پیغمبر اکرمؐ کی جنگیں

ویکی شیعہ سے

پیغمبر اکرمؐ کی جنگوں سے مراد ہجرت کے بعد اسلامی حکومت کے قیام کے لئے لڑی جانے والی مختلف جنگیں ہیں۔ بعض محققین کے مطابق یہ تمام جنگیں مشرکین کی جانب سے عہد شکنی یا ان کی عسکری تحرکات کی وجہ سے پیش آئی۔ اس بنا پر مستشرقین کا یہ کہنا کہ یہ جنگیں مادی مقاصد کے حصول کے لئے لڑی گئی تھی، بے بنیاد اور تاریخی شواهد کے برخلاف ہے۔

جن جنگوں میں پیغمبر اکرمؐ نے خود بنفس نفیس شرکت کی انہیں غَزوہ اور جن میں آپ نے بذات خود شرکت نہیں کی سَریّہ کہا جاتا ہے۔ تاریخی منابع کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی حیات مبارکہ میں تقریبا 80 جنگیں لڑی گئی ہیں۔ ان میں سے 30 جنگوں میں مسلحانہ جد و جہد کی نوبت آئی اور پانچ جنگوں میں لڑائی شدت اختیار کر گئی۔ ان جنگوں میں دونوں فریقوں کے مارنے جانے والوں کی مجموعی تعداد 900 سے 1600 افراد بتائی جاتی ہیں۔

قرآن میں ان جنگوں میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بعض جنگوں کا نام بھی قرآن میں آیا ہے۔ مفسرین کے مطابق سورہ حج کی آیت نمبر 39 یا سورہ بقرہ کی آیت نمبر 190 کے نازل ہونے کے بعد مسلمانوں کو باقاعدہ جنگ کا حکم دیا گیا۔ قرآن کے مطابق خدا نے ان جنگوں میں فرشتوں کے ایک گروہ کے ذریعے دشمنوں کے دلوں میں خوف اور مؤمنین کے دلوں میں سکون اور اطمینان پیدا کرنے کے ذریعے مسلمانوں کی مدد کی۔

جنگ میں پیغمبر اکرمؐ فوجی اصولوں کی رعایت کرتے تھے اور فیصلہ کن جنگوں کی قیادت بنفس نفیس آپ خود کرتے تھے۔ اسی طرح ان جنگوں میں آپؐ انسانی حقوق کی بھی رعایت کرتے تھے۔ عورتوں، بچوں اور عمر رسیدہ افراد کو قتل کرنے سے منع کرتے تھے۔ صحابہ کرام سے مشورت، اجتماعی قتل عام سے پرہیز اور مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کرنا جنگوں میں پیغمبر اکرمؐ کی سیرت رہی ہے۔

پیغمبر اکرمؐ ان جنگوں میں نفسیاتی جنگ جیسے مختلف جنگی حربوں سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ آپ اپنے لشکر کو پانچ دستوں میں تقسیم کرتے تھے جن میں مرکز، قلب لشکر، دائیں بازو، بائیں بازو اور حمایت شامل ہے۔ کسی مسلمان کو جنگ میں شرکت کرنے پر مجبور نہیں کرتے تھے اور خواتین اور بچوں کو بھی جنگ میں شرکت کرنے سے روکتے تھے۔

بعض خواتین جیسے حضرت فاطمہ زہرا(س)، ام ایمن، ام عطیہ اور ام عمارہ مردوں کے شانہ بشانہ جنگوں میں شرکت کرتی تھیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کے ساتھ ساتھ مجاہدین کے لئے پانی لانا، کھانا تیار کرنا، تیر بنانا یا جمع کرنے جیسے امور انجام دیتی تھیں۔

جنگوں میں پیغمبر اکرمؐ کا مقصد

پیغمبر اکرمؐ نے دین اسلام کی ترویج اور اسلامی حکومت کے قیام،[1] کے لئے مشرکین، یہودیوں اور رومیوں کے ساتھ جنگیں لڑی ہیں؛[2] کیونکہ دشمن آپ کو اسلامی حکومت قائم کرنے میں مانع بنتے تھے۔[3] اسی طرح مشرکین کے حملوں کا روک تھام اور ان کے فتوں کو ختم کرنا آپ کے دوسرے جنگی اہداف میں شمار کئے جاتے ہیں۔[4] اس بنا پر پیغمبر اکرمؐ جنگ شروع کرنے سے پہلے دشمن کو دین اسلام کی دعوت دیتے تھے اور جنگ صرف اسی صورت میں شروع کرتے تھے جب دشمن آپ کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کرتے تھے۔[5] کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کے الہی اہداف کو مد نظر رکھتے ہوئے دینی تعلیمات میں "جنگ" کے بدلے "خدا کی راہ میں جہاد" کی تعبیر استمعال کی گئی ہے۔[6] بعض محققین کے مطابق پیغمبر اکرمؐ تمام جنگوں میں لشکر اسلام کو جنگ کے اہداف اور اصول و ضوابط سے آگاہ کرتے تھے اور اس کے بعد ایک طاقتور فوجی لشکر تشکیل دیتے تھے۔[7]

ان تمام باتوں کے باوجود اکثر مستشرقین کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے مادی اہداف کے حصول اور سیاسی اور اقتصادی طور پر اپنی حکومت کو وسعت دینے کے لئے جنگ لڑی ہیں۔[8] البتہ ان جنگوں میں پیغمبر اکرمؐ کے اہداف کی تعیین میں مستشرقین یکساں نظریات کے حامل نہیں ہیں اس بنا پر غنایم جنگی یا مال و دولت کی جمع آوری، جاہ‌ طلبی اور مخالفین سے انتقام لینے کو آپ کے جنگی اہداف کے طور پر ذکر کرتے ہیں۔[9] بعض محققن ان باتوں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ تاریخی شواہد ان کے مدعا کو مسترد کرتے ہیں۔[10] اسی طرح بعض مستشرقین اس بات کے معتقد ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ ممکنہ حد تک جنگ سے دوری اختیار کرتے تھے اور صرف ضرورت پیش آنے کی صورت میں جیسے اسلام اور مسلمانوں کا دفاع میں جنگ کرتے تھے۔[11]

غزوات اور سریے

فاتح خیبر سائن بورڈ، حسن روح الامین کے قلم سے، 1397ہجری شمسی
تفصیلی مضمون: غزوہ اور سریہ

تاریخی منابع میں تاریخ اسلام کے باب میں پیغمبر اکرمؐ کی جنگوں کو غَزْوہ اور سَرِیّہ میں تقسیم کرتے ہیں:[12] جن جنگوں میں پیغمبر اکرمؐ خود شرکت کرتے اور جنگ کی قیادت خود سنبھالتے تھےغَزْوہ اور جن جنگوں میں پیغمبر اکرمؐ خود شرکت نہیں کرتے بلکہ اصحاب میں سے کسی کی قیادت میں ایک گروه کو کسی منطقہ‌ میں جنگ کے لئے بھیجتے تھے، سَرِیّہ کہا جاتا ہے۔[13] اس کے باوجود بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ غزوہ اور سریّہ کی مذکورہ تعریف صحیح نہیں ہے؛ بلکہ غزوہ پیغمبر اکرمؐ کے ان جنگوں کو کہا جاتا ہے جن کو آشکار طور پر کثیر لشکر کے ساتھ منظم طور پر لڑی گئی ہوں، جبکہ وہ جنگیں جن میں قلیل لشکر کے ساتھ مخفیانہ طور پر غیر منظم انداز میں لڑی گئی ہوں سریہ کہا جاتا ہے۔[14] دونوں تعریف کے قائلین کے درمیان غزوات اور سریوں کی تعداد میں اختلاف نہیں ہے؛ کیونکہ آخری تعریف کے مطابق پیغمبر اکرمؐ ان جنگوں میں شرکت نہیں کرتے تھے جن کو قلیل لشکر کے ساتھ دشمن کو متفرق کرنے یا دشمن کی شناسایی کے لئے انجام دی جاتی تھیں۔[15]

تعداد

تاریخی اسناد میں پیغمبر اکرمؐ کی تقریبا 80 جنگیں ثبت ہوئی ہیں۔[16] آپ کے غزوات اور سریّوں میں سے تقریباً 30 جنگوں میں عسکری قوت کا مظاہرہ کرنا پڑا جبکہ بای جنگیں بغیر کسی تصادم کے ختم ہوئیں۔[17] اسی طرح جن جنگوں میں عسکری طاقت کا مظاہرہ کیا گیا ان میں سے صرف پانچ اہم جنگوں میں لڑائی شدت اختیار کر گئیں۔[18] تاریخی محققین مختلفی تاریخی شواہد سے استناد کرتے ہوئے پیغمبر اکرمؐ کی جنگوں میں دونوں فریقوں کے مارے جانے والوں کی مجموعی تعداد 900 سے 1600 تک[19] اور صرف مسلمان شہداء کی تعداد 317 ذکر کی ہیں۔[20]

قرآن میں پیغمبر اکرمؐ کی جنگوں کا تذکرہ

سورہ آل‌ عمران کی آیت نمبر 123 جس میں جنگ بدر کا ذکر آیا ہے

قرآن کی مختلف سورتوں جیسے بَقَرہ، آل‌ عِمران، نِساء، مائدہ، اَنفال، توبہ، اَحزاب، فتح، حَشْر، صَف اور عادیات میں پیغمبر اکرمؐ کی بعض جنگوں کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[21]اس کے باوجود صرف جنگ بَدْر،[22] خَنْدَق[23] اور حُنَیْن[24] کا نام قرآن میں صراحت کے ساتھ ذکر ہوا ہے۔[25] کتاب تفسیر التبیان کے مؤلف شیخ طوسی کے مطابق سورہ حج کی آیت نمبر 39 کے نازل ہونے کے بعد پہلی دفعہ مسلمانوں کو جنگ کا حکم دیا گیا ہے۔[26] لیکن تفسیر المیزان کے مصنف علامہ طباطبایی کے مطابق یہ حکم سورہ بقرہ کی آیت نمبر 190 کے نازل ہونے کے بعد دیا گیا تھا۔[27]

غیبی امداد

جنگ بدر میں رسول خداؐ کی مدد کے لئے آنے والے فرشتوں کی تصویر کشی

قرآن کے مطابق بعض جنگوں میں خدا نے غیبی امداد کے ذریعے پیغمبر اکرمؐ کی حمایت کی ہیں:

  • سورہ اَنفال کی آیت نمبر 9 سے 11 کے مطابق خدا نے جنگ بدر میں فرشتوں کے ذریعے سپاہ اسلام کی مدد کی اور دشمن کے دلوں میں خوف و ہراس پھیلایا اور مختصر مدت کے لئے مسلمانوں کو ہلکی نیندھ کے ذریعے سکون اور اطمینان عطا کیا اور آخر کار یہ جنگ مسلمان جیت گئے۔[28]
  • سورہ آل‌ عمران آیت نمبر 151 کے مطابق باوجود اینکہ جنگ اُحد میں مشرکین مسلمانوں کے ایک گروہ کی غلطی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنگ میں کامیابی حاصل کی اور مدینہ پر حملہ کرنے کے ذریعے اسلام کو ختم کرنے کا عزم کیا لیکن خدا کی جانب سے ان کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی وجہ سے وہ اس کام سے منصرف ہوئے اور مکہ واپس لوٹ گئے۔[29]
  • سورہ احزاب کی آیت نمبر 9 کے مطابق جنگ احزاب میں مشرکین مکہ اور دیگر قبائل نے متحد ہو کر مدینہ پر حملہ کرنے اور پیغمبر اکرمؐ کو شہید اور اسلام کو ختم کرنے کا ارادہ کیا، لیکن خدا نے نامرئی فوج، ہوا اور طوفان کے ذریعے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور وہ اس جنگ میں کامیاب ہوئے۔[30]
  • سورہ توبہ کی آیت نمبر 26 کے تحت جنگ حُنین میں سپاہ اسلام کے ایک گروہ کے مغرور ہونے کی وجہ سے ابتدا میں مشرکین کو کامیابی ملی لیکن ناگہان خدا نے مؤمنین کے دلوں میں سکون اور اطمینان نازل کر کے انہیں دوبارہ جنگ کرنے پر آماده کیا اور آخر میں کامیابی نے مسلمانوں کے قدم چومی۔[31]

پیغمبر کی جنگیں جہاد دفاعی تھیں یا جنگ ابتدایی؟

بعض اسلامی محققین کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے کبھی بھی جنگ میں پہلی نہیں کئے اور آپ کی تمام جنگیں مشرکین کی طرف سے پیمان شکنی یا عسکری تحرکات کے سبب وجود مں آئی ہیں۔[32] اسی طرح آیت اللہ مصباح یزدی اس بات کے معتقد ہیں کہ جہاد ابتدایی خود دفاع کے مصادیق میں سے ہے؛ چونکہ جس طرح مسلمانوں کی جان اور وطن کا دفاع ضروری ہے حقوق اللہ کا دفاع بھی واجب ہے۔[33]

جنگوں میں پیغمبر اکرمؐ کی سیرت

پیغمبر اکرمؐ جنگوں میں تمام فوجی اصول اور قوانین کی رعایت کرتے تھے۔[34] عسکری نظم و نسق کو اہمیت دیتے تھے اور کسی کو مشن کی جگہ چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔[35] پیغمبر اکرمؐ اہم اور فیصلہ کن جنگوں (جیسے بدر، احد اور خندق) کی قیادت خود کرتے تھے۔[36] نہج البلاغہ کے مطابق پیغمبر اکرمؐ جنگ میں فرنٹ لائن پر ہوتے تھے اور جنگ کی سخیوں میں دوسرے مسلمان آپ کی پناہ لیتے تھے۔[37] پیغمبر اکرمؐ دشمن کی معلومات حاصل کرنے کو اہمیت کی نگاه سے دیکھتے تھے[38] اور اس مقصد کے لئے دشمن کے لشکر میں جاسوس بھیجتے تھے اور اپنے لشکر کے راز فاش ہونے سے احتیاط کرتے تھے۔[39] درج ذیل موارد کو جنگوں میں پیغمبر اکرمؐ کی روش اور سیرت میں شمار کئے جاتے ہیں:

  • انسانی حقوق کی رعایت: بعض محققین کے مطابق جنگوں میں پیغمبر اکرمؐ کی کوشش ہوتی تھی کہ جانی اور مالی نقصان کم سے کم ہو۔[40] دشمن کے جنازوں کو مُثلہ کرنے، درختوں کو کاٹنے، عورتوں، بچوں اور عمر رسیدہ افراد کو قتل کرنے سے منع کرتے تھے۔[41] اگر خواتین اور بچے مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک بھی ہوتے تو پھر بھی حکم دیتے تھے کہ ممکنہ حد تک ان کو قتل کرنے سے پرہیز کی جائے۔[42] بعض محققین کے مطابق دنیا میں سے پہلے اسیروں اور غیر نظامیوں کی حمایت کا قانون دین اسلام نے لکھا ہے۔[43]
  • جنگ میں فعال سفارت کاری: پیغمبر اکرمؐ زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کرنے کے لئے جنگ کے ساتھ ساتھ فعال سفارت کاری پر بھی توجہ دیتے تھے؛ اس بنا پر غیر جانبدار قوتوں سے سیاسی معاہدے کئے گئے تاکہ ایک طرف ان کو دشمن کے ساتھ ملحق ہونے سے روکا جا سکے اور دوسری طرف ان کی قدرت اور توانائیوں سے اپنی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔[44] پیغمبر اکرمؐ جہاں بھی دشمن کے ساتھ صلح اور مذکرات کرنے میں مصلحت دیکھتے ان کے ساتھ صلح کرتے تھے بصورت دیگر کسی صورت میں ان سے مذاکرات کرنے سے پرہیز کرتے تھے۔[45]
  • جنگی مشاورتی ٹیم کی تشکیل:[46] جیسے جنگ اُحد میں مدینے کی اندر جنگ کرنے یا مدینے سے باہر جنگ کرنے کے حوالے سے مشاورتی ٹیم کی تشکیل[47] اور جنگ احزاب میں کواں اور خندق کھودنے کا مشورہ۔[48]
  • مدینہ میں جانشین مقرر کرنا: پیغمبر اکرمؐ ہمیشہ اور تمام جنگوں میں جب بھی آپؐ مدینہ سے باہر جاتے تو کسی کو اپنا جانشین مقرر کرتے تھے۔[49]
  • عفو و درگزر: فتح مکہ میں آپؐ نے قریش کے سرداروں کو امان دیئے، حالانکہ انہوں نے اس سے پہلے پیغمبر اکرمؐ کو اپنے وطن سے نکال دیا تھا اور آپؐ کے رشتہ داروں اور چاہنے والوں کو قتل کیا تھا۔[50]
  • قتل عام سے ممانعت: پیغمبر اکرمؐ شہروں کو مسموم کرنے سے منع کرتے تھے۔[51]

جنگ میں شرکت کرنے والے

پیغمبر اکرمؐ کبھی بھی کسی مسلمان کو جنگ میں شرکت کرنے کے لئے مجبور نہیں کرتے تھے۔[52] اگرچہ آپ غیر مسلموں سے اسلحہ اور جنگی سامان خریدتے تھے لیکن کبھی بھی ان کے افرادی قوت سے مدد نہیں لیتے تھے۔[53] کہا گیا ہے کہ جنگ میں شرکت کرنے کے لئے مسلمانوں کی عمر کی قید 15 سال تھی[54] اور پیغمبر اکرمؐ 15 سال سے کم عمر والوں کو جنگ میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔[55] اگر جنگ کے لئے زیادہ افرادی قوت کی ضرورت نہیں ہوتی تو آپؐ جنگ کے لئے اعلان عمومی نہیں کرتے تھے؛ لیکن جب بھی اسلامی لشکر کیلئے زیادہ افرادی قوت کی ضرورت ہوتی تو عمومی اعلان کے ذریعے سب کو (ناتوان افراد کے علاوہ) جنگ کے لئے دعوت دیتے تھے۔[56] اس کے باوجود کسی شخص کو جنگ میں شرکت کرنے کے لئے مجبور نہیں کرتے تھے۔[57] اسی طرح پیغمبر اکرمؐ ان افراد کو جنگ میں شرکت کرنے سے منع کرتے تھے جن میں جنگ کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتے تھے۔[58] پیمان‌ نامہ بیعۃ الحرب کے مطابق مدینہ کے اندر پیغمبر اکرمؐ کی جان کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری وہاں موجود افراد کی تھی اور جب آپ مدینہ سے باہر جنگ کے لئے جاتے تو مدینہ کے اندر موجود افراد کی اس سلسلے میں کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی تھی۔[59] اسی بنا پر جنگ بدر سے پہلے پیغمبر اکرمؐ کے تمام سپاہی انصار میں سے تھے لیکن جنگ بدر کے شروع ہونے کے بعد مہاجرین کی طرف سے جنگ میں شرکت کرنے کی خواہش کی اظہار کے بعد ان کو بھی جنگوں میں شریک ہونے کی اجازت مل گئی۔[60]

جنگ میں خواتین کی شرکت

پیغمبر اکرمؐ کی جنگوں میں مردوں کے ساتھ خواتین بھی شریک ہوتی تھیں۔[61] زخمیوں کی مرحم پٹی، مجاہدین کے لئے پانی کا بندوبست، کھانا تیار کرنا، تیر اور دیگر جنگی سازو سامان کی جمع آوری اور شہداء اور زخمیوں کو شہر تک منتقل کرنا ان جنگوں میں خواتین کی ذمہ داری ہوتی تھی۔[62] بعض خواتین جیسے کَعیبہ بِنت سَعْد اور رَفیدہ اَنصاریّہ مخصوص خیمے نصب کرتی تھیں جن میں زخمیوں اور بیماروں کا علاج معالجہ کرتی تھیں۔[63]

جنگ خیبر میں اسلامی فوج کے ساتھ چھ (6) خواتین بھی شریک تھیں۔[64] جنگ اُحُد میں بھی چودہ (14) خواتین نے شرکت کی تھیں جو زخمیوں کی رحم پٹی اور مجاہدین کے لئے کھانے پینے کا بندوبست کرتی تھی۔[65] من جملہ ان خواتین میں حضرت فاطمہ زہرا(س)، عایشہ اور اُمّ اَیْمَن کا نام لیا جا سکتا ہے۔[66] حضرت فاطمہ زہرا(س) نے جنگ احد میں امام علیؑ کی مدد سے پیغمبر اکرمؐ کے زخموں کی مرحم پٹی کیں۔[67] ام ایمن جنگ‌ اُحد اور خیبر میں شریک ہوئیں۔[68] اُمّ عَطیّہ بہت ساری جنگوں میں شریک تھیں۔[69] خود ان کے بقول انہوں نے سات (7) جنگوں میں شرکت کی تھیں۔[70] ربیع بنت معوّذ بھی ان خواتین میں شامل تھی جو پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ جنگوں میں شریک ہوتی تھی۔[71] اُمّ عَمارہ بھی مختلف جنگوں جیسے جنگ احد، خیبر اور حُنَین میں شریک ہو کر مردوں کے ساتھ جنگ کرتی تھی۔[72] وہ مختلف جنگوں میں زخمی بھی ہوئی اور جنگ احد میں پیغمبر اکرمؐ پر مشرکین کے حملے کے دوران وہ تلوار اٹھا کر پیغمبر اکرمؐ کا دفاع کرتی رہی۔[73]

جنگی حربے

صدر اسلام میں لشکر کو منظم کرنے کی تصویر کشی۔[74]

پیغمبر اسلامؐ بعض جنگوں جیسے غزوہ خیبر[75] میں لشکر اسلام کو پانچ دستوں میں تقسیم کرتے تھے۔[76] اس تقسیم کے تحت لشکر مرکزی حصہ، قلب لشکر، دائیں بازو، بائیں بازو اور حمایت پر مشتمل ہوا کرتے تھے۔[77] پیغمبر اکرمؐ کے جنگی حربوں میں سے ایک جنگ کو خود دشمن کی سرزمین میں شروع کرنا تھا تاکہ جنگ کے تمام تر نقصانات دشمن پر ہی آسکے۔[78] بعض مواقع پر لشکر اسلام کو غیر متوقع راستوں کے ذریعے لے جایا کرتے تھے دشمن کے اطلاعاتی مشینری لشکر اسلام کے اصل اہداف سے آگاہ نہ ہو سکے۔[79] بعض مواقع پر جب پیغمبر اسلامؐ کو پتہ چلتا کہ دشمن مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے جمع ہو گئے ہیں تو آپ غافلگیرانہ حملہ کر کے دشمن کے اجتماع کو پراکندہ کرتے تھے جس سے جنگ کی وسعت میں کمی آتی تھی۔[80]

دشمن کو دھوکہ دینے کا حربہ بھی پیغمبر اکرمؐ کے جنگی حربوں میں شامل ہوا کرتا تھا۔[81] پیغمبر اکرمؐ نے جنگ خیبر میں لشکر اسلام کو شروع میں غَطفان کی طرف لے گئے اس کے بعد ایک مختصر گروہ کو ان کی طرف روانہ کر کے آپ خود اصل لشکر کے ساتھ خیبر کی طرف چلے گئے۔ اس کام سےاہل غطفان اور خیبر دونوں غافل‌گیر ہو گئے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے سے رہ گئے۔[82] بعض جنگوں میں دشمن کو ناکام بنانے کے لئے نفسیاتی جنگ سے فائدہ اٹھاتے تھے؛[83] مثلاً جنگ حَمراء الاَسَد میں رات کے وقت 500 جگہوں پر آگ روشن کئے جاتے تاکہ دشمن انہیں دیکھ کر خوف زدہ ہوں؛[84] چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر عباس بن عبدالمطّلب نے پیغمبر اکرمؐ کے حکم پر ابوسفیان کو ایک ایسی جگہ لے گئے جہاں سے ان کو مسلمانوں کے عظیم لشکر کا مشاہدہ کروایا[85] تاکہ وہ ہر قسم کی مزاحمت یا جنگ کا خیال ہی اپنے ذہن سے نکال باہر کر دے یوں فتح مکہ بغیر جنگ کے اختتام کو پہنچی۔[86] پیغمبر اکرمؐ مختلف جنگوں میں غافلگیری کے حربے سے بھی فائدہ اٹھاتے تھے؛ مثلاً بنی‌ قریظہ کو جنگ کے وقت کے حوالے سے، اہل خیبر کو جنگ کی جگہ کے حوالے سے اور جنگ احزاب میں مشرکین کو تصادم کے حوالے سے غافلگیر کئے گئے۔[87]

جنگی وسائل اور ساز و سامان

اسلامی حکومت کے قیام اور مستحکم ہونے کے بعد رسول اکرمؐ نے جنگی وسائل اور ساز و سامان کی فراہمی کی ذمہ داری خود اپنے کاندوں پر اٹھایا؛ جبکہ ہجرت کے ابتدائی سالوں میں جنگی وسائل اور ساز و سامان جنگ میں شرکت کرنے والے دولتمند افراد اور عام لوگ فراہم کرتے تھے۔[88] مثلاً پیغمبر اکرمؐ نے سعد بن زید کو حکم دیا کہ وہ بنی‌ قریظہ کے اسراء کے ساتھ نَجْد جا کر لشکر اسلام کے لئے گھوڑے اور اسلحہ تیار کریں۔[89] اسی طرح جنگ تبوک میں جب بعض صحابہ نے پیغمبر اکرمؐ سے جنگی وسائل کا تقاضا کیا تاکہ وہ بھی جہاد کی فضیلت سے محروم نہ رہ سکیں، تو آپ نے ان کی خواہش پوری کرنے کا حکم دیا۔[90]

پیغمبر اکرمؐ مختلف قبائل کے ساتھ عہد و پیمان باندھتے تھے تاکہ لشکر اسلام کے لئے اسلحہ اور دوسری ضروری وسائل ان سے خریدے جا سکیں۔[91] اسی طرح پیغمبر اکرمؐ بعض مواقع پر لشکر اسلام کے لئے ضروری جنگی وسایل بعض قبائل سے کرایہ پر لیتے تھے۔[92] مسلمانوں نے بعض جنگوں میں بعض پیشرفتہ اسلحوں جیسے منجنیق[93] اور دَبّابہ (ایک قسم کی جنگی گاڑی جسے دیواروں کو مسمار کرنے کے لئے استعمال کی جاتی تھی[94]) وغیره کا استعمال کئے۔[95]

حوالہ جات

  1. معاونت پژوہشی مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، سیمای معصومین در اندیشہ امام خمینی، 1375ہجری شمسی، ص132۔
  2. قائدان، «سازماندہی جنگی در غزوات عصر پیغمبر»، ص75۔
  3. معاونت پژوہشی مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، سیمای معصومین در اندیشہ امام خمینی، 1375ہجری شمسی، ص132۔
  4. قائدان، مدیریت و رہبری پیغمبر اکرمؐ در عرصہ‌ہای نظامی»، ص23۔
  5. صادقی، «اصول حقوق جنگ در سیرہ نبوی»، ص119۔
  6. قائدان، مدیریت و رہبری پیغمبر اکرمؐ در عرصہ‌ہای نظامی»، ص35۔
  7. قائدان، مدیریت و رہبری پیغمبر اکرمؐ در عرصہ‌ہای نظامی»، ص7۔
  8. عبدالمحمدی، و اکبری، «نقد و بررسی دیدگاہ مستشرقان دربارہ اہداف غزوات و سرایای پیغمبر اکرمؐ»،‌ ص7۔
  9. عبدالمحمدی، و اکبری، «نقد و بررسی دیدگاہ مستشرقان دربارہ اہداف غزوات و سرایای پیغمبر اکرمؐ»،‌ ص8-12۔
  10. عبدالمحمدی، و اکبری، «نقد و بررسی دیدگاہ مستشرقان دربارہ اہداف غزوات و سرایای پیغمبر اکرمؐ»،‌ ص17-29۔
  11. عبدالمحمدی، و اکبری، «نقد و بررسی دیدگاہ مستشرقان دربارہ اہداف غزوات و سرایای پیغمبر اکرمؐ»،‌ ص13-14۔
  12. سبحانی، فرازہایی از تاریخ پیغمبر اسلام، 1386ہجری شمسی، ص216۔
  13. سبحانی، فرازہایی از تاریخ پیغمبر اسلام، 1386ہجری شمسی، ص216۔
  14. قائدان، «سازماندہی جنگی در غزوات عصر پیغمبر»، ص79-80۔
  15. قائدان، «سازماندہی جنگی در غزوات عصر پیغمبر»، ص80۔
  16. صادقی، «اصول حقوق جنگ در سیرہ نبوی»، ص137۔
  17. علیخانی، «تحلیل سیاسی جنگ‌ہای پیغمبر اکرم راہبردی برای امروز» ص71۔
  18. علیخانی، «تحلیل سیاسی جنگ‌ہای پیغمبر اکرم راہبردی برای امروز» ص71۔
  19. نصیری، تاریخ پیغمبر اسلام، 1383ہجری شمسی، ص76۔
  20. قائدان، «مدیریت و رہبری پیغمبر اکرمؐ در عرصہ‌ہای نظامی»، ص15۔
  21. مصباح یزدی، جنگ و جہاد در قرآن، 1394ہجری شمسی، ص118۔
  22. سورہ آل‌عمران، آیہ 123۔
  23. سورہ احزاب، آیہ 22۔
  24. سورہ توبہ، آیہ 25۔
  25. مصباح یزدی، جنگ و جہاد در قرآن، 1394ہجری شمسی، ص117۔
  26. شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج7، ص123۔
  27. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج2، ص60۔
  28. مکارم شیرازی و دیگران، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج7، ص103-107۔
  29. مکارم شیرازی و دیگران، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج3، ص125-126، طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج4، ص43۔
  30. مکارم شیرازی و دیگران، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج17، ص216-218۔
  31. مکارم شیرازی و دیگران، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج7، ص338-341۔
  32. منتظری، حکومت دینی و حقوق انسان، 1387ہجری شمسی، ص68-69؛ صالحی نجف آبادی، جہاد در اسلام، 1382ہجری شمسی۔ ص34۔
  33. مصباح یزدی، جنگ و جہاد در قرآن، 1394ہجری شمسی، ص148-151۔
  34. مرکز تحقیقات سپاہ، جنگ‌ہای پیغمبر اکرمؐ، 1378ہجری شمسی، ص120۔
  35. مرکز تحقیقات سپاہ، جنگ‌ہای پیغمبر اکرمؐ، 1378ہجری شمسی، ص120۔
  36. مرکز تحقیقات سپاہ، جنگ‌ہای پیغمبر اکرمؐ، 1378ہجری شمسی، ص118۔
  37. نہج‌البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، حکمت 266، ص520۔
  38. وتر، فن الحرب الاسلامی فی عہد الرسولؐ، دار الفکر، ص143۔
  39. مرکز تحقیقات سپاہ، جنگ‌ہای پیغمبر اکرمؐ، 1378ہجری شمسی، ص120۔
  40. مرکز تحقیقات سپاہ، جنگ‌ہای پیغمبر اکرمؐ، 1378ہجری شمسی، ص119۔
  41. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج5، ص27۔
  42. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج5، ص29۔
  43. ہوشیار و دیگران، «بازتاب جنگ‌ہای پیغمبر اکرمؐ در کتاب‌ہای تاریخ اسلام ایران از سال 1358ش تا کنون»، ص82۔
  44. جلیلی، سیاست خارجی پیغمبر اکرمؐ، 1374ہجری شمسی، ص105-106۔
  45. جلیلی، سیاست خارجی پیغمبر اکرمؐ، 1374ہجری شمسی، ص112-114۔
  46. تقی‌ زادہ اکبری، «روش فرماندہی پیغمبر اعظمؐ»، ص15۔
  47. نگاہ کنید بہ: واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص209-211۔
  48. قمی، تفسیر القمی، 1363ہجری شمسی، ج1، ص177۔
  49. عبدالشافی، السیرۃ النبویۃ و التاریخ الاسلامی، 1428ھ، ص153۔
  50. تقی‌زادہ اکبری، «روش فرماندہی پیغمبر اعظمؐ»، ص9۔
  51. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج5، ص28۔
  52. صادقی، «اصول حقوق جنگ در سیرہ نبوی»، ص129۔
  53. صادقی، «اصول حقوق جنگ در سیرہ نبوی»، ص127۔
  54. صادقی، «اصول حقوق جنگ در سیرہ نبوی»، ص131۔
  55. نگاہ کنید بہ: بیہقی، السنن الکبری، 1424ھ، ج9، ص37۔
  56. قائدان، «مدیریت و رہبری پیغمبر اکرمؐ در عرصہ‌ہای نظامی»، ص13۔
  57. قائدان، «مدیریت و رہبری پیغمبر اکرمؐ در عرصہ‌ہای نظامی»، ص15۔
  58. مرکز تحقیقات سپاہ، جنگ‌ہای پیغمبر اکرمؐ، 1378ہجری شمسی، ص120۔
  59. قائدان، «مدیریت و رہبری پیغمبر اکرمؐ در عرصہ‌ہای نظامی»، ص12۔
  60. قائدان، «مدیریت و رہبری پیغمبر اکرمؐ در عرصہ‌ہای نظامی»، ص12۔
  61. جلالی کندری، «حضور نظامی زنان در صدر اسلام»، ص108۔
  62. جلالی کندری، «حضور نظامی زنان در صدر اسلام»، ص108؛ برای نمونہ نگاہ کنید بہ: بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج4،‌ ص24۔
  63. نگاہ کنید بہ: ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1414ھ، ج8، ص226-227؛ ابن‌حجر عسقلانی، الاصابہ، 1415ھ، ج8، ص297؛ ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج4، ص1838؛ ابن‌حجر عسقلانی، الاصابہ، 1415ھ، ج8، ص135-136۔
  64. ابن‌اثیر،‌ اسد الغابہ، 1409ھ، ج6، ص334۔
  65. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص249-250۔
  66. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص249-250۔
  67. ابن‌حجاج، صحیح مسلم، دار الإحیاء التراث العربی، ج3، ص1416۔
  68. ابن‌سعد، الطبقات الکبری،‌ 1414ھ، ج8، ص180۔
  69. ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج4، ص1947۔
  70. ابن‌سعد، الطبقات الکبری،‌ 1414ھ، ج8، ص333۔
  71. ابن‌جوزی، المنتظم، 1412ھ، ج5، ص137؛ ابن‌حجر عسقلانی، الاصابۃ، 1415ھ، ج8، ص132-133۔
  72. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1414ھ، ج8، ص303-305۔
  73. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1414ھ، ج8، ص303۔
  74. ذیلابی، «جنگ، از صدر اسلام تا پایان خلافت عباسی»، ص63۔
  75. ابن‌سعد، الطبقات الکبری،‌ 1414ھ، ج2، ص81۔
  76. قائدان، مدیریت و رہبری پیغمبر اکرمؐ در عرصہ‌ہای نظامی»، ص26۔
  77. قائدان، مدیریت و رہبری پیغمبر اکرمؐ در عرصہ‌ہای نظامی»، ص26۔
  78. خطاب، الرسول القائد، 1422ھ، ص208۔
  79. خطاب، الرسول القائد، 1422ھ، ص203۔
  80. تقی‌زادہ اکبری، «روش فرماندہی پیغمبر اعظمؐ»، ص17-18۔
  81. تقی‌زادہ اکبری، «روش فرماندہی پیغمبر اعظمؐ»، ص18-19۔
  82. خطاب، الرسول القائد، 1422ھ، ص452-453۔
  83. تقی‌زادہ اکبری، «روش فرماندہی پیغمبر اعظمؐ»، ص19۔
  84. ابن‌سید الناس، عیون الاثر، 1414ھ، ج2، ص54۔
  85. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویہ، دار المعرفہ، ج2، ص403-404۔
  86. خطاب، الرسول القائد، 1422ھ، ص337۔
  87. فیروزی، و حسینی، «بررسی اہمیت اصل غافلگیری در جنگ‌ہای پیغمبر اکرمؐ و کاربرد آن در عصر حاضر»، ص196-200۔
  88. قائدان، مدیریت و رہبری پیغمبر اکرمؐ در عرصہ‌ہای نظامی»، ص16-17۔
  89. بیہقی، دلائل النبوہ، 1405ھ، ج4، ص24۔
  90. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج3، ص994۔
  91. قائدان، مدیریت و رہبری پیغمبر اکرمؐ در عرصہ‌ہای نظامی»، ص18؛ برای نمونہ نگاہ کنید بہ: بلاذری، فتوح البلدان، 1988م، ص71؛ مقریزی، امتاع الاسماع، 1420ھ، ج9، ص367۔
  92. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1414ھ، ج1، ص220۔
  93. ابن‌اثیر، اسد الغابہ، 1409ھ، ج1، ص30۔
  94. صالحی شامی، سبل الہدی، 1414ھ، ج6، ص210۔
  95. نگاہ کنید بہ: یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995م، ج4، ص12۔

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • ابن‌اثیر، عز الدین، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابہ، بیروت، دار الفکر، 1409ھ۔
  • ابن‌جوزی، عبدالرحمن بن علی، المنتظم فی تاریخ الامم و الملوک، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1412ھ۔
  • ابن‌حجاج، مسلم، صحیح مسلم، بیروت، دار الإحیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • ابن‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، بیروت، دار الکتب العملیہ، 1415ھ۔
  • ابن‌سعد، محمد، الطبقات الکبری، طائف، مکتبۃ الصدیھ، 1414ھ۔
  • ابن‌سید الناس، محمد، عیون الاثر فی فنون المغازی و الشمائل و السیر، بیروت، دار القلم، 1414ھ۔
  • ابن‌عبدالبر،‌ یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، بیروت، دار الجیل، 1412ھ۔
  • ابن‌ہشام، عبدالملک، السیرۃ النبویہ، بیروت، دار المعرفہ، بی‌تا۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، بیروت، دار طوق النجاہ، 1422ھ۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، فتوح البلدان، بیروت، دار و مکتبۃ الہلال، 1988م۔
  • بیہقی، احمد بن الحسین، السنن الکبری، بیروت، دار الفکر، 1424ھ۔
  • بیہقی، احمد بن الحسین، دلائل النبوۃ و معرفۃ احوال صاحب الشریعہ، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1405ھ۔
  • تقی‌زادہ اکبری، علی، «روش فرماندہی پیغمبر اعظمؐ»، فصلنامہ حصون، شمارہ 9، پاییز 1385ہجری شمسی۔
  • جلالی کندری، سہیلا، «حضور نظامی زنان در صدر اسلام»، فصلنامہ علوم انسانی دانشگاہ الزہرا(س)، شمارہ 46 و 47، تابستان و پاییز 1382ہجری شمسی۔
  • جلیلی، سعید، سیاست خارجی پیغمبر اکرمؐ، تہران، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، 1374ہجری شمسی۔
  • خطاب، محمود شیت، الرسول القائد، بیروت، دار الفکر، 1422ھ۔
  • ذیلابی، نگار، «جنگ، از صدر اسلام تا پایان خلافت عباسی»، در دانشنامہ جہان اسلام، جلد 11، تہران، بنیاد دایرۃ المعارف اسلامی، 1386ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، فرازہایی از تاریخ پیغمبر اسلام، تہران، مشعر، 1386ہجری شمسی۔
  • سید رضی، محمد بن حسین، نہج‌البلاغہ، مصحّح: صبحی صالح، قم، ہجرت، 1414ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • صادقی، مصطفی، «اصول حقوق جنگ در سیرہ نبوی»، فصلنامہ حصون، شمارہ 21، پاییز 1388ہجری شمسی۔
  • صالحی شامی، محمد بن یوسف، سبل الہدی و الرشاد فی سیرۃ خیر العباد، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1414ھ۔
  • صالحی نجف‌آبادی، نعمت‌اللہ، جہاد در اسلام، تہران، نی، 1382ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1417ھ۔
  • عبدالشافی، محمد عبداللطیف، السیرۃ النبویۃ و التاریخ الاسلامی، قاہرہ، دار السلام، 1428ھ۔
  • عبدالمحمدی، حسین، و ہادی اکبری، «نقد و بررسی دیدگاہ مستشرقان دربارہ اہداف غزوات و سرایای پیغمبر اکرمؐ»، در مجلہ تاریخ اسلام، شمارہ 51، پاییز 1391ہجری شمسی۔
  • علیخانی، علی‌اکبر، «تحلیل سیاسی جنگ‌ہای پیغمبر اکرم راہبردی برای امروز»، در پژوہشنامہ علوم سیاسی، شمارہ 7، تابستان 1386ہجری شمسی۔
  • فیروزی، سعید، و حسینی، سید ہدایت‌اللہ، «بررسی اہمیت اصل غافلگیری در جنگ‌ہای پیغمبر اکرمؐ و کاربرد آن در عصر حاضر»، در دو فصلنامہ پژوہش‌ہای علوم نظامی، شمارہ 2، پاییز و زمستان 1399ہجری شمسی۔
  • قائدان، اصغر، «سازماندہی جنگی در غزوات عصر پیغمبر»، در مجلہ مطالعات تاریخی جنگ، شمارہ 3، بہار 1397ہجری شمسی۔
  • قائدان، اصغر، «مدیریت و رہبری پیغمبر اکرمؐ در عرصہ‌ہای نظامی»، در فصلنامہ مطالعات راہبردی بسیج، شمارہ 31، تابستان 1385ہجری شمسی۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، قم، دار الکتاب، 1363ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
  • مرکز تحقیقات سپاہ، جنگ‌ہای پیغمبر اکرمؐ، تہران، ستاد نمایندگی ولی فقیہ، 1378ہجری شمسی۔
  • مصباح یزدی، محمدتقی، جنگ و جہاد در قرآن، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی(رہ)، 1394ہجری شمسی۔
  • معاونت پژوہشی مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، سیمای معصومین در اندیشہ امام خمینی، 1375ہجری شمسی۔
  • مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع بما للنبی من الاحوال و الاموال و الحفدۃ و المتاع،‌ بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1420ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر و دیگران، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1374ہجری شمسی۔
  • منتظری، حسینعلی، حکومت دینی و حقوق انسان، قم، ارغوان دانہجری شمسی، 1387ہجری شمسی۔
  • نصیری، محمد، تاریخ پیغمبر اسلام، قم، نشر معارف، 1383ہجری شمسی۔
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1409ھ۔
  • وَتَر، محمد ضاہر، فن الحرب الاسلامی فی عہد الرسولؐ، دمشھ، دار الفکر، بی‌تا۔
  • ہوشیار، فریناز، و دیگران، «بازتاب جنگ‌ہای پیغمبر اکرمؐ در کتاب‌ہای تاریخ اسلام ایران از سال 1358ش تا کنون»، در فصلنامہ علمی پژوہشی تاریخ، شمارہ 65، تیر 1401ہجری شمسی۔
  • یاقوت حموی، معجم البلدان، بیروت، دار صادر، 1995ء۔