شام میں حضرت زینب کا خطبہ

ویکی شیعہ سے
شام میں حضرت زینب کا خطبہ
شام دربار یزید میں حضرت زینب کا خطبہ
حدیث کے کوائف
موضوعواقعہ کربلا کی تحریف سے مقابلہ، یزید کے ظلم اور فتہ و فساد کو برملا کرنا، یزید کی واقعہ کربلا کے مرکزی مجرم کی حیثیت سے معرفی کرنا
صادر ازحضرت زینب(س)
شیعہ مآخذالإحْتِجاجُ عَلی أہلِ اللّجاج، مُثیرُ الأحْزان، أللُّہوف عَلى قَتْلَى الطُّفوف
اہل سنت مآخذبلاغاتُ النّساء
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل


شام میں حضرت زینب کا خطبہ یا دربار یزید میں حضرت زینب کا خطبہ، اس خطبے کو کہا جاتا ہے جسے حضرت زینب (س) نے واقعہ کربلا کے بعد یزید کے دربار ارشاد فرمایا۔ یہ خطبہ اثر گزاری اور فصاحت و بلاغت کی وجہ سے ہمیشہ محققین کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ حضرت زینب(س) نے اس خطبہ میں صریح اور دوٹوک الفاظ میں بنی‌ اُمَیّہ کی حکومت کے چہرے سے اسلام کا نقاب اتار دیا۔

حضرت زینب(س) نے اس خطبے میں یزید اور اس کے کارندوں کو ستمکار اور عذاب کا مستحق قرار دیا اور ان کی ظاہری فتح کو خدا کی طرف سے مہلت دینے کی سنت قرار دی۔ زینب(س) نے اپنے کلام کو منطقی دلائل کے ساتھ بیان کیا اور سماجی ذہنیت کو یزید اور بنی امیہ کی حقیقت سے آگاہ ہونے کا زمینہ فراہم کیا۔ اسی طرح قرآن کی بعض آیات سے استناد کرنے کے ذریعے آپ بعض لوگوں کو حق کی طرف راہنمائی کرنے اور حکومت وقت کی طرف سے اسیران کربلا کے اوپر لگائے گئے خارجی اور مرتد ہونے کے الزام کو مسترد کرنے میں کامیاب ہوئی۔

اس خطبے کو قیام امام حسینؑ کی تکمیل کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے کیونکہ حضرت زینب‌(س) نے اس خطبے کے ذریعے واقعہ کربلا کو تحریف سے بچایا۔ مختلف فارسی اشعار میں امام حسینؑ کے قیام کی تکمیل میں حضرت زینب کے کردار کی طرف خاص توجہ دی گئی ہے۔ شام میں حضرت زینب کے خطبے کے بارے میں مختلف تحقیقی مقالات لکھے گئے ہیں من جملہ ان میں علی کریمی جہرمی کے قلم سے «شرح خطبہ حضرت زینب(س) در شام» کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔

تاریخ اسلام میں اس خطبے کی اہمیت

محرم کی عزاداری
واقعات
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوطحسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تکواقعۂ عاشوراواقعۂ عاشورا کی تقویمروز تاسوعاروز عاشوراواقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میںشب عاشورا
شخصیات
امام حسینؑ
علی اکبرعلی اصغرعباس بن علیزینب کبریسکینہ بنت الحسینفاطمہ بنت امام حسینمسلم بن عقیلشہدائے واقعہ کربلا
مقامات
حرم حسینیحرم حضرت عباسؑتل زینبیہقتلگاہشریعہ فراتامام بارگاہ
مواقع
تاسوعاعاشوراعشرہ محرماربعینعشرہ صفر
مراسمات
زیارت عاشورازیارت اربعینمرثیہنوحہتباکیتعزیہمجلسزنجیرزنیماتم داریعَلَمسبیلجلوس عزاشام غریبانشبیہ تابوتاربعین کے جلوس


شام میں حضرت زینب کا خطبہ تاریخ اسلام میں سب سے زیادہ فصیح‌ اور متأثرکن خطبوں میں شمار ہوتا ہے۔[1] وہ سبق جو حسین نے پڑھایا نامی کتاب کے مصنف سید عبد الکریم ہاشمی‌ نژاد نے اس خطبے کو ایک قیدی خاتون کی طرف سے زمانے کے جابر اور متکبر طاقت کی توہین اور حقارت پر مشتمل چونکا دینے والا خطبہ قرار دیا ہے۔[2] محققین اس خطبے کو کربلا میں قیام امام حسینؑ کا تکملہ قرار دیتے ہیں۔[3] کتاب امام حسینؑ اور ایران نامی کتاب کے مصنف کورْت فریشْلِر نے اس خطبے کو ایک تاریخی خطبہ قرار دیتے ہوئے اسے بہت اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔[4] شام میں حضرت زینب کا خطبہ فصاحت و بلاغت اور متأثرکن ہونے کی وجہ سے ہمیشہ محققین کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔[5]

اس خطبے کو واقعہ کربلا میں تحریف پیدا کرنے کی سازش کا مقابلہ سمجھا جاتا ہے؛ کیونکہ یزید لوگوں کو یہ باور کرنا چاہتا تھا کہ کربلا کا واقعہ خدا کی طرف سے امام حسینؑ پر عذاب ہے؛[6] لیکن حضرت زینب(س) نے اس خطبہ کے ذریعے یزید کو واقعہ کربلا کا اصل مجرم قرار دیا۔[7] یزید کے سامنے حضرت زینب(س) کی صریح اور دوٹوک تقریر کو آپ(س) کی بے مثال شجاعت کی نشانی قرار دیتے ہیں؛ کیونکہ اس وقت تک کسی میں یزید کے سامنے اس کے ظلم اور فتہ و فساد کو برملا کرنے کی جرأت پیدا نہیں ہوئی تھی۔[8] ایران کے سپریم لیڈر آیت‌ اللہ خامنہ‌ای اس بات کے قائل ہیں کہ شام میں حضرت زینب نے ایسا ماہرانہ خطبہ دیا ہے کہ دشمن بھی اس سے چشم پوشی نہیں کر سکتا۔[9] کورْت فریشْلِر کے بقول اس خطبے کو صدیاں گزرنے کے بعد بھی اب تک مورخین حضرت زینب کی شجاعت اور بہادری پر حیرت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔[10]

حضرت زینب نے یہ خطبہ اس وقت دیا جب یزید نے امام حسین کے کٹے ہوئے سر کے ساتھ بے احترامی کیا[11] اور ایک شامی نے یزید سے امام حسین کی بیٹی فاطمہ کو اس کی کنیزی میں دینے کا مطالبہ کیا۔[12] تاریخی اسناد کے مطاق جب اسیران کربلا شام پہنچے تو یزید نے اپنے درباریوں کو بلا کر دربار سجا دیا۔[13] امام حسینؑ کے سر اقدس کو ایک طشت میں رکھا گیا اور اسیران کربلا کو دربار یزید میں لایا گیا۔[14] یزید نے اپنے ہاتھ میں موجود چھڑی کو امام حسینؑ کے مبارک لبوں پر مارنا شروع کیا۔[15] اس نے ایک شعر پڑھتے ہوئے وحی اور پیغمبر اکرم کی نبوُّت کا انکار کیا،[16] اور اعلان کیا کہ اس نے واقعہ کربلا کو اپنے کافر اجداد جو جنگ بدر میں پیغمبر اکرمؐ اور حضرت علیؑ کے ہاتھوں ہلاک ہوئے تھے، کے خون کا بدلہ لینے کے لئے انجام دیا ہے۔[17]

لَیتَ أَشْیاخی بِبَدْر شَہِدُواجَزَعَ الْخَزْرَجِ مِنْ وَقْعِ الاَْسَلْ
اے کاش جنگ بدر کے میرے بزرگان آج مشاہدہ کرتےقبیلہ خَزْرَج کس طرح نیزوں کے ضربات سے رو رہے ہیں۔
فَأَہَلُّوا وَ اسْتَہَلُّوا فَرَحاًثُمَّ قالُوا یایزیدُ لاتَشَلْ[18]
اس وقت وہ خوشی سے چیخ کر کہتا:‌ اے یزید! تمہارا شکریہ!
لَعِبَتْ ہَاشِمُ بِالمُلْکِ فَلاخَبَرٌ جَاءَ وَ لَا وَحْیٌ نَزَل[19]
ہاشم نے حکومت کا ڈھونک رچایا تھانہ کوئی وحی آئی ہے اور نہ کوئی نبوت!‏

شیعہ منابع میں الإحْتِجاجُ عَلی أہْلِ اللّجاج[20]، مُثیرُ الأحْزان،[21]أللُّہوف عَلى قَتْلَى الطُّفوف[22] اور اہل‌ سنت منابع میں بلاغاتُ النّساء[23] وغیرہ میں اس خطبے کو نقل کیا ہے۔

مضامین

بعض محققین کے مطابق حضرت زینب نے کوفہ میں دئے گئے احساساتی خطبے کے بر خلاف شام میں زیادہ تر استدلالی گفتگو کی اور بہت کم احساساتی الفاظ استعمال کیا۔[24] شام میں حضرت زینب(س) کا خطبہ 7 بنیادی حصوں پر مشتمل تھا:

شام میں حضرت زینب(س) کے خطبے سے اقتباس

«فَكِدْ كَيْدَكَ وَ اسْعَ سَعْيَكَ وَ نَاصِبْ جُہْدَكَ فَوَ اللَّہِ لَا تَمْحُو ذِكْرَنَا وَ لَا تُمِيتُ وَحْيَنَا وَ لَا تُدْرِكُ أَمَدَنَا وَ لَا تَرْحَضُ عَنْكَ عَارَہَا‏»۔‏ (ترجمہ: اے یزید، تم جتنی مکاری اور کوشش کر سکتے ہو کرو، خدا کی قسم تم ہرگز نہ ہمارا ذکر مٹا سکتا ہے اور نہ وحی کو ختم کر سکتا ہے، تم ہمارا کبھی مقابلہ نہیں کر سکتا اور یہ لذت و رسوائی تیرے دامن سے کبھی صاف نہیں ہو سکتی۔)

سید ابن‌طاووس، اللہوف علی قتلی الطفوف، 1348ہجری شمسی، ص185۔

  1. قرآنی آیات سے استدلال کے ذریعے یزید کے غرور و تکبر کو خاک میں ملانا؛
  2. فتح مکہ کے موقع پر یزید کے آباء و اجداد کے ساتھ رسول اکرمؐ کا حسن سلوک اور اسرائے آل محمد کے ساتھ یزید کے ناروا سلوک کا موازنہ؛
  3. یزید کے کفر آمیز کلمات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کی بے ایمانی پر تاکید؛
  4. شہداء علی الخصوص خاندان رسالت کے شہداء کے عظیم مرتبے پر تاکید؛
  5. قیامت کے دن خدا کی عدالت میں یزید کی رسوائی کی طرف اشارہ؛
  6. یزید کو گفتگو کے لائق نہ سمجھتے ہوئے اس کی تحقیر اور توہین؛
  7. آل محمد کو شہادت، رحمت اور کرامت جیسی عظیم نعمتیں عطا کرنے پر خدا کا شکر ادا کرنا۔[25]

حضرت زینب نے اس خطبے میں قرآن کی متعدد آیات سے استناد کیا؛ کیونکہ آپ چاہتی تھی کہ شام کے لوگوں کے ساتھ مشترکہ کلام(یعنی قرآن) میں گفتگو، ایک طرف آپ شام کے لوگوں کی ہدایت کے خواہاں تھی، دوسری طرف حکومت وقت اہل‌ بیتؑ کو خارجی قرار دے رہی تھی تاکہ لوگوں کو اہل‌ بیت سے دور کا جا سکے۔[26] حضرت زینب نے اس خطبے میں سورہ روم کی آیت نمبر 10 سے استناد کرتے ہوئے قرآنی آیات کے ساتھ یزید کی بے احترامی کو اس کے بے پناہ گناہوں کا نتیجہ قرار دیا۔[27] اسی طرح سورہ آل‌ عمران کی آیت نمبر 178 سے استناد کرتے ہوئے یزید کی ظاہر فتح کو خدا کی طرف سے مہلت قرار دیا۔[28] زینب(س) نے اس خطبے میں قرآن کی دیگر متعدد آیات سے استناد کرتے ہوئے یزید اور اس کے کارندوں کو واقعہ کربلا جیسے عظیم واقعے کو رونما کرنے کی جہ سے ستمکار، دنیا میں لذت و خواری نیز آخرت میں عذاب کا مستحق قرار دیا۔[29]

حضرت زینب نے یزید کو «یا ابن‌َ الطُلَقاء» (یعنی: آزاد شدہ عورت کا بیٹا) کی تعبیر کے ساتھ مخاطب قرار دیتے ہوئے فتح مکہ کے موقع پر یزید کے آباء و اجداد کے ساتھ رسول اکرمؐ کے کریمانہ سلوک کو اسرائے آل محمد کے ساتھ یزید کے ناروا سلوک کے ساتھ موازنہ کیا۔[30] شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ صافی گلپایگانی کے مطابق حضرت زینب نے اس خطبے کے آخری حصے میں اس غیبی خبر کو بیان کرتی ہیں کہ اہل‌ بیتؑ کا ذکر کبھی بھی فراموش نہیں ہو گا۔[31]

نتائج

تاریخی محققین کے مطاق شام میں حضرت زینب کا خطبہ درج ذیل نتائج کا حامل تھا:

  • بنی امیہ کی حکومت کا متزلزل ہونا۔ فَضْل بنِ عباس رَبیعہ جیسے افراد نے دربار یزید میں اس خطبے کو سننے کے بعد امام حسینؑ کے خون کا بدلہ لینے کے لئے قیام کیا؛[32]
  • بنی‌ امیہ خود کو واقعہ کربلا کا فاتح تصور کرتا تھا لیکن اس خطبے سے لوگوں پر واضح ہو گیا کہ بنی امیہ اس جنگ کا شکست خوردہ حریف ہے؛[33]
  • اسیران کربلا کو خارجی قرار دینے کی حکومتی سازش کی ناکامی؛[34]
  • یزید کی حکومت کو باطل سمجھنے کی سماجی ذہنیت کے لئے زمینہ ہموار کرنا؛[35]
  • شامیوں کے یہاں یزید اور اس کے کارندوں کی منافقانہ اور مکارانہ چہرے سے نقاب اٹھ جانا۔[36]

ادبیات میں اس خطبے کے تأثیرات

عاشورا کے ادبی شہ پاروں میں حضرت زینب کو واقعہ کربلا کا پیغام رساں کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔[37] اگرچہ حضرت زینب سے مربوط اشعار میں اکثرا آپ کو ایک غمزدہ خاتون کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن آپ کے خطبوں کے اثرات نے آپ کو ایک بہادر،‌ شجاع اور مضبوط ارادوں کے مالک خاتون کے طور پر پیش کیا۔[38] پاکستانی شاعر نذر حسین جہانگیر نے اس خطبے کا 120 مصرعوں میں منظوم ترجمہ کیا ہے۔[39] شیعہ تاریخی محقق سید جعفر شہیدی اس بات کے معتقد ہیں کہ اگر شام اور کوفہ میں حضرت زینب کے خطبات نہ ہوتے تو واقعہ عاشورا کی عظمت بہت سارے افراد کے لئے روشن نہ ہوتی۔[40] اس مطلب کو ایک شعر میں منظوم طریقے سے پیش کیا گیا ہے:

کتاب شام میں حضرت زینب(س) کے خطبے کی شرح، مصنف علی کریمی جہرمی
سِرّ نِیْ در نِیْنَوا می‌ماند اگر زینب نبودکربلا در کربلا می‌ماند اگر زینب نبود
چہرۀ سرخ حقیقت بعد از آن توفان رنگپشت ابری از ریا می‌ماند اگر زینب نبود
چشمہ فریاد مظلومیت لب‌تشنگاندر کویر تفتہ جا می‌ماند اگر زینب نبود
زخمہ زخمی‌ترین فریاد در چنگ سکوتاز طراز نغمہ وا می‌ماند اگر زینب نبود
در طلوع داغ اصغر استخوان اشک سرخدر گلوی چشم‌ہا می‌ماند اگر زینب نبود
ذوالجناح دادخواہی بی سوار و بی لگامدر بیابان‌ہا رہا می‌ماند اگر زینب نبود
در عبور بستر تاریخ، سیل انقلابپشت کوہ فتنہ جا می‌ماند اگر زینب نبود[41]

مونوگراف

شام میں حضرت زینب کے خطبے کے بارے میں ادبی، سماجی اور تاریخی حوالے سے مختلف تحقیقیں تحریر کی گئی ہیں۔[42] اس خطبے کی شرح کے عنوان سے لکھی گئی بعض کتابیں درج ذیل:

  • کوفہ اور شام میں حضرت زینب(س) کے خطبے پر ایک نگاہ، مصنف: عبد الکریم پاک‌ نیا؛ اس کتاب کے مطالب چار فصلوں پر مشتمل ہے جس کی تیسری فصل شام میں حضرت زینب(س) کے خطبے اور اس کے نتائج کے بارے میں ہے۔[43] یہ کتاب سنہ 1389ہجری شمسی کو انتشارات فرہنگ اہل‌ بیتؑ کی کوششوں سے 130 صفحوں میں منتشر ہوئی ہے۔[44]
  • شام میں حضرت زینب(س) کے خطبے کی شرح، تألیف: علی کریمی جہرمی؛ انتشارات بوستان کتاب قم، یہ کتاب دوسری دفعہ سنہ 1394ہجری شمسی کو منتشر ہوئی ہے۔[45]
  • یزید بن معاویہ کے دربار میں حضرت زینب کے خطبے کی شرح، تحریر: رجب بن حسن؛ اس کتاب کو انتشارات میراث ماندگار نے سنہ 1400ہجری شمسی میں منتشر کیا ہے۔[46]

خطبے کا متن اور ترجمہ

متن ترجمه
بِسْمِ اللَّـہِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

فَقَامَتْ زَيْنَبُ بِنْتُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع فَقَالَتْ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعالَمِينَ وَ صَلَّى اللَّہُ عَلَى رَسُولِہِ وَ آلِہِ أَجْمَعِينَ صَدَقَ اللَّہُ سُبْحَانَہُ كَذَلِكَ يَقُولُ «ثُمَّ كانَ عاقِبَۃَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّواى‏ أَنْ كَذَّبُوا بِآياتِ اللَّہِ وَ كانُوا بِہا يَسْتَہْزِؤُنَ»[47] أَ ظَنَنْتَ يَا يَزِيدُ حَيْثُ أَخَذْتَ عَلَيْنَا أَقْطَارَ الْأَرْضِ وَ آفَاقَ السَّمَاءِ فَأَصْبَحْنَا نُسَاقُ كَمَا تُسَاقُ الْأُسَرَاءُ أَنَّ بِنَا ہَوَاناً عَلَيْہِ وَ بِكَ عَلَيْہِ كَرَامَۃً وَ أَنَّ ذَلِكَ‏ لِعِظَمِ خَطَرِكَ عِنْدَہُ فَشَمَخْتَ بِأَنْفِكَ وَ نَظَرْتَ فِي عِطْفِكَ جَذْلَانَ مَسْرُوراً حَيْثُ رَأَيْتَ الدُّنْيَا لَكَ مُسْتَوْثِقَۃً وَ الْأُمُورَ مُتَّسِقَۃً وَ حِينَ صَفَا لَكَ مُلْكُنَا وَ سُلْطَانُنَا فَمَہْلًا مَہْلًا أَ نَسِيتَ قَوْلَ اللَّہِ تَعَالَى «وَ لا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّما نُمْلِي لَہُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِہِمْ إِنَّما نُمْلِي لَہُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً وَ لَہُمْ عَذابٌ مُہِينٌ»[48] أَ مِنَ الْعَدْلِ يَا ابْنَ الطُّلَقَاءِ تَخْدِيرُكَ حَرَائِرَكَ وَ إِمَاءَكَ وَ سَوْقُكَ بَنَاتِ رَسُولِ اللَّہِ ص سَبَايَا قَدْ ہَتَكْتَ۔ سُتُورَہُنَّ وَ أَبْدَيْتَ وُجُوہَہُنَّ تَحْدُو بِہِنَّ الْأَعْدَاءُ مِنْ بَلَدٍ إِلَى بَلَدٍ وَ يَسْتَشْرِفُہُنَّ أَہْلُ الْمَنَاہِلِ وَ الْمَنَاقِلِ وَ يَتَصَفَّحُ وُجُوہَہُنَّ الْقَرِيبُ وَ الْبَعِيدُ وَ الدَّنِيُّ وَ الشَّرِيفُ لَيْسَ مَعَہُنَّ مِنْ رِجَالِہِنَّ وَلِيٌّ وَ لَا مِنْ حُمَاتِہِنَّ حَمِيٌّ وَ كَيْفَ يُرْتَجَى مُرَاقَبَۃُ مَنْ لَفَظَ فُوہُ أَكْبَادَ الْأَزْكِيَاءِ وَ نَبَتَ لَحْمُہُ مِنْ‏ دِمَاءِ الشُّہَدَاءِ وَ كَيْفَ يَسْتَبْطِئُ فِي بُغْضِنَا أَہْلَ الْبَيْتِ مَنْ نَظَرَ إِلَيْنَا بِالشَّنَفِ وَ الشَّنَئَانِ وَ الْإِحَنِ وَ الْأَضْغَانِ ثُمَّ تَقُولُ غَيْرَ مُتَأَثِّمٍ وَ لَا مُسْتَعْظِمٍ لَأَہَلُّوا وَ اسْتَہَلُّوا فَرَحاً/ ثُمَّ قَالُوا يَا يَزِيدُ لَا تُشَلَ‏» مُنْتَحِياً عَلَى ثَنَايَا أَبِي عَبْدِ اللَّہِ سَيِّدِ شَبَابِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ تَنْكُتُہَا بِمِخْصَرَتِكَ وَ كَيْفَ لَا تَقُولُ ذَلِكَ وَ قَدْ نَكَأْتَ الْقَرْحَۃَ وَ اسْتَأْصَلْتَ الشَّافَۃَ بِإِرَاقَتِكَ دِمَاءَ ذُرِّيَّۃِ مُحَمَّدٍ ص وَ نُجُومِ الْأَرْضِ مِنْ آلِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَ تَہْتِفُ بِأَشْيَاخِكَ زَعَمْتَ أَنَّكَ تُنَادِيہِمْ فَلَتَرِدَنَّ وَشِيكاً مَوْرِدَہُمْ وَ لَتَوَدَّنَّ أَنَّكَ شَلَلْتَ وَ بَكِمْتَ وَ لَمْ تَكُنْ قُلْتَ مَا قُلْتَ وَ فَعَلْتَ مَا فَعَلْتَ اللَّہُمَّ خُذْ لَنَا بِحَقِّنَا وَ انْتَقِمْ مِنْ ظَالِمِنَا وَ أَحْلِلْ غَضَبَكَ بِمَنْ سَفَكَ دِمَاءَنَا وَ قَتَلَ حُمَاتَنَا فَوَ اللَّہِ مَا فَرَيْتَ إِلَّا جِلْدَكَ وَ لَا حَزَزْتَ إِلَّا لَحْمَكَ وَ لَتَرِدَنَّ عَلَى رَسُولِ اللَّہِ ص بِمَا تَحَمَّلْتَ مِنْ سَفْكِ دِمَاءِ ذُرِّيَّتِہِ وَ انْتَہَكْتَ مِنْ حُرْمَتِہِ فِي عِتْرَتِہِ وَ لُحْمَتِہِ حَيْثُ يَجْمَعُ اللَّہُ شَمْلَہُمْ وَ يَلُمُّ شَعَثَہُمْ وَ يَأْخُذُ بِحَقِّہِمْ «وَ لا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّہِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ يُرْزَقُونَ»[49] وَ حَسْبُكَ بِاللَّہِ حَاكِماً وَ بِمُحَمَّدٍ ص خَصِيماً وَ بِجَبْرَئِيلَ ظَہِيراً وَ سَيَعْلَمُ مَنْ سَوَّلَ لَكَ وَ مَكَّنَكَ مِنْ رِقَابِ الْمُسْلِمِينَ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا وَ أَيُّكُمْ شَرٌّ مَكاناً وَ أَضْعَفُ جُنْداً وَ لَئِنْ جَرَّتْ عَلَيَّ الدَّوَاہِي مُخَاطَبَتَكَ إِنِّي لَأَسْتَصْغِرُ قَدْرَكَ وَ أَسْتَعْظِمُ تَقْرِيعَكَ وَ أَسْتَكْثِرُ تَوْبِيخَكَ لَكِنَّ الْعُيُونَ عبْرَى وَ الصُّدُورَ حَرَّى أَلَا فَالْعَجَبُ كُلُّ الْعَجَبِ لِقَتْلِ حِزْبِ اللَّہِ النُّجَبَاءِ بِحِزْبِ الشَّيْطَانِ الطُّلَقَاءِ فَہَذِہِ الْأَيْدِي تَنْطِفُ مِنْ دِمَائِنَا وَ الْأَفْوَاہُ تَتَحَلَّبُ مِنْ لُحُومِنَا وَ تِلْكَ الْجُثَثُ الطَّوَاہِرُ الزَّوَاكِي تَنْتَابُہَا الْعَوَاسِلُ وَ تُعَفِّرُہَا أُمَّہَاتُ الْفَرَاعِلِ وَ لَئِنِ اتَّخَذْتَنَا مَغْنَماً لَتَجِدَنَّا وَشِيكاً مَغْرَماً حِينَ لَا تَجِدُ إِلَّا مَا قَدَّمَتْ يَدَاكَ وَ ما رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ فَإِلَى اللَّہِ الْمُشْتَكَى وَ عَلَيْہِ الْمُعَوَّلُ فَكِدْ كَيْدَكَ وَ اسْعَ سَعْيَكَ وَ نَاصِبْ جُہْدَكَ فَوَ اللَّہِ لَا تَمْحُو ذِكْرَنَا وَ لَا تُمِيتُ وَحْيَنَا وَ لَا تُدْرِكُ أَمَدَنَا وَ لَا تَرْحَضُ عَنْكَ عَارَہَا وَ ہَلْ رَأْيُكَ إِلَّا فَنَدٌ وَ أَيَّامُكَ إِلَّا عَدَدٌ وَ جَمْعُكَ إِلَّا بَدَدٌ يَوْمَ يُنَادِي الْمُنَادِي أَلا لَعْنَۃُ اللَّہِ عَلَى الظَّالِمِينَ فَ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعالَمِينَ الَّذِي خَتَمَ لِأَوَّلِنَا بِالسَّعَادَۃِ وَ الْمَغْفِرَۃِ وَ لِآخِرِنَا بِالشَّہَادَۃِ وَ الرَّحْمَۃِ وَ نَسْأَلُ اللَّہَ أَنْ يُكْمِلَ لَہُمُ الثَّوَابَ وَ يُوجِبَ لَہُمُ الْمَزِيدَ وَ يُحْسِنَ عَلَيْنَا الْخِلَافَۃَ إِنَّہُ رَحِيمٌ وَدُودٌ وَ حَسْبُنَا اللَّہُ وَ نِعْمَ الْوَكِيلُ۔ [50]۔

اللہ کے نام سے جو بہت رحم والا نہایت مہربان ہے

سب تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو کائنات کا پروردگار ہے ۔ اور خدا کی رحمتیں نازل ہوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اور ان کی پاکیزہ عترت و اہل بیت(علیہم السلام) پر۔ اما بعد ! بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنے دامن حیات کو برائیوں کی سیاہی سے داغدار کر کے اپنے خدا کی آیات کی تکذیب کی اور آیات پروردگار کا مذاق اڑایا ۔ اے یزید! کیا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے[مختلف طرح سے] تنگ کر دئیے ہیں اور آلِ رسول کو رسیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو خدا کی بارگاہ میں سرفراز ہوا اور ہم رسوا ہوئے ہیں؟۔ کیا تیرے خیال میں ہم مظلوم ہو کر ذلیل ہو گئے اور تو ظالم بن کر سر بلند ہوا ہے؟۔ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کر کے خدا کی بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟۔ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے ، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے ۔ اور زمامداری[خلافت] کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے ۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور ہوش کی سانس لے ۔ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ حق کا انکار کرنے والے یہ خیال نہ کریں کہ ہم نے انہیں جو مہلت دی ہے وہ ان کے لئے بہتر ہے ۔ بلکہ ہم نے انہیں اس لئے ڈھیل دے رکھی ہے کہ جی بھر کر اپنے گناہوں میں اضافہ کر لیں ۔ اور ان کے لئے خوفناک عذاب معین کیا جا چکا ہے ۔ اس کے بعد فرمایا :اے طلقاءکے بیٹے (آزاد کردہ غلاموں کی اولاد) کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں بٹہا رکھا ہوا ہے جبکہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے ۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کا مرتکب ہوا ۔ تیرے حکم پر اشقیاءنے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا ۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا، اہل بیت رسولکی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے ۔ اورلوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے سب لوگ ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں ۔ ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بی بیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں ۔آج رسول زادیوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں ۔ آج آلِ محمد کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے ۔ اس شخص سے بھلائی کی کیا توقع ہو سکتی ہے جس کی ماں (یزید کی دادی) نے پاکیزہ لوگوں کے جگر کو چبایا ہو ۔ اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے جس نے شہیدوں کا خون پی رکہا ہو۔ وہ شخص کس طرح ہم اہل بیت(علیہم اسلام) پر مظالم ڈھانے میں کمی کر سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ہمیں دیکھتا ہے ۔ اے یزید ! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں ۔ اے یزید ! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علی (علیہ السلم) کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی بے ادبی کر رہا ہے ۔ اے یزید، تو کیوں خوش نہ ہو اور فخر و مباہات کے قصیدے نہ پڑھے کیونکہ تو نے اپنے ظلم و استبداد کے ذریعے فرزند رسول خدا اور عبدالمطلب کے خاندانی ستاروں کا خون بہا کر ہمارے دلوں کے زخموں کو گہرا کر دیا ہے اور شجرہ طیبہ کی جڑیں کاٹنے کے گھناونے جرم کا مرتکب ہوا ہے ۔تو نے اولاد رسول کے خون میں اپنے ہاتھ رنگین کئے ہیں ۔ تو نے عبدالمطلب کے خاندان کے ان نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا ہے جن کی عظمت و کردار کے درخشندہ ستارے زمین کے گوشے گوشے کو منور کیے ہوئے ہیں ۔ آج تو آلِ رسول کو قتل کر کے اپنے بد نہاد[برے] اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے ۔ تو سمجہتا ہے کہ وہ تیری آواز سن رہے ہیں؟ ! (جلدی نہ کر) عنقریب تو بہی اپنے ان کافر بزرگوں کے ساتھ جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا ۔ اس کے بعد حضرت زینب نے آسمان کی طرف منہ کر بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا ! اے ہمارے پروردگار، تو ہمارا حق ان ظالموں سے ہمیں دلا دے اور تو ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے ۔ اے پردگار تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے ۔ اور اے خدا تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کر دیا ۔ اے یزید ! (خدا کی قسم ) تو نے جو ظلم کیا ہے یہ اپنے ساتھ ظلم کیا ہے ۔ تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کی ہے ۔ اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹا ہے ۔ تو رسولِ خدا کے سامنے ایک مجرم کی صورت میں لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناونے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو کیوں دربدر پھرایا ۔ نیز رسول کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں روا رکھا ۔ اے یزید ! یاد رکھ کہ خدا، آلِ رسول کا تجھ سے انتقام لے کر ان مظلوموں کا حق انہیں دلائے گا ۔ اور انہیں امن و سکون کی نعمت سے مالامال کر دے گا ۔ خدا کا فرمان ہے کہ تم گمان نہ کرو کہ جو لوگ راہِ خدا میں مارے گئے وہ مر چکے ہیں ۔ بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پا گئے اور بارگاہِ الٰہی سے روزی پا رہے ہیں ۔ اے یزید ! یاد رکھ کہ تو نے جو ظلم آلِ محمد پر ڈھائے ہیں اس پر رسول خدا ، عدالتِ الٰہی میں تیرے خلاف شکایت کریں گے ۔ اور جبرائیلِ امین آلِ رسول کی گواہی دیں گے ۔ پھر خدا اپنے عدل و انصاف کے ذریعہ تجھے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا ۔ اور یہی بات تیرے برے انجام کے لئے کافی ہے ۔ عنقریب وہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے جنہوں نے تیرے لئے ظلم و استبداد کی بنیادیں مضبوط کیں اور تیری آمرانہ سلطنت کی بساط بچھا کر تجھے اہل اسلام پر مسلط کر دیا ۔ ان لوگوں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ ستمگروں کا انجام برا ہوتا ہے اور کس کے ساتھی ناتوانی کا شکار ہیں ۔ اس کے بعد فرمایا : اے یزید ! یہ گردش ایام اور حوادث روزگار کا اثر ہے کہ مجھے تجھ جیسے بدنہاد [برے انسان] سے ہمکلام ہونا پڑا ہے اور میں تجھ جیسے ظالم و ستمگر سے گفتگو کر رہی ہوں ۔ لیکن یاد رکھ میری نظر میں تو ایک نہایت پست اور گھٹیا شخص ہے جس سے کلام کرنا بھی شریفوں کی توہین ہے ۔ میری اس جرائت سخن پر تو مجھے اپنے ستم کا نشانہ ہی کیوں نہ بنا دے لیکن میں اسے ایک عظیم امتحان اور آزمائش سمجھتے ہوئے صبر و استقامت اختیار کروں گی اور تیری بد کلامی و بدسلوکی میرے عزم و استقامت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔اے یزید ! آج ہماری آنکھیں اشکبار ہیں اور سینوں میں آتش غم کے شعلے بھڑک رہے ہیں ۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ شیطان کے ہمنوا اور بدنام لوگوں نے رحمان کے سپاہیوں اور پاکباز لوگوں کو تہہ تیغ کرڈالا ہے ۔ اور ابھی تک اس شیطانی ٹولے کے ہاتھوں سے ہمارے پاک خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں ۔ ان کے ناپاک دہن ہمارا گوشت چبانے میں مصروف ہیں اور صحرا کے بھیڑیئے ان پاکباز شہیدوں کی مظلوم لاشوں کے ارد گرد گھوم رہے ہیں اور جنگل کے نجس درندے ان پاکیزہ جسموں کی بے حرمتی کر رہے ہیں ۔ اے یزید ! اگر آج تو ہماری مظلومیت پر خوش ہو رہا ہے اور اسے اپنے دل کی تسکین کا باعث سمجھ رہا ہے تو یاد رکھ کہ جب قیامت کے دن اپنی بد کرداری کی سزا پائے گا تو اس کا برداشت کرنا تیرے بس سے باہر ہو گا ۔ خدا عادل ہے اور وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ۔ ہم اپنی مظلومیت اپنے خدا کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ اور ہر حال میں اسی کی عنایات اور عدل و انصاف پر ہمارا بھروسہ ہے ۔ اے یزید ! تو جتنا چاہے مکر و فریب کر لے اور بھر پور کوشش کر کے دیکھ لے مگر تجہے معلوم ہونا چاہیئے کہ تو نہ تو ہماری یاد لوگوں کے دلوں سے مٹا سکتا ہے اور نہ ہی وحی الٰہی کے پاکیزہ آثار محو کر سکتا ہے ۔تو یہ خیال خام اپنے دل سے نکال دے کہ ظاہر سازی کے ذریعے ہماری شان و منزلت کو پا لے گا ۔تو نے جس گھناونے جرم کا ارتکاب کیا ہے اس کا بد نما داغ اپنے دامن سے نہیں دھو پائے گا ۔ تیرا نظریہ نہایت کمزور اور گھٹیا ہے ۔تری حکومت میں گنتی کے چند دن باقی ہیں ۔ تیرے سب ساتھی تیرا ساتھ چھوڑ جائیں گے ۔ تیرے پاس اس دن کی حسرت و پریشانی کے سوا کچھ بھی نہیں بچے گا ۔ جب منادی ندا کرے گا کہ ظالم و ستمگر لوگوں کے لئے خدا کی لعنت ہے ۔ ہم خدائے قدوس کی بارگاہ میں سپاس گزار ہیں کہ ہمارے خاندان کے پہلے فرد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سعادت و مغفرت سے بہرہ مند فرمایا اور امام حسین علیہ السلام کو شہادت و رحمت کی نعمتوں سے نوازا ۔ ہم بارگاہِ ایزدی میں دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے شہیدوں کے ثواب و اجر میں اضافہ و تکمیل فرمائے اور ہم باقی سب افراد کو اپنی عنایتوں سے نوازے، بے شک خدا ہی رحم و رحمت کرنے والا اور حقیقی معنوں میں مہربان ہے ۔ خدا کی عنایتوں کے سوا ہمیں کچھ مطلوب نہیں اور ہمیں صرف اور صرف اسی کی ذات پر بھروسہ ہے اس لئے کہ اس سے بہتر کوئی سہارا نہیں ہے”


متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. داوودی، و مہدی رستم‌نژاد، عاشورا، ریشہ‌ہا، انگیزہ‌ہا، رویدادہا، پیامدہا، 1386ہجری شمسی، ص592۔
  2. ہاشمی‌نژاد، درسی کہ حسین بہ انسانہا آموخت، 1382ہجری شمسی، ص220-221۔
  3. روشنفکر، و دانش محمدی، «تحلیل گفتمان ادبی خطبہ‌ہای حضرت زینب(س)»، ص134۔
  4. فریشلر، امام حسین و ایران، 1366ہجری شمسی، ص517۔
  5. نمونہ کے لئے ان مقالات کی طرف رجوع کریں: رنجبرحسینی، و مریم اسلامی‌پور، «تحلیل اقتباس‌ہای قرآنی خطبہ حضرت زینب(س) در شام»؛ رضایی، و محدثہ دلارام‌نژاد، «تحلیل فرانقش اندیشگانی خطبہ حضرت زینب(س) بر اساس دستور نقش گرای ہلیدی»؛ یاراحمدی، و زہرا خیراللہی، «معارف قرآنی در خطبہ حضرت زینب(س)»؛ خرسندی، و دیگران، «تحلیل بلاغی خطبہ حضرت زینب(س)»؛ نصراوی، «درآمدی بر گفتمان کاوی تاریخی، مطالعۀ موردی خطبہ حضرت زینب(س) در شام»؛ روشنفکر، و دانش محمدی، «تحلیل گفتمان ادبی خطبہ‌ہای حضرت زینب(س)»۔
  6. روشنفکر، و دانش محمدی، «تحلیل گفتمان ادبی خطبہ‌ہای حضرت زینب(س)»، ص134۔
  7. سید ابن‌طاووس، اللہوف علی قتلی الطفوف، 1348ہجری شمسی، ص184۔
  8. فریشلر، امام حسین و ایران، 1366ہجری شمسی، ص520۔
  9. حسینی خامنہ‌ای، ‌‌بیانات در دیدار جمعی از پیشکسوتان جہاد و شہادت و خاطرہ‌گویان دفتر ادبیات و ہنر مقاومت‌۔
  10. فریشلر، امام حسین و ایران، 1366ہجری شمسی، ص520۔
  11. ابن‌طیفور، بلاغات النساء، الشریف الرضی، ص34۔
  12. ابن‌نما حلّی، مثیر الأحزان، 1406ھ، ص100-101۔
  13. سید ابن‌طاووس، اللہوف علی قتلی الطفوف، 1348ہجری شمسی، ص178۔
  14. ابن‌طیفور، بلاغات النساء، الشریف الرضی، ص34۔
  15. ابومخنف، وقعۃ الطف، 1417ھ، ص269۔
  16. فتّال نیشابوری، روضۃ الواعظین، 1375ہجری شمسی، ص191۔
  17. ابن‌طیفور، بلاغات النساء، الشریف الرضی، ص34۔
  18. ابن‌طیفور، بلاغات النساء، الشریف الرضی، ص34۔
  19. فتّال نیشابوری، روضۃ الواعظین، 1375ہجری شمسی، ص191۔
  20. طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج2، ص308-310۔
  21. ابن‌نما حلّی، مثیر الأحزان، 1406ھ، ص101-102۔
  22. سید ابن‌طاووس، اللہوف علی قتلی الطفوف، 1348ہجری شمسی، ص181-186۔
  23. ابن‌طیفور، بلاغات النساء، الشریف الرضی، ص35-36۔
  24. روشنفکر، و دانش محمدی، «تحلیل گفتمان ادبی خطبہ‌ہای حضرت زینب(س)»، ص134۔
  25. داوودی، و مہدی رستم‌نژاد، عاشورا، ریشہ‌ہا، انگیزہ‌ہا، رویدادہا، پیامدہا، 1386ہجری شمسی، ص592-593۔
  26. خانی‌مقدم، «چرایی تجلی قرآن در خطبہ‌ہای حضرت زینب(س)، اہداف و نتایج»، ص70-72۔
  27. روشنفکر، و دانش محمدی، «تحلیل گفتمان ادبی خطبہ‌ہای حضرت زینب(س)»، ص142۔
  28. روشنفکر، و دانش محمدی، «تحلیل گفتمان ادبی خطبہ‌ہای حضرت زینب(س)»، ص142۔
  29. رنجبرحسینی، و مریم اسلامی‌پور، «تحلیل اقتباس‌ہای قرآنی خطبہ حضرت زینب(س) در شام»، ص24۔
  30. ملاحظہ کریں: سید ابن‌طاووس، اللہوف علی قتلی الطفوف، 1348ہجری شمسی، ص182۔
  31. صافی گلپایگانی، حسینؑ شہید آگاہ، 1366ہجری شمسی، ص385-386۔
  32. فریشلر، امام حسین و ایران، 1366ہجری شمسی، ص523-524۔
  33. صراوی، «درآمدی بر گفتمان کاوی تاریخی، مطالعۀ موردی خطبہ حضرت زینب(س) در شام»، ص87۔
  34. صراوی، «درآمدی بر گفتمان کاوی تاریخی، مطالعۀ موردی خطبہ حضرت زینب(س) در شام»، ص88۔
  35. ہاشمی‌نژاد، درسی کہ حسینؑ بہ انسانہا آموخت، 1382ہجری شمسی، ص221۔
  36. خانی‌مقدم، «چرایی تجلی قرآن در خطبہ‌ہای حضرت زینب(س)، اہداف و نتایج»، ص82۔
  37. حیدری، و دیگران، «بازخوانی جلوہ‌ہای مقاومت در خطبہ‌ہای حضرت زینب(س) و شعر عاشورایی»، ص20۔
  38. حیدری، و دیگران، «بازخوانی جلوہ‌ہای مقاومت در خطبہ‌ہای حضرت زینب(س) و شعر عاشورایی»، ص20۔
  39. امین، پرتویی از تاریخ تشیع، 1385ہجری شمسی، ص106۔
  40. شہیدی، «اگر زینب نبود عظمت عاشورا جاودانہ نمی‌شد»، ص14۔
  41. مجاہدی، کاروان شعر عاشورا، 1386ہجری شمسی، ص623۔
  42. رنجبرحسینی، و مریم اسلامی‌پور، «تحلیل اقتباس‌ہای قرآنی خطبہ حضرت زینب(س) در شام»، ص8۔
  43. پاک‌نیا، نگاہی بہ خطبہ‌ہای حضرت زینب(س)، 1389ہجری شمسی، صفحہ فہرست کتاب۔
  44. پاک‌نیا، نگاہی بہ خطبہ‌ہای حضرت زینب(س)، 1389ہجری شمسی، صفحہ شناسنامہ کتاب۔
  45. کریمی جہرمی، شرح خطبہ حضرت زینب(س)، 1394ہجری شمسی، صفحہ شناسنامہ کتاب۔
  46. بن‌حسن، شرح خطبۃ السیدۃ زینب(س)، 1400ہجری شمسی، صفحہ شناسنامہ کتاب۔
  47. سورہ روم، آیت 10
  48. سورہ آل عمران، آیت 178
  49. سورہ آل عمران، آیت 169ـ170۔
  50. سید بن طاوس،اللہوف علی قتلی الطفوف، ص214-220۔ اس خطبے کو طبرسی نے بھی اپنی کتاب الاحتجاج میں نقل کیا ہے جو لہوف میں مذکور متن سے کچھ اختلاف رکھتا ہے۔ طبرسی، الاحتجاج، ج2، ص308۔

مآخذ

  • ابومخنف، لوط بن یحیی، وقعۃ الطف، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1417ھ۔
  • ابن‌طیفور، احمد بن ابی‌طاہر، بلاغات النساء، قم، الشریف الرضی، بی‌تا۔
  • ابن‌نما حلّی، جعفر بن محمد، مثیر الأحزان، قم، مدرسہ امام مہدی(ع)، 1406ھ۔
  • امین، حسن، پرتویی از تاریخ تشیع، ترجمہ: محمدحسن آیت‌اللہی، قم، مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، 1385ہجری شمسی۔
  • بن‌حسن، رجب، شرح خطبۃ السیدۃ زینب(س) فی مجلس یزید بن معاویہ، قم، میراث ماندگار، 1400ہجری شمسی۔
  • پاک‌نیا، عبدالکریم، نگاہی بہ خطبہ‌ہای حضرت زینب(س) در کوفہ و شام، قم، فرہنگ اہل‌بیت(ع)، 1389ہجری شمسی۔
  • حسینی خامنہ‌ای، سید علی، ‌‌«بیانات در دیدار جمعی از پیشکسوتان جہاد و شہادت و *خاطرہ‌‌گویان دفتر ادبیات و ہنر مقاومت‌»، در پایگاہ اینترنتی دفتر حفظ و نشر آثار حضرت آیت‌اللہ سید علی خامنہ‌ای، تاریخ درج: 31 شہریور 1384ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 16 مہر 1403ہجری شمسی۔
  • حیدری، و دیگران، «بازخوانی جلوہ‌ہای مقاومت در خطبہ‌ہای حضرت زینب(س) و شعر عاشورایی»، در مجلہ کاوش‌نامہ ادبیات تطبیقی، شمارہ 40، زمستان 1399ہجری شمسی۔
  • خانی‌مقدم، مہیار، «چرایی تجلی قرآن در خطبہ‌ہای حضرت زینب(س)، اہداف و نتایج»، در مجلہ مشکات، زمستان 1394ہجری شمسی۔
  • خرسندی، محمود، و دیگران، «تحلیل بلاغی خطبہ حضرت زینب(س)»، در مجلہ مطالعات ادبی متون اسلامی، شمارہ 2، پاییز 1391ہجری شمسی۔
  • داوودی، سعید، و مہدی رستم‌نژاد، عاشورا ریشہ‌ہا، انگیزہ‌ہا، رویدادہا، پیامدہا، قم، امام علی بن ابی طالب علیہ‌السلام، زیر نظر آیت اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی، 1388 ہجری شمسی، ص596۔
  • رضایی، رضا، و محدثہ دلارام‌نژاد، «تحلیل فرانقش اندیشگانی خطبہ حضرت زینب(س) بر اساس دستور نقش گرای ہلیدی»، در فصل‌نامہ لسان مبین، شمارہ 48، تابستان 1401ہجری شمسی۔
  • رنجبرحسینی، محمد، و مریم اسلامی‌پور، «تحلیل اقتباس‌ہای قرآنی خطبہ حضرت زینب(س) در شام»، در پژوہش‌نامہ معارف حسینی، شمارہ 17، بہار 1399ہجری شمسی۔
  • روشنفکر، کبری، و دانش محمدی، «تحلیل گفتمان ادبی خطبہ‌ہای حضرت زینب(س)»، در مجلہ مطالعات قرآن و حدیث سفینہ، شمارہ 22، بہار 1388ہجری شمسی۔
  • سید ابن‌طاووس، علی بن موسی، اللہوف علی قتلی الطفوف، ترجمہ: احمد فہری زنجانی، تہران، جہان، 1348ہجری شمسی۔
  • شہیدی، سید جعفر، «اگر زینب نبود عظمت عاشورا جاودانہ نمی‌شد»، مصاحبہ در مجلہ گلستان قرآن، شمارہ 60، اردیبہشت 1380ہجری شمسی۔
  • صافی گلپایگانی، لطف‌اللہ، حسین(ع) شہید آگاہ و رہبر نجات‌بخش اسلام، مشہد، مؤسسہ نشر و تبلیغ، 1366ہجری شمسی۔
  • صراوی، محمد، «درآمدی بر گفتمان کاوی تاریخی، مطالعۀ موردی خطبہ حضرت زینب(س) در شام»، در مجلہ مطالعات تاریخی قرآن و حدیث، شمارہ 57، بہار و تابستان 1394ہجری شمسی۔
  • طَبْرِسی، احمد بن علی، الاحتجاج علی اہل اللجاج، مشہد، نشر مرتضی، 1403ھ۔
  • فتّال نیشابوری، محمد بن احمد، روضۃُ الواعِظین و بَصیرۃُ المُتَّعِظین، قم، انتشارات رضی، 1375ہجری شمسی۔
  • فریشْلِر، کورْت، امام حسین و ایران، ترجمہ: ذبیح‌اللہ منصوری، تہران، جاویدان، چاپ سوم، 1366ہجری شمسی۔
  • کریمی جہرمی، علی، شرح خطبہ حضرت زینب(س) در شام، قم، بوستان کتاب، 1394ہجری شمسی۔
  • مجاہدی، محمدعلی، کاروان شعر عاشورا، قم، زمزم ہدایت، 1386ہجری شمسی۔
  • ہاشمی‌نژاد، عبدالکریم، درسی کہ حسین(ع) بہ انسانہا آموخت، مشہد، بہ‌نشر، 1382ہجری شمسی۔
  • یاراحمدی، آذر، و زہرا خیراللہی، «معارف قرآنی در خطبہ حضرت زینب(س)»، در مجلہ بینات، شمارہ 105 و 106، بہار و تابستان 1399ہجری شمسی۔