صحیفہ سجادیہ کی اڑتالیسویں دعا

ویکی شیعہ سے
صحیفہ سجادیہ کی اڑتالیسویں دعا
کوائف
موضوع:عید قربان اور جمعہ کے دن کی دعا، اسلامی معاشرے کی رہبری کے منصب کا معصومین ؑ سے مخصوص ہونا، پیغمبرؐ اور ان کی آل پر صلوات
مأثور/غیرمأثور:مأثور
صادرہ از:امام سجادؑ
راوی:متوکل بن ہارون
مشہور دعائیں اور زیارات
دعائے توسلدعائے کمیلدعائے ندبہدعائے سماتدعائے فرجدعائے عہددعائے ابوحمزہ ثمالیزیارت عاشورازیارت جامعہ کبیرہزیارت وارثزیارت امین‌اللہزیارت اربعین


صحیفہ سجادیہ کی اڑتالیسویں دعا ، امام سجادؑ کی ماثورہ دعاوں میں سے ایک ہے جسے آپ عید قربان اور جمعہ کے دن پڑھتے تھے۔ امام سجاد ؑ نے اس دعا میں عید کے دن مسلمانوں کے اجتماع کو اسلام کی عظمت کے اظہار کا دن قرار دیا ہے اور خدا سے ان ایام میں اس کی رحمت اور مغفرت کی درخواست کی ہے۔ اس دعا میں کئی بار پیغمبر اسلام ؐ اور ان کے اہل بیت ؑ پر صلوات بھیجی گئی ہے۔

اسی طرح اس دعا میں اسلامی معاشرے کی رہبری کو معصومین سے مخصوص جانا ہے جس کو ظالم حکمرانوں نے غضب کر لیا تھا۔ چوتھے امام نے اس دعا میں درج ذیل درخواستیں بیان کی ہیں: مثلا امام زمانہ ؑ کے ظہور میں تعجیل، بلاوں سے محفوظ رہنا، رزق و روزی میں وسعت اور خدا کی بارگاہ میں گناہوں سے توبہ۔

صحیفہ سجادیہ کی اڑتالیسویں دعا کی مختلف شرحیں ہیں، صحیفہ سجادیہ کی شرحوں میں جیسے فارسی میں حسین انصاریان کی دیار عاشقان اور حسن ممدوحی کرمانشاہی کی شہود و شناخت اور کتاب ریاض السالکین تالیف سید علی‌ خان مدنی جو عربی زبان میں شرح ہوئی ہے۔

دعا و مناجات

تعلیمات

صحیفہ سجادیہ کی اڑتالیسویں دعا، ان دعاوں میں سے ہے جسے امام سجادؑ عید قربان اور جمعہ کے دن پڑھتے تھے۔ اس دعا میں درج ذیل مضامین موجود ہیں: عید قربان اور روز جمعہ کی خصوصیات کا بیان، ان ایام میں خدا کی خاص رحمتوں کا نزول اور اسلامی معاشرے کی رہبری کا مسئلہ۔ حضرت امام زین العابدین ؑ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اسلامی معاشرے کی حکومت معصوم کے ہاتھ میں ہونا چاہئے اور نا اہلوں کے ہاتھ میں حکومت کے چلے جانے پر اظہار افسوس کیا ہے۔[1] اس دعا میں متعدد بار محمد اور آل محمد ؑ پر صلوات بھیجی گئی ہے۔ اس تکرار کا راز، مقام پیغمبر ؐ اور اہل بیت ؑ کی قدردانی جانا گیا ہے کیوں کہ انسان کی دنیا اور آخرت کی سعادت انہیں کے ارشادات اور ہدایات کی مرہون منت ہے جب کہ دوسرے افراد اس مقام کے لائق نہیں تھے۔[2]

اس دعا کے پیغامات مندرجہ ذیل ہیں:

  • جمعہ اور عید قربان کا دن بہت مبارک ہے۔
  • اس دنیا کی حکومت اور حمد و ثنا خدا سے مخصوص ہے۔
  • عید کے دن مسلمانوں کا اجتماع اسلام کی عظمت کے اظہار کا بہترین وسیلہ ہے۔
  • خداوند کریم سے اس مقدار میں خیر و نیکی طلب کرنا جتنی مقدار میں اس نے اپنے دوسرے بندوں کو دیا ہے۔
  • خدا کے اسما اور صفات سے صحیح استفادہ ضروری ہے۔
  • خدا کی شناخت کے ساتھ اس کی نعمتوں سے بہترین استفادہ کرنا چاہئے۔
  • جنت اور وہاں کے بلند مقامات، خدا کے لطف و رحمت کا نتیجہ ہیں۔
  • محمد اور آل‌محمد ؑ پر نا محدود صلوات و سلام کی درخواست۔
  • خدا کے علاوہ کسی دوسرے سے مدد مانگنا نا پسندیدہ عمل ہے۔
  • بندوں کے گناہوں کے مقابلہ میں خدا کی رحمت وسیع ہے۔
  • اعمال صالحہ کا انجام نہ دینا اور اپنے آپ کو سب سے بڑا سمجھنا، دعا کے قبول نہ ہونے کا سبب ہے۔
  • انسان کے مقابلے میں خدا بے نیاز ہے لیکن خدا کے مقابلے میں انسان محتاج ہے۔
  • استغفار معرفت کے بلندی پر پہونچنے کا ذریعہ ہے۔
  • بارگاہ خداوندی میں آنے کے لئے ضروری آمادگی حاصل کرنا۔
  • جمعہ کے دن پیغمبر ؐ اور اہل بیت ؑ سے شفاعت کی امید رکھنا۔
  • اہل بیت ؑ کی شفاعت حاصل کرنے کے لئے ان کے قدم سے قدم ملاکر چلنا ضروری ہے۔
  • خدا وند عالم کی بارگاہ میں اپنے گناہوں اور خطاؤں کا اقرار کریں۔
  • خداوند عالم کی بخشش اور اس کے رحمت کے وسیع ہونے کا اعتراف ہونا چاہئے۔
  • نماز عید قربان اور نماز جمعہ کے منعقد کرنے کا اختیار صرف اوصیائے خدا اور اس کے خاص بندوں کو ہے۔
  • اہل بیت ؑ کے دشمنوں پر لعنت۔
  • دین ظالم حکام کے لئے صرف ایک کھلونا ہے۔
  • ظالموں کے کردار سے خوش ہو کر ان کے ظلم میں شریک ہونا۔
  • امام زمانہ (عج) کے ظہور میں تعجیل کے لئے دعا کرنا۔
  • اہل توحید و ایمان کی صف میں قرار پانے کی دعا کرنا۔
  • عذاب الہی اور اس کی ناراضگی سے بچنے کے لئے اس کی بارگاہ میں گریہ و زاری کرنا۔
  • غم و غصہ، خدا کی رحمت سے دوری کا سبب ہے۔
  • خداوند کریم بندوں کو ان کے گناہوں کی سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا۔
  • مختلف بلاؤں سے محفوظ رہنے کے لئے دعا کرنا ضروری ہے۔
  • قدرت خدا کے وسیلہ سے مشکلات کو حل کرنا۔
  • انسانی کمالات میں رشد کے ذریعہ سَکَرات موت سے بچنا۔
  • جمعہ اور عید قربان کے دن خدا کے خشم و غضب سے پناہ چاہنا۔
  • خدا سب سے بڑی حمایت و پناہ گاہ ہے۔
  • مشکلات سے نجات کا واحد ذریعہ خدا کی بارگاہ میں تضرع و زاری ہے۔
  • عذاب الہی سے بچنے کے لئے دعا کرنا۔
  • بارگاہ خدا کی جانب ہدایت کے لئے دعا کرنا۔
  • بارگاہ خداوندی سے مدد و نصرت طلب کرنے کے لئے دعا کرنا۔
  • خدا سے رحمت اور مغفرت طلب کرنا رزق و روزی کے حصول کے لئے کافی ہے۔
  • گناہوں سے توبہ اور استغفار ضروری ہے۔
  • برائی اور آفتوں سے بچنے کے لئے دعا ضروری ہے۔
  • اپنی مقرّر شدہ نیکی اور خوبی کی درخواست کرنا۔
  • خدا پر اعتماد کرنا اعتماد بہ نفس سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔[3]

شرحیں

صحیفہ سجادیہ کی اس اڑتالیسویں دعا کی بھی مختلف شرحیں موجود ہیں۔ اس کی شرحوں میں سے کتاب دیار عاشقان حسین انصاریان کی تالیف،[4] شہود و شناخت محمد حسن ممدوحی کرمانشاہی کی تالیف[5] اور شرح و ترجمہ صحیفہ سجادیہ سید احمد فہری کی تالیف[6] یہ تمام شرحیں فارسی زبان میں ہیں۔

اسی طرح صحیفہ سجادیہ کی اس اڑتالیسویں دعا کی شرح ریاض السالکین سید علی‌ خان مدنی کی تالیف،[7] فی ظلال الصحیفہ السجادیہ محمد جواد مغنیہ کی تالیف،[8] ریاض العارفین محمد بن محمد دارابی کی تالیف[9] اور آفاق الروح سید محمد حسین فضل‌اللہ کی تالیف[10] یہ تمام شرحیں عربی زبان میں ہوئی ہیں۔ اس دعا کے الفاظ کی لغوی شرحیں بھی موجود ہیں مثلا تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ فیض کاشانی علیہ الرحمۃ کی تالیف[11] اور شرح الصحیفہ السجادیہ عزالدین جزائری کی تالیف[12] ان تمام کتابوں میں لغوی شرحیں موجود ہیں۔

دعا کا متن اور ترجمہ

صحیفہ سجادیہ کی اڑتالیسویں دعا
متن ترجمہ: (مفتی جعفر حسین)
وَ كَانَ مِنْ دُعَائِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ يَوْمَ الْأَضْحَى وَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ

(۱) اللَّهُمَّ هَذَا يَوْمٌ مُبَارَكٌ مَيْمُونٌ، وَ الْمُسْلِمُونَ فِيهِ مُجْتَمِعُونَ فِي أَقْطَارِ أَرْضِكَ، يَشْهَدُ السَّائِلُ مِنْهُمْ وَ الطَّالِبُ وَ الرَّاغِبُ وَ الرَّاهِبُ وَ أَنْتَ النَّاظِرُ فِي حَوَائِجِهِمْ، فَأَسْأَلُكَ بِجُودِكَ وَ كَرَمِكَ وَ هَوَانِ مَا سَأَلْتُكَ عَلَيْكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ.

(۲) وَ أَسْأَلُكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا بِأَنَّ لَكَ الْمُلْكَ، وَ لَكَ الْحَمْدَ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ الْحَنَّانُ الْمَنَّانُ‏ ذُو الْجَلالِ وَ الْإِكْرامِ‏، بَدِيعُ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ‏، مَهْمَا قَسَمْتَ بَيْنَ عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِينَ: مِنْ خَيْرٍ أَوْ عَافِيَةٍ أَوْ بَرَكَةٍ أَوْ هُدًى أَوْ عَمَلٍ بِطَاعَتِكَ، أَوْ خَيْرٍ تَمُنُّ بِهِ عَلَيْهِمْ تَهْدِيهِمْ بِهِ إِلَيْكَ، أَوْ تَرْفَعُ لَهُمْ عِنْدَكَ دَرَجَةً، أَوْ تُعْطِيهِمْ بِهِ خَيْراً مِنْ خَيْرِ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ أَنْ تُوَفِّرَ حَظِّي وَ نَصِيبِي مِنْهُ.

(۳) وَ أَسْأَلُكَ اللَّهُمَّ بِأَنَّ لَكَ الْمُلْكَ وَ الْحَمْدَ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَ رَسُولِكَ وَ حَبِيبِكَ وَ صِفْوَتِكَ وَ خِيَرَتِكَ مِنْ خَلْقِكَ، وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ الْأَبْرَارِ الطَّاهِرِينَ الْأَخْيَارِ صَلَاةً لَا يَقْوَى عَلَى إِحْصَائِهَا إِلَّا أَنْتَ، وَ أَنْ تُشْرِكَنَا فِي صَالِحِ مَنْ دَعَاكَ فِي هَذَا الْيَوْمِ مِنْ عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِينَ، يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ، وَ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا وَ لَهُمْ، إِنَّكَ عَلى‏ كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَدِيرٌ.

(۴) اللَّهُمَّ إِلَيْكَ تَعَمَّدْتُ بِحَاجَتِي، وَ بِكَ أَنْزَلْتُ الْيَوْمَ فَقْرِي وَ فَاقَتِي وَ مَسْكَنَتِي، وَ إِنِّي بِمَغْفِرَتِكَ وَ رَحْمَتِكَ أَوْثَقُ مِنِّي بِعَمَلِي، وَ لَمَغْفِرَتُكَ وَ رَحْمَتُكَ أَوْسَعُ مِنْ ذُنُوبِي، فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَ تَوَلَّ قَضَاءَ كُلِّ حَاجَةٍ هِيَ لِي بِقُدْرَتِكَ عَلَيْهَا، وَ تَيْسِيرِ ذَلِكَ عَلَيْكَ، وَ بِفَقْرِي إِلَيْكَ، وَ غِنَاكَ عَنِّي، فَإِنِّي لَمْ أُصِبْ خَيْراً قَطُّ إِلَّا مِنْكَ، وَ لَمْ يَصْرِفْ عَنِّي سُوءاً قَطُّ أَحَدٌ غَيْرُكَ، وَ لَا أَرْجُو لِأَمْرِ آخِرَتِي وَ دُنْيَايَ سِوَاكَ.

(۵) اللَّهُمَّ مَنْ تَهَيَّأَ وَ تَعَبَّأَ وَ أَعَدَّ وَ اسْتَعَدَّ لِوِفَادَةٍ إِلَى مَخْلُوقٍ رَجَاءَ رِفْدِهِ وَ نَوَافِلِهِ وَ طَلَبَ نَيْلِهِ وَ جَائِزَتِهِ، فَإِلَيْكَ يَا مَوْلَايَ كَانَتِ الْيَوْمَ تَهْيِئَتِي وَ تَعْبِئَتِي وَ إِعْدَادِي وَ اسْتِعْدَادِي رَجَاءَ عَفْوِكَ وَ رِفْدِكَ وَ طَلَبَ نَيْلِكَ وَ جَائِزَتِكَ.

(۶) اللَّهُمَّ فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَ لَا تُخَيِّبِ الْيَوْمَ ذَلِكَ مِنْ رَجَائِي، يَا مَنْ لَا يُحْفِيهِ سَائِلٌ وَ لَا يَنْقُصُهُ نَائِلٌ، فَإِنِّي لَمْ آتِكَ ثِقَةً مِنِّي بِعَمَلٍ صَالِحٍ قَدَّمْتُهُ، وَ لَا شَفَاعَةِ مَخْلُوقٍ رَجَوْتُهُ إِلَّا شَفَاعَةَ مُحَمَّدٍ وَ أَهْلِ بَيْتِهِ عَلَيْهِ وَ عَلَيْهِمْ سَلَامُكَ.

(۷) أَتَيْتُكَ مُقِرّاً بِالْجُرْمِ وَ الْإِسَاءَةِ إِلَى نَفْسِي، أَتَيْتُكَ أَرْجُو عَظِيمَ عَفْوِكَ الَّذِي عَفَوْتَ بِهِ عَنِ الْخَاطِئِينَ، ثُمَّ لَمْ يَمْنَعْكَ طُولُ عُكُوفِهِمْ عَلَى عَظِيمِ الْجُرْمِ أَنْ عُدْتَ عَلَيْهِمْ بِالرَّحْمَةِ وَ الْمَغْفِرَةِ.

(۸) فَيَا مَنْ رَحْمَتُهُ وَاسِعَةٌ، وَ عَفْوُهُ عَظِيمٌ، يَا عَظِيمُ يَا عَظِيمُ، يَا كَرِيمُ يَا كَرِيمُ، صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ عُدْ عَلَيَّ بِرَحْمَتِكَ وَ تَعَطَّفْ عَلَيَّ بِفَضْلِكَ وَ تَوَسَّعْ عَلَيَّ بِمَغْفِرَتِكَ.

(۹) اللَّهُمَّ إِنَّ هَذَا الْمَقَامَ لِخُلَفَائِكَ وَ أَصْفِيَائِكَ وَ مَوَاضِعَ أُمَنَائِكَ فِي الدَّرَجَةِ الرَّفِيعَةِ الَّتِي اخْتَصَصْتَهُمْ بِهَا قَدِ ابْتَزُّوهَا، وَ أَنْتَ الْمُقَدِّرُ لِذَلِكَ، لَا يُغَالَبُ أَمْرُكَ، وَ لَا يُجَاوَزُ الْمَحْتُومُ مِنْ تَدْبِيرِكَ‏ كَيْفَ شِئْتَ وَ أَنَّى شِئْتَ، وَ لِمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ غَيْرُ مُتَّهَمٍ عَلَى خَلْقِكَ وَ لَا لِإِرَادَتِكَ حَتَّى عَادَ صِفْوَتُكَ وَ خُلَفَاؤُكَ مَغْلُوبِينَ مَقْهُورِينَ مُبْتَزِّينَ، يَرَوْنَ حُكْمَكَ مُبَدَّلًا، وَ كِتَابَكَ مَنْبُوذاً، وَ فَرَائِضَكَ مُحَرَّفَةً عَنْ جِهَاتِ أَشْرَاعِكَ، وَ سُنَنَ نَبِيِّكَ مَتْرُوكَةً.

(۱۰) اللَّهُمَّ الْعَنْ أَعْدَاءَهُمْ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَ الْآخِرِينَ، وَ مَنْ رَضِيَ بِفِعَالِهِمْ وَ أَشْيَاعَهُمْ وَ أَتْبَاعَهُمْ.

(۱۱) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، كَصَلَوَاتِكَ وَ بَرَكَاتِكَ وَ تَحِيَّاتِكَ عَلَى أَصْفِيَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَ آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَ عَجِّلِ الْفَرَجَ وَ الرَّوْحَ وَ النُّصْرَةَ وَ التَّمْكِينَ وَ التَّأْيِيدَ لَهُمْ.

(۱۲) اللَّهُمَّ وَ اجْعَلْنِي مِنْ أَهْلِ التَّوْحِيدِ وَ الْإِيمَانِ بِكَ، وَ التَّصْدِيقِ بِرَسُولِكَ، وَ الْأَئِمَّةِ الَّذِينَ حَتَمْتَ طَاعَتَهُمْ مِمَّنْ يَجْرِي ذَلِكَ بِهِ وَ عَلَى يَدَيْهِ، آمِينَ رَبَّ الْعَالَمِينَ.

(۱۳) اللَّهُمَّ لَيْسَ يَرُدُّ غَضَبَكَ إِلَّا حِلْمُكَ، وَ لَا يَرُدُّ سَخَطَكَ إِلَّا عَفْوُكَ، وَ لا يُجِيرُ مِنْ عِقَابِكَ إِلَّا رَحْمَتُكَ، وَ لَا يُنْجِينِي مِنْكَ إِلَّا التَّضَرُّعُ إِلَيْكَ وَ بَيْنَ يَدَيْكَ، فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَ هَبْ لَنَا- يَا إِلَهِي- مِنْ لَدُنْكَ فَرَجاً بِالْقُدْرَةِ الَّتِي بِهَا تُحْيِي أَمْوَاتَ الْعِبَادِ، وَ بِهَا تَنْشُرُ مَيْتَ الْبِلَادِ.

(۱۴) وَ لَا تُهْلِكْنِي- يَا إِلَهِي- غَمّاً حَتَّى تَسْتَجِيبَ لِي، وَ تُعَرِّفَنِي الْإِجَابَةَ فِي دُعَائِي، وَ أَذِقْنِي طَعْمَ الْعَافِيَةِ إِلَى مُنْتَهَى أَجَلِي، وَ لَا تُشْمِتْ بِي عَدُوِّي، وَ لَا تُمَكِّنْهُ مِنْ عُنُقِي، وَ لَا تُسَلِّطْهُ عَلَيَّ

(۱۵) إِلَهِي إِنْ رَفَعْتَنِي فَمَنْ ذَا الَّذِي يَضَعُنِي، وَ إِنْ وَضَعْتَنِي فَمَنْ ذَا الَّذِي يَرْفَعُنِي، وَ إِنْ أَكْرَمْتَنِي فَمَنْ ذَا الَّذِي يُهِينُنِي، وَ إِنْ أَهَنْتَنِي فَمَنْ ذَا الَّذِي يُكْرِمُنِي، وَ إِنْ عَذَّبْتَنِي فَمَنْ ذَا الَّذِي يَرْحَمُنِي، وَ إِنْ أَهْلَكْتَنِي فَمَنْ ذَا الَّذِي يَعْرِضُ لَكَ فِي عَبْدِكَ، أَوْ يَسْأَلُكَ عَنْ أَمْرِهِ، وَ قَدْ عَلِمْتُ‏ أَنَّهُ لَيْسَ فِي حُكْمِكَ ظُلْمٌ، وَ لَا فِي نَقِمَتِكَ عَجَلَةٌ، وَ إِنَّمَا يَعْجَلُ مَنْ يَخَافُ الْفَوْتَ، وَ إِنَّمَا يَحْتَاجُ إِلَى الظُّلْمِ الضَّعِيفُ، وَ قَدْ تَعَالَيْتَ- يَا إِلَهِي- عَنْ ذَلِكَ عُلُوّاً كَبِيراً.

(۱۶) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَ لَا تَجْعَلْنِي لِلْبَلَاءِ غَرَضاً، وَ لَا لِنَقِمَتِكَ نَصَباً، وَ مَهِّلْنِي، وَ نَفِّسْنِي، وَ أَقِلْنِي عَثْرَتِي، وَ لَا تَبْتَلِيَنِّي بِبَلَاءٍ عَلَى أَثَرِ بَلَاءٍ، فَقَدْ تَرَى ضَعْفِي وَ قِلَّةَ حِيلَتِي وَ تَضَرُّعِي إِلَيْكَ.

(۱۷) أَعُوذُ بِكَ اللَّهُمَّ الْيَوْمَ مِنْ غَضَبِكَ، فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ أَعِذْنِي.

(۱۸) وَ أَسْتَجِيرُ بِكَ الْيَوْمَ مِنْ سَخَطِكَ، فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ أَجِرْنِي

(۱۹) وَ أَسْأَلُكَ أَمْناً مِنْ عَذَابِكَ، فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ آمِنِّي.

(۲۰) وَ أَسْتَهْدِيكَ، فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ اهْدِنِي

(۲۱) وَ أَسْتَنْصِرُكَ، فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ انْصُرْنِي.

(۲۲) وَ أَسْتَرْحِمُكَ، فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ ارْحَمْنِي

(۲۳) وَ أَسْتَكْفِيكَ، فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ اكْفِنِي

(۲۴) وَ أَسْتَرْزِقُكَ، فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ ارْزُقْنِي

(۲۵) وَ أَسْتَعِينُكَ، فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ أَعِنِّي.

(۲۶) وَ أَسْتَغْفِرُكَ لِمَا سَلَفَ مِنْ ذُنُوبِي، فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ اغْفِرْ لِي.

(۲۷) وَ أَسْتَعْصِمُكَ، فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ اعْصِمْنِي، فَإِنِّي لَنْ أَعُودَ لِشَيْ‏ءٍ كَرِهْتَهُ مِنِّي إِنْ شِئْتَ ذَلِكَ.

(۲۸) يَا رَبِّ يَا رَبِّ، يَا حَنَّانُ يَا مَنَّانُ، يَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْإِكْرَامِ، صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ اسْتَجِبْ لِي جَمِيعَ مَا سَأَلْتُكَ وَ طَلَبْتُ إِلَيْكَ وَ رَغِبْتُ فِيهِ إِلَيْكَ، وَ أَرِدْهُ وَ قَدِّرْهُ وَ اقْضِهِ وَ أَمْضِهِ، وَ خِرْ لِي فِيمَا تَقْضِي مِنْهُ، وَ بَارِكْ لِي فِي ذَلِكَ، وَ تَفَضَّلْ عَلَيَّ بِهِ، وَ أَسْعِدْنِي بِمَا تُعْطِينِي مِنْهُ، وَ زِدْنِي مِنْ فَضْلِكَ وَ سَعَةِ مَا عِنْدَكَ، فَإِنَّكَ وَاسِعٌ كَرِيمٌ، وَ صِلْ ذَلِكَ‏ بِخَيْرِ الْآخِرَةِ وَ نَعِيمِهَا، يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ. ثُمَّ تَدْعُو بِمَا بَدَا لَكَ، وَ تُصَلِّي عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ أَلْفَ مَرَّةٍ هَكَذَا كَانَ يَفْعَلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ.

عید قربان اور جمعہ کے دن کی دعا

(۱) بار الہا! یہ مبارک ومسعود دن ہے جس میں مسلمان معمورہ زمین کے ہر گوشہ میں مجمتع ہیں۔ ان میں سائل بھی ہیں اور طلب گار بھی۔ ملتجی بھی ہیں اور خوف زدہ بھی۔ وہ سب ہی تیری بارگاہ میں حاضر ہیں اور تو ہی ان کی حاجتوں پر نگاہ رکھنے والا ہے۔ لہذا میں تیرے جود و کرم کو دیکھتے ہوئے اور اس خیال سے کہ میری حاجت برآوری تیرے لیے آسان ہے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو رحمت نازل فرما اور محمد اور ان کی آل پر۔

(۲) اے اللہ ! اے ہم سب کے پروردگار ! جبکہ تیرے ہی لیے بادشاہی اور تیرے ہی لیے حمد و ستائش ہے اور کوئی معبود نہیں تیرے علاوہ جو بردبار، کریم، مہربانی کرنے والا، نعمت بخشنے والا بزرگی و عظمت والا اور زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے۔ تو میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ جب بھی تو اپنے ایمان والے بندوں میں نیکی یا عافیت یا خیر و برکت یا اپنی اطاعت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق تقسیم فرمائے یا ایسی بھلائی جس سے تو ان پر احسان کرے اور انہیں اپنی طرف رہنمائی فرمائے یا اپنے ہاں ان کا درجہ بلند کرے یا دنیا و آخرت کی بھلائی میں سے کوئی بھلائی انہیں عطا کرے تو اس میں میرا حصہ و نصیب فراواں کر ۔

(۳) اے اللہ! تیرے ہی لیے جہاں داری اور تیرے ہی لئے حمد و ستائش ہے اور کوئی معبود نہیں تیرے سوا۔ لہذا میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو رحمت نازل فرما اپنے عبد رسول، حبیب، منتخب اور برگزیدہ خلائق محمد پر اور ان کے اہل بیت پر جو نیکو کار پاک و پاکیزہ اور بہترین خلق ہیں ایسی رحمت جس کے شمار پر تیرے علاوہ کوئی قادر نہ ہو۔ اور آج کے دن تیرے ایمان لانے والے بندوں میں سے جو بھی تجھ سے کوئی نیک دعا مانگے تو ہمیں اس میں شریک کر دے۔ اے تمام جہانوں کے پرودگار اور ہمیں اور ان سب کو بخش دے اس لیے کہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔

(۴) اے اللہ! میں اپنی حاجتیں تیری طرف لایا ہوں اور اپنے فقر و فاقہ و احتیاج کا بارگراں تیرے در پر لا اتارا ہے اور میں اپنے عمل سے کہیں زیادہ تیری آمرزش و رحمت پر مطمئن ہوں اور بے شک تیری مغفرت و رحمت کا دام میرے گناہوں سے کہیں زیادہ وسیع ہے لہذا تو محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور میری ہر حاجت تو ہی بر لا۔ اپنی اس قدرت کی بدولت جو تجھے اس پر حاصل ہے اور یہ تیرے لئے سہل و آسان ہے اور اس لیے کہ میں تیرا محتاج اور تو مجھ سے بے نیاز ہے اور اس لیے کہ میں کسی بھلائی کو حاصل نہیں کر سکا مگر تیری جانب سے اور تیرے سوا کوئی مجھ سے دکھ درد دور نہیں کر سکا۔ اور میں دنیا و آخرت کے کاموں میں تیرے علاوہ کسی سے امید نہیں رکھتا۔

(۵) اے اللہ! جو کوئی صلہ وعطا کی امید اور بخشش و انعام کی خواہش لے کر کسی مخلوق کے پاس جانے کے لئے کمر بستہ و آمادہ اور تیار و مستعد ہو تو اے میرے مولا و آقا! آج کے دن میری آمادگی و تیاری اور سروسامان کی فراہمی ومستعدی تیرے عفو و عطا کی امید اور بخشش و انعام کی طلب کے لیے ہے۔

(۶) لہذا اے میر ے معبود! تو محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور آج کے دن میری امیدوں میں مجھے ناکام نہ کر، اے وہ جو مانگنے والے کے ہاتھوں تنگ نہیں ہوتا اور نہ بخشش و عطا سے جس کے ہاں کمی ہوتی ہے میں اپنے کسی عمل خیر پر جسے آگے بھیجا ہو اور سوائے محمد اور ان کے اہل بیت صلوات اللہ علیہ علیہم کی شفاعت کے کسی مخلوق کی سفارش پر جس کی امید رکھی ہو اطمینان کرتے ہوئے تیری بارگاہ میں حاضر نہیں ہوا۔

(۷) تو میں اپنے گناہوں اور اپنے حق میں برائی کا اقرار کرتے ہوئے تیرے پاس حاضر ہوا ہوں۔ درآنحالیکہ میں تیرے اس عفو عظیم کا امیدوار ہوں جس کے ذریعہ تو نے خطاکاروں کو بخش دیا۔ پھر یہ کہ ان کا بڑے بڑے گناہوں پر عرصہ تک جمے رہنا تجھے ان پر مغفرت و رحمت کی احسان فرمائی سے مانع نہ ہوا۔

(۸) اے وہ جس کی رحمت وسیع اور عفو و بخشش عظیم ہے۔ اے بزرگ ! اے عظیم !! اے بخشندہ ! اے کریم !! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور اپنی رحمت سے مجھ پر احسان اور اپنے فضل وکرم کے ذریعہ مجھ پر مہربانی فرما اور میرے حق میں اپنے دامن مغفرت کو وسیع کر ۔

(۹) بار الہا! یہ مقام (خطبہ و امامت نماز جمعہ) تیرے جانشینوں اور برگزیدہ بندوں کے لیے تھا اور تیرے امانتداروں کا محل تھا درآنحالیکہ تو نے اس بلند منصب کے ساتھ انہیں مخصوص کیا تھا (غضب کرنے والوں نے) اسے چھین لیا۔ اور تو ہی روز ازل سے اس چیز کا مقدر کرنے والا ہے نہ تیرا امر و فرمان مغلوب ہو سکتا ہے اور نہ تیری قطعی تدبیر (قضا و قدر) سے جس طرح تو نے چاہا ہو اور جس وقت چاہا ہو تجاوز ممکن ہے۔ اس مصلحت کی وجہ سے جسے تو ہی بہتر جانتا ہے بہر حال تیری تقدیر اور تیرے ارادہ و مشیت کی نسبت تجھ پر الزام عائد نہیں ہو سکتا۔ یہاں تک کہ (اس غضب کے نتیجہ میں) تیرے برگزیدہ اور جانشین مغلوب و مقہور ہو گئے اور ان کا حق ان کے ہاتھ سے جاتا رہا وہ دیکھ رہے ہیں کہ تیرے احکام بدل دیئے گئے، تیری کتاب پس پشت ڈال دی گئی، تیرے فرائض و واجبات تیرے واضح مقاصد سے ہٹا دیئے گئے اور تیرے نبی کے طور و طریقے متروک ہو گئے۔

(۱۰) بار الہا! تو ان برگزیدہ بندوں کے اگلے اور پچھلے دشمنوں پر اور ان پر جو ان دشمنوں کے عمل و کردار پر راضی و خوشنود ہوں اور جو ان کے تابع اور پیروکار ہوں لعنت فرما۔

(۱۱) اے اللہ! محمد اور ان کی آل پر ایسی رحمت نازل فرما بے شک تو قابل حمد و ثناء بزرگی والا ہے جیسی رحمتیں برکتیں اور سلام تو نے اپنے منتخب و برگزیدہ ابراہیم اور آل ابراہیم پر نازل کئے ہیں اور ان کے لیے کشائش، راحت، نصرت غلبہ اور تائید میں تعجیل فرما۔

(۱۲) بار الہا! مجھے توحید کا عقیدہ رکھنے والوں، تجھ پر ایمان لانے والوں اور تیرے رسول اور ان آئمہ کی تصدیق کرنے والوں میں سے قرار دے جب کی اطاعت کو تو نے واجب کیا ہے ان لوگوں میں سے جن کے وسیلے اور جن کے ہاتھوں سے (توحید، ایمان اور تصدیق) یہ سب چیزیں جاری کرے میری دعا کو قبول فرما اے تمام جہانوں کے پروردگار !۔۔۔

(۱۳) بار الہا! تیرے حلم کے سوا کوئی چیز تیرے غضب کو ٹال نہیں سکتی اور تیرے عفو و درگزر کے سوا کوئی چیز تیری ناراضگی کو پلٹا نہیں سکتی اور تیری رحمت کے سوا کوئی چیز تیرے عذاب سے پناہ نہیں دے سکتی اور تیری بارگاہ میں گڑگڑاہٹ کے علاوہ کوئی چیز تجھ سے رہائی نہیں دے سکتی۔ لہذا تو محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور اپنی اس قدرت سے جس سے تو مردوں کو زندہ اور بنجر زمینوں کو شاداب کرتا ہے مجھے اپنی جانب سے غم واندوہ سے چھٹکارا دے۔

(۱۴) بار الہا! جب تک تو میری دعا قبول نہ فرمائے اور اس کی قبولیت سے آگاہ نہ کردے مجھے غم واندوہ سے ہلاک نہ کرنا، اور زندگی کے آخری لمحوں تک مجھے صحت و عافیت کی لذت سے شاد کام رکھنا۔ اور دشمنوں کو (میری حالت پر) خوش ہونے اور میری گردن پر سوار اور مجھ پر مسلط ہونے کا موقعہ نہ دینا۔

(۱۵) بار الہا! اگر تو مجھے بلند کرے تو کون پست کر سکتا ہے اور تو پست کرے تو کون بلند کر سکتا ہے اور تو عزت بخشے تو کون ذلیل کر سکتا ہے اور تو ذلیل کرے تو کون عزت دے سکتا ہے۔ اور تو مجھ پر عذاب کرے تو کون مجھ پر ترس کھا سکتا ہے اور اگر تو ہلاک کر دے توکون تیرے بندے کے بارے میں تجھ پر معترض ہو سکتا ہے یا اس کے متعلق تجھ سے کچھ پوچھ سکتا ہے اور مجھے خوب علم ہے کہ تیرے فیصلہ میں نہ ظلم کا شائبہ ہوتا ہے اور نہ سزا دینے میں جلدی ہوتی ہے۔ جلدی تو وہ کرتا ہے جسے موقع کے ہاتھ سے نکل جانے کا اندیشہ ہو اورظلم کی اسے حاجت ہوتی ہے جو کمزور وناتواں ہو اور تو اے میرے معبود! ان چیزوں سے بہت بلند و برتر ہے۔

(۱۶) اے اللہ ! تو محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور مجھے بلاؤں کا نشانہ اور اپنی عقوبتوں کا ہدف نہ قرار دے ۔ مجھے مہلت دے اور میرے غم کو دور کر۔ میری لغزشوں کو معاف کردے اور مجھے ایک مصیبت کے بعد دوسری مصیبت میں مبتلا نہ کر۔ کیونکہ تو میری ناتوانی بے چارگی اور اپنے حضور میری گڑگڑاہٹ کو دیکھ رہا ہے۔

(۱۷) بار الہا! میں آج کے دن تیرے غضب سے تیرے دامن میں پناہ مانگتا ہوں تو محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور مجھے پناہ دے۔

(۱۸) اور میں آج کے دن تیری ناراضگی سے امان چاہتا ہوں ۔ تو محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور مجھے امان دے۔

(۱۹) اور تیرے عذاب سے امن کا طلب گار ہوں ۔ تو رحمت نازل فرما محمد اور ان کی آل پر اور مجھے (عذاب سے) مطمئن کر دے۔

(۲۰) اور تجھ سے ہدایت کا خواستگار ہوں تو رحمت نازل فرما محمد اور ان کی آل پر اور مجھے ہدایت فرما۔

(۲۱) اور تجھ سے مدد چاہتا ہوں تو رحمت نازل فرما محمد اور ان کی آل پر اور میری مدد فرما۔

(۲۲) اور تجھ سے رحم کی درخواست کرتا ہوں تو رحمت نازل فرما محمد اور ان کی آل پر اور مجھ پر رحم کر۔

(۲۳) اور تجھ سے بے نیازی کا سوال کرتا ہوں تو رحمت نازل فرما محمد اور ان کی آل پر اور مجھے بے نیاز کر دے۔

(۲۴) اور تجھ سے روزی کا سوال کرتا ہوں ۔ تو رحمت نازل فرما محمد اور ان کی آل پر اور مجھے روزی دے ۔

(۲۵) اور تجھ سے کمک کا طالب ہوں تو رحمت نازل فرما محمد اور ان کی آل پر اور میری کمک فرما۔

(۲۶) اور گذشتہ گناہوں کی آمرزش کا خواستگار ہوں تو رحمت نازل فرما محمد اور انکی آل پر اور مجھے بخش دے ۔

(۲۷) اور تجھ سے (گناہوں کے بارے میں) بچاؤ کا خواہاں ہوں تو رحمت نازل فرما محمد اور ان کی آل پر اور مجھے گناہوں سے بچائے رکھ اس لیے کہ اگر تیری مشیت شامل حال رہی تو کسی ایسے کام کا جسے تو مجھ سے نا پسند کرتا ہو مرتکب نہ ہوں گا ۔

(۲۸) اے میرے پروردگار! اے میرے پروردگار! اے مہربان، اے نعمتوں کے بخشنے والے، جلالت وبزرگی کے مالک تو رحمت نازل فرما محمد اور ان کی آل پر اور جو کچھ میں نے مانگا اور جو کچھ طلب کیا ہے اور جن چیزوں کے حصول کے لیے تیری بارگاہ کا رخ کیا ہے ان سے اپنا ارادہ، حکم اور فیصلہ متعلق کر اور انہیں جاری کر دے اور جو بھی فیصلہ کرے اس میں میرے لیے بھلائی قرار دے اور مجھے اس میں برکت عطا کر اور اس کے ذریعہ مجھ پر احسان فرما۔ اور جو عطا فرمائے اس کے وسیلہ سے مجھے خوش بخت بنا دے اور میرے لیے اپنے فضل و کشائش کو جو تیرے پاس ہے زیادہ کر دے اس لیے کہ تو تونگر و کریم ہے اور اس کا سلسلہ آخرت کی خیر و نیکی اور وہاں کی نعمت فراواں سے ملا دے۔ اے تمام رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والے۔ اس کے بعد جو چاہوں دعا مانگوں اور ہزار مرتبہ محمد اور ان کی آل پر درود بھیجوں کہ امام علیہ السلام ایسا ہی کیا کرتے تھے۔)

حوالہ جات

  1. ممدوحی کرمانشاہی، شہود و شناخت، ۱۳۸۸ہجری شمسی، ج۴، ص۲۲۳.
  2. ممدوحی کرمانشاہی، شہود و شناخت، ۱۳۸۸ہجری شمسی، ج۴، ص۲۶۰.
  3. ممدوحی، شہود و شناخت، ۱۳۸۸شمسی ہجری ج۴، ص۲۲۳-۲۶۷؛ شرح فرازہای دعای چہل و ہشتم از سایت عرفان.
  4. انصاریان، دیار عاشقان، ۱۳۷۳ہجری شمسی، ج۷، ص۵۵۷-۵۷۶.
  5. ممدوحی، کتاب شہود و شناخت، ۱۳۸۸ہجری شمسی، ج۴، ص۲۱۵-۲۶۷.
  6. فہری، شرح و تفسیر صحیفہ سجادیہ، ۱۳۸۸ہجری شمسی، ج۳، ص۵۰۵-۵۱۶.
  7. مدنی شیرازی، ریاض السالکین، ۱۴۳۵ھ، ج۷، ص۱۶۳-۲۴۲.
  8. مغنیہ، فی ظلال الصحیفہ، ۱۴۲۸ھ، ص۶۱۱-۶۲۴.
  9. دارابی، ریاض العارفین، ۱۳۷۹ہجری شمسی، ص۶۶۱-۶۸۰.
  10. فضل‌اللہ، آفاق الروح، ۱۴۲۰ھ، ج۲، ص۵۴۵-۵۷۲.
  11. فیض کاشانی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، ۱۴۰۷ھ، ص۹۸-۹۹.
  12. جزایری، شرح الصحیفہ السجادیہ، ۱۴۰۲، ص۲۷۰-۲۷۷.

مآخذ

  • انصاریان، حسین، دیار عاشقان: تفسیر جامع صحیفہ سجادیہ، تہران، پیام آزادی، ۱۳۷۲ہجری شمسی ۔
  • جزایری، عزالدین، شرح الصحیفۃ السجادیۃ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۲ھ ۔
  • دارابی، محمد بن محمد، ریاض العارفین فی شرح الصحیفہ السجادیہ، تحقیق حسین درگاہی، تہران، نشر اسوہ، ۱۳۷۹ہجری شمسی ۔
  • فضل‌اللہ، سید محمد حسین، آفاق الروح، بیروت، دارالمالک، ۱۴۲۰ھ ۔
  • فہری، سید احمد، شرح و ترجمہ صحیفہ سجادیہ، تہران، اسوہ، ۱۳۸۸ہجری شمسی ۔
  • فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، تعلیقات علی الصحیفۃ السجادیہ، تہران، مؤسسۃ البحوث و التحقیقات الثقافیہ، ۱۴۰۷ھ ۔
  • مدنی شیرازی، سید علی‌ خان، ریاض السالکین فی شرح صحیفۃ سید الساجدین، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ۱۴۳۵ھ ۔
  • مغنیہ، محمد جواد، فی ظلال الصحیفہ السجادیہ، قم، دار الکتاب الاسلامی، ۱۴۲۸ھ ۔
  • ممدوحی کرمانشاہی، حسن، شہود و شناخت، ترجمہ و شرح صحیفہ سجادیہ، مقدمہ آیت‌اللہ جوادی آملی، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۸ہجری شمسی ۔

بیرونی روابط