سورہ تکاثر
قارعہ | سورۂ تکاثر | عصر | |||||||||||||||||||||||
|
سورہ تَکاثُر قرآن مجید کی 102ویں سورت جس کا شمار مکی سورتوں میں ہوتا ہے اور قرآن مجید کے 30ویں پارے میں واقع ہے۔ تکاثر کا معنی ایک دوسرے کو دیکھ کر بڑھ چڑھ کر حصول دنیا اور بزرگی دیکھانے کی کوشش کو کہا جاتا ہے کیونکہ چونکہ یہ لفظ اس سورت کی پہلی آیت میں مذکور ہے۔اس لئے اس سورت کا نام تکاثر رکھا گیا ہے۔ اس سورت میں ان لوگوں کی مذمت ہوئی ہے جو مال، اولاد اور طرفداروں کے لحاظ سے دوسروں پر فخر کرتے ہیں اور کہا گیا ہے کہ عنقریب جو نعمتیں ان لوگوں کو دی گئی ہیں اس بارے میں ان سے سوال ہوگا۔ روایات میں آیا ہے کہ نعمت سے مراد اہلبیتؑ ہیں۔ اس سورت کی تلاوت کی فضیلت میں یہ نقل ہوا ہے کہ اس کی تلاوت قرآن مجید کی ہزار آیتوں کی تلاوت کے برابر ہے۔
تعارف
- نام
اس سورت کو تَکاثُر کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ اس کی پہلی آیت میں یہ کلمہ آیا ہے۔[1] تکاثر یعنی کثرت مال اور اجتماعی حیثیت میں ایک دوسرے کو دیکھ کر سبقت لینے کی کوشش کرنا۔[2]
- ترتیب اور محل نزول
سورہ تکاثر مکی سورتوں میں سے ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہونے ولی 16ویں سورت ہے اور قرآن مجید کے موجودہ مصحف میں 102ویں سورت ہے اور 30ویں پارے میں واقع ہے۔
- آیات کی تعداد اور دوسری خصوصیات
سورہ تکاثر میں 8 آیات، 28 الفاظ اور 123 حروف ہیں۔ حجم کے اعتبار سے اس کا شمار مفصلات سورتوں (چھوٹی آیات والی) میں ہوتا ہے۔[3]
مضمون
اس سورت میں "تکاثر" یعنی دنیا طلبی، اولاد اور طرفداروں کی کثرت میں ایک دوسرے پر فخر و مباہات کرنے کی مذمت ہوئی ہے؛ اس خصوصیت کی وجہ سے وہ لوگ اللہ تعالی اور حقیقی سعادت سے غافل ہوتے ہیں۔ اسی طرح ان لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ بہت جلدی اپنی اس بیہودہ حرکتوں کا نتیجہ پالیں گے اور جو نعمتیں انہیں دی گئی ہیں اس بارے میں عنقریب ان سے سوال ہوگا۔[4]
آخرت سے غافل دنیاپرستوں کو تذکر | |||||||||||||||
دوسرا گفتار: آیہ۳- ۸ دوزخ دیکھنے کے بعد دنیاپرستوں کا اپنے کام کے بارے میں آگاہی | پہلا گفتار: آیہ ۱ - ۲ انسان کا حد سے زیادہ دنیوی امور کی طرف توجہ | ||||||||||||||
پہلا مطلب: آیہ۳ - ۴ بہت جلدی دنیاپرستوں کی حقیقت کے بارے میں جان لوگے | پہلا مطلب: آیہ ۱ دنیاگرایی، عامل غفلت انسان از کمال و سعادت | ||||||||||||||
دوسرا مطلب: آیہ ۵-۶ دنیا میں یقینی علم کے ذریعے دوزخ کو دیکھ سکتے ہیں | دوسرا مطلب: آیہ ۲ بعض لوگوں کا مرتے دم تک دنیا طلبی پر اصرار | ||||||||||||||
تیسرا مطلب: آیہ ۷ آخرت میں دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھو گے | |||||||||||||||
تیسرا مطلب: آیہ ۸ نعمتوں سے غلط استفادہ کے بارے میں آخرت میں سوال ہوگا | |||||||||||||||
شأن نزول
تفسیر مجمع البیان میں اس سورت کے چند ایک شأن نزول بیان ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک کے بارے میں یوں کہا گیا ہے۔یہ سورت قریش کے دو قبیلے عبدمناف بن قصی کی اولاد اور سہم بن عمر کی اولاد کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مال و ثروت اور اولاد اور تعداد کی کثرت کا حوالہ دیتے ہوئے ایک دوسرے پر تفاخر کرتے تھے اس طرح اپنے اشراف کی گنتی کی تو بنی عبدمناف کے اشراف زیادہ ہوئے اسی وجہ سے سہم کی اولاد نے کہا مردوں کی بھی گنتی کرتے ہیں اور یوں قبرستان جاکر قبروں کی گنتی شروع کی۔ اس کام کے بعد سہم کی اولاد عبدمناف کی اولاد سے زیادہ ہوئی؛ کیونکہ جاہلیت کے دور میں وہ باقیوں سے زیادہ تھے۔[6]
آیت أَلْہَاكُمُ التَّكَاثُرُ امام علی کے کلام میں
امام علیؑ نے نہج البلاغہ کے ایک خطبے میں آیت أَلْہَاكُمُ التَّكَاثُرُ کی تشریح کی ہے۔ امامؑ سورہ تکاثر کی پہلی دو آیتوں کی تلاوت کے بعد مردوں سے عبرت لینے کے بجائے انہیں فخر و مباہات کا وسیلہ قرار دیتے پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ انسان کو چاہئے کہ وہ موت پر فخر کرنے کی بجائے اپنے آباء و اجداد اور انسانوں میں سے لقمہ اجل بننے والے کثیر تعداد اور ان کے مقام سے عبرت حاصل کرے اور غرور و تکبر کی جگہ تواضع اور فروتنی کا اظہار کرے۔ امام علیؑ کے مطابق مردوں سے عبرت لینے کے لئے یہی کافی ہے کہ ان مردوں پر فخر و مباہات کرنے والے ان مردوں کے کھوپڑیوں پر چل رہے ہوتے ہیں اور ان کے بدن پر زراعت کر رہے ہوتے ہیں اور ان مردوں نے جو کچھ چھوڑ کر گئے ہیں یہ لوگ انہیں چیزوں کو کھا رہے ہوتے ہیں اور ان کے ویران گھروں میں یہ لوگ سکونت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ایک دن یہی مردے صاحب عزت اور فخر و مباہات کے مالک تھے۔ یہ لوگ یا خود پادشاہ تھے یا کسی پادشاہ کی رعیت میں سرفرازی کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے کہ اچانک یہ لوگ برزخ پہنچ گئے اور زمین نے انہیں دھنس لی، ان کے بدن کے گوشت کھا لیا گیا، ان کا خون چوس لیا گیا اور اب یہ لوگ قبر کی تنگ کوٹھری میں بے جان پڑے ہوئے ہیں۔[7]
اہل بیتؑ کی نعمت اور اس کے بارے میں سوال
سورہ تکاثر کی آخری آیت میں کہا گیا ہے کہ آخرت میں نعمت کے بارے میں سوال ہوگا (یعنی کہاں پر اسے استعمال کیا)۔ امام صادقؑ سے ایک روایت میں منقول ہے کہ اس آیت میں نعمت سے مراد اہلبیتؑ ہیں۔ اس روایت میں کہا گیا ہے کہ اہل سنت کے مشہور عالم دین ابوحنیفہ نے امام صادقؑ سے اس آیت کا معنی پوچھا۔ تو امام نے اسے کہا تمہارے خیال میں اس آیت میں «نعیم» سے کیا مراد ہے تو ابوحنیفہ نے کہا: اس سے مراد کھانے پینے والی چیزیں ہیں۔ امام صادقؑ نے فرمایا: اگر قیامت کے دن اللہ تعالی تمہارے ہر لقمہ غذا اور ہر گھونٹ پانی کے بارے میں سوال کرنے کے لیے اپنے پاس کھڑا رکھے تو بہت سارا وقت وہاں رہنا ہوگا، جبکہ اس «نعیم» سے مراد ہم اہل بیت ہیں کہ اللہ تعالی نے لوگوں کے دلوں میں ہماری محبت قرار دیا اور آپس میں جوڑ دیا جبکہ پہلے آپس میں اختلاف تھا اور آپس میں دشمن تھے، اور ہمارے ذریعے سے ان کو اسلام کی ہدایت دی۔ اور اسی نعمت کے بارے میں اللہ تعالی پوچھیں گے یعنی پیغمبر اکرمؐ اور اہل بیتؑ۔
فضیلت اور خواص
سورہ تکاثر کی فضیلت کے بارے میں روایات میں آیا ہے کہ اگر کوئی شخص اس سورت کی تلاوت کرے تو اللہ تعالی نے دنیا میں جو نعمتیں اسے دی ہے اس کا حساب کتاب نہیں ہوگا۔ اور ہزار آیات کی تلاوت کے برابر ثواب ہے۔[8]اسی طرح امام صادقؑ سے روایت منقول ہے کہ جو شخص واجب نمازوں میں سورہ تکاثر پڑھے تو اسے سو شہیدوں کا ثواب دے گا اور اگر مستحب نمازوں میں پڑھے تو 50 شہیدوں کا اجر لکھے گا اور واجب نماز میں فرشتوں کی چالیس صفیں اس کے پیچھے نماز پڑھیں گی[9]بعض روایات میں کچھ خصوصیات بیان ہوئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جو اس سورت کی تلاوت کرے گا اگلے دن غروب تک امان میں رہے گا۔[10]
متن سورہ
سوره تکاثر
|
ترجمہ
|
---|---|
أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ ﴿1﴾ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ﴿2﴾ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ ﴿3﴾ ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ ﴿4﴾ كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ ﴿5﴾ لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ﴿6﴾ ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِينِ ﴿7﴾ ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ ﴿8﴾ |
تمہیں کثرت (مال و اولاد) کی مسابقت نے غفلت میں رکھا۔ (1) یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پہنچے۔ (2) ہرگز نہیں! عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔ (3) پھر ہرگز نہیں! عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔ (4) ہرگز نہیں! اگر تم یقینی طور پر (اس روش کے انجام کو) جانتے (تو ہرگز ایسا نہ کرتے)۔ (5) تم ضرور دوزخ کو دیکھو گے۔ (6) پھر تم لوگ (آخرت میں) ضرور یقین کی آنکھ سے اسے (یقینی دیکھنا) دیکھو گے۔ (7) پھر اس دن تم سے نعمتوں کے بارے میں ضرور بازپُرس کی جائے گی۔ (8) |
پچھلی سورت: سورہ قارعہ | سورہ تکاثر | اگلی سورت:سورہ عصر |
1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آلعمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس |
حوالہ جات
- ↑ دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، ج2، ص1267.
- ↑ راغب اصفهانی، مفردات الفاظ القرآن، لفظ «کثر» کے ذیل میں.
- ↑ دانش نامہ قرآن و قرآنپژوہی، 1377شمسی، ج2، ص1267.
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1974م، ج20، ص351-352.
- ↑ خامہگر، محمد، ساختار سورہہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج10، ص811.
- ↑ نہج البلاغہ، خ 221 ترجمہ محمد دشتی، http://farsi.balaghah.net/content/
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج10، ص810.
- ↑ شیخ صدوق، ثواب الاعمال، 1406ق، ص125.
- ↑ بحرانی، البرهان، 1416ق، ج5، ص743.
مآخذ
- قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
- بحرانی، سید ہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، تہران، بنیاد بعثت، 1416ھ۔
- دانش نامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج2، بہ کوشش بہاء الدین خرم شاہی، تہران: دوستان-ناہید، 1377ہجری شمسی۔
- راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات الفاظ القرآن، بہ تحقیق صفوان عدنان داوودی، بیروت، دار الشامیۃ، چاپ اول، 1412ھ۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، قم، دار الشریف الرضی، چاپ دوم، 1406ھ۔
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1974ء.
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بہ تصحیح فضلاللہ یزدی طباطبایی و ہاشم رسولی، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
- معرفت، محمدہادی، آموزش علوم قرآن، [بیجا]، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، چ1، 1371ہجری شمسی۔