مندرجات کا رخ کریں

محمود فرشچیان

ویکی شیعہ سے
(استاد فرشچیان سے رجوع مکرر)
محمود فرشچیان
مصور اور آرٹسٹ
کوائف
تاریخ پیدائش24 جنوری سنہ 1930ء
جائے پیدائشاصفهان
وفات8 اگست سنہ 2025ء
علمی معلومات
مادر علمیفنون لطیفہ اسکول اصفہان
اساتذہمیرزا آقا امامی اصفہانی
آثارضریح امام رضاؑ، ضریح امام حسینؑ کی ڈیزائن اور تعمیراتی نگرانی، عصر عاشورا، مولود کعبہ، شہادت حضرت علی‌ اصغر وغیرہ جیسے فن پاروں کی تخلیق
دیگر معلومات
ویب سائٹhttps://www.farshchianart.com/

محمود فرشچیان (1930-2025ء) ایران کے ایک شیعہ مشہور مصور اور آرٹسٹ ہیں جنہوں نے مذہبی موضوعات پر مبنی فن پارے تخلیق کیے، جن میں عصر عاشورا، یتیم نوازی امام علیؑ، شام غریباں، حضرت فاطمہ (س) کی گناہگاروں کی شفاعت، اور ضامن آہو شامل ہیں۔

انہوں نے ضریح امام رضاؑ اور ضریح امام حسینؐ کی ڈیزائننگ اور تعمیر کی نگرانی بھی کی۔ سنہ 1990 سے 2014ء تک، انہوں نے اپنے پندرہ فن پارے حرم امام رضاؑ کو ہدیہ کیے۔

فرشچیان کو اصفہان میں سپرد خاک کیا گیا۔

سوانح حیات

محمود فرشچیان 24 جنوری سنہ 1930ء کو اصفہان میں پیدا ہوئے۔[1] ان کے والد قالین کے تاجر تھے، جنہوں نے ان کے اندر مصوری کی صلاحیت کو پہچانتے ہوئے انہیں تعلیم کے لیے میرزا آقا امامی اصفہانی (وفات: 1955ء) کے پاس بھیجا۔[2] فرشچیان نے امامی کے ورکشاپ میں تیموریہ اور صفویہ ادوار کے فنون سے واقفیت حاصل کی۔[3]

انہوں نے سنہ 1945ء میں اصفہان کے "فائن آرٹس سکول" میں داخلہ لیا اور سنہ 1948ء میں ان کے ہنری آثار کی پہلی نمائش "انجمنِ ثقافتی ایران و انگلستان" میں منعقد کی گئی، جس میں اُن کی مشہور پینٹنگ "دوش دیدم کہ ملائک در میخانہ زدند" سمیت کئی آثار پیش کیے گئے۔[4]

فرشچیان نے سنہ 1950ء کو فائن آرٹس سکول سے گریجویشن مکمل کیا اور سنہ 1953ء میں یورپ کا سفر کیا، جہاں سات سال تک ویانا (آسٹریا) میں مغربی مصوروں کے فنون کا مطالعہ کرتے رہے۔[5] انہوں نے یورپی کلاسیکی مصوری کے اصولوں اور ایرانی روایتی مصوری کو یکجا کر کے ایک منفرد ہنری اسلوب قائم کیا۔[6]

سنہ 1960ء میں وہ ایران واپس آئے اور 1961ء میں تہران میں "جنرل ڈائریکٹوریٹ آف فائن آرٹس" میں کام کا آغاز کیا۔ انہوں نے "نیشنل آرٹس ڈیپارٹمنٹ" کے ڈائریکٹر اور تہران یونیورسٹی کے "فیکلٹی آف فائن آرٹس" میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دئے۔[7]

وفات

محمود فرشچیان 8 اگست سنہ 2025ء کو امریکہ میں وفات پا گئے۔[8] ان کی میت 27 مرداد کو تشییع کی گئی اور ان کی وصیت کے مطابق، اصفہان میں صائب تبریزی کے مزار کے پاس سپردِ خاک کی گئی۔[9]

ان کے انتقال پر وسیع پیمانے پر ردعمل دیکھنے میں آیا۔ اسلامی جمہوری ایران کے رہبرِ اعلی آیت اللہ خامنہ‌ای نے اپنے تعزیتی پیغام میں انہیں "ایرانی فن مصوری کے آسمان کا ایک درخشندہ ستارہ" قرار دیا، جنہوں نے اپنے فن کو دینی معارف کی خدمت میں وقف کیا۔[10]

اسی طرح حوزات علمیہ کے سربراہ علی رضا اعرافی[11] اور ایران کے وزیر ثقافت سید عباس صالحی[12] سمیت متعدد ثقافتی و فنی اداروں نے بھی ان کے انتقال پر تعزیت پیش کی۔[13]

مقام و خصوصیات

فرشچیان کو سنہ 2001ء میں ایرانی مصوری شعبے میں ایک نمایاں شخصیت کے طور پر تسلیم کیا گیا، اور سنہ 2004ء میں ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں یادگار ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا گیا۔[14] ان کے فن پارے ایرانی اور بین الاقوامی میوزیموں میں نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں، جن میں ایران قومی میوزیم، معاصر فنون میوزیم تہران، اور علم و صنعت میوزیم شیکاگو شامل ہیں۔[15] انہوں نے کئی اعزازات حاصل کیے، جن میں بیلجیم کے بین الاقوامی آرٹ فیسٹیول کا گولڈ میڈل اور ایران کا اعلیٰ ترین فنکارانہ نشان شامل ہیں۔[16]

کتاب نگار جاویدان کے مصنف رضائی نبرد کے مطابق فرشچیان ایک متدین، متعہد، اور اہل بیتؑ کے عاشق فنکار کے طور پر جانے جاتے تھے،[17] اور یہ صفات ان کی خاندانی تربیت اور استاد میرزا آقا امامی کی تعلیمات کا نتیجہ تھا۔[18] ان کی مذہبی وابستگی ان کے اخلاقی اور عرفانی موضوعات پر تخلیق کئے گئے فن پاروں جیسے "جدال با نفس و رستگاری" میں نمایاں نظر آتی ہے۔[19]

فرشچیان خدا پر ایمان کو اپنی کامیابی کی کنجی قرار دیتے تھے، ہمیشہ اپنے کام کا آغاز "ہو المصور" کے نام سے کرتے تھے، مصوری کو عبادت کی ایک قسم قرار دیتے تھے اور وضو کر کے قبلہ کی جانب رخ کر کے کام کرتے تھے۔[20] اپنی روحانی ترقی کا سہرا اپنے مذہبی گھرانے، خاص طور پر اپنی والدہ کی امام حسینؑ سے عقیدت کو دیتے تھے۔[21] کہا جاتا ہے کہ انہوں نے امام حسینؑ، امام رضاؑ اور عبد العظیم حسنی کے روضوں کی ضریح کی ڈیزائن اور تعمیر کے لیے کوئی معاوضہ قبول نہیں کیا۔[22]

« محمود فرشچیان:"حقیقت میں خدا ہی اصل مصور ہے۔ اصلی مجسمہ ساز خدا ہے۔ ہم کچھ نہیں کرتے۔ ہم صرف ایک لکیر کھینچتے ہیں، شاید اسی راستے میں واقعی ہم نے اللہ کی حمد و ثنا میں عبادت کی ہو، ورنہ ہم کہاں مصور اور خالق ہو سکتے ہیں؟ ہم نے کچھ تخلیق نہیں کیا! خالق وہی ہے۔"[23] »

مذہبی اور روحانی موضوعات پر فن پاروں کی تخلیق

فرشچیان نے کل 528 فن پارے تخلیق کیے، جن میں سے بتایا جاتا ہے کہ 42 فن پارے مذہبی موضوعات جیسے انبیاء، ائمہ معصومینؑ اور مذہبی تعلیمات پر مشتمل ہیں۔[24] ان کے کچھ مشہور فن پارے درج ذیل ہیں:

نمبر شمار عنوان اثر موضوع سنہ تخلیق محل تصویر
1 اولین پیام بعثت پیغمبر اکرمؐ 2000ء آستان قدس رضوی میوزیم[25]
2 مولود کعبہ خانہ کعبہ میں حضرت علیؑ کی ولادت 1995ء اپنے بھائی کا تصویری مجموعہ[26]

3 معراج/ آسمان چہارم پیغمبر اکرمؐ کی معراج کی تصویر کشی جس میں جبرئیل پروں کے جلنے کی وجہ سے اوپر نہیں جا سکتا 2013ء آستان قدس رضوی میوزیم[27]

4 غدیر واقعہ غدیر میں پیغمبر اکرمؐ کے توسط سے حضرت علیؑ کا ہاتھ بلند کرنا 2006ء اپنے بھائی کا تصویری مجموعہ[28]

5 پناہ حضرت علیؑ کی یتیم‌ نوازی 1977ء آستان قدس رضوی میوزیم
6 پرچم دار حق گھوڑے کی زین پر حضرت عباسؑ کا مجروح پیکر 2010ء آستان قدس رضوی میوزیم[29]

7 ہدیہ عشق حضرت علی‌ اصغرؑ کی شہادت کا منظر 2002ء آستان قدس رضوی میوزیم

8 عصر عاشورا عصر عاشور کو امام حسینؑ کی سواری کی خیموں کی طرف واپسی 1355ش آستان قدس رضوی میوزیم[30]

9 عرش بر زمین گودال قتلگاہ 1976ء آستان قدس رضوی میوزیم

10 شام غریبان روز عاشورا سنہ 61ھ کی شام 2015ء آستان قدس رضوی میوزیم[31]

11 امید ظہور منجی 1990ء استاد فرشچیان کا میوزیم/ کاخ موزہ سعدآباد[32]
12 شفاعت/ کوثر حضرت فاطمہ(س) کی گناہکاروں کی شفاعت کی منظر کشی 2007ء آستان قدس رضوی میوزیم[33]

ضریح کی ڈیزائن اور تعمیر

محمود فرشچیان:

"جتنا بھی کوئی فنکار اپنے وجود کے ظرف کو خالی سمجھے؛ یعنی غرور اور تکبر اس میں داخل نہ ہو، اور ہمیشہ سیکھنے کی تڑپ رکھے اور اللہ کی عنایت سے مدد طلب کرے، ہمیشہ اس کے کام میں روحانیت اور اخلاقی خوبیوں کا عکس ظاہر ہوتا ہے۔"

ضریح امام حسینؑ

فرشچیان نے سنہ 1385 ہجری شمسی میں امام حسینؑ کے چھٹے ضریح کی ڈیزائن تیار کرنے کی ذمہ داری قبول کی اور چھ ماہ کے اندر چھ مختلف خاکے پیش کیے۔[34] یہ خاکے بہار 1386 میں منظور ہوئے۔[35] ضریح کی تعمیر کا عمل 1387 سے قم میں شروع ہوا اور 1391 میں مکمل ہو کر حرم امام حسینؑ میں نصب کیا گیا۔[36]

ضریح امام رضاؑ

کتاب «نگار جاویدان؛ زندگی و آثار محمود فرشچیان»

کتاب نگار جاویدان؛ زندگی و آثار محمود فرشچیان کے مطابق، فرشچیان نے امام رضاؑ کے حرم کے پانچویں ضریح کی ڈیزائننگ اور تعمیر کی ذمہ داری سنبھالی، جسے ضریح سیمین و زرین بھی کہا جاتا ہے۔[37] کہا جاتا ہے کہ ان کا ڈیزائن ایرانی اور اسلامی روایات کی پاسداری کی وجہ سے متعدد ڈیزائنوں میں سے منتخب کیا گیا۔[38] ضریح کی تعمیر کا آغاز 1372 میں ہوا اور 1379 میں مکمل ہوا۔[39]

ضریح حضرت عبدالعظیم حسنیؑ

فرشچیان نے جو آخری ضریح ڈیزائن کیا وہ حضرت عبد العظیم حسنی کے حرم کی ضریح تھی۔[40] اس کی تعمیر کا منصوبہ 1390 میں شروع ہوا اور تولیتِ حرم کی نگرانی میں 1393 کے آغاز تک مکمل کیا گیا۔[41]

مونوگرافی

کتاب نگار جاویدان؛ زندگی و آثار استاد محمود فرشچیان، جو امیر رضائی نبرد کی تحریر ہے۔ اس کتاب میں فرشچیان کی زندگی، فن اور ان کے انداز کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔[42] یہ کتاب سید حسین نصر کے مقدمے کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔[43]

حوالہ جات

  1. رضائی نبرد، نگار جاویدان، 1395شمسی، ص504.
  2. رضائی نبرد، نگار جاویدان، 1395شمسی، ص504.
  3. کری ولشمسی، محمود فرشچیان: برگزیدہ آثار یونسکو، 2004م، ص172.
  4. رضائی نبرد، نگار جاویدان، 1395شمسی، ص504؛ «با شاہدان ایثار...»، ص86.
  5. «زندگینامہ محمود فرشچیان»، سایت فرہنگستان ہنر جمہوری اسلامی ایران.
  6. رضازادہ طامہ، «کلک خیال‌انگیز: استاد محمود فرشچیان»، ص204.
  7. رضائی نبرد، نگار جاویدان، 1395شمسی، ص504.
  8. «ادای احترام ایرانیان مقیم آمریکا بہ مرحوم استاد فرشچیان»، خبرگزاری جمہوری اسلامی.
  9. «پیکر استاد فرشجیان در جوار مقبرہ صائب تبریزی در اصفہان آرام گرفت»، سایت روزنامہ جمہوری اسلامی.
  10. «پیام تسلیت امام خامنہ‌ای در پی درگذشت استاد فرشچیان»، سایت خبرگزاری دفاع مقدس.
  11. «پیام تسلیت مدیر حوزہ‌ہای علمیہ در پی درگذشت استاد محمود فرشچیان»، سایت جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم.
  12. «دو پیام تسلیت برای درگذشت استاد محمود فرشچیان»، سایت خبرگزاری تسنیم.
  13. «پیام‌ہای تسلیتی کہ برای محمود فرشچیان مخابرہ شد»، خبرگزاری ایسنا.
  14. رضائی نبرد، نگار جاویدان، 1395شمسی، ص156.
  15. «استاد محمود فرشچیان» فرہنگستان ہنر جمہوری اسلامی ایران.
  16. «برگ‌ہایی از افتخارات»، فرشچیان.
  17. رضائی نبرد، نگار جاویدان، 1395شمسی، ص214.
  18. رضایی نبرد، نگار جاویدان، 1397شمسی، ص215.
  19. رضائی نبرد، نگار جاویدان، 1395شمسی، ص214-215.
  20. رضائی نبرد، نگار جاویدان، 1395شمسی، ص208.
  21. «با شاہدان ایثار...»، ص86.
  22. رضائی نبرد، نگار جاویدان، 1395شمسی، ص229.
  23. رضائی نبرد، نگار جاویدان، 1395شمسی، ص442.
  24. رضائی نبرد، نگار جاویدان، 1395شمسی، ص214.
  25. «گزارش تصویری/ آثار نفیس استاد فرشچیان در موزہ حرم امام رضا(ع)»، خبرگزاری رضوی.
  26. جوانی، «بررسی و تحليل موضوع و مضمون شيعی در نگارہ‌ہای محمود فرشچيان»، ص23 و 25.
  27. رضائی نبرد، نگار جاویدان، 1395شمسی، ص210؛ «گزارش تصویری/ آثار نفیس استاد فرشچیان در موزہ حرم امام رضا(ع)»، خبرگزاری رضوی.
  28. جوانی، «بررسی و تحليل موضوع و مضمون شيعی در نگارہ‌ہای محمود فرشچيان»، ص23 و 25.
  29. جوانی، «بررسی و تحلیل موضوع و مضمون شیعی در نگاہ‌ہای محمود فرشچیان»، ص23.
  30. رضائی نبرد، نگار جاویدان، 1395شمسی، ص228.
  31. «گزارش تصویری/ آثار نفیس استاد فرشچیان در موزہ حرم امام رضا(ع)»، خبرگزاری رضوی.
  32. جوانی، «بررسی و تحليل موضوع و مضمون شيعی در نگارہ‌ہای محمود فرشچيان»، ص23 و 25.
  33. «گزارش تصویری/ آثار نفیس استاد فرشچیان در موزہ حرم امام رضا(ع)»، خبرگزاری رضوی.
  34. رضائی نبرد، نگار جاویدان، 1395شمسی، ص251.
  35. رضائی نبرد، نگار جاویدان، 1395شمسی، ص251.
  36. فقیہ بحرالعلوم و خامہ‌یار، زیارتگاہ‌ہای عراق، سازمان حج و زیارت، ج1، ص174-175.
  37. رضائی نبرد، نگار جاویدان، 1395شمسی، ص247-248.
  38. سوہانیان حقیقی، نفایس حرم رضوی، 1401شمسی، ص22.
  39. رضائی نبرد، نگار جاویدان، 1395شمسی، ص247-248.
  40. رضائی نبرد، نگار جاویدان، 1395شمسی، ص252.
  41. رضائی نبرد، نگار جاویدان، 1395شمسی، ص252.
  42. «نگار جاویدان: زندگی و آثار استاد محمود فرشچیان»، خانہ کتاب و ادبیات ایران.
  43. رضائی نبرد، نگار جاویدان، 1395شمسی، ص5-7.

مآخذ