صحیفہ سجادیہ کی بارہویں دعا
| کوائف | |
|---|---|
| دیگر اسامی: | اعترافِ گناہ اور استغفار |
| موضوع: | خطا و معصیت کا اعتراف اور طلب مغفرت، موانع دعا، خاصان خدا کی خصوصیات |
| مأثور/غیرمأثور: | مأثور |
| صادرہ از: | امام سجاد علیہ السلام |
| راوی: | متوکل بن ہارون |
| شیعہ منابع: | صحیفۂ سجادیہ |
| مشہور دعائیں اور زیارات | |
| دعائے توسل • دعائے کمیل • دعائے ندبہ • دعائے سمات • دعائے فرج • دعائے عہد • دعائے ابوحمزہ ثمالی • زیارت عاشورا • زیارت جامعہ کبیرہ • زیارت وارث • زیارت امیناللہ • زیارت اربعین | |
صحیفۂ سجادیہ کی بارہویں دعا، اعتراف گناہ اور طلب مغفرت کے سلسلہ میں امام سجادؑ سے مأثور اور منقول ہے۔ امام سجادؑ نے اسبابِ سلب توفیقاتِ دعا، خدا کے محبوب بندوں کی خصوصیات، باب توبہ کا کھُلا رہنا اور توبہ کرنے والے انسانوں کے حالات بیان کئے ہیں۔
صحیفہ سجادیہ کی شرحوں میں جیسے حسین انصاریان نے دیار عاشقان میں فارسی میں اور سید علی خان مدنی نے ریاض السالکین فی شرح صحیفہ سید الساجدین میں عربی میں، بارہویں دعا کی شرح کی ہے۔
تعلیمات
صحیفۂ سجادیہ کی بارہویں دعا کا اصلی اور بنیادی موضوع، گناہوں کا اقرار، خدا کی جانب بازگشت کی درخواست، توفیق دعا کے سلب ہونے کے اسباب، توبہ کرنے والے بندوں کی خصوصیات اور بہترین بندگان خدا کی خصلتیں ہیں [1]۔ 16 بند پر مشتمل امام سجادؑ کے دہن مبارک پر جاری ہونے والی اس دعا کی تعلیمات [2] مندرجہ ذیل ہیں:
- توفیق دعا کے سلب ہونے کے اسباب: احکام خدا کو انجام دینے میں کوتاہی اور واجبات سےغفلت، خدا کے منع کردہ امور کو انجام دینے میں عجلت اور شکرنعمت کی ادائیگی میں سستی (یعنی کفران نعمت)۔
- خدا کا فضل اور اس کی عنایت، خدا پر بندوں کے حسن ظن کا سبب اور اس سے درخواست کی بنیاد۔
- خدا کا احسان اور اس کی نعمتیں سب اس کے فضل و کرم کی وجہ سے ہیں۔
- مخلوقات خدا کی محتاج ہیں۔
- گناہوں سے نجات کے لئے خدا سے توفیق کی درخواست۔
- گناہ اور سرکشی کے نتائج و آثار کی تشویش۔
- گناہگاروں کے لئے بابِ توبہ کا کھلا ہونا۔
- توبہ کے مواقع کو غنیمت سمجھنا۔
- باب توبہ کھلا ہونے کی صورت میں رحمتِ خدا سے ناامیدی کی ممانعت۔
- توبہ کرنے والے کی حالت: تواضع اور انکساری میں خم ہوجانا، پیروں میں لرزہ اور تھرتھراہٹ آنا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہونا و۔۔۔
- بخششِ الہی کا امیدوار ہونا (توبہ کے وسیلہ رحمت خدا کو اس کے غضب پر سبقت پانا)۔
- رحمت و مغفرتِ الہی کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔
- بارگاہ خدا میں اپنی عاجزی کا اعتراف۔
- بہترین اور محبوب بندوں کی خصوصیات: تکبر سے دوری، گناہوں پر اصرار سے پرہیز اور استغفار کو واجب و لازم سمجھنا۔
- خدا پر توکل کرنا اور تکبر و گناہ پر اصرار پر بخشش کی درخواست۔
- گناہوں کے برے اثرات کی بہ نسبت خدا سے پناہ مانگنا اور اس سے امید رکھنا۔
- خدا پر توکل و بھروسہ رکھنا اور حق کے سامنے عاجزی کا مظاہرہ ۔
- اطاعت کے لئے خدا سے مدد مانگنا۔
- بخشش کے حقدار خدا سے ڈرنا۔
- خدا سے پناہ مانگنا فقط کامیابی کا راستہ ہے۔
- دعاؤں کی قبولیت اور استجابت کا خدا ضامن ہے۔
- گناہگار بندوں کے ذریعہ بھی خدا کی نعمتوں سے استفادہ۔
- گناہوں کے وسیلہ بندوں کا اپنے اوپر ظلم کرنا۔
- خدا کی خوشنودی بندوں کے قلیل اعمال اور اس کے اجر عظیم پر۔[3]۔
شرحیں
صحیفۂ سجادیہ کی بارہویں دعا کی بھی شرح کی گئی ہے۔ حسین انصاریان [4] نے اپنی فارسی کتاب دیار عاشقان میں مفصل اس دعا کی شرح کی ہے۔ اسی طرح محمد حسن ممدوحی کرمانشاہی نے اپنی کتاب شہود و شناخت [5] میں اور سید احمد فہری نے اپنی کتاب شرح و ترجمۂ صحیفہ سجادیہ[6] میں فارسی میں شرح فرمائی ہے۔
اسی طرح اس بارہویں دعا کی بعض دوسری کتابوں میں جیسے، سید علی خان مدنی کی کتاب ریاض السالکین [7] میں، جواد مغنیہ کی کتاب فی ظلال الصحیفہ السجادیہ [8] میں، محمد بن محمد دارابی [9] کی کتاب ریاض العارفین میں اور سید محمد حسین فضل اللہ [10] کی کتاب آفاق الروح میں عربی زبان میں شرح کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس دعا کے الفاظ کی، فیض کاشانی کی کتاب تعلیقات علی الصحیفۃ السجادیۃ میں تشریح کی گئی ہے[11]۔
متن اور ترجمہ
وَ كَانَ مِنْ دُعَائِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ فِي الاِعْتِرَافِ وَ طَلَبِ التَّوْبَةِ إِلَي اللهِ تَعَالَي
اللَّهُمَّ إِنَّهُ يَحْجُبُنِي عَنْ مَسْأَلَتِكَ خِلَالٌ ثَلَاثٌ ، وَ تَحْدُونِي عَلَيْهَا خَلَّةٌ وَاحِدَةٌ
يَحْجُبُنِي أَمْرٌ أَمَرْتَ بِهِ فَأَبْطَأْتُ عَنْهُ ، وَ نَهْيٌ نَهَيْتَنِي عَنْهُ فَأَسْرَعْتُ إِلَيْهِ ، وَ نِعْمَةٌ أَنْعَمْتَ بِهَا عَلَيَّ فَقَصَّرْتُ فِي شُكْرِهَا.
وَ يَحْدُونِي عَلَى مَسْأَلَتِكَ تَفَضُّلُكَ عَلَى مَنْ أَقْبَلَ بِوَجْهِهِ إِلَيْكَ ، وَ وَفَدَ بِحُسْنِ ظَنِّهِ إِلَيْكَ ، إِذْ جَمِيعُ إِحْسَانِكَ تَفَضُّلٌ ، وَ إِذْ كُلُّ نِعَمِكَ ابْتِدَاءٌ
فَهَا أَنَا ذَا ، يَا إِلَهِي ، وَاقِفٌ بِبَابِ عِزِّكَ وُقُوفَ الْمُسْتَسْلِمِ الذَّلِيلِ ، وَ سَائِلُكَ عَلَى الْحَيَاءِ مِنِّي سُؤَالَ الْبَائِسِ الْمُعيِلِ
مُقِرٌّ لَكَ بِأَنِّي لَمْ أَسْتَسْلِمْ وَقْتَ إِحْسَانِكَ إِلَّا بِالْإِقْلَاعِ عَنْ عِصْيَانِكَ ، وَ لَمْ أَخْلُ فِي الْحَالَاتِ كُلِّهَا مِنِ امْتِنَانِكَ.
فَهَلْ يَنْفَعُنِي ، يَا إِلَهِي ، إِقْرَارِي عِنْدَكَ بِسُوءِ مَا اكْتَسَبْتُ وَ هَلْ يُنْجِينِي مِنْكَ اعْتِرَافِي لَكَ بِقَبِيحِ مَا ارْتَكَبْتُ أَمْ أَوْجَبْتَ لِي فِي مَقَامِي هَذَا سُخْطَكَ أَمْ لَزِمَنِي فِي وَقْتِ دُعَايَ مَقْتُكَ.
سُبْحَانَكَ ، لَا أَيْأَسُ مِنْكَ وَ قَدْ فَتَحْتَ لِي بَابَ التَّوْبَةِ إِلَيْكَ ، بَلْ أَقُولُ مَقَالَ الْعَبْدِ الذَّلِيلِ الظَّالِمِ لِنَفْسِهِ الْمُسْتَخِفِّ بِحُرْمَةِ رَبِّهِ.
الَّذِي عَظُمَتْ ذُنُوبُهُ فَجَلَّتْ ، وَ أَدْبَرَتْ أَيَّامُهُ فَوَلَّتْ حَتَّى إِذَا رَأَى مُدَّةَ الْعَمَلِ قَدِ انْقَضَتْ وَ غَايَةَ الْعُمُرِ قَدِ انْتَهَتْ ، وَ أَيْقَنَ أَنَّهُ لَا مَحِيصَ لَهُ مِنْكَ ، وَ لَا مَهْرَبَ لَهُ عَنْكَ ، تَلَقَّاكَ بِالْإِنَابَةِ ، وَ أَخْلَصَ لَكَ التَّوْبَةَ ، فَقَامَ إِلَيْكَ بِقَلْبٍ طَاهِرٍ نَقِيٍّ ، ثُمَّ دَعَاكَ بِصَوْتٍ حَائِلٍ خَفِيٍّ.
قَدْ تَطَأْطَأَ لَكَ فَانْحَنَى ، وَ نَكَّسَ رَأْسَهُ فَانْثَنَى ، قَدْ أَرْعَشَتْ خَشْيَتُهُ رِجْلَيْهِ ، وَ غَرَّقَتْ دُمُوعُهُ خَدَّيْهِ ، يَدْعُوكَ بِيَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ ، وَ يَا أَرْحَمَ مَنِ انْتَابَهُ الْمُسْتَرْحِمُونَ ، وَ يَا أَعْطَفَ مَنْ أَطَافَ بِهِ الْمُسْتَغْفِرُونَ ، وَ يَا مَنْ عَفْوُهُ أَكْثَرُ مِنْ نَقِمَتِهِ ، وَ يَا مَنْ رِضَاهُ أَوْفَرُ مِنْ سَخَطِهِ.
وَ يَا مَنْ تَحَمَّدَ إِلَى خَلْقِهِ بِحُسْنِ التَّجَاوُزِ ، وَ يَا مَنْ عَوَّدَ عِبَادَهُ قَبُولَ الْإِنَابَةِ ، وَ يَا مَنِ اسْتَصْلَحَ فَاسِدَهُمْ بِالتَّوْبَةِ وَ يَا مَنْ رَضِيَ مِنْ فِعْلِهِمْ بِالْيَسِيرِ ، وَ يَا مَنْ كَافَى قَلِيلَهُمْ بِالْكَثِيرِ ، وَ يَا مَنْ ضَمِنَ لَهُمْ إِجَابَةَ الدُّعَاءِ ، وَ يَا مَنْ وَعَدَهُمْ عَلَى نَفْسِهِ بِتَفَضُّلِهِ حُسْنَ الْجَزَاءِ.
مَا أَنَا بِأَعْصَى مَنْ عَصَاكَ فَغَفَرْتَ لَهُ ، وَ مَا أَنَا بِأَلْوَمِ مَنِ اعْتَذَرَ إِلَيْكَ فَقَبِلْتَ مِنْهُ ، وَ مَا أَنَا بِأَظْلَمِ مَنْ تَابَ إِلَيْكَ فَعُدْتَ عَلَيْهِ.
أَتُوبُ إِلَيْكَ فِي مَقَامِي هَذَا تَوْبَةَ نَادِمٍ عَلَى مَا فَرَطَ مِنْهُ ، مُشْفِقٍ مِمَّا اجْتَمَعَ عَلَيْهِ ، خَالِصِ الْحَيَاءِ مِمَّا وَقَعَ فيِهِ.
عَالِمٍ لَيْكَ، بِأَنَّ الْعَفْوَ عَنِ الذَّنْبِ الْعَظِيمِ لَا يَتَعَاظَمُكَ ، وَ أَنَّ التَّجَاوُزَ عَنِ الْإِثْمِ الْجَلِيلِ لَا يَسْتَصْعِبُكَ ، وَ أَنَّ احْتِمالَ الْجِنَايَاتِ الْفَاحِشَةِ لَا يَتَكَأَّدُكَ ، وَ أَنَّ أَحَبَّ عِبَادِكَ إِلَيْكَ مَنْ تَرَكَ الاِسْتِكْبَارَ عَلَيْكَ ، وَ جَانَبَ الْاِصْرَارَ ، وَ لَزِمَ الاِسْتِغْفَارَ.
وَ أَنَا أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِنْ أَنْ أَسْتَكْبِرَ ، وَ أَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ أُصِرَّ ، وَ أَسْتَغْفِرُكَ لِمَا قَصَّرْتُ فِيهِ ، وَ أَسْتَعِينُ بِكَ عَلَى مَا عَجَزْتُ عَنْهُ.
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ ، وَ هَبْ لِي مَا يَجِبُ عَلَيَّ لَكَ ، وَ عَافِنِي مِمَّا أَسْتَوْجِبُهُ مِنْكَ ، وَ أَجِرْنِي مِمَّا يَخَافُهُ أَهْلُ الْإِسَاءَةِ ، فَإِنَّكَ مَلِيءٌ بِالْعَفْوِ ، مَرْجُوٌّ لِلْمَغْفِرَةِ ، مَعْرُوفٌ بِالتَّجَاوُزِ ، لَيْسَ لِحَاجَتِي مَطْلَبٌ سِوَاكَ ، وَ لَا لِذَنْبِي غَافِرٌ غَيْرُكَ ، حَاشَاكَ.
وَ لَا أَخَافُ عَلَى نَفْسِي إِلَّا إِيَّاكَ ، إِنَّكَ أَهْلُ التَّقْوَى وَ أَهْلُ الْمَغْفِرَةِ ، صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ ، وَ اقْضِ حَاجَتِي ، وَ أَنْجِحْ طَلِبَتِي ، وَ اغْفِرْ ذَنْبِي ، وَ آمِنْ خَوْفَ نَفْسِي ، إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، وَ ذَلِكَ عَلَيْكَ يَسِيرٌ ، آمِينَ رَبَّ الْعَالَمِينَ.
اعتراف گناہ اور طلب توبہ کے سلسلے میں حضرت کی دعا
اے اللہ ! مجھے تین باتیں تیری بارگاہ میں سوال کرنے سے روکتی ہیں اور ایک بات اس پر آمادہ کرتی ہے، جو باتیں روکتی ہیں:
ان میں سے 1- یہ ہے کہ جس امر کا تو نے حکم دیا میں نے اس کی تعمیل میں سستی کی۔ 2- یہ کہ جس چیز سے تو نے منع کیا اس کی طرف تیزی سے بڑھا۔ 3- جو نعمتیں تو نے مجھے عطا کیں ان کا شکریہ ادا کرنے میں کوتاہی کی۔
اور جو بات مجھے سوال کرنے کی جرات دلاتی ہے وہ تیرا تفضل و احسان ہے جو تیری طرف رجوع ہونے والوں اور حسن ظن کے ساتھ آنے والوں کے ہمیشہ شریک حال رہا ہے کیونکہ تیرے تمام احسانات صرف تیرے تفضل کی بنا پر ہیں اور تیری ہر نعمت بغیر کسی سابقہ استحقاق کے ہے۔
اچھا پھر اے میرے معبود! میں تیرے دروازہ عز و جلال پر ایک عبد مطیع و ذلیل کی طرح کھڑا ہوں اور شرمندگی کے ساتھ ایک فقیر و محتاج کی حیثیت سے سوال کرتا ہوں
اس امر کا اقرار کرتے ہوئے کہ تیرے احسانات کے وقت ترک معصیت کے علاوہ اور کوئی اطاعت (از قبیل حمد و شکر) نہ کر سکا۔ اور میں کسی حالت میں تیرے انعام و احسان سے خالی نہیں رہا۔
تو کیا اے میرے معبود! یہ بد اعمالیوں کا اقرار تیری بارگاہ میں میرے لۓ سود مند ہو سکتا ہے اور وہ برائیاں جو مجھ سے سرزد ہوئی ہیں ان کا اعتراف تیرے عذاب سے نجات کا باعث قرار قرار پا سکتا ہے۔ یا یہ کہ تو نے اس مقام پر مجھ پر غضب کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اوردعا کے وقت اپنی ناراضگی کو میرے لیے برقرار رکھا ہے؟!
تو پاک و منزہ ہے۔ میں تیری رحمت سے مایوس نہیں ہوں، اس لیے کہ تو نے اپنی بارگاہ کی طرف میرے لیے توبہ کا دروازہ کھول دیا ہے۔ بلکہ میں اس بندہ ذلیل کی سی بات کہہ رہا ہوں جس نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور اپنے پرودگار کی حرمت کا لحاظ نہ رکھا۔
جس کے گناہ عظیم روز افزوں ہیں جس کی زندگی کے دن گزر گئے اورگزرے جا رہے ہیں یہاں تک کہ جب اس نے دیکھا کہ مدت عمل تمام ہو گئی اور عمر اپنی آخری حد کو پہنچ گئی اور یہ یقین ہو گیا کہ اب تیرے ہاں حاضر ہوئے بغیر کوئی چارہ اور تجھ سے نکل بھاگنے کی کوئی صورت نہیں ہے تو وہ ہمہ تن تیری طرف رجوع ہوا اور صدق بیت سے تیری بارگاہ میں توبہ کی۔ اب وہ بالکل پاک و صاف دل کے ساتھ تیرے حضور کھڑا ہوا۔ پھر کپکپاتی آواز سے اوردبے لہجے میں تجھے پکارا!
اس حالت میں کہ خشوع و تذلل کے ساتھ تیرے سامنے جھک گیا اور سر کو نیوڑھا کر تیرے آگے خمیدہ ہوگیا۔ خوف سے اس کے دونوں پاؤں تھرا رہے ہیں اور سیل اشک اس کے رخساروں پر رواں ہے۔ اور تجھے اس طرح پکار رہا ہے۔ اے سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والے! اے ان سب سے بڑھ کر رحم کرنے والے جن سے طلبگاران رحم و کرم بار بار رحم کی التجائیں کرتے ہیں۔ اے ان سب سے زیادہ مہربانی کرنے والے جن کے گرد معافی چاہنے والے گھیرا ڈالے رہتے ہیں۔ اے وہ جس کا عفو و درگذر اس کے انتقام سے فزوں تر ہے۔
اے وہ جس کی خوشنودی اس کی ناراضگی سے زیادہ ہے۔ اے وہ جو بہترین عفو و درگزر کے باعث مخلوقات کے نزدیک حمد و ستائش کا مستحق ہے۔ اے وہ جس نے اپنے بندوں کو قبول توبہ کا خوگر کیا ہے۔ اور توبہ کے ذریعہ ان کے بگڑے ہوئے کاموں کی درستی چاہی ہے۔ اے وہ جو ان کے ذرا سے عمل پر خوش ہو جاتا ہے اور تھوڑے سے کام کا بدلہ زیادہ دیتا ہے۔ اے وہ جس نے ان کی دعاؤں کو قبول کرنے کا ذمہ لیا ہے۔ اے وہ جس نے از روئے تفضل و احسان بہترین جزا کا وعدہ کیا ہے۔
جن لوگوں نے تیری معصیت کی اور تو نے انہیں بخش دیا میں ان سے زیادہ گنہگار نہیں ہوں اور جنہوں نے تجھ سے معذرت کی اور تو نے ان کی معذرت کو قبول کر لیا ان سے زیادہ قابل سر زنش نہیں ہوں اور جنہوں نے تیری بارگاہ میں توبہ کی اور تو نے (توبہ کو قبول فرما کر) ان پر احسان کیا ان سے زیادہ ظالم نہیں ہوں۔
لہذا میں اپنے اس موقف کو دیکھتے ہوئے تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔ اس شخص کی سی توبہ جو اپنے پچھلے گناہوں پر نادم اور خطاؤں کے ہجوم سے خوف زدہ اور جن برائیوں کا مرتکب ہوتا رہا ہے ان پر واقعی شرمسار ہو۔
اور جانتا ہو کہ بڑے سے بڑے گناہ کو معاف کر دینا تیرے نزدیک کوئی بڑی بات نہیں ہے اور بڑی سے بڑی خطا سے درگزر کرنا تیرے لیے کوئی مشکل نہیں ہے اور سخت سے سخت جرم سے چشم پوشی کرنا تجھے ذرا گراں نہیں ہے یقینا تمام بندوں میں سے وہ بندہ تجھے زیادہ محبوب ہے جو تیرے مقابلہ میں سرکشی نہ کرے۔ گناہوں پر مصر نہ ہو اور توبہ و استغفارکی پابندی کرے۔
اور میں تیرے حضور غرور و سرکشی سے دست بردار ہوتا ہوں اور گناہوں پر اصرار سے تیرے دامن میں پناہ مانگتا ہوں اور جہاں جہاں کوتاہی کی ہے اس کے لیے عفو و بخشش کا طلب گار ہوں اور جن کاموں کے انجام دینے سے عاجز ہوں ان میں تجھ سے مدد کا خواستگار ہوں۔
اے اللہ تو رحمت نازل فرما محمد اور ان کی آل پر اور تیرے جو جو حقوق میرے ذمہ عائد ہوتے ہیں انہیں بخش دے اور جس پاداش کا میں سزاوار ہوں اس سے معافی دے اور مجھے اس عذاب سے پناہ دے جس سے گنہگار ہراساں ہیں اس لیے کہ تو معاف کر دینے پر قادر ہے اور تجھ ہی سے مغفرت کی امید کی جا سکتی ہے اور تو اس صفت عفو و درگزر میں معروف ہے اور تیرے سوا حاجت کے پیش کرنے کی کوئی جگہ نہیں ہے اور نہ تیرے علاوہ کوئی میرے گناہوں کا بخشنے والا ہے۔ حاشا و کلا کوئی اور بخشنے والا نہیں ہے
اور مجھے اپنے بارے میں ڈر ہے تو بس تیرا۔ اس لیے کہ تو ہی اس کا سزاوار ہے کہ تجھ سے ڈرا جائے اور تو ہی اس کا اہل ہے کہ بخشش و آمرزش سے کام لے۔ تو محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور میری حاجت بر لا اور میری مراد پوری کر۔ میرے گناہ بخش دے اور میرے دل کو خوف سے مطمئن کر دے۔ اس لیے کہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور یہ کام تیرے لۓ سہل و آسان ہے۔ میری دعا قبول فرما اے تمام جہان کے پروردگار!
حوالہ جات
- ↑ ممدوحی، شہود و شناخت، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۵۰۵۔
- ↑ ترجمہ و شرح دعای دوازدہم صحیفہ سجادیہ، سایت عرفان۔
- ↑ انصاریان، دیار عاشقان، 1372ش، ج5، ص129-157؛ ممدوحی، شہود و شناخت، 1388ش، ج1، ص505-557۔
- ↑ انصاریان، دیار عاشقان، 1372ش، ج5، ص125-157۔
- ↑ ممدوحی، کتاب شہود و شناخت، 1388ش، ج1، ص505-557۔
- ↑ فہری، شرح و تفسیر صحیفہ سجادیہ، 1388ش، ج2، ص15-62۔
- ↑ مدنی شیرازی، ریاض السالکین، 1435ھ، ج2، ص465-523۔
- ↑ مغنیہ، فی ظلال الصحیفہ، 1428ھ، ص171-181۔
- ↑ دارابی، ریاض العارفین، 1379ش، ص137-140۔
- ↑ دارابی، ریاض العارفین، 1379ش، ص145-158۔
- ↑ فیض کاشانی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، 1407ھ، ص35-38۔
مآخذ
- انصاریان، حسین، دیار عاشقان: تفسیر جامع صحیفہ سجادیہ، تہران، پیام آزادی، 1372 ہجری شمسی۔
- دارابی، محمد بن محمد، ریاض العارفین فی شرح الصحیفہ السجادیہ، تحقیق حسین درگاہی، تہران، نشر اسوہ، 1379 ہجری شمسی۔
- فضل اللہ، سید محمد حسین، آفاق الروح، بیروت، دارالمالک، 1420ھ۔
- فہری، سید احمد، شرح و ترجمہ صحیفہ سجادیہ، تہران، اسوہ، 1388 ہجری شمسی۔
- فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، تہران، مؤسسہ البحوث و التحقیقات الثقافیہ، 1407ھ۔
- مدنی شیرازی، سید علی خان، ریاض السالکین فی شرح صحیفۃ سیدالساجدین، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، 1435ھ۔
- مغنیہ، محمد جواد، فی ظلال الصحیفہ السجادیہ، قم، دار الکتاب الاسلامی، 1428ھ۔
- ممدوحی کرمانشاہی، حسن، شہود و شناخت، ترجمہ و شرح صحیفہ سجادیہ، مقدمہ آیتاللہ جوادی آملی، قم، بوستان کتاب، 1388 ہجری شمسی۔
بیرونی روابط
- صحیفہ سجادیہ کی بارہویں دعا:آڈیو سائٹ عرفان
- دعائے صحیفہ سجادیہ کا اردو سائٹ مرکز افکار اسلامی