حرم شاہ چراغ

حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
غیر جامع
ویکی شیعہ سے
حرم شاہ چراغ
حرم شاہ چراغ شیراز، ایران
حرم شاہ چراغ شیراز، ایران
ابتدائی معلومات
استعمالزیارت گاہ
محل وقوعشیراز، ایران
مربوط واقعاتحرم شاہ چراغ پر داعش کا حملہ
قدمتساتویں صدی ہجری
مشخصات
موجودہ حالتآباد
معماری


حرم شاہ‌ چراغ، امام موسی کاظمؑ کے فرزند اور امام رضاؑ کے بھائی احمد کا روضہ ہے جو شاہ‌ چراغ کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کی سوانح حیات کے بارے میں دقیق معلومات میسر نہیں لیکن بعض تاریخی منابع میں ان کی تاریخ وفات 203ھ بتائی گئی ہے۔ کتاب انوار النعمانیہ کے ضمیہ جات میں لباب الانساب علی بن زید بیہقی سے نقل کی گئی ہے ایران کے شہر شیراز میں امام زادہ شاہ چراغ کی قبر کا کھوج پانچویں صدی ہجری کے اوایل میں لگایا گیا تھا لیکن دوسرے مورخین کے مطابق آپ کا مدفن ساتویں یا آٹھویں صدی ہجری میں کشف ہوا تھا۔

شاہ‌ چراغ کا لقب آپ کے مدفن کے کشف ہونے کی داستان سے مربوط ہے جس کے مطابق آپ کے محل دفن پر چراغ دکھائی دیتا تھا۔

احمد بن موسی کی سوانح حیات

تفصیلی مضمون: احمد بن موسی بن جعفر

احمد بن موسی بن جعفر، امام کاظمؑ کے فرزند تھے جو شاہ چراغ اور سید السادات الاعاظم کے لقب سے مشہور تھے۔ آپ کی تاریخ ولادت اور تاریخ وفات یہاں تک کہ آپ کی والدہ ماجدہ کے حسب و نسب کے بارے میں کوئی دقیق معلومات میسر نہیں۔ البتہ بعض تاریخی منابع میں آپ کی وفات کو سنہ 203ھ بتائی گئی ہیں۔[1] بعض تاریخی منابع کے مطابق احمد بن موسی امام رضا کی ولایت عہدی کے دوران امام رضاؑ کی شہادت سے کچھ عرصہ پہلے آپؑ سے ملاقات کے لئے اپنے بعض ساتھیوں کے ساتھ ایران کی طرف سفر کرتے ہیں۔[2] ان منابع کے مطابق ایران کے شہر شیراز کے نزدیک مامون کے کارندوں سے آپ کا تصادم ہوا اور جب آپ کے ساتھیوں تک امام رضاؑ کی شہادت کی خبر پہنچی تو وہ آپ سے جدا ہوئے۔

تاریخی منابع میں آپ کی طبیعی موت[3] اور مامون کے کارندوں کے ہاتھوں شہادت[4] کے بارے اختلاف پایا جاتا ہے۔ کتاب لباب الانساب میں علی بن زید بیہقی کے مطابق آپ بغداد میں مقیم تھے اور آپ کے بھائی امام رضاؑ کی ناگہانی شہادت کی خبر ملنے کے بعد امام کے خون کا بدلہ لینے کے لئے مامون کے خلاف قیام کیا اور قم اور شہر ری میں مامون کے سپاہیوں کے ساتھ مقابلہ کیا اور جس کے بعد آپ نے خراسان کا رخ کیا اور اسفراین نامی مقام پر مامون کے کارندوں کے ساتھ جھڑپ میں شہید اور وہیں پر مدفون ہوئے۔[5]

آپ کے مقبرہ کب اور کیسے کشف ہوا؟ اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے اور اس سلسلے میں مختلف واقعات اور داستانیں نقل کی جاتی ہیں۔

حرم شاہ چراغ کی توسیع

شیراز میں احمد بن موسی کا مزار ساتویں صدی ہجری سے زیارتی مقامات میں شمار ہوتا ہے۔[6]

  • ساتویں صدی ہجری کے اوائل میں، احمد بن موسی کے مدفن کے کشف ہونے کے بعد سرزمین فارس کے حاکم اتابک ابوبکر بن سعد بن زنگی کے حکم سے مزار پر ایک مقبرہ تعمیر کیا گیا اور گذر زمان کے ساتھ اس کی رونق میں اضافہ ہوتا گیا۔[7]
  • سنہ 744ھ، ایران میں سلسلہ ایلخان کی حکومت کے دوران فارس کے حاکم ابو اسحاق اینجو کی والده تاشی خاتون نے اس مزار پر ایک بلند مقبرہ تعمیر کرایا۔[8] اس زمانے میں حرم شاہ چراغ میں قرائت قرآن کی محفل کے علاوہ مسافرین کی پذیرائی نیز ایک مدرسہ بھی قائم تھا۔[9]
  • سنہ 1243ھ، احمد بن موسی کے مزار پر چاندی کا ایک ضریح بنایا گیا۔[10]
  • سنہ 1258 سے 1259ھ، شیراز کے حاکم فرہاد میرزا کے حکم پر حرم کی آیینہ‌ کاری کی گئی۔[11]
  • سنہ 1289 سے 1305ھ، ظل السلطان مسعود میرزا اور حاجی نصیرالملک کے توسط سے رواقوں میں چاندی کے دروازے لگائے گئے۔
  • سنہ 1306ھ، ظل السلطان مسعود میرزا اور حاجی نصیرالملک کے حکم سے دوسرا چاندی کا ضریح بنایا گیا۔
  • موجودہ عمارت میں ساتویں صدی ہجری کی عمارت کی کوئی نشانی نہیں پائی جاتی اور تیرہویں صدی ہجری کی معماری سے زیادہ مشابہ ہے۔[12]
حرم شاہ چراغ کا ایک منظر

حرم شاہچراغ کی تعمیر

حرم شاہ چراغ کو کئی دفعہ اور اکثر اوقات زلزلے کی وجہ سے نقصان پہنچنے کی وجہ سے کئی بار اس کی تعمیر ہوئی ہے۔[13] سنہ 912ھ میں عمارت کی تعمیر نو اور اس کی تزئینات میں رد و بدل کی گئی جبکہ سنہ 997ھ کو زلزلہ کی وجہ سے حرم کے بعض حصوں کے خراب ہونے پر ان کی تعمیر کی گئی ہے۔

  • سنہ 1142 اور 1146ھ، نادر شاہ افشار کی طرف سے عطیہ شدہ رقوم کے ذریعے[14] حرم شاہ چراغ میں دوبارہ تعمیراتی کام انجام پائے ہیں۔[15]
  • سنہ 1239ھ میں زلزلے کے بعد، فارس کے حاکم فرمانفرما نے حرم کو از سر نو تعمیر کیا اور اس پر ایک گنبد بھی تعمیر کیا۔[16]
  • 1269ھ، حرم شاہ چراغ کا گنبد جو زلزلے کی وجہ سے خراب ہوا تھا کو ظہیرالدولہ کے حکم پر تعمیر کیا گیا۔[17]
  • سنہ 1273ھ، مویدالدولہ کے حکم سے صحن اور کمروں کی تعمیر کی گئی۔[18]
  • سنہ 1339 اور 1340ھ، زلزلے کی وجہ سے حرم شاہ چراغ ویران ہوا جس کے نتیجے میں اسے دوبارہ تعمیر کیا گیا۔[19]

دہشت گردانہ حملہ

26 اکتوبر 2022ء کو حرم شاہ چراغ پر ایک مسلح شخص نے کلاشنکوف سے حملہ کیا[20] جس کے نتیجے میں 13 افراد شہید اور 30 افراد زخمی ہوئے۔[21] اس حملے کی ذمہ داری تکفیری جماعت داعش نے قبول کی۔[22]

حوالہ جات

  1. دائرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج۷، ص۹۔
  2. دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج۷، ص۱۰۔
  3. مستوفی، تاریخ گزیدہ، ص۲۰۴۔
  4. بحرالعلوم، تحفۃ العالم، ص۳۰۸۔
  5. دائرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج۷، ص۱۰۔
  6. مستوفی، نزہۃ القلوب، ص۱۱۵-۱۱۶؛ ابن بطوطہ، رحلۃ، ج۱، ص۲۲۲۔
  7. دائرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج۷، ص۱۱۔
  8. زرکوب شیرازی، شیرازنامہ، ص۱۹۷-۱۹۸۔
  9. ابن بطوطہ، رحلۃ، ج۱، ص۲۲۳۔
  10. استرآبادی، جہانگشای نادری، ص۱۱۴؛ حسن فسایی، فارسنامہ ناصری، ج۱، ص۵۱۲-۵۱۴۔
  11. دائرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج۷، ص۱۱۔
  12. دائرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج۷، ص۱۲۔
  13. دائرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج۷، ص۱۱۔
  14. فروزانی، نادرشاہ افشار در بارگاہ احمدی (شاہ‌چراغ)، ص۲۴۴-۲۵۱۔
  15. دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج۷، ص۱۱۔
  16. دائرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج۷، ص۱۱۔
  17. فسایی، فارسنامہ ناصری، ج۲، ص۱۱۸۷۔
  18. فسایی، فارسنامہ ناصری، ج۲، ص۱۱۸۷۔
  19. سپہر، یادداشت‌ہای ملک المورخین، ص۱۳۸۔
  20. ملاحظہ کریں «خبرگزاری فرانسہ: داعش حملہ تروریستی در شاہچراغ را بہ عہدہ گرفت»، خبرگزاری فارس؛ «تیراندازی تروریستی در حرم شاہ‌چراغ»، خبرگزاری دانشجویان ایران (ایسنا)۔
  21. «جدیدترین آمار رسمی شہدای حادثہ تروریستی شاہچراغ تا ظہر امروز»، سایت ہمشہری آنلاین (سایت خبری روزنامہ ہمشہری)۔
  22. «Islamic State claims responsibility for shrine attack in Iran»، reuters۔

مآخذ

  • ابن بطوطہ، رحلۃ، بہ کوشش محمد عبدالمنعم عریان، بیروت، ۱۴۰۷ق۔
  • استرآبادی، محمدمہدی جہانگشای نادری، بہ کوشش عبداللہ انوار، تہران، ۱۳۴۱ش۔
  • بحرالعلوم، جعفر، تحفۃ العالم، ہمراہ جلد ۴۸ بحارالانوار، بیروت، ۱۴۰۳ق۔
  • «تیراندازی تروریستی در حرم شاہ‌چراغ»، خبرگزاری دانشجویان ایران (ایسنا)، تاریخ درج مطلب: ۵ آبان ۱۴۰۱ش، تاریخ بازدید: ۵ آبان ۱۴۰۱ش۔
  • تشید، علی اکبر، قیام سادات علوی، تہران، ۱۳۳۱ش۔
  • «جدیدترین آمار رسمی شہدای حادثہ تروریستی شاہچراغ تا ظہر امروز»، سایت ہمشہری آنلاین (سایت خبری روزنامہ ہمشہری)، تاریخ درج مطلب: ۵ آبان ۱۴۰۱ش، تاریخ بازدید: ۵ آبان ۱۴۰۱ش۔
  • «خبرگزاری فرانسہ: داعش حملہ تروریستی در شاہچراغ را بہ عہدہ گرفت»، خبرگزاری فارس، تاریخ درج مطلب: ۴ آبان ۱۴۰۱ش، تاریخ بازدید: ۵ آبان ۱۴۰۱ش۔
  • دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج ۷، صص ۹-۱۲۔
  • زاہدی، سید یاسین، احمد بن موسی(ع)، فصلنامہ سخن تاریخ، تابستان ۱۳۸۸ش، شمارہ ۵، صص ۹۰-۱۱۱۔
  • زندگی‌نامہ حضرت شاہ‌چراغ در پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ‌نت: تاریخ دسترسی ۱۳۹۴ش۔
  • سپہر، عبدالحسین، یادداشت‌ہای ملک المورخین، بہ کوشش عبدالحسین نوایی، تہران، ۱۳۶۸ش۔
  • فروزانی، سید ابوالقاسم، نادرشاہ افشار در بارگاہ احمدی (شاہ‌چراغ)، فصلنامہ شیعہ‌شناسی، تابستان ۱۳۹۱، شمارہ ۳۸، صص ۲۲۹-۲۵۴۔
  • فسایی، حسن، فارسنامہ ناصری، بہ کوشش منصور رستگار فسایی، تہران، ۱۳۶۷ش۔
  • کریمی، بہمن، راہنمای آثار تاریخی شیراز، ۱۳۲۷ (چاپ دوّم ۱۳۴۴ش)
  • مستوفی، حمداللہ، تاریخ گزیدہ، بہ کوشش عبدالحسین نوایی، تہران، ۱۳۶۲ش۔
  • مستوفی، حمداللہ، نزہۃ القلوب، بہ کوشش گ۔ لسترنج، تہران، ۱۳۶۲ش۔
  • منابع مندرج در پایگاہ اطلاع رسانی انجمن علمی بخش تاریخ دانشگاہ شیراز، تاریخ دسترسی شہریور ۱۳۹۴ش۔
  • ہمایونی، صادق، گوشہ‌ہایی از آداب و رسوم مردم شیراز، ۱۳۵۳ش۔
  • «Islamic State claims responsibility for shrine attack in Iran»، reuters، تاریخ درج مطلب: ۵ آبان ۱۴۰۱ش، تاریخ بازدید:‌ ۵ آبان ۱۴۰۱ش۔