امام رضا علیہ السلام
شیعوں کے آٹھویں امام | |
---|---|
نام | علی بن موسی |
کنیت | ابو الحسن (ثانی) |
القاب | رضا، عالم آل محمد |
تاریخ ولادت | 11 ذو القعدة الحرام، سنہ 148 ہجری۔ |
جائے ولادت | مدینہ |
مدت امامت | 20 سال (183 تا 203ھ) |
شہادت | 30 صفر سنہ203 ہجری۔ |
سبب شہادت | زہر سے مسموم |
مدفن | مشہد |
رہائش | مدینہ، مرو |
والد ماجد | امام موسی کاظم |
والدہ ماجدہ | تکتم |
ازواج | سبیکہ و ... |
اولاد | امام محمد تقیؑ، محمد قانع، حسن، جعفر، ابراہیم، حسین، عائشہ |
عمر | 55 سال |
ائمہ معصومینؑ |
ابو الحسن علی بن موسی الرضا (148-203ھ)، امام رضا علیہ السلام کے نام سے معروف، شیعوں کے آٹھویں امام ہیں۔ آپ سنہ 183 ہجری میں منصب امامت پر فائز ہوئے اور 20 سال تک آپؑ کی امامت جاری رہی۔ آپ کی امامت تین عباسی خلفاء؛ ہارون الرشید، محمد امین اور مأمون عباسی کی حکومت کے ہمزمان تھی۔
اپنی زندگی کے آخری سالوں میں امام رضا علیہ السلام کو مامون کے حکم سے مدینہ سے مروہ خراسان میں بلایا گیا اور مامون کے ولی عہد بنے۔ شیعہ مورخین اور علماء امام رضا علیہ السلام کی ولایت عہدی کو ان کی زندگی کا اہم ترین سیاسی واقعہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام نے مامون کے جبر کے تحت اس کام پر رضامندی ظاہر کی۔
تاہم بعض مورخین کا خیال ہے کہ ایران میں امام رضا علیہ السلام کی آمد نے وہاں شیعہ مذہب کے پھیلاؤ پر خاصا اثر ڈالا؛ کیونکہ ایران میں داخل ہوتے ہوئے آپ ہر شہر میں لوگوں سے ملتے اور لوگوں کے سوالات کو ائمہ کی احادیث پر مبنی جوابات دیتے۔ نیز مختلف ادیان اور مذاہب کے علما کے ساتھ مناظرے کی نشستوں میں شرکت کر کے ان پر آپ کی علمی برتری اور شیعہ امام کی حیثیت سے آپ کا علمی مقام لوگوں پر واضح ہوگیا۔
ایران کے مختلف شہروں اور علاقوں میں، مساجد اور قدمگاہ جیسی عمارتوں کا نام امام رضاؑ کے نام پر رکھا گیا ہے، جہاں مرو جاتے ہوئے آپ نے استراحت کی تھی۔ اور اسے ایران میں امام رضاؑ کی آمد کے شیعہ مذہب کے پھیلاؤ پر تاثیر کی علامت سمجھی گئی ہے۔
ایک مشہور حدیث امام رضاؑ سے ایران کے سفر کے دوران نقل کی گئی ہے جو سِلسِلةُ الذَّہَب (سنہری زنجیر) کے نام سے مشہور ہے؛ کیونکہ اس کے راویوں کے سلسلے میں تمام راوی، معصوم ہیں۔ آپ نے یہ حدیث نیشاپور میں وہاں کے علماء کی ایک جماعت کو سنائی۔ اس حدیث میں توحید کو خدا کے قلعے کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے اور جو بھی اس میں داخل ہو جائے وہ محفوظ ہے۔ پھر فرمایا ہے کہ یقیناً اس کی شرائط ہیں اور میں بھی ان شرائط میں سے ہوں۔
اکثر شیعہ علماء کے خیال کے مطابق، امام رضاؑ 55 سال کی عمر میں طوس میں مامون کے زہر سے شہید ہوئے اور سناباد نامی گاؤں کے ہارونیہ مقبرے میں دفن ہوئے۔ آپ وہ واحد شیعہ امام ہیں جو ایران میں مدفون ہیں۔ مشہد میں امام رضا کا حرم سب سے اہم شیعہ زیارت گاہوں میں سے ایک ہے۔ ان کی بہن فاطمہ معصومہ کا مزار بھی ایران میں واقع ہے اور حرم امام رضاؑ کے بعد ملک کا سب سے مشہور مزار سمجھا جاتا ہے۔
امام رضاؑ کے بارے میں بہت سی کتابیں اور ادبی آثار جیسے نظمیں، ناول اور فلمیں تیار کی گئی ہیں۔ ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں: سید جعفر مرتضیٰ آملی کی تحریر کردہ اَلحیاةُ السّیاسیةُ لِلْامامِ الرّضا(ع)، سید محمدجواد فضل اللہ کی اَلامامُ الرِّضا؛ تاریخٌ و دراسةٌ، باقر شریف قَرَشی کی حیاةُ الْامام علیِّ بنِ موسَی الرِّضا(ع)؛ دراسةٌ و تحلیلٌ، محمد محمدی ری شہری اور ساتھیوں کی حکمت نامۂ رضوی، حبیب اللہ چایچیان کی نظم «قطعہ ای از بہشت»، نسیم شمال کی نظم «با آل علی ہرکہ در افتاد ورافتاد» اور محمود فرشچیان کی پینٹنگ تابلوی ضامن آہو ان میں شامل ہیں۔
سوانح عمری
علی بن موسی، امام رضاؑ سے مشہور اور شیعیان اثناعشری کے آٹھویں امام ہیں۔[1] آپ کے والد شیعوں کے ساتویں امام موسی بن جعفرؑ اور آپ کی والدہ نجمہ یا تُکتَم کے نام سے ایک کنیز تھیں۔[2]
آپ کی تاریخ ولادت اور شہادت کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔[3] آپ کی ولادت 11 ذوالحجہ یا ذوالقعدہ یا ربیع الاول سنہ 148 یا 153ھ نقل ہوئی ہے[4] اور آپ کی تاریخ شہادت صفر کی آخری تاریخ یا 17 یا 21 رمضان یا 18 جمادی الاول یا 23 یا 30 ذی القعدہ سنہ 202 یا 203ھ یا 206ھ ذکر ہوئی ہے۔[5] سید جعفر مرتضی عاملی کے مطابق اکثر علما اور مورخین کا کہنا ہے کہ امام رضاؑ سنہ 148 ہجری کو مدینہ میں متولد ہوئے اور سنہ 203 ہجری کو شہید ہوئے۔[6]
القاب اور کنیتیں
علی ابن موسیٰ کے لیے رضا، صابر، رضی، وفی اور زکی جیسے القاب ذکر ہوئے ہیں۔[7] فضل بن حسن طبْرسی کی لکھی ہوئی کتاب اِعلام الوری کی ایک حدیث کی بنیاد پر، امام کاظمؑ نے آپ کے لئے عالم آل محمد کا لقب دیا ہے۔[8] امام رضا کو ضامن آہو،[9] امام رئوف،[10] غریبُ الغُرَبا،[11] ثامن الحُجَج (آٹھویں حجت)[12] اور ثامنُ الائمة (آٹھویں امام)[13] جیسے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ آپ کا سب سے مشہور لقب "رضا" ہے۔[14] اہل سنت کے عالم دین سیوطی (849-911ھ) نے کہا ہے کہ یہ لقب انہیں عباسی خلیفہ مأمون نے دیا تھا؛[15] تاہم، چوتھی صدی ہجری کے شیعہ محدث شیخ صدوق کی روایت کردہ حدیث کے مطابق، امام جواد علیہ السلام نے اس قول کو غلط قرار دے کر اپنے والد کو "رضا" کا لقب دینے کی دلیل کو اس حقیقت سے منسوب کیا کہ وہ آسمان پر خدا کی ربوبیت پر یقین رکھتے تھے اور زمین پر رسول اللہؐ کی نبوت اور ائمہ کی امامت پر راضی تھے۔ اس حدیث میں امام محمد تقیؑ سے پوچھا جاتا ہے کہ دوسرے امام بھی ایسے تھے تو ان میں سے صرف آپ کے والد کو کیوں "رضا" کا لقب دیا گیا ہے؟ امام جوادؑ جواب میں فرماتے ہیں: چونکہ دوست اور دشمن سب آپ سے راضی تھے اور یہ بات دوسرے اماموں میں سے کسی کے بارے میں بھی درست نہیں ہے۔[16]
امام رضا علیہ السلام کی کنیت ابو الحسن تھی۔[17] شیخ صدوق کی روایت کے مطابق یہ کنیت امام کاظم علیہ السلام نے آپ کو دیا ہے جو کہ ان کا اپنا لقب بھی تھا۔[18] امام کاظم سے ممتاز کرنے کے لیے امام رضا کو ابو الحسن الثانی (دوسرا) بھی کہا جاتا تھا۔[19] امام رضا کی دوسری کنیتیں بھی تھیں جیسے ابو علی[20] اور ابو محمد۔[21]
بیوی اور اولاد
امام رضا علیہ السلام کی زوجہ کا نام سَبیکۂ نوبیّہ [22]یا خَیزُران[23] تھا جو امام جوادؑ کی والدہ تھیں۔[24] تاریخی اور حدیثی مصادر میں امام رضا کی ایک اور بیوی کا بھی ذکر آیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ مامون کی بیٹی تھی۔[25] شیخ صدوق کے مطابق مامون نے امام رضا کو اپنا ولی عہد بنانے کے بعد اپنی بیٹی ام حبیب کی آپ سے شادی کی۔[26]
شیخ صدوق، شیخ مفید، ابن شہرآشوب اور طبرسی نے لکھا ہے کہ امام رضا کی ایک ہی اولاد تھی جو امام جواد تھے؛[27] تاہم، اعیان الشیعہ کے مصنف، سید محسن امین کے مطابق، بعض مصادر نے ان کے لیے دوسرے بچوں کا بھی ذکر کیا ہے۔[28]
ایران کے شہر قزوین میں، امامزادہ حسین کے نام سے منسوب ایک مزار ہے، جسے آٹھویں صدی کے مورخ مستوفی نے امام رضاؑ کا بیٹا سمجھا ہے؛[29] البتہ نسب شناسی کے ماہر، کیاء گیلانی نے ان کو جعفر طَیّار کی نسل میں سے قرار دیا ہے۔[30] بعض منابع میں انہیں امام رضا علیہ السلام کا بھائی کہا گیا ہے۔[31]
بہن بھائی
ابراہیم، شاہچراغ ، حمزہ، اسحاق بھائیوں میں سے ہیں جبکہ فاطمۂ معصومہ اور حکیمہ امام رضاؑ کی بہنوں میں سے ہیں۔ امام رضاؑ کے بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ معروف فاطمہ معصومہؑ ہیں، جن کے لئے شیعہ علماء بہت زیادہ عظمت کے قائل ہیں اور ان کے مقام و منزلت اور ان کی زیارت کی اہمیت کے بارے میں روایات نقل کرتے ہیں۔[32] وہ ایران کے شہر قم میں مدفون ہیں۔ حرم حضرت معصومہ ایران میں امام رضا کے مزار کے بعد سب سے شاندار اور مشہور مزار سمجھا جاتا ہے۔[33]
امام رضاؑ کی امامت پر نص
شیعہ نقطہ نظر سے، امام،خدا کی طرف سےمنصوب ہوتا ہے، اور اس کو پہچاننے کا ایک طریقہ نص کے ذریعہ ہے، یعنی پیغمبر اکرمؐ یا اس امام سے پہلے والے امام اپنے بعد والے امام کی امامت کی تصریح کرے۔[34] شیعہ احادیث کی کتابوں میں امام کاظمؑ کی کچھ ایسی احادیث موجود ہیں جن میں امام رضاؑ کی امامت پر تاکید ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر کافی، [35] ارشاد، [36] اِعلامُ الْوریٰ[37] اور بِحارُالْانوار، [38] میں امام رضاؑ کی امامت پر نص کے عنوان سے ایک خاص حصہ ہے جس میں متعلقہ روایات کو جمع کیا گیا ہے۔
مثال کے طور پر کلینی نے ایک روایت میں نقل کیا ہے کہ داوود رَقّی نے امام کاظمؑ سے اپنے بعد کے امام کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے امام رضاؑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "یہ میرے بعد تمہارے آقا ہیں"۔[39] شیخ مفید نے بھی محمد بن اسحاق سے ایک حدیث نقل کیا ہے جس میں راوی کہتا ہے: "میں نے امام کاظمؑ سے پوچھا، کیا آپ مجھے نہیں بتائیں گے کہ میں اپنا دین کس سے لوں؟انہوں نے جواب دیا: میرے بیٹے علی (امام رضاؑ) سے؛ ایک دن میرے والد (امام صادق) نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے رسول اللہؐ کی قبر پر لے گئے اور فرمایا: اے میرے بیٹے، خدا نے کہا ہے کہ میں زمین پر ایک جانشین مقرر کردوں گا،[40] اور جب خدا وعدہ کرتا ہے تو وہ اسے پورا کرتا ہے۔"[41]
امامت کا دور
امام رضاؑ کی امامت کا ابتدائی دور ہارون الرشید کی خلافت کے ساتھ تھا جس نے امام کاظم کو قتل کیا ۔ محققین کے مطابق، ہارون نے امام کاظم کے قتل کے نتائج کے بارے میں پائی جانے والی تشویش کی وجہ سے امام رضا کو پریشان نہیں کیا، اور اس وجہ سے آپ کو کچھ زیادہ چھوٹ ملی تھی اور اسی وجہ سے آپ تقیہ پر عمل نہیں کرتے تھے اور کھلے عام لوگوں کو اپنی امامت کی طرف بلاتے تھے۔[42] کلینی نے کافی میں ایک روایت نقل کی ہے جس کے مطابق محمد بن سِنان، امام رضاؑ سے کہتا ہے: "آپ نے امامت کی کھلم کھلا دعوت دے کر اپنے آپ کو زبان زد عام و خاص کیا ہے اور یہ چیز آپ کی جان لیوا بن سکتی ہے۔" امام رضاؑ نے جواب دیا: جس طرح رسول اللہ نے فرمایا کہ اگر ابوجہل میرے سر کا ایک بال بھی کاٹ سکا تو تم لوگ گواہی دیں کہ میں نبی نہیں ہوں، میں تمہیں بھی یہی کہتا ہوں کہ اگر ہارون میرے سر کا ایک بال بھی کاٹ دے تو گواہی دینا کہ میں امام نہیں ہوں۔"[43]
واقفیہ کی تشکیل
تاریخ کے محقق رسول جعفریان کے مطابق امام کاظمؑ کی شہادت کے بعد تقیہ کے وجود، جن لوگوں کے پاس امام کاظمؑ کا کچھ مال تھا ان کی فرصت طلبی اور بعض جھوٹی احادیث کی موجودگی جیسی بعض وجوہات کی بنا پر آپ کے جانشین کے بارے میں شیعوں میں اختلاف پیدا ہوا۔[44] اسی دوران شیعوں کے اندر ایک فرقہ قائم ہوا جس نے کہا کہ امام کاظمؑ وفات نہیں ہوئے ہیں اور وہ مہدی موعود ہیں۔ یہ گروہ واقفیہ کے نام سے مشہور ہوا۔[45] البتہ امام کاظم کے اکثر اصحاب نے امام رضاؑ کی امامت کو قبول کیا۔[46]
امام رضاؑ کی ولایت عہدی
امام رضاؑ کی ولی عہدی کو ان کی سیاسی زندگی کا سب سے اہم واقعہ قرار دیا گیا ہے۔[47] یہ واقعہ اسلامی تاریخ کے متنازعہ مسائل میں سے ایک ہے، جو سیاسی اور کلامی (امام کی ولایت عہدی اور عصمت کے درمیان تضاد)[48] دونوں لحاظ سے اہم ہے۔[49]
بہر حال مامون کے حکم پر امام رضاؑ کو مدینہ سے مامون کی حکومت کے دارالحکومت خراسان میں مروہ منتقل کر دیا گیا۔ مامون نے امام کو ولی عہدی سے پہلے خلافت کی پیشکش کی؛ لیکن امام رضاؑ نے اسے ماننے سے سختی سے انکار کیا۔ اس کے بعد اس نے ولی عہد بننے کو کہا اور انکار کرنے پر اسے جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی۔ امام رضا نے بھی ہچکچاتے ہوئے بادل ناخواستہ قبول کر لیا؛ لیکن انہوں نے یہ شرط رکھی کہ وہ حکومتی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔[50]
شیعہ علماء کے مطابق مامون نے امام رضاؑ کو کچھ وجوہات کی بنا پر ولی عہد بنایا تھا جن میں امام کو اپنے زیر نظر رکھنا،[51] علویوں کے انقلاب کو روکنا[52] اور اپنی خلافت کو شرعی حیثیت دینا[53] شامل ہیں۔ 7 رمضان المبارک سنہ 201ھ کو مامون نے امام کی ولی عہدی کی تقریب منعقد کی اور عوام اور سرکاری اہلکاروں نے امام کی بیعت کی۔[54] اس کے بعد سے مامون کے حکم سے خطبے امام کے نام سے دئے گئے اور آپ کے نام کے سکے بنائے گئے۔[55] کہا جاتا ہے کہ امام رضاؑ نے اس موقعے کو شیعوں کے فائدے میں استعمال کیا اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اہل بیت علیہم السلام کی بہت سی تعلیمات کو عام لوگوں تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔[56]
حدیث سلسلۃ الذہب
شیخ صدوق اور شیخ طوسی جیسے محدثین کے مطابق، مرو کے سفر کے دوران، نیشاپور سے گزرتے ہوئے، اس شہر کے علماء کی درخواست پر، امام رضا نے ایک حدیث قدسی بیان کی[57] جو حدیث سلسلۃ الذہب (سنہری زنجیر) کے نام سے مشہور ہے۔[58] اس حدیث کا سلسلۃ الذہب کے نام سے مشہور ہونے کی وجہ کے بارے میں یہ احتمال دی گئی ہے کہ اس کا خدا تک تمام سلسلہ سند میں معصوم ہیں یا یہ کہ سامانی حکمرانوں میں سے ایک نے حدیث کو سونے میں لکھا تھا اور اسے اپنے ساتھ دفن کرنے کا حکم دیا تھا۔[59] حدیث سلسلۃ الذہب شیخ صدوق کی روایت کے مطابق مندرجہ ذیل صورت میں ہے:
اللَّہ جَلَّ جَلَالُہُ یقُولُ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ حِصْنِی فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِی أَمِنَ مِنْ عَذَابِی قَالَ فَلَمَّا مَرَّتِ الرَّاحِلَةُ نَادَانَا بِشُرُوطِہَا وَ أَنَا مِنْ شُرُوطِہَا. (ترجمہ: خداوند جَلَّ جَلَالُہُ نے فرمایا: کلمہ "لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ" میرا مضبوط قلعہ ہے، پس جو بھی میرے اس قلعہ میں داخل ہوگا وہ میرے عذاب سے محفوظ رہے گا، جب سواری چلنے لگی تو [امام رضا]ؑ نے ہمیں پکار کر فرمایا: [البتہ] اس کے کچھ شرائط ہیں اور میں ان شرائط میں سے ایک ہوں۔[60])
عید فطر کی نماز
امام رضاؑ کی نماز عید فطر کے میں بارے میں کافی اور عُیونُ اَخبارِ الرِّضا جیسی حدیثی کتابوں ذکر آیا ہے۔[61] اس نقل کے مطابق امام رضاؑ ولی عہد بنانے کے بعد مأمون نے امام رضاؑ سے کہا کہ نماز عید پڑھائیں؛ امامؑ نے ولیعہدی کے لئے مقرر کردہ شرائط کا حوالہ دے کر مأمون سے کہا کہ "مجھےاس کام سے معاف رکھو" کیونکہ امام نے خلافت کے امور میں دخالت نہ کرنے کی شرط پر قبول کیا تھا؛ لیکن مامون کے اصرار کرنے پر امامؑ کو قبول کرنا پڑا اور فرمایا: تو پھر میں رسول اللہ اور امام علیؑ کی طرح نماز عید کے لئے جاوں گا اور مامون نے بھی امام کی شرط مان لی۔[62]
عید کی صبح امام رضاؑ نے غسل کیا، سفید عمامہ باندھا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ ننگے پاؤں نکلے اور تکبیر کہنے لگے۔ پھر روانہ ہوئے اور لوگ آپ کے پیچھے ہو لیے۔ ہر دس قدم پر رک جاتے اور تین بار تکبیر کہتے۔ امام کے اس طرز عمل کے زیر اثر پورا شہر آنسوؤں اور گریہ میں ڈوبا گیا۔ یہ خبر مامون تک پہنچ گئی۔ مامون کے وزیر فضل بن سہل نے اسے بتایا کہ اگر رضاؑ اس حالت میں نماز کے مقام تک پہنچے تو شہر کے لوگ اس کے ساتھ مل جائیں گے اور تمہارے خلاف بغاوت کریں گے۔ بہتر یہی ہے کہ انہیں واپس بلائیں۔ چنانچہ مامون نے امام کے پاس کسی کو بھیجا اور واپس آنے کو کہا۔ امام نے بھی جوتے پہنے اور گھر واپس آگئے۔[63]
تاریخ کے محقق رسول جعفریان نے اس واقعے کو مامون اور امام رضاؑ کے درمیان تعلقات خراب ہونے کی ایک وجہ قرار دیا ہے۔[64]
ایران میں شیعہ مذہب کے پھیلاؤ میں امام رضا کا کردار
امام رضا واحد شیعہ امام ہیں جو ایران میں مدفون ہیں۔[65] رسول جعفریان امام رضاؑ کی ایران آمد کو ملک میں شیعیت کے پھیلنے کے عوامل میں سے ایک سمجھتے ہیں۔ انہوں نے شیخ صدوق سے نقل کیا ہے کہ مدینہ سے مرو تک کے سفر میں ایران کے ہر اس شہر میں جہاں امام رضاؑ قیام کرتے تھے لوگ آپ کے پاس آتے اور اپنے سوالات بیان کرتے تھے اور امام رضاؑ ان کا جواب ان احادیث کے ذریعے دیتے تھے جن کے سلسلہ سند میں اپنے سے پہلے کے ائمہؑ، امام علیؑ اور پیغمبر اکرمؐ ہوتے تھے اور اس طرح سے ائمہ کا حوالہ دینا شیعوں کے افکار کی نشوونما کا ایک سبب تھا۔[66]
جعفریان کے مطابق خراسان میں امام کی موجودگی نے لوگوں کو آپ کی شخصیت سے شیعوں کے امام کے طور پر زیادہ آشنا کرایا اور اس سے شیعوں کے چاہنے والے افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو گیا۔ جعفریان امام کے علمی مقام و منزلت اور ان کے علوی ہونے کو ایران میں شیعہ مذہب کی ترقی کا سب سے اہم عنصر سمجھتے ہیں۔[67]
نیز مأمون کی طرف سے امام اور آپ کے مخالفین کے درمیان امامت اور نبوت کے موضوع پر منعقد کئے جانے والے مناظروں میں امام کی شرکت اور مخالفین پر آپ کی برتری نے لوگوں کو آپ کی علمی شخصیت سے آگاہ کیا۔ اس سلسلے میں ایک دلیل شیخ صدوق کی روایت کردہ حدیث ہے جس کے مطابق مامون کو اطلاع دی گئی کہ امام رضاؑ کلامی (عقائد) نشستیں منعقد کر رہے ہیں اور لوگ ان کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ مامون نے لوگوں کو امام کی صحبت سے باہر نکالنے کا حکم دیا۔[68]
ایران کے مختلف شہروں اور علاقوں میں مساجد، گرم حمام اور قدم گاہ جیسی عمارتوں کو امام رضا کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، یہ وہ جگہے ہیں جہاں آپ نے مدینہ سے مرو کی طرف سفر کرتے ہوئے قیام کیا تھا۔ جعفریان انہیں ایران میں شیعیت کے پھیلاؤ میں امام رضاؑ کی آمد کے اثرات کا ثبوت سمجھتے ہیں۔[69] ان عمارتوں میں ایران کے شہر اہواز میں مسجدِ امام رضا، ایران کے مختلف شہر، جیسے شوشتر، دیزفل، یزد، دمغان اور نیشابور میں ان سے منسوب قدمگاہ کے ساتھ ساتھ نیشابور میں حمامِ رضا شامل ہیں۔[70] وہ لکھتے ہیں کہ اگرچہ ان میں سے بعض مقامات کا امام رضاؑ سے تعلق درست نہیں ہے لیکن اس سے ایرانی عوام کی شیعہ دلچسپی ظاہر ہوتی ہے۔[71]
شہادت کی نوعیت
اللّہُمَّ صَلِّ عَلَی عَلِی بْنِ مُوسَی الرِّضَا الْمُرْتَضَی الْإِمامِ التَّقِی النَّقِی وَحُجَّتِک عَلَی مَنْ فَوْقَ الْأَرْضِ وَمَنْ تَحْتَ الثَّرَی الصِّدِیقِ الشَّہِیدِ صَلاةً کثِیرَةً تامَّةً زاکیةً مُتَواصِلَةً مُتَواتِرَةً مُتَرادِفَةً کأَفْضَلِ مَا صَلَّیتَ عَلَی أَحَدٍ مِنْ أَوْلِیائِک (ترجمہ: اے اللہ علی ابن موسی الرضا پر رحمت نازل فرما جو پیارے امام بے عیب، متقی اور زمین پر اور اس کے نیچے رہنے والوں کے لئے تیری حجت ہیں، وہ سچے شہید پر تیرا درود نازل فرما۔ ایک ایسا سلام جو بے شمار، مکمل، خالص، متصل، متواتر اور یکے بعد دیگرے ہو، ایسا بہترین درود جسے اپنے کسی ولی کو بھیجا ہے۔)
مآخذ:، ابن قولویہ، کامل الزّیارات، 1356ش، ص309.
امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بارے میں مختلف روایتیں نقل ہوئی ہیں۔ تاریخ کے ماہر سید جعفر مرتضی عاملی (متوفی: 1441ھ) نے لکھا ہے کہ شیعہ علما، چند استثناء کے ساتھ اس بات پر متفق ہیں کہ امام رضاؑ کو مامون کے حکم پر شہید کیا گیا۔ بہت سے اہل سنت علماء اور مورخین بھی اس بات کو مانتے ہیں، یا احتمال دیتے ہیں کہ آپ کی موت فطری موت نہیں ہوئی ہے۔[72]
کتاب تاریخ یعقوبی (تیسری صدی ہجری کی تالیف) کے مطابق، مأمون بغداد جانے کے ارادے سے مرو سے نکلا، امام رضا کو جو اس کے ولی عہد تھے، اپنے ساتھ لے گیا۔[73] جب وہ طوس پہنچے تو امام رضا بیمار ہو گئے اور تین دن کے بعد نوقان نامی گاؤں میں انتقال کر گئے۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ مامون کے سپہ سالار علی بن ہشام نے امام کو انار میں زہر دیا تھا۔[74] اہل سنت مورخ طبری نے بھی اپنی تاریخ (تألیف: 303ھ) میں صرف اتنا لکھا ہے کہ امام انگور کھا رہے تھے اس دوران اچانک ان کی وفات ہو گئی۔[75]
شیعہ متکلم اور عالم دین شیخ مفید نے اپن کتاب تصحیح الاعتقاد میں امام رضاؑ کے قتل کے بارے میں شک و تردید کے ساتھ بات کی ہے؛ لیکن آپ کے قتل ہونے کے امکان کو قوی سمجھا ہے؛[76] لیکن اپنی دوسری کتاب "الارشاد" میں ایک روایت نقل کیا ہے جس کے مطابق مامون کے حکم پر امام رضا کو انار کے رس میں زہر ملایا گیا تھا۔[77] شیخ صدوق نے بھی بعض ایسی روایات نقل کی ہیں جن کے مطابق مامون نے انگور[78] یا انار[79] یا دونوں[80] میں زہر ملا کر آپ کو مسموم کیا ہے۔ آپ کی شہادت کو ثابت کرنے کے لیے ما منّا إلا مقتولٌ شہیدٌ کی حدیث سے استناد کیا ہے[81] جو تمام ائمہ کی شہادت پر دلالت کرتی ہے۔[82]
حرم امام رضاؑ
امام رضاؑ کی شہادت کے بعد مامون نے آپ کو "سناباد" نامی محلے میں واقع حمید بن قحطبۂ طائی کے باغ یا دار الامارہ میں سپرد خاک کیا۔ اس سے پہلے مأمون کا باپ ہارون رشید بھی وہاں دفن ہوئے تھے اسی لئے یہ جگہ بقعہ ہارونیہ سے مشہور ہوئی تھی۔[83] امام رضاؑ وہ امام ہیں جو ایران میں دفن ہوئے ہیں۔[84]
لکھا گیا ہے کہ صدیوں سے امام رضا کا مقبرہ خراسان کے علاقے کے تمام مسلمانوں کا ملجأ و مأوا تھا، اور شیعوں کے علاوہ اہل سنت بھی آپ کی زیارت کے لئے آتے تھے۔[85]
امام رضا کا مقبرہ رفتہ رفتہ اسلامی دنیا میں خاص طور پر شیعوں کی زیارت گاہوں میں سے ایک بن گیا۔ امام رضاؑ کی زیارت لوگوں کی زندگی کے اہم عقائد میں سے ایک ہے۔ امام رضا کے مدفن کی جگہ، مشہد الرضا کے نام سے مشہور ہوئی اور آج اسے شہر مشہد کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امام رضاؑ کی زیارت کی طرف زیادہ لوگ آنے کی وجہ سے مشہد کو دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ زیارت کرنے والے شہر کے طور پر جانا جاتا ہے۔[86]
اصحاب
شیخ طوسی نے اپنی کتاب رجال طوسی میں امام رضاؑ کے تقریبا 320 اصحاب کا نام ذکر کیا ہے۔[87]بعض دوسرے مصادر میں مختلف تعداد ذکر ہوئی ہے۔[88] محمد مہدی نجف نے اپنی کتاب اَلجامعُ لِرُواةِ اَصحابِ الامامِ الرّضا میں مختلف شیعہ مآخذ سے 831 افراد کے نام امام رضاؑ کے راوی اور اصحاب کے طور پر جمع کیے ہیں۔[89] شیخ طوسی کے مطابق آپ کے بعض اصحاب کے نام درج ذیل ہیں:
چوتھی صدی ہجری کے شیعہ رجالی محمد بن عمر کَشّی نے امام رضا کے اصحاب میں سے 6 صحابی کو اصحاب اِجماع میں شمار کیا ہے جن میں یونس بن عبدالرحمن، صفوان بن یحیی، اِبن اَبی عُمَیر، عبداللہ بن مُغَیرہ، حسن بن محبوب اور احمد بن اَبی نصر بَزَنطی شامل ہیں۔[91]
امام رضاؑ سے منسوب کتابیں
کتب احادیث میں امام رضا علیہ السلام سے منقول احادیث کے علاوہ بعض کتابوں کی تصنیف بھی آپ کی طرف منسوب کی گئی ہے، جبکہ ان میں سے اکثر کتابوں کا امام رضا سے منسوب ہونے کے بارے میں شیعہ علماء شک و تردید کی نگاہ سے دیکھتے ہیں:
- طِبُّ الرّضا یا رسالہ ذہبیہ: یہ کتاب طبابت کے موضوع پر ہے۔ مروی ہے کہ طب الرضا شیعہ علما میں مشہور تھی اور وہ لوگ اسے قبول کرتے تھے۔[92]
- صَحیفةُالرّضا: یہ کتاب فقہ کے موضوع میں تھی اکثر شیعہ علماء نے امام رضاؑ کی طرف اس کے انتساب کی تصدیق نہیں کی ہے۔[93]
- اَلفقہُ الرَّضوی: سید محمد جواد فضل اللہ کے مطابق، اکثر شیعہ علماء نے اس کتاب کے امام رضاؑ کی طرف منسوب ہونے کو قبول نہیں کیا ہے۔ البتہ محمدباقر مجلسی، محمدتقی مجلسی، بحرالعلوم، یوسف بَحرانی معروف بہ صاحبْ حَدائِق اور محدث نوری وغیرہ اس کی امام رضاؑ سے نسبت کو درست سمجھتے ہیں۔[94]
- مَحضُ الاسلام و شَرائِعُ الدّین: اس کتاب کو شیخ صدوق نے فضل بن شاذان سے روایت کیا ہے۔ تاہم، اس کی سند کے راویوں کے معتبر نہ ہونے اور اس میں موجود فقہی مسلم احکام کے ساتھ متصادم مواد کی وجہ سے اس کتاب کا امام رضاؑ سے نسبت کویقینی نہیں کہہ سکتے ہیں۔[95]
مناظرے
رسول جعفریان کے مطابق، امام رضاؑ کے دور میں مسلمانوں کے درمیان اعتقادی بحثیں زیادہ ہوتی تھیں اور مختلف فکری گروہوں کے درمیان بہت سے اختلافات تھے۔ عباسی خلفاء بالخصوص مأمون بھی ان مباحث میں شامل ہوتے تھے۔ اسی وجہ سے امام رضاؑ سے منقول ہونے والی بہت سی احادیث کلام اسلامی سے متعلق ہیں جو سوالات و جوابات یا مناظروں کی صورت میں بیان ہوئی ہیں۔ ان موضوعات میں امامت، توحید، صفات خدا اور جبر و اختیار سے متعلق موضوعات شامل ہیں۔[96]
امام رضاؑ کے مرو آنے کے بعد، مأمون مختلف علماء کے ساتھ متعدد علمی نشستوں کا انعقاد کرتے تھے اور امام رضاؑ سے ان نشستوں میں شرکت کی درخواست کرتے تھے۔[97] ان نشستوں میں امام رضاؑ نے مختلف مذاہب اور فرقوں کے علما کے ساتھ مناظرے کئے ہیں، جن کا متن کلینی کی کتاب کافی، شیخ صدوق کی توحید اور عُیونُ اَخبارِ الرِّضا اور احمد بن علی طَبرسی کی کتاب احتجاج جیسی شیعہ حدیث کی کتابوں میں شامل ہے۔ ان مناظرات میں سے بعض درج ذیل ہیں:
- توحید کے بارے میں مناظرہ؛[98]
- بِدا اور اللہ کے ارادہ کے بارے میںسلیمان مَرْوزی سے مناظرہ ؛[99]
- اللہ کا جسم ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ابو قُرّہ سے مناظرہ ؛[100]
- پیغمبر اکرمؐ کی نبوت اور حضرت عیسی بشر ہونے کے بارے میںنصرانی جاثَلیق سے مناظرہ ؛[101]
- رسول اللہ کی نبوت کے بارے میںرأس الجالوت کے ساتھ مناظرہ ؛[102]
- حضرت موسیؑ، حضرت عیسی اور حضرت محمدؐ کی نبوت کے بار میں زرتشتی عالم سے مناظرہ؛[103]
- اللہ کے وجود اور اس کی صفات کے بارے میںعِمران صابی سے مناظرہ ۔[104]
شیخ صدوق سے منقول ہے کہ مأمون کا ان مناظروں کے انعقاد کا مقصد مختلف فرقوں کے بزرگوں کے مقابلے میں امام رضاؑ کو شکست دینا اور ان کی علمی اور سماجی حیثیت کو کمزور کرنا تھا؛ لیکن جو بھی امام رضاؑ سے مناظرہ کرتا تھا وہ بالآخر آپ کے علمی مقام کو تسلیم کر لیتا تھا اور آپ کے دلائل کو قبول کر لیتا تھا۔[105]
اہل سنت کے ہاں امام کا مقام
اہل سنت مورخ اور محدث ابن حجر عَسقَلانی (773-852ھ) نے امام رضاؑ کے نَسَب، علم اور فضیلت کی تعریف کی ہے[106] اور کہا ہے کہ وہ مسجد نبوی میں فتویٰ جاری کرتے تھے جب کہ ان کی عمر بیس سے زیادہ نہیں تھی۔[107] آٹھویں صدی ہجری کے اہل سنت عالم دین یافعی نے بھی امام رضاؑ کو "جلیل" اور "مُعَظَّم" اور امامیہ کے بارہ اماموں میں سے ایک کے عنوان سے ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ مامون نے بنو ہاشم کے خاندان میں ان سے زیادہ کسی کو خلافت کا حقدار نہیں پایا اس لئے ان کی بیعت کی۔[108]
انہوں نے کئی ایسے اہل سنت علماء کا تعارف کروایا ہے جنہوں نے چھٹی صدی ہجری تک آٹھویں امامؑ کی زیارت کی ہے۔ ان میں تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے مشہور اہل سنت محدث ابوبکر محمد بن خُزَیْمہ، نیشاپور کے عالم دین ابو علی ثقفی، محدث و رجال شناس ابو حاتم محمد بن حبان بستی (متوفی: 354) مشہور محدث حاکم نیشابوری (321-405 ہجری)، ایرانی برجستہ مورخ ابوالفضل بیہقی (385-470 ہجری) اور پانچویں صدی کے مشہور عالم اور عارف امام محمد غزالی شامل ہیں۔[109]
امام رضاؑ کی زیارت کے حوالے سے بھی اہل سنت علماء سے مختلف حکایتیں نقل ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے اہل سنت محدث ابن حِبّان کہتے ہیں کہ میں اکثر مشہد میں علی ابن موسیٰ کے قبر کی زیارت کو جاتا تھا اور ان سے توسل کر کے میری مشکلات دور ہوتی تھیں۔[110] ابن حجر عسقلانی نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے اہل سنت فقیہ، مفسر اور محدث ابوبکر محمد بن خزیمہ اور نیشاپور کے عالم دین ابو علی ثقفی دیگر اہل سنت لوگوں کے ساتھ امام رضاؑ کی قبر کی زیارت کو گئے ہیں۔ اس حکایت کے راوی نے ابن حجر سے کہا ہے کہ: "ابوبکر بن خزیمہ نے اس قبر کی اتنی تعظیم کی اور اس کے سامنے عجز و انکساری اور گریہ و زاری کی کہ ہم حیران رہ گئے۔"[111]
فنکارانہ اور ثقافتی آثار
امام رضاؑ کے بارے میں اشعار اور بنائی گئی دستاویزی اور ڈرامائی فلم اور ٹیلی ویژن کے کام حسب ذیل ہیں:
ادبی کام
امام رضا علیہ السلام کے بارے میں بہت سے اشعار لکھے گئے ہیں۔[112] کتاب "مدایح رضوی در شعر فارسی" کے مصنفین کے مطابق بظاہر پانچویں صدی ہجری کے شاعر سنائی غزنوی پہلے شاعر تھے جنہوں نے امام رضاؑ کی مدح میں پہلی نظم لکھی تھی۔ اور اگر ان سے پہلے آپ کے متعلق کوئی نظم تھی بھی تو وہ یا تو ختم ہوگئی ہے یا دستیاب نہیں ہے۔[113]
ان کی رائے میں تیموریوں اور صفویوں کے زمانے تک امام رضاؑ کے بارے میں اشعار بہت کم تھے۔ لیکن صفوی دور سے اس میں اضافہ ہوا۔[114] مدایح رضوی در شعر فارسی میں غزنوی سنائی کے دور سے لے کر عصر حاضر تک امام رضاؑ کی مدح میں 72 فارسی شاعروں کے کلام شامل ہیں۔[115] "قطعہ ای از بہشت"[116] اور"با آل علی ہرکہ در افتاد ورافتاد"[117] امام رضا کے بارے میں پڑھے جانے والے اشعار میں سے ہیں۔
امام رضاؑ کے بارے میں بعض ناول بھی لکھے گئے ہیں، جن میں: سید علی شجاعی کی"بہ بلندای آن ردا"، مجید پورولی کلشتری کی "اقیانوس مشرق" اور فریبا کلہر کی "راز آن بوی شگفت" شامل ہیں۔[118]
سنیما اور ٹیلی ویژن کے آثار
امام رضاؑ کے بارے میں بنائے جانے والی بعض دستاویزی اور ڈرامائی فلم اور ٹیلی ویژن کے کام حسب ذیل ہیں:
- یا ضامن آہو ڈاکومنٹری: یہ فلم سنہ 1977 ء میں پرویز کیمیاوی کی ہدایت کاری میں بنی۔ کیمیاوی نے اس فلم میں امام رضاؑ کی زیارت کے ایک دن کی منظر کشی کی ہے۔[119] فلمی ڈائریکٹر مجید مجیدی نے اس فلم کو آٹھویں امامؑ کے بارے میں بنائی گئی دستاویزی شاہکاروں میں سے ایک قرار دیا ہے۔[120]
- ٹیلی ویژن سیریز "ولایت عشق"، جس کی ہدایت کاری مہدی فخیم زادہ نے کی ہے۔ اس سیریل کو امام رضاؑ سے متعلق دوسرا اور اہم ترین سلسلہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ فلم سنہ 1989میں بنائی گئی تھی، جس میں مدینہ سے مرو تک امام رضاؑ کی امامت کی تاریخ اور آپ کی شہادت کو بیان کرتی ہے۔[121]
- رضائے رضوان ڈاکومنٹری: مجید مجیدی کی طرف سے یہ دستاویزی فلم سنہ 2006 میں بنی جس میں روضہ امام رضاؑ کے خادمین کے زائرین کی خدمت کے جذبے کو بیان کیا گیا ہے۔[122]
- شب فلم، جس کے ڈائرکٹر رسول صدری عاملی تھے۔ یہ فلم سنہ 2008 میں بنی جس میں ہتھکڑی پہنے ہوئے ایک ملزم کی زیارت امام رضاؑ کے شوق اور جذبے کو بیان کیا گیا ہے۔[123]
- روز ہشتم، جس کے ہدایت کار مہدی کرم پور تھے اور اسے سنہ 2010ء میں بنایا جو ایران کے مختلف ٹی وی چینلز پر بھی نشر ہوگئی۔[124]
- زیارت فلم، جس کے ڈائریکٹر صادق کرمیار تھے اور اسے سنہ 2010ء میں بنایا۔ یہ ان لوگوں کی کہانی ہے جن کے معاشی مسائل مشہد آکر امام رضاؑ کے مزار پر حاضری دینے سے حل ہو جاتے ہیں۔[125]
- از گذشتہ حرف بزنیم؛ جو حمید نعمت اللہ کی تخلیق ہے اس میں امام رضاؑ کی زیارت کو تین بزرگ سال خواتین کی نظر سے بیان کیا ہے۔[126]
- بدون قرار قبلی،بہروز شعیبی کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم ہے جو زیارت کے بارے میں ہے اور یہ واقعہ فلم کے اصلی ایکٹر کو پیش آیا ہے جس میں وہ اور اس کا بیٹا جو آٹزم کی بیماری میں مبتلا ہیں، ان میں مثبت تبدیلیاں پیدا کرتی ہے۔[127]
ضامن آہو کی پینٹنگ
محمود فرشچیان کی پینٹنگ "ضامن آہو کی پینٹنگ" جس میں امام رضاؑ کا ہرن کی ضمانت دینے کی کہانی کو دکھایا گیا ہے۔ بعض خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق یہ پینٹنگ دو ورژن میں بنائی گئی تھی: ایک 1980میں اور دوسری 2011 میں، جسے آستان قدس رضوی کو ہدیہ کی گئی ہے۔[128]
امام رضاؑ ورلڈ کانگریس
امام رضاؑ عالمی کانگریس، امام رضاؑ کے بارے میں منعقد ہونے والی کانفرنسوں کا ایک سلسلہ ہے۔[129] ان میں سے پہلی کانفرنس 1984 میں منعقد ہوئی تھی۔[130] اس کانگرس کا مقصد ائمہ معصومین علیہم السلام بالخصوص امام رضا علیہ السلام کی پہچان اور ترویج کے میدان میں علمی، ثقافتی اور تحقیقی تحریک کا آغاز کرنا بیان ہوا ہے۔[131]
امام رضا کا بین الاقوامی میلہ
امام رضا انٹرنیشنل کلچرل اینڈ آرٹسٹک فاؤنڈیشن کے مطابق، امام رضاؑ کا بین الاقوامی میلہ ہر سال دہہ کرامت کے آغاز میں ایرانی وزارت فرہنگ اور ارشاد اسلامی کی جانب سے ایران کے مختلف صوبوں میں منعقد کیا جاتا ہے۔ بعض دوسرے ممالک میں بھی یہ فیسٹیول منعقد ہوتا ہے۔ یہ فیسٹیول علمی، تحقیقی، ثقافتی اور فنکارانہ نقطہ نظر سے منعقد ہوتا ہے اور ان شعبوں میں ماہرین اپنے کام جمع کرتے ہیں اور جیتنے والوں کا تعارف کروایا جاتا ہے۔[132]
اس فیسٹیول کے بین الاقوامی پروگرام بیرون ملک منعقد کیے جاتے ہیں جن میں اسلامک کلچر اینڈ کمیونیکیشن آرگنائزیشن اور بیرون ملک سے تعلق رکھنے والے ثقافتی اداروں بالخصوص اہل بیت عالمی اسمبلی، المصطفیٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی اور مرکز مدارس خارج از کشور کے تعاون سے منعقد کیے جاتے ہیں۔[133]
کتابیات
امام رضاؑ کے بارے میں متعدد کتابیں فارسی، عربی اور انگریزی میں لکھی گئی ہیں، جنہیں علی اکبر الہی خراسانی نے کتابنامہ امام رضا(ع) اور کتاب شناسی امام رضا(ع) میں اور ہادی ربانی نے خلاصہ کتاب شناسی امام رضاؑ میں جمع کرکے متعارف کرایا ہے۔
کتاب شناسی امام رضا(ع) نامی کتاب میں ایک ہزار سے زائد کتابیں 16 ابواب میں ذکر ہوئی ہیں۔ 14ویں باب میں اردو، ترکی، جرمن، انگریزی، فرانسیسی اور تھائی جیسی غیر ملکی زبانوں سے ترجمہ شدہ کتابوں کا تعارف کرایا گیا ہے۔[134] امام رضاؑ کے بارے میں لکھی جانے والی بعض مستقل کتابیں درج ذیل ہیں:
- مُسنَدُ الاِمامِ الرِّضا اَبی الْحسن علیِّ بن موسی علیہماالسّلام: اس کتاب میں امام رضاؑ کے بارے میں محدثین اور اصحاب ائمہ سے مختلف کتابوں میں جو کچھ نقل ہوا ہے اسے عزیز اللہ عطاردی نے مرتب کیا ہے۔ اس کتاب کے کچھ مندرجات حسب ذیل ہیں: امام رضاؑ کے القاب، آپ کی امامت، عملی زندگی، اخلاقی فضائل، مدینہ سے خراسان تک کا سفر، آپ کی زیارت کے فضائل، بچوں، بھائیوں، خاندان اور اصحاب کے نام اور جو کرامات آپ کے حرم میں واقع ہوئی ہیں۔؛[135]
- اَلحیاةُ السّیاسیةُ لِلْامامِ الرّضا(ع)، مؤلف، سید جعفر مرتضی عاملی: اس کتاب کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے؛
- اَلامامُ الرِّضا علیہ السلام؛ تاریخٌ و دراسةٌ، مؤلف، سید محمدجواد فضل اللہ جس کا فارسی میں ترجمہ ہوچکا ہے؛
- حیاةُ الْامام علیِّ بنِ موسَی الرِّضا(ع)؛ دراسةٌ و تحلیلٌ، باقر شریف قَرَشی کی کتاب: اس کتاب کا فارسی اور انگریزی میں ترجمہ ہوچکا ہے؛
- اَلاِمامُ الرِّضا(ع) عِندَ اَہلِ السُّنّہ: اس کتاب کو محمد محسن طبسی نے لکھا ہے جس کا فارسی، انگریزی اور اردو میں ترجمہ ہوچکا ہے؛
- حکمت نامہ رضوی، 14 جلدیں: محمد محمدی ری شہری نے محققین کے ایک گروہ کے تعاون سے لکھا ہے؛
- فرازہایی از زندگانی امام رضا(ع)، بقلم محمدرضا حکیمی؛ جس کا انگریزی، روسی، ترکی اور مالے میں ترجمہ کیا گیا ہے۔؛[136]
- صیحفۂ رضویۂ جامعہ، جسے سید محمد باقر ابطحی نے لکھا ہے، جس کا انگریزی، اردو اور ترکی میں ترجمہ کیا گیا ہے؛[137]
- سیرۂ علمی و عملی امام رضا(ع)، تألیف عباسعلی زارعی سبزواری؛
- دانشنامہ امام رضا(ع) (امام رضاؑ انسائیکلو پیڈیا)، جو جامعةُ الْمصطفی الْعالَمیہ، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی و بنیاد بین المللی فرہنگی ہنری امام رضا(ع) کے تعاون سے دو جلدوں میں شائع ہو چکا ہے۔[138]
متعلقہ مضامین
مزید مطالعہ
- التحفۃ الرضويۃ، سید اولاد حیدر فوق بلگرامی
حوالہ جات
- ↑ عاملی، الحیاة السیاسیة للامام الرضا، 1403ق، ص139.
- ↑ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ق، ج1، ص14، 16. طبرسی، اعلام الوری، ج2، ص40.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، 1403ق، ج2، ص12-13.
- ↑ فضل اللہ، تحلیلی از زندگانی امام رضاؑ، 1377ہجری شمسی، ص43.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، 1403ق، ج2، ص12.
- ↑ عاملی، الحیاة السیاسیة للامام الرضا، 1403ق، ص139-140.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، 1403ق، ج2، ص13.
- ↑ طبرسی، اعلام الوری، 1417ق، ج2، ص64-65.
- ↑ ملاحظہ کریں: میرآقایی، «ضامن آہو و تجلی آن در شعر فارسی،» ص11-13.
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج99، ص55.
- ↑ ناجی ادریس، «لماذا اشتہر الامام الرضا(ع) بغریب الغرباء»، وبگاہ خبرگزاری براثا.
- ↑ امینی، الغدیر، 1416ق، ج4، ص100.
- ↑ دہخدا، لغتنامۂ دہخدا، ذیل واژۂ «ثامن الائمہ».
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، 1403ق، ج2، ص13.
- ↑ سیوطی، تاریخ الخلفاء، 1417ق، ص363.
- ↑ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ق، ج1، ص13.
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج49، ص3.
- ↑ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ق، ج1، ص21.
- ↑ قرشی، حیاة الامام الرضا، 1380ش، ج1، ص25.
- ↑ ابن شہرآشوب، مناقب، 1379ق، ج4، ص366.
- ↑ طبری، دلائل الامامہ، 1413ق، ص359.
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص492؛ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص273.
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص492.
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص492؛ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص273.
- ↑ سیوطی، تاریخ الخلفاء، 1417ق، ص363؛ ابن شہرآشوب، مناقب، 1379ق، ج4، ص367؛ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ق، ج2، ص147.
- ↑ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ق، ج2، ص147.
- ↑ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ق، ج2، ص250؛ شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص271؛ ابن شہرآشوب، مناقب، 1379ق، ج4، ص367؛ طبرسی، اعلام الوری، 1417ق، ج2، ص86.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، 1403ق، ج2، ص13.
- ↑ مستوفی، نزہةالقلوب، 1381ش، ص100.
- ↑ کیاء گیلانی، سراج الانساب، 1409ق، ص179.
- ↑ مدرسی طباطبایی، برگی از تاریخ قزوین، 1361ش، ص12.
- ↑ شوشتری، تواریخ النبی و الآل، 1391ق، ص65.
- ↑ سجادی، «آستانۂ حضرت معصومہ»، ص358.
- ↑ فاضل مقداد، ارشاد الطالبین، 1405ق، ص337.
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص311-319.
- ↑ شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص247-253.
- ↑ طبرسی، اعلام الوری، 1417ق، ج2، ص43-52.
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج49، ص11-28.
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص312.
- ↑ بقرہ، آیہ 30.
- ↑ شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص249.
- ↑ ناجی، «الرضا، امام».
- ↑ کلینی، کافی، 1407ق، ج8، ص257-258.
- ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص427-428.
- ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص429.
- ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص427.
- ↑ افتخاری، امام رضا(ع)، مأمون و موضوع ولایتعہدی، 1398ش، ص104؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ(ع)، 1387ش، ص430.
- ↑ سیدِ مرتضی، تنزیہ الانبیا(ع)، 1377ش، ص179؛ طوسی، تلخیص الشافی، 1382ش، ج4، ص206.
- ↑ باغستانی، «الرضا، امام (ولایتعہدی)»، ص83.
- ↑ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص259-260؛ شیخ صدوق، امالی، 1376ش، ص69-70.
- ↑ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ق، ج2، ص170.
- ↑ عاملی، الحیاة السیاسیة للامام الرضا(ع)، 1403ق، ص226.
- ↑ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ق، ج2، ص170.
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دارصادر، ج2، ص448.
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دارصادر، ج2، ص448.
- ↑ رفیعی، زندگانی امام رضا(ع)، پژوہشکدہ تحقیقات اسلامی، ص198-199.
- ↑ صدوق، التوحید، 1398ق، ص25؛ صدوق، معانی الاخبار، 1403ق، ص371؛ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ق، ج2، ص135؛ طوسی، الامالی، 1414ق، ص589.
- ↑ آملی، مصباح الہدی، 1380ق، ج6، ص221.
- ↑ آملی، مصباح الہدی، 1380ق، ج6، ص221.
- ↑ صدوق، معانی الاخبار، 1403ق، ص371؛ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ق، ج2، ص135.
- ↑ کلینی، کافی، 1407، ج1، ص489-490؛ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ق، ج2، ص150-151.
- ↑ کلینی، کافی، 1407، ج1، ص489؛ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ق، ج2، ص150.
- ↑ کلینی، کافی، 1407، ج1، ص489-490؛ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ق، ج2، ص150-151.
- ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص443.
- ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1381ش، ص459.
- ↑ جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، 1387ش، ص219.
- ↑ جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، 1387ش، ص219.
- ↑ جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، 1387ش، ص219-220.
- ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ،1381ش، ص463.
- ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1381ش، ص463-467.
- ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1381ش، ص463.
- ↑ عاملی، الحیاة السیاسیہ للامام الرضا، 1403ق، ص422.
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دارصادر، ج2، ص451.
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دارصادر، ج2، ص453.
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، 1413ق، ج7، ص610.
- ↑ مفید، تصحیح اعتقادات الامامیہ، 1414ق، ص132.
- ↑ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص270.
- ↑ صدوق،عیون اخبار الرضا، 1378ق، ص243.
- ↑ صدوق،عیون اخبار الرضا، 1378ق، ص240.
- ↑ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ق، ص246.
- ↑ عاملی، الصحیح من سیرة النبی الأعظم، 1426ق، ج33، ص182.
- ↑ صدوق، الاعتقادات، 1413ق، ص99.
- ↑ جعفریان، اطلس شیعہ، 1387، ص93.
- ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص459.
- ↑ جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، 1387ش، ص228.
- ↑ یاحقی، «رضا(ع) امام».
- ↑ شیخ طوسی، رجال الطوسی، 1415ق، ص351-370.
- ↑ ملاحظہ کریں: عطاردی، مسند الامام الرضا، 1413ق، ص509؛ قرشی، حیاة الامام علی بن موسی الرضا، 1380ش، ج2، ص86-180.
- ↑ نجف، الجامع لِرُواة اصحاب الامام الرضا، 1407ق. ص571.
- ↑ ملاحظہ کریں: طوسی، رجال الطوسی، 1415ق، ص351-370.
- ↑ کشی، رجال الکشی، 1409ش، ص556.
- ↑ فضل اللہ، تحلیلی از زندگانی امام رضا(ع)، 1382ش، ص191.
- ↑ فضل اللہ، تحلیلی از زندگانی امام رضا(ع)، 1382ش، ص196-197.
- ↑ فضل اللہ، تحلیلی از زندگانی امام رضا(ع)، 1382ش، ص187.
- ↑ فضل اللہ، تحلیلی از زندگانی امام رضا(ع)، 1382ش، ص197-198.
- ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص450.
- ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص442.
- ↑ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ق، ج1، ص131-133؛ صدوق، توحید، 1398ق، ص250-252؛ کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص78-79؛ طبرسی، الاحتجاج، 1403ق، ج2، ص396-397.
- ↑ طبرسی، الاحتجاج، 1403ق، ج2، ص401-404؛ صدوق، توحید، 1398ق، 441-454؛ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ق، ج1، ص179-191.
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص130-131؛ صدوق، توحید، 1398ق، ص110-111؛ طبرسی، الاحتجاج، 1403ق، ج2، ص405-408.
- ↑ صدوق، توحید، 1398ق، ص417-441؛ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ق، ج1، ص154-175؛ طبرسی، الاحتجاج، 1403ق، ج2، ص415-425.
- ↑ صدوق، توحید، 1398ق، ص417-441؛ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ق، ج1، ص154-175؛ طبرسی، الاحتجاج، 1403ق، ج2، ص415-425.
- ↑ صدوق، توحید، 1398ق، ص419؛ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ق، ج1، ص167-168؛ طبرسی، الاحتجاج، 1403ق، ج2، ص424.
- ↑ صدوق، توحید، 1398ق، ص417-441؛ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ق، ج1، ص154-175؛ طبرسی، الاحتجاج، 1403ق، ج2، ص415-425.
- ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص442.
- ↑ ملاحظہ کریں: عسقلانی، تہذیب التہذیب، دارصادر، ج7، ص389.
- ↑ ملاحظہ کریں: عسقلانی، تہذیب التہذیب، دارصادر، ج7، ص387.
- ↑ یافعی، مرآةالجنان، 1417ق، ج2، ص10.
- ↑ جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، 1387ش، ص230.
- ↑ ابن حبان، الثقات، 1402ق، ج8، ص457.
- ↑ عسقلانی، تہذیب التہذیب، دار صادر، ج7، ص388.
- ↑ ملاحظہ کریں: احمدی بیرجندی و نقوی زادہ، مدایح رضوی در شعر فارسی، 1377ش؛ «شعر دربارہ امام رضا/ گزیدہ شعرہای بسیار زیبا در وصف علی بن موسی الرضا»، باشگاہ خبرنگاران جوان؛ «سرودہ ہایی در مدح امام رضا(ع)»، وبگاہ خبرگزاری تسنیم.
- ↑ احمدی بیرجندی و نقوی زادہ، مدایح رضوی در شعر فارسی، 1377ش، ص16 و28.
- ↑ احمدی بیرجندی و نقوی زادہ، مدایح رضوی در شعر فارسی، 1377ش، مقدمہ، ص16.
- ↑ احمدی بیرجندی و نقوی زادہ، مدایح رضوی در شعر فارسی، 1377ش، مقدمہ، ص16 و19.
- ↑ «حسان: شعر «آمدم ای شاہ پناہم بدہ» زبان حال مادرم است»، وبگاہ خبرگزاری فارس.
- ↑ موسی آبادی و دیگران، «جلوہ ہای تمثیل و ارسال مَثَل در شعر سید اشرف الدین گیلانی»، ص140.
- ↑ زینلی، «امام رضا(ع)، بہ روایت کتاب ہا»، خبرگزاری جمہوری اسلامی.
- ↑ شفایی و بہروزلک، «ہنر ہفتم و فرہنگ رضوی؛ ہمسویی ہا و تعاملات»، ص110-111.
- ↑ «مجید مجیدی: یا ضامن آہو شاہکاری مستند دربارہ امام رضاست»، وبگاہ ایرنا.
- ↑ شفایی و بہروزلک، «ہنر ہفتم و فرہنگ رضوی؛ ہمسویی ہا و تعاملات»، ص110-111.
- ↑ «فرہنگ رضوی در آینہ سینما/ شوق زیارت از یا ضامن آہو تا بدون قرار قبلی»، وبگاہ ایرنا.
- ↑ «فرہنگ رضوی در آینہ سینما/ شوق زیارت از یا ضامن آہو تا بدون قرار قبلی»، وبگاہ ایرنا.
- ↑ «در ہر دو اثر عنایاتی از سوی امام رضا(ع) داشتہ ام»، پایگاہ خبری-تحلیلی قدس آنلاین.
- ↑ «فرہنگ رضوی در آینہ سینما/ شوق زیارت از یا ضامن آہو تا بدون قرار قبلی»، وبگاہ ایرنا.
- ↑ «فرہنگ رضوی در آینہ سینما/ شوق زیارت از یا ضامن آہو تا بدون قرار قبلی»، وبگاہ ایرنا.
- ↑ «فرہنگ رضوی در آینہ سینما/ شوق زیارت از یا ضامن آہو تا بدون قرار قبلی»، وبگاہ ایرنا.
- ↑ «استاد فرشچیان: چہرہ امام رضا(ع) را دیدم و نقاشی کردم»، وبگاہ خبرگزاری جوان آنلاین.
- ↑ مجموعہ آثار نخستین کنگرہ جہانی حضرت رضا(ع)، 1365ش، ص5.
- ↑ مجموعہ آثار نخستین کنگرہ جہانی حضرت رضا(ع)، 1365ش، ص5-11.
- ↑ مجموعہ آثار نخستین کنگرہ جہانی حضرت رضا(ع)، 1365ش، ص5.
- ↑ «آشنایی مختصر با جشنوارہ بین المللی فرہنگی و ہنری امام رضا(علیہ السلام)»، وبگاہ بنیاد بین المللی فرہنگی ہنری امام رضا.
- ↑ «آشنایی مختصر با جشنوارہ بین المللی فرہنگی و ہنری امام رضا(علیہ السلام)»، وبگاہ بنیاد بین المللی فرہنگی ہنری امام رضا.
- ↑ حبیبی، کتاب شناسی امام رضا(ع)، 1392ش، مقدمہ، ص9.
- ↑ ملاحظہ کریں: عطاردی قوچانی، مسند الامام الرضا ابی الحسن علی بن موسی علیہماالسلام.
- ↑ «ترجمہ کتاب محمدرضا حکیمی دربارہ زندگی امام رضا(ع) بہ 4 زبان»، وبگاہ خبرگزاری تسنیم.
- ↑ «ترجمہ کتاب محمدرضا حکیمی دربارہ زندگی امام رضا(ع) بہ 4 زبان»، وبگاہ خبرگزاری تسنیم.
- ↑ «دانشنامہ امام رضا(ع)»، وبگاہ خبرگزاری رضوی.
مآخذ
- «آشنایی مختصر با جشنوارۂ بین المللی فرہنگی و ہنری امام رضا(علیہ السلام)»، وبگاہ بنیاد بین المللی فرہنگی ہنری امام رضا، تاریخ مشاہدہ: 27 خرداد 1403ہجری شمسی۔
- آملی، محمدتقی، مصباح الہدی فی شرح العروة الوثقی، بی جا، 1384ھ۔
- ابن حبان، اَلثِّقات، حیدرآباد، مطبعة مجلس دائرة المعارف العثمانیة، 1402ھ۔
- ابن شہرآشوب مازندرانی، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب علیہم السلام، قم، علامہ، چاپ اول، 1379ھ۔
- ابن قولویہ، جعفر بن محمد، کامل الزّیارات، تصحیح و تحقیق عبدالحسین امینی، نجف، دارالمرتضویہ، چاپ اول، 1356.
- احمدی بیرجندی، احمد و علی نقوی زادہ، مدایح رضوی در شعر فارسی، مشہد، آستان قدس رضوی، بنیاد پژوہش ہای اسلامی، چاپ سوم، 1377ہجری شمسی۔
- «استاد فرشچیان: چہرۂ امام رضا(ع) را دیدم و نقاشی کردم»، خبرگزاری جوان آنلاین، اشاعت: 1 آبان 1399ش، مشاہدہ: 27 خرداد 1400ہجری شمسی۔
- افتخاری، سید غنی، امام رضا(ع)، مأمون و موضوع ولایتعہدی، مشہد، بہ نشر، 1398ہجری شمسی۔
- امین، سید محسن، اَعیان الشّیعہ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1403ھ۔
- امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب والسنة، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیۃ، 1416ھ۔
- ناجی، محمدرضا، «الرضا، امام»، در دانشنامہ جہان اسلام، ج20، تہران، بنیاد دایرة المعارف اسلامی، 1394ہجری شمسی۔
- باغستانی، اسماعیل، «الرضا، امام (ولایتعہدی)»، در دانشنامہ جہان اسلام، ج20، تہران، بنیاد دایرة المعارف اسلامی، 1394ہجری شمسی۔
- «ترجمۂ کتاب محمدرضا حکیمی دربارۂ زندگی امام رضا بہ 4 زبان»، خبرگزاری تسنیم، اشاعت: 13 مرداد 1395ش، مشاہدہ: 24 خرداد 1400ہجری شمسی۔
- «دانشنامۂ امام رضا(ع)»، وبگاہ خبرگزاری رضوی، اشاعت: 17 دی 1397ش، مشاہدہ: 24 خرداد 1400ہجری شمسی۔
- «در ہر دو اثر عنایاتی از سوی امام رضا(ع) داشتہ ام»، پایگاہ خبری-تحلیلی قدس آنلاین، اشاعت: 15 تیر 1398ش، مشاہدہ: 28 خرداد 1400ہجری شمسی۔
- جعفریان، رسول، اطلس شیعہ، تہران، سازمان جغرافیایی نیروہای مسلح، 1387ہجری شمسی۔
- جعفریان، رسول، تاریخ تشیع در ایران از آغاز تا طلوع دورۂ صفوی، تہران، نشر علم، چاپ دوم، 1387ہجری شمسی۔
- جعفریان، رسول، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، قم، انصاریان، 1381ہجری شمسی۔
- حبیبی، سلمان، کتاب شناسی امام رضا(ع)، مشہد، آستان قدس رضوی، چاپ اول، 1392ہجری شمسی۔
- «حسان: شعر «آمدم ای شاہ پناہم بدہ» زبان حال مادرم است»، خبرگزاری فارس، اشاعت: 12 دی 1392ش، مشاہدہ: 27 خرداد 1400ہجری شمسی۔
- دہخدا، علی اکبر، لغتنامۂ دہخدا.
- رفیعی، علی، زندگانی امام رضا(ع)، تہران، پژوہشکدۂ تحقیقات اسلامی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی، بی تا.
- زینلی، منیرہ، «امام رضا(ع)، بہ روایت کتاب ہا»، خبرگزاری جمہوری اسلامی، اشاعت: 12 تیر 1399ش، مشاہدہ: 28 خرداد 1400ہجری شمسی۔
- سجادی، «آستانۂ حضرت معصومہ»، در دایرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج1، تہران، مرکز دایرةالمعارف بزرگ اسلامی، 1367ہجری شمسی۔
- «سرودہ ہایی در مدح امام رضا(ع)»، خبرگزاری تسنیم، اشاعت: 23 تیر 1398ش، مشاہدہ: 27 خرداد 1400ہجری شمسی۔
- سیدِ مرتضی، علی بن حسین، تنزیہ الانبیا(ع)، قم، دار الشریف الرضی، 1377ہجری شمسی۔
- سیوطی، عبدالرحمن بن ابی بکر، تاریخ الخلفاء، تحقیق ابراہیم صالح، بیروت، دارصادر، چاپ اول، 1417ھ۔
- «شعر دربارۂ امام رضا/ گزیدۂ شعرہای بسیارزیبا در وصف علی بن موسی الرضا»، باشگاہ خبرنگاران جوان، اشاعت: 28 آبان 1396ش، مشاہدہ: 27 خرداد 1400ہجری شمسی۔
- شفایی، امان اللہ و غلامرضا بہروزلک، «ہنر ہفتم و فرہنگ رضوی؛ ہمسویی ہا و تعاملات»، فصلنامۂ رسانہ، شمارۂ 81، بہار 1389ہجری شمسی۔
- شوشتری، محمدتقی، تواریخ النبی و الآل، تہران، 1391ھ۔
- صدوق، محمد بن علی، اَلتّوحید، تحقیق و تصحیح ہاشم حسینی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعۂ مدرسین حوزۂ علمیۂ قم، چاپ اول، 1398ھ۔
- صدوق، محمد بن علی، عُیونُ اَخبارِ الرِّضا، تحقیق و تصحیح مہدی لاجوردی، تہران، نشر جہان، چاپ اول، 1378ہجری شمسی۔
- صدوق، محمد بن علی، معانی الاخبار، تصحیح علی اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول، 1403ھ۔
- طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج علی اہل اللجاج، تحقیق و تصحیح محمدباقر خرسان، مشہد، نشر مرتضی، چاپ اول، 1403ھ۔
- طبرسی، فضل بن الحسن، اِعلامُ الوَری بِاَعلامِ الہُدی، قم، مؤسسۂ آل البیت لاِحیاء التراث، 1417ھ۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، بیروت، مؤسسۂ عزالدین، 1413ھ۔
- طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامہ، قم، 1413ھ۔
- طوسی، محمد بن حسن، تلخیص الشّافی، قم، محبین، 1382ہجری شمسی۔
- طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، قم، مؤسسۂ نشر اسلامی، چاپ اول، 1415ھ۔
- عاملی، سید جعفر مرتضی، الحیاة السیاسیة للامام الرضا (ع)؛ دراسةٌ و تحلیلٌ، قم، جامعۂ مدرسین حوزۂ علمیۂ قم، 1403ھ۔
- عسقلانی، ابن حجر، تہذیب التّہذیب، بیروت، دارصادر، بی تا.
- عطاردی قوچانی، عزیزاللہ، مُسندُ الامامِ الرّضا(ع) ابی الحسن علی بن موسی، بیروت، دارالصَّفْوَة، 1413ھ۔
- «فرہنگ رضوی در آینۂ سینما/ شوق زیارت از یا ضامن آہو تا بدون قرار قبلی»، وبگاہ ایرنا. تاریخ درج: 21 خرداد 1401ش، تاریخ مشاہدہ: 5 تیر 1402ہجری شمسی۔
- فضل اللہ، محمدجواد، تحلیلی از زندگانی امام رضا (ع)، ترجمۂ محمدصادق عارف، مشہد، آستان قدس رضوی، 1382ہجری شمسی۔
- قرشی، باقر شریف، حیاة الامام علی بن موسی الرضا (ع)؛ دراسةٌ و تحلیلٌ، قم، 1380ہجری شمسی۔
- قمی، حسن بن محمد، تاریخ قم، تصحیح جلال الدین تہرانی، تہران، توس، بی تا.
- کَشّی، محمد بن عمر، رجال الکشی، مشہد، نشر دانشگاہ مشہد، چاپ اول، 1409ہجری شمسی۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، 1407ق.
- کیاء گیلانی، احمد بن محمد، سِراج الاَنساب، تصحیح مہدی رجایی، قم، کتابخانہ عمومی آیت اللہ مرعشی نجفی، چاپ اول، 1409ھ۔
- مجلسی، محمدباقر، بِحارُ الاَنوارِ الجامعة لِدُرَرِ اَخبارِ الاَئمةِ الاَطہار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
- مجموعہ آثار نخستین کنگرہ جہانی حضرت رضا(ع)، مشہد، کنگرہ جہانی حضرت رضا(ع)، 1365ہجری شمسی۔
- «مجید مجیدی: یا ضامن آہو شاہکاری مستند دربارۂ امام رضاست»، وبگاہ ایرنا. تاریخ درج: 5 خرداد 1402ش، تاریخ مشاہدہ: 5 تیر 1402ہجری شمسی۔
- مدرسی طباطبایی، حسین، برگی از تاریخ قزوین، قم، کتابخانۂ عمومی آیت اللہ مرعشی نجفی، 1361ہجری شمسی۔
- مستوفی، حمداللہ بن ابی بکر، نُزہةالقلوب، تحقیق محمد دبیرسیاقی، قزوین، حدیث امروز، چاپ اول، 1381ہجری شمسی۔
- مفید، محمد بن محمد، اَلاِرشاد فی معرفةِ حُجَجِ اللہِ علی العباد، تحقیق و تصحیح مؤسسۂ آل البیت، قم، کنگرۂ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
- مفید، محمد بن محمد، تصحیحُ اعتقاداتِ الاِمامیہ، تصحیح و تحقیق حسین درگاہی، قم، کنگرۂ شیخ مفید، چاپ دوم، 1414ھ۔
- موسی آبادی، رضا و دیگران، «جلوہ ہای تمثیل و ارسال مَثَل در شعر سید اشرف الدین گیلانی»، در تحقیقات تمثیلی در زبان و ادب فارسی، دورۂ 9، زمستان 1396ش، شمارہ 34.
- میر آقایی، سید ہادی، «ضامن آہو و تجلی آن در شعر فارسی»، در فرہنگ مردم، شمارۂ 43 و 44، 1391ہجری شمسی۔
- ناجی ادریس، مسعود، «لماذا اشتہر الامام الرضا(ع) بغریب الغرباء»، وبگاہ خبرگزاری براثا، تاریخ اشاعت: 6 تیر 1401ش، تاریخ مشاہدہ: 9 خرداد 1402ہجری شمسی۔
- نجف، محمد مہدی، اَلجامع لِرُواة و اصحابِ الامام الرضا(ع)، مشہد، المؤتمر العالمی للامام الرضا علیہ السلام، چاپ اول، 1407ھ۔
- یاحقی، محمدجعفر، «رضا(ع) امام»، در دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج4، تہران، مرکز دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی.
- یافعی، عبد اللہ بن اسعد، مرآة الجنان و عبرة الیقضان فی معرفة ما یعتبر من حوادث الزمان، بیروت، دار الکتب العلمیة، 1417ھ۔
- یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دارصادر، بی تا.
بیرونی روابط
معصوم نہم: امام موسی کاظم علیہ السلام |
14 معصومین امام علی رضا علیہ السلام |
معصوم یازدہم: امام محمد تقی علیہ السلام |