رجال الطوسی (کتاب)

ویکی شیعہ سے
رجال الطوسی
مشخصات
مصنفشیخ طوسی
موضوععلم رجال
تعداد جلد1
طباعت اور اشاعت
ناشرمنشورات الرضی
مقام اشاعتقم




رجال طوسی، الابواب کے نام سے مشہور علم رجال میں شیعوں کی اصلی کتابوں میں سے ہے جسے شیخ طوسی(460ھ) نے سنہ 423 سے 436ھ کے درمیان تحریر کیا ہے۔ مصنف نے پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کے اصحاب کا ان کے زمانے کی ترتیب سے تعارف کیا ہے۔ اس کتاب میں شیخ طوسی کا طریقہ علم رجال کی دوسری کتابوں جیسے شیخ طوسی کی اپنی کتاب الفہرست اور رجال نجاشی کے طریقے سے مختلف ہے؛ مصنف نے اس کتاب میں صحابہ، امام علیؑ اور امام حسنؑ وغیرہ سے روایت کرنے والے راویوں کو حروف تہجی کی ترتیب سے ذکر کیا ہے اور کتاب کے آخر میں ان راویوں کا نام ذکر کیا ہے جنہوں نے کسی بھی امام سے روایت نقل نہیں کی ہے۔ یہ کتاب 13 ابواب پر مشتمل ہے جس میں 6429 راویوں کا تذکرہ کیا ہے۔

مصنف

محمد بن حسن بن علی بن حسن (385ھ-460ھ) جو کہ شیخ طوسی اور شیخ الطائفہ (اپنی قوم یا شیعوں کی بزرگ شخصیت) کے نام سے مشہور ہیں شیعہ بلند پایہ محدثین اور فقہاء میں سے ہیں۔ آپ دو مشہور کتابوں التہذیب اور الاستبصار کے مصنف بھی ہیں جو شیعوں کی چار معتبر حدیثی کتابوں میں شامل ہیں۔ 23 سال کی عمر میں خراسان سے عراق چلے گئے اور شیخ مفید، سید مرتضی اور دیگر برجستہ اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ خلافت بنی عباسی میں بغداد میں علم کلام کی کرسی آپ کے سپرد کی گئی۔ جب کتابخانہ شاپور کو آپ لگا دی گئی تو شیخ طوسی نجف اشرف چلے گئے اور وہاں پر حوزہ علمیہ نجف اشرف کی بنیاد رکھی۔ شیخ طوسی سید مرتضی کے بعد شیعہ مذہب کے زعیم منتخب ہوئے۔

آپ کی فقہی نظریات اور کتابیں جیسے نہایہ، الخلاف اور المبسوط وغیرہ شیعہ فقہاء کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ التبیان آپ کی اہم تفسیری کتاب ہے۔ شیخ طوسی اسلامی علوم کے دیگر شعبوں جیسے رجال، کلام اور اصول فقہ میں بھی صاحب نظر تھے اور ان علوم میں بھی آپ کی کتابیں متعلقہ علوم میں مرجع کی حیثیت رکھتی تھیں۔ آپ نے شیعہ اجتہاد میں ایک بڑی تبدیلی کا آغاز کیا اور اجتہاد کے فروعات کو وسعت بخشی اور اہل سنّت اجتہاد کے مقابلے میں اسے استقلال عطا کیا۔

کتاب کا نام

مصنف نے اپنی دوسری کتاب الفہرست[1] میں اس کتاب کو الرجال کے نام سے یاد کیا ہے۔ رجال نجاشی[2] میں بھی اس کتاب کو اسی نام سے ذکر کیا ہے۔ متاخر منابع میں بھی اس کتاب سے اسی نام کے ساتھ مطالب ذکر کئے ہیں۔[3] ابن طاووس[4] اور ان کے بعد علامہ حلی[5] نے اس کتاب کو "اسماء الرجال" کے نام سے یاد کیا ہے البتہ یہ نام خود اسی کتاب میں شیخ طوسی کے مقدمے سے اخذ کیا ہے[6] لیکن دقیق نہیں ہے۔ علامہ بحرالعلوم[7] نے اس کتاب کا نام "الابواب" اور بغدادی[8] نے "الابواب علی طبقات الاصحاب" ذکر کیا ہے، اگرچہ یہ کتاب ابواب کے تحت مرتب کی گئی ہے اس کے باوجود اس کتاب کو اس نام سے یاد کرنے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

تاریخ تصنیف

کتاب رجال طوسی کی تصنیف کی صحیح تاریخ مشخص نہیں ہے، لیکن سید مرتضی (متوفی 436ھ) کی حالات زندگی میں جو کہ اس کتاب کے آخری باب[9] میں واقع ہے اور اس میں سید مرتضی کی توفیق اور طول عمر کے لئے دعا کی گئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب سید مرتضی کی حیات میں تحریر کی گئی ہے۔[10] اسی طرح چونکہ اس کتاب میں احمد بن عبدون (متوفی423ھ) کی تاریخ وفات ذکر ہوئی ہے[11] یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کتاب کی تصنیف سنہ 423 سے 436ھ کے درمیان ہوئی ہے۔ اسی طرح اس کتاب کے آخری باب کے اصلی مصادر میں سے ایک شیخ طوسی کی دوسری کتاب الفہرست ہے اور اس باب میں مذکورہ کتاب کا نام کئی دفعہ لیا گیا ہے اسی طرح اس کتاب میں اصحاب الکاظمؑ[12] کا ذکر آیا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ کتاب، کتاب الفہرست کے بعد تحریر کی گئی ہے۔

مضامین

رجال طوسی میں پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ میں سے ہر ایک کے اصحاب کے لئے الگ الگ ابواب مختص کی گئی ہے اور آخری باب ان راویوں کے ساتھ مختص ہے جو عصر غیبت امام زمانہؑ یا ائمہؑ کے معاصر تھے لیکن ائمہ معصومینؑ سے کوئی حدیث نقل نہیں کی ہیں۔ رجال طوسی حروف تہجی کی ترتیب سے مرتب کی گئی ہے اور ہر باب میں بھی اس کے فرعی ابواب کو اسی ترتیب سے مرتب کیا گیا ہے۔ اس کے بعد کنیتوں کے ابواب اور پھر باب النساء کی باری آتی ہے۔ امام صادقؑ کے راویوں کے باب میں باب النساء سے پہلے «باب مَن لم یسم» کے نام سے بھی ایک باب ہے جو مبہم راویوں کے سے مختص ہے۔[13] مصنف نے کتاب کے مقدمے میں تصریح کی ہے کہ: اگرچہ کوشش کی گئی ہے کہ ائمہ معصومینؑ کے تمام راویوں کی حالات زندگی اس کتاب میں درج کروں لیکن تعداد زیادہ ہونے نیز مشرق و مغرب تک پراکندہ ہونے کی وجہ سے یہ کام امکان پذیر نہیں ہو سکا پھر بھی امید ہے جن راویوں کا نام نہیں لیا گیا ہے ان کی تعداد بہت تھوڑے ہونگے۔[14]

کتاب کے مقدمے اور مضامین کی چھان بین سے معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ معصومینؑ سے نقل حدیث کی حیثیت کے علاوہ اس کتاب میں مذکور راویوں کی کسی اور خصوصیات کا تذکرہ نہیں کیا گیا ہے۔ اس بنا پر اہل سنت اور شیعہ، نیز شیعہ امامی اور دیگر فرق شیعہ، اسی طرح مؤمن و منافق اور ثقہ و غیر ثقہ سب ایک ساتھ ترتیب سے ذکر ہوئے۔[15] نام امیر المومنین حضرت علیؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ کا نام پیغمبر اکرمؐ کے اصحاب اور ہر امام کے والد ماجد کے راویوں کے باب میں بھی ذکر ہوا ہے۔ اصحاب پیغمبر میں سلمان، مقداد، ابوذر، ابوبکر ، عمر، عثمان، معاویہ اور عمرو عاص کا نام درج کیا گیا ہے۔

امیر المومنین حضرت علیؑ کے راویوں کے باب میں سلمان، مقداد، ابوذر اور عمار کا نام ارکان اربعہ کے نام سے زیادبن عبید، عبداللہ بن وہب راسبی، رئیس خوارج اور عبداللہ بن سبا[16] کے نام کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے راویوں کے باب میں منصور دوانیقی، ابوالجارود زیادبن مروان، موسس مذہب جارودیہ، حسن بن صالح بن حی، موسس مذہب صالحیہ زیدیہ، ابوحنیفہ نعمان بن ثابت، مالک بن انس اور سفیان بن سعید ثوری اور دیگر اہل سنت برجستہ فقہاء کا نام اکثر اوقات ان کے مذاہب کا نام لئے بغیر ذکر کیا گیا ہے۔[17] اسی طرح کوئی ایسی قرائن و شواہد موجود نہیں ہے جس سے پتہ چلے کہ شیخ طوسی غیر امامیہ راویوں کی نشاندہی کرنے کا ارادہ رکھتا تھا اس بنا پر جن کے بارے میں غیر امامی ہونے کی تصریح نہیں ہوئی ہے وہ ان کے امامی ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی۔[18]

ایڈیشن

رجال طوسی کی دو مشہور ایڈیشن محمد صادق آل بحرالعلوم[19] کی تصحیح اور جواد قیومی اصفہانی کی تحقیق کے ساتھ نشر ہوئی ہے۔[20] پہلی ایڈیشن میں راویوں کی تعداد 6417 جبکہ دوسری ایڈیشن میں 6429 نفر ہے؛ لیکن اس بات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ان دو ایڈیشنوں میں موجود افراد کی تعداد معتبر خطی نسخوں میں موجود افراد کی تعداد سے مختلف ہے۔ دستیاب سب سے قدیمی‌ نسخے میں[21] افراد کی تعداد کم ہے اور ایک اعداد شمار کے مطابق ان کی تعداد 6347 نفر ہیں۔[22] اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ اس کتاب کے خطی نسخے کے حاشیے[23] پر بھی بہت سارے نام درج ہیں جن میں سے بہت سوں کا نام اصل کتاب کے متن میں موجود نہیں ہے اب یہ اسامی خود شیخ طوسی کے توسط سے اضافہ ہوئے ہیں یا کسی اور کے توسط سے معلوم نہیں ہے۔[24]

اس کتاب کے بارے میں بحث

رجال شیخ طوسی کے بارے میں ایک قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس میں بعض راویوں کا نام تکرا ہوا ہے۔ مثلا جو اشخاص ایک سے زیادہ اماموں کے اصحاب میں شامل ہیں ان کا نام ہر ایک امام کے باب میں درج ہوا ہے، مثلا جابربن عبداللہ انصاری کا نام چھ ابواب میں آیا ہے۔[25] دوسرا نکتہ‌ اس کتاب کے بارے میں یہ ہے کہ بعض اوقات ایک راوی کا نام ایک ہی باب میں بھی تکرار ہوا ہے جو اس کتاب میں راویوں کے ناموں میں مکمل ترتیب موجود نہ ہونے کی علامت ہے۔ البتہ بعض صاحب‌ نظر حضرات نے اس حوالے سے کچھ وضاحتیں بھی دی ہیں۔[26]

مصنف کے مآخذ

رجال ابن عقدہ واجد مآخذ ہے جس سے استفادہ کرنے کے بارے میں شیخ طوسی نے تصریح کی ہے۔[27] اس کی علاوہ اس کتاب کے دیگر مآخذ میں رجال برقی ہے جس سے اصحاب امام باقر سے اصحاب امام حسن عسکری کے باب میں استفادہ کیا ہے۔[28] اصحاب پیغمبر اکرمؐ کے باب میں شیخ طوسی نے ابن عقدہ سے نقل کیا ہے[29] جو شاید ان کی تاریخی کتاب سے نقل کیا ہے۔[30] اس باب میں بغوی سے بھی مطالب نقل کئے ہیں،[31] بخاری[32]، احمد بن حنبل[33] اور محمد بن اسحاق[34] سے بھی نقل ہوا ہے جو شاید مستقیم یا غیر مستقیم ان کی کتابوں سے اخذ کیا گیا ہے۔

اصحاب امام علیؑ کے باب میں بعض مطالب کشی سے نقل کر کے اس پر تنقید کی گئی ہے[35] جو شاید ان کی اصل رجالی کتاب سے نقل کیا ہے۔[36] اسی باب[37] اور اصحاب امام حسن مجتبیؑ کے باب میں عبداللہ اشعری[38] سے ایک مطلب نقل کیا ہے جو شاید اس کی کتاب طبقات الشیعہ سے لیا گیا ہے،[39] اگرچہ اصحاب امام رضاؑ کے باب میں بھی ایک مطلب اس سے نقل ہوا ہے[40] جو ظاہرا رجال برقی سے لیا گیا ہے۔[41] اصحاب امام باقرؑ کے باب میں علی بن حسن بن فضال سے ایک مطلب نقل ہوا ہے[42] جو شاید ان کی رجالی کتاب سے لیا گیا ہے۔

اصحاب امام جوادؑ کے باب میں فضل بن شاذان سے ایک مطلب نقل ہوا ہے[43] اسی طرح امام ہادیؑ اور امام حسن عسکریؑ کے باب میں نقل ہونے والے بعض مطالب ظاہرا رجال کشی سے لیا گیا ہے۔[44] اصحاب امام ہادیؑ کے باب میں ایک مطلب ذکر ہوا ہے[45] جس سے ملتا جلتا کلام ابن ندیم کی کتاب فہرست میں[46] دیکھا جا سکتا ہے۔[47] اصحاب امام حسن عسکریؑ کے بابے میں ایک مطلب ابن قولویہ سے نقل کر کی اس پر تنقید کی گئی ہے۔[48]

حوالہ جات

  1. ص 448، نیز ص210.
  2. ص 17.
  3. ابن طاووس، فرج المہموم، ص121، 132، محقق حلی،1364 ش،جلد 1،ص 413،ہمو،1412،ج2،ص204،ابن داود حلی،ستون 1،3 علامہ حلی1417،ص197،ہمو 1419-1413،جلد 1، ص147.
  4. (فلاح السائل، ص14)
  5. محمد باقر مجلسی، 1403، ج 104، ص135.
  6. ص 17.
  7. جلد 3، ص231.
  8. ج 2، ستون 72.
  9. ص 434.
  10. شبیری، 1370ش، ص160.
  11. ص 413
  12. ص 335
  13. ص 326.
  14. ص 17.
  15. ثقہ الاسلام تبریزی، ج 1، ص85، شوشتری، ج1، ص29، کلباسی، ج1، ص149.
  16. با این توضیح: الذی رجع الی الکفر و اظہر الغلو- کشی، ص106، 108، شوشتری، جلد 6، ص367.
  17. (مثلا، ص220 و 302)
  18. قس مامقانی، ج3، ص48، 53، 63، 72، 74، 76، 78، کہ غالبا از این افراد با وصف«امامی مجہول» یاد می‌کند.
  19. نجف 1381.
  20. قم 1415.
  21. تاریخ کتابت: 21 رجب 533 بہ خط محمد بن سراہنگ- طوسی رجال، ص16، تصویر نسخہ خطی.
  22. شبیری، 1370ش، ص165.
  23. تاریخ کتابت: 3 شوال 1026.
  24. نیازمند منبع
  25. ص31، 59، 93، 99، 111، 129.
  26. نیازمند منبع
  27. طوسی، رجال، ص17.
  28. شبیری زنجانی، ج2،، ص53، برای جزییات نسبت رجال طوسی با رجال برقی- شبیری 1370ش، ص199.
  29. ص 48، ش388 و 395.
  30. طوسی، فہرست، ص68.
  31. ص 24.
  32. چند بار از جملہ ص25 و بہ تصحیف بخاری بہ الغارات در ص28ش 92
  33. ص 32.
  34. ص 33.
  35. ص 81.
  36. طوسی، فہرست، ص381، شوشتری، ج 8، ص617.
  37. ص 68
  38. ص96، نیز ص106، شوشتری، ج 12، ص313.
  39. نجاشی، ص431، 436.
  40. ص 351.
  41. شبیری، 1370ش، ص209.
  42. ص 127.
  43. ص 379،ش 5619.
  44. ص 386،ش 5682، قس نجاشی، ص44 و ص398ش 5838، قس نجاشی، ص45.
  45. ص 386 ش5690.
  46. ج1، جزء 2، ص689.
  47. نیز طوسی، فہرست، ص183 بنقل از ابن ندیم و کشی.
  48. ص 389،ش 5845، قس فہرست، ص109.

نوٹ

مآخذ

  • منبع اصلی: سید جواد شبیری زنجانی، دانشنامہ جہان اسلام، جلد 19، مدخل رجال شیخ طوسی، تہران 1393ہجری شمسی۔
  • طوسی،الاستبصار،چاپ حسن موسوی خراسان، تہران 1390ہجری شمسی۔
  • طوسی، تہذیب الاحکام، چائ حسن موسوی خراسان، قم 1394ہجری شمسی۔
  • طوسی، تلخیص شافی، چاپ حسین بحرالعلوم، قم، 1401ھ۔
  • طوسی، رجال شیخ طوسی چاپ جواد قیومی اصفہانی، قم، 1415ھ۔
  • طوسی، فہرست کتب شیعہ و اصولہم و اسماء المصنفین و اصحاب الاصول، چاپ عبدالعزیز طباطبایی، قم 1420ھ۔
  • مامقانی عبداللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، چاپ محی الدین مامقانی، قم، 1423ھ۔
  • محمدبن باقربن محمد تقی مجلسی، بحارالانوار، بیروت، 1403ھ۔
  • شوشتری، حسن بن زین العابدین، صاحب معالم، التحریری طاووسی، چاپ فاضل جواہری، قم، 1411ھ۔
  • نجاشی، حسین بن محمد تقی نوری، خاتمہ مستدرک الوسایل، قم، 1415-1420ھ۔
  • محمد جواد شبیری زنجانی، ارتباط رجال شیخ و رجال برقی، در مجموعہ آثار سومین کنگرہ جہانی حضرت رضا(ع)، 1368ہش،ج2، مشہد، کنگرہ جہانی حضرت رضا، 1370ہجری شمسی۔