صحیفہ سجادیہ کی چھٹی دعا جو امام سجادؑ سے مأثور ہے اور ہر صبح و شب پڑھی جاتی ہے جس میں شب و روز کی خلقت اور انسان کی زندگی میں اس کے اثرات اور چوبیس گھنٹے میں جو مومنین کی ذمّہ داریاں ہیں اس کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اسی طرح سے اس دعا میں امام سجادؑ نے شب و روز کے ذریعہ بندگان الہی کا امتحان، قدرت الہی کے زیر سایہ اس کی مخلوقات کے آداب و حرکات، اعمال نیک کے انجام کے لئے دعا و شکرگزاری کی توفیق، حضرت محمدؐ کی نبوت کی گواہی اور استغفار کو بیان کیا ہے۔

صحیفۂ سجادیہ کی چھٹی دعا
کوائف
موضوع:دعائے روز و شب، خلقتِ روز و شب اور انسانی زندگی پر ان کے اثرات
مأثور/غیرمأثور:مأثور
صادرہ از:امام سجادعلیہ السلام
راوی:متوکل بن ہارون
شیعہ منابع:صحیفہ سجادیہ
مشہور دعائیں اور زیارات
دعائے توسلدعائے کمیلدعائے ندبہدعائے سماتدعائے فرجدعائے عہددعائے ابوحمزہ ثمالیزیارت عاشورازیارت جامعہ کبیرہزیارت وارثزیارت امین‌اللہزیارت اربعین

یہ چھٹی دعا جس کی متعدد شرحیں، مختلف زبانوں میں لکھی گئیں ہیں جیسے دیار عاشقان جو حسین انصاریان کی شرح فارسی زبان میں ہے اور اسی طرح ریاض السالکین جو سید علی خان مدنی کی عربی زبان میں شرح موجود ہے۔

تعلیمات

صحیفۂ سجادیہ کی چھٹی دعا کا موضوع کہ جسے ہر صبح و شب پڑھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ خدا وند عالم کی نعمتوں کا شمار کرنا جس میں شب و روز کی خلقت، ان کا نظم و ضبط اور انسانی زندگی میں ان کے فوائد، دن و رات میں مؤمن کے وظائف اور ذمہ داریاں، بارگاہ خداوندی میں شکرگزاری کی توفیق طلب کرنا اور محمدؐ و آل محمدؐ پر صلوات و سلام ہے۔[1] اس دعا کی تعلیمات مندرجہ ذیل ہیں:

  • قدرتِ الہی کے ذریعہ شب و روز کی خلقت اور ان کا نظم و ضبط۔
  • رات اور دن، بندوں کو رزق کی فراہمی اور ان کی نشوونما اور پرورش کا ذریعہ ہیں۔
  • رات امن و سکون کا ذریعہ ہے اور انسانی جوش و جذبے اور توانائی کی تجدید اور خوشی کے حصول کا ایک سبب ہے۔
  • دن، بندگان الہی کو بصیرت عطا کرتا ہے جس کے ذریعہ وہ فضل و احسان، رزق و روزی اور آخرت کے فوائد کو حاصل کرتے ہیں۔
  • رات دن کے ذریعہ بندوں کی آزمائش کرنا۔
  • وجود شب و روز کی بنا پر حمد الہی کرنا۔
  • تمام مخلوقات کا تدبیرِ پروردگار کے زیر سایہ اعمال کا انجام دینا۔
  • خیر، عطائے خداوند عالم کے علاوہ کچھ نہیں
  • اعمال انسانی پر دن کی گواہی، بہترین دن گزرنے کی دعا اور تمام دن کے لمحات سے استفادہ کی دعا۔
  • ملائکہ، اعمالِ انسانی لکھنے والے ہیں۔
  • اپنے آپ کو نافرمانی الہی سے بچانے کی دعا۔
  • دعا، اعمال خیر کو انجام دینے کے لئے، شرّ سے بچنے کے لئے، امر بالمعروف و نہی از منکر، کو انجام دینا، اسلام کی نگہداری، گمراہوں کو راستہ دکھانا، کمزوروں کی مدد کرنا اور بے سر و سامان کو پناہ دینا۔
  • قضا و قدرِ پروردگار پر راضی رہنا اور اس کی وحدانیت کی گواہی دینا۔
  • حضرت محمدؐ کی نبوت کی گواہی اور آنحضرتؐ کے لئے اجرِ عظیم کی درخواست کرنا۔
  • پروردگار سے طلب مغفرت کرنا۔[2]۔

شروحات

صحیفہ سجادیہ کی شرحوں میں اس دعا کی بھی شرح کی گئی ہے۔ یہ دعا حسین انصاریان [3] کی کتاب دیار عاشقان میں، محمد حسن ممدوحی کرمانشاہی کی کتاب شہود و شناخت[4] میں، سید احمد فہری کی کتاب شرح و ترجمۂ صحیفہ سجادیہ[5] میں فارسی زبان میں شرح کی گئی ہے۔

اسی طرح یہ دعا بعض دوسری کتابوں میں جیسے، سید علی خان مدنی کی کتاب ریاض السالکین[6]، جواد مغنیہ کی فی ظلال الصحیفہ السجادیہ [7]، محمد بن محمد دارابی[8] کی ریاض العارفین اور سید محمد حسین فضل الله[9] کی کتاب آفاق الروح میں عربی زبان میں شرح لکھی گئی ہے۔

دعا کا متن اور ترجمہ

متن ترجمہ:(مفتی جعفر حسین)
وَ كَانَ مِنْ دُعَائِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ عِنْدَ الصَّبَاحِ وَ الْمَسَاءِ:

(۱)الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَ اللَّيْلَ وَ النَّهَارَ بِقُوَّتِهِ

(۲) وَ مَیزَ بَینَهُمَا بِقُدْرَتِهِ

(۳) وَ جَعَلَ لِکلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا حَدّاً مَحْدُوداً، وَ أَمَداً مَمْدُوداً

(۴) یولِجُ کلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا فِی صَاحِبِهِ، وَ یولِجُ صَاحِبَهُ فِیهِ بِتَقْدِیرٍ مِنْهُ لِلْعِبَادِ فِیمَا یغْذُوهُمْ بِهِ، وَ ینْشِئُهُمْ عَلَیهِ

(۵) فَخَلَقَ لَهُمُ‏ اللَّیلَ لِیسْکنُوا فِیهِ‏ مِنْ حَرَکاتِ التَّعَبِ وَ نَهَضَاتِ النَّصَبِ، وَ جَعَلَهُ لِبَاساً لِیلْبَسُوا مِنْ رَاحَتِهِ وَ مَنَامِهِ، فَیکونَ ذَلِک لَهُمْ جَمَاماً وَ قُوَّةً، وَ لِینَالُوا بِهِ لَذَّةً وَ شَهْوَةً

(۶) وَ خَلَقَ لَهُمُ‏ النَّهارَ مُبْصِراً لِیبْتَغُوا فِیهِ مِنْ فَضْلِهِ، وَ لِیتَسَبَّبُوا إِلَی رِزْقِهِ، وَ یسْرَحُوا فِی أَرْضِهِ، طَلَباً لِمَا فِیهِ نَیلُ الْعَاجِلِ مِنْ دُنْیاهُمْ، وَ دَرَک الْآجِلِ فِی أُخْرَاهُمْ

(۷) بِکلِّ ذَلِک یصْلِحُ شَأْنَهُمْ، وَ یبْلُو أَخْبَارَهُمْ، وَ ینْظُرُ کیفَ هُمْ فِی أَوْقَاتِ طَاعَتِهِ، وَ مَنَازِلِ فُرُوضِهِ، وَ مَوَاقِعِ أَحْکامِهِ، لِیجْزِی الَّذِینَ أَساؤُا بِما عَمِلُوا، وَ یجْزِی الَّذِینَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَی‏.

(۸) اللَّهُمَّ فَلَک الْحَمْدُ عَلَی مَا فَلَقْتَ لَنَا مِنَ الْإِصْبَاحِ، وَ مَتَّعْتَنَا بِهِ مِنْ ضَوْءِ النَّهَارِ، وَ بَصَّرْتَنَا مِنْ مَطَالِبِ الْأَقْوَاتِ، وَ وَقَیتَنَا فِیهِ مِنْ طَوَارِقِ الْآفَاتِ.

(۹) أَصْبَحْنَا وَ أَصْبَحَتِ الْأَشْیاءُ کلُّهَا بِجُمْلَتِهَا لَک: سَمَاؤُهَا وَ أَرْضُهَا، وَ مَا بَثَثْتَ فِی کلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا، سَاکنُهُ وَ مُتَحَرِّکهُ، وَ مُقِیمُهُ وَ شَاخِصُهُ وَ مَا عَلَا فِی الْهَوَاءِ، وَ مَا کنَّ تَحْتَ الثَّرَی

(۱۰) أَصْبَحْنَا فِی قَبْضَتِک یحْوِینَا مُلْکک وَ سُلْطَانُک، وَ تَضُمُّنَا مَشِیتُک، وَ نَتَصَرَّفُ عَنْ أَمْرِک، وَ نَتَقَلَّبُ فِی تَدْبِیرِک.

(۱۱) لَیسَ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ إِلَّا مَا قَضَیتَ، وَ لَا مِنَ الْخَیرِ إِلَّا مَا أَعْطَیتَ.

(۱۲) وَ هَذَا یوْمٌ حَادِثٌ جَدِیدٌ، وَ هُوَ عَلَینَا شَاهِدٌ عَتِیدٌ، إِنْ أَحْسَنَّا وَدَّعَنَا بِحَمْدٍ، وَ إِنْ أَسَأْنَا فَارَقَنَا بِذَمٍّ.

(۱۳) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ ارْزُقْنَا حُسْنَ مُصَاحَبَتِهِ، وَ اعْصِمْنَا مِنْ سُوءِ مُفَارَقَتِهِ بِارْتِکابِ جَرِیرَةٍ، أَوِ اقْتِرَافِ صَغِیرَةٍ أَوْ کبِیرَةٍ

(۱۴) وَ أَجْزِلْ لَنَا فِیهِ مِنَ الْحَسَنَاتِ، وَ أَخْلِنَا فِیهِ مِنَ السَّیئَاتِ، وَ امْلَأْ لَنَا مَا بَینَ طَرَفَیهِ حَمْداً وَ شُکراً وَ أَجْراً وَ ذُخْراً وَ فَضْلًا وَ إِحْسَاناً.

(۱۵) اللَّهُمَّ یسِّرْ عَلَی الْکرَامِ الْکاتِبِینَ مَئُونَتَنَا، وَ امْلَأْ لَنَا مِنْ حَسَنَاتِنَا صَحَائِفَنَا، وَ لَا تُخْزِنَا عِنْدَهُمْ بِسُوءِ أَعْمَالِنَا.

(۱۶) اللَّهُمَّ اجْعَلْ لَنَا فِی کلِّ سَاعَةٍ مِنْ سَاعَاتِهِ حَظّاً مِنْ عِبَادِک، وَ نَصِیباً مِنْ شُکرِک وَ شَاهِدَ صِدْقٍ مِنْ مَلَائِکتِک.

(۱۷) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ احْفَظْنَا مِنْ بَینِ أَیدِینَا وَ مِنْ خَلْفِنَا وَ عَنْ أَیمَانِنَا وَ عَنْ شَمَائِلِنَا وَ مِنْ جَمِیعِ نَوَاحِینَا، حِفْظاً عَاصِماً مِنْ مَعْصِیتِک، هَادِیاً إِلَی طَاعَتِک، مُسْتَعْمِلًا لِمَحَبَّتِک.

(۱۸) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ وَفِّقْنَا فِی یوْمِنَا هَذَا وَ لَیلَتِنَا هَذِهِ وَ فِی جَمِیعِ أَیامِنَا لِاسْتِعْمَالِ الْخَیرِ، وَ هِجْرَانِ الشَّرِّ، وَ شُکرِ النِّعَمِ، وَ اتِّبَاعِ السُّنَنِ، وَ مُجَانَبَةِ الْبِدَعِ، وَ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ، وَ النَّهْی عَنِ الْمُنْکرِ، وَ حِیاطَةِ الْإِسْلَامِ، وَ انْتِقَاصِ الْبَاطِلِ وَ إِذْلَالِهِ، وَ نُصْرَةِ الْحَقِّ وَ إِعْزَازِهِ، وَ إِرْشَادِ الضَّالِّ، وَ مُعَاوَنَةِ الضَّعِیفِ، وَ إِدْرَاک اللَّهِیفِ‏

(۱۹) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ اجْعَلْهُ أَیمَنَ یوْمٍ عَهِدْنَاهُ، وَ أَفْضَلَ صَاحِبٍ صَحِبْنَاهُ، وَ خَیرَ وَقْتٍ ظَلِلْنَا فِیهِ

(۲۰) وَ اجْعَلْنَا مِنْ أَرْضَی مَنْ مَرَّ عَلَیهِ اللَّیلُ وَ النَّهَارُ مِنْ جُمْلَةِ خَلْقِک، أَشْکرَهُمْ لِمَا أَوْلَیتَ مِنْ نِعَمِک، وَ أَقْوَمَهُمْ بِمَا شَرَعْتَ مِنْ شرَائِعِک، وَ أَوْقَفَهُمْ عَمَّا حَذَّرْتَ مِنْ نَهْیک.

(۲۱) اللَّهُمَّ إِنِّی أُشْهِدُک وَ کفَی بِک شَهِیداً، وَ أُشْهِدُ سَمَاءَک وَ أَرْضَک وَ مَنْ أَسْکنْتَهُمَا مِنْ مَلائِکتِک وَ سَائِرِ خَلْقِک فِی یوْمِی هَذَا وَ سَاعَتِی هَذِهِ وَ لَیلَتِی هَذِهِ وَ مُسْتَقَرِّی هَذَا، أَنِّی أَشْهَدُ أَنَّک أَنْتَ اللَّهُ الَّذِی لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، قَائِمٌ بِالْقِسْطِ، عَدْلٌ فِی الْحُکمِ، رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ، مَالِک الْمُلْک، رَحِیمٌ بِالْخَلْقِ.

(۲۲) وَ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُک وَ رَسُولُک و خِیرَتُک مِنْ خَلْقِک، حَمَّلْتَهُ رِسَالَتَک فَأَدَّاهَا، وَ أَمَرْتَهُ بِالنُّصْحِ لِأُمَّتِهِ فَنَصَحَ لَهَا

(۲۳) اللَّهُمَّ فَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، أَکثَرَ مَا صَلَّیتَ عَلَی أَحَدٍ مِنْ خَلْقِک، وَ آتِهِ عَنَّا أَفْضَلَ مَا آتَیتَ أَحَداً مِنْ عِبَادِک، وَ اجْزِهِ عَنَّا أَفْضَلَ وَ أَکرَمَ مَا جَزَیتَ أَحَداً مِنْ أَنْبِیائِک عَنْ أُمَّتِهِ

(۲۴) إِنَّک أَنْتَ الْمَنَّانُ بِالْجَسِیمِ، الْغَافِرُ لِلْعَظِیمِ، وَ أَنْتَ أَرْحَمُ مِنْ کلِّ رَحِیمٍ، فَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ الطَّیبِینَ الطَّاهِرِینَ الْأَخْیارِ الْأَنْجَبِینَ.

صبح اور شام کی دعا

(۱) سب تعریف اس اللہ کے لیے جس نے اپنی قوت و توانائی سے شب وروز کو خلق فرمایا۔

(۲) اور اپنی قدرت کی کارفرمائی سے ان دونوں میں امتیاز قائم کیا۔

(۳) اور ان میں سے ہر ایک کو معینہ حدود و مقررہ اوقاف کا پابند بنایا۔

(۴) اور ان کے کم و بیش ہونے کا جو اندازہ مقرر کیا اس کے مطابق رات کی جگہ پر دن اور دن کی جگہ پر رات کو لاتا ہے تا کہ اس ذریعہ سے بندوں کی روزی اور ان کی پرورش کا سر و سامان کرے۔

(۵) چنانچہ اس نے ان کے لیے رات بنائی تاکہ وہ اس میں تھکا دینے والے کاموں اور خستہ کر دینے والی کلفتوں کے بعد آرام کریں اور اسے پردہ قرار دیا تاکہ سکون کی چادر تان کر آرام سے سوئیں اور یہ ان کے لیے راحت و نشاط اورطبعی قوتوں کے بحال ہونے اور لذت و کیف اندوزی کا ذریعہ ہو۔

(۶) اور دن کو ان کے لیے روشن و درخشاں پیدا کیا تاکہ اس میں (کار و کسب میں سرگرم عمل ہو کر) اس کے فضل کی جستجو کریں اور روزی کا وسیلہ ڈھونڈیں اور دنیاوی منافع اور اخروی فوائد کے وسائل تلاش کرنے کے لیے اس کی زمین میں چلیں پھریں۔

(۷) ان تمام کارفرمائیوں سے وہ ان کے حالات سنوارتا ہے اوران کے اعمال کی جانچ کرتا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ وہ لوگ اطاعت کی گھڑیوں، فرائض کی منزلوں اور تعمیل احکام کے موقعوں پر کیسے ثابت ہوتے ہیں تاکہ بروں کو ان کی بداعمالیوں کی سزا اور نیکو کاروں کو اچھا بدلہ دے۔

(۸) اے اللہ ! تیرے ہی لیے تمام تعریف و توصیف ہے کہ تو نے ہمارے لیے (رات کا دامن چاک کرکے )صبح کا اجالا کیا اور اس طرح دن کی روشنی سے ہمیں فائدہ پہنچایا اور طلب رزق کے مواقع ہمیں دکھائے اور اس میں آفات و بلیات سے ہمیں بچایا۔

(۹) ہم اور ہمارے علاوہ سب چیزیں جنہیں تو نے ان میں پھیلایا ہے وہ ساکن ہوں یا متحرک، مقیم ہوں یا راہ نورد، فضا میں بلند ہوں یا زمین کی تہوں میں پوشیدہ۔

(۱۰) ہم تیرے قبضہ قدرت میں ہیں۔ اور تیرا اقتدار اور تیری بادشاہت ہم پر حاوی ہے اور تیری مشیت کا محیط ہمیں گھیرے ہوئے ہے۔ تیرے حکم سے ہم تصرف کرتے اور تیری تدبیر و کارسازی کے تحت ہم ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹتے ہیں۔

(۱۱) جو امر تو نے ہمارے لیے نافذ کیا اورجو خیر اور بھلائی تو نے ہمیں بخشی اس کے علاوہ ہمارے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔

(۱۲) اور یہ دن نیا اور تازہ وارد ہے جو ہم پر ایسا گواہ ہے جو ہمہ وقت حاضر ہے۔ اگر ہم نے اچھے کام کئے تو وہ توصیف و ثنا کرتے ہوئے ہمیں رخصت کرے گا اور اگر برے کام کئے تو برائی کرتا ہوا ہم سے علیحدہ ہوگا!

(۱۳) اے اللہ! تو محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور ہمیں اس دن کی اچھی رفاقت نصیب کرنا اور کسی خطا کے ارتکاب کرنے یا صغیرہ و کبیرہ گناہ میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اس کے چیں بہ جبیں ہو کر رخصت ہونے سے ہمیں بچائے رکھنا۔

(۱۴) اور اس دن میں ہماری نیکیوں کا حصہ زیادہ کر۔ اور برائیوں سے ہمارا دامن خالی رکھ ۔ اور ہمارے لیے اس کے آغاز و انجام کو حمد و سپاس، ثواب و ذخیرہ آخرت اور بخشش و احسان سے بھر دے۔

(۱۵) اے اللہ ! کراما کاتبین پر (ہمارا گناہ قلم بند کرنے کی) زحمت کم کر دے اور ہمارا نامہ اعمال نیکیوں سے بھر دے اور بد اعمالیوں کی وجہ سے ہمیں ان کے سامنے رسوا نہ کر۔

(۱۶) بار الہا! تو اس دن کے لمحوں میں سے ہر لمحہ وساعت میں اپنے خاص بندوں کا حظ ونصیب اور اپنے شکر کا ایک حصہ اور فرشتوں میں سے ایک سچا گواہ ہمارے لیے قرار دے۔

(۱۷) اے اللہ ! تو محمد اور ان کی آل پر رحمت ناز ل فرما اور آگے پیچھے اور داہنے اور بائیں اور تمام اطراف و جوانب سے ہماری حفاظت کر۔ ایسی حفاظت جو ہمارے لیے گناہ و معصیت سے سد راہ ہو، تیری اطاعت کی طرف رہنمائی کرے اور تیری محبت میں صرف ہو

(۱۸) اے اللہ ! تو محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما۔ اور ہمیں آج کے دن، آج کی رات اور زندگی کے تمام دنوں میں توفیق عطا فرما کہ ہم نیکیوں پر عمل کریں، برائیوں کو چھوڑیں، نعمتوں پر شکر اور سنتوں پر عمل کریں، بدعتوں سے الگ تھلگ رہیں اور نیک کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکیں۔ اسلام کی حمایت و طرفداری کریں، باطل کو کچلیں اور اسے ذلیل کریں۔ حق کی نصرت کریں اور اسے سر بلند کریں۔ گمراہوں کی رہنمائی، کمزوروں کی اعانت اور درد مندوں کی چارہ جوئی کریں۔

(۱۹) بار الہا! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور آج کے دن کو ان تمام دنوں سے جو ہم نے گزارے زیادہ مبارک دن اور ان تمام ساتھیوں سے جن کا ہم نے ساتھ دیا۔ اس کو بہترین رفیق اور ان تمام وقتوں سے جن کے زیر سایہ ہم نے زندگی بسر کی اس کو بہترین وقت قرار دے

(۲۰) اور ہمیں ان تمام مخلوقات میں سے زیادہ راضی و خوشنود رکھ جن پر شب و روز کے چکر چلتے رہے ہیں اور ان سب سے زیادہ اپنی عطا کی ہوئی نعمتوں کا شکر گزار اوران سب سے زیادہ اپنے جاری کئے ہوئے احکام کا پابند اوران سب سے زیادہ ان چیزوں سے کنارہ کشی کرنے والا قرار دے جن سے تو نے خوف دلا کر منع کیا ہے۔

(۲۱) اے خدا ! میں تجھے گواہ کرتا ہوں اورتو گواہی کے لیے کافی ہے اور تیرے آسمان اور تیری زمین کو اور ان میں جن جن فرشتوں اور جس جس مخلوق کو تو نے بسایا ہے آج کے دن اور اس گھڑی اور رات میں اور اس مقام پر گواہ کرتا ہوں کہ میں اس بات کا معترف ہوں کہ صرف تو ہی وہ معبود ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، انصاف کا قائم کرنے والا، حکم میں عدل ملحوظ رکھنے والا، بندوں پر مہربان، اقتدار کا مالک اور کائنات پر رحم کرنے والا ہے۔

(۲۲) اور اس بات کی بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرے خاص بندے، رسول اور برگزیدہ کائنات ہیں ان پر تو نے رسالت کی ذمہ داریاں عائد کیں تو انہو ں نے اسے پہنچایا اور اپنی امت کو پند و نصیحت کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے نصیحت فرمائی۔

(۲۳) ہماری طرف سے انہیں وہ بہترین تحفہ عطا کر جو تیرے ہر اس انعام سے بڑھا ہوا ہو جو اپنے بندوں میں سے تو نے کسی ایک کو دیا ہو۔ اور ہماری طرف سے انہیں وہ جزا د ے جو ہر اس جزا سے بہتر و برتر ہو ۔ جو ابنیاء میں سے کسی ایک کو تو نے اس کی امت کی طرف سے عطا فرمائی ہو۔

(۲۴) بے شک تو بڑی نعمتوں کا بخشنے والا اور بڑے گناہوں سے درگزر کرنے والا اور ہر رحیم سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ لہذا تو محمد اور ان کی پاک و پاکیزہ اور شریف و نجیب اولاد پر رحمت نازل فرما۔


حوالہ جات

  1. ممدوحی،‌ شهود و شناخت، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۳۵۷۔
  2. انصاریان، دیار عاشقان، ۱۳۷۱ش،ج۴، ص۱۵-۱۰۱۔
  3. انصاریان، دیار عاشقان، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۱۵-۱۰۱۔
  4. ممدوحی، کتاب شهود و شناخت، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۳۵۷-۴۲۰۔
  5. فهری، شرح و تفسیر صحیفہ سجادیہ، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۳۱۹-۳۹۰۔
  6. مدنی شیرازی، ریاض السالکین، ۱۴۳۵ھ، ج۲، ص۱۷۵-۳۰۰۔
  7. مغنیہ، فی ظلال الصحیفہ، ۱۴۲۸ھ، ص۱۱۹-۱۳۴۔
  8. دارابی، ریاض العارفین، ۱۳۷۹ش، ص۱۰۳-۱۱۸۔
  9. فضل الله، آفاق الروح، ۱۴۲۰ھ، ج۱، ص۱۳۳-۱۸۴۔

مآخذ

  • انصاریان، حسین، دیار عاشقان: تفسیر جامع صحیفہ سجادیہ، تہران، پیام آزادی، ۱۳۷۳ ہجری شمسی۔
  • خلجی، محمد تقی، اسرار خاموشان، قم، پرتو خورشید، ۱۳۸۳ ہجری شمسی۔
  • دارابی، محمد بن محمد، ریاض العارفین فی شرح الصحیفہ السجادیہ، محقق حسین درگاہی، تہران، نشر اسوہ، ۱۳۷۹ ہجری شمسی۔
  • فضل‌ اللہ، سید محمد حسین، آفاق الروح، بیروت، دارالمالک، ۱۴۲۰ھ۔
  • فهری، سید احمد، شرح و ترجمہ صحیفہ سجادیہ، تهران، اسوه، ۱۳۸۸ ہجری شمسی۔
  • فیض کاشانی، محمدبن مرتضی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، تہران، مؤسسہ البحوث و التحقیقات الثقافیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • مدنی شیرازی، سید علی‌ خان، ریاض السالکین فی شرح صحیفۃ سید الساجدین، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ۱۴۳۵ھ۔
  • مغنیہ، محمد جواد، فی ظلال الصحیفہ السجادیہ، قم، دار الکتاب الاسلامی، ۱۴۲۸ھ۔
  • ممدوحی کرمانشاہی، حسن، شہود و شناخت، ترجمہ و شرح صحیفہ سجادیہ، با مقدمہ آیت‌اللہ جوادی آملی، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۸ ہجری شمسی۔

بیرونی روابط