور اسکی محبت کا حصول، اسکی اطاعت میں پنہاں ہے۔
- قبولیت دعا میں تاخیر کی صورت میں ناامید نہ ہونا ۔
- عطا و بخشش کے وقت یاد خدا سے غافل نہ ہونا۔
- بدن اور نفس کے وسیلے خدا کی اطاعت و بندگی کی توفیق ملنے درخواست۔
- تمام اسرار و رموز حمد الہی میں پوشیدہ ہیں۔
- دل کو خدا کی دوستی، محبت اور اسکے ذکر کیلئے خالی ہونے کی درخواست ۔
- خدا کی جانب رجحان اور شوق کے وسیلہ دل کو مضبوط ہونے کی درخواست ۔
- الہی رابطہ کی روشنی میں زندگی کے تمام مراحل میں دل کو قابو میں رہنے کی درخواست۔
- تمام امور میں خوشنودی خدا حاصل کرنے کی صلاحیت طلب کرنا۔
- خدا اور اس کے اولیاء سے مانوس اور اشرار سے خوف مند رہنے کی درخواست۔
- تمام حالات میں خدا کی مدح و ثنا کرنے کی التجا ۔
- دنیا کے تقوے کو زادِ آخرت بنانے کی درخواست۔
- خدا کی مسلسل اطاعت کے ذریعہ اس کی خوشنودی حاصل کرنے اور اس کے غضب سے بچنے کا تذکرہ ۔
- خوفِ خدا میں گناہوں سے دوری کا ذکر۔
- خدا اور اس کے اولیاء سے مانوس ہونے کی دعا۔
- خدا اور اس کے نیک بندوں کے وسیلہ سکونِ دل اور بے نیازی ملنے کی دعا۔
- خدا سے لولگانے اور اس سے وابستہ ہونے کی درخواست ۔
- محمد و آل محمدؐ کے ساتھ ہم نشینی کی دعا[2]۔
شرحیں
دوسری دعاؤں کی طرح صحیفۂ سجادیہ کی اکیسویں دعا کی بھی شرح کی گئی ہے۔ یہ دعا حسین انصاریان[3] نے اپنی کتاب دیار عاشقان میں مفصل فارسی زبان میں شرح کی ہے۔ اسی طرح محمدحسن ممدوحی کرمانشاہی نے اپنی کتاب شہود و شناخت [4] میں اور سید احمد فہری نے اپنی کتاب شرح و ترجمۂ صحیفہ سجادیہ[5] میں فارسی زبان میں شرح کی ہے۔
اسی طرح اس اکیسویں دعا کی بعض دیگر کتابوں میں بھی جیسے، سید علی خان مدنی کی کتاب ریاض السالکین [6] میں ، جواد مغنیہ کی کتاب فی ظلال الصحیفہ السجادیہ [7] میں ، محمد بن محمد دارابی [8] کی کتاب ریاض العارفین میں اور سید محمد حسین فضل الله [9] کی کتاب آفاق الروح میں، عربی زبان میں شرح کی گئی ہے۔ اور اس دعا کے الفاظ کی فیض کاشانی کی کتاب تعلیقات علی الصحیفۃ السجادیۃ [10] میں اورعزالدین جزائری کی کتاب شرح الصحیفہ السجادیہ [11] میں تشریح کی گئی ہے۔
دعا کا متن اور ترجمہ
| متن | ترجمہ: (مفتی جعفر حسین) |
|---|---|
(1) اللَّهُمَّ یا کافِی الْفَرْدِ الضَّعِیفِ، وَ وَاقِی الْأَمْرِ الْمَخُوفِ، أَفْرَدَتْنِی الْخَطَایا فَلَا صَاحِبَ مَعِی، وَ ضَعُفْتُ عَنْ غَضَبِک فَلَا مُؤَیدَ لِی، وَ أَشْرَفْتُ عَلَی خَوْفِ لِقَائِک فَلَا مُسَکنَ لِرَوْعَتِی
|
(1) اے اللہ ! اے یکہ و تنہا اور کمزور وناتوان کی (مہموں میں) کفایت کرنے والے اور خطرناک مرحلوں سے بچا لے جانے والے! گناہوں نے مجھے بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔ اب کوئی ساتھی نہیں ہے اور تیرے غضب کے برداشت کرنے سے عاجز ہوں۔ اب کوئی سہارا دینے والا نہیں ہے۔ تیری طرف بازگشت کا خطرہ درپیش ہے۔ اب اس دہشت سے کوئی تسکین دینے والا نہیں ہے۔ (2) اور جب کہ تو نے مجھے خوف ذدہ کیا ہے تو کون ہے جو مجھے تجھ سے مطمئن کرے۔ اور جب کہ تو نے مجھے تنہا چھوڑ دیا ہے تو کون ہے جو میری دستگیری کرے۔ اور جب کہ تو نے مجھے ناتوان کر دیا ہے تو کون ہے جو مجھے قوت دے۔ (3) اے میرے معبود! پروردہ کو کوئی پناہ نہیں دے سکتا سوائے اس کے پروردگار کے اور شکست خوردہ کو کوئی امان نہیں دے سکتا سوائے اس پر غلبہ پانے والے کے۔ اور طلب کردہ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا سوائے اس کے طالب کے۔ (4) یہ تمام وسائل اے میرے معبود تیرے ہی ہاتھ میں ہیں اور تیری ہی طرف راہ فرار و گریز ہے۔ لہذا تو محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور میرے گریز کو اپنے دامن میں پناہ دے اور میری حاجت برلا۔ (5) اے اللہ !اگر تو نے اپنا پاکیزہ رخ مجھ سے موڑ لیا اور اپنے احسان عظیم سے دریغ کیا یا اپنے رزق کو بند کر دیا، یا اپنے رشتہ رحمت کو مجھ سے قطع کر لیا تو میں اپنی آرزؤوں تک پہنچنے کا وسیلہ تیرے سوا کوئی پا نہیں سکتا اور تیرے ہاں کی چیزوں پر مدد کے سواء دسترس حاصل نہیں کر سکتا۔ کیونکہ میں تیرا بندہ اور تیرے قبضہ قدرت میں ہوں اور تیرے ہی ہاتھ میں میری بھاگ دوڑ ہے۔ (6) تیرے حکم کے آگے میرا حکم نہیں چل سکتا۔ میرے بارے میں تیرا فرمان جاری اور میرے حق میں تیرا فیصلہ عدل و انصاف پر مبنی ہے۔ تیرے قلمرو سلطنت سے نکل جانے کا مجھے یارا نہیں اور تیرے احاطہ قدرت سے قدم باہر رکھنے کی طاقت نہیں اور نہ تیری محبت کو حاصل کر سکتا ہوں۔ نہ تیری رضامندی تک پہنچ سکتا ہوں اور نہ تیرے ہاں کی نعمتیں پا سکتا ہوں مگر تیری اطاعت اور تیری رحمت فراواں کے وسیلہ سے۔ (7) اے اللہ !میں ہر حال میں تیرا ذلیل بندہ ہوں تیری مدد کے بغیر میں اپنے سود زیاں کا مالک نہیں۔ میں اس عجز و بے بضاعتی کی اپنے بارے میں گواہی دیتا ہوں اور اپنی کمزوری و بے چارگی کا اعتراف کرتا ہوں۔ لہذا جو وعدہ تو نے مجھ سے کیا ہے اسے پورا کر اور جو دیا ہے اسے تکمیل تک پہنچا دے اس لیے کہ میں تیرا وہ بندہ ہوں جو بے نوا، عاجز، کمزور، بے سر و سامان، حقیر، ذلیل، نادار، خوفزدہ، اور پناہ کا خواستگار ہے۔ (8) اے اللہ ! رحمت نازل فرما محمد اور ان کی آل پر اور مجھے ان عطیوں میں جو تو نے بخشے ہیں فراموش کار اور ان نعمتوں میں جو تو نے عطا کی ہیں احسان ناشناس نہ بنا دے اور مجھے دعا کی قبولیت سے ناامید نہ کر اگرچہ اس میں تا خیر ہو جائے۔ آسائش میں ہوں یا تکلیف میں، تنگی میں ہوں یا فارغ البلالی میں، تندرستی کی حالت میں ہوں یا بیماری کی، بدحالی میں ہوں یا خوشحالی میں، تونگری میں ہوں یا عسرت میں، فقر میں، یا دولتمندی میں، (9) اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور مجھے ہر حالت میں مدح و ستائش و سپاس میں مصروف رکھ یہاں تک کہ دنیا میں سے جو کچھ تو دے اس پر خوش نہ ہونے لگوں اور جو روک لے اس پر رنجیدہ نہ ہوں۔ اور پرہیزگاری کو میرے دل کا شعار بنا اور میرے جسم سے وہی کام لے جسے تو قبول فرمائے اور اپنی اطاعت میں انہماک کے ذریعہ تمام دنیوی علائق سے فارغ کر دے تاکہ اس چیز کو جو تیری ناراضی کا سبب ہے دوست نہ رکھوں اور جو چیز تیری خوشنودی کا باعث ہے اسے ناپسند نہ کروں۔ (10) اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور زندگی بھر میرے دل کو اپنی محبت کے لیے فارغ کر دے۔ اپنی یاد میں اسے مشغول رکھ، اپنے خوف وہراس کے ذریعہ (گناہوں کی) تلافی کا موقع دے، اپنی طرف رجوع ہونے سے اس کی قوت و توانائی بخش، اپنی اطاعت کی طرف اسے مائل کر اور اپنے پسندیدہ ترین راستہ پر چلا اور اپنی نعمتوں کی طلب پر اسے تیار کر۔ (11) اور پرہیز گاری کو میرا توشہ، اپنی رحمت کی جانب میرا سفر، اپنی خوشنودی میں میرا گزر اور اپنی جنت میں میری منزل قرار دے اور مجھے ایسی قوت عطا فرما جس سے تیری رضا مندیوں کا بوجھ اٹھا لوں ۔ اور میرے گریز کو اپنی جانب اور میری خواہش کو اپنے ہاں کی نعمتوں کی طرف قرار دے اور برے لوگوں سے میرے دل کو متوحش اور اپنے اور اپنے دوستوں اور فرمانبرداروں سے مانوس کر دے۔ (12) اور کسی بدکار اور کافر کا مجھ پر احسان نہ ہو۔ نہ اس کی نگاہ کرم مجھ پر ہو اور نہ اس کی مجھے کوئی احتیاج ہو بلکہ میرے دلی سکون، قلبی لگاؤ، اور میری بے نیازی و کار گزاری کو اپنے اور اپنے برگزیدہ بندوں سے وابستہ کر۔ (13) اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور مجھے ان کا ہم نشین و مددگار قرار دے اور اپنے شوق و وارفتگی اور ان اعمال کے ذریعہ جنہیں تو پسند کرتا اور جن سے خوش ہوتا ہے مجھ پر احسان فرما۔ اس لئے کہ تو ہرچیز پر قادر ہے اور یہ کام تیرے لیے آسان ہے۔ |
حوالہ جات
- ↑ ممدوحی کرمانشاہی، شہود و شناخت، 1388ش، ج2، ص289۔
- ↑ انصاریان، دیار عاشقان، 1373ش، ج6 ص359-383؛ ممدوحی، کتاب شہود و شناخت، 1388ش، ج2، ص289-323۔
- ↑ انصاریان، دیار عاشقان، 1373ش، ج6 ص359-383
- ↑ ممدوحی، کتاب شہود و شناخت، 1388ش، ج2، ص289-323۔
- ↑ فہری، شرح و تفسیر صحیفہ سجادیہ، 1388ش، ج2، ص335-353
- ↑ مدنی شیرازی، ریاض السالکین، 1435ھ، ج2، ص325-400.
- ↑ مغنیہ، فی ظلال الصحیفہ، 1428ھ، ص141-153.
- ↑ دارابی، ریاض العارفین، 1379ش، ص127-132.
- ↑ فضل الله، آفاق الروح، 1420ھ، ج1، ص199-259.
- ↑ فیض کاشانی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، 1407ھ، ص33-34.
- ↑ جزایری، شرح الصحیفه السجادیه، ۱۴۰۲ق، ص۹۰-۹۳.
مآخذ
- انصاریان، حسین، دیار عاشقان: تفسیر جامع صحیفہ سجادیہ، تہران، پیام آزادی، 1372ہجری شمسی۔
- جزایری، عزالدین، شرح الصحیفۃ السجادیۃ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1402ھ۔
- دارابی، محمد بن محمد، ریاض العارفین فی شرح الصحیفہ السجادیہ، تحقیق حسین درگاہی، تہران، نشر اسوہ، 1379ہجری شمسی
- فضلاللہ، سید محمد حسین، آفاق الروح، بیروت، دارالمالک، 1420ھ۔
- فہری، سید احمد، شرح و ترجمہ صحیفہ سجادیہ، تہران، اسوہ، 1388ہجری شمسی۔
- فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، تہران، مؤسسہ البحوث و التحقیقات الثقافیہ، 1407ھ۔
- مدنی شیرازی، سید علی خان، ریاض السالکین فی شرح صحیفۃ سیدالساجدین، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، 1435ھ۔
- مغنیہ، محمد جواد، فی ظلال الصحیفہ السجادیہ، قم، دار الکتاب الاسلامی، 1428ھ۔
- ممدوحی کرمانشاہی، حسن، شہود و شناخت، ترجمہ و شرح صحیفہ سجادیہ، مقدمہ آیت اللہ جوادی آملی، قم، بوستان کتاب، 1388ہجری شمسی۔
بیرونی روابط
- اکیسویں دعا کا متن اور آڈیو سائٹ عرفان
- دعائے صحیفہ سجادیہ کا اردو ترجمہ سائٹ مرکز افکار اسلامی