بنی اسرائیل کی گائے

ویکی شیعہ سے

بنی اسرائیل کی گائے وہ جانور ہے جسے اللہ کے حکم سے بنی اسرائیل کے ایک ایسے شخص کو زندہ کرنے کے لئے اسے ذبح کیا گیا جس کے قاتل کے بارے میں اختلاف تھا۔ اللہ تعالی کے حکم سے اس کے ایک حصے کو مقتول کے جنازے پر مارا جس سے وہ زندہ ہوا اور اس نے اپنا قاتل دکھا دیا۔ قرآن نے اس واقعے کو معاد (مردوں کے زندہ ہونے) کی نشانی قرار دیا ہے۔ سورہ بقرہ کا نام اسی داستان کی وجہ سے بقرہ(گائے) رکھا گیا ہے۔ قرآنی آیات کے مطابق بنی اسرائیل بار بار اس گائے کی خصوصیات پوچھتے رہے اسی لئے اس واقعہ کو بنی اسرائیل کی بہانہ بازی سمجھا گیا ہے۔

کلیات

بنی اسرائیل کی گائے کے اس واقعہ میں بیان کیا گیا ہے کہ بنی اسرئیل کے ایک شخص کہ جس کے قاتل میں اختلاف تھا، کو زندہ کرنے کے لئے ایک گائے ذبح کی گئی تاکہ اس کا ایک حصہ مردہ بدن کے ساتھ مس کیا جائے تاکہ وہ زندہ ہو کر قاتل کی نشاندہی کرے۔ یہ واقعہ سورہ بقرہ میں ۶۷ سے ۷۳ آیات تک بیا ن ہوا ہے۔[1] سورہ بقرہ کا نام اس واقعہ کی وجہ سے بقرہ (گائے) رکھا گیا ہے۔[2]

واقعہ کی تفصیل

بنی اسرائیل میں ایک دولتمند شخص تھا جس کو اس کے خاندان کے کچھ افرادنے میراث پانے کی لالچ میں قتل کر دیا۔[3] اور اس کی لاش کو اسباط بنی اسرائیل کے ایک کے محلے میں پھینک دیا اور خود ہی اس کے خون کا بدلہ لینے کے لئے کھڑے ہو گئے۔[4] وہ کہتے تھے کہ وہ اس کے خون کی دیت لینے کے لئے تیار ہے تاکہ اس قتل کی ذمہ داری بنی اسرائیل کے اس سبط (قبیلے) کی گردن پر نہ آن پڑے۔[5] آخر کار ان میں اختلاف پیدا ہوا[6] اور اس مسئلے کے حل کے لئے حضرت موسیؑ کے پاس گئے۔ انہوں نے حکم دیا کہ ایک گائے کو ذبح کریں اور اس کا ایک حصہ مقتول کے جسم کے ساتھ مس کریں تاکہ وہ زندہ ہو کر اپنے قاتل کی نشاندہی کرے۔[7] بنی اسرائیل نے سوچا کہ حضرت موسیؑ شاید ان کا مذاق اڑا رہے ہیں۔[8] بنی اسرائیل نے یہ گائے مہنگے داموں خریدی۔[9]اور اس کو ذبح کرنے کے بعد اس کا ایک حصہ مقتول کے جسم کے ساتھ مس کیا۔[10] تو وہ زندہ ہو گیا اور اس شخص کو اپنا قاتل قرار دیا جو خود اس کے خون کا بدلہ لینے کا دعوے دار تھا۔[9] اس واقعے کو مردے کو خدا کے حکم سے زندہ ہونے کی وجہ سے معجزہ سمجھا جاتا ہے۔[11] اور قرآن اسے مردوں کے زندہ ہونے کی نشانی سمجھتا ہے۔[12]

توریت کی روایت

توریت میں آیا ہے کہ اگر کوئی شخص قتل ہو جائے اور اس کے قاتل کا پتہ نہ چلے تو بزرگان شہر ایک ایسے مادہ گوسالے کو ہل چلانے کے لئے استعمال نہ کیا گیا ہو، دریا کے کنارے ذبح کریں اور پھر بزرگان شہر آکر اس پر پانی چھڑکیں اور یہ کہیں کہ انہوں نے نہ اس کو قتل کیا ہے نہ اس کا قتل ہوتے دیکھا ہے۔ اس عمل سے قتل کا گناہ ان کے سر سے معاف ہو جاتا ہے۔[13] بعض مفسرین توریت کی اس روایت کو اسی قرآنی داستان کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں۔[14]

بنی اسرائیل کی گائے کی نشانیاں

اس واقعہ میں بنی اسرائیل نے کئی بار اس گائے کی خصوصیات دریافت کیں اور ان کی درخواست اور خدا کا جواب چند بار تکرار ہوا ہے۔[15] اسی وجہ سے اس داستان کو بنی اسرائیل کی بہانہ بازی کی ایک مثال سمجھا جاتا ہے کہ جس کا قرآن میں اشارہ ملتا ہے۔[16] اس گائے کی صفا ت بنی اسرائیل کے کئی مرحلوں میں بار بار سوالات کرنے پر اس طرح بیان ہوئیں: نہ اتنی بوڑھی ہو کہ کام کے لائق نہ ہو، نہ ہی بہت جوان ہو،[17] پیلے رنگ کی کہ جس کا رنگ دیکھنے والوں کو بھلا معلوم ہو،[18] نہ ہی اس سے ہل جوتا گیا ہو نہ ہی اس کے ذریعہ زراعت کے لئے پانی دیا گیا ہو ، اس میں کوئی نقص نہ ہو اور کوئی دوسرا رنگ اس میں نہ ہو۔[19]

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، تفسير نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۵۹ و ص۳۰۱۔
  2. طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۱۹۹۔
  3. مغنیہ، تفسیر الکاشف، ۱۴۲۴ھ، ج۱، ص۱۲۶۔
  4. طبرسی، تفسیر جوامع الجامع، ۱۳۷۷ش، ج۱، ص۵۲۔
  5. مغنیہ، تفسیر الکاشف، ۱۴۲۴ھ، ج۱، ص۱۲۶۔
  6. سوره بقره، آیہ ۷۲۔
  7. حسینی شیرازی، تبیین القرآن، ۱۴۲۳ق، ص۲۰؛ فیض کاشانی، تفسیر الصافی، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۱۳۹۔
  8. سوره بقره، آیہ ۶۷۔
  9. 9.0 9.1 فخر رازی، مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰ق، ج۳، ص۵۴۴۔
  10. سوره بقره، آیہ ۷۳۔
  11. فضل الله، تفسیر من وحی القرآن، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۸۴۔
  12. سوره بقره، آیہ ۷۳۔
  13. تورات، تثنیہ، فصل۲۱، آیات ۱-۹۔
  14. طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۱، ص۲۰۰۔
  15. سوره بقره، آیات ۶۸-۷۱۔
  16. مکارم شیرازی، تفسير نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۳۰۱۔
  17. سوره بقره، آیت۶۸۔
  18. سوره بقره، آیہ ۶۹۔
  19. سوره بقره، آیہ ۷۱

مآخذ

  • توریت۔
  • حسینی شیرازی، سید محمد، تبیین القرآن، بیروت، دارالعلوم، چاپ دوم، ۱۴۲۳ھ۔
  • طباطبائی، سید محمد حسین‏، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی‏، چاپ پنجم‏، ۱۴۱۷ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر جوامع الجامع، تہران، انتشارات دانشگاه تہران، مدیریت حوزه علمیہ، چاپ اول، ۱۳۷۷ش۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، بیروت، داراحیاء التراث العربی، چاپ سوم، ۱۴۲۰ھ۔
  • فضل الله، سید محمد حسین، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، دارالملاک للطباعۃ و النشر، چاپ دوم، ۱۴۱۹ھ۔
  • فیض کاشانی، ملا محسن، تفسیر الصافی، تحقیق حسین اعلمی، تہران، انتشارات الصدر، چاپ دوم، ۱۴۱۵ھ۔
  • مغنیہ، محمد جواد، تفسیر الکاشف، تہران، دارالکتب الإسلامیہ، چاپ اول، ۱۴۲۴ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیہ، چاپ اول، ۱۳۷۴ش۔