صحیفہ سجادیہ کی انتالیسویں دعا

ویکی شیعہ سے
صحیفہ سجادیہ کی انتالیسویں دعا
کوائف
موضوع:عفو و رحمت الہی کی درخواست، گناہوں سے دوری، اپنے حق میں برا کرنے والوں کی بخشش۔
مأثور/غیرمأثور:مأثورہ
صادرہ از:امام سجاد علیہ السلام
راوی:متوکل بن ہارون
شیعہ منابع:صحیفۂ سجادیہ
مشہور دعائیں اور زیارات
دعائے توسلدعائے کمیلدعائے ندبہدعائے سماتدعائے فرجدعائے عہددعائے ابوحمزہ ثمالیزیارت عاشورازیارت جامعہ کبیرہزیارت وارثزیارت امین‌اللہزیارت اربعین


صحیفہ سجادیہ کی انتالیسویں دعا امام سجادؑ کی مأثورہ دعاوں میں سے ایک ہے کہ جس میں طلب مغفرت اور رحمت الہی کا ذکر ہے۔ اس دعا میں اللہ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ آدمی کے وجود سے گناہوں کی جڑوں کو ختم کر دے اور اسی کے ساتھ اس انسان کی بخشش کے لئے دعا کی گئی ہے جو کسی پر ظلم کئے ہوئے ہو۔ اسی طرح سے اس دعا میں خدا سے مانگا گیا ہے کہ اگر کسی کا حق پایمال کیا گیا ہو اور وہ اسے واپس بھی نہ لے سکنے کی طاقت رکھتا ہو تو اس انسان کو اس سے راضی کرے اور اس کا حق ادا کرے۔ نیز اس دعا میں خلقت انسانی کو قدرت خدا کی نشانی بتایا گیا ہے۔

یہ انتالیسویں دعا جس کی متعدد شرحیں، مختلف زبانوں میں لکھی گئیں ہیں جیسے دیار عاشقان جو حسین انصاریان کی شرح فارسی زبان میں ہے اور اسی طرح ریاض السالکین جو سید علی خان مدنی کی عربی زبان میں شرح موجود ہے۔

دعا و مناجات

تعلیمات

صحیفہ سجادیہ کی انتالیسویں دعا میں امام سجادؑ رحمت الہی کو جلب کرنے کے در پے ہیں۔ اس دعا میں امام چہارمؑ اپنے حق میں دوسروں کی گزشتہ برائیوں کو رحمت الہی تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دے رہے ہیں۔ اور خداوند متعال سے چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ فضل سے کام لیا جائے نہ کہ عدل سے اور انہیں معاف کر دیا جائے۔[1]

اس دعا کی تعلیمات مندرجہ ذیل ہیں:

  • انجام معصیت سے دوری کی درخواست۔
  • گناہوں کی جڑوں کو ختم کرنے کی درخواست۔
  • ان لوگوں کی بخشش کی دعا جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں۔
  • دوسروں کو بخشنے کے سبب عفو و رحمت الہی کی درخواست۔
  • لوگوں کو معاف کرنا تقرب الہی کا ذریعہ۔
  • نقش عفو و گذشت اور انسان کی روحی بلندی۔
  • خدا کے لئے معاف کرنا سخت نہیں ہے۔
  • انسانی خلقت قدرت خدا کی نشانی ہے۔
  • انسانی کاندھوں پر گناہوں کا بوجھ۔
  • انسان گناہ کے ذریعہ خود پر ظلم کرتا ہے۔
  • نیک لوگوں کے لئے نمونہ بننے کی درخواست۔
  • گناہوں کو انجام دینے کی خاطر عذاب کا استحقاق۔
  • بہت زیادہ گناہ انجام دینے کی خاطر خود سے ناامیدی۔
  • گناہگاروں کو بخشش الہی کی امید۔
  • خدا ایسے ناموں سے پاک ہے جس سے مخلوق کو پکارا جاتا ہے۔[2]

شرحیں

صحیفۂ سجادیہ کی انتالیسویں دعا کی بھی شرح دوسری دعاؤں کی طرح کی گئی ہے۔ یہ دعا حسین انصاریان،[3] نے اپنی کتاب دیار عاشقان میں بطور تفصیل فارسی زبان میں شرح کی ہے۔ اسی طرح سے یہ دعا محمد حسن ممدوحی کرمانشاہی کی کتاب شہود و شناخت [4] میں اور سید احمد فہری کی کتاب شرح و ترجمۂ صحیفہ سجادیہ[5] میں فارسی زبان میں شرح کی گئی ہے۔

اسی طرح یہ انتالیسویں دعا بعض دوسری کتابوں میں جیسے، سید علی خان مدنی کی کتاب [[ریاض السالکین فی شرح صحیفہ سید الساجدین|ریاض السالکین]،[6] جواد مغنیہ کی فی ظلال الصحیفہ السجادیہ،[7] محمد بن محمد دارابی[8] کی ریاض العارفین اور سید محمد حسین فضل اللہ [9] کی کتاب آفاق الروح میں عربی زبان میں شرح لکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس دعا کے الفاظ کی توضیح، فیض کاشانی کی کتاب تعلیقات علی الصحیفۃ السجادیۃ میں[10]اور عزالدین جزائری کی کتاب شرح الصحیفہ السجادیہ[11] میں بھی دی گئی ہے۔

دعا کا متن اور ترجمہ

متن ترجمہ: (مفتی جعفر حسین)
وَ كَانَ مِنْ دُعَائِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ فِي طَلَبِ الْعَفْوِ وَ الرَّحْمَةِ

(۱) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ اكْسِرْ شَهْوَتِي عَنْ كُلِّ مَحْرَمٍ، وَ ازْوِ حِرْصِي عَنْ كُلِّ مَأْثَمٍ، وَ امْنَعْنِي عَنْ أَذَى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ، وَ مُسْلِمٍ وَ مُسْلِمَةٍ.

(۲) اللَّهُمَّ وَ أَيُّمَا عَبْدٍ نَالَ مِنِّي مَا حَظَرْتَ عَلَيْهِ، وَ انْتَهَكَ مِنِّي مَا حَجَزْتَ عَلَيْهِ، فَمَضَى بِظُلَامَتِي مَيِّتاً، أَوْ حَصَلَتْ لِي قِبَلَهُ حَيّاً فَاغْفِرْ لَهُ مَا أَلَمَّ بِهِ مِنِّي، وَ اعْفُ لَهُ عَمَّا أَدْبَرَ بِهِ عَنِّي، وَ لَا تَقِفْهُ عَلَى مَا ارْتَكَبَ فِيَّ، وَ لَا تَكْشِفْهُ عَمَّا اكْتَسَبَ بِي، وَ اجْعَلْ مَا سَمَحْتُ بِهِ مِنَ الْعَفْوِ عَنْهُمْ، وَ تَبَرَّعْتُ بِهِ مِنَ الصَّدَقَةِ عَلَيْهِمْ أَزْكَى صَدَقَاتِ الْمُتَصَدِّقِينَ، وَ أَعْلَى صِلَاتِ الْمُتَقَرِّبِينَ

(۳) وَ عَوِّضْنِي مِنْ عَفْوِي عَنْهُمْ عَفْوَكَ، وَ مِنْ دُعَائِي لَهُمْ رَحْمَتَكَ حَتَّى يَسْعَدَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنَّا بِفَضْلِكَ، وَ يَنْجُوَ كُلٌّ مِنَّا بِمَنِّكَ.

(۴) اللَّهُمَّ وَ أَيُّمَا عَبْدٍ مِنْ عَبِيدِكَ أَدْرَكَهُ مِنِّي دَرَكٌ، أَوْ مَسَّهُ مِنْ نَاحِيَتِي أَذًى، أَوْ لَحِقَهُ بِي أَوْ بِسَبَبِي ظُلْمٌ فَفُتُّهُ بِحَقِّهِ، أَوْ سَبَقْتُهُ بِمَظْلِمَتِهِ، فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ أَرْضِهِ عَنِّي مِنْ وُجْدِكَ، وَ أَوْفِهِ حَقَّهُ مِنْ عِنْدِكَ

(۵) ثُمَّ قِنِي مَا يُوجِبُ لَهُ حُكْمُكَ، وَ خَلِّصْنِي مِمَّا يَحْكُمُ بِهِ عَدْلُكَ، فَإِنَّ قُوَّتِي لَا تَسْتَقِلُّ بِنَقِمَتِكَ، وَ إِنَّ طَاقَتِي لَا تَنْهَضُ بِسُخْطِكَ، فَإِنَّكَ إِنْ تُكَافِنِي بِالْحَقِّ تُهْلِكْنِي، وَ إِلَّا تَغَمَّدْنِي بِرَحْمَتِكَ تُوبِقْنِي.

(۶) اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَوْهِبُكَ- يَا إِلَهِي- مَا لَا يُنْقِصُكَ بَذْلُهُ، وَ أَسْتَحْمِلُكَ، مَا لَا يَبْهَظُكَ حَمْلُهُ.

(۷) أَسْتَوْهِبُكَ- يَا إِلَهِي- نَفْسِيَ الَّتِي لَمْ تَخْلُقْهَا لِتَمْتَنِعَ بِهَا مِنْ سُوءٍ، أَوْ لِتَطَرَّقَ بِهَا إِلَى نَفْعٍ، وَ لَكِنْ أَنْشَأْتَهَا إِثْبَاتاً لِقُدْرَتِكَ عَلَى مِثْلِهَا، وَ احْتِجَاجاً بِهَا عَلَى شَكْلِهَا.

(۸) وَ أَسْتَحْمِلُكَ مِنْ ذُنُوبِي مَا قَدْ بَهَظَنِي حَمْلُهُ، وَ أَسْتَعِينُ بِكَ عَلَى مَا قَدْ فَدَحَنِي ثِقْلُهُ.

۹) فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ هَبْ لِنَفْسِي عَلَى ظُلْمِهَا نَفْسِي، وَ وَكِّلْ رَحْمَتَكَ بِاحْتِمَالِ إِصْرِي، فَكَمْ قَدْ لَحِقَتْ رَحْمَتُكَ بِالْمُسِيئِينَ، وَ كَمْ قَدْ شَمِلَ عَفْوُكَ الظَّالِمِينَ.

(۱۰) فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ اجْعَلْنِي أُسْوَةَ مَنْ قَدْ أَنْهَضْتَهُ بِتَجَاوُزِكَ عَنْ مَصَارِعِ الْخَاطِئِينَ، وَ خَلَّصْتَهُ بِتَوْفِيقِكَ مِنْ وَرَطَاتِ الْمُجْرِمِينَ، فَأَصْبَحَ طَلِيقَ عَفْوِكَ مِنْ إِسَارِ سُخْطِكَ، وَ عَتِيقَ صُنْعِكَ مِنْ وَثَاقِ عَدْلِكَ.

(۱۱) إِنَّكَ إِنْ تَفْعَلْ ذَلِكَ- يَا إِلَهِي- تَفْعَلْهُ بِمَنْ لَا يَجْحَدُ اسْتِحْقَاقَ عُقُوبَتِكَ، وَ لَا يُبَرِّئُ نَفْسَهُ مِنِ اسْتِيجَابِ نَقِمَتِكَ

(۱۲) تَفْعَلْ ذَلِكَ- يَا إِلَهِي- بِمَنْ خَوْفُهُ مِنْكَ أَكْثَرُ مِنْ طَمَعِهِ فِيكَ، وَ بِمَنْ يَأْسُهُ مِنَ النَّجَاةِ أَوْكَدُ مِنْ رَجَائِهِ لِلْخَلَاصِ، لَا أَنْ يَكُونَ يَأْسُهُ قُنُوطاً، أَوْ أَنْ يَكُونَ طَمَعُهُ اغْتِرَاراً، بَلْ لِقِلَّةِ حَسَنَاتِهِ بَيْنَ سَيِّئَاتِهِ، وَ ضَعْفِ حُجَجِهِ فِي جَمِيعِ تَبِعَاتِهِ

(۱۳) فَأَمَّا أَنْتَ- يَا إِلَهِي- فَأَهْلٌ أَنْ لَا يَغْتَرَّ بِكَ الصِّدِّيقُونَ، وَ لَا يَيْأَسَ مِنْكَ الْمُجْرِمُونَ، لِأَنَّكَ الرَّبُّ الْعَظِيمُ الَّذِي لَا يَمْنَعُ أَحَداً فَضْلَهُ، وَ لَا يَسْتَقْصِي مِنْ أَحَدٍ حَقَّهُ.

(۱۴) تَعَالَى ذِكْرُكَ عَنِ الْمَذْكُورِينَ، وَ تَقَدَّسَتْ أَسْمَاؤُكَ عَنِ الْمَنْسُوبِينَ، وَ فَشَتْ نِعْمَتُكَ فِي جَمِيعِ الْمَخْلُوقِينَ، فَلَكَ الْحَمْدُ عَلَى ذَلِكَ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ.

طلب عفو و رحمت کی دعا

(۱) بار الہا! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور ہر امر حرام سے میری خواہش (کا زور) توڑ دے اور ہر گناہ سے میری حرص کا رخ موڑ دے اور ہر مومن اور مومنہ مسلم اور مسلمہ کی ایذا رسانی سے مجھے باز رکھ۔

(۲) اے میرے معبود ! جو بندہ بھی میرے بارے میں ایسے امر کا مرتکب ہو جسے تو نے اس پر حرام کیا تھا اور میری عزت پر حملہ آور ہوا جس سے تو نے اسے منع کیا تھا، میرا مظلمہ لے کر دنیا سے اٹھ گیا ہو یا حالت حیات میں اس کے ذمہ باقی ہو تو اس نے مجھ پر ظلم کیا ہے اسے بخش دے اور میرا جو حق لے کر چلا گیا ہے اسے معاف کر دے اور میری نسبت جس امر کا مرتکب ہوا ہے اس پر اسے سرزنش نہ کر اور مجھے آزردہ کرنے کے باعث اسے رسوا نہ فرما اور جس عفو و درگزر کی میں نے ان کے لیے کش کی ہے اور جس کرم و بخشش کو میں نے ان کے لیے روا رکھا ہے اسے صدقہ کرنے والوں کے صدقہ سے پاکیزہ تر اور تقرب چاہنے والوں کے عطیوں سے بلند تر قرار دے

(۳) اور اس عفو و درگزر کے عوض تو مجھ سے درگزر کر اور ان کے لیے دعا کرنے کے صلہ میں مجھے اپنی رحمت سے سرفراز فرما تاکہ ہم میں سے ہر ایک تیرے فضل و کرم کی بدولت خوش نصیب ہو سکے اور تیرے لطف و احسان کی وجہ سے نجات پا جائے

(۴) اے اللہ ! تیرے بندوں میں سے جس کسی کو مجھ سے کوئی ضرر پہنچا ہو یا میری جانب سے کوئی اذیت پہنچتی ہو یا مجھ سے یا میر ی وجہ سے اس پر ظلم ہوا ہو اس طرح کہ میں نے اس کے کسی حق کو ضائع کیا ہو یا اس کے کسی مظلمہ کی داد خواہی نہ کی ہو۔ تو محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور اپنی غنا و تونگری کے ذریعہ اسے مجھ سے راضی کر دے اور اپنے پاس سے اس کا حق بے کم و کاست ادا کر دے۔

(۵) پھر یہ کہ اس چیز سے جس کا تیرے حکم کے تحت سزاوار ہوں، بچا لے اور جو تیرے عدل کا تقاضا ہے اس سے نجات دے۔ اس لیے کہ مجھے تیرے عذاب کے برداشت کرنے کی تاب نہیں اور تیری ناراضگی کے جھیل لے جانے کی ہمت نہیں۔ لہذا اگر تو مجھے حق و انصاف کی رو سے بدلہ دے گا۔ تو مجھے ہلاک کر دے گا اور اگر دامن رحمت میں نہیں ڈھانپے گا تو مجھے تباہ کردے گا۔

(۶) اے اللہ ! اے میرے معبود! میں تجھ سے اس چیز کا طالب ہوں جس کے عطا کرنے سے تیرے ہاں کچھ کمی نہیں ہوتی اور وہ بار تجھ پر رکھنا چاہتا ہوں جو تجھے گرانبار نہیں بناتا۔

(۷) اور تجھ سے اس جان کی بھیک مانگتا ہوں جسے تو نے اس لیے پیدا نہیں کیا کہ اس کے ذریعہ ضرر و زیاں سے تحفظ کرے یا منفعت کی راہ نکالے بلکہ اس لیے پیدا کیا تاکہ اس امر کا ثبوت بہم پہنچائے اور اس بات پر دلیل لائے کہ تو اس جیسی اور اس طرح کی مخلوق پیدا کرنے پر قادر و توانا ہے؛

(۸) اور تجھ سے اس امر کا خواستگار ہوں کہ مجھے ان گناہوں سے سبکبار کر دے جن کا بار مجھے ہلکان کیے ہوئے ہے اور تجھ سے مدد مانگتا ہوں اس چیز کی نسبت جس کی گرانباری نے مجھے عاجز کر دیا یے

(۹) تو محمد اوران کی آل پر رحمت نازل فرما اور میرے نفس کو باوجودیکہ اس نے خود اپنے اوپر ظلم کیا ہے بخش دے اور اپنی رحمت جو میرے گناہوں کا بار گراں اٹھانے پر مامور کر اس لیے کہ کتنی ہی مرتبہ تیری رحمت گنہگاروں کے ہمکنار اور تیرا عفو و کرم ظالموں کے شامل حال رہا ہے۔

(۱۰) تو محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور مجھے ان لوگوں کے لیے نمونہ بنا جنہیں تو نے اپنے عفو کے ذریعہ خطا کاروں کے گرنے کے مقامات سے اوپر اٹھا لیا اور جنہیں تو نے اپنی توفیق سے گنہگاروں کے مہلکوں سے بچا لیا۔ تو وہ تیرے عفو و بخش کے وسیلہ سے تیری ناراضگی سے بندھنوں سے چھوٹ گئے اور تیرے احسان کی بدولت عدل کی بندشوں سے آزاد ہو گئے۔

(۱۱) اے میرے اللہ ! اگر تو مجھے معاف کر دے تو تیرا یہ سلوک اس کے ساتھ ہوگا جو سزاوار عقوبت ہونے سے انکاری نہیں ہے اور نہ مستحق سزا ہونے سے اپنے کو بری سمجھتا ہے یہ تیرا برتاؤ اس کے ساتھ ہوگا۔

(۱۲) اے میرے معبود ! جس کا خوف امید عفو سے بڑھا ہوا ہے اورجس کی نجات سے ناامیدی، رہائی کی توقع سے قوی تر ہے۔ یہ اس لیے نہیں کہ اس کی نا امیدی رحمت سے مایوسی ہو یا یہ کہ اس کی امید فریب خوردگی کا نتیجہ ہو بلکہ اس لیے کہ اس کی برائیاں نیکیوں کے مقابلہ میں کم اور گناہوں کے تمام موارد میں عذر خواہی کے وجوہ کمزور ہیں۔

(۱۳) لیکن اے میرے معبود تو اس کا سزا وار ہے کہ راستباز لوگ بھی تیری رحمت پر مغرور ہو کر فریب نہ کھائیں اورگنہگار بھی تجھ سے نا امید نہ ہوں اس لیے کہ تو وہ رب عظیم ہے کہ کسی پر فضل و احسان سے دریغ نہیں کرتا اور کسی سے اپنا حق پورا پورا وصول کرنے کے درپے نہیں ہوتا۔

(۱۴) تیرا ذکر تمام نام آوروں (کے ذکر) سے بلند تر ہے اور تیرے اسماء اس سے کہ دوسرے حسب و نسب والے ان سے موسوم ہوں منزہ ہیں۔ تیری نعمتیں تمام کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں لہذا اس سلسلہ میں تیرے ہی لیے حمد و ستائش ہے اے تمام جہان کے پروردگار!


حوالہ جات

  1. ممدوحی کرمانشاہی، شہود و شناخت، ۱۳۸۸ش، ج۳، ص۲۶۳۔
  2. انصاریان، دیار عاشقان، ۱۳۷۳ش، ج۷، ص۲۹۹-۳۰۳؛ ممدوحی، شہود و شناخت، ۱۳۸۸ش، ج۳، ص۲۶۳-۲۷۷؛ شرح فرازہای دعای سی و نہم از سایت عرفان۔
  3. انصاریان، دیار عاشقان، ۱۳۷۳ش، ج۷، ص۲۹۳-۳۰۳۔
  4. ممدوحی، کتاب شہود و شناخت، ۱۳۸۸ش، ج۳، ص۲۵۹-۲۷۷۔
  5. فہری، شرح و تفسیر صحیفہ سجادیہ، ۱۳۸۸ش، ج۳، ص۱۳۳-۱۳۹۔
  6. مدنی شیرازی، ریاض السالکین، ۱۴۳۵ھ، ج۵، ص۲۹۲-۳۳۸۔
  7. مغنیہ، فی ظلال الصحیفہ، ۱۴۲۸ھ، ص۴۴۹-۴۵۹۔
  8. دارابی، ریاض العارفین، ۱۳۷۹ش، ص۴۷۹-۴۸۸۔
  9. فضل‌ اللہ، آفاق الروح، ۱۴۲۰ھ، ج۲، ص۲۷۳-۲۹۰۔
  10. فیض کاشانی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، ۱۴۰۷ھ، ص۷۵-۷۶۔
  11. جزایری، شرح الصحیفہ السجادیہ، ۱۴۰۲، ص۱۹۵-۱۹۹۔

مآخذ

  • انصاریان، حسین، دیار عاشقان: تفسیر جامع صحیفہ سجادیہ، تہران، پیام آزادی، ۱۳۷۲ ہجری شمسی۔
  • جزایری، عزالدین، شرح الصحیفۃ السجادیۃ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۲ھ۔
  • دارابی، محمد بن محمد، ریاض العارفین فی شرح الصحیفہ السجادیہ، تحقیق حسین درگاہی، تہران، نشر اسوہ، ۱۳۷۹ ہجری شمسی۔
  • فضل‌ اللہ، سید محمد حسین، آفاق الروح، بیروت، دارالمالک، ۱۴۲۰ھ۔
  • فہری، سید احمد، شرح و ترجمہ صحیفہ سجادیہ، تہران، اسوہ، ۱۳۸۸ ہجری شمسی۔
  • فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، تہران، مؤسسہ البحوث و التحقیقات الثقافیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • مدنی شیرازی، سید علی‌ خان، ریاض السالکین فی شرح صحیفۃ سیدالساجدین، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ۱۴۳۵ھ۔
  • مغنیہ، محمد جواد، فی ظلال الصحیفہ السجادیہ، قم، دار الکتاب الاسلامی، ۱۴۲۸ھ۔
  • ممدوحی کرمانشاہی، حسن، شہود و شناخت، ترجمہ و شرح صحیفہ سجادیہ، مقدمہ آیت‌اللہ جوادی آملی، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۸ ہجری شمسی۔

بیرونی روابط