اللہ کی حضرت موسی سے ہم کلامی

ویکی شیعہ سے

اللہ تعالی کی حضرت موسی سے ہم کلامی کے واقعے میں اللہ تعالی نے کسی فرشتے کے واسطے کے بغیر حضرت موسی سے بات کی تھی۔ خدا سے بلاواسطہ ہم کلام ہونے کو حضرت موسی کے مختصات اور فضیلتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی بعض آیات جیسے سورہ نساء کی آیت نمبر 164 میں حضرت موسی سے اللہ تعالی کے ہم کلام ہونے کی تصریح ہوئی ہے۔ کلیم اللہ کا لقب حضرت موسی سے ہی خاص ہے اور اسی وجہ سے یہودیوں کو کلیمی بھی کہا جاتا ہے۔

شیخ طوسی جیسے بعض شیعہ علما کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی کا حضرت موسی سے بات کرنا ایک حقیقی امر ہے۔ احادیث کے مطابق کسی سے ہم کلام ہونے کے لئے اللہ تعالی کسی وسیلہ کلام کا محتاج نہیں ہے۔ حضرت موسی کے ساتھ خدا کی ہمکلامی کی نوعیت کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں: بعض شیعہ مفسرین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی نے فضا یا بعض اجسام میں صوتی موجوں کو خلق کیا تھا۔ بعض دیگر مفسرین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی نے بات کرنے کی کیفیت کو بیان نہیں کیا ہے اس بنا پر ہم بھی قرآن کی ان آیتوں سے اس بات کو نہیں سمجھ سکتے ہیں۔

بعض مسلمان علما کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت موسی کے علاوہ حضرت محمدؐ سے بھی بلاواسطہ بات کی ہے۔

حضرت موسی کا کلیم اللہ ہونا

سورہ نساء آیت نمبر 164 کے مطابق اللہ تعالی حضرت موسی سے ہم کلام ہوئے ہیں: "کَلَّمَ اللہ مُوسی تَکْلیماً؛ اللہ تعالی نے موسی سے کلام کیا۔"[1] سورہ اعراف کی 144ویں آیت میں بھی اللہ کا حضرت موسی سے ہم کلام ہونے کا ذکر آیا ہے اور اس کو تمام لوگوں پر ان کی برتری کی دلیل قرار دی گئی ہے۔[2] اس طرح کی گفتگو کو بعض مسلمان علما[3] اور یہودیوں[4] نے حضرت موسیؑ سے مختص سمجھا ہے اور اسے ان کی فضیلت شمار کیا ہے۔[5]

کلیم‌ اللہ کی صفت کو حضرت موسی سے مختص سمجھا گیا ہے[6] اور کہا گیا ہے کہ اسی صفت کی وجہ سے یہودیوں کو "کلیمی" بھی کہا جاتا ہے۔[7] بعض مسلم دانشوروں کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی نے معراج پر رسول اکرمؐ سے بھی بات کی ہے اور احادیث اس بات کی گواہی دیتی ہیں۔[8] ان کا نظریہ ہے کہ اللہ تعالی نے صرف حضرت محمدؐ اور حضرت موسی سے بلا واسطہ کلام کیا ہے۔[9]

اللہ تعالی کا کلام کرنا کسی ذریعہ کلام کے بغیر ہے؛ کیونکہ زبان وغیرہ سے بات کرنا جسم ہونے کی علامت ہے جبکہ اللہ تعالی جسم و جسمانیت سے مبرا ہے۔[10] امام علیؑ نے ایک حدیث کے ذیل میں اللہ تعالی کا حضرت موسی سے کلام کو مادی اعضا و جوارح کے احتیاج کے بغیر قرار دیا ہے۔[11] امام رضاؑ نے بھی اللہ تعالی کے کلام کو زبان اور منہ کے بغیر قرار دیا ہے جو دیگر مخلوقات کے کلام سے منفرد ہے۔[12]

مزید معلومات کے لئے دیکھئے: کلیم‌ اللہ (لقب)


بلاواسطہ کلام کرنا

مسلمان علما کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی نے جناب موسیؑ سے بلا واسطہ[13] اور کسی فرشتے کو بیج میں واسطہ بنائے بغیر کلام کیا ہے۔[14] تفسیر مَجمع‌ البیان کے مؤلف طبرسی کے مطابق اللہ کا حضرت موسی اور دیگر انبیاؑ سے بات کرنے میں فرق یہ تھا کہ موسی سے کسی واسطے کے بغیر بات کی ہے۔[15] اس طرح کی گفتگو میں بات مخاطب تک پہنچ جاتی ہے لیکن بولنے والا نظر نہیں آتا ہے؛ کیونکہ کوئی حجاب یا کوئی اور چیز موجود ہے جو متکلم کو دیکھنے میں حائل بنتی ہے۔[16]

شیخ طوسی نے اللہ کا موسی سے کلام کرنے کو حقیقی قرار دیا ہے۔[17] بعض مفسرین نے "وَ کَلَّمَ اللہ مُوسی تَکْلیماً"[18] میں "تَکْلیماً" کی تاکید کو اللہ کا موسی سے حقیقی گفتگو ہونے پر شاہد قرار دیا ہے اور اسے مجازی معنی میں نہیں لے سکتے ہیں۔[19] تفسیر المیزان کے مؤلف علامہ طباطبایی کی نظر میں بھی موسی سے اللہ کا ہم کلام ہونا حقیقی امر تھا جو عام گفتگو کی طرح دوسروں کو کچھ سمجھانے کا اثر رکھتی ہے؛ لیکن عام کلام کی طرح زبان اور حلق سے نہیں نکلی ہے۔[20]

اللہ تعالی کی موسی سے گفتگو کی کیفیت

شیعہ مفسر اور عالم دین مکارم شیرازی کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی نے موسیؑ سے فضا یا کسی جسم میں صوتی امواج کی تخلیق کے ذریعے کلام کیا ہے۔[21] شیخ طوسی بھی لکھتے ہیں کہ اللہ کسی جسم میں کلام ایجاد کرتا ہے تاکہ اس سے مخلوقات تک بات پہنچ سکے۔[22] بعض دیگر مفسرین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی نے آواز اور کلام کو خلق کیا اور موسیؑ نے اسے سن لیا۔[23]

ان کے برخلاف، علامہ طباطبائی کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے یہ بیان نہیں کیا ہے کہ موسی کے ساتھ کس طرح سے بات کی گئی ہے اور قرآن کے الفاظ سے ہم یہ نہیں سمجھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالی نے کیسے کلام کیا ہے۔[24] شیعہ مفسر محمدجواد مغنیہ کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے کلام کی کیفیت کو بیان نہیں کیا ہے اور ہم بھی اس حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں۔[25]

حوالہ جات

  1. سورہ نساء، آیہ 164۔
  2. طیب، أطیب البیان، 1378شمسی، ج5، ص453۔
  3. شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج3، ص394؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج11، ص267۔
  4. «لقب حضرت موسی بہ فارسی چہ می‌باشد و نبوت ایشان چگونہ بود؟»، انجمن کلیمیان تہران۔
  5. قرشی، تفسیر احسن الحدیث، 1377شمسی، ج1، ص470؛ رشید رضا، المنار، 1990ء، ج3، ص4۔
  6. فضل اللہ، تفسیر من وحی القرآن، 1419ھ، ج20، ص202
  7. «لقب حضرت موسی بہ فارسی چہ می‌باشد و نبوت ایشان چگونہ بود؟»، انجمن کلیمیان تہران۔
  8. بانو امین، مخزن العرفان در تفسیر قرآن، 1361شمسی، ج2، ص379۔
  9. بروجردی، تفسیر جامع، 1366شمسی، ج2، ص462۔
  10. مکارم شیرازی، یکصد و ہشتاد پرسش و پاسخ، 1386شمسی، ص75۔
  11. شیخ صدوق، التوحید، 1398ھ، ص79۔
  12. مجلسی، بحار الأنوار، 1403ھ، ج4، ص152۔
  13. مغنیہ، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج2، ص495۔
  14. طیب، اطیب البیان، 1378شمسی، ج5، ص452۔
  15. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج3، ص218۔
  16. فضل‌ اللہ، تفسیر من وحی القرآن، 1419ھ، ج20، ص202۔
  17. شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج3، ص240۔
  18. سورہ نساء، آیہ164۔
  19. قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1364شمسی، ج6، ص18۔
  20. طباطبائی، المیزان، 1417ھ، ج2، ص315 و 316۔
  21. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج6، ص363۔
  22. شیخ طوسی، الرسائل العشر، 1414ھ، ص95۔
  23. حسینی شیرازی، تبیین القرآن، 1423ھ، ص115۔
  24. طباطبائی، المیزان، 1417ھ، ج2، ص316۔
  25. مغنیہ، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج2، ص495۔

مآخذ

  • ابن قیم جوزی، حادی الأرواح إلی بلاد الأفراح، بیروت، عالم الکتب، بی‌تا۔
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمرو، تفسیر القرآن العظیم، تحقیق: محمد حسین شمس‌الدین، دارالکتب العلمیة، بیروت، منشورات محمدعلی بیضون، چاپ اول، 1419ھ۔
  • بانو امین، مخزن العرفان در تفسیر قرآن، تہران، نہضت زنان مسلمان، 1361ہجری شمسی۔
  • بروجردی، سید محمدابراہیم، تفسیر جامع، تہران، انتشارات صدر، چاپ ششم، 1366ہجری شمسی۔
  • حسینی شاہ عبدالعظیمی، حسین بن احمد، تفسیر اثنا عشری، تہران، انتشارات میقات، چاپ اول، 1363ہجری شمسی۔
  • حسینی شیرازی، سیدمحمد، تبیین القرآن، بیروت، دارالعلوم، چاپ دوم، 1423ھ۔
  • رشید رضا، تفسیر المنار، مصر، الہیئة المصریة العامة للکتاب، 1990ء۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، التوحید، محقق و مصحح: ہاشم حسینی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول، 1398ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الرسائل العشر، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1414ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ: شیخ آقابزرگ تہرانی، تحقیق: احمد قصیر عاملی، بیروت، داراحیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • طباطبائی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، 1417ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • طیب، سید عبدالحسین، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، تہران، انتشارات اسلام، چاپ دوم، 1378ہجری شمسی۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)، بیروت، داراحیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ۔
  • فضل اللہ، سید محمدحسین، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، دارالملاک للطباعۃ و النشر، چاپ دوم، 1419ھ۔
  • قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لأحکام القرآن، تہران، انتشارات ناصر خسرو، چاپ اول، 1364ہجری شمسی۔
  • «لقب جضرت موسی بہ فارسی چہ می‌باشد و نبوت ایشان چگونہ بود؟»، انجمن کلیمیان تہران تاریخ بازدید: 17 آبان 1400ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، دارإحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • مغنیہ، محمدجواد، تفسیر الکاشف، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1424ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1374ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، یکصد و ہشتاد پرسش و پاسخ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، 1386ہجری شمسی۔