صحیفہ سجادیہ کی انچاسویں دعا
کوائف | |
---|---|
موضوع: | دشمنوں کے مکر و فریب سے محفوظ رہنے کی دعا |
مأثور/غیرمأثور: | مأثور |
صادرہ از: | امام سجاد ؑ |
راوی: | متوکل بن ہارون |
مشہور دعائیں اور زیارات | |
دعائے توسل • دعائے کمیل • دعائے ندبہ • دعائے سمات • دعائے فرج • دعائے عہد • دعائے ابوحمزہ ثمالی • زیارت عاشورا • زیارت جامعہ کبیرہ • زیارت وارث • زیارت امیناللہ • زیارت اربعین |
صحیفہ سجادیہ کی انچاسویں دعا امام سجاد ؑ کی ماثورہ دعاوں میں سے ایک ہے جسے آپ دشمنوں کے مکر و فریب کو دفع کرنے کے لئے پڑھتے تھے۔ اس دعا میں ذات خداوندی کو انسان کے لئے دشمنوں اور شیطان کے مقابلے میں حقیقی پناہگاہ کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ اسی طرح امام سجاد ؑ نے فرمایا ہے کہ ناگوار اور تلخ حادثات کا برطرف ہونا خدا کے ہاتھ میں ہے۔
صحیفہ سجادیہ کی انچاسویں دعا کی مختلف شرحیں ہیں، صحیفہ سجادیہ کی شرحوں میں شہود و شناخت فارسی زبان میں شرح ہے جو حسن ممدوحی کرمانشاہی کی تالیف ہے اور عربی زبان میں کتاب ریاض السالکین فی شرح صحیفہ سید الساجدین ہے جو سید علی خان مدنی کی تالیف ہے۔
دعا و مناجات |
تعلیمات
صحیفہ سجادیہ کی انچاسویں دعا کو امام سجاد ؑ دشمنوں کے مکر و فریب سے محفوظ رہنے کے لئے پڑھتے تھے۔ [1]
اس دعا کے مندرجہ ذیل پیغامات ہیں:
- خدا کی حمد و ثنا بندوں کی خطاووں اور عیوب سے پردہ پوشی اور ان کی بخشش کے لئے ہے
- گناہ تباہی اور نابودی کا دروازہ ہے
- خدا انسان کے لئے حقیقی پناہگاہ ہے
- عذاب الہی سے بچنے کا واحد ذریعہ توحید ہے
- صالح بندوں پر خدا کی خاص عنایت ہے
- مایوسی اور نا امیدی کا خاتمہ صرف اسلام کی تعلیمات کے سائے میں ممکن ہے
- خدا ناگہانی حادثات کو دور کرنے والا ہے
- شمشیربہ کف دشمنوں کے شر سے خدا کی پناہ
- دشمنوں کی دشمنی سے خد آگاہ ہے
- خدا مومنوں کے مدد طلب کرنے سے پہلے ہی ان کی مدد کرتا ہے
- بعض دشمنوں کی ریاکاری اور چاپلوسی سے خدا کی پناہ چاہنا
- دشمنوں کا اسی جال میں پھنس جانا جس کو وہ مومنین کے لئے آمادہ کرتے ہیں
- حاسدین مؤمنین سے دشمنی کی وجہ سے غم و اندوہ میں گرفتار ہو جاتے ہیں
- انسان خدا کی پناہ میں جانے کے بعد ہرطرح کے ظلم و ستم اور ڈر سے محفوظ ہو جاتا ہے
- خدا سے حسن ظن فقر و فاقہ سے نجات کی ضمانت ہے
- خدا کے بے پناہ لطف و کرم کے باوجود بھی بندے نافرمان ہیں
- اس بات پر خدا کا شکرکہ وہ بندوں کے عذاب میں جلدی نہیں کرتا
- اپنی غلطی کا اعتراف خدا کی عبادت میں با ادب ہونے کی ایک مثال ہے
- خودآگاہی ہلاکت اور تباہی سے بچنے کا ذریعہ ہے
- مایوسی بحران کا سبب ہے
- دشمن کو پہچاننے کی ضرورت
- نعمتوں کی کثرت اور خدا کا شکر کرنے میں کوتاہی کا اعتراف
- مقام حضرت محمد ؐ اور ولایت علی علیہ السلام کے صدقے میں قرب خدا کا حصول
- خدا کی خشنودی حاصل کرنے کے ذرائع کی درخواست۔[2]
شرحیں
صحیفہ سجادیہ کی اس انچاسویں دعا کی بھی مختلف شرحیں موجود ہیں۔ صحیفہ سجادیہ کی شرحوں میں سے کتاب شہود و شناخت، محمد حسن ممدوحی کرمانشاہی کی تالیف[3] اور شرح و ترجمہ صحیفہ سجادیہ، سید احمد فہری کی تالیف[4] یہ تمام شرحیں فارسی زبان میں ہیں۔
اسی طرح صحیفہ سجادیہ کی اس انچاسویں دعا کی بعض شرحیں عربی زبان میں ہیں: جیسے کتاب ریاض السالکین سید علی خان مدنی کی تالیف،[5] فی ظلال الصحیفہ السجادیہ محمد جواد مغنیہ کی تالیف،[6] ریاض العارفین تألیف محمد بن محمد دارابی[7] اور آفاق الروح تالیف سید محمد حسین فضل اللہ[8] اس دعا کے الفاظ کی لغوی شرحیں مثلا تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ تالیف فیض کاشانی[9] اور شرح الصحیفہ السجادیہ تالیف عزالدین جزائری[10] بھی موجود ہیں۔
متن اور ترجمہ
صحیفہ سجادیہ کی انچاسویں دعا
متن | ترجمہ: (مفتی جعفر حسین) |
---|---|
(۱) إِلَہِي ہَدَيْتَنِي فَلَہَوْتُ، وَ وَعَظْتَ فَقَسَوْتُ، وَ أَبْلَيْتَ الْجَمِيلَ فَعَصَيْتُ، ثُمَّ عَرَفْتُ مَا أَصْدَرْتَ إِذْ عَرَّفْتَنِيہِ، فَاسْتَغْفَرْتُ فَأَقَلْتَ، فَعُدْتُ فَسَتَرْتَ، فَلَكَ- إِلَہِي- الْحَمْدُ. (۲) تَقَحَّمْتُ أَوْدِيَةَ الْہَلَاكِ، وَ حَلَلْتُ شِعَابَ تَلَفٍ، تَعَرَّضْتُ فِيہَا لِسَطَوَاتِكَ وَ بِحُلُولِہَا عُقُوبَاتِكَ. (۳) وَ وَسِيلَتِي إِلَيْكَ التَّوْحِيدُ، وَ ذَرِيعَتِي أَنِّي لَمْ أُشْرِكْ بِكَ شَيْئاً، وَ لَمْ أَتَّخِذْ مَعَكَ إِلَہاً، وَ قَدْ فَرَرْتُ إِلَيْكَ بِنَفْسِي، وَ إِلَيْكَ مَفَرُّ الْمُسيءِ، وَ مَفْزَعُ الْمُضَيِّعِ لِحَظِّ نَفْسِہِ الْمُلْتَجِئِ. (۴) فَكَمْ مِنْ عَدُوٍّ انْتَضَى عَلَيَّ سَيْفَ عَدَاوَتِہِ، وَ شَحَذَ لِي ظُبَةَ مُدْيَتِہِ، وَ أَرْہَفَ لِي شَبَا حَدِّہِ، وَ دَافَ لِي قَوَاتِلَ سُمُومِہِ، وَ سَدَّدَ نَحْوِي صَوَائِبَ سِہَامِہِ، وَ لَمْ تَنَمْ عَنِّي عَيْنُ حِرَاسَتِہِ، وَ أَضْمَرَ أَنْ يَسُومَنِي الْمَكْرُوہَ، وَ يُجَرِّعَنِي زُعَاقَ مَرَارَتِہِ. (۵) فَنَظَرْتَ- يَا إِلَہِي- إِلَى ضَعْفِي عَنِ احْتِمَالِ الْفَوَادِحِ، وَ عَجْزِي عَنِ الِانْتِصَارِ مِمَّنْ قَصَدَنِي بِمُحَارَبَتِہِ، وَ وَحْدَتِي فِي كَثِيرِ عَدَدِ مَنْ نَاوَانِي، وَ أَرْصَدَ لِي بِالْبَلَاءِ فِيمَا لَمْ أُعْمِلْ فِيہِ فِكْرِي. (۶) فَابْتَدَأْتَنِي بِنَصْرِكَ، وَ شَدَدْتَ أَزْرِي بِقُوَّتِكَ، ثُمَّ فَلَلْتَ لِي حَدَّہُ، وَ صَيَّرْتَہُ مِنْ بَعْدِ جَمْعٍ عَدِيدٍ وَحْدَہُ، وَ أَعْلَيْتَ كَعْبِي عَلَيْہِ، وَ جَعَلْتَ مَا سَدَّدَہُ مَرْدُوداً عَلَيْہِ، فَرَدَدْتَہُ لَمْ يَشْفِ غَيْظَہُ، وَ لَمْ يَسْكُنْ غَلِيلُہُ، قَدْ عَضَّ عَلَى شَوَاہُ وَ أَدْبَرَ مُوَلِّياً قَدْ أَخْلَفَتْ سَرَايَاہُ. (۷) وَ كَمْ مِنْ بَاغٍ بَغَانِي بِمَكَايِدِہِ، وَ نَصَبَ لِي شَرَكَ مَصَايِدِہِ، وَ وَكَّلَ بِي تَفَقُّدَ رِعَايَتِہِ، وَ أَضْبَأَ إِلَيَّ إِضْبَاءَ السَّبُعِ لِطَرِيدَتِہِ انْتِظَاراً لِانْتِہَازِ الْفُرْصَةِ لِفَرِيسَتِہِ، وَ ہُوَ يُظْہِرُ لِي بَشَاشَةَ الْمَلَقِ، وَ يَنْظُرُنِي عَلَى شِدَّةِ الْحَنَھ۔ (۸) فَلَمَّا رَأَيْتَ- يَا إِلَہِي تَبَاركْتَ وَ تَعَالَيْتَ- دَغَلَ سَرِيرَتِہِ، وَ قُبْحَ مَا انْطَوَى عَلَيہِ، أَرْكَسْتَہُ لِأُمِّ رَأْسِہِ فِي زُبْيَتِہِ، وَ رَدَدْتَہُ فِي مَہْوَى حُفْرَتِہِ، فَانْقَمَعَ بَعْدَ اسْتِطَالَتِہِ ذَلِيلًا فِي رِبَقِ حِبَالَتِہِ الَّتِي كَانَ يُقَدِّرُ أَنْ يَرَانِي فِيہَا، وَ قَدْ كَادَ أَنْ يَحُلَّ بِي لَوْ لَا رَحْمَتُكَ مَا حَلَّ بِسَاحَتِہِ. (۹) وَ كَمْ مِنْ حَاسِدٍ قَدْ شَرِقَ بِي بِغُصَّتِہِ، وَ شَجِيَ مِنِّي بِغَيْظِہِ، وَ سَلَقَنِي بِحَدِّ لِسَانِہِ، وَ وَحَرَنِي بِقَرْفِ عُيُوبِہِ، وَ جَعَلَ عِرْضِي غَرَضاً لِمَرَامِيہِ، وَ قَلَّدَنِي خِلَالًا لَمْ تَزَلْ فِيہِ، وَ وَحَرَنِي بِكَيْدِہِ، وَ قَصَدَنِي بِمَكِيدَتِہِ. (۱۰) فَنَادَيْتُكَ- يَا إِلَہِي- مُسْتَغِيثاً بِكَ، وَاثِقاً بِسُرْعَةِ إِجَابَتِكَ، عَالِماً أَنَّہُ لَا يُضْطَہَدُ مَنْ أَوَى إِلَى ظِلِّ كَنَفِكَ، وَ لَا يَفْزَعُ مَنْ لَجَأَ إِلَى مَعْقِلِ انْتِصَارِكَ، فَحَصَّنْتَنِي مِنْ بَأْسِہِ بِقُدْرَتِكَ. (۱۱) وَ كَمْ مِنْ سَحَائِبِ مَكْرُوہٍ جَلَّيْتَہَا عَنِّي، وَ سَحَائِبِ نِعَمٍ أَمْطَرْتَہَا عَلَيَّ، وَ جَدَاوِلِ رَحْمَةٍ نَشَرْتَہَا، وَ عَافِيَةٍ أَلْبَسْتَہَا، وَ أَعْيُنِ أَحْدَاثٍ طَمَسْتَہَا، وَ غَوَاشِي كُرُبَاتٍ كَشَفْتَہَا. (۱۲) وَ كَمْ مِنْ ظَنٍّ حَسَنٍ حَقَّقْتَ، وَ عَدَمٍ جَبَرْتَ، وَ صَرْعَةٍ أَنْعَشْتَ، وَ مَسْكَنَةٍ حَوَّلْتَ. (۱۳) كُلُّ ذَلِكَ إِنْعَاماً وَ تَطَوُّلًا مِنْكَ، وَ فِي جَمِيعِہِ انْہِمَاكاً مِنِّي عَلَى مَعَاصِيكَ، لَمْ تَمْنَعْكَ إِسَاءَتِي عَنْ إِتْمَامِ إِحْسَانِكَ، وَ لَا حَجَرَنِي ذَلِكَ عَنِ ارْتِكَابِ مَسَاخِطِكَ، لَا تُسْأَلُ عَمَّا تَفْعَلُ. (۱۴) وَ لَقَدْ سُئِلْتَ فَأَعْطَيْتَ، وَ لَمْ تُسْأَلْ فَابْتَدَأْتَ، وَ اسْتُمِيحَ فَضْلُكَ فَمَا أَكْدَيْتَ، أَبَيْتَ- يَا مَوْلَايَ- إِلَّا إِحْسَاناً وَ امْتِنَاناً وَ تَطَوُّلًا وَ إِنْعَاماً، وَ أَبَيْتُ إِلَّا تَقَحُّماً لِحُرُمَاتِكَ، وَ تَعَدِّياً لِحُدُودِكَ، وَ غَفْلَةً عَنْ وَعِيدِكَ، فَلَكَ الْحَمْدُ- إِلَہِي- مِنْ مُقْتَدِرٍ لَا يُغْلَبُ، وَ ذِي أَنَاةٍ لَا يَعْجَلُ. (۱۵) ہَذَا مَقَامُ مَنِ اعْتَرَفَ بِسُبُوغِ النِّعَمِ، وَ قَابَلَہَا بِالتَّقْصِيرِ، وَ شَہِدَ عَلَى نَفْسِہِ بِالتَّضْيِيعِ. (۱۶) اللَّہُمَّ فَإِنِّي أَتَقَرَّبُ إِلَيْكَ بِالْمُحَمَّدِيَّةِ الرَّفِيعَةِ، وَ الْعَلَوِيَّةِ الْبَيْضَاءِ، وَ أَتَوَجَّہُ إِلَيْكَ بِہِمَا أَنْ تُعِيذَنِي مِنْ شَرِّ كَذَا وَ كَذَا، فَإِنَّ ذَلِكَ لَا يَضِيقُ عَلَيْكَ فِي وُجْدِكَ، وَ لَا يَتَكَأَّدُكَ فِي قُدْرَتِكَ وَ أَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (۱۷) فَہَبْ لِي- يَا إِلَہِي- مِنْ رَحْمَتِكَ وَ دَوَامِ تَوْفِيقِكَ مَا أَتَّخِذُہُ سُلَّماً أَعْرُجُ بِہِ إِلَى رِضْوَانِكَ، وَ آمَنُ بِہِ مِنْ عِقَابِكَ، يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ. |
(۱) اے میرے معبود! تو نے میری رہنمائی کی مگر میں غافل رہا تو نے پند و نصیحت کی مگر میں سخت دلی کے باعث متاثر نہ ہوا۔ تو نے مجھے عمدہ نعمتیں بخشیں، مگر میں نے نافرمانی کی۔ پھر یہ کہ جن گناہوں سے تو نے میرا رخ موڑا جب کہ تو نے مجھے اس کی معرفت عطا کی تو میں نے (گناہوں کی برائی کو) پہچان کر توبہ واستغفار کی جس پر تو نے مجھے معاف کر دیا۔ اور پھر گناہوں کا مرتکب ہوا تو تو نے پردہ پوشی سے کام لیا۔ اے میرے معبود! تیرے ہی لیے حمد و ثناء ہے۔ (۲) میں ہلاکت کی وادیوں میں پھاندا اور تباہی و بربادی کی گھاٹیوں میں اترا۔ ان ہلاک خیز گھاٹیوں میں تیری قہرمانی سخت گیریوں اور ان میں در آنے سے تیری عقوبتوں کا سامنا کیا۔ (۳) تیری بارگاہ میں میرا وسیلہ تیری وحدت و یکتائی کا اقرار ہے اور میرا ذریعہ صرف یہ ہے کہ میں نے کسی چیز کو تیرا شریک نہیں جانا اور تیرے ساتھ کسی کو معبود نہیں ٹھہرایا۔ اور میں اپنی جان کو لئے تیری رحمت و مغفرت کی جانب گریزاں ہوں اور ایک گنہگار تیری ہی طرف بھاگ کر آتا ہے اور ایک التجاء کرنے والا جو اپنے حظ و نصیب کو ضائع کر چکا ہو تیرے ہی دامن میں پناہ لیتا ہے۔ (۴) کتنے ہی ایسے دشمن تھے جنہوں نے شمشیر عداوت کو مجھ پر بے نیام کیا اور میرے لیے اپنی چھری کی دھار کو باریک اور اپنی تندی و سختی کی باڑ کو تیز کیا اور پانی میں میرے لئے مہلک زہروں کی آمیزش کی اور کمانوں میں تیروں کو جوڑ کر مجھے نشانہ کی زد پر رکھ لیا۔ اور ان کی تعاقب کرنے والی نگاہیں مجھ سے ذرا غافل نہ ہوئیں اور دل میں میری ایذا رسانی کے منصوبے باندھتے اور تلخ جرعوں کی تلخی سے مجھے پیہم تلخ کام بناتے رہے۔ (۵) تو اے میرے معبود! ان رنج و آلام کی برداشت سے میری کمزوری اور مجھ پر آمادہ پیکار ہونے والوں کے مقابلہ میں انتقام سے میری عاجزی اور کثیر التعداد دشمنوں اور ایذا رسانی کے لیے گھات لگانے والوں کے مقابلہ میں میری تنہائی تیری نظر میں تھی جس کی طرف سے میں غافل اور بے فکر تھا۔ (۶) کہ تو نے میری مدد میں پہل اور اپنی قوت اورطاقت سے میری کمر مضبوط کی۔ پھر یہ کہ اس کی تیزی کو توڑ دیا اور اس کے کثیر ساتھیوں (کو منتشر کرنے) کے بعد اسے یکہ و تنہا کر دیا اور مجھے اس پر غلبہ و سر بلندی عطا کی اور جو تیر اس نے اپنی کمان میں جوڑے تھے وہ اسی کی طرف پلٹا دیئے۔ چنانچہ اس حالت میں تو نے اسے پلٹا دیا کہ نہ تو وہ اپنا غصہ ٹھنڈا کر سکا، اور نہ اس کے دل کی تپش فرو ہو سکی، اس نے اپنی بوٹیاں کاٹیں اور پیٹھ پھرا کر چلا گیا اوراس کے لشکر والوں نے بھی اسے دغا دیا۔ (۷) اور کتنے ہی ایسے ستمگر تھے جنہوں نے اپنے مکر و فریب سے مجھ پر ظلم و تعدی کی اور اپنے شکار کے جال میرے لیے بچھائے اور اپنی نگاہ جستجو کا مجھ پر پہرا لگا دیا۔ اور اس طرح گھاٹ لگا کر بیٹھ گئے جس طرح درندہ اپنے شکار کے انتظار میں موقع کی تاک میں گھاٹ لگا کر بیٹھتا ہے درآنحالیکہ وہ میرے سامنے خوشامدانہ طور پر خندہ پیشانی سے پیش آتے اور (درپردہ) انتہائی کینہ توز نظروں سے مجھے دیکھتے۔ (۸) تو جب اے خدائے بزرگ و برتر ان کی بد باطنی و بد سرشتی کو دیکھا تو انہیں سر کے بل انہی کے گڑھے میں الٹ دیا اور انہیں انہی کے غار کے گہراؤ میں پھینک دیا اور جس جال میں مجھے گرفتار دیکھنا چاہتے تھے خود ہی غرور و سر بلندی کا مظاہرہ کرنے کے بعد ذلیل ہو کر اس کے پھندوں میں جا پڑے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اگر تیری رحمت شریک حال نہ ہوتی تو کیا بعید تھا کہ جو بلا و مصیبت ان پر ٹوٹ پڑی ہے وہ مجھ پر ٹوٹ پڑتی۔ (۹) اور کتنے ہی ایسے حاسد تھے جنہیں میری وجہ سے غم وغصہ کے اچھو اور غیظ و غضب کے گلو گیر پھندے لگے اور اپنی تیز زبانی سے مجھے اذیت دیتے رہے اور اپنے عیوب کے ساتھ مجھے متہم کرکے طیش میں دلاتے رہے اور میری آبرو کو اپنے تیروں کا نشانہ بنایا اور جن بری عادتوں میں وہ خود ہمیشہ مبتلا رہے وہ میرے سر منڈھ دیں اور اپنی فریب کاریوں سے مجھے مشتعل کرتے اور اپنی دغا بازیوں کے ساتھ میری طرف پر تولتے رہے۔ (۱۰) تو میں نے اے میرے اللہ تجھ سے فریاد رسی چاہتے ہوئے اورتیری جلد حاجت روائی پر بھروسا کرتے ہوئے اور تیری جلد حاجت روائی پر بھروسا کرتے ہوئے تجھے پکارا درآنحالیکہ یہ جانتا تھا کہ جو تیرے سایہ حمایت میں پناہ لے گا وہ شکست خوردہ نہیں ہوگا اور جو تیرے انتقام کی پناہ گاہ محکم میں پناہ گزیں ہوگا وہ ہراساں نہیں ہوگا۔ چنانچہ تو نے اپنی قدرت سے ان کی شدت و شرانگیزی سے مجھے محفوظ کر دیا۔ (۱۱) اور کتنے ہی مصیبتوں کے ابر (جو میرے افق زندگی پر چھائے ہوئے) تھے تو نے چھانٹ دیئے اور کتنی ہی رحمت کی نہریں بہا دیں اور کتنے ہی صحت و عافیت کے جامے پہنا دیے اور کتنی ہی آلام وحودث کی آنکھیں (جو میری طرف نگران تھیں) تو نے بے نور کر دیں اور کتنے ہی غموں کے تاریک پردے (میرے دل پر سے) اٹھا دیئے۔ (۱۲) اور کتنے ہی اچھے گمانوں کو تو نے سچ کر دیا اور کتنی ہی تہی دستیوں کا تو نے چارہ کیا اور کتنی ہی ٹھوکروں کو تو نے سنبھالا اور کتنی ہی ناداریوں کو تو نے (ثروت سے) بدل دیا۔ (۱۳) (بار الہا!) یہ سب تیری طرف سے انعام و احسان ہے اور میں ان تمام واقعات کے باوجود تیری معصیتوں میں ہمہ تن منہمک رہا۔ (لیکن) میری بد اعمالیوں نے تجھے اپنے احسانات کی تکمیل سے روکا نہیں اور نہ تیرا فضل و احسان مجھے ان کاموں سے جو تیری ناراضگی کا باعث ہیں باز رکھ سکا اور جو کچھ تو کرے اس کی بابت تجھ سے پوچھ گچھ نہیں ہو سکتی۔ (۱۴) تیری ذات کی قسم! جب بھی تجھ سے مانگا گیا تو نے عطا کیا اور جب نہ مانگا گیا تو تو نے از خود دیا۔ اور جب تیرے فضل و کرم کے لیے جھولی پھیلائی گئی تو تو نے بخل سے کام نہیں لیا۔اے میرے مولا و آقا! تو نے کبھی احسان و بخشش اور تفضل و انعام سے دریغ نہیں کیا۔ اور میں تیرے محرمات میں پھاندتا، تیرے حدود واحکام سے متجاوز ہوتا اور تیری تہدید و سرزنش سے ہمیشہ غفلت کرتا رہا۔ اے میرے معبود! تیرے ہی لئے حمد ستائش ہے جو ایسا صاحب اقتدار ہے جو مغلوب نہیں ہو سکتا۔ اور ایسا بردبار ہے جو جلدی نہیں کرتا۔ (۱۵) یہ اس شخص کا موقف ہے جس نے تیری نعمتوں کی فراوانی کا اعتراف کیا ہے اور ان نعمتوں کے مقابلہ میں کوتاہی کی ہے اور اپنے خلاف اپنی زیاں کاری کی گواہی دی ہے۔ (۱۶) اے میرے معبود! میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی منزلت بلند پایہ اور علی علیہ السلام کے مرتبۂ روشن و درخشاں کے واسط سے تجھ سے تقرب کا خواستگار ہوں اور ان دونوں کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوں تا کہ مجھے ان چیزوں کی برائی سے پناہ دے جن سے پناہ طلب کی جاتی ہے اس لیے کہ یہ تیری تونگری و وسعت کے مقابلہ میں دشوار اور تیری قدرت کے آگے کوئی مشکل کام نہیں ہے اور تو ہر چیز پر قادر ہے۔ (۱۷) لہذا تو اپنی رحمت اور دائمی توفیق سے مجھے بہرہ مند فرما کہ جسے زینہ قرار دے کر تیری رضا مندی کی سطح پر بلند ہوسکوں اور اس کے ذریعہ تیرے عذاب سے محفوظ رہوں۔ اے تمام رحم کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر رحم کرنے والے! |
حوالہ جات
- ↑ ممدوحی کرمانشاہی، شہود و شناخت، ۱۳۸۸ہجری شمسی، ج۴، ص۲۷۵.
- ↑ ممدوحی، شہود و شناخت، ۱۳۸۸ہجری شمسی، ج۴، ص۲۷۵-۲۹۲؛ شرح فرازہای دعای چہل و نہم از سایت عرفان.
- ↑ ممدوحی، کتاب شہود و شناخت، ۱۳۸۸ہجری شمسی، ج۴، ص۲۶۹-۲۹۲.
- ↑ فہری، شرح و تفسیر صحیفہ سجادیہ، ۱۳۸۸ہجری شمسی، ج۳، ص۵۲۵-۵۲۹.
- ↑ مدنی شیرازی، ریاض السالکین، ۱۴۳۵ق، ج۷، ص۲۴۳-۲۹۶.
- ↑ مغنیہ، فی ظلال الصحیفہ، ۱۴۲۸ھ ، ص۶۲۵-۶۳۵.
- ↑ دارابی، ریاض العارفین، ۱۳۷۹ہجری شمسی، ص۶۸۱-۶۹۸.
- ↑ فضل اللہ، آفاق الروح، ۱۴۲۰ھ ، ج۲، ص۵۷۳-۵۹۱.
- ↑ فیض کاشانی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، ۱۴۰۷ھ ، ص۹۹-۱۰۱.
- ↑ جزایری، شرح الصحیفہ السجادیہ، ۱۴۰۲، ص۲۷۸-۲۸۴.
مآخذ
- انصاریان، حسین، دیار عاشقان: تفسیر جامع صحیفہ سجادیہ، تہران، پیام آزادی، ۱۳۷۲ہجری شمسی۔
- جزایری، عزالدین، شرح الصحیفۃ السجادیۃ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۲ھ ۔
- دارابی، محمد بن محمد، ریاض العارفین فی شرح الصحیفۃ السجادیۃ، تحقیق حسین درگاہی، تہران، نشر اسوہ، ۱۳۷۹ہجری شمسی۔
- فضل اللہ، سید محمد حسین، آفاق الروح، بیروت، دارالمالک، ۱۴۲۰ھ ۔
- فہری، سید احمد، شرح و ترجمہ صحیفہ سجادیہ، تہران، اسوہ، ۱۳۸۸ہجری شمسی۔
- فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، تعلیقات علی الصحیفۃ السجادیۃ، تہران، مؤسسۃ البحوث و التحقیقات الثقافیہ، ۱۴۰۷ھ ۔
- مدنی شیرازی، سید علی خان، ریاض السالکین فی شرح صحیفۃ سید الساجدین، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ۱۴۳۵ھ ۔
- مغنیہ، محمد جواد، فی ظلال الصحیفۃ السجادیۃ، قم، دار الکتاب الاسلامی، ۱۴۲۸ھ ۔
- ممدوحی کرمانشاہی، حسن، شہود و شناخت، ترجمہ و شرح صحیفہ سجادیہ، مقدمہ آیت اللہ جوادی آملی، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۸ہجری شمسی۔