کوفہ میں حضرت زینب کا خطبہ
کوفہ میں حضرت زینب(س) کا خطبہ | |
---|---|
حدیث کے کوائف | |
موضوع | امام حسینؑ کی مدد نہ کرنے پر کوفہ والوں کی سرزنش |
صادر از | حضرت زینب(س) |
شیعہ مآخذ | اَمالی شیخ مُفید، اَمالی شیخ طوسی، مَناقبِ اِبنِشَہرآشوب، اِحتِجاجِ طَبْرِسی، مُثیرُ الاَحزان و لُہوفِ سید اِبنِطاووس |
اہل سنت مآخذ | بَلاغاتُ النِساء، البُلْدان، التَذکِرَۃُ الحَمْدونیّہ، نَثْرُ الدُرِّ فی المُحاضِرات و مَقْتَلُ الحسین خوارزمی |
مشہور احادیث | |
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل |
کوفہ میں حضرت زینب کا خطبہ، اس خطبے کو کہا جاتا ہے جسے حضرت زینب(س) نے واقعہ کربلا کے بعد کوفہ میں دیا تھا۔ اس خطبے میں حضرت زینب(س) نے واقعہ کربلا میں امام حسینؑ کی مدد کرنے میں کوتاہی کرنے پر کوفہ والوں کی سرزنش کی۔ اس خطبہ کو خاندان رسالت کی مظلومیت کو بیان کرنے نیز دشمن کے چہرے کو بے نقاب کرنے میں سب سے زیادہ موثر تاریخی سند قرار دیا جاتا ہے۔
امام سجادؑ نے اس خطبہ کے بعد اپنی پھوپھی کو عالِمَۃٌ غَیرُ مُعَلَّمَۃ (استاد سے سیکھے بغیر جاننے والی) کا لقب دیا تھا، جسے بعض لوگ حضرت زینب(س) کے علوم لَدُنّی سے بہرہ مند ہونے کی نشانی قرار دیتے ہیں۔ یہ خطبہ مخاطب پر اثر انداز ہونے اور فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے ہمیشہ محققین کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ عُبَیْدُ اللہ بن زیاد نے اس خطبے کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے حضرت زینب سے مناظرہ کیا؛ لیکن حضرت زینب(س) نے منطقی اور استدلالی بیانات کے ذریعے اسے ذلیل و رسوا کیا۔ حضرت زینب نے اس خطبہ میں کوفیوں کو خواب غلفت سے بیدار کرنے کے لئے قرآن کی مختلف آیات سے تمسک کیا۔ مورخین کے مطابق کوفہ کے لوگوں کے مردہ ضمیروں کو بیدار کرنے، واقعہ کربلا کو تحریف سے بچانے اور قاتلین امام حسینؑ سے انتقام لینے کے لئے زمینہ ہموار کرنے میں اس خطبے کا اہم کردار ہے۔ مختلف شاعروں نے اس خطبہ کے بارے میں اشعار جبکہ مختلف مصنفین نے مختلف کتابیں اور مقالات تحریر کی ہیں جن میں حیدرقلی سردار کابلی کی کتاب "شرحُ خَُطبۃِ زینب(س) فی الْکوفہ" کا نام لیا جا سکتا ہے۔
معرفی اور تاریخ اسلام اس خطبے کی اہمیت
واقعات | |
---|---|
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوط • حسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تک • واقعۂ عاشورا • واقعۂ عاشورا کی تقویم • روز تاسوعا • روز عاشورا • واقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میں • شب عاشورا | |
شخصیات | |
امام حسینؑ علی اکبر • علی اصغر • عباس بن علی • زینب کبری • سکینہ بنت الحسین • فاطمہ بنت امام حسین • مسلم بن عقیل • شہدائے واقعہ کربلا • | |
مقامات | |
حرم حسینی • حرم حضرت عباسؑ • تل زینبیہ • قتلگاہ • شریعہ فرات • امام بارگاہ | |
مواقع | |
تاسوعا • عاشورا • عشرہ محرم • اربعین • عشرہ صفر | |
مراسمات | |
زیارت عاشورا • زیارت اربعین • مرثیہ • نوحہ • تباکی • تعزیہ • مجلس • زنجیرزنی • ماتم داری • عَلَم • سبیل • جلوس عزا • شام غریبان • شبیہ تابوت • اربعین کے جلوس |
کوفہ میں حضرت زینب کا خطبہ، وہ خطبہ ہے جسے حضرت زینب(س) نے واقعہ کربلا کے بعد اہل کوفہ کو ان کی غلطیوں اور اشتباہات سے آگاہ کرنے کے لئے دیا تھا۔[1] اس خطبہ کو فصاحت و بلاغت کا اعلی نمونہ قرار دیا گیا ہے۔[2] اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای اس بات کے معتقد ہیں کہ حضرت زینب نے کوفہ اور شام جیسے شہروں میں اس قدر زیرکانہ اور مہارت کے ساتھ خطبہ دیا ہے کہ دشمن بھی اسے نادیدہ قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔[3]
جواد مُحَدِّثی کتاب فرہنگ عاشورا کے مصنف نے اس خطبہ کو خاندان رسالت کی مظلومیت اور واقعہ عاشورا میں امام حسینؑ کی سیرت کو بیان کرنے اور دشمنوں کے چہروں کو بے نقاب کرنے میں سب سے زیادہ قیمتی تاریخی سند قرار دیتے ہیں۔[4] وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ اس خطبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسینؑ کا خاندان کس قدر عمیق معرفت سے بہرہ مند ہیں۔[5]
شیخ مفید نقل کرتے ہیں کہ جب حضرت زینب نے یہ خطبہ دینا شروع کیا تو لوگوں کو یہ گمان ہونے لگا کہ امام علیؑ فصاحت و بلاغت کے ساتھ خطبہ دے رہے ہیں۔[6] طَبْرسی بھی لکھتے ہیں کہ اس خطبہ کے دوران لوگوں کے سینوں میں سانس رکنے لگا اور اونٹوں کی گھنٹیاں خاموش ہو گئیں۔[7] شیخ طوسی کے مطابق اس خطبہ کے بعد لوگ حیران اور پریشان ہو کر رونے لگے اور حیرت سے انگشت بہ دندان رہ گئے۔[8]
مصنفین ایک سوگوار خاتون کی طرف سے اس طرح کے فصیح و بلیغ خطبہ دینے کو حیران کن قرار دیتے ہیں جس نے حال ہی میں اپنے بھائیوں، بچوں اور کئی رشتہ داروں کو کھو دیا ہو۔[9] امام سجادؑ نے اس خطبہ کے بعد اپنی پھوپھی کو عالِمَۃٌ غَیرُ مُعَلَّمَۃ (کسی استاد سے سیکھے بغیر جاننے والی خاتون) کا لقب دیا اور حضرت زینب سے خطبہ جاری نہ رکھنے کی درخواست کی جس پر حضرت زینب خاموش ہو گئیں۔[10] بعض محققین امام سجادؑ کی اس تعبیر کو حضرت زینب(س) کی علوم لَدُنّی سے آگاہ ہونے کی دلیل قرار دیتے ہیں۔[11] کوفہ میں حضرت زینب کے اس خطبے کو مخاطب پر اثر انداز ہونے اور فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے ہمیشہ محققین کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔[12]
امام سجادؑ نے اس خطبہ کے بعد اپنی پھوپھی اماں حضرت زینب(س) سے مخاطب ہو کر کہا: «يَا عَمَّۃِ اسْكُتِي فَفِي الْبَاقِي مِنَ الْمَاضِي اعْتِبَارٌ وَ أَنْتِ بِحَمْدِ اللَّہِ عَالِمَۃٌ غَيْرُ مُعَلَّمَۃٍ فَہِمَۃٌ غَيْرُ مُفَہَّمَۃٍ إِنَّ الْبُكَاءَ وَ الْحَنِينَ لَا يَرُدَّانِ مَنْ قَدْ أَبَادَہُ الدَّہْر»۔[13]
اے پھوپھی اماں خاموش ہو جائیں۔ باقی رہنے والے گذشتگان سے عبرت حاصل کرنا چاہئے اورآپ الحمد اللَّہ کسی استاد سے سیکھے بغیر ایک عالمہ اور حکیمہ خاتون ہیں۔ گریہ و زاری اس دنیا سے رخصت ہونے والوں کو واپس نہیں لاتے۔
یہ خطبہ مختلف منابع میں آیا ہے: شیعہ منابع میں اَمالی شیخ مُفید،[14] اَمالی شیخ طوسی،[15] مَناقبِ اِبنِشَہرآشوب،[16]، اِحتِجاجِ طَبْرِسی،[17] مُثیرُ الاَحزان[18] اور لُہوفِ سید اِبنِطاووس،[19]جبکہ اہل سُنَّت مآخذ میں بَلاغاتُ النِساء[20]، البُلْدان[21]، التَذکِرَۃُ الحَمْدونیّہ[22]، نَثْرُ الدُرِّ فی المُحاضِرات[23] اور مَقْتَلُ الحسین خوارزمی[24] کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ اہل سنت کے بعض منابع میں یہ خطبہ حضرت زینب کی بجائے آپ کی بہن اُمِّ کُلْثوم(س) کی طرف نسبت دی گئی ہے۔[25]
ابن زیاد کا اس خطبے سے مقابلہ کرنے کی کوشش
عُبَیْدُ اللہ بن زیاد نے اس خطبہ سے مقابلہ کرنے کے لئے ایک مجلس برگزار کیا جس میں جدل اور مغالطہ کے ذریعے اسیران کربلا کو خوف زدہ کرنے اور اپنے آپ کو فاتح اور امام حسینؑ کے قیام کو شکست خوردہ قرار دینے کی کوشش کی۔[26] لیکن حضرت زینب(س) نے منطقی اور استدلالی بیانات کے ذریعے ابن زیاد کی تمام باتوں کو باطل قرار دیا۔[27] لکھا گیا ہے کہ اگرچہ حضرت زینب کا خطبہ حکومت کے خلاف تھا، لیکن آپ کو خطبہ دینے سے روکا نہیں گیا کیونکہ ایک طرف اعراب اس خطبہ سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور دوسری جانب کوفہ کی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون خطبہ دے رہی تھی؛ وہ بھی ایک قیدی خاتون جس کا خطبہ دینے کا انداز بھی لاجواب تھا۔[28]
مضامین
«يَا أَہْلَ الْكُوفَۃِ أَ تَدْرُونَ أَيَّ كَبِدٍ لِرَسُولِ اللَّہِ فَرَيْتُمْ وَ أَيَّ كَرِيمَۃٍ لَہُ أَبْرَزْتُمْ وَ أَيَّ دَمٍ لَہُ سَفَكْتُمْ وَ أَيَّ حُرْمَۃٍ لَہُ انْتَہَكْتُمْ وَ لَقَدْ جِئْتُمْ بِہَا صَلْعَاءَ عَنْقَاءَ سَوْآءَ فَقْمَاءَ وَ فِي بَعْضِہَا خَرْقَاءَ شَوْہَاءَ كَطِلَاعِ الْأَرْضِ أَوْ مِلْءِ السَّمَاءِ أَ فَعَجِبْتُمْ أَنْ مَطَرَتِ السَّمَاءُ دَماً 《وَ لَعَذابُ الْآخِرَۃِ أَخْزى》»۔ (ترجمہ: اے اہل کوفہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم لوگوں نے رسول خداؐ کس کلیجے کو پھاڑا ہے اور کن با پردہ خواتین کو ان کے حرم سے باہر آنے پر مجبور کیا ہے اور کیسے خون کو بہایا ہے، اور کیسی محترم شخصیت کی بے احترامی کی ہے!؟ یقینا ایک بہت ہولناک، برا، سخت، ناروا، پر تشدد اور شرم آور کام تم لوگوں نے انجام دیا ہے جس کی مثال پورے آسمانوں اور زمین میں نہیں ہے۔ آیا کیا یہ تمہارے لئے حیرت کا مقام ہے کہ اس معاملے میں آسمان خون کی آنسو روے!؟ 《اور یقیناً آخرت کا عذاب ذلیل و رسو کرنے والا ہے۔》⟨سورہ فصّلت آیت نمبر 16⟩)
سید بنطاووس، اللہوف علی قتلی الطفوف، 1348ہجری شمسی، ص148۔
بعض محققین کے مطابق حضرت زینب نے شام میں دئے گئے اپنے منقطقی اور استدلالی خطبے کے برخلاف کوفہ میں اکثر احساساتی اور جذباتی انداز میں کوفیوں کے ضمیروں کو جنجوڑ کر رکھ دیا۔[29] اس خطبہ کی خصوصیات میں سے ایک قرآن کی آیات اور تمثیلات سے بہت زیادہ تمسک ہے۔[30] حضرت زینب نے اس خطبہ میں کوفیوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے قرآن کی درج ذیل آیتوں سے تمسک کیا:[31]
- سورہ نحل آیت نمبر 92 : اس آیت سے استناد کرتے ہوئے آپ نے امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوط کا حوالہ دیتے ہوئے اہل کوفہ کے متضاد کردار اور عہد شکنی پر ان کی سرزنش کی۔[32]
- سورہ مائدہ آیت نمبر 80: اس آیت سے استناد کرتے ہوئے کوفیوں کی گمراہی اور یزید کے ساتھ ملحق ہونے کو ان کی باطل کی پیروی اور دوستی کا نتیجہ قرار دیا۔[33]
- سورہ توبہ آیت نمبر 82: حضرت زینب نے اس آیت کے ذریعے اہل کوفہ کے اعمال کے نتیجے میں ان کے تلخ مستقبل اور دائمی گریہ و زاری کی طرف اشارہ کیا۔[34]
- سورہ انعام آیت نمبر 31: اس آیت کے ذریعے اہل کوفہ کی عہد شکنی کو ان کی قیامت پر ایمان نہ رکھنے کا نتیجہ قرار دیا۔[35]
- سورہ بقرہ آیت نمبر 61: حضرت زینب نے اس آیت کے ذریعے اہل کوفہ کو خدا کے لئے قیام نہ کرنے، غیبی امداد پر ایمان نہ رکھنے اور حجت خدا کی حمایت نہ کرنے کے حوالے سے بنی اسرائیل کے ساتھ تشبیہ دیا اور ان دونوں کو عذاب اور ذلت کا مستحق قرار دیا۔[36]
- آیت نمبر 89 اور آیت نمبر 90: ان آیات کے ذریعے حضرت زینب نے اہل کوفہ کے اعمال کو کافروں کے اعمال کے ساتھ تشبیہ دیا۔[37]
اس خطبے کے اثرات
درج ذیل امور کو کوفہ میں حضرت زینب کے خطبے کے اثرات میں شمار کیا گیا ہے:
- اہل کوفہ کے مردہ ضمیروں کا بیدارہونا؛[38]
- اِبنِ زیاد کے ذریعے واقعہ کربلا میں تحریف پیدا ہونے سے محفوظ رہنا؛[39]
- اسیران کربلا کو خارجی قرار دینے کے[40] دشمنوں کے نقشے کو خاک میں ملانا[41]
- بنی اُمَیّہ کی خلافت میں اسلامی معاشرے کی انحطاط کو آشکار کرنا؛[42]
- امام حسینؑ اور آپ کے باوفا اصحاب کے انتقام کے لئے زمینہ ہموار کرنا؛[43]
- اہل کوفہ کے احساسات اور جذبات کو ہاتھ میں لے لینا۔[44]
ادبیات میں اس خطبے کا اثر
عاشورا سے مربوط ادبی محفلوں میں حضرت زینب کو واقعہ کربلا کے پیغام رساں کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔[45] اگرچہ حضرت زینب سے مربوط زیادہ تر اشعار میں آپ کو ایک غمزدہ خاتون کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن کوفہ اور اور شام میں آپ کے دئے گئے خطبے کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھے گئے اشعار میں حضرت زینب(س) کو ایک بہادر، مظبوط ارادوں کے مالک اور باطل کو للکارنے والی خاتون کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔[46] شیعہ تاریخی محقق سید جعفر شہیدی اس بات کے معتقد ہیں کہ اگر شام اور کوفہ میں حضرت زینب نے خطبہ نہ دیا ہوتا تو واقعہ عاشورا کی عظمت اکثر افراد کے لئے معلوم نہ ہوتی۔[47] مہدی الہی قمشہای،[48] اسماعیل منصوری لاریجانی[49] اور نیّر تبریزی[50] نے اس خطبے کا فارسی منظوم ترجمہ کیا ہے۔
مونوگراف
کوفہ میں حضرت زینب کے خطبے کے بارے میں مختلف کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
- شرحُ خَُطبۃِ زینب(س) فی الکوفہ، یہ کتاب عربی زبان میں حیدر قلی سردار کابلی کی تحریر ہے سے رضا استادی کی تحقیق کے ساتھ انتشارات کتابخانہ تخصصی علوم حدیث نے سنہ 1396ش کو منتشر کیا ہے۔[51]
- تکرار حماسہ علیؑ در خطبہ حضرت زینب(س)، یہ کتاب فارسی زبان میں علی کریمی جہرمی کی تحریر ہے جسے انتشارات حضرت معصومہ(س) نے سنہ 1375ش کو قم میں منتشر کیا ہے۔[52]
- بازار کوفہ میں حضرت زینب کا خطبہ، یہ کتاب سید توقیر عباسکاظمی کی تحریر ہے جسے المصطفی انٹرنیشنل ترجمہ سنٹر نے سنہ 1398ش میں منتشر کیا ہے۔[53]
متعلقہ صفحات
متن اور ترجمہ
متن | ترجمه |
ثُمَّ قَالَتْ بَعْدَ حَمْدِ اللَّهِ تَعَالَى وَالصَّلَاةِ عَلَى رَسُولِهِ (ص):أما بعد :يَا أَهْلَ الْكُوفَةِ يَا أَهْلَ الْخَتْلِ وَالْغَدْرِ وَالْخَذْلِ أَلَا فَلَا رَقَأَتِ الْعَبْرَةُ وَلَا هَدَأَتِ الزَّفْرَةُ إِنَّمَا مَثَلُكُمْ كَمَثَلِ الَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَها مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكاثاً تَتَّخِذُونَ أَيْمانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ هَلْ فِيكُمْ إِلَّا الصَّلَفُ وَالْعُجْبُ وَالشَّنَفُ وَالْكَذِبُ وَمَلَقُ الْإِمَاءِ وَغَمْزُ الْأَعْدَاءِ أَوْ كَمَرْعًى عَلَى دِمْنَةٍ أَوْ كَفِضَّةٍ عَلَى مَلْحُودَةٍ أَلَا بِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ وَفِي الْعَذَابِ أَنْتُمْ خَالِدُونَ أتَبْكُونَ أَخِي؟! أَجَلْ، وَاللَّهِ فَابْكُوا فَإِنَّكُمْ أَحْرَى بِالْبُكَاءِ فَابْكُوا كَثِيراً وَاضْحَكُوا قَلِيلًا فَقَدْ أَبْلَيْتُمْ بِعَارِهَا وَمَنَيْتُمْ بِشَنَارِهَا وَلَنْ تَرْحَضُوهَا أَبَداً وَأَنَّى تَرْحَضُونَ قُتِلَ سَلِيلُ خَاتَمِ النُّبُوَّةِ وَمَعْدِنِ الرِّسَالَةِ وَسَيِّدُ شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَمَلَاذُ حَرْبِكُمْ وَمَعَاذُ حِزْبِكُمْ وَمَقَرُّ سِلْمِكُمْ وَآسِي كَلْمِكُمْ وَمَفْزَعُ نَازِلَتِكُمْ وَالْمَرْجِعُ إِلَيْهِ عِنْدَ مُقَاتَلَتِكُمْ- وَمَدَرَةُ حُجَجِكُمْ وَمَنَارُ مَحَجَّتِكُمْ أَلَا سَاءَ مَا قَدَّمَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ وَسَاءَ مَا تَزِرُونَ لِيَوْمِ بَعْثِكُمُ فَتَعْساً تَعْساً وَنَكْساً نَكْساً لَقَدْ خَابَ السَّعْيُ وَتَبَّتِ الْأَيْدِي وَخَسِرَتِ الصَّفْقَةُ وَبُؤْتُمْ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ* وَضُرِبَتْ عَلَيْكُمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ أَ تَدْرُونَ وَيْلَكُمْ أَيَّ كَبِدٍ لِمُحَمَّدٍ ص فَرَثْتُمْ وَأَيَّ عَهْدٍ نَكَثْتُمْ وَأَيَّ كَرِيمَةٍ لَهُ أَبْرَزْتُمْ وَأَيَّ حُرْمَةٍ لَهُ هَتَكْتُمْ وَأَيَّ دَمٍ لَهُ سَفَكْتُمْ أَ فَعَجِبْتُمْ أَنْ تُمْطِرَ السَّمَاءُ دَماً وَلَعَذابُ الْآخِرَةِ أَخْزى وَهُمْ لا يُنْصَرُونَ- فَلَا يَسْتَخِفَّنَّكُمُ الْمَهَلُ فَإِنَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَحْفِزُهُ الْبِدَارُ «3» وَلَا يُخْشَى عَلَيْهِ فَوْتُ النَّارِ كَلَّا إِنَّ رَبَّكَ لَنَا وَلَهُمْ لَبِالْمِرْصادِ ثُمَّ أَنْشَأَتْ تَقُولُ (ع): مَا ذَا تَقُولُونَ إِذْ قَالَ النَّبِيُّ لَكُمْ مَا ذَا صَنَعْتُمْ وَأَنْتُمْ آخِرُ الْأُمَمِ بِأَهْلِ بَيْتِي وَأَوْلَادِي وَتَكْرِمَتِي مِنْهُمْ أُسَارَى وَمِنْهُمْ ضُرِّجُوا بِدَمٍ مَا كَانَ ذَاكَ جَزَائِي إِذْ نَصَحْتُ لَكُمْ أَنْ تَخْلُفُونِي بِسُوءٍ فِي ذَوِي رَحِمِي إِنِّي لَأَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ يَحُلَّ بِكُمْ مِثْلُ الْعَذَابِ الَّذِي أَوْدَى عَلَى إِرَمٍ ثُمَّ وَلَّتْ عَنْهُمْ- قَالَ حِذْيَمٌ فَرَأَيْتُ النَّاسَ حَيَارَى قَدْ رَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ فَالْتَفَتَ إِلَيَّ شَيْخٌ فِي جَانِبِي يَبْكِي وَقَدِ اخْضَلَّتْ لِحْيَتُهُ بِالْبُكَاءِ وَيَدُهُ مَرْفُوعَةٌ إِلَى السَّمَاءِ وَهُوَ يَقُولُ بِأَبِي وَأُمِّي كُهُولُهُمْ خَيْرُ كُهُولٍ وَنِسَاؤُهُمْ خَيْرُ نِسَاءٍ وَشَبَابُهُمْ خَيْرُ شَبَابٍ وَنَسْلُهُمْ نَسْلٌ كَرِيمٌ وَفَضْلُهُمْ فَضْلٌ عَظِيمٌ ثُمَّ أَنْشَدَ: كُهُولُكُمْ خَيْرُ الْكُهُولِ وَنَسْلُكُمْ إِذَا عُدَّ نَسْلٌ لَا يَبُورُ وَلَا يَخْزَى فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ يَا عَمَّةِ اسْكُتِي فَفِي الْبَاقِي مِنَ الْمَاضِي اعْتِبَارٌ وَأَنْتِ بِحَمْدِ اللَّهِ عَالِمَةٌ غَيْرُ مُعَلَّمَةٍ فَهِمَةٌ غَيْرُ مُفَهَّمَةٍ إِنَّ الْبُكَاءَ وَالْحَنِينَ لَا يَرُدَّانِ مَنْ قَدْ أَبَادَهُ الدَّهْرُ فَسَكَتَتْ- ثُمَّ نَزَلَ (ع) وَضَرَبَ فُسْطَاطَهُ وَأَنْزَلَ نِسَاءَهُ وَدَخَلَ الْفُسْطَاطَ.۔ |
سب تعریفیں خداوند ذوالجلال و الاکرام کے لئے ہیں اور درود و سلام ہو میرے نانا محمد (ص) پر اور ان کی طیب و طاہر اور نیک و پاک اولاد پر۔ اما بعد! اے اہلِ کوفہ! اے اہل فریب و مکر! کیا اب تم روتے ہو؟ (خدا کرے) تمھارے آنسو کبھی خشک نہ ہوں اور تمھاری آہ و فغان کبھی بند نہ ہو! تمھاری مثال اس عورت جیسی ہے جس نے بڑی محنت و جانفشانی سے محکم ڈوری بانٹی اور پھر خود ہی اسے کھول دیا اور اپنی محنت پر پانی پھیر دیا تم (منافقانہ طور پر) ایسی جھوٹی قسمیں کھاتے ہو، جن میں کوئی صداقت نہیں۔ تم جتنے بھی ہو، سب کے سب بیہودہ گو، ڈینگ مارنے والے، پیکرِ فسق و فجور اور فسادی، کینہ پرور اور لونڈیوں کی طرح جھوٹے چاپلوس اور دشمنی کی غماز ہو۔ تمھاری یہ کیفیت ہے کہ جیسے کثافت کی جگہ سبزی یا اس چاندی جیسی ہے جو دفن شدہ عورت (کی قبر) پر رکھی جائے۔ آگاہ رہو! تم نے بہت ہی برے اعمال کا ارتکاب کیا ہے۔ جس کی وجہ سے خدا وند عالم تم پر غضب ناک ہے۔ اس لئے تم اس کے ابدی عذاب و عتاب میں گرفتار ہو گئے۔ اب کیوں گریہ و بکا کرتے ہو؟ ہاں بخدا البتہ تم اس کے سزاوار ہو کہ روۆ زیادہ اور ہنسو کم۔ تم امام علیہ السلام کے قتل کی عار و شنار میں گرفتار ہو چکے ہو اور تم اس دھبے کو کبھی دھو نہیں سکتے اور بھلا تم خاتم نبوت اور معدن رسالت کے سلیل (فرزند) اور جوانان جنت کے سردار، جنگ میں اپنے پشت پناہ، مصیبت میں جائے پناہ، منارہئ حجت اور عالم سنت کے قتل کے الزام سے کیونکر بری ہو سکتے ہو۔ لعنت ہو تم پر اور ہلاکت ہے تمہارے لئے۔ تم نے بہت ہی برے کام کا ارتکاب کیا ہے اور آخرت کے لئے بہت برا ذخیرہ جمع کیا ہے۔ تمھاری کوشش رائیگاں ہو گئی اورتم برباد ہو گئے۔ تمہاری تجارت خسارے میں رہی اور تم خدا کے غضب کا شکار ہو گئے۔ تم ذلت و رسوائی میں مبتلا ہوئے۔ افسوس ہے اے اہل کوفہ تم پر، کچھ جانتے بھی ہو کہ تم نے رسول (ص) کے کس جگر کو پارہ پارہ کر دیا؟ اور ان کا کون سا خون بہایا؟ اور ان کی کون سی ہتک حرمت کی؟ اور ان کی کن مستورات کو بے پردہ کیا؟ تم نے ایسے اعمال شنیعہ کا ارتکاب کیا ہے کہ آسمان گر پڑیں، زمین شگافتہ ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں۔ تم نے قتلِ امام کا جرم شنیع کیا ہے جو پہنائی و وسعت میں آسمان و زمین کے برابر ہے۔ اگر اس قدر بڑے پر آسمان سے خون برسا ہے تو تم تعجب کیوں کرتے ہو؟ یقیناً آخرت کا عذاب اس سے زیادہ سخت اور رسوا کن ہوگا۔ اور اس وقت تمہاری کوئی امداد نہ کی جائے گی۔ تمہیں جو مہلت ملی ہے اس سے خوش نہ ہو۔ کیونکہ خداوندِ عالم بدلہ لینے میں جلدی نہیں کرتا کیونکہ اسے انتقام کے فوت ہو جانے کا خدشہ نہیں ہے۔ ”یقیناً تمہارا خدا اپنے نا فرمان بندوں کی گھات میں ہے”۔ |
حوالہ جات
- ↑ حسینی دہآبادی، «نگرشی کوتاہ بہ قیام امام حسینؑ»، ص423۔
- ↑ قزوینی، زینب الکبری(س) مِنَ المَہدِ اِلی اللَحد، 1427ھ، ص188۔
- ↑ حسینی خامنہای، بیانات در دیدار جمعی از پیشکسوتان جہاد و شہادت و خاطرہگویان دفتر ادبیات و ہنر مقاومت۔
- ↑ محدثی، فرہنگ عاشورا، 1376ہجری شمسی، ص163۔
- ↑ محدثی، فرہنگ عاشورا، 1376ہجری شمسی، ص163۔
- ↑ شیخ مفید، الامالی، 1413ھ، ص321۔
- ↑ طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج2، ص304۔
- ↑ شیخ طوسی، الامالی، 1414ھ، ص93۔
- ↑ داوودی، و مہدی رستمنژاد، عاشورا، ریشہہا، انگیزہہا، رویدادہا، پیامدہا، 1386ہجری شمسی، ص554۔
- ↑ طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج2، ص305۔
- ↑ شفیعی مازندرانی، عاشورا حماسہ جاویدان، 1381ہجری شمسی، ص215۔
- ↑ رضایی، و محدثہ دلارامنژاد، «تحلیل فرانقش اندیشگانی خطبہ حضرت زینب(س) بر اساس دستور نقش گرای ہلیدی»، ص46؛ ہمچنین برای نمونہ نگاہ کنید بہ مقالہہای: یاراحمدی، و زہرا خیراللہی، «معارف قرآنی در خطبہ حضرت زینب(س)»؛ خرسندی، و دیگران، «تحلیل بلاغی خطبہ حضرت زینب(س)»؛ روشنفکر و دانش محمدی، «تحلیل گفتمان ادبی خطبہہای حضرت زینب(س)»؛ حسینی اجداد، «تجزیہ و تحلیل ادبی خطب؛ حضرت زینب(س) در کوفہ»؛ ایشانی، و معصومہ نعمتی قزوینی، «تحلیل خطبہ حضرت زینب در کوفہ بر اساس نظریہ کنش گفتار سرل»؛ سلیمانی، «جلوہہای بلاغت در کملام پیامآور عاشورا»۔
- ↑ طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج2، ص305۔
- ↑ شیخ مفید، الامالی، 1413ھ، ص321-323۔
- ↑ شیخ طوسی، الامالی، 1414ھ، ص92-93۔
- ↑ ابنشہرآشوب، المناقب، 1379ھ، ج4، ص115۔
- ↑ طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج2، ص304-305۔
- ↑ ابننماحلّی، مثیر الاحزان، 1406ھ، ص86۔
- ↑ سید ابنطاووس، اللہوف، 1348ھ، ص146-149۔
- ↑ ابنطیفور، بلاغات النساء، الشریف الرضی، ص37-39۔
- ↑ ابنفقیہ، البلدان، 1416ھ، ص224۔
- ↑ ابنحمدون، التذکرۃ الحمدونیہ، 1417ھ، ج6، ص264-265۔
- ↑ ابنسعد الآبی، نثر الدر فی المحاضرات، 1424ھ، ج4، ص19-20۔
- ↑ خوارزمی، مقتل الحسینؑ، 1381ہجری شمسی، ج2، ص45-47۔
- ↑ ابنطیفور، بلاغات النساء، الشریف الرضی، ص37-39؛ ابنحمدون، التذکرۃ الحمدونیہ، 1417ھ، ج6، ص264-265؛ ابنسعد الآبی، نثر الدر فی المحاضرات، 1424ھ، ج4، ص19-20۔
- ↑ منصوری لاریجانی، زینب کبری(س) پیامآور عاشورا، 1395ہجری شمسی، ص110-111۔
- ↑ منصوری لاریجانی، زینب کبری(س) پیامآور عاشورا، 1395ہجری شمسی، ص112۔
- ↑ فریشلر، امام حسین و ایران، 1366ہجری شمسی، ص473-474۔
- ↑ روشنفکر، و دانش محمدی، «تحلیل گفتمان ادبی خطبہہای حضرت زینب(س)»، ص134؛ و ص140۔
- ↑ حسینی اجداد، «تجزیہ و تحلیل ادبی خطبہ حضرت زینب(س) در کوفہ» ،ص124۔
- ↑ خانیمقدم، «چرایی تجلی قرآن در خطبہہای حضرت زینب(س)، اہداف و نتایج»، ص72-77۔
- ↑ خانیمقدم، «چرایی تجلی قرآن در خطبہہای حضرت زینب(س)، اہداف و نتایج»، ص72-73۔
- ↑ خانیمقدم، «چرایی تجلی قرآن در خطبہہای حضرت زینب(س)، اہداف و نتایج»، ص73-74۔
- ↑ خانیمقدم، «چرایی تجلی قرآن در خطبہہای حضرت زینب(س)، اہداف و نتایج»، ص74۔
- ↑ خانیمقدم، «چرایی تجلی قرآن در خطبہہای حضرت زینب(س)، اہداف و نتایج»، ص74-75۔
- ↑ خانیمقدم، «چرایی تجلی قرآن در خطبہہای حضرت زینب(س)، اہداف و نتایج»، ص75-76۔
- ↑ خانیمقدم، «چرایی تجلی قرآن در خطبہہای حضرت زینب(س)، اہداف و نتایج»، ص76۔
- ↑ نوری ہمدانی، جایگاہ بانوان در اسلام، 1383ہجری شمسی، ص282؛ ہاشمینژاد، درسی کہ حسین بہ انسانہا آموخت، 1382ہجری شمسی، ص204۔
- ↑ ہاشمینژاد، درسی کہ حسین بہ انسانہا آموخت، 1382ہجری شمسی، ص205۔
- ↑ منصوری لاریجانی، زینب کبری(س) پیامآور عاشورا، 1395ہجری شمسی، ص98۔
- ↑ نوری ہمدانی، جایگاہ بانوان در اسلام، 1383ہجری شمسی، ص282۔
- ↑ صافی گلپایگانی، حسینؑ شہید آگاہ، 1366ہجری شمسی، ص386۔
- ↑ ہاشمینژاد، درسی کہ حسین بہ انسانہا آموخت، 1382ہجری شمسی، ص204۔
- ↑ منصوری لاریجانی، زینب کبری(س) پیامآور عاشورا، 1395ہجری شمسی، ص103۔
- ↑ حیدری، و دیگران، «بازخوانی جلوہہای مقاومت در خطبہہای حضرت زینب(س) و شعر عاشورایی»، ص20۔
- ↑ حیدری، و دیگران، «بازخوانی جلوہہای مقاومت در خطبہہای حضرت زینب(س) و شعر عاشورایی»، ص20۔
- ↑ شہیدی، «اگر زینب نبود عظمت عاشورا جاودانہ نمیشد»، ص14۔
- ↑ الہیقمشہای، دیوان اشعار، 1366ہجری شمسی، ص218-220۔
- ↑ منصوری لاریجانی، مثنوی محرم، 1379ہجری شمسی، ص120-122۔
- ↑ نیّر تبریزی، دیوان نیّر تبریزی، 1388ہجری شمسی، ص144-145۔
- ↑ سردار کابلی، شرح خطبۃ زینب(س) فی الکوفہ، 1396ہجری شمسی، صفحہ شناسنامہ کتاب۔
- ↑ کریمی جہرمی، تکرار حماسہ علیؑ در خطبہ حضرت زینب(س)، 1375ہجری شمسی، صفحہ شناسنامہ کتاب۔
- ↑ عباسکاظمی، بازار کوفہ میں حضرت زینب کا خطبہ، 1398ہجری شمسی، صفحہ شناسنامہ کتاب۔
مآخذ
- ابنحَمْدون، محمد بن حسن، التَذْکِرۃُ الحَمْدونیّہ، بیروت، دار صادر، 1417ھ۔
- ابنسعد الآبی، منصور بن الحسین، نَثْرُ الدُرِّ فی المُحاضِرات، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1424ھ۔
- ابنشہرآشوب، محمد بن علی، مَناقب آل ابیطالبؑ، قم، علامہ، 1379ھ۔
- ابنطیفور، احمد بن ابیطاہر، بلاغات النساء، قم، الشریف الرضی، بیتا۔
- ابنفقیہ، احمد بن محمد، البُلْدان، بیروت، عالم الکتب، 1416ھ۔
- ابننما حلّی، جعفر بن محمد، مثیر الأحزان، قم، مدرسہ امام مہدیؑ، 1406ھ۔
- الہیقمشہای، مہدی، دیوان اشعار، تہران، برادران علمی، 1366ہجری شمسی۔
- ایشانی، طاہرہ، و معصومہ نعمتی قزوینی، «تحلیل خطبہ حضرت زینب در کوفہ بر اساس نظریہ کنش گفتار سرل»، در مجلہ مطالعات قرآن و حدیث، شمارہ 45، زمستان 1393ہجری شمسی۔
- حسینی اجداد، سید اسماعیل، «تجزیہ و تحلیل ادبی خطب؛ حضرت زینب(س) در کوفہ»، در مجلہ سفینہ، شمارہ 22، بہار 1388ہجری شمسی۔
- حسینی خامنہای، سید علی، «بیانات در دیدار جمعی از پیشکسوتان جہاد و شہادت و خاطرہگویان دفتر ادبیات و ہنر مقاومت»، در پایگاہ اینترنتی دفتر حفظ و نشر آثار حضرت آیتاللہ سید علی خامنہای، تاریخ درج: 31 شہریور 1384ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 16 مہر 1403ہجری شمسی۔
- حسینی دہآبادی، طاہرہ، «نگرشی کوتاہ بہ قیام امام حسینؑ»، در جلد 1 از مجموعہ مقالات ہمایش امام حسینؑ، تہران، مجمع جہانی اہلبیتؑ، 1381ہجری شمسی۔
- حیدری، و دیگران، «بازخوانی جلوہہای مقاومت در خطبہہای حضرت زینب(س) و شعر عاشورایی»، در مجلہ کاوشنامہ ادبیات تطبیقی، شمارہ 40، زمستان 1399ہجری شمسی۔
- خانیمقدم، مہیار، «چرایی تجلی قرآن در خطبہہای حضرت زینب(س)، اہداف و نتایج»، در مجلہ مشکات، زمستان 1394ہجری شمسی۔
- خرسندی، محمود، و دیگران، «تحلیل بلاغی خطبہ حضرت زینب(س)»، در مجلہ مطالعات ادبی متون اسلامی، شمارہ 2، پاییز 1391ہجری شمسی۔
- خوارزمی، مُوَفَّقِ بن احمد، مَقتَلُ الحُسَینؑ، قم، انوار الہدی، 1381ہجری شمسی۔
- داوودی، سعید، و مہدی رستمنژاد، عاشورا ریشہہا، انگیزہہا، رویدادہا، پیامدہا، قم، امام علی بن ابی طالب علیہ السلام، زیر نظر آیت اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی، 1388 ہ۔ ہجری شمسی، ص596۔
- رضایی، رضا، و محدثہ دلارامنژاد، «تحلیل فرانقش اندیشگانی خطبہ حضرت زینب(س) بر اساس دستور نقش گرای ہلیدی»، در فصلنامہ لسان مبین، شمارہ 48، تابستان 1401ہجری شمسی۔
- روشنفکر، کبری، و دانش محمدی، «تحلیل گفتمان ادبی خطبہہای حضرت زینب(س)»، در مجلہ مطالعات قرآن و حدیث سفینہ، شمارہ 22، بہار 1388ہجری شمسی۔
- سردار کابلی، حیدرقلی، شرح خطبۃ زینب(س) فی الکوفہ، قم، کتابخانہ تخصصی علوم حدیث، 1396ہجری شمسی۔
- سلیمانی، زہرا، «جلوہہای بلاغت در کملام پیامآور عاشورا»، در مجلہ سفیہ، شمارہ 22، بہار 1388ہجری شمسی۔
- سید ابنطاووس، علی بن موسی، اللہوف علی قتلی الطفوف، ترجمہ: احمد فہری زنجانی، تہران، جہان، 1348ہجری شمسی۔
- شعرانی، ابوالحسن، دمع السجوم فی ترجمۃ نفس المہموم، تہران، انتشارات علمیہ اسلامیہ، 1374ھ۔
- شفیعی مازندرانی، محمد، عاشورا حماسہ جاویدان، تہران، مشعر، 1381ہجری شمسی۔
- شہیدی، سید جعفر، «اگر زینب نبود عظمت عاشورا جاودانہ نمیشد»، مصاحبہ در مجلہ گلستان قرآن، شمارہ 60، اردیبہشت 1380ہجری شمسی۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، الاَمالی، قم، دار الثقافہ، 1414ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن نعمان، الاَمالی، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
- صافی گلپایگانی، لطفاللہ، حسینؑ شہید آگاہ و رہبر نجاتبخش اسلام، مشہد، مؤسسہ نشر و تبلیغ، 1366ہجری شمسی۔
- طَبْرِسی، احمد بن علی، الاحتجاج علی اہل اللجاج، مشہد، نشر مرتضی، 1403ھ۔
- عباسکاظمی، سید توقیر، بازار کوفہ میں حضرت زینب کا خطبہ، قم، مرکز بینالمللی ترجمہ و نشر المصطفیؐ، 1398ہجری شمسی۔
- فریشْلِر، کورْت، امام حسین و ایران، ترجمہ: ذبیحاللہ منصوری، تہران، جاویدان، چاپ سوم، 1366ہجری شمسی۔
- قزوینی، محمدکاظم، زینب الکبری(س) من المہد الی اللحد، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1427ھ۔
- کریمی جہرمی، علی، تکرار حماسہ علیؑ در خطبہ حضرت زینب(س)، قم، انتشارات حضرت معصومہ(س)، 1375ہجری شمسی۔
- مجلسی، محمدباقر، بِحارُالاَنوار الجامِعَۃُ لِدُرَرِ أخبارِ الأئمۃِ الأطہارؑ، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1403ھ۔
- محدثی، جواد، فرہنگ عاشورا، قم، نشر معروف، 1376ہجری شمسی۔
- منصوری لاریجانی، اسماعیل، زینب کبری(س) پیامآور عاشورا، تہران، شرکت چاپ و نشر بینالملل، 1395ہجری شمسی۔
- منصوری لاریجانی، اسماعیل، مثنوی محرم، تہران، آیہ، 1379ہجری شمسی۔
- نوری ہمدانی، حسین، جایگاہ بانوان در اسلام، قم، مہدی موعود(عج)، 1383ہجری شمسی۔
- نیّر تبریزی، محمدتقی، دیوان نیّر تبریزی، تہران، شرکت چاپ و نشر بینالملل، 1388ہجری شمسی۔
- یاراحمدی، آذر، و زہرا خیراللہی، «معارف قرآنی در خطبہ حضرت زینب(س)»، در مجلہ بینات، شمارہ 105 و 106، بہار و تابستان 1399ہجری شمسی۔