غزوہ ذی قرد

ویکی شیعہ سے
غزوہ ذی قرد
رسول خداؐ کے غزوات
منطقۂ ذو قرد
منطقۂ ذو قرد
تاریخجمادی الاول سنہ 6 ہجری
مقامذو قرد نامی تالاب
علل و اسبابغطفانیوں کی طرف سے رسول خداؐ کی اونٹنیوں کی چوری
قلمروحجاز
نتیجہدشمن بھاگ گیا کچھ اونٹنیاں اور ایک خاتون کو بازیاب کرایا گیا۔
فریق 1مسلمان
فریق 2غطفانی گھڑ سوار
سپہ سالار 1حضرت محمدؐ
سپہ سالار 2عیینہ بن حصن الفزاری
فوج 1500 تا 700 مجاہدین
فوج 240 گھڑ سوار
نقصان 12 یا 3 شہداء
نقصان 22


پیغمبر اکرمؐ کی مدنی زندگی
ہجرت نبوی 622ء بمطابق
معراج 622ء بمطابق
غزوہ بدر 624ء بمطابق 17 رمضان
امام علی اور حضرت فاطمہ کی شادی 624ء بمطابق یکم ذی الحجہ
بنی‌قینقاع کی شکست 624ء بمطابق 15 شوال
غزوہ احد 625ء بمطابق شوال
بنو نضیر کی شکست 625ء بمطابق
غزوہ احزاب 627ء بمطابق
بنو قریظہ کی شکست 627ء بمطابق
غزوہ بنی مصطلق 627ء بمطابق یا
صلح حدیبیہ 628ء بمطابق
غزوہ خیبر 628ء بمطابق
پہلا سفرِ حجّ 629ء بمطابق
جنگ مؤتہ 629ء بمطابق
فتح مکہ 630ء بمطابق
غزوہ حنین 630ء بمطابق
غزوہ طائف 630ء بمطابق
جزیرة العرب پر تسلط 631ء بمطابق
غزوہ تبوک 632ء بمطابق
حجۃ الوداع 632ء بمطابق 10ھ
واقعۂ غدیر خم 632ء بمطابق 10ھ
وفات 632ء بمطابق 11ھ

غزوہ ذی قَرَد جسے عربی میں: غ‍َزوَةُ ذِي قَرَد یا غزوةُ الغابۃ کہتے ہیں، رسول خداؐ کے غزوات میں سے ایک ہے جو ماہ جمادی الاول سنہ 6 ہجری میں عیینہ بن حصن فزاری کی سرکردگی میں غطفان کے سواروں اور مسلمانوں کے درمیان واقع ہے۔ اس معرکے میں دو مسلمان شہید اور دو غطفانی مشرکین ہلاک ہوئے۔

غابہ، ذو قرد اور بیضاء

یہ واقعہ وادی نقمی میں رونما ہوا جو مدینہ کے شمال مشرق میں 35 کلومیٹر اور ایک قول کے مطابق 12 کلومیٹر کے فاصلے پر جبل اسود کی حدود میں واقع ہے۔

رسول خداؐ کی اونٹنیوں کی چراگاہ کا نام الغابہ تھا اور یہ علاقہ آج الخلیل کہلاتا ہے جو حرم نبوی سے 6 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

غابہ مدینہ کے شمال مغرب میں واقع ہے؛ یہ ایک دلدلی علاقہ تھا جس میں گز نامی پودے اگتے تھے اور قدیم زمانے میں درختوں کی کثرت کی وجہ سے غابہ (= جنگل) کہلاتا تھا۔ اس علاقے کا نام بعض احادیث میں آیا ہے۔ "عبدالقدوس انصاری" اور ان کے ساتھیوں نے گذشتہ صدی ہجری میں اس کا دورہ کیا تھا اور وہاں چیتوں، ببر شیروں سمیت متعدد درندوں کے نشانات بھی دیکھے تھے۔ نے لکھا ہے کہ اس زبیر بن عوام نے اس علاقے کو خریدا اور اس میں ایک بڑا تالاب تعمیر کیا جو آج بھی تالاب زبیر کے نام سے مشہور ہے۔ اُس وقت صرف کچھ درخت اور جڑی بوٹیاں باقی تھیں باقی زمین کھیتیوں میں تبدیل ہوئی تھی ۔۔۔[1]۔[2]

ذو قرد ایک آب گاہ ہے جو سرزمین غطفان کے قریب واقع ہے۔[3]

ذو قرد مدینہ سے ایک روز کے فاصلے پر غطفان کے راستے میں واقع ہے نیز کہا گیا ہے کہ مدینہ سے دو روز کے فاصلے پر خیبر کے راستے پر واقع ہے۔[4]

ذو قرد ایک مقام ہے جو شام کی جانب سے، مدینہ اور خیبر کے درمیان اور مدینہ سے دو روز کے فاصلے پر واقع ہے۔[5]

منطقۂ بیضاء ربذہ کے قریب واقع ہے۔[6]

جنگ کا سبب

اس جنگ کا سبب یہ تھا کہ عیینہ بن حصن الفزاری نے ماہ جمادی الاول سنہ 6 ہجری میں دشمنان اسلام میں شمار ہونے والے قبیلۂ غطفان کے بعض سواروں کے ہمراہ رات کے وقت مدینہ کے نواح میں واقع غابہ نامی مقام پر رسول خداؐ کی دودھ دینے والی اونٹنیوں کے ساربان پر ـ جس کا تعلق بنو غفار سے تھا ـ (جو روایات کے مطابق ابو ذر غفاری کا بیٹا تھا ـ ہر حملہ کیا اور انہیں قتل کرکے ان کی زوجہ کو اسیر کرکے اور اونٹنیوں کو ہانک کر، نجد کی جانب بھاگ گیا۔

سلمہ بن اکوع نے دشمنوں کو دیکھ لیا جو "ثنیۃ الوداع" کے علاقے میں اونٹنیوں کو ہانک کر لے جا رہے تھے۔ چنانچہ اس انھوں نے سلع کی چوٹی سے اہل مدینہ کو مدد کے لئے بلایا جس کے نتیجے میں یہ واقعہ رونما ہوا۔[7]

غزوہ ذی قرد

سلمہ بن اکوع نامی مسلمان نے دشمنوں کو دیکھا اور کوہ سلع کی چوٹی پر پہنچ کر مسلمانوں کو اطلاع دی اور خود دشمن کے تعاقب میں روانہ ہوا اور تعاقب جاری رکھا حتی کہ مسلمین بھی ان سے جاملے۔ مسلمانوں نے اسیر مسلمہ خاتون اور بعض اونٹنیوں کو دشمن کے ہاتھوں سے چھڑا دیا۔ اس معرکے میں دو مسلمان شہید ہوئے اور دشمن کے دو آدمی ہلاک ہوئے اور باقی دشمن چند اونٹنیوں کو لے کر فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔

مروی ہے کہ پیغمبر خداؐ نے سب سے پہلے سلمہ بن اکوع کی فریاد سنی تھی چنانچہ آپؐ نے اصحاب کو بلایا اور دشمن کا تعاقب شروع کیا۔ مسلمین ذی قرد میں دشمن تک پہنچ گئے۔ جھڑپوں میں چند ایک مسلمان اور چند ایک کفار مارے گئے اور دشمن چند ایک اونٹنیوں کے ہمراہ قبیلہ غطفان کی پناہ میں چلے گئے۔[8]۔[9]

جعفر سبحانی غزوہ ذی قرد کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: رسول خداؐ کی مدینہ واپسی کے چند ہی روز بعد عیینہ بن حص الفزاری غطفان کے چند سواروں کے ہمراہ حملہ کرکے غابہ نامی مقام سے ـ جو مدینہ کے عوام کی چراگاہ سمجھا جاتا تھا ـ اونٹنیوں کو غارت کرکے لے گئے، ساربان کو قتل کیا اور ایک مسلمان خاتون کو اسیر کرکے لے گئے۔ سلمہ نے دیکھا اور سلع کی چوٹی سے مسلمانوں کو مدد کے لئے بلایا اور کہا: "وا صباحا" (یہ نعرہ عربوں کے ہاں مدد مانگنے کے لئے تھا)۔ سلمہ نے لٹیروں کا تعاقب کیا اور تیر اندازی کرکے ان کے فرار کا راستہ روکا۔ ادھر رسول خداؐ نے سب سے پہلے سلمہ کا استغاثہ سن لیا اور آپؐ نے بھی مدینہ میں مسلمانوں سے مدد مانگی۔ گھڑ سوار مسلمانوں کا ایک گروہ آپؐ کے پاس پہنچا اور آپؐ نے انہیں "سعد بن زید" کی قیادت میں لٹیروں کے تعاقب کے لئے روانہ کیا اور خود بھی ان کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے۔ مختصر سی لڑائی میں مسلمانوں میں سے 2 افراد شہید اور لٹیروں میں سے تین افراد ہلاک ہوئے۔ مسلمین زیادہ تر اونٹنیاں دشمن سے چھڑانے میں کامیاب ہوئے اور مسلمہ خاتون کو بھی نجات دلائی لیکن دشمن قبائل غطفان کی سرزمین کی طرف بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔

رسول خداؐ نے اس معرکے کے دوران نماز خوف ادا کی۔</ref>الواقدی، المغازی، ج2، ص546.</ref>

جنگ کا نتیجہ

مسلمانوں نے منطقۂ ذی قرد میں دشمنوں کو آلیا اور مختصر سی جنگ میں مسلمانوں اور کفار میں سے کئی افراد مارے گئے؛ مسلمانوں نے غارت شدہ اونٹنیوں اور اسیر خاتون کو بازیاب کرایا۔

مسلمان 5 روز مدینہ سے دور رہنے کے بعد مدینہ پلٹ آئے اور دشمن کے افراد غطفان کے قبائل کی پناہ میں چلے گئے۔ رسول خداؐ نے 70 کلومیٹر سے زیادہ راستہ طے کر ذو قرد تک ان کا تعاقب کیا مگر وہ ہاتھ سے نکل چکے تھے۔ آپؐ نے ذو قرد میں بھی ایک دن قیام کیا اور مدینہ واپس آئے۔

بعض اہم نکات

غیر شرعی نذر

مسلم خاتون جو رہائی پاسکی تھیں، رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپؐ کی ایک اونٹنی (= عضباء) کی طرف اشارہ کرکے کہا: جب دشمن مجھے اس اونٹنی کے ہمراہ لے کر جارہے تھے تو میں نے نذر مان لی کہ اگر میں دشمن کے ہاتھ سے رہائی پاؤں تو اس اونٹنی کو نحر کروں گی۔ رسول اللہؐ نے ایک ملیح تبسم کے ساتھ فرمایا: "تم نے کیا برا انعام اس اونٹنی کے لئے مقرر کیا! اس نے تمہیں نجات دلائی اور تم اس کو مارنا چاہتی ہو؟؛ بعدازاں آپؐ نے سنجیدگی سے فرمایا: "اگر کوئی نذر کسی معصیت اور گناہ پر مشتمل ہو یا کوئی شخص کسی ایسی چیز کی نذر مان لے جس کا وہ مالک نہ ہو، تو نذر صحیح نہیں ہے؛ اور تم نے ایسی اونٹنی کے نحر کرنے کی نذر مانی ہے جس کی تم مالکن نہیں ہو بلکہ اس کا مالک میں ہوں؛ إنّه لا نذر فی معصیة اللّه ولا فیما لا تملکین، إنّما هی ناقة من إبلی.(بتحقیق اللہ کی معصیت میں کوئی نذر نہیں ہے اور نہ ایسی چیز میں جس کی تم مالکن نہیں ہو، بے شک یہ میرے اونٹوں میں سے ایک اونٹنی ہے)۔[10]۔[11]۔[12] رسولی محلاتی لکھتے ہیں: "رسول اللہؐ نے تبسم کیا اور فرمایا: نذر ایسی چیز میں جائز نہیں ہے جس کی مالکن تم نہیں ہو، یہ اونٹنی میری ہے! جاؤ فی امان اللہ۔[13]۔[14]

ابو ذر غفاری اور پیغمبرؐ کی اونٹنیاں

الواقدی سلمہ بن اکوع سے نقل کرتا ہے: عیینہ نے سنہ مورخہ 3 ربیع الثانی سنہ 6 ہجری شب چہار شنبہ کو ہم پر حملہ کیا اور ہم چہارشنبہ کے دن رسول خداؐ کی قیادت میں اس کے تعاقب میں نکلے اور پنجشنبہ کو ہم مدینہ سے غائب تھے اور دوشنبہ کی شب کو مدینہ پلٹ آئے۔ پیغمبر خداؐ نے ان ایام میں ابن ام مکتوم کو مدینہ میں بطور جانشین مقرر کیا تھا۔۔۔ رسول خداؐ کی دودھ دینے والی اونٹنیوں کی تعداد 20 تھی۔ ان میں سے بعض غزوہ ذات الرقاع کے غنائم میں سے تھیں اور بعض ان غنائم میں سے تھیں جو محمد بن مسلمہ نجد سے لے کر آئے تھے۔ وہ منطقۂ بیضاء[15] اور اس کے اطراف میں چر رہی تھیں۔ اس علاقے کی چراگاہیں خشک ہوئیں چنانچہ ساربان اونٹنیوں کو چرنے کے لئے غابہ کے علاقے میں لے گئے جہاں کانٹے دار جڑی بوٹیوں اور گھاس کی کمی نہ تھی۔ ساربان ہر روز شام کے وقت اونٹنیوں کا دودھ لے کر مدینہ آیا کرتے تھے۔

ابو ذر [[رسول خداؐ سے درخواست کررہے تھے کہ انہیں اپنی اونٹنیوں کی دیکھ بھال کی اجازت دیں۔ آپؐ نے فرمایا: مجھے خدشہ ہے کہ اطراف سے تم پر حملہ آور ہوجائیں کیونکہ ہم عیینہ بن حصن اور اس کے رشتہ داروں سے امن محسوس نہیں کرتے اور ہمارا علاقہ ان کے مسکن کے قریب واقع ہوا ہے۔ ابوذر نے اصرار کیا تو آپؐ نے فرمایا: گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارا بیٹا قتل ہوچکا ہے اور تمہاری زوجہ کو اسیر بنایا گیا ہے اور تم اپنی عصا کے سہارے میرے پاس آئے ہو۔۔۔ ابو ذر کہتے ہیں: حیرت ہے کہ میں نے اصرار کیا اور خدا کی قسم! وہی ہوا جو رسول خداؐ نے فرمایا تھا۔[16]

جنگ خیبر کی تمہید

جنگ خیبر کے اہم ترین عوامل میں سے ایک یہی غزوہ ذی قرد اور قبیلہ غطفان کے سرغنے عیینہ بن حصن کا شہر مدینہ پر حملہ تھا۔ رسول خداؐ نے اس حملے سے آگہی پانے کے ساتھ ہی مدینہ کے شمال کی جانب لشکرکشی کی جہاں غابہ کے مقام پر (جو شام کی جانب سے مدینہ کے نواح میں واقع ہے)[17] ـ مال مویشیاں پالنے کا مقام تھا ـ دشمن کے ساتھ جنگ میں مصروف ہوئے اور مدینہ اور خیبر کے درمیان واقع ذو قرد کے علاقے تک ان کا تعاقب کیا۔ ذو قرد مدینہ سے دو روز کے فاصلے پر تھا۔[18] چنانچہ اس جنگ کو دو ناموں سے یاد کیا جاتا ہے: 1) غزوہ غابہ، اور 2) غزوہ ذی قرد۔

اس جنگ میں دو نکتے خاص طور پر قابل ذکر اور توجہ طلب ہیں:

اول یہ کہ مؤرخین نے رسول خداؐ کی اونٹیوں پر عیینہ بن حصن کے حملے کو آپؐ کی عزیمت کا سبب گردانا ہے لیکن اس عزیمت کا واحد سبب یہ نہیں تھا۔ گو کہ اونٹ ان ایام میں بہت اہم تھے اور پھر اونٹوں کی چوری مدینہ کے عے عوام کے لئے بد امنی کے اسباب فراہم کرنے کے مترادف تھی؛ لیکن جب اس پورے واقعے کے بغور مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دشمن کے سواروں کا خطرہ اس سے کہیں بڑھ کر تھا؛ وہ اونٹنیوں کی چوری پر اکتفا نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ ان کا ارادہ مدینہ پر حملہ کرنے کا تھا جس کی وجہ سے رسول خداؐ نے بنفس نفیس اس معرکے میں شرکت کی اور دشمن کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئے۔

ابن اسحاق کہتا ہے کہ یہ معرکہ ربیع الثانی سنہ 6 ہجری میں[19] جبکہ الواقدی کے بقول ربیع الثانی میں[20] اور ابن سعد کے بقول ربیع الاول سنہ 6 ہجری میں واقع ہوا۔[21] تاہم بعض دوسری روایات کے مطابق یہ معرکہ غزوہ خیبر سے چند ہی روز قبل انجام پایا۔ یہ سلمہ بن اکوع کی روایت ہے جس کو بخاری، مسلم، طبری، بیہقی، ابن اثیر اور ابن کثیر نے بھی تسلیم کیا ہے؛ سلمہ ذو قرد کی داستان نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: ہم نے اس معرکے کے بعد صرف تین دن تک مدینہ میں قیام کیا اور بعدازاں رسول اللہؐ کے ساتھ خیبر کی طرف روانہ ہوئے۔[22]۔[23]

لگتا ہے کہ یہ روایت بخاری سے قبل مؤرخین کے لئے دستیاب نہ تھی کیونکہ ہر ایک نے اس واقعے کے لئے ایک خاص تاریخ اور مہینے کا تذکرہ کیا ہے۔ اور پھر چونکہ اس معرکے کی زیادہ تر تفصیلات سلمہ بن اکوع نے نقل کی ہیں لہذا زیادہ صحیح اور بہتر یہی ہوگا کہ ان ہی کی بیان کردہ تاریخ کو قبول کیا جائے۔[24]۔[25]۔[26] چنانچہ کہنا چاہئے کہ ذو قرد کے واقعے نے تمام کسریں پوری کردیں اور مسلمانوں کے پاس خیبر کے ساتھ دھ دو ہاتھ کرنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہ رہا۔[27] کیونکہ یہ خیبر ہی کے یہودی تھے جو جب بھی موقع پاتے تھے اطراف کے قبائل کو مسلمانوں کے خلاف اکساتے اور جنگ اور یلغار کے لئے آمادہ کرتے تھے جس کا نتیجہ مدینہ پر اس شہر کے شمال میں سکونت پذیر جماعتوں کی طرف سے گاہ بہ گاہ حملوں کی صورتوں میں برآمد ہوا کرتا تھا۔

حوالہ جات

  1. الأنصاري، آثار المدينة المنورة، ص180۔
  2. الغـابة في المدينة المنورة۔
  3. سبحانی، فروغ ابدیت، ج2، ص111 اور بعد کے صفحات۔
  4. السمهودی، وفاء الوفا، ج2، ص360۔
  5. الحموی، معجم البلدان، ج4، ص321۔
  6. الوزیر الفقیه، معجم ما استعجم، ص295۔
  7. الواقدی، کتاب المغازی، ج2، ص537۔
  8. سبحانی، فروغ ابدیت، ج2، ص111۔
  9. ابن هشام، السیرة النبوية، ج3، ص292۔
  10. ابن هشام، السیرة النبویة، ج2، ص281- 289۔
  11. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، ص133۔
  12. سبحانی، فروغ ابدیت، ج2، ص111۔
  13. رسولی محلاتی، زندگانی حضرت محمدؐ، ص209۔
  14. الواقدی، المغازی، ج2، ص548۔
  15. بیضاء ربذہ کے قریب واقع ہے: الوزیر الفقیه، معجم ما استعجم، ص 184۔
  16. الواقدی، المغازی، ج2، ص538۔
  17. الحموی، معجم البلدان، ج4، ص182۔
  18. الحموی، وہی ماخذ۔
  19. ابن هشام، السیرة النبویة، ج2، ص281 و 289۔
  20. الواقدی، المغازی ج2، ص537۔
  21. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، ص61۔
  22. البخاری، الصحیح، جلد3، الاجزاء 5 و 6، (کتاب المغازی، غزوة ذات القرد) ص130۔
  23. نیز رجوع کریں: النیسابوری، صحیح مسلم، ج5، ص194۔
  24. مزید تفصیل کے لئے رجوع کریں: البیهقی، دلائل النبوة، ج4، ص178 و حواشی ص179۔
  25. العسقلانی، فتح الباری، ج8، ص233۔
  26. القسطلانی، مواهب اللدنیة، ج3، ص109۔
  27. برکات احمد، محمد و الیهود، ص172۔

مآخذ

  • ابن اثیر الجزری، علی بن ابی الکرم محمد بن محمد بن عبدالکریم بن عبدالواحد الشیبانی، الكامل في التاريخ، دارالکتب العلمیہ، بیروت لبنان ۔ 1407 / 1987 عیسوی۔
  • ابن سعد، محمد منيع الہاشمي بالولاء، البصري، الطبقات الكبرى السيرة الشريفہ النبويہ، المحقق: إحسان عباس الناشر: دار صادر - بيروت الطبعہ: الأولى، 1968 عیسوی۔
  • أنصاري، عبد القدوس، آثار المدينۃ المنورۃ، المكتبۃ السلفيۃ - بالمدينۃ المنورۃ، الطبعۃ الثالثۃ 1393 ہجری قمری / 1973 عیسوی۔
  • بیہقی، ابوبکر احمد بن الحسین، دلائل النبوۃ في احوال الشریعۃ، المحقق: الدکتور عبد المعطی قلعجی، دار الکتب العلميہ بیروت لبنان، 1408 ہجری قمری / 1988 عیسوی۔
  • حموي، شہاب الدين أبي عبد الله ياقوت بن عبد الله الرومي البغدادي، معجم البلدان، دار إحياء الثراث العربي بيروت - لبنان ـ 1399 ہجری قمری / 1979 عیسوی۔
  • رسولى محلاتى، سيد ہاشم، زندگانی حضرت محمد، موسسہ تحقيقات و نشر معارف اہل البيت (ع)، 1374 ہجری شمسی۔
  • سبحانی تبریزی، جعفر، فروغ ابدیت، قم: بوستان کتاب قم، چاپ بیست و یکم، 1385ہجری شمسی۔
  • سمہودی، نور الدین علی بن احمد، وفاء الوفاء باخبار المصطفی دار المصطفی، المحقق: خالد عبدالغنی محفوظ، دارالکتب العلميہ - بیروت - لبنان الطبعہ الاولی 2006 عیسوی۔
  • صادقی، مصطفی، پیامبر و یہود حجاز، اولین سال انتشار، 1382 ہجری شمسی۔
  • عسقلاني، شہاب الدين أحمد بن علي بن محمد بن محمد بن حجر، فتح الباري شرح صحيح البخاري، دار المعرفہ للطباعہ والنشر بيروت - لبنان الطبعہ الثانيہ۔
  • قسطلاني، أحمد بن محمد، المواہب اللدنيہ بالمنح المحمديہ، المحقق: صالح أحمد الشامي، الناشر: المكتب الإسلامي، سنة النشر: 1425 ہجری قمری / 2004 عیسوی۔
  • قمی، شیخ عباس، منتهی الآمال، حوادث سال ششم هجری۔
  • لسانی فشارکی، محمد علی، ﺧﻮﺭﺷﻴﺪ نبوت (ﺗﺮﺟﻤﻪ ﻓﺎﺭﺳﻲ : ﺍﻟﺮﺣﻴﻖ ﺍﻟﻤﺨﺘﻮﻡ، تالیف: ﺷﻴﺦ ﺻﻔﻲ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﻣﺒﺎﺭﮐپوری، مترجم: ﺩﮐﺘﺮ ﻟﺴﺎﻧﻲ ﻓﺸﺎﺭﮐﻲ)۔ 2002 عیسوی / 1423 ہجری قمری / 1381 ہجری شمسی۔
  • مقريزي، تقي الدين أحمد بن علي بن عبد القادر بن محمد، إمتاع الأسماع بما للنبي صلى الله عليه وسلم من الأحوال والأموال والحفدة المتاع، محقق: محمد عبد الحميد النميسي، دار الكتب العلميہ، 1420 ہجری قمری / 1999 عیسوی۔
  • نيشابوري، ابى الحسين مسلم بن الحجاج ابن مسلم القشيرى، الجامع الصحيح، دار الفكر بيروت لبنان۔
  • واقدی، کتاب المغازی، تحقیق مارسون جونس، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی، 1989م۔، الطبعہ الاولی۔
  • الوزير الفقيه الاندلسي، أبى عبيد عبد الله بن عبد العزيز البكري، معجم ما استعجم من اسماء البلاد والمواضع، مخطوطات القاهرة، المحقق: مصطفى السقا، بيروت الطبعۃ الثالثۃ 1403 ہجری قمری / 1983 عیسوی۔
پچھلا غزوہ:
بنی لحیان
رسول خداؐ کے غزوات
غزوہ ذی قَرَد
اگلا غزوہ:
حدیبیہ