غزوہ بدر الموعد

ویکی شیعہ سے
غزوہ بدر الموعد
رسول خدا(ص) کے غزوات
فائل:بدرالموعد.png
غزوات کا نقشہ
تاریخذوالقعدہ سنہ 4 ہجری / 626 عیسوی
مقامحجاز کا ایک علاقہ بنام بدر
قلمروحجاز
نتیجہمسلمانوں نے اندرونی دشمن ـ منافقین اور یہود ـ اور مشرکین قریش پر نفسیاتی طور پر غلبہ پایا اور انہیں خفت اٹھانا پڑی؛ ادھر مسلمانوں نے سامان تجارت بدر کے سالانہ بازار میں فروخت کرکے اچھا منافع کمایا۔
فریق 1سپاہ اسلام
فریق 2مشرکین
سپہ سالار 1حضرت محمد(ص)
سپہ سالار 2ابو سفیان
فوج 11500 سوار اور پیادے
فوج 22000 سوار اور پیادے
نقصان 2مشرکین کی نفسیاتی شکست۔


بدر الموعد رسول اللہ(ص) کے غزوات میں سے ایک ہے۔ جنگ احد کے بعد ابو سفیان نے مسلمانوں کو اگلے سال بدر الصفراء کے مقام پر جنگ کے لئے بلایا۔ ابو سفیان کو یہ توقع نہیں تھی کہ مسلمان مقررہ مقام پر آجائیں گے اسی لئے وہ مسلمانوں کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش بھی کر رہے تھے لیکن اس کے توقع کے برخلاف مسلمان موقع پر مقررہ مقام پر پہنچ گئے۔ رسول خدا(ص) 1500 سپاہیوں کے ساتھ بدر پہنچے اور 8 روز وہیں قیام فرمایا لیکن ابو سفیان جو 2000 افراد کے ہمراہ بدر جانے کی نیت سے مکہ سے نکلا تھا، خشک سالی کا بہانہ بنا کر مکہ پلٹ گیا۔

مختلف اسماء

پیغمبر اکرمؐ کی مدنی زندگی
ہجرت نبوی 622ء بمطابق
معراج 622ء بمطابق
غزوہ بدر 624ء بمطابق 17 رمضان
امام علی اور حضرت فاطمہ کی شادی 624ء بمطابق یکم ذی الحجہ
بنی‌قینقاع کی شکست 624ء بمطابق 15 شوال
غزوہ احد 625ء بمطابق شوال
بنو نضیر کی شکست 625ء بمطابق
غزوہ احزاب 627ء بمطابق
بنو قریظہ کی شکست 627ء بمطابق
غزوہ بنی مصطلق 627ء بمطابق یا
صلح حدیبیہ 628ء بمطابق
غزوہ خیبر 628ء بمطابق
پہلا سفرِ حجّ 629ء بمطابق
جنگ مؤتہ 629ء بمطابق
فتح مکہ 630ء بمطابق
غزوہ حنین 630ء بمطابق
غزوہ طائف 630ء بمطابق
جزیرة العرب پر تسلط 631ء بمطابق
غزوہ تبوک 632ء بمطابق
حجۃ الوداع 632ء بمطابق 10ھ
واقعۂ غدیر خم 632ء بمطابق 10ھ
وفات 632ء بمطابق 11ھ

رسول خدا(ص) کی اس عسکری مہم کو بَدْرُ المَوْعِد[1]۔[2]، بدر الآخره[3]۔[4]، بدر ثالثہ[5]۔[6] اور بدر صُغرى[7]۔[8]۔[9] کے عنوان سے موسوم کیا گیا ہے۔

جنگ کا پس منظر

ایک طرف سے نعیم بن مسعود کے اقدامات اور دوسری طرف سے منافقین اور یہودیوں کی تشہیری مہم[10] نے مسلمانوں کو سخت ہراساں کردیا تھا؛ لیکن بعض روایات کے مطابق سورہ آل عمران کی آیت نمبر 173: الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُواْ لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَاناً وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (ترجمہ: وہ کہ جن سے لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمہارے مقابلہ کے لیے بڑا لشکر جمع کیا ہے، ان سے ڈرو تو اس سے ان کے ایمان میں اور اضافہ ہوا اور انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور بڑا اچھا کارساز) میں مؤمنین کے ایمان اور حوصلے کو بہت اعلی قرار دیا گیا ہے۔[11] اس آیت میں "الناس" سے مراد "نعیم بن مسعود" ہے جو مسلمانوں کو ابو سفیان کے جمع کردہ لشکر سے خائف کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔[12] ایک دوسری روایت کے مطابق الناس سے مراد مدینہ کے منافقین تھے جو لوگوں کو بدرالموعد کی طرف عزیمت کرنے سے باز رکھنے کی سعی اور جنگ احد کی شکست کی یادآوری کرارہے تھے۔[13]

اسی طرح اس واقعے سے مربوط ایک اور آیت میں خداوندعالم ارشاد فرماتے ہیں :إِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءهُ فَلاَ تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (ترجمہ: یہ تو شیطان ہے جو اپنے حوالی موالی کو ڈراتا ہے ، تو تم ان سے نہ ڈرو، صرف مجھ سے ڈرو، اگر واقعی مؤمن ہو۔)۔

اس آیت میں "اولیاء الشیطن" سے مراد "نعیم بن مسعود" ہے یا پھر اس سے مراد "شیطان رجیم" ہے جو مؤمنین کے دلوں میں جنگ کی نسبت خوف پیدا کرنے اور انہیں خوف زدہ کرنے کی غرض سے ان کے دلوں میں وسوسے ڈالتا تھا۔[14]

بہرحال اگرچہ رسول اللہؐ کو اس جنگ کی نسبت بعض مسلمان کے خوف و حراس اور سستی کا شکار ہونے کی اطلاعات موصول ہوئے لیکن آپ(ص) نے قسم اٹھائی اور فرمایا: "اگر تم ميں سے حتی ایک فرد بھی میرا ساتھ نہ دے تب بھی میں اس جنگ کے لئے عزیمت کروں گا"۔[15]

ایک روایت کے مطابق، خداوند متعال نے بدرالموعد کا وقت قریب آنے اور جنگ کے لئے عزیمت کے سلسلے میں مسلمانوں کی کراہیت اور ناپسندیدگی کے پیش نظر، رسول اللہؐ کو حکم دیا کہ مسلمانوں کو جنگ کی ترغیب دلائیں[16]: فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللّهِ لاَ تُكَلَّفُ إِلاَّ نَفْسَكَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَسَى اللّهُ أَن يَكُفَّ بَأْسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَاللّهُ أَشَدُّ بَأْساً وَأَشَدُّ تَنكِيلاً (ترجمہ: تو اللہ کی راہ میں جنگ کیجئے آپ پر ذمہ داری نہیں ہے مگر آپ کی ذات کی اور ایمان لانے والوں کو بھی آمادہ کرتے رہئے، بہت ممکن ہے کہ اللہ کافروں کے زور کو توڑدے اور اللہ کا زوروطاقت زیادہ اور اس کی طرف کی سزا سخت ہے۔)[17]

نیز بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ مندرجہ ذیل آیت کریمہ بھی اسی سلسلے میں نازل ہوئی ہے: وَلاَ تَهِنُواْ فِي ابْتِغَاء الْقَوْمِ إِن تَكُونُواْ تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمونَ وَتَرْجُونَ مِنَ اللّهِ مَا لاَ يَرْجُونَ وَكَانَ اللّهُ عَلِيماً حَكِيماً (ترجمہ: اور اس جماعت سے مڈبھیڑ کے لیے نکلنے میں سستی نہ دکھاؤ۔ اگر تمہیں تکلیف پہنچی ہو تو انہیں بھی ویسی ہی تکلیفیں پہنچتی ہیں جیسی تمہیں ہوتی ہیں اور تمہیں اللہ کے یہاں وہ اُمید ہے جو انہیں نہیں ہے اور اللہ بڑاجاننے والا ہے، ٹھیک ٹھیک کام کرنے والا۔)۔[18]

تاریخ

غزوہ بدر الموعد کی تاریخ کے بارے میں دو قول ہیں:

  1. کچھ مؤرخین و مفسرین کی رائے ہے کہ یہ غزوہ شعبان سنہ 4 ہجری میں واقع ہوا؛[19]
  2. بعض دوسروں کا کہنا ہے کہ یہ غزوہ ذوالقعدہ سنہ 4 ہجری میں واقع ہوا۔[20] جنگ احد کے ماہ شوال سنہ 3 ہجری میں لڑے جانے اور اس جنگ کے آخر میں بدر الصفراء کا وعدہ کئے جانے[21] اور بدرالصفراء میں قیام کے دوران مسلمانوں کا وہاں کے موسمی بازار میں تجارت کا اہتمام کیا کرنا[22]، اس رائے کی صحت کی تائید کی کرتی ہے کیونکہ یہ بازار ہر سال ذوالقعدہ کے پہلے آٹھ دنوں میں لگایا جاتا تھا۔[23] منقول ہے کہ مسلمان بدر پہنچے تو وہاں سالانہ منڈی لگی ہوئی تھی چنانچہ انھوں نے اپنا سامان تجارت فروخت کیا۔ تاہم واقدی [24]، ابن سعد [25] اور ابن ہشام نے ابن اسحق کے حوالے سے[26] غزوہ بدر الموعد کو چوتھی صدی ہجری کے ماہ شعبان المعظم کے واقعات کے ضمن میں درج کیا ہے؛ اس لحاظ سے یہ غزوہ غزوہ احد کے ایک سال بعد نہیں بلکہ 10 مہینے بعد، انجام پایا ہے، جبکہ قرارداد یا موعد کی مدت ایک سال تھی۔

علاوہ ازیں بدر کے مقام پر مسلمانوں کے تجارتی لین دین والی روایت، اس تاریخ سے ہمآہنگ بھی نہیں ہے۔

مربوطہ آیات

قرآن کریم میں بھی اس غزوے کی طرف اشارہ ہوا ہے اور بعض روایات کے مطابق سورہ آل عمران کی آیت نمبر 171 سے 175 اور سورہ نساء کی آیات 84 اور 104 اسی غزوے کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔

مسلمانوں کے اقدامات

آخر کار مسلمانوں نے تمام تر منفی تشہیری مہم کے باوجود رسول خداؐ کے حکم پر جنگ کے لئے عزیمت کی۔ پیغمبر اکرمؐ نے عبد اللہ بن رواحہ[27] یا "عبداللہ بن عبداللہ بن اُبَىّ"[28] کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر فرما کر 1500 مجاہدین لے کر بدرالصفراء کی طرف روانہ ہوئے[29] اور پرچم اسلام علی بن ابى طالبؑ کے سپرد کیا۔[30]

سپاہ اسلام منطقۂ بدر میں وارد ہوئی تو وہاں مشرکین مکہ میں سے کوئی موجود نہ تھا۔[31]

سپاہ مکہ اور ابو سفیان کے اقدامات

ابو سفیان نے جنگ احد میں منطقۂ بدر کو "بدرالصفراء" کا نام دیا[32] تاکہ غزوہ بدر کبری والی شکست کا ازالہ کرے[33] اور ایک قول کے مطابق "صفراء" مکہ سے مدینہ کے راستے میں واقع منطقۂ بدر ہی کا ایک حصہ تھا جو مدینہ سے کم فاصلے پر واقع تھا اور ہر سال یہاں ایک آٹھ روزہ بازار کیا اہتمام کیا جاتا تھا۔[34]

مشرکین مکہ نے جنگ احد سے فاتحانہ واپسی کے بعد، بدر الموعد میں مسلمانوں پر ایک بار پھر فتح پانے کی لالچ میں آکر ابتداء ہی سے سپاہ کی تشکیل کا اہتمام کیا۔ مدینہ کو بھی خبریں ملتی تھیں کہ گویا قریش اپنی قوت بڑھا رہے ہیں اور دوسرے قبائل سے بھی مدد لے رہے ہیں۔ اس عرصے کے دوران ابو سفیان بھی ہر اس شخص کے سامنے بدر الموعد کے لئے اپنی پوری تیاری سے آگاہ کرتا رہتا تھا جو مدینہ کے سفر کا ارادہ رکھتا تھا۔[35] لیکن عوام کو خشک سالی کا سامنا تھا چنانچہ بعض روایات کے مطابق ابو سفیان کے ارادے سست پڑ گئے تھے؛ گوکہ دوسری جانب سے اس نے اس جنگ کا وعدہ خود دیا تھا اور وعدہ خلافی اس کی خجلت اور مسلمانوں کے جری ہونے کا سبب بن سکتی تھی۔ چنانچہ وہ چاہتا تھا کہ ایسے اسباب فراہم کئے جائیں کہ رسول خدا(ص) وعدہ گاہ میں حاضر نہ ہوں۔[36]

ابو سفیان ہرگز نہیں سننا چاہتا تھا کہ مسلمان جنگ کی تیاری کررہے ہیں بلکہ اس کو مسلمانوں کے بدر نہ آنے کی توقع تھی لیکن اس کی دلی خواہش کے برعکس، مدینہ سے آئے "نعیم بن مسعود اشجعی" نے ابو سفیان کے ساتھ اپنی ملاقات میں مدینہ کو دانوں سے بھرے انار سے تشبیہ دی جہاں مسلمان ہتھیاروں اور سواریوں کی فراہمی میں مصروف تھے اور قبیلہ اوس کے حلیف قبائل ـ منجملہ: بَلِىّ، جُہَيْنَہ اور دیگر قبائل ـ سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کررہے تھے۔[37]

نعیم کی باتیں سن کر ابو سفیان کی جنگی خواہش مزید ٹھنڈی پڑ گئی اور اس نے نعیم بن مسعود کو 20 اونٹوں کا وعدہ دے کر مدینہ کی طرف پلٹنے پر آمادہ کیا اور کہا کہ وہ مسلمانوں کو قریش کی طرف آنے سے خوفزدہ کرے اور انہیں بدر آنے سے باز رکھے؛ تاہم رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ اپنے وعدے پر استوار رہیں گے خواہ دوسرے مسلمان آپ(ص) کا ساتھ نہ بھی دیں! بعد ازاں 1500 افراد کا لشکر لے کر بدر کی طرف عازم ہوئے اور 8 روز تک ابو سفیان کا انتظار کرتے رہے۔[38]

ابو سفیان نے مسلمانوں کو جنگ سے باز رکھنے کی غرض سے نعیم بن مسعود کو مدینہ روانہ کیا اور بعدازاں فیصلہ کیا کہ کچھ دن بعد مکہ سے باہر چلا جائے اور لوگوں کو یہ جتانے کی کوشش کی کہ وہ جنگ کے لئے جارہا ہے تاکہ اگر مسلمانوں نے جنگ میں شرکت نہ کی تو اپنی برتری کا اعلان کرسکے اور اگر مسلمان جنگ کے لئے آئیں تو ان سے بات چیت کرے اور انہیں کسی پر نعمت سال میں جنگ کے لئے راضی کرے! قریش کو ابو سفیان کی رائے پسند آئی۔[39] ابو سفیان 50 سواروں سمیت 2000 سپاہیوں کو لے کر مکہ سے نکلا۔ مشرکین کا لشکر مکہ کے قریب منطقۂ ظہران میں مجنہ کے مقام پر[40] اور بقولے عُسْفان[41] کے مقام پر پہنچا تو خداوند متعال نے شدید خوف و ہراس ابو سفیان کے دل میں ڈال دیا[42] اور وہیں سے جنگ کا ارادہ ترک کرکے مکہ پلٹنے کا ارادہ کیا اور [بظاہر] خشک سالی میں جنگ کو مناسب نہیں سمجھا[43]، نتیجہ یہ ہوا کہ سپاہ قریش مکہ واپس چلی گئی اور اہلیان مکہ نے ابو سفیان کو طعنہ زنی کرتے ہوئے اس کے لشکر کو "جیش السویق" (= ستو کے شربت کا لشکر) کا لقب دیا اور کہا کہ تم ستو پینے باہر نکلے تھے اور اب واپس آئے!![44]

نتائج

رسول خدا(ص) نے منطقۂ بدر الصفراء میں 8 دن تک ابو سفیان کا انتظار فرمایا،[45] مسلمانوں نے اس مدت میں وہاں کے موسمی بازار میں اپنا لایا ہوا سامان تجارت فروخت کیا اور ہر درہم کے بدلے ایک درہم منافع کمایا[46] اور بعدازآں رسول خدا(ص) کے حکم پر مدینہ واپس آئے۔ بہت سے مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ آیت کریمہ اسی سلسلے میں نازل ہوئی: فَانقَلَبُواْ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُواْ رِضْوَانَ اللّهِ وَاللّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ (ترجمہ: تو وہ پھرے اللہ کی عنایت اور فضلکے ساتھاس طرح کہ انہیں کوئی برائی چھو بھی نہیں گئی اور وہ اللہ کی خوشنودی کے درپے رہے اور اللہ بڑے فضل وکرم والا ہے۔)۔[47]

مفسرین کے بقول یہ آیت اسی واقعے سے مربوط ہے اور یہاں نعمت سے مراد سلامتی اور جنگ سے عافیت اور سلامتی کے ساتھ واپسی ہے جبکہ فضل سے مراد وہ مالی منافع ہے جو مسلمانوں نے تجارت اور لین دین سے حاصل کیا۔[48]

بنو ضمرہ کے ایک زعیم "مخشی بن عمرو" نے ـ جو اس علاقے میں سکونت پذیر تھا اور سنہ 2 ہجری میں رسول خدا(ص) کے ساتھ صلح کے معاہدے پر دستخط کر چکا تھا ـ آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس مقام پر مسلمانوں کے اجتماع کا سبب پوچھا تو آپ (ص) نے فرمایا: قریش سے ملاقات کے لئے اس مقام پر آئے ہیں اور اگر تم ہمارے اور تمہارے درمیان موجودہ معاہدے کو توڑنا چاہتے ہو تو میں اس کو توڑ دیتا ہوں تا کہ خداوند متعال ہمارے درمیان فیصلہ کرے۔ مخشی نے قسم اٹھا کر کہا کہ "ہم یہ معاہدہ توڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے"۔[49]

معبد بن ابی معبد خزاعی ـ جو بازار بدر میں موجود تھا اور سپاہ اسلام کے اجتماع کو دیکھ چکا تھا اور مخشی بن عمرو کے ساتھ رسول اللہ (ص) کا مکالمہ بھی سن چکا تھا ـ پہلا شخص تھا جس نے بدر الموعد کی خبریں مکہ منتقل کر دیا۔[50] بدر الموعد میں مسلمانوں کی آمد کے اثرات کا اندازہ ابو سفیان کے ساتھ صفوان بن امیہ کی گفتگو سے لگایا جا سکتا ہے جس میں اس نے کہا: "احد کے دن میں نے تمہیں مسلمانوں کو جنگ کا وعدہ دینے سے منع کیا تھا۔ اب وہ ہمارے خلاف جری ہوچکے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ہم اپنی کمزوری اور بے بسی کے بموجب وعدہ خلافی کرچکے ہیں"۔

قریش نے بعد از آں اگلے سال جنگ کے لئے منصوبہ بندی کا آغاز کیا جو غزوہ خندق کے نام سے مشہور ہوئی۔[51]

حوالہ جات

  1. واقدی، المغازى، ج‌1، ص‌384۔
  2. ابن کثیر، السیرة النبويہ، ج‌2، ص‌424۔
  3. ابن ہشام، السیرة النبويہ، ج‌3، ص‌209۔
  4. البيهقي، دلائل النبوة، ج‌3، ص‌384۔
  5. طبرسی، مجمع‌ البيان، ج‌2، ص‌888‌۔
  6. الدِّيار بکری، تاريخ الخميس، ج‌1، ص‌465۔
  7. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج‌2، ص‌46۔
  8. الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج‌2، ص‌67‌۔
  9. مجلسی، بحار الانوار، ج‌20، ص‌180۔
  10. واقدی، المغازى، ج‌1، ص‌386۔
  11. طبری، جامع البیان، ج3، ج4، ص241‌ـ‌242، طبرسی، مجمع البيان، ج‌2، ص‌888‌۔
  12. طبرسی، مجمع البيان، ج‌2، ص‌889‌، الفخر الرازی، التفسير الكبير، ج‌9، ص‌102۔
  13. طبرسی، مجمع البيان، ج‌2، ص‌889‌، الفخر الرازی، وہی ماخذ، ج‌9، ص‌100۔
  14. واقدی، المغازى، ج‌1، ص‌386، طوسی، التبيان فی تفسیر القرآن، ج‌3، ص‌54‌۔
  15. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج‌2، ص‌46، طبری، تاريخ طبرى، ج‌2، ص‌88‌، مجلسی، بحار الانوار، ج‌20، ص‌182‌ـ‌183۔
  16. طبرسی، مجمع البيان، ج‌3، ص‌128، مجلسی، بحار الانوار، ج‌20، ص‌182۔
  17. سوره نساء، آیہ 84۔
  18. سوره نساء، آیہ 104، طبرسی، مجمع البيان، ج‌3، ص‌159، مجلسی، بحار الانوار، ج‌20، ص‌182۔
  19. ابن حبیب، المحبر، ص‌113،الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج‌2، ص‌67‌،ابن کثیر، البداية والنهاية، ج‌4، ص‌72‌ـ‌73۔
  20. واقدی، المغازى، ج‌1، ص‌384،ابن سعد، الطبقات الکبری، ج‌2، ص‌59‌۔
  21. واقدی، المغازى، ج‌1، ص‌384،ابن سعد، الطبقات الکبری، ج‌2، ص‌59‌۔
  22. واقدی، المغازى، ج‌1، ص‌387،ابن کثیر، السیرة النبوية، ج‌2، ص‌427۔
  23. واقدی، المغازى، ج‌1، ص‌387،ابن سعد، الطبقات الکبری، ج‌2، ص‌60‌۔
  24. واقدی، المغازی، ج1، ص384۔
  25. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، ص59۔
  26. ابن هشام، سیرت رسول اللّه، (ترجمه فارسی)، ج2، ص724۔
  27. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج‌2، ص‌46، ابن جوزی، المنتظم، ج‌2، ص‌296، مجلسی، بحار الانوار، ج‌2، ص‌183۔
  28. ابن ہشام، السیرت النبويہ، ج‌3، ص‌209، ابن خلدون، تاريخ ابن خلدون، ج‌2، ص‌29۔
  29. واقدی، المغازى، ج‌1، ص‌288، ابن سعد، الطبقات الکبری، ج‌2، ص‌46۔
  30. واقدی، المغازى، ج‌1، ص‌388، حلبی، السيرت الحلبيہ، ج‌2، ص‌579‌۔
  31. السيرت الحلبيہ، ج‌2، ص‌580‌، الدِّيار بَکري، تاريخ الخميس، ج‌1، ص‌465۔
  32. واقدی، المغازى، ج‌1، ص‌384، ابن جوزی، المنتظم، ج‌3، ص‌204، الدیار بکری، تاريخ الخميس، ج‌1، ص‌465۔
  33. الوفاء باحوال المصطفى(صلى الله عليہ وآلہ)، ص‌711۔
  34. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج‌2، ص‌46، مونس، اطلس تاريخ اسلام، ص‌70۔
  35. واقدی، المغازى، ج‌1، ص‌384‌ـ‌385، ابن جوزی، المنتظم، ج‌3، ص‌205۔
  36. واقدی، المغازى، ج‌1، ص‌384، ابن سعد، الطبقات الکبری، ج‌2، ص‌46، ابن جوزی، المنتظم، ج‌3، ص‌205۔
  37. واقدی، المغازى، ج‌1، ص‌385۔
  38. واقدی، وہی ماخذ، ص‌386، ابن سعد، الطبقات الکبری، ج‌2، ص‌45، ابن جوزی، المنتظم، ج‌3، ص‌205۔
  39. واقدی، المغازى، ج‌1، ص‌387۔
  40. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج‌2، ص‌46، طبری، تاريخ طبرى، ج‌2، ص‌87‌۔
  41. ابن کثیر، البداية والنهاية، ج‌4، ص‌72، ابن سید الناس، عيون الاثر، ج‌2، ص‌79‌ـ‌80‌۔
  42. طبری، جامع البيان، ج 3، ج‌4، ص‌240، طبرسی، مجمع البيان، ج‌2، ص‌888۔
  43. ابن هشام، السیرة النبوية، ج‌1، ص‌209‌ـ‌210، ابن سعد، الطبقات الکبری، ج‌2، ص‌46۔
  44. السيرة النبويه، ابن هشام، ج3، ص210، ابن کثیر، البداية والنهاية، ج‌3، ص‌72۔
  45. ابن ہشام، السیرة النبويہ، ج‌3، ص‌210، طبری، تاريخ طبرى، ج‌2، ص‌87‌۔
  46. ابن کثیر، السيرة النبوية، ج‌2، ص‌427، مجلسی، بحار الانوار، ج‌20، ص‌183۔
  47. سوره آل عمران، آیہ 174۔
  48. جامع البیان، مج‌3، ج‌4، ص‌242‌ـ‌243، طبرسی، مجمع البيان، ج‌2، ص‌888‌۔
  49. واقدی، المغازى،‌ج‌1، ص‌388، البيہقي، دلائل النبوة، ج‌3، ص‌387، ابن سید الناس، عیون الاثر، ج‌2، ص‌79۔
  50. واقدی، المغازى، ج‌1، ص‌388، البيهقي، دلائل النبوة، ج‌3، ص‌386‌ـ‌387۔
  51. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج‌2، ص‌46، مجلسی، بحار الانوار، ج‌20، ص‌183۔

مآخذ

  • قرآن کریم، اردو ترجمہ: سید علی نقی نقوی (لکھنوی)۔
  • آیتی، محمد ابراہیم، تاریخ پیامبراسلام، چاپ ابو القاسم گرجی، تهران 1366 ہجری شمسی۔
  • ابن جوزى، ابوالفرج عبدالرحمن بن على ، المنتظم فى تاريخ الا مم و الملوک، محمد و مصطفی قادر عطاء، دارالکتب العلميہ، بيروت ، 1415هجری قمری / 1995 عیسوی۔
  • ابن حبیب، محمد، المحبر، بہ کوشش ایلزه لیشتن اشتتر، حیدرآباد دکن، 1361 هجری قمری/1942 عیسوی۔
  • ابن سعد، محمد منيع الزہري، الطبقات الكبرى السيرة الشريفة النبويہ دار صادر بيروت۔
  • ابن سید الناس، أبو الفتح محمد بن محمد بن محمد الیعمری، عیون الأثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر، دار القلم‏، بیروت، چاپ اول، 1414 هجری قمری۔
  • ابن كثير الدمشقي، ابو الفداء اسماعيل الدمشقي، السيرة النبويہ، تحقيق: مصطفی عبد الواحد، دار المعرفة للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت ـ لبنان 1396 هجری قمری / 1976 عیسوی۔
  • ابن كثير الدمشقي، ابو الفداء اسماعيل الدمشقي، البداية والنہايہ، تحقيق: علي شيري، دار إحياء التراث العربي، طبعة جديدة محققة الطبعة الاولى 1408 هجری قمری/ 1988 عیسوی۔
  • ابن ہشام، سیرت رسول اللّه، ترجمہ و انشای رفیع الدّین اسحاق بن محمد همدانی، چاپ اصغر مهدوی، تهران 1361هجری شمسی۔
  • البيہقي، ابوبکر احمد بن الحسيني، دلائل النبوة و معرفة احوال صاحب الشريعة، كتابخانه تخصصی تاریخ اسلام و ایران، دار الکتب العلميہ، قم ـ 1405 هجری قمری۔
  • الحلبي، ابو الفرج نور الدین علی بن ابراهیم بن احمد الشافعی، السیرة الحلبیة (انسان العیون فی سیره الامین المامون)، تصحیح: عبدالله محمد الخلیلی، دار الکتب العلمیہ، بیروت، الطبعہ: الثانيہ – 1427 هجری قمری۔
  • الدِّيار بَکري، حسين بن محمد بن الحسن، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيس، دار صادر - بيروت 2010 عیسوی۔
  • الرازي، فخر الدين، مفاتيح الغيب (تفسير الکبیر)، دار الفکر، بیروت 1401 ہجری قمری- 1981 عیسوی۔
  • الطبرسي، الفضل بن الحسن، مجمع البيان في تفسير القران، تحقیق: لجنة من العلماء، مقدمه: السيد محسن الامين العاملي، مؤسسة الاعلمي للمطبوعات بيروت - لبنان 1415 هجری قمری / 1995 عیسوی۔
  • الطبري، محمد بن جرير، تاريخ الامم والملوك (تاریخ الطبري)، مطبعہ " بريل بمدينہ ليدن، 1879 عیسوی۔
  • الطبري، محمد بن جرير، جامع البيان عن تأويل آي القرآن، قدم لہ: الشيخ خليل الميسو ضبط و توثيق و تخريج: صدقي جميل العطار ـ دار الفکر للطباعة، بيروت 1415 هجری قمری / 1995 عیسوی۔
  • الطوسي، شيخ الطائفة أبى جعفر محمد بن الحسن، التبيان في تفسير القرآن۔ تحقيق و تصحيح: أحمد حبيب قصير العاملي المجلد الاول دار إحياء التراث العربي، الطبعة الاولى النشر: 1409 هجری قمری۔
  • الفضل بن الحسن، مجمع البيان في تفسير القران، تحقیق: لجنة من العلماء، مقدمہ: السيد محسن الامين العاملي، مؤسسة الاعلمي للمطبوعات بيروت - لبنان 1415 ہجری قمری / 1995 عیسوی۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404 ہجری قمری۔
  • مونس، حسین، أطلس تاریخ الاسلام، موسسہ تحقيقات و نشر معارف اهل البيت(ع)۔
  • واقدی، محمد بن عمر، کتاب المغازی، چاپ مارسدن جونس، لندن 1966 عیسوی۔
  • الیعقوبی، أحمد بن أبي يعقوب بن جعفر بن وهب ابن واضح، تاریخ الیعقوبی، مؤسسه ونشر فرهنگ اہل بيت (ع) - قم - دار صادر بيروت۔

بیرونی روابط

پچھلا غزوہ:
ذات الرقاع
رسول اللہ(ص) کے غزوات
بدر الموعد
اگلا غزوہ:
دومۃ الجندل