امام محمد باقر علیہ السلام

فاقد تصویر
حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
غیر جامع
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
(امام محمد باقر(ع) سے رجوع مکرر)
امام محمد باقر علیہ السلام
جنت البقیع
منصبشیعوں کے پانچویں امام
ناممحمد بن علی
کنیتابو جعفر
القابباقر، شاکر، ہادی
تاریخ ولادتیکم رجب سنہ 57ھ
جائے ولادتمدینہ
مدت امامت19 سال (95-114ھ)
شہادت7 ذی الحجہ سنہ 114ھ
سبب شہادتزہر سے مسموم
مدفنجنت البقیع، مدینہ
رہائشمدینہ
والد ماجدامام زین العابدین علیہ السلام
والدہ ماجدہفاطمہ بنت امام حسنؑ
ازواجام فروہ، ام حکیم
اولادامام جعفر صادق علیہ ‌السلام، عبداللہ، ابراہیم، عبیداللہ، علی، زینب، ام سلمہ
عمر57 سال
ائمہ معصومینؑ
امام علیؑامام حسنؑامام حسینؑامام سجادؑامام محمد باقرؑامام صادقؑامام موسی کاظمؑامام رضاؑامام محمد تقیؑامام علی نقیؑامام حسن عسکریؑامام مہدیؑ


محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب (57-114ھ)، امام محمد باقرؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے پانچویں امام ہیں۔ آپ کا مشہور لقب باقر ہے جسے حدیث لوح کے مطابق رسول اللہؐ نے آپ کی ولادت سے پہلے آپکو دیا ہے۔ آپ کی مدت امامت 19 برس تھی۔ (95ھ تا 114ھ)۔ آپ کی امامت بنی امیہ کے پانچ خلیفوں ولید بن عبدالملک، سلیمان بن عبدالملک، عمر بن عبدالعزیز، یزید بن عبدالملک و ہشام بن عبدالملک کے دور میں رہی۔ 57 سال کی عمر میں 7 ذوالحجہ 114ھ کو شہادت پاگئے۔ بعض کا کہنا ہے کہ ہشام بن عبدالملک اور بعض کے مطابق ابراہیم بن ولید آپ کی شہادت کا سبب بنے۔ آپؑ واقعۂ عاشورا کے دوران کم سن تھے اور چشم دید گواہ بھی ہیں۔

باقر العلوم، علم زہد اور عظمت و فضیلت میں بنی ہاشم کی عظیم شخصیات میں سے ایک تھے۔ آپ سے مختلف موضوعات پر احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں فقہ، توحید، سنت نبوی، قرآن اور اخلاق جیسے موضوعات قابل ذکر ہیں۔

اپنے زمانے میں تشیُّع کے فروغ کے لئے مناسب تاریخی حالات کو دیکھتے ہوئے آپ نے عظیم شیعہ علمی تحریک کا آغاز کیا جو آپ کے فرزند ارجمند امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانے میں اپنے عروج کو پہنچ گئی۔ آپ کے شاگرد اور صحابی کی تعداد کو 462 نفر ذکر کیا گیا ہے۔ آپ کے دورہ امامت میں اخلاق، فقہ، کلام و تفسیر جیسے موضوعات میں شیعوں کا نظریہ تحریر ہونا شروع ہوا۔

امام باقرؑ کے بارے میں بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں عزیز اللہ عطاردی کی کتاب مسند الامام الباقر سر فہرست ہے۔

سوانح حیات

امام محمد باقرؑ امام سجاد اور فاطمہ بنت حسنؑ کے بیٹے ہیں۔[1] چونکہ آپ کا نسب امام حسن]] اور امام حسینؑ تک پہنچتا ہے اس لئے آپ کو ہاشمیٌ بین ہاشمیَین، علویٌ بین علویَین و فاطمیٌ بین فاطمیَین کا لقب دیا گیا ہے۔[2] حدیث لوح کے مطابق جابر بن عبداللہ انصاری سے منقول ہے کہ رسول اللہؑ نے آپؑ کی ولادت سے پہلے آپ کا نام محمد اور لقب باقر رکھا تھا۔[3] آپ کے دیگر القاب میں «باقرالعلم»، «شاکر»، «ہادی» اور «امین» قابل ذکر ہیں؛[4] جبکہ آپ کا مشہور ترین لقب باقر ہے جس کے معنی علم و دانش کا سینہ چاک کرکے اس کے راز و رمز تک پہنچنے والے (شکافتہ کرنے والا) کے ہیں۔[5] یعقوبی رقمطراز ہے: آپ کو اس سبب سے باقر کا نام دیا گیا کہ آپ نے علم کو شکافتہ کیا۔[6] شیخ مفید کے مطابق امام محمد باقرؑ علم اور زہد میں اپنے تمام بھائیوں میں افضل اور قدر و منزلت میں سب سے اعلی تھے اور سب اس عظمت کے معترف تھے۔[7] آپ کی مشہور کنیت «ابو جعفر» ہے۔[8] حدیث کے منابع میں آپ کو غالبا ابو جعفر اول کے نام سے یاد کیا جاتا ہے تاکہ ابوجعفر ثانی (امام جوادؑ) سے اشتباہ نہ ہوجائے۔[9]

ولادت اور شہادت

امام محمد باقرؑ کی کربلا میں حاضری

امام محمد باقرؑ فرماتے ہیں: جس وقت میرے جد امجد حسین ابن علیؑ کو شہید کیا گیا اس وقت میری عمر 4 سال تھی۔ آپ کی شہادت اور اس وقت جو مصائب ہمارے اوپر آئے سب مجھے یاد ہیں۔

یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2، ص289

امام محمد باقرؑ بروز جمعہ یکم رجب المرجب سنہ 57 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔[10] گوکہ بعض منابع میں آپ کی تاریخ ولادت اسی سال 3 صفر بروز منگل ثبت کی گئی ہے۔[11] کم سنی کے عالم میں آپ واقعہ کربلا میں شریک تھے۔[12]

امام باقرؑ 57 سال کی عمر میں[13] 7 ذی الحجہ سنہ 114 ہجری کو شہید ہوئے۔[14]البتہ بعض منابع میں ذی‌ الحجہ کی جگہ ربیع الاول یا ربیع الثانی کا نام لیا گیا ہے۔[15] امام محمد باقرؑ کی شہادت کے سلسلے میں دوسرے اقوال بھی تاریخ کے صفحات پر درج ہيں جن میں آپ کی شہادت 115ھ، 116ھ اور 118ھ کو قرار دیا گیا ہے۔[16]

امام محمد باقرؑ کی شہادت ہشام بن عبد الملک کے دور خلافت میں واقع ہوئی:[17] چونکہ ہشام سنہ 105 ہجری سے 125 ہجری تک بر سر اقتدار رہا،[18] اور امام محمد باقرؑ کی شہادت کے سلسلے میں مورخین نے جن تاریخوں کا ذکر کیا ہے ان میں سے آخری سال 118 ہجری ہے۔[حوالہ درکار] امام محمد باقرؑ کو کس شخص یا کن اشخاص نے قتل کیا؟ اس سلسلے میں مؤرخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے بعض نے لکھا ہے کہ آپ کو شہید کرنے میں ہشام بن عبد الملک براہ راست ملوث تھے۔[19] بعض کا قول ہے کہ آپ کا قاتل ابراہیم بن ولید بن عبد الملک بن مروان ہے جس نے امامؑ کو مسموم کیا۔[20]

امام محمد باقرؑ نے وصیت کی تھی کہ آپ کو اسی لباس میں دفن کیا جائے جس میں آپ ہمیشہ نماز پڑھا کرتے تھے۔[21] آپ امام سجادؑ اور امام حسنؑ کے ساتھ قبرستان بقیع میں مدفون ہیں۔[22] امام نے یہ بھی وصیت کی تھی کہ آپ کے اموال میں سے دس سال تک منا میں آپ کے لئے مجلس عزا برپا کی جائے۔[23]

ازواج اور اولاد

تاریخی منابع کے مطابق امام باقرؑ کی تین بیویاں اور سات اولاد تھیں:[24]

بیوی نسب اولاد
ام فروه بنت قاسم بن محمد بن ابوبکر امام صادقؑ اور عبداللہ
ام حکیم بنت اسید ثقفی ابراهیم و عبیدالله
ام ولد کنیز علی، زینب و ام سلمہ

دورہ امامت

امام محمد باقرؑ سنہ 95 ہجری میں اپنے والد ماجد امام علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کے بعد منصب امامت پر فائز ہوئے[25] اور سنہ 114 ہجری تک اس منصب پر فائز رہے۔[26] رسول اکرمؐ سے منقول جن احادیث میں امام سجادؑ کی امامت کے بعد آپ کی امامت کی طرف اشارہ ہوا ہے وہ آپ کی امامت کی دلیل شمار ہوتی ہیں۔[27] امام امام زین العابدینؑ بھی آپ کو زیادہ اہمیت دیتے تھے تو اس بارے میں آپ سے دریافت کیا کہ آپ محمد باقر پر اس قدر توجہ کیوں دیتے ہیں اور اس خصوصی توجہ کا راز کیا ہے تو امام سجادؑ نے فرمایا: اس کا سبب یہ ہے کہ امامت ان کے فرزندوں میں باقی رہے گی حتی کہ حضرت ہمارے قائم قیام کریں اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے؛ چنانچہ وہ امام بھی ہیں اور اماموں کے باپ بھی۔[28]

امام محمد باقر کے ہم عصر حکمران
امامت امام باقرؑ 95-114ھ



ہم عصر خلفا

امام باقرؑ کا عہد امامت درج ذیل پانچ اموی خلفا کے ہمزمان تھا:

  1. ولید بن عبدالملک (86 تا 96) ہجری
  2. سلیمان بن عبدالملک (96 تا 99) ہجری
  3. عمر بن عبدالعزیز (99 تا 101) ہجری
  4. یزید بن عبدالملک (101 تا 105) ہجری
  5. ہشام بن عبدالملک (105 تا 125) ہجری

اعیان الشیعہ میں ذکر ہوا ہے کہ عبدالمالک بن مروان نے امام باقرؑ کی تجویز سے اسلامی سکہ رائج کیا۔[29] اس سے پہلے خرید و فروخت رومی سکوں کے ذریعے ہوتی تھی۔ اور چونکہ یہ ماجرا امام زین العابدینؑ کے دور میں واقع ہوا، اس لئے بعض نے اس کو امام سجاد سے منسوب کیا ہے جبکہ بعض کا کہنا ہے امام باقرؑ نے امام سجادؑ کے حکم سے یہ تجویز دی تھی۔[30]

علمی تحریک

سنہ 94 ہجری سے 114 ہجری تک کا زمانہ فقہی مسالک کی ظہور پذیری اور تفسیر قرآن کے سلسلہ میں نقل حدیث کے عروج کا زمانہ ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ اس دور میں بنی امیہ کی سلطنت زوال کی طرف سرکنے لگی تھی اور کافی حد تک کمزور ہو چکی تھی۔ اس زمانے میں اموی بزرگوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی زوروں پر تھی۔ اہل سنت کے علماء میں سے شہاب زہری، مکحول، ہشام بن عروہ وغیرہ جیسے افراد نقل حدیث کا اہتمام کرتے تھے اور فتویٰ دیتے تھے۔ اور بعض دوسرے افراد اپنے عقائد کی ترویج میں مصروف تھے؛ جن میں خوارج، مرجئہ، کیسانیہ اور غالی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
امام باقرؑ نے اس دور میں وسیع علمی تحریک کی بنیاد رکھی جو آپ کے فرزند ارجمند امام ابو عبداللہ جعفر بن محمد صادقؑ کے دور میں عروج کو پہنچی۔ آپ علم، زہد اور فضیلت میں اپنے دور کے ہاشمی بزرگوں میں سر فہرست تھے اور علم دین، سنت، علوم قرآن سیرت اور فنون اخلاق و آداب جیسے موضوعات میں جس قدر حدیثیں اور روایات آپ سے منقول ہیں وہ امام حسن اور امام حسین کے کسی بھی دوسرے فرزند سے نقل نہيں ہوئی ہیں۔[31]
شیعہ فقہی احکام ـ اگر چہ ـ اس وقت تک صرف اذان، تقیہ، نماز میت وغیرہ جیسے مسائل کی حد تک واضح ہوچکے تھے لیکن امام باقرؑ کے ظہور کے ساتھ اس سلسلے میں نہایت اہم قدم اٹھائے گئے اور ایک قابل تحسین علمی و ثقافتی تحریک شیعیان آل رسولؐ کے درمیان شروع ہوئی۔ اسی زمانے میں اہل تَشَیُّع نے ـ فقہ، تفسیر اور اخلاق پر مشتمل ـ فرہنگ کی تدوین کا کام شروع کیا۔[32]
امام باقرؑ نے اصحاب قیاس کی دلیلوں کو شدت سے ردّ کردیا۔[33] اور دیگر منحرف اسلامی فرقوں کے خلاف بھی سخت موقف اپنایا اور یوں مختلف موضوعات میں اہل بیتؑ کے صحیح اعتقادی دائرے کو واضح اور الگ کرنے کی (کامیاب) کوشش کی۔ آپ نے خوارج کے بارے میں فرمایا: "خوارج نے اپنی جہالت کے بموجب عرصہ حیات اپنے لئے تنک کردیا ہے، دین اس سے کہیں زیادہ نرم و ملائم اور لچکدار ہے جو وہ سمجھتے ہیں۔[34]
امام باقرؑ کی علمی شہرت ـ نہ صرف حجاز میں بلکہ ـ حتی کہ عراق اور خراسان تک بھی پہنچ چکی تھی؛ چنانچہ راوی کہتا ہے: میں نے دیکھا کہ خراسان کے باشندوں نے آپ کے گرد حلقہ بنا رکھا ہے اور اپنے علمی سوالات آپ سے پوچھ رہے ہیں۔[35]
اگلی سطور میں اختصار کے ساتھ مختلف موضوعات (علم و سائنس کے شعبوں) میں امامؑ کی علمی میراث کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے:

تفسیر

امامؑ نے اپنے اوقات کا ایک حصہ تفسیری موضوعات و مباحث کے لئے مختص کر رکھا تھا اور تفسیری حلقہ تشکیل دے کر علماء اور عام لوگوں کے سوالات و اعتراضات کا جواب دیتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ امام باقرؑ نے تفسیر قرآن میں ایک کتاب بھی تصنیف کی تھی جس کی طرف محمد بن اسحق ندیم نے اپنی کتاب الفہرست میں بھی اشارہ کیا ہے۔ [36]
امامؑ قرآن کی شناخت و معرفت کو اہل بیت تک محدود سمجھتے تھے کیونکہ وہ محکمات کو متشابہات اور ناسخ و منسوخ سے تمیز دینے کی قوت رکھتے ہیں؛ اور ایسی خصوصیت اہل بیتؑ کے سوا کے پاس بھی نہيں پائی جاسکتی۔ اسی بنا پر آپ نے فرمایا ہے: کوئی بھی چیز تفسیر قرآن کی مانند لوگوں کی عقل سے دور نہيں ہے؛ کیونکہ ایک آیت کا آغاز متصل ہے ایک مسئلے کے بارے میں، اور یہ کلامِ متصل کئی وجوہ کی طرف لوٹایا جاتا ہے"۔[37]

حدیث

امام باقرؑ نے احادیث نبوی کو خاص شکل میں توجہ اور اہمیت دی تھی حتی کہ جابر بن یزید جعفی نے آپ سے رسول اللہؐ کی ستر ہزار حدیثیں نقل کی ہیں؛ جیسا کہ ابان بن تغلب اور دوسرے شاگردوں نے اس عظیم ورثے میں سے بڑے مجموعے نقل کئے ہیں۔
امامؑ نے صرف نقل حدیث اور ترویج حدیث ہی پر اکتفا نہيں کیا بلکہ اپنے اصحاب کو فہمِ حدیث اور ان کے معانی کے سمجھنے کے اہتمام کرنے کی پر بھی ترغیب دلائی ہے۔ مثلا آپ نے فرمایا ہے:

ہمارے پیروکاروں کے مراتب کو احادیث اہل بیت نقل کرنے اور ان کی معرفت و ادراک کی سطح دیکھ کر پہچانو، اور معرفت در حقیقت روایت کو پہچاننے کا نام ہے اور یہی درایۃالحدیث ہے، اور روایت کی درایت و فہم کے ذریعے مؤمن ایمان کے اعلی درجات پر فائز ہوجاتا ہے۔[38]

کلام

امام باقرؑ کے زمانے میں مناسب مواقع فراہم ہوئے، حکمرانوں کی طرف سے دباؤ اور نگرانی میں کمی آئی اور یوں مختلف عقائد و افکار کے ظاہر و نمایاں ہونے کے اسباب فراہم ہوئے اور یہی آزاد فضا بھی معاشرے میں انحرافی افکار کے وجود میں آنے کا سبب بنی۔ ان حالات میں امامؑ کو درست اور حقیقی شیعہ عقائد کی تشریح، باطل عقائد کی تردید کے ساتھ ساتھ متعلقہ شبہات و اعتراضات کا جواب بھی دینا پڑ رہا تھا؛ چنانچہ آپؑ ان امور کے تناظر میں ہی کلامی (و اعتقادی) مباحث کا اہتمام کرتے تھے؛ "ذات پرودگار کی حقیقت کے ادراک سے عقل انسانی کی عاجزی" [39] اور "واجب الوجود کی ازلیت"[40] وغیرہ ان ہی مباحث میں سے ہیں۔

امامؑ کی دیگر مواریث بھی ہم تک پہنچی ہیں جیسے فقہی میراث[41] اور تاریخی میراث [42] وغیرہ۔

امامؑ کے مناظرات

امام باقرؑ کی علمی سرگرمیون میں مختلف موضوعات پر مختلف افراد کے ساتھ مناظرات بھی شامل تھے۔ آپ کے بعض مناظرات کی فہرست کچھ یوں ہے:

اسرائیلیات کے خلاف جدوجہد

رسول اللہ کا امام باقر کو سلام

امام محمد باقرؑ فرماتے ہیں:
ایک دفعہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری (رحمۃاللہ علیہ) کو دیکھا اور انہيں سلام کیا؛ انھوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور پوچھا:

تم کَون ہو؟ - یہ وہ زمانہ تھا جب جابر نابینا ہوچکے تھے۔
میں نے کہا: میں محمد بن علی بن الحسین ہوں۔
کہا: بیٹا میرے قریب آؤ۔
پس میں ان کے قریب گیا اور انھوں نے میرے ہاتھ کا بوسہ لیا اور میرے پاؤں کا بوسہ لینے کے لئے جھک گئے لیکن میں نے انہیں روک لیا۔
اس کے بعد جابر نے کہا: بے شک رسول اللہؐ تمہیں سلام کہہ رہے ہیں۔
میں نے کہا: و علی رسول اللہ السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ؛ لیکن یہ کیسے اے جابر!
جابر نے کہا: ایک دفعہ میں آپؐ کی خدمت میں حاضر تھا جب آپ ؐ نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے جابر! مجھے امید ہے کہ تم لمبی عمر پاؤ حتی کہ میرے فرزندوں میں سے ایک مرد کو دیکھ لو جس کا نام محمد بن علی بن الحسین ہوگا، اور اللہ تعالی اس کو نور اور حکمت بخشے گا۔ پس میری طرف سے اس کو سلام پہنچانا۔

یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2، ص289

اس زمانے میں اسلامی معاشرے کے اندر سرگرم اور معاشرتی تہذیب و ثقافت پر گہرے اثرات مرتب کرنے والے گروہوں میں سے ایک گروہ یہودیوں کا گروہ تھا۔ بعض یہودی احبار جو بظاہر مسلمان ہوگئے تھے اور بعض وہ جو اپنے دین پر ثابت قدم تھے، اسلامی معاشروں میں پھیل گئے تھے اور مسلمانوں کے ایک سادہ لوح طبقے کی علمی مرجعیت کے حامل تھے۔ یہود اور اسلامی معاشرے میں ان کے القائات اور تبلیغات کے خلاف علمی جدوجہد اور انبیاء کے بارے میں یہودیوں کی بنائی ہوئی جھوٹی حدیثوں اور انبیاء کا چہرہ مخدوش کرنے والے مسائل کی تردید امام محمد باقرؑ کی علمی تحریک میں خاص طور پر نمایاں ہے۔ یہاں ہم بعض نمونوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

زرارہ نقل کرتے ہیں: میں امام باقرؑ کی خدمت میں بیٹھا تھا اور امامؑ نے، جو کعبہ کی طرف رخ کرکے بیٹھے تھے، کہا: "بیت اللہ کی طرف دیکھنا عبادت ہے"۔ اسی حال میں عاصم بن عمر نامی شخص بھی امامؑ کے پاس آیا اور کہا: "کعب الاحبار کہتا ہے: إنّ الكعبة تَسْجُدُ لبیت المقدس فی كلِّ غَداة (ترجمہ: "کعبہ ہر صبح بیت المقدس کی طرف سجدہ کرتا ہے"۔

امام نے فرمایا: کعب الاحبار کے اس قول کے بارے میں تمہاری اپنی رائے کیا ہے؟
عاصم نے کہا: کعب کی بات صحیح ہے۔
امام باقرؑ نے فرمایا: "كذبتَ و كذبَ كعب الأحبار معك"۔ (ترجمہ: تم بھی جھوٹ بول رہے ہو اور کعب الاحبار بھی جھوٹ بول رہا ہے)۔ اس کے بعد امامؑ شدید غضب کی حالت میں فرمایا: "ما خَلَقَ اللهُ عَزَّوَجلَّ بُقْعَةً فِى الاَرْضِ اَحَبَّ اِلَیْهِ مِنْها۔۔۔ (ترجمہ: خداوند متعال نے زمین پر کوئی بھی بقعہ (یعنی ممتاز قطعۂ ارضی) پیدا نہیں کیا جو اس کے نزدیک اس کعبہ سے زیادہ محبوب ہو)۔[43]

اصحاب اور شاگرد

امام محمد باقرؑ کے زمانے میں معاشرے کے سیاسی حالات کچھ اس طرح سے بدل گئے کہ آپ کو ایک عظيم علمی مجمع تشکیل دینے کا موقع میسر آیا اور آپ نے شریعت کی اقدار کے پابند بے شمار عالم و دانشمند افراد کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔
اسی بنا پر جب ہم صدر اول کی تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو ہمیں امام باقرؑ کی علمی حیات میں آپ کے بہت سے شاگردوں اور عالم اسلام کی ممتاز علمی شخصیات نظر آتی ہیں۔

اس کے باوجود یہ تصور کرنا درست نہیں ہے کہ امام محمد باقرؑ کو ان رکاوٹوں اور ممانعتوں سے آسودہ خاطر تھے جو حکمرانوں کی طرف سے اہل بیتؑ پر مسلط کی جاتی رہی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امام باقرؑ کی زندگی کا ماحول شدت سے تقیہ کا ماحول تھا۔ کیونکہ غیر صالح حکومتوں کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی معاشرتی صورت حال میں تقیہ ترک کرنا علمی فعالیت سے کنارہ کشی اختیار کرنے اور اور دین کے اصولی معارف و تعلیمات کی ترویج سے دور رہنے، کے مترادف تھا۔

زمانے کے حالات نے امام باقرؑ نیز امام صادقؑ کو مناسب امکان فراہم کئے جو دوسرے ائمہ طاہرینؑ کو فراہم نہیں ہوئے۔ یہ مناسب حالات اموی حکومت کی بنیادیں سست ہونے کی وجہ سے وجود میں آئے تھے۔ اس زمانے کے سیاسی نظام کا اندرونی بحران حکمرانوں کو سابقہ حکمرانوں کی طرح خاندان رسالت پر دباؤ ڈالنے اور انہیں گوشہ نشینی پر مجبور کرنے کا امکان فراہم نہ تھا۔ ان مناسب حالات میں امام باقرؑ اور امام صادقؑ کو زیادہ سے زيادہ فقہی، تفسیری اور اخلاقی نظریات فقہ و حدیث کی کتب میں اپنے نفیس اور عمدہ ورثے کے طور پر چھوڑنے کا موقع ملا۔
ایسے ہی حالات میں محمد بن مسلم امام محمد باقرؑ سے 30 ہزار حدیثیں[44] نقل کرنے میں کامیاب ہوئے اور جابر جعفی جیسی شخصیت نے 70 ہزار حدیثیں نقل کیں۔[45]

شیعہ علماء کے نزدیک اسلام کے صدر اول کے فقیہ ترین فقہاء چھ افراد تھے اور وہ سب امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے اصحاب میں سے تھے؛ ان فقہاء کے نام کچھ یوں ہيں:

  1. زرارۃ ابن اعین
  2. معروف بن خربوذ
  3. ابوبصیر اَسَدی
  4. فضیل بن یسار
  5. محمد بن مسلم
  6. برید بن معاویہ عجلی۔[46]

شیخ طوسی نے اپنی کتاب اختیار معرفۃ الرجال میں تحریر کیا ہے کہ امام باقرؑ کے ان شاگردوں کی تعداد 462 تھی جنہوں نے آپ سے حدیث نقل کی ہے۔ آپ کے ان شاگردوں میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں۔

امام محمد باقرؑ کے بعض اصحاب اور شاگردوں کی وثاقت اور اعتبار پر امامیہ اور اہل سنت کا اتفاق ہے اور بعض دیگر کو اپنے گہرے شیعہ رجحانات کی بنا پر اہل سنت کے رجال میں جگہ نہيں دی گئی ہے بلکہ صرف امامیہ کے نزدیک قابل اعتماد اور ثقہ اور معتبر ہیں۔

علما کے اقوال

امام محمد باقرؑ نہ صرف شیعوں کی نظر میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں بلکہ اہل سنت کے نزدیک بھی بے مثل اور منفرد شخصیت کے مالک ہیں۔ ذیل میں بعض علما کے اقوال کے نمونے پیش کئے جارہے ہیں:

ابن حجر ہيتمي رقمطراز ہے: ابو جعفر محمد باقر،[47] نے اس قدر علوم کے پوشیدہ خزانے، احکام کے حقائق اور حکمتوں و لطائف کو آشکار کیا ہے کہ آپ کا یہ کردار سوائے بے بصیرت اور بد سگال عناصر کے، کسی پر بھی پوشیدہ نہيں رہا ہے اسی بنا پر آپ کو باقر العلم (علوم کو شقّ و شکافتہ والا)، علوم کو جمع کرنے والا اور علم و دانش کا پرچم بلند کرنے والا، کہا گیا ہے۔ آپ نے اپنی عمر طاعت رب میں گذاری اور عارفین کے مقامات و مراتب میں اس مقام پر فائز ہوئے جس کی توصیف سے بولنے والوں کی زبان قاصر ہے۔ آپ سے سلوک اور معارف میں بہت سے کلمات نقل ہوئے ہیں۔[48]

عبداللہ بن عطا عہد باقری کی نمایاں علمی شخصیت کا کہنا ہے: میں نے کہیں بھی علماء کو اس قدر چھوٹا نہيں پایا جتنا کہ میں نے انہيں ابو جعفر [امام باقرؑ] کی بارگاہ میں چھوٹا پایا۔[49]

الذہبی امام باقرؑ کے بارے میں رقمطراز ہے: ابو جعفرؑ ان شخصیات میں ہے جنہوں نے علم و عمل، سیادت آقائی اور شرف نیز وثاقت و متانت کو اپنی ذات میں یکجا کر دیا تھا اور خلافت کی اہلیت رکھتے تھے۔[50]

حوالہ جات

  1. مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص155.
  2. مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص158.
  3. قمی رازی، کفایة الاثر، 1401ق، ص144-145.
  4. ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب(ع)، 1379ق، ج4، ص210.
  5. مجلسی، جلاء العیون، 1382ش، ص849.
  6. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2، ص289۔
  7. مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص157.
  8. طبری، دلائل الامامۃ، ص216۔
  9. اربلی، کشف الغمه، 1421ق، ج2، ص857.
  10. طبری، دلائل الإمامہ، ص215؛ طبرسی، إعلام الورى، ج‏1، ص498۔
  11. مجلسی، بحار، ج46، ص212۔
  12. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، 1378ش، ج2، ص289.
  13. مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص158؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب(ع)، 1379ق، ج4، ص210۔
  14. نوبختی، فرق الشیعۃ، 1404ق، ص61۔
  15. ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب(ع)، 1379ق، ج4، ص210؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1383ش، ص286۔
  16. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، 1383ش، ص286.
  17. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، 1378ش، ج2، ص289۔
  18. اخبار الدولہ عباسیہ،‌ 1391ق، ص412۔
  19. مصباح کفعمی، 691۔
  20. طبری، دلائل الامامة، 1413ق، ص216؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی طالب(ع)، 1379ق، ج4، ص210.
  21. شبراوى، الإتحاف بحب الأشراف، 1423ق، ص287۔
  22. نوبختی، فرق الشیعۃ، 1404ق، ص 61؛ کلینی، الکافی، 1388ق، ج2، ص372؛ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص157 و 158؛ طبری، دلائل الامامۃ، 1413ق، ص216؛ سبط ابن جوزی، تذکرة الخواص، 1376ش، ص306؛ کفعمی، المصباح، 1414ق، ص691۔
  23. شیخ صدوق، من لا يحضرہ الفقيہ، 1413ق، ج‏1، ص182۔
  24. مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص176؛ طبرسی، اعلام الوری، 1377ش، ص375.
  25. طبرسی، اعلام الوری، 1417ق، ص481.
  26. طبرسی، اعلام الوری، 1417ق، ص498.
  27. قمی رازی، کفایة الاثر، 1401ق، ص144-145.
  28. قمی رازی، کفایۃ الاثر، 1401ھ، ص237۔
  29. امین، اعیان الشیعه، 1403ق، ج1، ص654.
  30. حسینی مازندارانی، العقد المنير، 1382ش، ج1، ص75.
  31. شیخ مفید، وہی ماخذ۔ 507۔
  32. ضحی الاسلام، ج1، ص386؛ دراسات و بحوث فی التاریخ و الاسلام، ج1، صص57_56 بحوالہ از جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ص295۔
  33. شیخ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج18، ص39۔
  34. شیخ طوسی، التهذیب، ج1، ص241؛ به نقل از جعفریان، وہی ماخذ، ص299۔
  35. کلینی، وہی، ج6، ص266 و مجلسی، بحار الانوار، ج46، ص357۔
  36. ابن ندیم، الفهرست، ص59 و شریف القرشی، باقر، حیاة الامام المحمد الباقر، ج1، ص174۔
  37. گروه مولفان، پیشوایان هدایت، ص320۔
  38. شریف القرشی، باقر، ایضا، ص140و141۔
  39. ۔کلینی، وہی ماخذ، ج1، ص82۔
  40. کلینی، وہی ماخذ ج1، صص88-89۔
  41. مؤلفین کی ایک جماعت، پیشوایان ہدایت ج7، ص341 تا 347۔
  42. مؤلفین کی ایک جماعت، پیشوایان هدایت ج7 ص330تا 334۔
  43. مجلسی، بحار الانوار، ج46، ص354۔
  44. مجلسی، بحار ج11، ص83
  45. علی محمد علی دخیل، ائمتنا ج1، ص347
  46. مناقب، ابن شہر آشوب، ج4، ص211
  47. باقرکے لغوی معنی شقّ کرنے، کھولنے، وسیع کرنے، چیرنے اور پھاڑنے [تشریح کرنے] والے کے ہیں، لوئیس معلوف، المنجد في اللغۃ، الطبعۃ ثالث وثلاثون، مطبوعہ دارالمشرق بیروت۔ لبنان 1986۔
  48. ابن حجر، الصواعق المحرقہ، ص201۔
  49. سبط ابن الجوزی، تذکرة الخواص، ص337؛ علی بن عیسی الاربلی، کشف الغمة، ج2، ص329۔
  50. ذهبی، سیر اعلام النبلاء، ج4، ص402۔

مآخذ

  • ابن اثیر، عزالدین، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، 1402ہ‍۔ق/1982عیسوی۔
  • ابن ندیم، محمد، کتاب الفہرست، ترجمہ محمدرضا تجدد، تہران، چاپخانہ سپہر، چاپ سوم، 1366 ہ‍جری شمسی۔
  • سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، طہران، مکتبۃ نینوی الحدیثہ، ناصر خسرو۔
  • سیوطی، جلال الدین، تاریخ الخلفاء، تحقیق: محمد محیی الدین عبدالحمید۔
  • طبرسی، امین الاسلام، اعلام الوری باعلام الہدی، ترجمہ عزیزاللہ عطاردی، تہران، کتابفروشی اسلامیہ، دوم، 1377 ہ‍جری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامۃ، قم، موسسۃ البعثۃ، الاولی، 1413ہ‍جری۔
  • مجلسی، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1403 ہ‍جری۔
  • قمی رازی، ابی القاسم علی بن محمد، کفایۃ الاثر فی النص علی الائمۃ اثنی عشر، قم، مطبعۃ الخیام، 1401 ہ‍جری۔
  • نوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعہ، بیروت، دار الاضواء، 1404 ہ‍جری۔
  • شہرآشوب، ابی جعفر محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، انتشارات ذوی القربی، الاولی، 1421 ہ‍۔ق/1379 ہ‍جری شمسی۔
  • ابن حجر ہیتمی، احمد، الصواعق المحرقہ، مکتبۃ القاہرہ، بی‌تا۔
  • طبرسی، ابی منصور احمد بن علی، الاحتجاج، مشہد، نشر المصطفی، 1403 ہ‍جری۔
  • گروہ مولفان، پیشوایان ہدایت شکافندہ علوم حضرت امام باقرؑ، مترجم: کاظم حاتمی طبری، قم، مجمع جہانی اہل بیت، اول، 1385 ہ‍جری شمسی۔
  • الکفعمی، تقی الدین ابراہیم بن علی، المصباح، بیروت، موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، الاولی، 1414 ہ‍۔ق/1994م
  • شریف القرشی، باقر، حیاۃ الامام محمد الباقر، قم، دار الکتب العلمیۃ، اسماعیلیان نجفی، 1397 ہ‍جری۔
  • الکلینی، ابی جعفر محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علی اکبرغفاری، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، الثالثۃ، 1388ہ‍جری۔
  • دخیل، علی محمد علی، ائمتنا سیرۃ الائمۃ الاثنی عشر، قم، موسسۃ دار الکتب الاسلامی، الثالثۃ، 1429ق/2008عیسوی۔
  • طوسی، ابی جعفر محمد بن الحسن، اختیار معرفۃ الرجال، تصحیح حسن المصطفوی، دانشگاہ مشہد، 1348 ہ‍جری شمسی۔
  • عاملی، حر، وسائل الشیعیہ الی تحصیل مسائل الشریعۃ، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد، ترجمہ محمد باقر ساعدی، تہران، انتشارات اسلامیہ، 1380 ہ‍جری شمسی۔
  • یعقوبی، ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ترجمہ محمدابراہیم آیتی، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، 1378 ہ‍جری شمسی ۔
معصوم ششم:
امام زین العابدین علیہ السلام
14 معصومین
امام محمد باقر علیہ السلام
معصوم ہشتم:
امام جعفر صادق علیہ السلام
چودہ معصومین علیہم السلام
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
بارہ امام
امام علی علیہ السلام امام سجّاد علیہ‌السلام امام موسی کاظم علیہ السلام امام علی نقی علیہ السلام
امام حسن مجتبی علیہ السلام امام محمد باقر علیہ السلام امام علی رضا علیہ السلام امام حسن عسکری علیہ السلام
امام حسین علیہ السلام امام جعفر صادق علیہ السلام امام محمد تقی علیہ السلام امام مہدی علیہ السلام