اصحاب اجماع

ویکی شیعہ سے
اصحاب اجماع

اصحاب امام باقرؑ
1. زُرارَۃ بن اَعین
2. مَعروفِ بنِ خَرَّبوذ
3. بُرَید بن معاویہ
4. ابوبصیر اَسَدی یا (ابوبصیر مرادی)
5. فُضَیل بن یسار
6. محمد بن مُسلِم

اصحاب امام صادقؑ
1. جَمیل بن دَرّاج
2. عبداللہ بن مُسکان
3. عبداللہ بن بُکَیر
4. حَمّاد بن عثمان
5. حماد بن عیسی
6. اَبان بن عثمان

اصحاب امام کاظمؑ و امام رضاؑ
1. یونس بن عبد الرحمن
2. صَفوان بن یحیی
3. اِبن اَبی عُمَیر
4. عبداللہ بن مُغَیرِہ
5. حسن بن محبوب یا (حسن بن علی بن فَضّال، فَضالَۃ بن ایوب و عثمان بن عیسی)
6. احمد بن ابی نصر بزنطی

اَصْحاب اِجْماع، علم رجال میں شیعوں کی ایک اصطلاح ہے جس سے مراد راویوں کا ایک ایسا گروہ ہے جن پر علم رجال کے ماہرین کو نہایت وثوق اور بھروسہ ہو۔ مشہور کے مطابق ان کی تعداد اٹھارہ ہیں جن میں امام محمد باقرؑ سے لے کر امام رضاؑ تک کے اصحاب شامل ہیں۔ علم رجال کے تمام علماء انہیں قابل بھروسہ سمجھتے ہوئے ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ البتہ ان پر کس قدر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟ اس حوالے علماء کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ اس بنا پر خود ان افراد اور جن سے ان افراد نے حدیث نقل کی ہیں، ان پر بھروسہ کرنے کے درجات میں تفاوت پایا جاتا ہے۔

وجہ تسمیہ

کَشّی نے اپنی کتاب میں تین جگہوں پر (امام باقرؑ؛ امام صادقؑ اور امام كاظمؑ و امام رضاؑ کے اصحاب کا نام لیتے وقت) بعض برجستہ راویوں کا نام لیتے ہوئے شیعہ علماء کی طرف سے ان افراد کی نقل کردہ احادیث کے صحیح ہونے پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔ مثلا امام صادقؑ کے بعض اصحاب کے بارے میں کہتے ہیں: "جن احادیث کو ان افراد نے صحیح قرار دیا ہے ان کے صحیح ہونے پر امامیہ کا اجماع ہے۔[یادداشت 1]۔[1] چونکہ کَشّی نے ان کی توصیف میں "اجماع" کا لفظ لایا ہے اسی بنا پر انہیں اصحاب اجماع کہا جانے لگا۔[2]

اصحاب اجماع کا مقام

اصحاب اجماع میں شامل افراد پر تمام شیعہ علماء بھروسہ کرتے ہیں۔ البتہ ان پر کس قدر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟ اس حوالے سے مختلف نظریات موجود ہیں اسی طرح خود ان افراد کو قابل بھروسہ سمجھنے اور جن شخصیات سے انہوں نے حدیث نقل کی ہیں انہیں قابل اعتماد سمجھنے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ان نظریات کو تین قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں:

  1. سلسہ سند میں موجود تمام راویوں کا قابل بھروسہ ہونا: بعض علماء کا دعویٰ ہے کہ جس کسی حدیث کے سلسلہ سند میں ان افراد میں سے کوئی ایک شامل ہو تو حتی اگر یہ حدیث مرسلہ ہی کیوں نہ ہو اس حدیث کو مقبولہ ہی مانا جائے گا۔ بعض علماء نے اس سے بھی ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے جس سلسلہ سند میں ان افراد میں سے کوئی ایک شامل ہو اس میں موجود تمام راویوں کو قابل اعتماد اور قابل بھروسہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے اس بات کے اوپر یہ دلیل قائم کی ہے: "اصحاب اجماع کسی سے بھی حدیث نقل نہیں کرتے مگر یہ کہ وہ شخص قابل بھروسہ اور بااعتماد ہو"۔ آیت اللہ خویی اس ادعا کو رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان افراد نے کئی مواقع پر ضعیث افراد سے بھی حدیث نقل کی ہیں۔[3]
  • ان سے منقول تمام احادیث کا قابل بھروسہ ہونا: بعض علماء نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ جس حدیث کے سلسلہ سند میں ان افراد میں سے کوئی ایک شامل ہو اور وہ سلسلہ سند بھی کامل ہو یہاں تک کہ اس سلسلہ سند میں کوئی فاسق آدمی ہی کیوں نہ ہو وہ حدیث موثق شمار ہو گی۔ صاحب وسائل نے وسائل الشیعہ کے آخر میں ساتویں فائدے کے اوائل میں بھی اسی نظریہ کو قبول کیا ہے۔ اسی طرح سید بحرالعلوم نے الدرۃ النجفیۃ میں ابن ابی عمیر کے ذیل میں بھی اس نظریے کو قبول کیا ہے۔[4]
  • صرف خود اصحاب اجماع کا قابل بھروسہ ہونا: آیت اللہ خوئی سمیت بعض علماء معتقد ہیں کہ جس بات پر اجماع قائل ہوئی ہے وہ خود ان افراد کا قابل بھروسہ ہونا اس معنی میں کہ یہ افراد جھوٹ نہیں بولتے اور نہایت قابل اعتماد ہیں۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے ان افراد کی طرف نسبت دی جانے والی تمام احادیث، مقبولہ ہوں یہاں تک کہ اگر ان کے سلسلہ سند میں کوئی فاسق شخص ہی کیوں نہ ہو۔[5]

اصحاب اجماع کے اصطلاح کی تاریخ

تاریخی اعتبار سے یہ اصطلاح تیسری یا چوتھی صدی میں وجود میں آئی اور مشہور شیعہ علم رجال کے ماہر کَشّی نے اپنی رجالی کتاب میں مختلف جگہوں پر اس اصطلاح کو استعمال کیا ہے۔

شیخ طوسی(متوفی ۴۶۰ق) نے عدۃ الاصول میں [6] اس اصطلاح(اصحاب اجماع) کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جہاں آپ فرماتے ہیں: " شیعہ علماء جن احادیث کو زرارہ، محمد بن مسلم، برید، ابوبصیر، فضیل بن یسار اور ان جیسے افراد کے ذریعے نقل ہونے والی احادیث پر عمل کرتے ہیں اور ان روایات کو ایسی احادیث پر ترجیح دیتے ہیں جن میں یہ خصوصیات موجود نہ ہو۔

اصحاب اجماع کی اصطلاح تقریبا چھٹی صدی سے علم رجال کے ماہرین کے درمیان رائج ہوئی ہے۔ ابن شہرآشوب، [7] علامہ حلی، [8] ابن داوود حلی، [9] اور ان کے بعد شہید اول[10] اور شہید ثانی[11] نے ایک اعتبار سے اس اجماع کا تذکرہ کیا ہے۔

شیخ بہایی (متوفی ۱۰۳۰ق.)[12] اصحاب اجماع پر خاص توجہ دیتے تھے اور یہ دعویٰ کرتے تھے کہ کسی بھی حدیث کا اصحاب اجماع سے منسوب جوامع حدیث میں موجود ہونا اس حدیث کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔ میر داماد نے بھی اس مطلب کو ذکر کیا ہے، [13] اور اصحاب اجماع کی احادیث کو صحیح یا کم از کم صحیح کے حکم میں قرار دیا ہے۔ شیخ بهائی نے کشی کی عبارت سے استنباط کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس گروہ میں موجود مرسلہ احادیث بھی صحیح کے حکم میں ہیں۔

اخباری علماء مانند محمد امین استرآبادی،[14] فیض کاشانی، [15] حسین بن شہاب الدین کرکی[16] اور حر عاملی[17] وغیرہ نے کتب اربعہ اور دوسری معتبر شیعہ حدیثی کتابوں میں موجود احادیث کے صحیح ہونے کے اپنے دعوے پر اسی اجماع اور اصحاب اجماع کے حدیث کے صحیح ہونے کے ذریعے دلیل لائے ہیں۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو متأخر علماء کا اس موضوع پر زیادہ تاکید کرنا شاید اخباریوں کے اس مسئلے پر زیادہ توجہ دینے کی وجہ سے ہو۔[18] متأخرین میں سے سید محمد باقر شفتی نے 1314 ہجری میں اس سلسلے میں ایک الگ اور مستقل رسالہ بھی تحریر کیا ہے۔[19]

اصحاب اجماع کے اسامی

منابع میں امام باقرؑ سے امام رضاؑ تک کے اصحاب میں سے 18 اصحاب کا نام بعنوان اصحاب اجماع ذکر کیا گیا ہے:

اصحاب امام باقرؑ

کَشّی نے امام باقرؑ کے اصحاب میں سے اصحاب اجماع کے درج ذیل ارکان کی معرفی کی ہیں:

البتہ کَشّی نے ابو بصیر اسدی کے نام کے ذیل میں لکھا ہے کہ بعض نے ابو بصیر اسدی (یحیی بن ابی‌القاسم اسدی) کی جگہ ابو بصیر مرادی کا نام ذکر کیا ہے جو حقیقت میں وہی لیث بن البختری ہے۔ دونوں ابو بصیر امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے اصحاب میں سے ہیں کبھی کبھار ان دونوں کے ناموں میں اشتباہ ہو جاتا ہے۔[21]

اصحاب امام صادقؑ

کشی کے مطابق امام صادقؑ کے اصحاب میں سے درج ذیل افراد اصحاب اجماع میں شامل ہیں:

امام کاظمؑ اور امام رضاؑ کے اصحاب

اصحاب اجماع میں امام کاظمؑ اور امام رضاؑ کے اصحاب میں سے درج ذیل افراد شامل ہیں:

کشی لکھتے ہیں کہ بعض شیعہ حسن بن محبوب کی جگہ حسن بن علی بن فَضّال، فَضالَۃ بن ایوب اور عثمان بن عیسی کا نام لیتے ہیں۔[24]

اصحاب اجماع کی تعداد

مشہور قول کی بنا پر اصحاب اجماع کی تعداد اٹھارہ ہے۔ لیکن مشہور کے مقابلے میں دو اور اقوال بھی اس حوالے سے موجود ہیں۔

ابن داود نے اپنی رجالی کتاب رجال ابن داوود میں کَشّی سے نقل کرتے ہوئے حمدان بن احمد کو بھی اصحاب اجماع میں اضافہ کیا ہے۔[25] یوں ابن داود اصحاب اجماع کی تعداد کو انیس قرار دیتے ہیں۔ لیکن رجال کشی کے موجودہ نسخوں میں "حمدان" اصحاب اجماع میں شامل نہیں ہے اس بنا پر محدث نوری نے یہ احتمال دیا ہے کہ شاید ابن داود کے پاس رجال کشی کا کوئی نسخہ موجود تھا جو ہم نہیں پہنچا ہے، خصوصا یہ کہ جو چیز رجال کشی سے ہم تک پہنچی ہے وہ اس کی اصلی کتاب کا ایک حصہ ہے اس بنا پر ممکن ہے اس کتاب کے اصلی نسخہ میں وہی چیز ہو جسے ابن داود نے نقل کیا ہے۔[26]

محدث نوری اصحاب اجماع کی تعداد کو ۲۲ یا ۲۳ افراد قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اگرچہ کشی نے اٹھارہ نفر کا نام لیا ہے لیکن اس سے ان کی مراد یہ نہیں تھی کہ اصحاب اجماع انہی اٹھارہ افراد میں منحصر ہے بلکہ وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ میرے نزدیک جن افراد کے بارے میں اجماع پایا جاتا ہے وہ یہ افراد ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شاید ایک اور اجماع بھی ہو جو ان کے نزدیک ثابت نہیں ہوا ہو۔ اسی طرح بعض نے ابو بصیر اسدی اور حسن بن محبوب کی جگہ بعض دیگر افراد کا نام لیا ہے ان کی مراد بھی یہ نہیں ہے کہ ان کے علاوہ کسی اور پر اجماع نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک اجماع کو کشی نے نقل کیا ہے اور دوسروں نے بعض اور افراد کو اس اجماع میں داخل کیا ہے، اس بنا پر دونوں گروہ کی باتوں کو قبول کیا جا سکتا ہے اور ان تمام افراد کو اس اجماع میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ محدث نوری مورد اختلاف تمام افراد (لیث بن البختري، الحسن بن فضال، فضالۃ بن ایوب، عثمان بن عیسی) کو مشہور کے قول کے ساتھ جمع کر کے ان کو بھی اجماع میں شامل کرتے ہیں۔[27]

مونوگراف

اصحاب اجماع کی اہمیت کے پیش نظر مختلف حدیثی اور رجالی کتابوں میں اس موضوع پر بحث و گفتگو کے ساتھ ساتھ اس موضوع پر مستقل کتابیں بھی تحریر کی گئی ہیں۔

نوٹ

  1. اجمتعت العصابۃ علی تصحیح ما یصح عنہم و تصدیقہم فیما یقولون

حوالہ جات

  1. اختيار معرفۃ الرجال، ج2، ص673 .
  2. شبیری زنجانی، بحث اجماع
  3. خویی، معجم رجال الحدیث، ج۱، ص ۵۹-۶۳
  4. خویی، معجم رجال الحدیث، ج۱، ص ۵۹-۶۳
  5. خویی، صفحہ 61.
  6. ص ۶۳
  7. 4/211، 280
  8. ص ۲۱-۲۲، مختلف جگہوں پر
  9. ص ۱۱، ۳۸۴، مختلف جگہوں پر
  10. نوری، ۳/۷۵۹
  11. 2/131
  12. ص ۲۶۹
  13. ص ۴۵- ۴۸
  14. ص ۱۸۱-۱۸۳
  15. الاصول...، ۵۶ - ۵۹، الوافی، ۱/۱۱، قس: ۱/۱۲
  16. ص ۸۸ - ۸۹
  17. 30/224، 245
  18. نوری، ۳/۷۵۸- ۷۵۹.
  19. آقابزرگ، ۲/۱۱۹-۱۲۰، ۴/۵۷.
  20. کشی، ص ۲۳۸.
  21. شبیری زنجانی، بحث اجماع
  22. ص ۳۷۵
  23. کشی، معرفہ الرجال، ص ۵۵۶.
  24. کشی، معرفہ الرجال، ص ۵۵۶.
  25. ابن داود، کتاب الرجال، منشورات الرضي، ص84.
  26. محی‌الدین الموسوی الغریفی، قواعد الحدیث، دار الأضواء بیروت چاپ 2، 1406ق، ص 40-41
  27. محی‌الدین الموسوی الغریفی، قواعد الحدیث، دار الأضواء بیروت چاپ 2، 1406ق، ص 40-41
  28. باقری بیدہندی، ناصر ، «اصحاب اجماع»، علوم حدیث شمارہ 6، 1376.

مآخذ

  • آقابزرگ، الذریعۃ؛ ابن داوود حلی، حسن، الرجال، بہ کوشش جلال الدین محدث ارموی، تہران، ۱۳۴۲ش.
  • ابن شہرآشوب، محمد، مناقب آل ابی طالب، بہ کوشش ہاشم رسولی محلاتی، قم، مکتبۃ الطباطبایی.
  • امین استرابادی، محمد، الفوائد المدنیۃ، تبریز، ۱۳۲۱ق.
  • باقری بیدہندی، ناصر ، «اصحاب اجماع»، علوم حدیث شمارہ 6، 1376.
  • حر عاملی، محمد، خاتمۃ تفصیل وسائل الشیعۃ، بہ کوشش محمدرضا حسینی جلالی، قم، ۱۴۱۲ق.
  • شہیدثانی، زین الدین، الروضۃ البہیۃ، چ سنگی، ایران، ۱۳۱۰ق.
  • شیخ بہایی، محمد، «‌مشرق الشمسین »، ہمراہ الوجیز، چ سنگی، تہران، ۱۳۱۹ق.
  • طوسی، محمد، عدۃ الاصول، چ سنگی، تہران، ۱۳۱۴ق.
  • علامۃ حلی، حسن، رجال، بہ کوشش محمد صادق بحرالعلوم، نجف، ۱۳۸۱ق / ۱۹۶۱م.
  • فیض کاشانی، محسن، الاصول الاصیلۃ، بہ کوشش جلال الدین محدث ارموی، تہران، ۱۳۴۹ش.
  • فیض کاشانی، الوافی، چ سنگی، ایران، ۱۳۲۴ق.
  • کرکی، حسین، ہدایۃ الابرار، بغداد، ۱۳۹۶ق.
  • کشی، محمد، معرفۃ الرجال، اختیار طوسی، بہ کوشش حسن مصطفوی، مشہد، ۱۳۴۸ش.
  • میرداماد، محمدباقر، الرواشح السماویۃ، قم، ۱۴۰۵ق.
  • نوری، حسین، مستدرک الوسائل، تہران، ۱۳۸۴ق.