مندرجات کا رخ کریں

پیغمبر امی

ویکی شیعہ سے

پیغمبر اُمّی، حضرت محمدؐ کے اوصاف میں سے ایک ہے جو قرآن میں آپؐ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ امی اُس شخص کو کہا جاتا ہے جس نے رائج طریقے کے مطابق کسی سے پڑھنا اور لکھنا نہ سیکھا ہو۔ یہ صفت قرآن کے معجزہ اور پیغمبر اسلامؐ کے علم کے الٰہی ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کی جاتی ہے، کیونکہ ایک ایسا فرد جس نے کبھی کسی انسان سے تعلیم حاصل نہ کی ہو، وہ کس طرح حکمت و علوم سے بھرپور کتاب پیش کر سکتا ہے۔

یہ امر قرآن کی اصالت اور اس بات کی گواہی ہے کہ یہ کسی دوسری کتاب سے ماخوذ نہیں ہے۔ قرآن کی آیات کے مطابق، پیغمبر اکرمؐ کا امی ہونا تورات اور انجیل میں بھی بشارت کے طور پر ذکر ہوا ہے اور یہ آنحضرتؐ کے لیے ایک فضیلت شمار ہوتا ہے۔

اس موضوع پر مرتضی مطہری کی کتاب «پیامبر امی» اور کتاب «مکتب وحی و مفہوم امی‌بودن پیامبر» میں تفصیلی بحث کی گئی ہے۔

قرآن میں پیغمبر اکرمؐ کے لیے اُمّی کی صفت کا استعمال

قرآنی آیات کی رو سے اُمی رسول خداؐ کے القاب میں سے ایک ہے، جس کا ذکر آسمانی کتابوں یعنی تورات اور انجیل میں بھی کیا گیا تھا۔[1] شیعہ مفسر محمد جواد مغنیہ کے مطابق یہ صفت خاص طور پر رسول اکرمؐ سے متعلق ہے اور دیگر انبیاء کو اس صفت سے متصف نہیں کیا گیا ہے۔[2] قرآن میں دو مقامات پر لفظ اُمی رسول اکرمؐ کے لیے استعمال ہوا ہے۔[3]

اُمی اُس شخص کو کہا جاتا ہے جس نے کسی سے پڑھنا اور لکھنا نہ سیکھا ہو،[4] جیسا کہ پیدائشی طور پر ہی ناخواندہ رہا ہو۔[5]

اُمّی کی مختلف تشریحیں

ناخواندہ اور لکھنے پڑھنے کی صلاحیت سے عاری

مرتضیٰ مطہری کے بقول، امی کے سلسلے میں مفسرین کے درمیان رائج رائے یہ ہے کہ لفظ "اُمی" اس فرد کے لیے بولا جاتا ہے جو پڑھنا اور لکھنا نہ جانتا ہو۔[6] کچھ علما جیسے شیخ طوسی (پانچویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین)،[7] علامہ طباطبائی اور رشید رضا (اہل سنت مفسر) بھی اسی رائے کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک "اُمی" کے معنی بالترتیب یہ ہیں: "وہ شخص جو لکھتا نہیں"، "وہ جو پڑھنے اور لکھنے کی صلاحیت سے عاری ہو"،[8] اور "وہ جو کچھ نہ پڑھا ہو اور کسی سے نہ سیکھا ہو۔"[9]

یہ مطلب قرآن کی دوسری آیات[10] نیز مورخین کے اجماع[11] سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ جان ڈیوین پورٹ،[12] تھامس کارلائل،[13] وِل ڈیورانٹ[14] اور کونسٹن ورژیل گیورگیو[15] جیسے بعض متستشرقین نے بھی نبی اکرمؐ کے اُمی ہونے کو تسلیم کیا ہے۔

اس معنی کے اثبات میں کبھی آٹھویں صدی ہجری کے شاعر حافظ شیرازی کا مشہور شعر بھی پیش کیا جاتا ہے:

نگار من کہ بہ مکتب نرفت و خط ننوشت‏
بہ غمزہ مسئلہ‌آموز صد مدرّس شد[16]

چھٹی صدی ہجری کے شاعر نظامی گنجوی نے بھی کہا ہے:

امی گویا بہ زبان فصیح‏
از الف آدم و میم مسیح[17]


مرتضی مطہری کے مطابق، کچھ افراد جیسے سید مرتضی یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ نبی اکرمؐ عہدِ رسالت میں پڑھنے اور لکھنے پر قادر تھے اور اس سلسلے میں واقعہ "دوات و قلم" کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ تاہم، مطہری اس نظریے کو رد کرتے ہیں اور نبی اکرمؐ کے دوات اور قلم طلب کرنے کو ذاتی تحریر کے لیے نہیں بلکہ دوسروں کو لکھنے کا حکم دینے کے معنی میں لیتے ہیں اور اسے مجازی تعبیر سمجھتے ہیں۔[18]

اُمّ‌ القری یعنی مکہ سے منسوب

امام محمد باقرؑ کی طرف منسوب بعض روایات کے مطابق، "نبی اُمی" کا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرمؐ مکہ سے ہیں۔[19] کچھ مفسرین نے بھی اسی رائے کو قبول کیا ہے۔[20] لیکن اس نظریے پر اس کے سندی ضعف[21] کی وجہ سے تنقید کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ "اُمّ‌ القری" صرف مکہ کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ ہر مرکز یا اہم علاقے کے لیے بطور عمومی عنوان استعمال ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ سورہ بقرہ کی آیت 78 میں مدینہ کے یہودیوں کو بھی "اُمی" کہا گیا ہے، جو معنای امی کے مکہ سے وابستگی کے اس تفسیر کے ساتھ تضاد رکھتا ہے۔ ادبی لحاظ سے بھی کسی شخص کو ام القری کی طرف نسبت کے بموجب "اُمی" کہنا معمول اور رائج نہیں ہے۔[22]

امی یعنی اُمت سے منسوب

ناصر مکارم شیرازی کے مطابق، لفظ "اُمی" کا ایک اور مطلب یہ بھی ہے کہ وہ شخصیت جو اپنی قوم اور عام لوگوں کے درمیان سے قیام کیا ہو۔ ان کے بقول، "اُمی" کی تعبیر میں یہ تینوں احتمالات شامل ہیں: 1۔ ایسا نبیؐ جس نے باقاعدہ طور پر کسی سے تعلیم حاصل نہیں کی ہو؛ 2. وہ جو عوام اور عام لوگوں میں سے قیام کرے؛ 3. ان کا ظہور اُمّ‌القری (مکہ) میں ہوا ہو۔[23]

امی یعنی وہ قوم جس کے پاس آسمانی کتاب نہ تھی

بعض علمائے تفسیر کے مطابق، "اُمی" سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے پاس کوئی آسمانی کتاب نہیں تھی۔[24] لہٰذا، "پیغمبر اُمی" کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس نبی کو ایک ایسی قوم میں مبعوث فرمایا جو کتاب و شریعت سے محروم تھی۔[25] اسی لیے قرآن میں "اُمیّون" (اُمی کی جمع) کا اطلاق عربوں پر ہوا ہے کہ ان کے ہاں آسمانی کتاب نہیں تھی۔[26] اس تعبیر میں وہ عرب بھی شامل ہیں جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔[27]

مرتضیٰ مطہری کے بقول، اس امی کی اس تفسیر کو عام مشرکینِ عرب پر جمع (اُمیّون) کی صورت میں تو درست کہا گیا ہے، لیکن نبی اکرمؐ پر بطور مفرد "اُمی" کسی نے اس کو قبول نہیں کیا ہے۔[28]

پیغمبر اکرمؐ کے امی ہونے کے نتائج

پیغمبر اکرمؐ کا اُمّیّت اورعلم لدنی کے ذریعے کمال

پیامبر اسلامؐ کا اُمی ہونا (یعنی کسی سے باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کرنا) آپ کی فضیلت اور کمال کے طور پر بیان کیا گیا ہے، کیونکہ باوجود اس کے کہ آپ نے ظاہری بشری تعلیم حاصل نہیں کی، آپ علم لَدُنّی (خداداد و الہی علم) کے حامل تھے۔[29] یہ صفت، نبی اکرمؐ کے لیے مدح و ستائش ہے، جبکہ عام لوگوں کے لیے جہل و مذمت کا سبب بن سکتی ہے۔[30] اس فرق کو یوں سمجھایا گیا ہے کہ جیسے "تکبّر" اللہ کے لیے کمال ہے، لیکن دوسروں کے لیے عیب شمار ہوتا ہے۔[31]

اُمی ہونا قرآن کے الہی ہونے کی دلیل

مفسرین کے نزدیک، نبی اکرمؐ کا اُمی ہونا، رسالت کے الہی ہونے[32] اور قرآن کے معجزہ[33] ہونے کی روشن دلیل ہے۔ کیونکہ آپ باوجود اس کے کہ کسی سے تعلیم حاصل کیے بغیر انسانوں کو جہالت سے نکال کر ہدایت و رستگاری کی طرف لے گئے۔[34] اسی طرح، ایک اُمی شخص کے ذریعے ایسا قرآن لایا جانا جو علوم و حکمت سے بھرپور ہو، بذاتِ خود معجزہ ہے۔[35] علامہ طباطبایی نے المیزانمیں ذکر کیا ہے کہ قرآن کے اعجاز کے پہلوؤں میں سے ایک یہ ہے کہ یہ ایسے شخص پر نازل ہوا جو نہ پڑھنا لکھنا جانتا تھا، نہ کسی استاد کے پاس گیا اور نہ ہی چالیس سالہ زندگی سے پہلے کسی نے اس میں علم یا فصاحت و بلاغت کے آثار دیکھے تھے۔[36]

قرآن کے کسی انسانی منبع سے اقتباس شدہ ہونے کی نفی

مرتضی مطہری کی تالیف کردہ پیامبر امی نامی کتاب کی تصویر

مفسرین کے مطابق، سورہ عنکبوت کی آیت 48 نبی اکرمؐ کے اُمی ہونے پر دلالت کرتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ قرآن کسی سابقہ کتاب یا انسانی منبع سے اقتباس شدہ نہیں ہے۔[37] آیت بطور صراحت بیان کرتی ہے کہ اگر نبی اکرمؐ لکھنا پڑھنا جانتے تو معترضین یہ کہہ سکتے تھے کہ یہ کتاب گذشتہ صحیفوں کے مطالعے کا نتیجہ ہے۔[38] البتہ بعض مستشرقین جیسے نولدکے، ویل، بلاشر اور واٹ نے پیغمبر اکرمؐ کے اُمی ہونے کا انکار کیا ہے، لیکن یہ انکار بے دلیل اور صرف قرآن کے الہی ماخذ پر شبہ ڈالنے کے لیے کیا گیا ہے۔[39]

مونوگرافی

مرتضی مطہری نے "پیامبر اُمی" کے نام سے یہ کتاب تالیف کی۔ اس کتاب کے مندرجات دراصل ایک مقالہ تھے جو سنہ 1387ھ میں "محمدؐ خاتم پیامبران" نامی کتاب میں حسینیہ ارشاد نے شائع کیا تھا۔ بعد میں بارہا انتشارات صدرا سے الگ کتاب کی صورت میں چھپا۔[40]

عبد اللطیف ہندی اور جعفر سبحانی نے "مکتب وحی و مفہوم اُمی بودن پیامبر" کے نام سے یہ کتاب تصنیف کی ہے اور انتشارات رسالت نے اسے سنہ 1977ء میں شائع کیا ہے۔[41]

حوالہ جات

  1. قرشی، تفسیر أحسن الحدیث، 1377شمسی، ج4، ص17۔
  2. مغنیہ، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج3، ص404۔
  3. طیب، أطیب البیان، 1378شمسی، ج5، ص477 و ج6، ص4۔
  4. قرشی، قاموس قرآن، 1371شمسی، ج1، ص119۔
  5. ابن‌منظور، لسان العرب، 1414ھ، ج12، ص34۔
  6. مطہری، پیامبر امی، 1381شمسی، ص40۔
  7. شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج4، ص559۔
  8. طباطبائی، المیزان، 1417ھ، ج1، ص215۔
  9. رشید رضا، المنار، 1990ء، ج2، ص385۔
  10. مطہری، پیامبر امی، 1381شمسی، ص36-40۔
  11. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج6، ص400، مطہری، پیامبر امی، 1381شمسی، ص9۔
  12. دیون‌پورت، عذر تقصیر بہ پیشگاہ محمد و قرآن، 1344شمسی، ص17-18۔
  13. مطہری، مجموعہ آثار شہید مطہری، انتشارات صدرا، ج3، ص206-207۔
  14. جواہری، پاسخ بہ شبہات اعجاز و تحدی، 1397شمسی، ص226۔
  15. جواہری، پاسخ بہ شبہات اعجاز و تحدی، 1397شمسی، ص227۔
  16. «نگار من کہ بہ مکتب نرفت...؛ گفتگو با استاد مصطفی دلشاد تہرانی»، پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ۔
  17. «در نعت رسول اکرم»، سایت گنجور۔
  18. مطہری، پیامبر امی، 1381شمسی، ص19 ـ 20۔
  19. عیاشی، التفسیر، 1380ھ، ج2، ص31؛ صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ج1، ص226۔
  20. فیض کاشانی، تفسیر الصافی، 1415ھ، ج2، ص242؛حسینی شیرازی، تبیین القرآن، 1423ھ، ص182۔
  21. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج6، ص402۔
  22. مطہری، پیامبر امی، 1381شمسی، ص41 ـ 42۔
  23. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج6، ص396 ـ 397 و 400۔
  24. زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج1، ص347 و 375۔
  25. طرابیشی، من اسلام القرآن الی اسلام الحدیث، 2010ء، 89-90۔
  26. راغب اصفہانی، مفردات ألفاظ القرآن، 1412ھ، ص87۔
  27. قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1364شمسی، ج19، ص91۔
  28. مطہری، پیامبر امی، 1381شمسی، ص44۔
  29. ربیع‌نیا، «امی»، ص400۔
  30. ربیع‌نیا، «امی»، ص400۔
  31. ربیع‌نیا، «امی»، ص400۔
  32. قرشی، قاموس قرآن، 1371شمسی، ج1، ص120۔
  33. طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج1، ص63۔
  34. مغنیہ، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج3، ص404۔
  35. ربیع‌نیا، «امی»، ص400۔
  36. طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج1، ص63۔
  37. طباطبایی، المیزان، 1352شمسی، ج16، ص139۔
  38. طباطبایی، المیزان، 1352شمسی، ج16، ص139۔
  39. دولت‌آبادی، «تلقی ناصحیح مستشرقان دربارہ امّی‌بودن پیامبر اکرم(ص)»، خبرگزاری ایکنا۔
  40. «کتاب پیامبر امی اثر استاد شہید مرتضی مطہری»، سایت انتشارات صدرا۔
  41. «مکتب وحی و امی‌بودن پیامبر»، پایگاہ اطلاع‌رسانی کتابخانہ‌ہای ایران۔

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • ابن‌ منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت، دارصادر، چاپ سوم، 1414ھ۔
  • حسینی شیرازی، سید محمد، تبیین القرآن، بیروت، دارالعلوم، چاپ دوم، 1423ھ۔
  • جواہری، سید محمدحسن، پاسخ بہ شبہات اعجاز و تحدی، پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1397ہجری شمسی۔
  • «در نعت رسول اکرم»، سایت گنجور، تاریخ بازدید: 21 مرداد 1404ہجری شمسی۔
  • دولت‌آبادی، معصومہ، «تلقی ناصحیح مستشرقان دربارہ امّی‌بودن پیامبر اکرم(ص)»، خبرگزاری ایکنا، تاریخ انتشار: 13 آبان 1392شمسی، تاریخ بازدید: 24 مرداد 1404ہجری شمسی۔
  • دیون‌پورت، جان، عذر تقصیر بہ پیشگاہ محمد و قرآن، ترجمہ سعیدی، تہران، نشر انتشار، 1344ہجری شمسی۔
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات الفاظ القرآن، بیروت، دارالقلم، چاپ اول، 1412ھ۔
  • ربیع‌نیا، ابوطالب، «امی»، دائرہ المعارف قرآن کریم، ج14. قم، بوستان کتاب، 1382ہجری شمسی۔
  • رشید رضا، تفسیر المنار، مصر، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، 1990ء۔
  • زمخشری، محمود، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، بیروت، دارالکتاب العربی، چاپ سوم، 1407ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تحقیق قصیرعاملی، احمد، بیروت، داراحیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمّد(ص)، محقق محسن کوچہ باغی، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، چاپ دوم، 1404ھ۔
  • طباطبائی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، 1417ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، اعلمی، بیروت، چاپ دوم، 1393ھ۔
  • طرابیشی، جرج، من اسلام القرآن الی اسلام الحدیث، بیروت، دارالساقی،‌ 2010ء۔
  • طیب، سید عبدالحسین، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، تہران، انتشارات اسلام، چاپ دوم، 1378ہجری شمسی۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر، محقق ہاشم رسولی محلاتی، تہران، المطبعۃ العلمیۃ، چاپ اول، 1389ھ۔
  • فیض کاشانی، ملامحسن، تفسیر الصافی، تحقیق حسین اعلمی، تہران، انتشارات الصدر، چاپ دوم، 1415ھ۔
  • قرشی، سید علی‌اکبر، تفسیر احسن الحدیث، تہران، بنیاد بعثت، چاپ سوم، 1377ہجری شمسی۔
  • قرشی، سید علی‌اکبر، قاموس قرآن، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ ششم، 1371ہجری شمسی۔
  • قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لأحکام القرآن، تہران، ناصر خسرو، چاپ اول، 1364ہجری شمسی۔
  • «کتاب پیامبر امی اثر استاد شہید مرتضی مطہری»، سایت انتشارات صدرا، تاریخ بازدید: 24 مرداد 1404ہجری شمسی۔
  • مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، تہران، بنگاہ ترجمہ و نشر کتاب، 1360ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، پیامبر امی، انتشارات صدرا، 1381ہجری شمسی۔
  • ‌ مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار شہید مطہری، قم، انتشارات صدرا، [بی‌تا]۔
  • مغنیہ، محمد جواد، تفسیر الکاشف، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1424ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1374ہجری شمسی۔
  • «مکتب وحی و امی‌بودن پیامبر»، پایگاہ اطلاع‌رسانی کتابخانہ‌ہای ایران، تاریخ بازدید: 20 مرداد 1404ہجری شمسی۔
  • «نگار من کہ بہ مکتب نرفت...؛گفتگو با استاد مصطفی دلشاد تہرانی»، پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ، تاریخ انتشار: 8 آبان 1390شمسی، تاریخ بازدید: 20 مرداد 1404ہجری شمسی۔