حضرت زینب کا ابن زیاد سے مناظره
حضرت زینب کا ابن زیاد سے مناظرہ، وہ گفتگو ہے جوواقعۂ عاشورا کے بعد حضرت زینب اور کوفہ کا حاکم عبیداللہ بن زیاد کے درمیان ہوئی اور وہ مشہور جملہ ما رأیت الا جمیلا اسی گفتگو میں جناب زینب نے ابن زیاد کے جواب میں کہا تھا۔
زمان و مکان
یہ مناظرہ محرم اکسٹھ ہجری کو واقعۂ کربلا رونما ہونے کے بعد کوفہ میں ابن زیاد کے دربار میں منعقد ہوا؛ جب اسیران آل محمدؐ اور شہدائے کربلا کے سروں کو کوفہ کے شہر میں پھیرانے کے بعد جب ابن زیاد دربار میں پہنچا تو عوام کو دربار میں داخل ہونے کی اجازت دی اور امام حسینؑ کے سر کو اس کے سامنے رکھا گیا اور پہر اسیر خواتین اور امام حسینؑ کے بچوں کو دربار میں لایا گیا۔ جناب زینب حقیر لباس میں ملبوس خواتین اور کنیزوں کے حصار میں تھیں اور ناشناختہ طور پر دربار میں آئی اور کسی کونے میں بیٹھ گئی۔
مناظرے کا متن
عبیداللہ ابن زباد نے پوچھا: «یہ عورت جو کونے میں خواتین کے درمیان ہے کون ہے؟» زینب نے جواب نہیں دیا۔ عبیداللہ نے اپنا سوال پھر سے دہرایا۔ تو کسی کنیز نے کہا: «وہ پیغمبر کی بیٹی فاطمہ کی بیٹی زینب ہیں۔»
حضرت زینب کا ابن زیاد سے گفتگو
عبيدالله بن زیاد: تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے جس نے تمہارے خاندان کو رسوا کیا، مارا اور دکھایا کہ جو کچھ تم کہہ رہے تھے سب جھوٹ تھا۔
زینب: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں پیغمبر کے ذریعے نوازا (ہماری خاندان سے ہے) اور ہر ناپاکی سے دور رکھا۔ فاسق کے علاوہ کسی کی رسوائی نہیں ہوتی، اور بدکار کے علاوہ کوئی جھوٹ نہیں بولتا، اور بدکار ہم نہیں دوسرے ہیں (یعنی تم اور تمہارے پیروکار بدکار ہیں۔) اور تعریف صرف اللہ کے لیے ہے۔
ابن زیاد: دیکھ لیا کہ اللہ تعالی نے تمہارے خاندان کے ساتھ کیا کیا؟
زینب: اچھائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا! یہ وہ لوگ تھے جن کی مقدر میں اللہ تعالی نے قتل ہونا قرار دیا تھا اور انہوں نے بھی اطاعت کی اور اپنی ابدی منزل کی جانب چلے گئے اور بہت جلد اللہ تعالی تمہیں ان کے سامنے کرے گا اور وہ اللہ تعالی سے تمہاری شکایت کرینگے، تب دیکھنا کہ اس دن کون کامیاب ہوتا ہے، اے ابن مرجانہ کے بیٹے تم پر تمہاری ماں روئے!
ابن زیاد: اللہ نے تمہارے نافرمان بھائی حسین، اس کی خاندان اور سرکش لشکر کو مار کر مرے دل کو شفا بخشا۔
زینب: خدا کی قسم تم نے ہمارے بزرگ کو مارا، تمہارے درخت کو کاٹا اور جڑ کو اکھاڑا، اگر یہ کام تمہاری شفا کا باعث ہو تو حتما تم نے شفا پایا ہے۔
ابن زیاد غصہ اور توہین آمیز حالت میں: یہ بھی اپنے باپ علی کی طرح ماہر خطیب ہے؛ اپنی جان کی قسم! تمہارا باپ بھی شاعر تھا اور سجع اور قافیے میں بات کرتا تھا
زینب: ایک عورت کو سجع اور قافیوں سے کیا کام؟» (یہ سجع کہنے کا کونسا وقت ہے؟)[1]
(خوارزمی، مقتل الحسین، ص۴۷-۴۸)
جناب زینب نے جب کہا: «اچھائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔۔۔» یا «اے ابن مرجانہ تمہاری ماں تم پر روئے» ان جملوں کو سن کر ابن زیاد غصہ ہوااور آپ کو سزا دینا چاہا، توعمرو بن حُرَیث نے کہا: «امیر! یہ ایک خاتون ہے اور خواتین کی باتوں پر انہیں کوئی سزا نہیں دیتا ہے۔
حوالہ جات
- ↑ شیخ مفید، الارشاد، ج۲، ص۱۱۵- ۱۱۶؛ سید بن طاووس، اللهوف، ص۱۹۱؛ خوارزمی، مقتل الحسین، ص۴۷-۴۸.
مآخذ
- شیخ مفید، الارشاد، ترجمہ محمد باقر ساعدی، تہران، انتشارات اسلامیہ، ۱۳۸۰ش.
- خوارزمی، مقتل الحسین، تحقیق محمد سماوی، قم، نشر انوار الہدی،الاولی، ۱۴۱۸ق.
- سید بن طاووس، اللہوف، ترجمہ عقیقی بخشایشی، قم، دفتر نشر نوید اسلام، پنجم، ۱۳۷۸ش.