غزوہ ذات الرقاع

ویکی شیعہ سے
غزوہ ذات الرقاع
رسول خداؑ کے غزوات
تاریخسنہ 4 یا 5 ہجری
مقامنجد، ذات الرقاع
علل و اسبابغطفان کے قبائل بنو محارب اور بنو ثعلبہ کی ریشہ دوانیاں اور ان کی سرکوبی کی ضرورت۔
قلمروحجاز
نتیجہدشمن فرار، مسلمان کافی مال غنمیت لے کر واپس
فریق 1مسلمان
سپہ سالار 1حضرت محمدؐ
فوج 1400 تا 700 سپاہی
نقصان 1ایک زخمی


پیغمبر اکرمؐ کی مدنی زندگی
ہجرت نبوی 622ء بمطابق
معراج 622ء بمطابق
غزوہ بدر 624ء بمطابق 17 رمضان
امام علی اور حضرت فاطمہ کی شادی 624ء بمطابق یکم ذی الحجہ
بنی‌قینقاع کی شکست 624ء بمطابق 15 شوال
غزوہ احد 625ء بمطابق شوال
بنو نضیر کی شکست 625ء بمطابق
غزوہ احزاب 627ء بمطابق
بنو قریظہ کی شکست 627ء بمطابق
غزوہ بنی مصطلق 627ء بمطابق یا
صلح حدیبیہ 628ء بمطابق
غزوہ خیبر 628ء بمطابق
پہلا سفرِ حجّ 629ء بمطابق
جنگ مؤتہ 629ء بمطابق
فتح مکہ 630ء بمطابق
غزوہ حنین 630ء بمطابق
غزوہ طائف 630ء بمطابق
جزیرة العرب پر تسلط 631ء بمطابق
غزوہ تبوک 632ء بمطابق
حجۃ الوداع 632ء بمطابق 10ھ
واقعۂ غدیر خم 632ء بمطابق 10ھ
وفات 632ء بمطابق 11ھ

غزوہ ذات الرقاع [عربی: غزوة ذات الرقاع] رسول خداؐ کے غزوات میں سے ایک ہے جو 10 محرم الحرام سنہ 4 یا 5 یا سنہ 7 ہجری (بمطابق سنہ 626 ء) کو انجام پایا۔ یہ غزوہ کسی قسم کی لڑائی کے بغیر انجام کو پہنچا؛ مقصود غطفان کے دو ذیلی قبائل بنو محارب اور بنو ثعلبہ اسلام کے خلاف اور مدینہ پر حملے کی سازش میں مصروف تھے۔

غزوہ ذات الرقاع

غزوہ بنی نضیر کے تقریبا دو مہینے بعد 22 ربیع الاول [1] سنہ 4 ہجری کو واقع ہوا۔ واقعہ یہ تھا کہ رسول خدا(ص) کو خبر ملی کہ قبیلۂ غطفان کے دو ذیلی قبیلوں "بنو محارب" اور "بنو ثعلبہ" مدینہ پر حملہ آور ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ رسول خدا(ص) 400 یا 700 مسلمانوں کا لشکر لے ان کے مقام اجتماع کی طرف عازم ہوئے۔ حتی کہ کوہ ذات الرقاع[2]۔[3] کی حدود میں پہنچے اور معلوم ہوا کہ دشمن پہاڑوں میں مورچہ بند ہوئے ہیں۔ آپ(ص) نے کچھ دن وہیں قیام کیا اور مدینہ کی طرف پلٹ آئے۔ لیکن قیام کے دوران اندیشہ تھا کہ دشمن اپنے مورچے چھوڑ کے حملہ کریں چنانچہ آپ(ص) نے وہاں مسلمانوں نماز خوف ادا کی۔[4]۔</ref>جعفری، یعقوب، تاریخ اسلام از منظر قرآن، ص220-221۔</ref>

تفصیل: ایک دن ایک نجدی شخص جو مدینہ میں سے نہ تھا، بازار میں آیا اور اپنا سامان فروخت کے لئے پیش کیا اور باتوں باتوں میں کہا: کہ جب میں یہاں آرہا تھا "انمار" کے قبائل مدینہ پر چڑھائی کی تیاری کررہے تھے لیکن دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ غافل اور بےخبر بیٹھے ہو۔ خبر رسول خدا(ص) کو ملی تو آپ(ص) نے لشکر لے کر عزیمت کا فیصلہ کیا اور ابوذر غفاری یا عثمان بن عفان کو مدینہ میں بطور جانشین مقرر کیا اور 10 محرم کی شب کو 400 مسلمانوں (اور بقولے 700 افراد) کا لشکر لے کر دشمن کی طرف روانہ ہوئے۔ درہ شقرہ میں ایک روز قیام کے دوران اپنے سراغرسانوں کو مختلف علاقوں میں روانہ کیا اور خبر ملتی ہے کہ صرف ایک شخص کے قدموں کے نشان ملے ہیں جو تھوڑی دیر پہلے یہاں سے گذرا ہے چنانچہ دشمن کہیں قریب ہی ہے۔ آپ(ص) نے دشمن کے پڑاؤ تک پیشقدمی کی لیکن وہاں بھی کوئی نظر نہ آیا اور قدموں کے نشانوں کا تعاقب کیا اور معلوم ہوا کہ دشمن پہاڑوں کی چوٹیوں پر مورچہ بند ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب فریقین ایک دوسرے کے کسی غیر متوقعہ اقدام سے خائف تھے۔ لشکر اسلام کو دشمن کے شبخون کا اندیشہ تھا اور دشمن کو خدشہ تھا کہ اگر اس نے حملہ کیا تو رسول اللہ(ص) ان کی بیخ کنی تک انہیں چین سے نہیں رہنے دیں گے۔ ان ہی حالات میں نماز خوف کا حکم آیا۔[5]۔[6]۔[7]۔[8]

ذات الرقاع کی وجۂ تسمیہ

لفظ "رقاع" "رقعہ" کی جمع بمعنی قطعہ یا ٹکڑا، کاغذ کا کھال کا وہ ٹکڑا ـ جس پر لکھا جاتا ہے ـ چمڑے یا کپڑے کا پیوند، جو لباس یا جوتوں کی مرمت کے لئے لگایا جاتا ہے۔ اس غزوہ کے اس نام سے مشہور ہونے کی وجوہات کچھ یوں ہیں:

  • چونکہ موسم بہت گرم تھا اور مسلمانوں نے اپنے پیروں کو کپڑوں میں لپیٹا ہوا تھا تاکہ گرمی سے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔
  • مسلمانوں کے پاؤں پیدل سفر طے کرنے کی وجہ سے زخمی ہوئے تھے چنانچہ انھوں نے اپنے پاؤں پر چیتھڑے باندھ رکھے تھے۔[9]
  • مسلمانوں نے جو راستہ طے کئے وہ لوان نامی پتھروں سے بھرا ہوا تھا اور ہر پتھر کے ہر حصے کا رنگ دوسرے سے مختلف تھا۔
  • رقاع جنگ کے میدان کے قریب ایک درخت کا نام تھا۔[10]
  • رقاع مدینہ کے قریب ایک پہاڑ کا نام تھا جس سے ہوکر مسلمان گذرے تھے۔
  • ذات الرقاع اس مقام کا نام ہے جس میں رسول اللہ(ص) نے قبیلہ غطفان کا سامنا کیا۔
  • اس مہم کو غزوہ ذات الرقاع کا نام دیا گیا کیونکہ وہاں نخیل کے مقام پر سرخ اور سفید دہاروں والا پہاڑ تھا۔[11]
  • نماز خوف کا حکم اسی مقام پر نافذ ہوا چونکہ یہ نماز ٹکڑوں میں پڑھی گئی چنانچہ اس غزوے کو ذات الرقاع کا نام دیا گیا۔
  • اس عسکری مہم میں مسلمانوں کے پرچم پھٹ گئے اور انہیں کپڑوں کے پیوند لگا دیئے گئے۔ ذات الرقاع یعنی پیوندوں والے پرچموں والا غزوہ۔[12]۔[13]۔[14]۔[15]

قرآن اور نماز خوف

آیت کریمہ

قرآن کریم نے اللہ کی راہ میں جہاد اور ہجرت اور نماز مسافر کے بعد نماز خوف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلاَةَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُواْ أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُواْ فَلْيَكُونُواْ مِن وَرَآئِكُمْ وَلْتَأْتِ طَآئِفَةٌ أُخْرَى لَمْ يُصَلُّواْ فَلْيُصَلُّواْ مَعَكَ وَلْيَأْخُذُواْ حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ وَدَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْ تَغْفُلُونَ عَنْ أَسْلِحَتِكُمْ وَأَمْتِعَتِكُمْ فَيَمِيلُونَ عَلَيْكُم مَّيْلَةً وَاحِدَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن كَانَ بِكُمْ أَذًى مِّن مَّطَرٍ أَوْ كُنتُم مَّرْضَى أَن تَضَعُواْ أَسْلِحَتَكُمْ وَخُذُواْ حِذْرَكُمْ إِنَّ اللّهَ أَعَدَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَاباً مُّهِيناً[؟؟]۔
ترجمہ: اور جب آپ ان میں ہوں اور انہیں نماز پڑھانے لگیں تو ان میں سے ایک گروہ آپ کے ساتھ کھڑا ہو اور اپنے ہتھیار لیے رہیں، جب یہ نماز پڑھ چکیں تو یہ آپ لوگوں کی پشت پناہی کے لیے چلے جائیں اور دوسرا گروہ ان کا جس نے نماز نہیں پڑھی ہے، آ جائے آپ کے ساتھ نماز پڑھے اور یہ بھی اپنا سامان حفاظت اور ہتھیار لیے رہیں۔ کفار کی تو آرزو یہ ہے کہ تم لوگ اپنے ہتھیاروں اور سامانوں سے غافل ہو جاؤ تو وہ تم پر ایک دم ٹوٹ پڑیں اور اگر بارش سے اذیت ہو یا تم بیمار ہو تو تمہارا کوئی حرج نہیں ہے کہ تم اپنے ہتھیاروں کو رکھ دو۔ ہاں حفاظت کا خیال رکھو۔ یقینا اللہ نے کافروں کے لیے ذلت آمیز عذاب مہیا کر رکھا ہے۔[16]

آیت کی شان نزول

اس آیت کی شان نزول کے بارے میں دو اقوال پائے جاتے ہیں:

  1. اس آیت کا تعلق صلح حدیبیہ سے ہے۔ جب رسول اللہ(ص) مسلمانوں کی ایک جماعت کے ہمراہ عمرہ کی نیت سے مکہ جاتے ہوئے منطقۂ حدیبیہ پہنچے تو مکیوں کو خبر ہوئی اور خالد بن ولید 200 افراد کا لشکر آکر مسلمانوں کو روکنے کی غرض سے مکہ کے قریبی پہاڑوں میں مورچہ بند ہوا۔ ظہر کے وقت بلال نے اذان دی اور رسول اللہ(ص) نے مسلمانوں کے ساتھ نماز جماعت ادا کی۔ خالد نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ جب مسلمان نماز عصر کے لئے کھڑے ہوجائیں تو ہم موقع سے فائدہ اٹھا کر ان کا کام تمام کریں گے۔ اسی وقت جبرائیل نازل ہوئے اور نماز خوف کا حکم لے کر آئے تاکہ قریشی اپنے منصوبے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔[17]۔[18]۔[19]۔ اختلاف ہے اس میں کہ نماز خوف کا حکم کس غزوے میں آیا۔ فضل بن حسن طبرسی لکھتے ہیں کہ یہ نماز غزوہ بنی لحیان میں واجب ہوئی[20] سید علی اکبر قریشی بھی مذکورہ بالا حدیث کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں کہ غزوہ ذات الرقاع میں نماز خوف کے واجب ہونے پر مبنی قول درست ہے۔[21]
  2. بعض دوسروں کی رائے کے مطابق نماز خوف کی آیت غزوہ ذات الرقاع کے موقع پر نازل ہوئی؛ اور اس کے ثبوت کے لئے امام صادق(ع) کی ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہیں جس کے ضمن میں آپ(ع) نے فرمایا:
    رسول خدا(ص) نے غزوہ ذات الرقاع کے موقع پر اصحاب کے ساتھ نماز ادا کی پس آپ(ص) نے مسلمانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا، ایک گروہ کے دشمن کا سامنا کرنے کے لئے روانہ کیا اور دوسرے گروہ اپنی امامت میں نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ بعدازاں آپ(ص) نے تکبیر الاحرام کہی اور قرائت فرمائی اور مقتدی خاموش رہے۔ پس آپ(ص) نے رکوع کیا اور مسلمانوں نے بھی رکوع کیا؛ بعدازاں آپ(ص) سجدے میں چلے گئے اور وہ بھی سجدے میں گئے؛ بعدازاں رسول خدا(ص) نے دوسری رکعت کے لئے قیام کیا اور مسلمانوں نے ایک رکعت جماعت کے بغیر خود مکمل کرلی (یعنی ایک رکعت حالت فرادی میں پڑھی) اور بعض نے بعض دوسروں کو سلام دیا اور مامومین اٹھ کر اپنے مجاہد ساتھیوں کی طرف چلے گئے اور دفاعی حالت میں کھڑے مسلمان آکر آپ(ص) کی اقتدا میں نماز جماعت میں مصروف ہوئے؛ چنانچہ آنحضرت(ص) نے تکبیر کہی اور انھوں نے تکبیر کہی؛ آپ(ص) نے قرائت فرمائی اور وہ خاموش رہے اور بعدازاں رسول خدا(ص) رکوع میں چلے گئے اور وہ بھی رکوع میں گئے؛ آپ(ص) سجد ے میں گئے تو مامومین بھی سجدے میں گئے، بعدازآں آپ(ص) نے تشہد کے بعد سلام دیا اور مامومین نے اٹھ کر اگلی رکعت خود پڑھ لی اور سلام دے کر نماز مکمل کرلی۔ بعد ازاں خداوند متعال نے خطاب فرمایا: وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلاَةَ ...۔ اور یہ وہی نماز خوف تھی جس کا حکم خداوند متعال نے رسول اللہ(ص) کو دیا تھا...[22]۔[23]۔[24]۔[25]

اس صحیح السند حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز خوف کا حکم غزوہ ذات الرقاع میں نازل ہوا ہے۔ اور پھر اہل سنت کے ایک مفسر نے بھی وہی روایت ـ جو اول الذکر رائے کے اثبات کے لئے نقل ہوئی تھی ـ کو ابن عباس سے غزوہ ذات الرقاع کے سلسلے میں نقل کی ہے۔[26]

سید علی اکبر قریشی اپنی کتاب از ہجرت تا رحلت (ص206-207) میں ہی لکھتے ہیں کہ اس بات میں بھی اختلاف ہے کہ نماز خوف سنہ 4 ہجری میں واجب ہوئی یا سنہ 5 ہجری میں؛ میری رائے میں سنہ 5 ہجری درست ہے کیونکہ ابن اثیر نے نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے غزوہ بنی نضیر کے بعد ربیع الاول اور ربیع الثانی کے مہینے مدینہ میں بسر کئے اور بعدازاں غزوہ ذات الرقاع کے لئے عزیمت فرمائی اور اسی غزوے کے دوران نماز خوف واجب ہوئی۔[27]

نماز خوف کے پیغامات

  1. نماز جماعت کی اہمیت:
    ہم جانتے ہیں کہ نماز جماعت میں شرکت واجب نہیں لیکن مؤکّد مستحبات میں سے ہے اور نماز خوف کے بارے میں اسلام حکم درحقیقت نماز جماعت پر تاکید ہے کہ حتی میدان جنک میں بھی نماز جماعت کے لئے خصوصی روش کا حکم آیا ہے تاکہ مجاہدین اس کے ثواب کثیر سے محروم نہ ہوں۔[28]
    اس موضوع سے اصولی طور پر نماز کی اہمیت بھی ظاہر ہوتی ہے اور نماز خوف میدان جنگ میں موجود مسلمانوں کے درمیان ہدف کے حصول کے لئے حاصل ہونے والی ہمآہنگی کے حوالے سے نفسیاتی طور پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے نیز دشمن پر بھی اس کے اثرات ناقابل انکار ہوتے ہیں[29] چنانچہ مروی ہے کہ خالد بن ولید نے واقعۂ حدیبیہ کے دوران مسلمانوں کی نماز جماعت دیکھ کر اسلام قبول کیا۔[30]
  2. وقت نماز کی اہمیت کی رعایت:
    اسلام کسی حالت میں بھی نماز کو اول وقت سے مؤخر کرنے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ انسان جس حالت میں بھی ہو نماز ضرور بجا لائے: بیٹھ کر، لیٹ کر یا اشارے سے اور کسی حال میں نماز قضا نہ کرے۔[31]۔[32]
  3. ہر حال میں ہوشیاری کی ضرورت:
    ہر حال میں دشمن سے ہوشیار رہنا چاہئے یہاں تک کہ نماز بھی دشمن کے خطرے سے مسلمانوں کی غفلت کا سبب نہیں بننی چاہئے؛ اور یہ کہ اگر بیک وقت نماز اور جہاد دونوں واجب ہوں تو ایک کو دوسرے پر قربان نہیں کرنا چاہئے۔[33]
  4. عسکری اور جنگی وسائل کا تحفظ:
    دین اسلام کے پیروکاروں کو اپنی حفاظت کے ساتھ ساتھ ہر حال میں اپنے عسکری اور معاشی وسائل، ہتھیاروں، اشیاء خورد و نوش وغیرہ کے تحفظ کا اہتمام کرنا چاہئے۔ جو بھی قول و فعل یا اقدام مسلمانوں کو غافل کرے اس سے دشمن کو فائدہ پہنچے گا اور امت مسلمہ کی غفلت کفار کی یلغار کے اسباب فراہم کرے گی۔[34]

نماز خوف کا حکم رسول اللہؐ کی صداقت کا ثبوت

طبرسی مجمع البیان میں سورہ نساء کی آیت 102 کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ حضرت محمد(ص) کے صدق کا ثبوت ہے کیونکہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی آپ(ص) عسفان میں تھے اور کفار ضجنان میں؛ آپ(ص) نے نماز ظہر مکمل رکوع وسجود کے ساتھ ادا کی تو گھات لگائے مشرکین نے دوسری نماز میں اچانک حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا اور کہا کہ نماز عصر ان کے لئے زیادہ محبوب ہے چنانچہ جب وہ اس نماز کا آغاز کریں گے ہم حملہ کریں گے۔ وہاں سازش بنی اور یہاں آیت نازل ہوئی: وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلاَةَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُواْ أَسْلِحَتَهُمْ...[؟؟]۔
ترجمہ: اور جب آپ ان میں ہوں اور انہیں نماز پڑھانے لگیں تو ان میں سے ایک گروہ آپ کے ساتھ کھڑا ہو اور اپنے ہتھیار لیے رہیں...[35] اور آپ(ص) نے عصر کی نماز نماز خوف کے قاعدے کے مطابق ادا کی اور یوں مشرکین کی سازش ناکام ہوئی۔[36]

عباد بن بشر اور نماز عشق کی منزل

غزوہ ذات الرقاع میں دشمن کے قبیلے سے ایک عورت قید کرلی گئی تو اس کے شوہر نے مسلمانوں کا تعاقب شروع کیا۔ لشکر اسلام نے رات کے وقت ایک درے میں آرام کرنے کا فیصلہ کیا؛ مہاجرین میں سے عمار بن یاسر نے اور انصار میں سے عباد بن بشر نے رسول اکرم(ص) کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے درے کے دہانے پر پہرہ دینے کے لئے آمادگی ظاہر کی اور پہرے کے مقام پر پہنچے اور دونوں نے اتفاق کیا کہ رات کو دو حصوں میں بانٹ لیں ایک حصے میں ایک سوئے اور دوسرا پہرہ دے۔ رات کا پہلا حصہ عباد کے حصے میں آیا اور عمار سوگئے۔ تعاقب کرنے والا شخص بھی قریب پہنچا تھا۔ اس نے اندھیرے میں کھڑے ایک شخص کو دیکھا تو اس کی طرف تیر پھینکا؛ تیر عباد کے جسم کو لگا؛ انھوں نے تیر بدن سے کھینچ کر پھینکا لیکن لیکن نماز منقطع نہیں کی، اس مرد کے دوسرے تیر پر بھی عباد نے نماز جاری رکھی لیکن جب تیسرا تیر لگا تو انھوں نے رکوع اور سجدہ کیا اور سلام دیکر نماز مکمل کرلی اور عمار کو جگایا اور کہا: اٹھو کیونکہ میں مزید پیروں پر کھڑے ہونے کی قوت نہیں رکھتا۔ عمار اٹھے تو مشرک شخص نے دیکھا کہ وہاں دو افراد ہیں چنانچہ وہ وہاں سے فرار ہوگیا۔

عمار نے عباد کو خون میں لپٹا پایا اور ماجرا پوچھا تو عباد نے ماجرا کہہ سنایا۔ عمار نے کہا: تم نے پہلا تیر لگنے پر مجھے کیوں نہیں جگایا؟ عباد نے کہا: میں قرآن کی ایک سورت پڑھ رہا تھا جس کو منقطع کرنے پر دل راضی نہیں ہوا؛ لیکن جب دیکھا کہ تیر یکے بعد از دیگرے آرہے ہیں تو رکوع میں چلا گیا اور اپنی نماز مکمل کرلی۔ خدا کی قسم! اگر مجھے رسول خدا(ص) کی نافرمانی کے ارتکاب اور دشمن کی طرف سے مسلمانوں کی طرف دست درازی کے امکان کا خوف نہ ہوتا کسی قیمت پر بھی نماز توڑنے کے لئے راضی نہ ہوجاتا حتی اگر اس راہ مجھے میری سانس اکھڑ جاتی اور جان چلی جاتی۔ بعض تواریخ کے مطابق عباد نے کہا: "میں سورہ کہف پڑھ رہا تھا۔[37]

حوالہ جات

  1. مجلسی لکھتے ہیں کہ غزوہ ذات الرقاع ماہ جمادی الاول میں واقع ہوا ہے: بحارالانوار، ج‏20، ص‏177 و 178۔
  2. مجلسی، بحار الانوار، ج‏20، ص‏177۔
  3. سیاح، احمد، لغتنامه فرهنگ جامع، ج‏2، ص‏141۔
  4. مجلسی، بحار الانوار، ج‏20، ص‏176 ـ 179۔
  5. عاملی، الصحیح من سیره النبی الاعظم (ص)، ج8، ص186۔
  6. سید هاشم رسولی محلاتی- زندگانی محمد (ص)۔
  7. محمود مهدوی دامغانی- المغازی۔
  8. جلال الدین فارسی- پیامبری و جهاد، ص156۔
  9. بخاری، صحیح البخاری، ج5، ص145۔
  10. ابن هشام، السیرة النبوية، ج3، ص214۔
  11. ابن سعد، الطبقات الكبرى، ج2و ص61۔
  12. طبرسی، اعلام الورى، ج1، ص89۔
  13. مجلسی، بحارالانوار، ج 20، ص 176۔
  14. سیاح، احمد، لغتنامه فرهنگ جامع، ج‏2، ص‏141۔
  15. رسولی محلاتی، زندگاني حضرت محمد صلی الله علیه و آله، ص298۔
  16. سورہ نساء، آیه 102۔
  17. واحدی نیشابوری، اسباب نزول القرآن، ص182۔
  18. قمی، تفسیر قمی، ج1، ص150، ح14۔
  19. حویزی، تفسیر نور الثقلین، ج1 ص 543-544، ح535۔
  20. طبرسی، اعلام الوری، ج1، ص188۔
  21. قریشی، از هجرت تا رحلت، ص206-207۔
  22. صدوق، من لا یحضره الفقیه، ج1، ص460-462، ح1334۔
  23. کلینی، الکافی، ج3، ص456، باب صلاۃ الخوف، ح2۔
  24. طوسی، تهذیب الاحکام، ج‏3، ص‏172، ح380۔
  25. حر عاملی، وسائل الشیعه، ج‏8، ص‏435، ابواب صلاة الخوف، باب 2، ح 11098۔
  26. بروسوی، تفسیر روح البیان، ج‏2، ص‏274۔
  27. ابن اثیر، الکامل في التاریخ، ج2 ص119۔
  28. نوري، نماز جماعت و بركات آن، ذیل "نماز خوف"۔
  29. مکارم شیرازی و جمعی از نویسندگان، تفسير نمونه، ج‏4، ص‏141
  30. مجلسی، بحار الانوار، ج‏20، ص‏175۔
  31. معذورین کی نماز کی کیفیت جاننے کے لئے مراجع تقلید کے رسائل عملیہ سے رجوع کیا جائے۔
  32. معینہ اوقات میں نماز کا فلسفہ جاننے کے لئے رجوع کریں: مکارم شیرازی و جمعی از نویسندگان، تفسير نمونه، ج‏4، ص‏142۔
  33. قرائتی، تفسیر نور، ج2، ص369۔
  34. قرائتی، وهی ماخذ، ص‏370۔
  35. سورہ نساء، آیه 102۔
  36. قریشی، از ہجرت تا رحلت، ص207۔
  37. رسولی محلاتی، زندگانی حضرت محمد(ص)، ص180۔

مآخذ

  • قرآن کریم، اردو ترجمہ: سید علی نقی نقوی (لکھنوی)۔
  • ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، تحقیق:ابی الفداء عبدالله القاضی، بیروت، دارالکتب العلمیة، 1407هجری قمری۔
  • ابن سعد، محمد احمد، الطبقات الکبری، بیروت، دارصادر.
  • ابن هشام، عبدالملک، السیره النبویه، به کوشش مصطفی السقّا و دیگران، بیروت، دار احیاء التراث العربی.
  • بخاری، صحیح البخاری، بیروت، دار ابن کثیر، 1414 هجری قمری۔
  • البروسوی، اسماعیل الحقی، تفسیر روح البیان، طبع هفتم : بیروت ، داراحیاء التراث العربی ، 1405 هجری قمری۔
  • جعفرى، يعقوب، تاريخ اسلام از منظر قرآن، نهاد نمايندگى مقام معظم رهبرى در دانشگاهها، قم، 1384هجری شمسی۔
  • جمعی از نویسندگان؛ زیرنظر ناصر مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، دارالکتب الاسلامیه، طهران ـ 1353 هجری شمسی۔
  • حر عاملى، محمّد، وسائل الشيعة، نشر مكتبة الإسلامية، تهران، 1389هجری قمری۔
  • رسولی محلاتی، سید هاشم، زندگانی حضرت محمد صلی الله علیه و آله، 1374 هجری شمسی
  • الصدوق، الشيخ محمد بن علي، من لا يحضره الفقيه، نشر دارالأضواء، لبنان، 1405هجری قمری۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری بأعلام الهدی، مؤسسه آل البیت(ع)، قم، چاپ اول، 1417 هجری قمری۔
  • طوسی، تهذیب الاحکام، سید حسن موسوی خرسان، دارالکتب الاسلامیه، تهران.
  • عاملی، سید جعفرمرتضی، الصحیح من سیره النبی الاعظم (ص)، دار الهادي للطباعة، غبيري - دار السيرة - بيروت لبنان، الطبعة الرابعة 1995 م - 1415 ه‍
  • العروسى الحويزى، الشيخ عبد على بن جمعه،تفسير نور الثقلين، مؤسسهء اسماعيليان الطبعة الرابعة، قم - 1412 هجري قمرى / 1370 هجري شمسی۔
  • فارسی، جلال الدین، پیامبری و جہاد فارسی، موسسه انجام کتاب، تهران، 1362.
  • قرائتی، محسن، تفسیر نور، مرکز فرهنگی درس هایی از قرآن، تهران ـ 1388 هجری شمسی۔
  • قريشي، سيد علي اکبر، کتاب از هجرت تا رحلت، موسسه تحقيقات و نشر معارف اهل البيت (ع)، اروميه ـ 1368هجری شمسی / 1410 هجری قمری۔
  • قمی، علی بن ابراهیم، تفسیر قمی، قم، دارالکتاب، 1363 هجری شمسی۔
  • كلينى، محمد بن یعقوب، كافى، نشر دفتر نشر فرهنگ اهل بيت(عليهم السلام)، بى تا، تهران۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404 هجری قمری۔
  • معلوف، لوئس، المنجد، (ترجمه فارسی: سیاح، احمد، بعنوان: لغت نامه يا فرهنگ بزرگ جامع نوين، عربي به فارسي)، مقدمه: حسن زاده آملي، محمد تقي جعفري، انتشارات اسلام، تهران ـ 1382 هجری شمسی۔
  • الواحدی النیسابوری، علی بن احمد، أسباب النزول، دار الباز للنشر والتوزيع، مكه المكرمة ـ 1388 هجری قمری / 1968 عیسوی۔
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی (ترجمه فارسی: محمود مهدوی)، انتشارات مجتمع دانشگاهی ادبیات و علوم انسانی ـ تهران ـ 1361 هجری شمسی۔


پچھلا غزوہ:
بنی نضیر
رسول اللہ(ص) کے غزوات
ذات الرقاع
اگلا غزوہ:
بدر الموعد