صحیفہ سجادیہ کی اٹھائیسویں دعا
کوائف | |
---|---|
موضوع: | خدا سے پناہ مانگنے کے وقت کی دعا |
مأثور/غیرمأثور: | مأثور |
صادرہ از: | امام سجادؑ |
راوی: | متوکل بن ہارون |
شیعہ منابع: | صحیفہ سجادیہ |
مشہور دعائیں اور زیارات | |
دعائے توسل • دعائے کمیل • دعائے ندبہ • دعائے سمات • دعائے فرج • دعائے عہد • دعائے ابوحمزہ ثمالی • زیارت عاشورا • زیارت جامعہ کبیرہ • زیارت وارث • زیارت امیناللہ • زیارت اربعین |
صحیفہ سجادیہ کی اٹھائیسویں دعا امام سجادؑ کی ماثورہ دعاوں میں سے ایک ہے جو خدا سے راز و نیاز اور اس سے پناہ مانگنے کے وقت کی ہے۔ حضرت سجادؑ نے اس دعاء میں غیر خدا سے حاجت طلبی کو عقل کی گمراہی کا سبب جانا ہے اور ساتھ ہی ساتھ آپ دوسروں کی غلطیوں سے عبرت پکڑنے پر تاکید بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح سے آپ اس دعاء میں خداوند متعال کی خصوصیات مثلا وحدانیت، غیر خدا سے دل نہ لگانے کو خدا تک پہچنے کے لئے لازم جانتے ہیں اور خداوند عالم کو ہی حاجت بر لانے والا بتاتے ہیں۔
صحیفہ سجادیہ کی دوسری دعائوں کی طرح اس اٹھائیسویں دعاء کی بھی صحیفہ سجادیہ کی شرحوں میں شرح ہوئی ہے مثلا دیار عاشقان حسین انصاریان کی شرح فارسی زبان میں اور شہود و شناخت حسن ممدوحی کرمانشاہی کی شرح یہ بھی فارسی زبان میں ہے اور ریاض السالکین سید علی خان مدنی کی شرح عربی زبان میں موجود ہے۔
دعا و مناجات |
تعلیمات
دعاء صحیفہ سجادیہ کی اس اٹھائیسویں دعاء کا اصل موضوع خدا سے راز و نیاز کے وقت دعا کرنا اور اس سے پناہ چاہنا ہے۔[1] اس دعا میں خدا سے ارتباط کا ایک خاضعانہ انداز ہے جس سے بڑھ کر کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتا اسی طرح سے یہ کہا گیا کہ ہے یہ دعا امام سید سجاد علیہ السلام کی خدا اور ہستی کی عمیق ترین معرفت پہ دلیل ہے اور وہ چیزیں جو معرفت الہی کے باب میں دعاء کرنے والے کے لئے ضروری ہیں یہ دعاء غیر مستقیم طور پر اس سے دعاء کرنے والے کو مزین کرتی ہےاور سکھاتی ہے۔[2] اس دعاء کے پیغامات اور نصیحتیں مندرجہ ذیل ہیں:
- خدا تک پہچنے کے لئے غیر خدا سے کٹ جانا۔
- اپنے پورے وجود کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں حاضری۔
- وہ کہ جو خود کسی دوسرے کا محتاج ہے اس سے قطع امید کرنا۔
- غیر خدا سے احسان کی امید نہ رکھنا۔
- کسی حاجت مند سے اپنی حاجت روائی کی امید عقل کی گمراہی کا سبب اور نظریہ کے ہلکہ پن کی دلیل ہے۔
- غیز خدا سے عزّت چاہنے والوں کا ذلیل و رسوا ہونا۔
- دوسروں کی غلطیوں سے عبرت لینا۔
- حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنے والا خدا ہے۔
- خدا کی بارگاہ کے علاوہ کہیں امید نہیں ہے۔
- خدا کے مخصوص صفات مثلا: وحدانیت، قدرت، بے نیازی اور برتری معرفت الہی تک پہچنے کا ذریعہ ہیں۔
- اس کی رحمت تمام موجودات کو شامل حال ہے۔
- خدا تمام مثالوں، مانند، اور تشبیہات سے بالا ہے۔[3]
شرحیں
صحیفہ سجادیہ کی اس اٹھائیسویں دعاء کی بھی مختلف زبانوں میں شرح لکھی گئی ہے صحیفہ سجادیہ کی شرحوں میں اس دعاء کی بھی شرح موجود ہے جن میں کتاب شہود و شناخت محمد حسن ممدوحی کرمانشاہی[4] اور شرح و ترجمہ صحیفہ سجادیہ مصنف سید احمد فہری[5] فارسی زبان میں موجود ہیں۔
اسی طرح صحیفہ سجادیہ کی اس اٹھائیسویں دعا کی شرح ریاض السالکین سید علی خان مدنی،[6] فی ظلال الصحیفہ السجادیہ، محمد جواد مغنیہ،[7] ریاض العارفین، محمد بن محمد دارابی کی تألیف [8] اور آفاق الروح، سید محمد حسین فضل اللہ کی تالیف[9] عربی زبان میں موجود ہیں۔ اس دعاء کے الفاظ کی لغوی شرحیں بھی موجود ہیں مثلا تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ جو فیض کاشانی [10] اور شرح الصحیفہ السجادیہ مولف عزالدین جزائری[11] کی کتابیں اس دعاء کے الفاظ کی لغوی شرح ہیں۔
متن اور ترجمہ
متن | ترجمہ: (مفتی جعفر حسین) |
---|---|
(۱) اللَّهُمَّ إِنِّی أَخْلَصْتُ بِانْقِطَاعِی إِلَیک (۲) وَ أَقْبَلْتُ بِکلِّی عَلَیک (۳) وَ صَرَفْتُ وَجْهِی عَمَّنْ یحْتَاجُ إِلَی رِفْدِک (۴) وَ قَلَبْتُ مَسْأَلَتِی عَمَّنْ لَمْ یسْتَغْنِ عَنْ فَضْلِک (۵) وَ رَأَیتُ أَنَّ طَلَبَ الْمُحْتَاجِ إِلَی الْمُحْتَاجِ سَفَهٌ مِنْ رَأْیهِ وَ ضَلَّةٌ مِنْ عَقْلِهِ. (۶) فَکمْ قَدْ رَأَیتُ- یا إِلَهِی- مِنْ أُنَاسٍ طَلَبُوا الْعِزَّ بِغَیرِک فَذَلُّوا، وَ رَامُوا الثَّرْوَةَ مِنْ سِوَاک فَافْتَقَرُوا، وَ حَاوَلُوا الارْتِفَاعَ فَاتَّضَعُوا، (۷) فَصَحَّ بِمُعَاینَةِ أَمْثَالِهِمْ حَازِمٌ وَفَّقَهُ اعْتِبَارُهُ، وَ أَرْشَدَهُ إِلَی طَرِیقِ صَوَابِهِ اخْتِیارُهُ. (۸) فَأَنْتَ یا مَوْلَای دُونَ کلِّ مَسْئُولٍ مَوْضِعُ مَسْأَلَتِی، وَ دُونَ کلِّ مَطْلُوبٍ إِلَیهِ وَلِی حَاجَتِی (۹) أَنْتَ الْمَخْصُوصُ قَبْلَ کلِّ مَدْعُوٍّ بِدَعْوَتِی، لَا یشْرَکک أَحَدٌ فِی رَجَائِی، وَ لَا یتَّفِقُ أَحَدٌ مَعَک فِی دُعَائِی، وَ لَا ینْظِمُهُ وَ إِیاک نِدَائِی (۱۰) لَک- یا إِلَهِی- وَحْدَانِیةُ الْعَدَدِ، وَ مَلَکةُ الْقُدْرَةِ الصَّمَدِ، وَ فَضِیلَةُ الْحَوْلِ وَ الْقُوَّةِ، وَ دَرَجَةُ الْعُلُوِّ وَ الرِّفْعَةِ. (۱۱) وَ مَنْ سِوَاک مَرْحُومٌ فِی عُمُرِهِ، مَغْلُوبٌ عَلَی أَمْرِهِ، مَقْهُورٌ عَلَی شَأْنِهِ، مُخْتَلِفُ الْحَالاتِ، مُتَنَقِّلٌ فِی الصِّفَاتِ (۱۲) فَتَعَالَیتَ عَنِ الْأَشْبَاهِ وَ الْأَضْدَادِ، وَ تَکبَّرْتَ عَنِ الْأَمْثَالِ وَ الْأَنْدَادِ، فَسُبْحَانَک لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ. |
(۱) اے اللہ ! میں پورے خلوص کے ساتھ دوسروں سے منہ موڑ کر تجھ سے لو لگاۓ ہوں (۲) اور ہمہ تن تیری طرف متوجّہ ہوں، (۳) اور اس شخص سے جو خود تیری عطا و بخشش کا محتاج ہے، منہ پھیر لیا ہے۔ (۴) اور اس شخص سے جو تیرے فضل و احسان سے بے نیاز نہیں ہے، سوال کا رخ موڑ لیا ہے۔ (۵) اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ محتاج کا محتاج سے مانگنا سراسر سمجھ بوجھ کی سبکی اور عقل کی گمراہی ہے۔ (۶) کیونکہ اے میرے اللہ ! میں نے بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو تجھے چھوڑ کر دوسروں کے ذریعہ عزت کے طلب گار ہوۓ تو وہ ذلیل و رسوا ہوۓ۔ اور دوسروں سے نعمت و دولت کے خواہشمند ہوۓ تو فقیر و نادار ہی رہے۔ اور بلندی کا قصد کیا تو پستی پر جا گرے۔ (۷) لہذا ان جیسوں کو دیکھنے سے ایک دور اندیش کی دور اندیشی بالکل برمحل ہے کہ عبرت کے نتیجہ میں اسے توفیق حاصل ہوئی اور اس کے (صحیح) انتخاب نے اسے سیدھا راستہ دکھایا۔ (۸) جب حقیقت یہی ہے تو پھر اے میرے مالک ! تو ہی میرے سوال کا مرجع ہے نہ وہ جس سے سوال کیا جاتا ہے۔ اور تو ہی میرا حاجت روا ہے نہ وہ جن سے حاجت طلب کی جاتی ہے (۹) اور ان تمام لوگوں سے پہلے جنہیں پکارا جاتا ہے تو میری دعا کے لۓ مخصوص ہے اور میری امید میں تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔ اور میری دعا میں تیرا کوئی ہم پایہ نہیں ہے ۔ اور میری آواز تیرے ساتھ کسی اور کو شریک نہیں کرتی۔ (۱۰) اے اللہ ! عدد کی یکتائی، قدرت کاملہ کی کار فرمائی اور کمال قوّت و توانائی اور مقام رفعت و بلندی تیرے لۓ ہے۔ (۱۱) اور تیرے علاوہ جو ہے وہ اپنی زندگی میں تیرے رحم و کرم کا محتاج، اپنے امور میں درماندہ اور اپنے مقام پر بے بس و لاچار ہے۔ جس کے حالات گوناگوں ہیں اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹتا رہتا ہے (۱۲) تو مانند و ہمسر سے بلند تر اور مثل و نظیر سے بالا تر ہے تو پاک ہے تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ |
حوالہ جات
- ↑ انصاریان، دیار عاشقان، ۱۳۷۳ ہجری شمسی،ج۷ ص۷۷ و ۸۱.
- ↑ ممدوحی کرمانشاہی، شہود و شناخت، ۱۳۸۸ ہجری شمسی،ج۲، ص۵۱۳.
- ↑ سایت عرفان؛ ممدوحی کرمانشاہی، شہود و شناخت، ۱۳۸۸ ہجری شمسی،ج۲، ص۵۱۳-۵۲۶.
- ↑ ممدوحی، کتاب شہود و شناخت، ۱۳۸۸ ہجری شمسی،ج۲، ص۵۱۳-۵۲۶.
- ↑ فہری، شرح و تفسیر صحیفہ سجادیہ، ۱۳۸۸ ہجری شمسی،ج۲، ص۴۷۷-۴۸۳.
- ↑ مدنی شیرازی، ریاض السالکین، ۱۴۳۵ھ، ج۴، ص۲۸۱-۳۱۰.
- ↑ مغنیہ، فی ظلال الصحیفہ، ۱۴۲۸ھ، ص۳۶۹-۳۷۲.
- ↑ دارابی، ریاض العارفین، ۱۳۷۹ ہجری شمسی،ص۳۷۳-۳۸۰.
- ↑ فضل اللہ، آفاق الروح، ۱۴۲۰ھ، ج۲، ص۷۹-۸۸.
- ↑ فیض کاشانی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، ۱۴۰۷ھ، ص۶۵.
- ↑ جزایری، شرح الصحیفہ السجادیہ، ۱۴۰۲، ص۱۵۶-۱۵۷.
مآخذ
- انصاریان، حسین، دیار عاشقان: تفسیر جامع صحیفہ سجادیہ، تہران، پیام آزادی، ۱۳۷۲ ہجری شمسی۔
- جزایری، عزالدین، شرح الصحیفة السجادیة، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۲ھ۔
- دارابی، محمد بن محمد، ریاض العارفین فی شرح الصحیفہ السجادیہ، تحقیق حسین درگاہی، تہران، نشر اسوہ، ۱۳۷۹ ہجری شمسی۔
- فضل اللہ، سید محمد حسین، آفاق الروح، بیروت، دارالمالک، ۱۴۲۰ھ۔
- فہری، سید احمد، شرح و ترجمہ صحیفہ سجادیہ، تہران، اسوہ، ۱۳۸۸ہجری شمسی۔
- فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، تہران، مؤسسہ البحوث و التحقیقات الثقافیہ، ۱۴۰۷ھ۔
- مدنی شیرازی، سید علی خان، ریاض السالکین فی شرح صحیفة سید الساجدین، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ۱۴۳۵ھ۔
- مغنیہ، محمد جواد، فی ظلال الصحیفہ السجادیہ، قم، دار الکتاب الاسلامی، ۱۴۲۸ھ۔
- ممدوحی کرمانشاہی، حسن، شہود و شناخت، ترجمہ و شرح صحیفہ سجادیہ، مقدمہ آیتاللہ جوادی آملی، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۸ ہجری شمسی۔