اللمعۃ الدمشقیہ (کتاب)

ویکی شیعہ سے
(اللمعۃ الدمشقیۃ سے رجوع مکرر)
اللمعۃ الدمشقیۃ
فائل:کتاب لمعہ.jpg
مقام اشاعتبیروت
زبانعربی
مجموعہ1 جلد
موضوعفقہ
ناشرالدار الاسلامیہ


اَللُّمعَۃ الدَّمِشقیۃ فی ِفقہ الامامیۃ، اللمعہ کے نام سے معروف، فقہ امامیہ کا ایک مکمل اور جامع مجموعہ ہے۔ یہ کتاب محمد بن مکی جزینی عاملی (734۔786 ھ) معروف بہ شہید اول کی تالیف ہے۔ یہ کتاب شہید اول کی مشہور ترین کتابوں میں سے ہے جو طہارت سے دیات تک کے ابواب پر مشتمل ہے۔ کتاب لمعہ اس کی شرح الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة تالیف شہید ثانی کے ساتھ شیعہ حوزات علمیہ میں تدریس ہوتی ہے۔

مولف کتاب

ابو عبد الله شمس الدین محمد بن مکی بن محمد شامی عاملی جزینی (734-786 ھ) شہید اول یا شیخ شہید کے نام سے مشہور، آٹھویں صدی ہجری کے شیعہ فقہاء میں سے ہیں۔ شہید اول مذاہب اہل سنت کی فقہ پر بھی تبحر رکھتے تھے۔ انہوں نے مختلف اسلامی ممالک کا سفر کیا اور وہاں سے اجازات بھی حاصل کئے۔ آخرکار سنہ 786 ھ میں مخالفین کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ [حوالہ درکار]


مقام و مرتبہ

کتاب اللمعہ الدمشقیہ مہم ترین فقہی مباحث کا ایک مکمل مجموعہ ہے۔ جو فقہ فتوائی کی صورت میں تدوین کی گئی ہے۔ اور اس میں کہیں کہیں نہایت مختصر طور پر استدلالی مباحث بھی دیکھنے میں آتے ہیں اور اختصار، روان تعابیر، نظم و ترتیب کی وجہ سے ایک خاص حیثیت کی حامل ہے۔ تالیف کے وقت سے ہی یہ کتاب فقہاء خاص توجہ کا مرکز قرار پائی ہے اور انہوں نے اپنی کتابوں میں اس سے استناد کیا ہے۔ آج یہ کتاب بھی شیعہ حوزہ علمیہ کے نصاب تعلیم میں شامل ہے۔[1]

تألیف کی روش

شیخ حر عاملی لکھتے ہیں:

شہید اول ایک سال تک قلعۂ شام میں قید تھے اور انہوں نے اسی دوران کتاب لمعہ کو سات دن کے عرصے میں تالیف کیا؛ حالانکہ ان کے پاس محقق اول کی کتاب مختصر النافع کے سوا دوسری کوئی بھی فقہی کتاب نہیں تھی۔[2]

شہید اول نے اس کتاب کے ہر باب کے آغاز میں اس باب کے خاص احکام بیان کئے ہیں، بعد از اں ان احکام سے متعلق مسائل، مستحبات اور مکروہات بیان کئے ہیں اور پھر جیسا کہ کتاب کے آخر میں مذکور ہے، انہوں نے مشہور فقہاء کی آراء بیان کئے ہیں۔

تألیف کا سبب

جیسا کہ کتاب کے آغاز میں مصنف کے خطبۂ اول میں مذکور ہے، انہوں نے یہ کتاب ان لوگوں کی درخواست پر لکھی ہے جن کا تذکرہ انہوں نے بعض الدیانین کے عنوان سے،[3] اور کتاب کے آخر میں بعض الطلاب کے عنوان سے کیا ہے۔[4] شہید ثانی شرح لمعہ میں لکھتے ہیں:

یہ کتاب خراسان کے سربداران کے سلسلے کے سلطان علی بن مؤید کی ایک قریبی شخصیت شمس الدین محمد آوی کی درخواست پر لکھی گئی ہے تا کہ یہ کتاب ان کی حکومت کے حکومتی و فقہی احکام کا مرجع ہو۔[5]

کتاب کے عناوین

کتاب لمعہ دمشقیہ کے مباحث و موضوعات چار حصوں عبادات، معاملات، ایقاعات اور احکام میں مرتب کئے گئے ہیں؛ اور یہ مباحث 52 کتابوں میں پیش کئے گئے ہيں جن کی ترتیب حسب ذیل ہے:

  1. کتاب الطہارۃ
  2. کتاب الصلاۃ
  3. کتاب الزکاۃ
  4. کتاب الخمس
  5. کتاب الصوم
  6. کتاب الاعتکاف
  7. کتاب الحج
  8. کتاب الجہاد
  9. کتاب الکفارات
  10. کتاب النذر و التوابع
  11. کتاب القضاء (احکام قضاوت)
  12. کتاب الشہادات (احکام شہادت)
  13. کتاب الوقف
  14. کتاب العطیہ
  15. کتاب المتاجر (احکام تجارت)
  16. کتاب الدَین (احکام قرض)
  17. کتاب الرہن
  18. کتاب الحَجْر
  19. کتاب الضمان
  20. کتاب الحوالۃ
  21. کتاب الکفالۃ
  22. کتاب الصلح
  23. کتاب الشرکۃ
  24. کتاب المضاربۃ
  25. متاب الودیعۃ
  26. کتاب العاریۃ
  27. کتاب المزارعۃ
  28. کتاب المساقاۃ
  29. کتاب الاجارۃ
  30. کتاب الوکالۃ
  31. کتاب الشُفعۃ
  32. کتاب السَبق و الرِمایۃ
  33. کتاب الجُعالۃ
  34. کتاب الوصایا
  35. کتاب النکاح
  36. کتاب الطلاق
  37. کتاب الخُلع و المُباراۃ
  38. کتاب الظہار
  39. کتاب الایلاء
  40. کتاب اللِعان
  41. کتاب العتق
  42. کتاب التدبیر والمکاتبۃ والاستیلاد
  43. کتاب الاقرار
  44. کتاب الغصب
  45. کتاب اللُقطۃ
  46. کتاب احیاء الموات
  47. کتاب الصید و الذبائح
  48. کتاب الاطعمۃ و الاشربۃ
  49. کتاب المیراث
  50. کتاب الحدود
  51. کتاب القصاص
  52. کتاب الدیات

کتاب طہارت سے کتاب جہاد تک عبادات کا حصہ ہے اور باقی حصے مختلط ہیں۔ کتاب شرکۃ سے کتاب نکاح تک معاملات کا حصہ ہے اور کتاب حدود سے قصاص، دیات، قضاء اور شہادت تک احکام کا حصہ ہے اور باقی کتابوں کا تعلق ایقاعات سے ہے۔

لمعہ کی شرحیں

لمعہ دمشقیہ پر لکھی جانے والی شہید ثانی کی تالیف شرح لمعہ

لمعہ کی شرحوں کو دو قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:۔ وہ جن کے مستقل عناوین اور نام ہیں اور بعض شرحوں اور حاشیوں کے عنوان سے مشہور ہوئی ہیں۔

مستقل ناموں کی حامل شرحیں

  1. الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیہ، تألیف: شہید ثانی (متوفٰی سنہ 966 ھ) جو لمعہ کی مشہور ترین شرح ہے۔
  2. توضیح المشکلات، تألیف: محمد شفیع بن محمد حسین (متوفی تیرہویں صدی ہجری)۔
  3. التحفۃ الغرویہ (شرح کتاب میراث)، تألیف: شیخ خضر بن سلال آل خدام عفکاوی (متوفٰی سنہ 1255 ھ)
  4. کشف النقاب، تألیف: مسیح بن محمد سعید تہرانی۔
  5. المذاہب القدسیہ، الأنوار الغرویہ، الشریعۃ النبویہ، تألیف: شیخ محمد جواد بن تقی المعروف بہ ملا کتاب احمدی (بقید حیات سنہ 1267 ھ)۔ اس کتاب کا تذکرہ مذکورہ تینوں ناموں سے ہوا ہے۔
  6. التحفۃ الرضویہ، تألیف: سید محمد بن معصوم رضوی مشہدی (متوفٰی سنہ 1255 ہجری)۔
  7. الخیارات، یہ کتاب بیع کے بعض مسائل کی مفصل شرح ہے۔ تألیف: علی بن جعفر کاشف الغطاء (متوفٰی سنہ 1353 ھ)۔
  8. الدرۃ الغریہ، تألیف: ملا عبد الکریم بن محمد باقر سلماسی (متوفٰی سنہ 1280 ھ)۔
  9. العدّۃ النجفیہ، تألیف: شیخ محمد طہ کے والد شیخ محمد رضا نجف۔
  10. الغرۃ الغرویہ، تألیف: ملا علی۔
  11. المنحۃ السنیہ، تألیف: سید محمد بن ہاشم ہندی (متوفٰی سنہ 1323 ھ)۔
  12. المواہب العلّیہ، تألیف: میرزا ابو تراب قزوینی حائری۔
  13. الدرۃ الحائریۃ، تألیف: علی نقی بن حسن طباطبائی (متوفٰی سنہ 1289 ھ)۔
  14. النجعۃ فی شرح اللمعہ، تألیف: محمد تقی شوشتری (متوفٰی سنہ 1416 ھ).[6]

بے نام شرحیں اور حواشی

  1. حاشیہ بر لمعہ، تألیف: بعض علماء، سنہ 932 ہجری۔
  2. شرح خطبۃ اللمعۃ الدمشقیہ، تألیف: شیخ احمد بن صالح آل طعانی بحرانی (متوفٰی سنہ 1315 ھ)۔
  3. شرح لمعہ، تألیف: سید حسن بن محمد باقر، ملقب بہ حاج آقا امیر (متوفٰی سنہ 1380 ھ)۔
  4. شرح لمعہ، تألیف: سید محمد رضا بن سید محمد مہدی بحر العلوم۔
  5. شرح لمعہ، تألیف: شیخ سلیمان بن احمد آل عبد الجبار قطیفی (متوفٰی سنہ 1270 ھ)۔
  6. شرح لمعہ، تألیف: شیخ علی بن حسین خنقانی۔
  7. شرح لمعہ، تألیف: سید علی بن ابی شبانہ بحرانی (متوفٰی سنہ 1121 ہجری)۔
  8. شرح لمعہ، تألیف: شیخ علی بن محمود طبسی (متوفٰی سنہ 1375 ہجری)۔
  9. شرح لمعہ، از شیخ معز الدین تونی۔
  10. شرح لمعہ، تألیف: آقا مہدی بن محمد ابراہیم کلباسی (متوفٰی سنہ 1292 ھ)۔
  11. شرح لمعہ، از میرزا علی بن محمد بن حسین سلطان العلماء حسینی۔
  12. شرح لمعہ، تألیف: سید محمد معروف بہ قیصر (متوفٰی سنہ 1255 ہجری)۔[7]

منظوم لمعہ

  1. التحفۃ القوامیہ، سید قوام الدین محمد بن محمد مہدی سیفی قزوینی۔[8]
  2. الہدایۃ المہدیۃ، عبد الکریم جرجانی (بقید حیات 1304 ہجری)۔
  3. لؤلؤ الأحکام و نخبۃ الأحکام، شیخ علی بن محمد جعفر شریعتمدار استر آبادی۔[9]
  4. کنز الدر الأیتام۔

نشر و اشاعت

کتاب لمعہ دمشقیہ بارہا زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے اور ان طباعتوں میں سے ایک عربی زبان میں اور دو جلدوں میں ہے جس کا ناشر بیروت کا مطبعہ دار العالم الاسلامی ہے۔

حوالہ جات

  1. گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، ص۲۳۳.
  2. حر عاملی، امل الآمل، ج1، ص183۔
  3. شہید اول، اللمعۃ الدمشقیۃ، ص13۔
  4. اللمعۃ الدمشقیۃ، ص269۔
  5. شہید ثانی، شرح اللمعۃ، ج1، ص238۔
  6. تهرانی، آقا بزرگ، الذریعہ، ج ۸، ۱۴، ۱۶، ۲۲ و ۲۳؛ امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعہ، ج ۴، ص۲۵۵.
  7. تهرانی، آقا بزرگ، الذریعہ، ج ۶، ۱۳ و ۱۴؛ امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعہ، ج ۱۰، ص۴۱.
  8. آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ج1، ص490۔ ج3، ص462۔
  9. آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ج24، ص92۔

مآخذ

  • طہرانی، آقا بزرگ، محمد محسن، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ۔
  • امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعۃ، بیروت، دار التعارف، بی تا۔
  • تہرانی، آقا بزرگ، الذریعۃ الی تصانیف الشیعہ، بیروت، دار الاضواء، 1403 ہجری۔
  • جبعی عاملی، زین الدین، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ، جامعۃ النجف الدینیۃ، چاپ اول: 1386 و چاپ دوم: 1398 ھ۔
  • مکی عاملی، محمد بن جمال الدین، اللمعۃ الدمشقیۃ، قم، دار الفکر، 1411 ہجری۔
  • شہید ثانی، شرح لمعہ۔
  • گرجی، ابو القاسم، تاریخ فقہ و فقہا۔