یتیم

ویکی شیعہ سے
(یتامی سے رجوع مکرر)

یَتیم فقہی اصطلاح میں اس بچے کو کہا جاتا ہے جس نے بلوغت تک پہنچنے سے پہلے اپنے باپ کو کھودیا ہے۔ نیکی، انفاق، کھانا کھلانا، تعظیم، اور ان کی دیکھ بھال یتیموں کے بارے میں قرآن اور احادیث میں مذکور احکامات ہیں۔

یتیموں کے لیے بعض شرعی احکام ذکر ہوئے ہیں؛ ان میں: محجور ہونا، دادا کے لئے ولایت، والدہ کے لئے حق حضانت، یتیم کے ساتھ ظالمانہ سلوک کی ممانعت، یتیم کے مال کی حفاظت اور امانت داری، بہتر طریقے سے اسے خرچ کرنا، یتیم کا مال کھانا گناہ کبیرہ ہونا، یتیم کے مال سے اس کے مفاد کا لحاظ رکھے بغیر تجارت اور قرض لینے کی ممانعت، یتیم کے بالغ ہونے اور بڑے ہونے کے بعد اس کا مال اس کے حوالے کرنا، یتیم سادات کا خمس سے حصہ لینا شامل ہیں۔ یتیم بالغ اور رشید ہونے کے بعد یتیمی اور اس کے احکام سے خارج ہوتا ہے۔

مفہوم شناسی

یتیم (کی جمع: اَیتام و یَتامیٰ) فقہی اصطلاح میں یتیم وہ شخص ہے جس نے بلوغت سے پہلے اپنے والد کو کھو دیا ہو؛[1] اگرچہ اس کا دادا زندہ ہی کیوں نہ ہو۔[2] شرعی اعتبار سے جس کی والدہ مر گئی ہو اسے یتیم نہیں کہا جاتا ہے۔[3] قرآن اور حدیث میں یتیم غیر شرعی اور لغوی معنی( تنہائی اور اکیلے کے معنی میں آیا ہے اور اس انسان کو بھی کہا گیا ہے جس کے والدین میں سے ایک مر گیا ہو[4]) بھی استعمال ہوا ہے۔[5]

یتیم نوازی

قرآن اور احادیث میں یتیموں کی تعظیم اور ان کی سرپرستی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن نے یتیموں کے لیے نیکی کرنے،[6] انفاق،[7] کھانا کھلانے[8] اور ان کے امور کی اصلاح کی سفارش کی ہے۔[9] قرآن میں کہا گیا ہے کہ قیامت کا انکار کرنے والا شخص وہ ہے جو کسی یتیم کی توہین کرے اور اس پر ظلم کرے۔[10] قرآن میں اخلاقی سفارش کی بنیاد پر میت کی جائیداد تقسیم کرتے وقت اگر اس کے رشتہ داروں میں کوئی یتیم ہو تو اسے بھی حصہ دینے کا کہا گیا ہے؛ اگرچہ وہ وارث نہ بھی ہو۔[11]

رسول اللہؐ کی نظر میں بہترین گھر وہ ہے جہاں یتیم کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور بدترین گھر وہ ہے جہاں یتیم کے ساتھ برا سلوک کیا جائے۔[12] اور مومن مرد یا عورت جو کسی یتیم کے سر پر دست شفقت پھیرتا ہے اس کے ہاتھ پر لگنے والے ہر بال کے بدلے میں اسے ایک حسنہ ملتا ہے۔[13] امام علیؑ نے شب ضربت ابن ملجم کے ہاتھوں ضربت کھانے کے بعد حسنینؑ کو وصیت کرتے ہوئے «اَللَّہَ اَللَّہَ فِی اَلْأَیتَامِ» جیسی تعبیر سے یتیموں کے بارے میں تاکید کی۔ "خدا کے لئے، خدا کے لئے، یتیموں کے بارے میں، انہیں کبھی پیٹ بھر کر اور کبھی بھوکا نہ چھوڑیں، ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کے پاس ہی ہلاک ہو جائیں۔"[14] احادیث کے مطابق اگر کوئی کسی یتیم کی سرپرستی اور خرچ اس لیے قبول کرتا ہے کہ وہ بے نیاز یا بالغ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کے لیے جنت میں جانا واجب قرار دیتا ہے۔[15]

روحانی یتیم اور اس کی سرپرستی

تفسیر امام حسن عسکریؑ میں «یتیم آل محمدؐ» کے نام سے احادیث کا ایک مجموعہ ذکر ہوا ہے جس کے مطابق یتیم کی سخت ترین قسم وہ ہے جو اپنے امام سے الگ ہو اور اس تک رسائی نہ ہو تو ایسا شخص اپنے گھر میں ہی یتیم ہے؛ جو بھی ہمارے علوم سے واقف ہے اور ان یتیموں کی رہنمائی کرتا ہے اور انہیں ہماری شریعت سکھاتا ہے وہ عالَمِ اعلی میں ہمارے ساتھ ہے؛ ان یتیموں کے سرپرست (کفیل یتیم آل محمدؐ) جو ان کو جہالت اور نادانی سے نجات دیتا ہے، ان کی فضیلت اور برتری، یتیموں کو پانی اور کھانا دینے والے سرپرستوں کے مقابلے میں سورج اور دوسرے ستاروں کی مانند ہے؛ آل محمدؐ کے یتیموں کے سرپرست قیامت کے دن اور صحرائے محشر میں نور کا تاج پہنیں گے؛ ابلیس کے لیے ان یتیموں (روحانی یتیموں) کی رہنمائی کرنے والے ایک فقیہ کو برداشت کرنا ایک ہزار عابدوں کو برداشت کرنے سے زیادہ مشکل ہے…؛[16]

یتیم کے احکام

فقہ کے مختلف ابواب مثلاً حجر، خمس، زکات، خرید و فروخت، قرض، وصیت، نکاح اور ولایت فقیہ وغیرہ میں یتیموں کے احکام بیان کیے گئے ہیں۔

محجور ہونا

وہ لوگ جو شرعی اعتبار سے محجور ہیں اور اپنی جائیداد اور مالی حقوق میں دخل و تصرف نہیں کرسکتے ہیں، بلکہ غیر مالی معاملات (جیسے قصاص اور طلاق کا حق)[17] بھی نہیں کرسکتے ہیں وہ نابالغ و غیر رشید افراد ہیں۔[18] بلوغ اور رشد کی دو صفتیں بچوں (فقہی اصطلاح میں: صبی اور صغیر) میں نہیں پائی جاتی ہیں اور اسی وجہ سے ان کو اپنی جائیداد میں دخل و تصرف کرنے سے منع کیا گیا ہے۔[19] یتیم بھی اس کی تعریف کے مطابق نابالغ ہے جس کے نتیجے میں وہ محجور اور جائیداد میں تصرف نہیں کرسکتا ہے۔ نابالغوں اور یتیموں کا اپنی جائیداد میں تصرف سے ممنوع ہونے اور اس کے بعض دیگر احکام پر سورہ نساء کی چھٹی آیت سے استدلال کیا گیا ہے۔[20] اس آیت میں یتیموں کی آزمائش اور بالغ ہونے اور رشید ہونے کی دو صفات بیان کی گئی ہیں اور فقہ میں ممنوعیت دور کرنے کے ان دو عوامل زیر بحث آتے ہیں؛ ان میں اگر عقل کی نشوونما جسمانی بلوغت سے پہلے ہو جائے تو کیا یہ محجوریت ختم ہو جائے گی یا نہیں؟[21] [یادداشت 1] نیز یتیموں اور نابالغوں کا مال واپس کرنے کے لیے رشد کے ساتھ ساتھ عدالت اور عدمِ فسق بھی شرط ہے یا نہیں؟[25]کہا گیا ہے کہ اس بالغ بچے کو اس کا مال دیا جاسکتا ہے جس کا رشد ثابت ہوچکا ہو۔[26]

  • یتیم کے اموال میں امانتداری

سورہ انعام آیت نمبر 152 اور سورہ اسراء آیت نمبر 34 دونوں میں ایک جیسے الفاظ کے ساتھ[27] یتیموں کے مال کے قریب جانے اور ان میں دخل و تصرف کرنے سے منع کیا گیا ہے، مگر یہ کہ وہ دخل تصرف بہترین طریقے سے ہو (یعنی مال کی حفاظت اور اس میں اضافہ)[28] ان آیتوں کے مطابق جو یتیم کے مال میں اچھے طریقے سے تصرف کرنے کا حکم دیتی ہیں شیخ انصاری جیسے فقہا نے یتیم کے مال میں تصرف کے لئے مصلحت اور مفاد کی رعایت یا سب سے زیادہ صحیح مورد کی رعایت یا مفسدہ اور ضرر نہ ہونا کافی ہونے میں بحث کیا ہے۔[29] یتیموں کے مال کی حفاظت کا تذکرہ حضرت خضر اور حضرت موسیٰ کے قصے میں بھی آیا ہے۔[یادداشت 2] جاہلیت کے دور میں یتیموں کو ارث سے محروم رکھا جاتا تھا اور ان کے مال کی حفاظت اور امانتداری کے بجائے اس میں غفلت برتتے تھے اور اس کو ضائع کر دیتے تھے، حتیٰ کہ بعض لوگ یتیم کے مال کو اپنے مال میں شامل کر لیا کرتے تھے، اس پر ناجائز اور حرام قبضہ کرتے تھے۔[30] اسی لئے سورہ نساء کی تیسری آیت میں یتیموں کے مال کے بارے میں تین اہم احکام جاری ہوئے ہیں: یتیموں کا مال ان کو واپس کرنا؛ برے مال کو اچھے مال سے بدلنے کی ممانعت (جیسے یتیم کے مال کی امانت میں خیانت)؛ یتیم کے مال میں اپنا مال ملانے اور ان سب پر قبضہ کرنے کی ممانعت۔[31] سورہ نساء کی دسویں آیت میں یتیم کے مال میں خیانت کرنے اور اسے بے دردی سے کھانے پر باطنی عذاب اور آخرت کی سزا کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[32] اور یتیم کے مال میں ظالمانہ قبضہ اور تصرف کے حقیقی چہرے کو قیامت میں آگ کھانا قرار دیا گیا ہے؛ یعنی ظلم کرنے والا یتیموں کا مال بے دردی سے کھا کر آگ کھانے کو ابھی سے شروع کرچکا ہے اور اس طبعی دنیا میں اس چیز کو نہیں سمجھ رہا ہے لیکن موت کے ساتھ آخرت کا عذاب محسوس ہوجائے گا۔[33] اس آیت میں «ظُلْمًا» (ظلم کرنا) سے حصر اور محدودیت سمجھ میں آتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یتیم کے مال کی منصفانہ تجارت اور قبضہ ظلم نہیں ہے اور جائز ہے۔[34] یتیم کے مال کو ظلم کے ساتھ کھانے کو سات بڑے گناہوں میں شمار کیا گیا ہے[35] اور اس کے لیے دنیاوی (ظالم کی نسل میں ظلم کے آثار کا نمودار ہونا) اور اخروی عذاب (جہنم کی آگ) کا ذکر ہوا ہے[36] اور یتیم کے مال کا کم ہونا یا زیادہ ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے۔[37]

  • یتیم کے مال سے تجارت اور قرضہ

شیخ طوسی کے مطابق اگر کوئی یتیم کا مال کسی دوسرے کو مضاربہ پر دے تو نفع کی صورت میں معاہدہ کے مطابق منافع کو تقسیم کیا جائے گا اور نقصان کی صورت میں جس نے مال دیا ہے وہ ضامن ہوگا۔[38] لیکن ابن ادریس کے مطابق اگر یتیم کے مال کا شرعی نگران، وصی یا ولی ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ یتیم کے مال کے ساتھ تجارت اور مضاربہ میں یتیم کے مفاد کو مدنظر رکھے اور اس لیے نقصان کی صورت میں، وہ شخص ضامن نہیں ہے۔[39] یتیم کی جائیداد سے قرض دینا بھی یتیم کے فائدے کے بغیر جائز نہیں ہے؛ جیسا کہ اگر قرض صرف قرض لینے والے کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہو۔[40]

یتیم کا ولی اور سرپرست

یتیم پروری کی عکاسی استاد فرشچیان کے قلم سے

نابالغ بچے کا لازمی سرپرست (ولایت قہری) اس کا والد ہے اور پھر اس کے آباء و اجداد میں زندہ افراد میں سے ایک قریب ترین شخص ہے۔[41] نیز والد کے مرنے اور بچہ یتیم ہونے کی صورت میں اس کے آباء و اجداد میں سے بالترتیب کسی قریب والےزندہ شخص کو ولایت مل جاتی ہے۔[42] اور اگر یتیم کے آباء و اجداد میں سے کوئی بھی زندہ نہ ہو تو اس کے باپ یا اس کے آباء و اجداد میں سے بالترتیب کسی کے وصی کی باری آتی ہے، اور اگر ان میں سے کوئی بھی موجود نہیں ہو تو شرعی حاکم کو ولایت مل جاتی ہے۔[43] اور اگر وہ موجود نہ ہو یا اس تک رسائی نہ ہو تو اس کی ولایت عادل مومنین کو مل جاتی ہے۔[44] یتیم کی ماں، بھائی، پھوپھی اور چچا کو اس پر ولایت نہیں ہے۔[45] اور اگر دادا فاسق ہو[46] تو باپ کے وصی کو ولایت اور سرپرستی حاصل نہیں ہوتی ہے؛ کیونکہ دادا کی ولایت شرعی ہے۔[47] یتیم کی ولایت میں اگر یتیم کا دادا زندہ ہو تو اس پر حاکم کی بھی کوئی ولایت نہیں ہوتی ہے۔[48] اور جن فقہاء (مثلاً شیخ انصاری) نے ولایت فقیہ کی بحث کو بیان کیا ہے انہوں نے یتیم اور اس کے مال کی ولایت کو امور حسبیہ میں بیان کیا ہے اور جب کوئی شخص ان کی ولایت کا ذمہ دار نہیں ہو تو چونکہ شرعی حاکم ان امور کو معطل رکھنے پر راضی نہیں ہے اس لئے یتیم کی ولایت صالح اور عادل فقیہ (حکمران) کے ذمے ہوگی۔[49]

  • یتیم کی شادی اور طلاق

نابالغ لڑکے اور لڑکیوں کی شادی اور عقد نکاح کے لیے ان کا ولی اور سرپرست ان کا باپ اور دادا ہیں[50] اوریہ سرپرستی ماں اور ماں کی طرف کے رشتہ داروں کو حاصل نہیں ہے۔[51] والد کی وفات کے بعد بعض فقہا کی نظر میں ولایت دادا کو ملتی ہے؛ کیونکہ اصولی طور پر یہ ولایت اور سرپرستی باپ کی موجودگی سے مشروط نہیں ہے۔[52] نابالغ لڑکا اور لڑکی کے دادا کی طرف سے نکاح ہونے کی صورت میں ان کے بالغ ہونے کے بعد عقد کو فسخ کرنے کا انہیں اختیار حاصل نہیں ہے۔[53]

  • یتیم بچیوں سے شادی اور عدالت کی رعایت

بعض مرد یتیم لڑکیوں سے ان کی جائیداد حاصل کرنے کے مقصد سے شادی کرتے تھے اور پھر حق مہر کی ادائیگی اور روزمرہ کے اخراجات میں ان کے حقوق کی رعایت نہیں کرتے تھے اور بعض اوقات وہ انہیں گھروں سے بھی نکال دیتے تھے، اور چونکہ ان لڑکیوں کے پاس کوئی جائیداد نہیں تھی، اس لیے کوئی ان سے شادی کرنے کو تیار نہیں ہوتا تھا۔ قرآن کریم سورہ نساء کی تیسری آیت میں یتیم لڑکیوں سے ان کے ساتھ عدل اور انصاف کی عدم رعایت کے خوف کی صورت میں نکاح جائز نہیں ہونے کو بیان کرتا ہے[54] اور اگر کوئی ان کے حقوق کی رعایت نہیں کر سکتا ہو تو وہ غیر یتیم پاک اور حلال عورتوں اور لڑکیوں سے شادی کرے اور اگر وہ بیویوں کے درمیان عدالت (قلبی محبت کے علاوہ مالی اور اقتصادی امور میں عدالت[55]) کی رعایت کر سکتا ہو تو چار دائمی شادیاں کرسکتا ہے۔[56] اس آیت میں "اَلْیتَامَیٰ" کے معنی وہ بالغ لڑکیاں ہیں جو شادی کے قابل ہیں اور چونکہ وہ ماضی میں یتیم تھیں اس لئے انہیں یتیم کہا گیا ہے[57] یا انفرادیت اور غیر شادی شدہ ہونے کے لحاظ سے کہا گیا ہے۔[58] اس کے علاوہ، سورہ نساء کی 127ویں آیت میں، اللہ تعالی نے عورتوں اور چھوٹی یتیم بچیوں(«یتَامَی النِّسَاءِ» کی تعبیر کے ساتھ۔[59]) اور ناتوان بچوں(«وَالْمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الْوِلْدَانِ» کی تعبیر کے ساتھ۔[60]) کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ان کی وراثت، مہر اور شادی کے حق کے بارے میں ان کے حقوق کا احترام کرنے کا فتویٰ جاری کرکیا ہے[61] اور مزید کہتا ہے کہ تم یتیموں کے ساتھ انصاف کرو، تم جو بھی نیکی کرتے ہو، خدا اس سے باخبر ہے۔[62] دوسرے احتمال میں، "یتَامَی النِّسَاءِ" کی تعبیر کے تحت یہ موضوع یتیموں کی بحث سے باہر نہیں ہے، اور آیت ان ماؤں کے بارے میں ہے جن کے پاس یتیم ہیں۔[63]

حضانت اور تأدیب

والدین دونوں کو کفالت اور حضانت کا حق حاصل ہے اور باپ کی غیر موجودگی میں یتیم کی کفالت ماں کی ہے[64] اور تیسرے فریق جیسے وصی یا دیگر رشتہ داروں کو ترجیح نہیں ہے۔[65] والدین نہ ہونے کی صورت میں دادا اگر زندہ ہو تو یتیم کی نگہبانی کا حق اس کے پاس جاتی ہے۔[66] اس کے برعکس، یتیم کی پرورش اور حضانت کے بارے میں اور بھی اقوال ہیں جن کے دلائل کا جائزہ لیا گیا ہے: کفالت باپ کے وصی کا حق ہے اور اس کی غیر موجودگی میں دادا کے وصی کا حق ہے؛ یتیم کی کفالت کا حق وراثت کے طبقات کی ترتیب کے مطابق ہے۔[67] صاحب جواہر کی آخری رائے یہ ہے کہ والدین کے مرنے کے بعد یتیم کی حضانت اور کفالت کا حق دادا کو حاصل ہے اور پھر آخری وصی کے پاس۔ رشتہ دار وراثت کے طبقوں کے مطابق، حاکم اور اس کے بعد یہ مسلمانوں پر واجب کفائی ہے۔[68] اس کے بعد صاحب جواہر حضانت رشتہ داروں کو ملنے کی صورت میں کچھ فروعات بیان کرتے ہیں؛ جیسے کہ جب سوتیلی بہن (باپ کی طرف سے یا ماں کی طرف سے) زندہ ہو تو نانا اور اس کے بھائیوں کو یہ حق نہیں ملتا ہے۔[69]

یتیم کو مارنا، ادب سکھانے، نیکی، ظلم اور جارحیت کے مابین ایک مشترک اصطلاح ہے اور اس کا تعین نیت سے ہوتا ہے۔[70] یتیم کو تعزیر کے لئے مارنا واجب ہے، اسے ادب سکھانے کے لئے مارنا مستحب ہے اور توہین کے قصد سے مارنا حرام ہے۔[71] اگر کسی یتیم کو فائدہ پہنچانے کی نیت سے مارا جائے تو یہ نیکی اور احسان ہے اور اگر نقصان پہنچانے کی نیت سے مارا جائے تو یہ ظلم ہے۔[72]

خمس اور زکات

آیہ خمس (سورہ انفال کی آیت نمبر 41) جو خمس کے حقداروں کا تعارف کراتی ہے، ان میں سے ایک یتیم کو قرار دیا ہے، جو امامیہ مفسرین اور فقہاء کے نزدیک "یتیم سادات" (جن کا سلسلہ نسب باپ کی طرف سے عبد المطلب تک پہنچتا ہے[73]) شامل ہیں۔[74] [یادداشت 3]

یتیموں کو خمس میں شریک ہونے کے لئے ایمان اور فقیر ہونا شرط ہے[79] اور سورہ حشر کی آیت نمبر 7 کے مطابق مسلمانوں کو کفار سے ملنے والی جائیداد اور مال غنیمت (فئی) میں یتیموں کا حصہ ہے تاکہ یہ مال صرف امیروں میں تقسیم نہ ہو۔ مفسرین کے درمیان اس آیت اور آیہ انفال (سورہ انفال کی آیت نمبر 1) کے درمیان نسبت اور اس کے منسوخ ہونے نیز انفال اور فئی کے درمیان فرق کے بارے میں بھی بحث ہے۔[80]

فقہاء کے درمیان اس بات میں اختلاف ہے کہ کیا خمس واجب ہونے کے لیے بالغ ہونا شرط ہے اور شیخ انصاری سمیت بعض کے نزدیک بالغ ہونا شرط نہیں ہے اور خمس بچے کے مال میں بھی لگتا ہے۔[81] اس مسئلہ میں اس یتیم کی جائیداد بھی شامل ہے جو ابھی بچہ اور نابالغ ہے۔ نیز بچوں اور یتیموں کے مال میں زکوٰۃ واجب ہونے کے بارے میں بھی اختلاف ہے اور شیخ انصاری کے نزدیک زکات واجب نہیں ہے۔[82]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. شیخ طوسی، المبسوط، 1387ق، ج2، ص281؛ راوندی، فقہ القرآن، 1405ق، ج1، ص245؛ جصاص، احکام القرآن، 1405ق، ج2، ص12؛ شیخ طوسی، التبیان، [بی تا]، ج5، ص124.
  2. آلوسی، روح المعانی، 1415ق، ج14، ص241؛ شیخ انصاری، کتاب المکاسب، 1415ق، ج3، ص538. (شیخ انصاری کا کہنا ہے کہ «وَ لا تَقْرَبُوا مالَ الْیتِیمِ إِلّا بِالَّتِی ہِی أَحْسَنُ» کا اطلاق دادا کو بھی شامل ہے)۔
  3. شیخ طوسی، المبسوط، 1387ق، ج2، ص282؛ طباطبایی، المیزان، 1417ق، ج1، ص219.
  4. جصاص، احکام القرآن، 1405ق، ج2، ص12.
  5. مشکینی، مصطلحات الفقہ، [بی تا]، ص576.
  6. سورہ نساء، آیہ 36 و سورہ بقرہ، آیہ 83.
  7. سورہ بقرہ، آیہ 215.
  8. سورہ انسان، آیہ 8.
  9. سورہ بقرہ، آیہ 220.
  10. سورہ ماعون، آیات 1 و 2.
  11. سورہ نساء، آیہ 8؛ جوادی آملی، تسنیم، 1389ش، ج17، ص425.
  12. جوادی آملی، مفاتیح الحیاۃ، 1391ش، ص398 (بہ نقل از: مستدرک الوسائل، ج2، ص474).
  13. شیخ صدوق، ثواب، 1364ش، ص199، ح784.
  14. نہج البلاغہ، نامہ 47 ؛ کلینی، الکافی، 1407ق، ج7، ص51.
  15. عیاشی، کتاب التفسیر، 1380ش، ج1، ص224، ح44.
  16. حسن بن علی (ع)، التفسیر المنسوب، 1409ق، ص339–345، ح214–226.
  17. لطفی، «استنباط احکام و حقوق محجورین از قرآن کریم»، 1380، ص 22.
  18. نجفی، جواہر الکلام، 1404ق، ج26، ص4.
  19. نجفی، جواہر الکلام، 1404ق، ج26، ص4.
  20. نجفی، جواہر الکلام، 1404ق، ج26، ص10.
  21. نجفی، جواہر الکلام، 1404ق، ج26، ص18؛ حلّی، آیات الأحکام، 1425ق، ج2، ص101–106.
  22. عیاشی، کتاب التفسیر، 1380ش، ج1، ص221، ح27.
  23. جوادی آملی، تسنیم، 1389ش، ج17، ص388 (بحوالہ: المیزان، ج4، ص190و191).
  24. جوادی آملی، تسنیم، 1389ش، ج17، ص388.
  25. وجدانی فخر، الجواہر الفخریۃ، 1426ق، ج8، ص225–228.
  26. نجفی، جواہر الکلام، 1404ق، ج26، ص4.
  27. «وَ لا تَقْرَبُوا مالَ الْیتیمِ إِلاَّ بِالَّتی ہِی أَحْسَنُ حَتَّی یبْلُغَ أَشُدَّہ».
  28. حسینی شیرازی، تبیین القرآن، 1423ق، ص297.
  29. شیخ انصاری، کتاب المکاسب، 1415ق، ج3، ص573–580.
  30. جوادی آملی، تسنیم، 1389ش، ج17، ص213و214.
  31. جوادی آملی، تسنیم، 1389ش، ج17، ص213و214.
  32. جوادی آملی، تسنیم، 1389ش، ج17، ص471.
  33. جوادی آملی، تسنیم، 1389ش، ج17، ص472.
  34. جوادی آملی، تسنیم، 1389ش، ج17، ص472.
  35. عیاشی، کتاب التفسیر، 1380ش، ج1، ص237، ح105.
  36. عیاشی، کتاب التفسیر، 1380ش، ج1، ص223، ح37و39.
  37. عیاشی، کتاب التفسیر، 1380ش، ج1، ص224، ح 42.
  38. شیخ طوسی، النہایۃ، 1400ق، ص430.
  39. ابن ادریس، السرائر، 1410ق، ج2، ص411.
  40. علامہ حلی، تحریر الاحکام، 1420ق، ج2، ص545.
  41. بحرانی، الحدائق الناضرۃ، 1405ق، ج18، ص322.
  42. بحرانی، الحدائق الناضرۃ، 1405ق، ج18، ص322.
  43. بحرانی، الحدائق الناضرۃ، 1405ق، ج18، ص322.
  44. بحرانی، الحدائق الناضرۃ، 1405ق، ج18، ص322.
  45. حسینی عاملی، مفتاح الکرامۃ، [بی تا]، ج5، ص258.
  46. حسینی عاملی، مفتاح الکرامۃ، [بی تا]، ج5، ص257.
  47. حسینی عاملی، مفتاح الکرامۃ، [بی تا]، ج5، ص258.
  48. خویی، مصباح الفقاہۃ، [بی تا]، ج1، ص522.
  49. منتظری نجف آبادی، مبانی فقہی حکومت اسلامی، 1409ق، ج1، ص95و319.
  50. انصاری، موسوعۃ أحکام الأطفال و أدلّتہا، 1429ق، ج1، ص534.
  51. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1409ق، ج2، ص864؛ انصاری، موسوعۃ أحکام الأطفال و أدلّتہا، 1429ق، ج1، ص544.
  52. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1409ق، ج2، ص865؛ انصاری، موسوعۃ أحکام الأطفال و أدلّتہا، 1429ق، ج1، ص554.
  53. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1409ق، ج2، ص865.
  54. جوادی آملی، تسنیم، 1389ش، ج17، ص237.
  55. طباطبایی، المیزان، منشورات اسماعیلیان، ج5، ص107.
  56. جوادی آملی، تسنیم، 1389ش، ج17، ص238.
  57. جوادی آملی، تسنیم، 1389ش، ج17، ص238.
  58. سیدمرتضی، الانتصار، 1415ق، ص289.
  59. جوادی آملی، تسنیم، 1394ش، ج21، ص34و40.
  60. جوادی آملی، تسنیم، 1394ش، ج21، ص41.
  61. جوادی آملی، تسنیم، 1394ش، ج21، ص34.
  62. جوادی آملی، تسنیم، 1394ش، ج21، ص41.
  63. جوادی آملی، تسنیم، 1394ش، ج21، ص34و40.
  64. نجفی، جواہر الکلام، 1404ق، ج31، ص293.
  65. مزروعی، «ماہیت حضانت»، 1387ش، ص147.
  66. نجفی، جواہر الکلام، 1404ق، ج31، ص295.
  67. نجفی، جواہر الکلام، 1404ق، ج31، ص296؛ مزروعی، «ماہیت حضانت»، 1387ش، ص149؛ ملاحظہ کریں: زنجانی، کتاب نکاح، 1419ق، ص7971–7977.
  68. نجفی، جواہر الکلام، 1404ق، ج31، ص297.
  69. نجفی، جواہر الکلام، 1404ق، ج31، ص298–300.
  70. لاری، التعلیقۃ علی المکاسب، 1418ق، ج1، ص70.
  71. شہید ثانی، رسائل الشہید الثانی، 1421ق، ج1، ص165.
  72. حائری مجاہد، کتاب المناہل، 1242ق، ص484.
  73. خمینی، تحریر الوسیلۃ، [بی تا]، ج1، ص365.
  74. حسینی شیرازی، تبیین القرآن، 1423ق، ص194.
  75. شیخ انصاری، کتاب الخمس، 1415ق، ص320.
  76. علی بن موسی (ع)، الفقہ المنسوب، 1406ق، ص293؛ عیاشی، کتاب التفسیر، 1380ش، ج1، ص225؛ شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ق، ج2، ص41، ح1650.
  77. صدر، ما وراء الفقہ، 1420ق، ج2، ص95.
  78. صدر، ما وراء الفقہ، 1420ق، ج2، ص95.
  79. خمینی، تحریر الوسیلۃ، [بی تا]، ج1، ص365.
  80. ملاحظہ کریں: ابن جوزی، زاد المسیر، 1422ق، ج4، ص257 (از میان تفاسیر اہل سنت)؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج9، ص391و392 (شیعہ تفاسیر میں سے).
  81. سبزواری، الخمس، 1424ق، ص254و255.
  82. شیخ انصاری، کتاب الزکاۃ، 1415ق، ص90.

نوٹ

  1. "رشد" کے مفہوم کو "آل محمدؐ کی محبت" پر تطبیق: امام صادق علیہ السلام منقول روایت میں سورہ نساء کی آیت نمبر 6 میں مذکور رشد اور نمو کے مفہوم و تصور کو آل محمدؐ کی محبت سے تعبیر کیا گیا ہے کہ اگر آپ دیکھیں کہ یتیم آل محمد سے محبت کرت ہے تو اس کے درجے کو اضافہ کریں۔[22] علامہ طباطبایی اس تفسیر کو تطبیق اور ایک چیز سے دوسرے پر جاری کرنے کے لحاظ سے سمجھتے ہیں۔ عملی اور قابل اطلاق سمجھتے ہیں[23] اور اسے مادی ترقی اور رشد کے برعکس روحانی ترقی کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔[24]
  2. جہاں حضرت خضر شہر کی منہدم ہونے والی دیوار کی مرمت کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس دیوار کے نیچے دو یتیم بچوں کے لیے خزانہ چھپا ہوا ہے جن کا باپ نیک تھا؛ اللہ تعالی کی مشیت یہ ہے کہ یہ بچے بڑے (رشید) ہو کر خود خزانہ نکالیں۔
  3. نحن الیتیم: خمس کی تاکید کرنے والی ایک حدیث[75] میں ہے کہ "سب سے کم چیز جس سے آدمی جہنم میں جائے گا وہ یتیم کا مال کھانا ہے، اور ہم یتیموں میں سے ہیں۔" (نحن الیتیم)».[76] اس روایت میں مذکور یتیم کی تعبیر کے لیے کئی معنی ہیں، جن میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ جس طرح یتیم کا اپنے مال پر اختیار نہیں ہوتا اسی طرح ائمہ معصومین کے پاس بھی حکومت اور سلطنت نہیں ہوتی ہے اور کچھ فاسق اور منحرف لوگ ان کی جائیداد (خمس) پر قبضہ کرتے ہیں۔[77] نیز امام کے مال (خمس) کو ان کی اجازت اور مدیریت کے بغیر استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔[78]

مآخذ

  • آلوسی، سید محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، تحقیق: علی عبدالباری عطیۃ، بیروت: دارالکتب العلمیہ، چاپ اول، 1415ھ۔
  • ابن ادریس حلی، محمد بن منصور، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، قم: انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1410ھ۔
  • ابن جوزی، عبدالرحمن بن علی، زاد المسیر فی علم التفسیر، تحقیق: عبدالرزاق المہدی، بیروت: دار الکتاب العربی، چاپ اول، 1422ھ۔
  • انصاری شیرازی، قدرت اللہ و گروہی از محققان، موسوعۃ أحکام الأطفال و أدلّتہا: مقارنہ تفصیلیہ بین مذہب الامامیہ و المذاہب الاخری، تحت اشراف محمدجواد فاضل لنکرانی، قم: مرکز فقہی ائمہ اطہار (ع)، ج1، چاپ اول، 1429ھ۔
  • بحرانی آل عصفور، یوسف، الحدائق الناضرۃ فی أحکام العترۃ الطاہرۃ، محقق: محمد تقی ایروانی و سید عبد الرزاق مقرم، قم: انتشارات اسلامی، چاپ اول، 1405ق (مطابق نسخہ دار الکتب الإسلامیۃ نجف).
  • جصاص، احمد بن علی، احکام القرآن، تحقیق: محمد صادق قمحاوی، بیروت: دار احیاء التراث العربی، 1405ھ۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، تسنیم: تفسیر قرآن کریم، ج17، تحقیق و تنظیم: حسین اشرفی و عباس رحیمیان، قم: مرکز نشر اسراء، چاپ دوم، 1389ہجری شمسی۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، تسنیم: تفسیر قرآن کریم، ج21، تحقیق و تنظیم: مجید حیدری فر و روح اللہ رزقی، قم: مرکز نشر اسراء، چاپ دوم، 1394ہجری شمسی۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، مفاتیح الحیاۃ، قم، نشر اسراء، چاپ چہل و چہارم، 1391ہجری شمسی۔
  • حاجی میرزایی، فرزاد، «الیتیم فی القرآن و السنۃ»، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، بہ کوشش بہاءالدین خرمشاہی، تہران، ناہید و دوستان، 1377ہجری شمسی۔
  • حائری مجاہد طباطبایی، سید محمد، کتاب المناہل، قم: مؤسسہ آل البیت (ع)، چاپ اول، 1242ھ۔
  • حسن بن علی (ع)، التفسیر المنسوب الی الامام الحسن العسکری (ع)، قم: مدرسہ امام مہدی (ع)، چاپ اول، 1409ھ۔
  • حسینی شیرازی، سید محمد، تبیین القرآن، بیروت: دار العلوم، چاپ دوم، 1423ھ۔
  • حسینی عاملی، سید جواد بن محمد، مفتاح الکرامۃ فی شرح قواعد العلاّمۃ، بیروت: دار احیاء التراث العربی، چاپ اول، [بی تا].
  • حلّی، مقداد بن عبداللہ، آیات الأحکام، قم: مرتضوی، چاپ اول، 1425ھ۔
  • حمیری، عبداللہ بن جعفر، قرب الاسناد، قم: مؤسسۃ آل البیت (ع)، چاپ اول، 1413ھ۔
  • خمینی، سید روح اللہ، تحریر الوسیلۃ، قم: دار العلم، چاپ اول، [بی تا].
  • خویی، سید ابو القاسم موسوی، مصباح الفقاہۃ ـ المکاسب، مقرر: محمد علی توحیدی، [بی جا]، [بی تا].
  • راوندی، قطب الدین، فقہ القرآن فی شرح آیات الاحکام، مصحح: سید احمد حسینی، قم: کتاب خانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، چاپ دوم، 1405ھ۔
  • زمخشری، محمود، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، بیروت: دار الکتاب العربی، چاپ سوم، 1407ھ۔
  • زنجانی، سید موسی شبیری، کتاب نکاح، قم: چاپ اول، مؤسسہ پژوہشی رای پرداز، 1419ھ۔
  • سبزواری، سید عبد الاعلی، الخمس، بغداد: دفتر حضرت آیۃ اللہ سبزواری، چاپ اول، 1424ھ۔
  • سعدی، کلیات سعدی، تصحیح محمدعلی فروغی، تہران، ہرمس، 1385ہجری شمسی۔
  • سبزواری، سید عبد الاعلی، مہذّب الأحکام فی بیان الحلال و الحرام، قم: مؤسسہ المنار، چاپ چہارم، 1413ھ۔
  • سیدمرتضی (علم الہدی)، الانتصار، قم: انتشارات اسلامی، 1415ھ۔
  • شہید ثانی، رسائل الشہید الثانی، محقق: مختاری، رضا و حسین شفیعی، قم: دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، 1421ھ۔
  • شیخ انصاری، کتاب الخمس، قم: کنگرہ جہانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری، چاپ اول، 1415ھ۔
  • شیخ انصاری، کتاب الزکاۃ، قم: کنگرہ جہانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری، چاپ اول، 1415ھ۔
  • شیخ انصاری، کتاب المکاسب المحرمۃ و البیع و الخیارات، چاپ اول، کنگرہ جہانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری، 1415ھ۔
  • شیخ صدوق، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، قم: الشریف الرضی، 1364ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، قم: انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، تحقیق: احمد قصیرعاملی، بیروت: دار احیاء التراث العربی، [بی تا].
  • شیخ طوسی، المبسوط فی فقہ الإمامیۃ، محقق: سید محمد تقی کشفی، تہران: المکتبۃ المرتضویۃ لاحیاء الآثار الجعفریۃ، چاپ سوم، 1387ھ۔
  • شیخ طوسی، النہایۃ فی مجرد الفقہ و الفتاوی، بیروت: دار الکتاب العربی، چاپ دوم، 1400ھ۔
  • صدر (شہید)، سید محمد، ما وراء الفقہ، محقق: جعفر ہادی دجیلی، بیروت: دار الأضواء، چاپ اول، 1420ھ۔
  • طاہری، حبیب اللہ، حقوق مدنی، قم: انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1418ھ۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمد کاظم، العروۃ الوثقی فیما تعم بہ البلوی، بیروت: مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1409ھ۔
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم: انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، 1417ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران: انتشارات ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • علامہ حلی، تحریر الاحکام الشرعیۃ علی مذہب الامامیۃ، قم: مؤسسہ امام صادق (ع)، چاپ اول، 1420ھ۔
  • علی بن موسی (ع)، الفقہ المنسوب الی الامام الرضا (ع)، مشہد: مؤسسۃ آل البیت (ع)، چاپ اول، 1406ھ۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، کتاب التفسیر، تحقیق: سید ہاشم رسولی محلاتی، تہران: چاپخانہ علمیہ، 1380ھ۔
  • فخر الدین رازی، مفاتیح الغیب، محمد بن عمر، بیروت: دار احیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ۔
  • قانون مدنی: مصوب 18 اردیبہشت 1307 با اصلاحات بعدی، تہران: ادارہ کل قوانین و مقررات کشور، چاپ اول، 1374ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق: غفاری، علی اکبر و محمد آخوندی، تہران: دار الکتب الاسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • لاری، سید عبد الحسین، التعلیقۃ علی المکاسب، قم: مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، چاپ اول، 1418ھ۔
  • لطفی، اسداللہ، «استنباط احکام و حقوق محجورین از قرآن کریم»، در مجلہ پژوہش دینی، سال اول، ش 2، پاییز 1380ہجری شمسی۔
  • مزروعی، رسول، «ماہیت حضانت و تعیین صاحبان»، در مجلہ فقہ اہل بیت (ع)، شمارہ 56، زمستان 1387ہجری شمسی۔
  • مشکینی، میرزا علی، مصطلحات الفقہ، [بی جا]، [بی تا].
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران: دار الکتب الاسلامیۃ، چاپ اول، 1374ہجری شمسی۔
  • منتظری نجف آبادی، حسین علی، مبانی فقہی حکومت اسلامی، مترجم: صلواتی، محمود و ابوالفضل شکوری، قم: مؤسسہ کیہان، چاپ اول، 1409ھ۔
  • نجفی، محمدحسن (صاحب جواہر)، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت: دار احیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1404ھ۔
  • نہج البلاغہ.
  • وجدانی فخر، قدرت اللہ، الجواہر الفخریۃ فی شرح الروضۃ البہیۃ، قم: انتشارات سماء، چاپ دوم، 1426ھ۔