مزارات بقیع

ویکی شیعہ سے
(قبور بقیع سے رجوع مکرر)
جنت البقیع کے مزارات
ابتدائی معلومات
استعمالزیارت گاہ
محل وقوعمدینہ قبرستان بقیع
مربوط واقعاتانہدام جنت البقیع
مشخصات
موجودہ حالتمسمار شدہ
معماری
تعمیر نوسنہ 1234ھ، بحکم سلطان محمود ثانی


مزارات بقیع سے مراد وہ بارگاہیں ہیں جو اسلامی چند بڑی اور مشہور شخصیات کی قبروں پر بنی تھیں اور وہابیوں نے ان کو یوم انہدمِ بقیع (8 شوال 1344ھ) کے موقع پر مسمار کردیا۔شیعوں کے ہاں مزاراتِ بقیع سے مراد جنت البقیع میں مدفون چار اماموں کے مزارات ہیں۔ یہاں پر موجود مزارات اور مقبرے وہابیوں کے ہاتھوں انہدام بقیع سے پہلے زائرین اور حجاج کی زیارت گاہ ہوا کرتے تھے۔

اسلام میں تعمیر قبور کی تاریخ

سانچہ:اصلی مرحومین کی قبور پر مزارات اور مقبروں کی تعمیر کے سلسلے میں ایک طرف شیعوں اور اہل سنت کے مابین عقیدتی لحاظ سے اختلاف رہا ہے اور دوسری طرف سے وہابیوں کے ساتھ بھی اس مسئلے میں آپس میں اختلاف رہا ہے۔ گذشتہ صدیوں کے دوران، اسلامی مذاہب کے پیروکاروں اور خاص طور پر شیعوں نے بعض اہم شخصیات، مذہبی رہنماؤں اور علماء کی قبروں پر مزارات اور مقبرے تعمیر کیے ہیں۔ قبروں پر مقبروں اور مزارات کی تعمیر کا سلسلہ ابتدائے تاریخ اسلام سے جاملتا ہے اور اس سلسلے میں اصحاب رسول خداؐ اور تابعین نے کوئی اعتراض بھی نہیں کیا ہے۔ وہابیوں کا خیال ہے کہ مُردوں کی قبور پر مزارات یا مقبرے بنانا ان کی عبادت کا زمینہ فراہم کرتا ہے اور غیر اللہ کی عبادت شرک ہے۔

شیعہ ائمہؑ کی بارگاہیں

جنت البقیع کے بیرونی حصے کے جنوب میں حضرت علیؑ کے گھر کے سامنے[1] عقیل بن ابی طالب کا ایک بڑا گھر تھا۔[2] تاریخی نقل کے مطابق پیغمبر خداؐ اس گھر کے کسی ایک کونے میں کھڑے ہوکر اہل بقیع کی مغفرت کے لیے دعا کیا کرتے تھے۔[3] امتداد زمانہ کے ساتھ یہ گھر بنی ہاشم کی بزرگ شخصیات کا مدفن بنا بعد کے ادوار میں یہ جگہ بقیع کے ساتھ ملحق ہوئی۔ تاریخ میں بقیع کا یہ حصہ "قبور بنی ہاشم" کے نام سے مشہور ہوا۔[4] ایک روایت کے مطابق اس گھر کو تقریبا سنہ 65 ہجری میں امام زین العابدینؑ نے تعمیر نو کیا ہے۔[5]

بیت عقیل میں مدفون شخصیات

اسی طرح علامہ مجلسی نے اپنی کتاب مصباح الانوار میں ایکی روایت ذکر کی ہے جس کے مطابق حضرت فاطمہؑ عقیل کے گھر میں مدفون ہوئی ہیں۔[10] زمان قاجاریہ کے شاعر اور مصنف محمد حسین فراہانی نے اپنے سفرنامے (سفر کا دورانیہ سنہ 1302ھ سے 1303ھ تک بتایا گیا ہے) میں جنت البقیع میں ایک مقبرہ کی موجودگی کی خبر دی ہے جو حضرت فاطمہؑ سے منسوب ہے اور شیعہ اور اہل سنت حضرات یہاں کی زیارت کیا کرتے تھے۔[11]

بیتِ عقیل کے بقیع کے ساتھ الحاق اوریہاں کی قبور پر مزارات اور بارگاہوں کی تعمیر کے سلسلے میں دقیق معلومات میسر نہیں ہیں۔ بیت عقیل میں عباسیوں کے دادا عباس بن عبدالمطلب کی قبر کی موجودگی سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دوسری صدی ہجری کی شروع کی دہائیاں میں جو کہ عباسیوں کی حکومت کا زمانہ تھا، یہاں مزارات بنائے گئے ہیں. شاید اسی وجہ سے ہے کہ دوسری صدی ہجری اور اس کے بعد کے زمانوں میں یہاں مقبروں کی موجودگی کا اشارہ ملتا ہے۔

دوسری صدی ہجری کی ایک کتاب "اخبار المدینہ" کے مصنف ابن‌ زَبالہ نے عباس بن عبد المطلب اور شیعہ ائمہؑ کی قبور پر ایک مسجد کی موجودگی کی خبر دی ہے۔[12] اسی صدی کے ایک اور مصنف ابن‌ شَبَّہ نے اپنی کتاب "تاریخ مدینہ" میں فاطمہ بنت اسد کی قبر پر ایک مسجد کی موجودگی کی خبر دی ہے۔[13] ائمہؑ اور عباس بن عبد المطلب کی قبور، حضرت فاطمہؑ کی قبر کے ساتھ ملحق ہونے کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ مسجد کا احاطہ ان تمام قبور تک تھا۔[14]

گنبد

ائمہؑ اور عباس بن عبد المطلب کے مزارات پر پہلی بار گنبد کی تعمیر کے سلسلے میں بھی متضاد روایتیں موجود ہیں۔ کہتے ہیں کہ پانچویں صدی ہجری میں مجد الملک براوستانی نے ائمہؑ بقیع اور عباس کی قبور پر ایک بہت بڑا گنبد تعمیر کرایا۔[15]

مورخ محمد مطری کے مطابق مذکورہ بڑے گنبد کی تعمیر کا تعلق حکومت ناصر احمد بن مستضیء عباسی سے ہے۔[16] ناصر عباس کے ہم عصر ابن نجار نے تعمیر گنبد کی قدمت کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔[17] اس لحاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ مطری کی بیان کی گئی گزارش واقع کے خلاف ہے۔ ابن جبیر نے مذکورہ گنبد اور اس میں موجود قبور کے سلسلے میں قدرے دقیق اوصاف بیان کیے ہیں۔ ان کے مطابق گنبد کی اونچائی بہت زیادہ تھی اور محل وقوع کے لحاظ سے یہ گنبد بقیع میں داخل ہونے کی جگہ پر تعمیر کیا گیا تھا۔ ان میں موجود قبور قدرے بڑی اور سطح زمین سے اونچی تھیں۔ ان پر لکڑیوں کی ضریح بنی ہوئی تھی؛ نمایاں انداز میں تانبے کی کیلوں کے ذریعے نقشے بنا کر اس کو مزین کیا گیا تھا۔[18]

عبدری نے ان مزارات کو مزار عثمان بن عفان کے ساتھ ملا کر بقیع کی سب سے خوبصورت اور بڑی بارگاہ قرار دیا ہے۔[19] ابن نجار کے مطابق اس مزار کے دو دروازے تھے اور صرف ایک دروازہ یہاں زیارت کے لیے آنے والوں کے لیے کھولا جاتا تھا۔[20]

ائمہؑ بقیع پر مزارات، ضریح اور گنبد کی تعمیر کے بارے میں جن لوگوں نے مطالب پیش کیے ہیں ان میں سے ایک ابن بطوطہ[21] خالد بن عیسی[22] و سمہودی[23] ہیں۔ قاجاریہ حکومت کے درباری محمد حسین فراہانی نے سنہ 1302 ہجری میں اپنے سفر حج کی روئیداد پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ائمہ بقیع اور عباس بن عبد المطلب کی قبور پر 8 ضلعی مقبرہ تعمیر تھا۔ اس گزارش کے مطابق اس مقبرے میں اعلیٰ معیار کی لکڑی سے بنا ہوا ایک بہت بڑا صندوق تھا اور اس کے اندر دو اور بڑے صندوق تھے۔ ایک صندوق میں شیعوں کے چار اماموں کی قبریں تھیں جبکہ دوسرے صندوق میں عباس کی قبر تھی۔[24]

یہ گزارش جو کہ فرہاد مرزا کے سنہ 1292 ہجری کیے سفرنامے سے ملتی جلتی ہے[25]ایک نئے مزار کی تعمیر کی طرف اشارہ کرتی ہے، جس کا ذکر 10ویں صدی ہجری سے پہلے کی گزارشات میں نہیں ملتا۔ گذشتہ صدیوں میں عباس اور ائمہ بقیع کے مقبروں کی مسلسل مرمت اور تعمیر نو ہوتی رہی ہے۔

تعمیر

تاریخی منابع میں سنہ 519 ہجری میں مسترشد عباسی کے حکم سے یہاں مقبرہ کی تعمیر کے بارے میں گزارشیں ملتی ہیں۔ ان کے مطابق مستنصر عباسی کے زمانے میں بھی تعمیر کی خبر ملتی ہے۔ مقبرے کے محراب کے اوپر نصب نوشتہ کتبہ، جس پر خلیفہ مستنصر کا مقبرہ کی مرمت کا حکم نامہ موجود ہے، اس دعوے کی تصدیق کرتا ہے۔[26] اس مقبرے کی تعمیر کے سلسلے میں سنہ 1234ھ میں سلطان محمود عثمانی کے حکم سے محمد علی پاشا کے ہاتھوں اور سنہ 1292 ہجری میں عبد العزیز خان عثمانی کے دور حکومت میں مقبرے کی تعمیر کی خبریں ملتی ہیں۔[27] کہتے ہیں کہ سنہ 1234ھ میں تعمیر نو کے بعد۔ یہ مقبرہ اور بقیع کے دیگر مقبروں کی ہر سال مرمت کی جاتی تھی۔[28]

مرقد عثمان بن مظعون

عثمان بن مظعون جمحی مورد اعتماد صحابہ میں سے تھے اور بعض اقوال کے مطابق وہ پہلے مہاجر تھے جن کا مدینہ میں انتقال ہوا۔ عثمان بن مظعون کو بقیع کے درمیانی حصے میں دفن کیا گیا تھا اور پیغمبر خداؐ نے ان کی قبر کو ایک پتھر سے نشان زد کیا تھا۔[29] پیغمبر خداؐ کی جانب سے رکھا گیا پتھر ایک عرصہ تک باقی رہا یہاں تک کہ حکومت معاویہ کے دور میں اسے اٹھایا گیا[30] اور اسے عثمان بن عفان کی قبر پر رکھا گیا۔ عثمان ابن عفان کا مزار بعد میں بقیع کا حصہ بنا۔[31]

کچھ بزرگ شخصیات کے ساتھ ساتھ پیغمبر کے بیٹے ابراہیم کو بھی عثمان کی قبر کے پاس دفن کیا گیا تھا۔ متاخر منابع تاریخی نے ان قبروں پر ایک گنبد اور مزار کی موجودگی کی اطلاع دی ہے لیکن اس دربار کی تعمیر کا وقت اور بانی کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ بعض محققین نے شیعہ ائمہؑ اور پیغمبر خداؐ کے چچا عباس کی قبروں پر بنائے گئے مزار کی مماثلت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی تعمیر کو بھی سلطان برکیارق سلجوقی(حکومت: 486 تا498ھ) کے ایرانی وزیر مجد الملک براوستانی (متوفی: 492/493ھ) سے منسوب کیا ہے۔[32]

ابن جبیر نے اس مزار کے وصف میں کہا ہے کہ اسے لکڑی سے بنا گیا ہے اور خوبصورت نقشہ کاری کے ذریعے اس کی تزیین کی گئی ہے اور بہت خوبصورت انداز میں کیلیں لگائی گئی تھیں۔ یہ مزار لکڑی کی کھڑکی کی شکل میں تھا جو قبلہ کی طرف کھلتی تھی۔[33] مطری نے بھی یہاں مزار ابراہیم موجود ہونے اور قبلہ کی طرف ایک ضریح کی موجودگی کی طرف اشارہ کیا ہے۔[34] اس مقبرے کے اوپر بنایا گیا گنبد سفید رنگ کا تھا۔[35] سنہ 1325ھ میں رفعت پاشا[36]کے دور حکومت میں دی گئی اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ بقیع پر سنہ 1220ھ میں سعودی حکومت کے پہلے دوران پہلی بار انہدام بقیع سے پہلے مزارات موجود تھے۔[37]

مرقد فاطمہ بنت اسد

فاطمہ بنت اسد بقیع میں مدفون دیگر لوگوں میں سے ایک ہیں جن کی قبر پر ایک بارگاہ تعمیر کی گئی تھی۔ چونکہ پیغمبر اکرمؑ فاطمہ بنت اسد کو اپنی ماں سمجھتے تھے،[38] ان کی رحلت کے بعد آنحضرتؐ نے خصوصی رسومات کے ساتھ انہیں دفن کیا۔ انہیں اپنے لباس کو بطور کفن پہنائے اور عذاب قبر سے محفوظ رہنے کے لیے چند لمحے ان کی قبر میں لیٹ گئے۔ مدینہ کے قدیم ترین مؤرخین نے ان کی قبر کو عباس کی قبر کے قریب اور عقیل کے گھر میں شمار کیا ہے۔[39]

7ویں صدی ہجری میں ابن نجار اور ان کے بعد بہت سے مؤرخین اور مدینہ شناس علماء نے ان کی قبر کے مقام کو بقیع کے شمال مشرق میں اور عثمان بن عفان کی قبر کے شمال میں ہونے کو غلط قرار دیا تھا اور اپنے زمانے میں اس قبر کی زیارت کے بارے میں روایت کی ہے[40][41] سمہودی نے اس گزارش کو رد کیا اور اسے ابن نجار کے سابقہ ​​منابع میں غلط فہمی کا نتیجہ قرار دیا حالانکہ خود نے فاطمہ کو روحاء ​​میں ابراہیم اور عثمان بن مظعون کی قبروں کے پاس دفن کیے جانے کی تاریخ نقل کی تھی۔[42]

عقیل کے گھر کو بقیع ملحق کرنے اور شیعہ ائمہ کی قبروں پر عمارت کی تعمیر کے ساتھ، حضرت فاطمہؑ کی قبر جو ان قبروں کے جنوب مغرب میں واقع تھی، بھی اس عمارت میں شامل ہوئی۔ ابن شبہ کی گزارش کے مطابق تیسری صدی ہجری میں ایک مسجد کی موجودگی بتاتی ہے کہ یہاں ان قبور پر پہلی عمارت کب بنائی گئی۔[43]

ضریح

اس قبر پر کبھی کوئی ضریح نہیں بنائی گئی اور اس پر صرف ایک قیمتی کپڑا اور سونے کے دھاگے سے بنے ہوئے کپڑا چڑھایا گیا تھا۔ [44] 947ھ میں سلطان سلیمان عثمانی کے وقف نامے کے مطابق اس مقبرے اور دیگر مقامات کے لیے ایک خاص پردہ بھیجا گیا تھا۔ [45] حالیہ صدیوں میں زائرین کے ہجوم کے دوران، مزار اور عمومی مقامات کے درمیان رکاوٹ کے طور پر محراب کے سامنے سٹیل کا گرڈ نصب کیا جاتا رہا ہے۔[46]

ازواج پیغمبرؐ کے مزارات

قبرستان بقیع کے اہم مزارات میں سے ایک ازواج پیغمبر خداؐ کی قبور پر بنائے گئے مزارات ہیں۔ ازواج رسولؐ کی قبور عقیل کی قبر سے پانچ میٹر کے فاصلے پر[47] اور ائمہ بقیع کے شمالی حصے میں ہیں۔ یہ مزارات سنہ 852ھ میں امیر جقمق مملوکی کے دور میں امیر بردبک معمار کے ہاتھوں تعمیر کیے گئے تھے۔[48]

یہ قبور اس سے پہلے پتھر کی دیوار کے ذریعے قدرے بلند تھیں اور دوسری قبور سے الگ دکھائی دیتی تھیں۔[49] فرہاد مرزا نے اپنے سفر نامے میں 1292ھ میں یہاں مزارات کی تعمیر کا تذکرہ کیا ہے۔[50] بہت سے تاریخی ذرائع نے بیان کیا ہے کہ حضرت خدیجہؑ اور میمونہ کے علاوہ تمام ازواج رسولؐ کو بقیع میں دفن کیا گیا ہے۔[51] البتہ بقیع کے اس حصے میں مدفون ہونے والی ازواج رسولؐ کی تعداد کے حوالے سے اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ ابن شبہ نے بیت عقیل میں ام حبیبہ کی قبر اور بیت الاحزان میں ام سلمہ کی قبر کا ذکر کیا ہے۔[52] ابن نجار نے نبی اکرمؐ کی ازواج کا ذکر کیے بغیر اس مقام پر چار برجستہ شخصیات کی قبروں کی موجودگی کا ذکر کیا ہے۔[53] لیکن سمہودی نے مقبروں کی ہموار سطح کو مد نظررکھتے قبروں کی تعداد کے بارے میں جاننا ناممکن سمجھا ہے۔[54]

مزار عثمان بن عفان

بقیع کے آخر میں ایک اور مزار ہے جو عثمان بن عفان کا ہے۔ سنہ 35ھ میں ان کے قتل کے بعد، ان کی لاش کو بقیع کے قبرستان میں دفن کرنے سے روک دیا گیا اور انہیں بقیع کے مشرق[55] میں حُش/حَش کوکب نامی ایک جگہ میں دفن کیا گیا، جو کہ یہودیوں کی تدفین[56] کی جگہ تھی۔ مدینہ میں مروان بن حکم کے دور حکومت میں معاویہ کے حکم سے بقیع اور حُش کوکب کے درمیان کی دیوار کو ہٹا دیا گیا تاکہ بقیع اور حُش کوکب کےدرمیانی حصے کو بھی بقیع میں شامل کیا جائے اس طرح قبر عثمان بھی بقیع میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی۔[57]

ابن جبیر نے عثمان کی قبر پر ایک چھوٹے سے گنبد کی موجودگی کی خبر دی ہے۔[58] ان کے بعد ابن نجار اور ابن بطوطہ نے یہاں ایک بڑے گنبد کا تذکرہ کیا ہے۔[59] ایسا لگتا ہے کہ ابن جبیر اور ابن نجار کی ملاقات کے درمیان پچھلے گنبد کی جگہ ایک بڑا گنبد قرار دیا گیا تھا۔ اس گنبد کی تعمیر کو سنہ601ھ میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے امیروں میں سے ایک اسامہ بن سنان صالحی سے منسوب کیا گیا ہے۔[60] عبدری کے مطابق یہ مقبرہ عباس کے مزار کے سمیت بقیع کا سب سے بڑا اور خوبصورت مزار ہے۔[61]

مزار عقیل و عبد اللہ بن جعفر

بقیع میں حضرت علیؑ کے بھائی عقیل اور عقیل کے چچا زاد بھائی عبد اللہ بن جعفر کے مزارات بھی ہیں۔ یہ دونوں بیتِ عقیل میں ایک قبر[62] میں مدفون ہوئے ہیں۔ ان کے مزارات مزار عباس اور ائمہ بقیع کے مزارات کے نزدیک اور ازواج رسول کی مزارات سے پانچ میٹر کے فاصلے[63] پر واقع ہیں۔ پیغمبر خداؐ کے چچا زاد اور رضاعی بھائی ابو سفیان بن حارث بھی یہاں مدفون ہیں۔[64]

ان مزارات کی تاریخ تعمیر اور بانی کے بارے میں کوئی خاص معلومات میسر نہیں ہیں۔ ابن نجار کے مطابق ساتویں صدی ہجری سے پہلے ان مزارات کی تعمیر ہوئی ہے۔[65]

پیغمبرؐ کی بیٹیوں کے مزارات

پیغمبر خداؐ سے منسوب بیٹیوں کے مزارات یہاں ہیں ان میں رقیہ، ام کلثوم اور زینب ہیں۔ ان کے مزارات ائمہ بقیع کے مزارات کے شمال جبکہ ازواج پیغمبرؐ کے مزارات کے جنوب مغرب اور عثمان بن مظعون کے مزار کے نزدیک ہیں۔ تاریخی منابع میں رقیہ[66] اور زینب[67] کے بقیع میں قبر عثمان بن مظعون کے نزدیک دفن ہونے کو پیغمبر اکرمؐ کی سفارش قرار دی ہے۔ لیکن ام کلثوم کی جائے دفن کے سلسلے میں کوئی گزارش نہیں آئی ہے۔ صرف قدیم مصنفین میں سے فرہاد مرزا[68] اور رفعت پاشا[69] نے ام کلثوم کو باقی بنات پیغمبرؐ کے ساتھ دفن کرنے کی طرف اشارہ کیا ہے اور ان کے قبور پر مزارات تعمیر کیے جانے کی طرف توجہ کی ہے۔ ان کے قبور پر پیتل کے ضریح بنائے گئے تھے۔[70]

مزار حلیمہ سعدیہ

جنت البقیع کے شمال مشرق میں پیغمبر اکرمؐ کی دایہ حلیمہ سعدیہ سے منسوب مزار تھا۔ قدیم منابع میں ان کے مقام دفن کا تذکرہ نہیں ملتا ہے۔

ابن بطوطہ کے مطابق حلیمہ کی قبر بصرہ میں ہے؛ لیکن بعد والے سفر ناموں میں[71] حلیمہ کی قبر جنت البقیع میں قبر عثمان کے راستے میں موجود ہونے کا تذکرہ ملتا ہے۔[72] ان کے مزار پر ایک گنبد اور بارگاہ بنائی گئی تھی لیکن اس کی تاریخِ تعمیر معلوم نہیں۔ ان کی قبر پر ایک لکڑی کی بنی ایک ضریح نصب تھی۔[73] نایب الصدر شیرازی نے سنہ 1305ھ کے اپنے سفر حج میں ترکی زبان میں ایک بیت شعر یہاں تحریر ہونے کی خبر دی ہے۔[74]

پیغمبر اسلامؐ کی خالہ زاد بہن صفیہ کا مزار

بقیع میں مدفون وہ شخصیات جن کی قبور پر بارگاہ بنائی گئی، پیغمبر خداؐ کی خالہ زاد بہن اور زبیر کی ماں صفیہ بنت عبد المطلب کی قبر ہے۔ یہ قبر سنہ چودہویں صدی ہجری کے دوسرے نصف تک بقیع سے باہر مغرب کی جانب کسی گلی میں تھی۔[75]

اس قبر کی نزدیکی زمین کو عثمان بن عفان نے مغیرۃ بن شعبۃ کو دیا تھا اور مغیرہ نے یہاں اپنے لیے ایک گھر تعمیر کیا تھا۔[76] اس لیے صفیہ کی قبر اس کے گھر کی دیوار کی جانب قرار پائی۔ مطری کا کہنا ہے کہ یہاں بنائے گئے گنبد کے بانی کا نام و نشان معلوم نہیں ہوسکا۔[77]

سمہودی کے مطابق صفیہ کی قبر پر عمارت بنائی تھی لیکن گنبد نہیں تھا۔ سید اسماعیل مرندی نے سنہ 1255ھ کے اپنے سفر نامے میں یہاں ایک گنبد موجود ہونے کا تذکرہ کیا ہے۔[78] اس بنا پر گنبد کی تعمیر سنہ 10 تا 13 صدی ہجری کے مابین ہوئی ہے، سنہ 1373ھ میں بقیع اور اس گلی کے درمیان حائل دیواروں کو ہٹا کر جہاں صفیہ کی قبر تھی، مدینہ کی میونسپل نے اس گلی اور ملحقہ زمینوں کے 3494 مربع میٹر کے رقبے کو بقیع سے ملحق کر دیا۔[79]

اب یہ قبر بقیع کے اندر اور دیوار کی مغربی جانب واقع ہے؛ صفیہ کی قبر کے پاس ایک نامعلوم قبر کی موجودگی نے بعد میں آنے والے کچھ مصنفین کو اشتباہ میں ڈال دیا ہے اور اس قبر کو پیغمبر خداؐ کی ایک اور خالہ عاتکہ سے منسوب کیا ہے[80] لیکن سیرت اور صحابہ کے سوانح نگاروں نے عاتکہ کے اسلام قبول کرنے کو مشکوک قرار دیا ہے۔[81]

مزار حسن مثنی

صحیح بخاری میں منقول ایک حدیث کے مطابق حسن مثنی کی زوجہ فاطمہ بنت الحسینؑ نے ان کی قبر پر ایک بارگاہ تعمیر کرائی تھی۔[82]

مزار مالک بن انس

جنت البقیع میں موجود مزارات میں سے ایک ائمہ اہل سنت میں سے ایک امام مالک بن انس کا مزار ہے، جو کہ مزار ابراہیم کے جوار میں روحاء بقیع نامہ مقام پر موجود ہے۔ ابن جبیر کے مطابق ان کی قبر پر ایک چھوٹا سا گنبد بنا ہوا تھا۔[83]

ابن جبیر کی اس گزارش کے مطابق اس مزار کی تاریخ تعمیر ساتویں ہجری صدی سے ملتی ہے۔ یہاں تعمیر شدہ بارگاہ اس حد چھوٹی تھی کہ صرف ایک نفر کا محل دفن معلوم ہوتا تھا۔[84]

ابن عمر کے غلام نافع کا مزار

بقیع میں تعمیر کردہ دیگر بارگاہوں میں سے ایک مقبرہ نافع کی ہے جو مدنی قراء سبعہ میں سے ایک تھے۔ یہ بارگاہ بقیع کے شمال مشرق میں مالک بن انس کے مزار کے ساتھ واقع تھا۔ سمہودی نے اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ اس مزار کی تعمیر کے بارے میں مطری نے آٹھویں صدی ہجری میں کوئی تاریخی گزارش پیش نہیں کی ہے؛ یہ مزار عصر مطری کے بعد بنایا گیا ہے لیکن اس کے بانی اور تاریخ تعمیر کے بارے میں معلومات میسر نہیں ہیں۔[85]

امام جعفر صادقؑ کے بیٹے اسماعیل کا مزار

امام جعفر صادقؑ کے بڑے بیٹے اسماعیل کی قبر بھی ان قبروں میں سے ایک تھی جو پہلے بقیع کے باہر اور عباس اور شیعہ اماموں کی قبر کے مغرب میں واقع تھی اور اس پر ایک مقبرہ اور گنبد بنایا گیا تھا۔ اس مقبرے اور گنبد کی تعمیر کو فاطمیوں سے منسوب کیا گیا ہے۔[86]

اس قبر اور ائمہ بقیع کے قبور کے درمیان تقریباً 15 میٹر کا فاصلہ تھا۔ وہابیوں کے ہاتھوں بقیع کے انہدام کے بعد، انہوں نے اسماعیل کی قبر کے گرد ایک دیوار بنائی۔ سنہ 1394ھ میں ابوذر روڈ کی تعمیر اور توسیع کے بعد، اسماعیل کے جس خاکی کو اسماعیلی بزرگوں[87] نے بقیع میں منتقل کیا اور انہیں حرہ کے شہداء کے مقبروں کی مشرقی جانب حلیمہ سعدیہ کی قبر کی طرف دفن کیا کردیا۔ اب یہ قبر بقیع کے اندر پیدل چلنے کے راستے کی تعمیر کی وجہ سے مکمل طور پر مٹ گئی ہے۔[88]

دیگر مزارات

  • قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ کی قبر پر ایک مقبرہ اور ایک چھوٹا سا گنبد بنایا گیا ہے۔[89] نیز قبیلہ خزرج کے سردار ابوسعید خدری بھی بقیع کے آخر مدفون ہیں۔[90]
  • حکومت فاطمی کے حاکم ابن ابی‌ الہیجاء کی قبر پر ایک چھوٹا سا مقبرہ بنایا گیا ہے جو شیعہ اماموں اور عباس کے مقابر کے غرب میں واقع ہے۔[91]
  • ایلخانی حاکمان میں سے ایک حاکم امیر چوپان کا مقبرہ[92] ابن ابی‌ الہیجاء اور شیخ احمد احسائی کی قبر کے نزدیک ہے اور شیعہ ائمہ کے قبور کی پچھلی طرف ہے۔ سنہ 1302ھ میں اس پر ایک لوہے کی ضریح بنائے جانے کا تذکرہ ملتا ہے۔[93]

مقبروں کی مسماری

سانچہ:اصلی

قبرستان بقیع میں قبور ائمہؑ کی موجودہ حالت

ابن تیمیہ کے افکار سے اثر لیتے ہوئے وہابیوں نے قبروں پر مقبروں کی تعمیر کے عدم جواز کے لیے روایات سے استناد کیا ہے[94] اور قبروں پر بارگاہوں کی تعمیر کو بدعت اور شرک قرار دیا۔[95] اسی عقیدے کی بنیاد پر سنہ 1220ھ میں مدینہ کے وہابی فورسز نے مدینے کا محاصرہ کر لیا اور پورے شہر قبضہ کرنے کے بعد، سعود بن عبد العزیز نے حرم نبوی کے خزانوں میں موجود تمام املاک کو ضبط کرنے کے بعد جنت البقیع کے تمام گنبدوں اور مزارات کو مسمار کرنے کا حکم جاری کیا۔[96]

تعمیر نو

سعودیوں کے اس توہین آمیز اقدامات کے خلاف اسلامی ممالک میں مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا؛ اس وجہ سے عثمانی حکومت، جو حرمین کو واپس لینا چاہتی تھی، نے مدینہ پر قبضہ کرنے کے لیے ایک بڑا لشکر روانہ کیا اور ذی الحجہ 1227ھ میں مدینہ پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ ان میں سے کچھ مقبرے سنہ 1234ھ میں سلطان محمود ثانی کے حکم سے دوبارہ تعمیر کرائے گئے تھے۔[97]

جنت البقیع کی دوسری بار مسماری

سنہ 1344ھ میں شیخ عبد اللہ بلیہد نے فتوا دیا کہ جنت البقیع کے تمام تاریخی آثار کو مٹا دیا جائے، اس کے حکم کی تعمیل کی گئی اور اسی سال 8 شوال جنت البقیع کی تمام تاریخی یادگاریں منہدم کی گئیں۔[98] اس دن کو شیعیان جہاں یوم انہدام بقیع کے نام سے مناتے ہیں۔

اہل اسلام کا رد عمل

اس بار جنت البقیع کے انہدام کے سلسلے میں دنیا بھر کے مسلمانوں نے ردعمل ظاہر کیا۔ سید حسن مدرس نے اس سلسلے میں تحقیقات کیں اور ایرانی پارلیمنٹ نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دی۔ ہندوستان، پاکستان، نیز سابق سوویت یونین کے مسلم آبادی والے علاقوں کے مسلمانوں نے کانفرنس کے انعقاد اور پیغامات بھیج کر اس اقدام پر احتجاج کیا اور سعودی حکومت نے اپنے اقدامات کی توجیہ کے لیے مسلم حکومتوں کے نمائندوں کو مکہ بلایا؛ ایران سے، مصر میں ایران کے با اختیار وزیر غفار خان جلال السلطانیہ اور حبیب اللہ خان ہویدہ پر مشتمل ایک وفد 15 ستمبر 1925ء کو سعوی عرب گیا۔ لیکن سعودی حکومت کی چالوں اور اسلامی ممالک کے حکام کی جانب سے اس مسئلے کو سنجیدگی سے تحقیقات نہ کرنے کی وجہ سے یہ معاملہ خاموش ہوگیا۔[99] ایرانی حکومت نے اس بے حرمتی کے موقع پر 16 صفر 1345ھ کو عام سوگ کا اعلان کیا۔[100] تہرانی عالم دین عبد الرحیم حائری جو شیخ عبدالرحیم فصولی کے نام سے مشہور ہیں، سنہ 1345ھ کو شام سے ایرانیوں کے ایک گروہ کے ساتھ حج پر گئے اور ملک عبد العزیز کے ساتھ بات چیت کے بعد وہ جنت البقیع میں ائمہؑ کے قبور کی تعمیر نو اور اس کے ایک حصے کو بحال کرنے کے سلسلے میں سعودی بادشاہ کی رضامندی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔[101]

متعلقہ مضمون

حوالہ جات

  1. سمہودی، ج3، ص82۔
  2. ابن سعد، ج4، ص44؛ ابن قتیبہ، ص204۔
  3. سمہودی، ج3، ص82۔
  4. نہروانی، ج1، ص127
  5. مجلسی، ج45، ص344-345۔
  6. کلینی، ج1، ص472؛ ابن کثیر، ج8، ص48۔
  7. کلینی، ج1، ص469؛ طبری، ج11، ص631۔
  8. مسعودی، ج3، ص219؛ طبری شیعی، ص215-216
  9. طبری، احمد بن عبداللہ، ص141؛ مسعودی، ج3، ص219۔
  10. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج79، ص27۔
  11. فراہانی، سفرنامہ میرزا محمدحسین فراہانی، 1362شمسی، ص229۔
  12. نہروانی، ج1، ص126-127۔
  13. ابن شبہ، ج1، ص123
  14. مسعودی، ج3، ص285؛ ہمو،التنبیہ و الاشراف، ص260؛ ابن جوزی، ص311۔
  15. ابن اثیر، ج10، ص352۔
  16. مطری، ص119۔
  17. ابن نجار، ص166
  18. ابن جبیر، ص174۔
  19. عبدری، ج1، ص423۔
  20. ابن نجار، ص166۔
  21. ابن بطوطہ، ص125
  22. خالد البلوی، ج1، ص289۔
  23. سمہودی، ج3، ص100
  24. جعفریان، ج5، ص237۔
  25. فرہاد میرزا، ص141
  26. سمہودی ج3، ص100
  27. فرہاد میرزا، ص141۔
  28. جعفریان، ج5، ص237۔
  29. نہروانی، ج1، ص102؛ ابن ماجہ، ج1، ص498۔
  30. نہروانی، ج1، ص102؛ سمہودی، ج3، ص84؛ ابن نجار، ص168۔
  31. سمہودی، ج3، ص84
  32. .محسن امین،اعیان الشیعہ، ج3، ص299؛ نجمی، ص193۔
  33. ابن جبیر، ص174۔
  34. مطری، ص119-120۔
  35. ابن جبیر، ص173-174؛ ابن بطوطہ، ص119۔
  36. رفعت پاشا، ج1، ص426۔
  37. عثمان بن عبداللہ بن بشر، ص104؛الماجری، ص84۔
  38. ابن شبہ، ج1، ص124؛ ابن ابی الحدید، ج1، ص14۔
  39. ابن شبہ، ج1، ص123-124
  40. ابن نجار، ص168؛ مطری، ص43؛ خوارزمی، ج2، ص351۔
  41. کعکی، ص352؛ حسینی مدنی، ص205؛ صبری پاشا، ج4، ص722۔
  42. سمہودی، ج3، ص85۔
  43. ابن شبہ، ج1، ص123۔
  44. فرہاد میرزا، ص156؛ جعفریان، ج5، ص238۔
  45. کردی، ج4، ص17، 20۔
  46. جعفریان، ج5، ص237؛ فرہاد میرزا، ص141۔
  47. علی حافظ، ص167-168۔
  48. سمہودی، ج3، ص101۔
  49. سمہودی، ص120۔
  50. فرہاد میرزا، ص156۔
  51. ابن نجار، ص165؛ مطری، ص119؛ مرجانی، ج2، ص101۔
  52. ابن شبہ، ج1، ص120۔
  53. ابن نجار، ص166۔
  54. سمہودی، ج3، ص101۔
  55. مطری، ص120۔
  56. طبری، ج3، ص438
  57. ابن زبالہ، ص209؛ ابن شبہ، ج1، ص112-113؛طبری، ج3، ص438۔
  58. ابن جبیر، ص174۔
  59. ابن نجار، ص166؛ابن بطوطہ، ج1، ص361۔
  60. مطری، ص120؛ سمہودی، ج3، ص102۔
  61. العبدری، ج1، ص423۔
  62. سمہودی، ج3، ص100-101۔
  63. نجمی، ص235۔
  64. ابن شبہ، ج1، ص127؛ نک: ابن عبدالبر، ج4، ص1673
  65. ابن نجار، ص166۔
  66. ابن شبہ، ج1، ص103؛ کلینی، ج3، ص241؛ ابن سعد، ج8، ص37۔
  67. احمد بن حنبل، ج1، ص237؛ ابن عبدالبر، ج3، ص1056؛ حاکم نیشابوری، ج3، ص190۔
  68. فرہاد میرزا، ص156۔
  69. رفعت پاشا، ص478۔
  70. جعفریان، ج5، ص241۔
  71. ورثیلانی، ج2، ص539؛ جعفر خلیلی، ج3، ص282؛ جعفریان، ج5، ص478۔
  72. جعفریان، ج5، ص478-479۔
  73. جعفریان، ج5، ص242۔
  74. جعفریان، ج5، ص479۔
  75. نجفی، ص394۔
  76. ابن شبہ، ج1، ص126-127۔
  77. مطری، ص121۔
  78. میقات حج، ش5، ص118، «توصیف مدینہ»۔
  79. علی حافظ، ص173۔
  80. رفعت پاشا، ج1، ص426۔
  81. ابن قتیبہ، ص128-129؛ ابن عبدالبر، ج4، ص1778-1779؛ مسعودی، ج2، ص286۔
  82. صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب 61؛ فتح الباری فی شرح صحیح بخاری،ج3، ص255، باب61
  83. ابن جبیر، ص174۔
  84. عبدری، ج1، ص423؛ مرجانی، ج2، ص1049۔
  85. سمہودی، ج3، ص102۔
  86. مطری، ص121؛ سمہودی، ج3، ص103۔
  87. جعفریان، آثار اسلامی، ص348؛ نجمی، ص301-302۔
  88. نجمی، ص301-303۔
  89. ابن شبہ، ج1، ص125؛ سخاوی، ج1، ص42۔
  90. سمہودی، ج3، ص99؛ کعکی، ص352۔
  91. نزہة الناظرین، ص318۔
  92. سمہودی، ج3، ص100
  93. جعفریان، ج5، ص239-240
  94. ابن تیمیہ،الاخنائیہ، ج1؛ ص150؛ابن تیمیہ، الفتاوی الکبری، ج5، ص292؛ قرطبی، ج11، ص379۔
  95. ابن تیمیہ، الاخنائیہ، ج1، ص150؛ ابن تیمیہ،الفتاوی الکبری، ج5، ص287-292؛ آلوسی، ج8، ص225۔
  96. من اخبار الحجاز و النجد، ص104؛ عنوان المجد، ص137؛ الماجری، ص84۔
  97. فرہاد میرزا، ص141۔
  98. الماجری، ص113-139؛ بقیع الغرقد، ص49۔
  99. تخریب و بازسازی بقیع بہ روایت اسناد، ص41-60۔
  100. واکنش ہا بہ تخریب بقیع، کرب و بلا پایگاہ تخصصی امام حسین(ع)۔
  101. مجلہ خرد، سال 1328شمسی، ش2۔

مآخذ

  • ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، بہ کوشش محمد ابوالفضل،دار احیاء الکتب العربیہ، 1378ھ۔
  • ابن اثیر، اسدالغابہ، بیروت، دارالکتاب العربی۔
  • ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، بیروت،دار صادر، 1385ھ۔
  • ابن تیمیہ، الاخنائیہ، بہ کوشش الدانی بن منیر، بیروت، المکتبة العصریہ،423ھ۔
  • ابن تیمیہ، الفتاوی الکبری، بہ کوشش محمد عبدالقادر و مصطفی عبدالقادر، دارالکتب العلمیہ، 1408ھ۔
  • ابن جوزی، تذکرة الخواص، قم، الرضی، 1418ھ۔
  • ابن زبالہ، محمد، اخبار المدینہ، بہ کوشش ابن سلامہ، مرکز بحوث و دراسات المدینہ، 1424ھ۔
  • ابن سعد، الطبقات الکبری، بہ کوشش محمد عبدالقادر، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1418ھ۔
  • ابن شبہ، تاریخ المدینة المنورہ، بہ کوشش شلتوت، قم، دارالفکر، 1410ھ۔
  • ابن عبدالبر، الاستیعاب، بہ کوشش البجاوی، بیروت، دارالجیل، 1412ھ۔
  • ابن فہد حلی، الرسائل العشر، بہ کوشش رجایی، قم، مکتبة النجفی، 1409ھ۔
  • ابن قتیبہ، المعارف، بہ کوشش ثروت عکاشہ، قم، الرضی، 1373ہجری شمسی۔
  • ابن قولویہ قمی، کامل الزیارات، بہ کوشش القیومی، قم، نشر الفقاہہ، 1417ھ۔
  • ابن کثیر، البدایة و النہایہ، بہ کوشش علی شیری، بیروت،دار احیاء التراث العربی، 1408ھ۔
  • ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، بہ کوشش محمد فؤاد، بیروت، داراحیاء التراث العربی، 1395ھ۔
  • احمد بن حنبل، مسند احمد، بیروت،دار صادر۔
  • محمد بن نجار، الدرة الثمینہ، بہ کوشش شکری، بیروت،دار الارقم بن ابی‌الارقم۔
  • القاب الرسول و عترتہ من قدماء المحدثین، قم، مکتبة النجفی، 1406ھ۔
  • امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، بہ کوشش حسن الامین، بیروت، دارالتعارف۔
  • امینی، محمد امین، بقیع الغرقد فی دراسة شاملہ۔
  • آلوسی، روح المعانی، بیروت، داراحیاء التراث العربی۔
  • بدری، محمد، رحلة العبدری، بہ کوشش علی ابراہیم کردی، دمشق،دار سعدالدین، 1426ھ۔
  • بکری، محمد انور، عمر طہ، حاتم، بقیع الغرقد، مدینہ، مکتبة الحلبی، 1424ھ۔
  • بلاذری،انساب الاشراف، بہ کوشش محمودی، بیروت، اعلمی، 1394ھ۔
  • بیہقی، شعب الایمان، بہ کوشش محمد سعید، بیروت،دار الکتب العلمیہ، 1410ھ۔
  • پاشا، رفعت، ابرہیم، مرآة الحرمین، قم، المطبعة العلمیہ، 1344ھ۔
  • تخریب و بازسازی بقیع بہ روایت اسناد، تہران، مشعر، 1428ھ۔
  • تستری، اسداللہ بن اسماعیل، کشف القناع، آل البیت علیہم‌السلام۔
  • جعفریان، رسول، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، قم، مشعر، 1386ہجری شمسی۔
  • جعفریان، رسول، پنجاہ سفرنامہ حج قاجاری، تہران، نشر علم، 1389ہجری شمسی۔
  • حافظ، علی، فصول من تاریخ المدینة المنورہ، جدہ، شرکة المدینة المنورہ، 1417ھ۔
  • حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، بہ کوشش مرعشلی، بیروت، دارالمعرفہ، 1406ھ۔
  • خلیلی، جعفر، المدخل الی موسوعة العتبات المقدسہ، بیروت، الاعلمی، 1987ء۔
  • خلیلی، جعفر، موسوعة العتبات المقدسہ، بیروت، الاعلمی، 1407ھ۔
  • خوارزمی، محمد بن اسحاق، اثارة الترغیب، بہ کوشش الذہبی، مکہ، مکتبة نزار مصطفی الباز، 1418ھ۔
  • خیاری، احمد یاسین، تاریخ معالم المدینة المنورة قدیماً و حدیثاً، عربستان، عامہ، 1419ھ۔
  • دلائل الامامہ:الطبری الشیعی، قم، بعثت، 1413ھ۔
  • دیلمی، حسن بن محمد، ارشاد القلوب، بہ کوشش سید ہاشم، دارالاسوہ، 1417ھ۔
  • ذخائر العقبی:احمد بن عبداللہ الطبری، بیروت،دار المعرفہ، 1974ء۔
  • رحلة ابن بطوطہ:ابن بطوطہ، بہ کوشش التازی، الرباط، المملکة المغربیہ، 1417ھ۔
  • سائح، تاج المفرق، الامارات، احیاء التراث الاسلامی۔
  • سبحانی، جعفر، صیانة الآثار الاسلامیہ، معاونیة التعلیم و البحوث الاسلامیہ۔
  • سخاوی، شمس الدین، التحفة اللطیفہ، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1414ھ۔
  • سمہودی، وفاء الوفاء، بہ کوشش محمد عبدالحمید، بیروت،دار الکتب العلمیہ، 2006ء۔
  • شربینی، محمد، مغنی المحتاج، بیروت،دار احیاء التراث العربی، 1377ھ۔
  • شہید ثانی، مسالک الافہام الی تنقیح شرائع الاسلام، قم، معارف اسلامی، 1416ھ۔
  • صبری پاشا، ایوب، موسوعة مرآة الحرمین الشریفین، قاہرہ، دارالآفاق العربیہ، 1424ھ۔
  • طبری، تاریخ طبری (تاریخ الامم و الملوک)، بہ کوشش گروہی از علما، بیروت، اعلمی، 1403ھ۔
  • عاملی، شیخ حر، وسائل الشیعہ، قم، آل البیت علیہم‌السلام، 1412ھ۔
  • عاملی، یوسف رغدا، معالم مکة و المدینة بین الماضی و الحاضر، بیروت، 1431ھ۔
  • عثمان بن عبداللہ بن بشر، عنوان المجد فی تاریخ نجد، ریاض، مکتبة الریاض الحدیث.
  • علامہ مجلسی، بحارالانوار، بیروت،دار احیاء التراث العربی، 1403ھ۔
  • غالب، محمد ادیب، من اخبار الحجاز و النجد فی تاریخ الجبرتی، دارالیمامہ، 1395ھ۔
  • فارسی، علی بن بلبان، صحیح ابن حبان، بہ کوشش الارنؤوط، الرسالہ، 1414ھ۔
  • فراہانی، محمدحسین، سفرنامہ میرزا محمدحسین فراہانی، تہران، فردوس، 1362ہجری شمسی۔
  • فرہاد میرزا قاجار، سفرنامہ فرہاد میرزا، بہ کوشش طباطبایی، تہران، مؤسسہ مطبوعاتی علمی، 1366ہجری شمسی۔
  • قاضی عیاض، الشفاء بتعریف حقوق المصطفی، عمان، دارالفیحاء، 1407ھ۔
  • قاضی عیاض، شرح الشفاء بتعریف حقوق المصطفی، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1421ھ۔
  • قرطبی، تفسیر قرطبی (الجامع لاحکام القرآن)، بیروت، داراحیاء التراث العربی، 1405ھ۔
  • کردی، محمد طاہر،التاریخ القویم، بہ کوشش ابن دہیش، بیروت،دار خضر، 1420ھ۔
  • کلینی، الکافی، بہ کوشش غفاری، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1375ہجری شمسی۔
  • ماجری، یوسف،البقیع قصة التدمیر، بیروت، مؤسسة بقیع لاحیاء التراث، 1411ھ۔
  • محقق حلی، شرائع الاسلام، بہ کوشش سید صادق شیرازی، تہران، استقلال، 1409ھ۔
  • ابن جبیر٬ محمد بن احمد، رحلة بن جبیر، بیروت، دار مکتبة الہلال، 1986ء۔
  • مدنی، جعفر بن اسماعیل، نزہة الناظرین، بہ کوشش سعید بن سلمی، مکتبة الرفاعی.
  • مدنی، محمد کبریت، الجواہر الثمینہ، بہ کوشش محمد حسن، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1417ھ۔
  • مرجانی، عبداللہ، بہجة النفوس و الاسرار، بہ کوشش محمد شوقی، ریاض، مکتبة الملک فہد، 1425ھ۔
  • مسعودی، التنبیہ و الاشراف، بیروت،دار صعب۔
  • مسعودی، مروج الذہب، بہ کوشش اسعد داغر، قم، دارالہجرہ، 1409ھ۔
  • مسلم، صحیح مسلم، بیروت، دارالفکر۔
  • مطری، محمد، التعریف بما آنست الہجرہ، بہ کوشش الرحیلی، ریاض، دارالملک عبدالعزیز، 1426ھ۔
  • مقریزی، امتاع الاسماع، بہ کوشش محمد عبدالحمید، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1420ھ۔
  • میقات حج (فصلنامہ):تہران، حوزہ نمایندگی ولی فقیہ در امور حج و زیارت۔
  • نجمی، محمد صادق، تاریخ حرم ائمہ بقیع، تہران، مشعر، 1386ہجری شمسی۔
  • نسائی، سنن النسائی، بیروت،دار الفکر، 1348ھ۔
  • ورثیلانی، حسن بن محمد، الرحلة الورثیلانیہ، قاہرہ، مکتبة الثقافة الدینیہ، 1429ھ۔
  • واکنش ہا بہ تخریب بقیع، کرب و بلا پایگاہ تخصصی امام حسین(ع)، تاریخ درج مطلب: بی‌تا، تاریخ بازدید: ادیبہشت 1402۔