غزوہ طائف

ویکی شیعہ سے
غزوه طائف
سلسلۂ محارب: رسول خدا(ص) کے غزوات
فائل:طائف.png

تاریخ
مقام طائف
محل وقوع طائف، سطح سمندر سے 1600 میٹر بلندی پر اور مکہ سے جنوب مشرق کی جانب 88 کلومیٹر دور واقع ہے۔
نتیجہ مسلمانوں کی فتح۔
سبب جنگ حنین سے بھاگے ہوئے ہوازن اور ثقیف کے مشرکین کا طائف کی جانب فرار کرنا اور قلعہ بند ہونا۔
ملک حجاز
فریقین
سپاہ اسلام ہوازن اور ثقیف کے مشرکین
قائدین
حضرت محمد(ص)
نقصانات
کئی افراد شہید ہوئے


پیغمبر اکرمؐ کی مدنی زندگی
ہجرت نبوی 622ء بمطابق
معراج 622ء بمطابق
غزوہ بدر 624ء بمطابق 17 رمضان
امام علی اور حضرت فاطمہ کی شادی 624ء بمطابق یکم ذی الحجہ
بنی‌قینقاع کی شکست 624ء بمطابق 15 شوال
غزوہ احد 625ء بمطابق شوال
بنو نضیر کی شکست 625ء بمطابق
غزوہ احزاب 627ء بمطابق
بنو قریظہ کی شکست 627ء بمطابق
غزوہ بنی مصطلق 627ء بمطابق یا
صلح حدیبیہ 628ء بمطابق
غزوہ خیبر 628ء بمطابق
پہلا سفرِ حجّ 629ء بمطابق
جنگ مؤتہ 629ء بمطابق
فتح مکہ 630ء بمطابق
غزوہ حنین 630ء بمطابق
غزوہ طائف 630ء بمطابق
جزیرة العرب پر تسلط 631ء بمطابق
غزوہ تبوک 632ء بمطابق
حجۃ الوداع 632ء بمطابق 10ھ
واقعۂ غدیر خم 632ء بمطابق 10ھ
وفات 632ء بمطابق 11ھ


فائل:مسجد الکوع.jpg
مسجد الکوع جو اس باغ میں تعمیر کی گئی ہے جہاں رسول خدا(ص) نے عام الحزن میں طائف کے سفر کے دوران مشرکین کی اذیت و آزار سے تحفظ کی خاطر پناہ لی تھی۔
فائل:طائف القدیمة.png
طائف قدیم جس کا سنہ 8 ہجری میں رسول خدا(ص) نے محاصرہ کرلیا تھا

غزوہ طائف، [عربی میں: غزوة الطّائف] رسول خدا(ص) کے غزوات میں سے ایک ہے؛ ہوا یوں کہ جنگ حنین سے بھاگنے والے مشرکین میں سے جو افراد مالک بن عوف کے ساتھ طائف چلے گئے تھے ان میں سے زیادہ تر وہ ثقفی تھے جو اس میں جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ بعض لوگ نخلہ چلے گئے تھے اور بعض لوگوں نے اوطاس میں اپنی پرانی چھاؤنی میں پڑاؤ ڈالا تھا؛ مسلمانوں نے ان کا تعاقب کیا اور پسپا ہوتے ہوئے طائف کے قلعوں میں پہنچے اور رسول اللہ(ص) نے قلعوں کا محاصرہ کرلیا۔

غزوہ حنین کے بعد طائف کی طرف عزیمت

بعد از آنکہ مشرکین کو جنگ حنین میں شکست ہوئی، مشرکین کئی گروہوں میں بٹ کر کئی علاقوں کی طرف بھاگ گئے۔ ہوازن کا سربراہ مالک بن عوف اور بعض دوسرے مشرکین طائف کی طرف چلے گئے اور یہ وہ ثقفی تھے جو جنگ میں شرکت کرنے کے بعد نخلہ بھاگ کر چلے گئے تھے اور کچھ لوگ اوطاس میں اپنی پرانی لشکرگاہ میں چلے گئے تھے۔[1]

رسول خدا(ص) نے ان کے تعاقب میں بعض دستے روانہ کئے اور بہت سے دشمنوں کو قید کرلیا۔ رسول اللہ(ص) طائف کی طرف روانہ ہوئے۔۔[2]

قبیلۂ ثقیف اور طائف

طائف آب و ہوا کے لحاظ سے حجاز کے بہترین علاقوں میں سے تھا اور قبیلہ ثقیف کا مسکن شمار ہوتا تھا۔ ثقیف کے قریش کے ساتھ قریبی تعلقات تھے اور یہ حجاز کا جانا پہچانا قبیلہ تھا۔ تاریخ کے دو جانے پہچانے افراد کا تعلق اسی قبیلے سے تھا: مختار بن ابی عبید ثقفی جو شیعہ تھا اور حجاج بن یوسف ثقفی جو اہل بیت کا بدترین دشمن اور بنو امیہ کا والی رہا۔

طائف آخری مورچہ تھا جو مشرکین کے زیر قبضہ تھا اگرچہ فتح مکہ کے بعد اہلیان طائف کو جلدی یا بدیر فیصلہ کرنا تھا۔ سپاہ اسلام نے طائف کی طرف عزیمت کی اور ایک مقام پر رسول خدا(ص) نے نماز ظہر ادا کی جہاں مسلمانوں نے ایک مسجد تعمیر کی۔[3]

طائف کی طرف عزیمت

آپ(ص) نے بعد ازاں اپنے اسی لشکر کو لے کر (جس نے جنگ حنین میں شرکت کی تھی)، طائف کا محاصرہ کرلیا۔ طائف کی طرف عزیمت ماہ شوال سنہ 8 ہجری میں انجام پائی۔

اہلیان طائف کے جنگی انتظامات

اہلیان طائف نے اپنے حصار میں اصلاحات کی تھیں اور اس کی تعمیر نو کا اہتمام کرکے اس میں ایک سال کی ضروریات کے لئے سازوسامان اکٹھا کرلیا تھا۔ عباس بن مرداس نے جنگ ہوازن و ثقیف کے سلسلے میں کہے گئے اپنے کلام میں کہا ہے کہ

هُمْ رأسُ العَدُوِّ مِن اَهلِ نجدٍ
وہ نجد والوں میں دشمن کے سرغنے ہیں۔[4]۔[5]

رسول خدا(ص) نے طائف کے نواح میں ایک بلند مقام پر پڑاؤ ڈالا، جہاں ثقفیوں نے بعد میں مسجد طائف تعمیر کی۔[6] طائف کا محاصرہ 15 یا اٹھارہ روز تک جاری رہا۔ ایک کچھ مسلمان مجاہدین نے دو بکتروں کی پناہ میں حصار پر حملہ کیا؛ بکتروں کو بیل کی کھال سے بنایا گیا تھا؛ لیکن مشرکین نے پگھلتا ہوا لوہا پھینکا جس کی وجہ سے زرہوں اور بکتروں کو آگ لگ گئی اور انہیں واپس آنا پڑا۔ رسول خدا(ص) نے مشرکین پر دباؤ بڑھانے کی غرض سے ان کے نخلستانوں اور انگوروں کے باغوں کے کچھ درختوں کے کاٹنے کا حکم دیا۔[7]

اندرون قلعہ مشکلات

رسول خدا(ص) نے حکم دیا کہ بآواز بلند اعلان کیا جائے کہ جو بھی غلام اپنے آقاؤں کو چھوڑ کر ہماری طرف آئے گا اس کو آزاد کیا جائے گیا جس کے بعد 15 غلام قلعے سے باہر آئے اور مسلمانوں سے آملے۔[8]۔[9] جس کی وجہ سے مشرکین شدید خوف سے دوچار ہوئے کیونکہ وہ مزید اپنے غلاموں پر اعتماد نہیں کرسکتے تھے۔

بہرحال طائف کے مجموعی حالات سے اندازہ ہوتا تھا کہ سپاہ کا یہاں رہنا زیادہ مفید نہیں ہے کیونکہ نوفل بن معاویہ نے رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا کہ ثقیف لومڑیوں کی طرح اپنے آشیانے میں ہیں اور اگر آپ(ص) رہیں تو بہرصورت انہیں شکار کردیں گے لیکن اگر انہیں چھوڑ کر واپس چلے جائیں تو ان سے کسی قسم کے خطرہ آپ(ص) کو لاحق نہیں ہوگا۔[10]

شک نہیں ہے کہ ثقفی حجاز میں ـ جس کے بیشتر حصوں پر اسلام مسلط ہوچکا تھا ـ ایک مستقل عسکری قوت کے طور پر مکہ یا مدینہ پر حملہ نہیں کرسکتے تھے اور انہیں بہرحال نئے حالات سے سمجھوتہ کرنا ہی پڑتا۔


چند واقعات

طائف کے محاصرے کے دوران چند اہم واقعات پیش آئے:

پہلا قصاص

1۔ ایک واقعہ یہ تھا کہ اسی مقام پر قصاص کا حکم نافذ کیا گیا۔ بنو لیث کے ایک مرد نے ہذیل کے ایک شخص کو قصدا قتل کیا تھا اور رسول اللہ(ص) نے قصاص کا حکم جاری کیا۔ اگر یہ بات صحیح ہو کہ "كان اوّل دم اُقيد به في الاسلام"، یہ پہلا خون تھا جس کا اسلام میں قصاص لیا گیا[11]۔[12]۔[13] تو معلوم ہوتا ہے کہ گویا قصاص کا حکم اس سے قبل مدینہ میں جاری نہیں ہوتا تھا۔


عيينة بن حصن کا منافقانہ کردار

مشرکین کے ساتھ بات چیت

عیینہ بن حصن نے رسول خدا(ص) سے درخواست کی کہ آپ اجازت فرمائیں تو میں قلعے میں داخل ہوکر دشمن سے بات چیت کروں۔ اجازت ملنے پر عیینہ قلعے کے قریب پہنچا اور پہرے داروں سے امان طلب کرکے اندر داخل ہوا۔ عیینہ نے ثقیف کے مشرکین سے مخاطب ہوکر کہا: میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں! کاش عرب میں تمہاری طرح کے دوسرے لوگ بھی ہوتے۔ خدا کی قسم! محمد کو آج تک تم جیسوں سے واسطہ نہیں پڑا ہے؛ وہ قلعے کی دیواروں کے پیچھے رہ رہ کر تھک چکے ہیں۔ چنانچہ تم استقامت کرو کیونکہ تمہارے پاس وسائل اور ہتھیار کی فراوانی ہے؛ جاری پانی کے مالک ہو۔ ثقیف کی چاپلوسی کے بعد عیینہ باہر آیا تو ثقفیوں نے ابو محجن سے کہا: ہم اس کے اندر آنے کے خلاف تھے کیونکہ ہمیں خوف تھا کہ وہ ہمارے درمیان یا ہمارے قلعے میں کمزور نقاط ڈھوںڈ لے اور جاکر رسول اللہ(ص)\محمد(ص) کو خبر دے۔ ابو محجن نے کہا: محمد(ص) سے اس کی دشمنی ہماری دشمنی سے زيادہ شدید ہے۔ باہر آکر عیینہ رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ(ص) نے پوچھا: اے عیینہ! تم نے مشرکین سے کیا کہا؟ کہنے لگا "میں نے ان کو اسلام کی دعوت دی اور کہا کہ جب تک تم اسلام قبول نہیں کروگے محمد(ص) یہاں سے نہیں جائیں گے؛ چنانچہ بہتر یہی ہے کہ رسول اللہ(ص) سے جان کی امان مانگو؛ کیونکہ آپ(ص) نے قبل ازین بنو قینقاع، بنی نضیر، بنو قریظہ اور اہلیان خیبر کو گھیر لیا ہے جبکہ ان کے پاس وسائل اور جنگی سازو سامان کی کوئی کمی نہ تھی؛ میں نے ثقیف کے ارادوں کو ممکنہ حد تک سست کیا اور انہیں ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔

رسول اللہ(ص) نے ـ جو خاموشی سے عیینہ کی باتیں سن رہے تھے ـ فرمایا: اے جھوٹے انسان، تم نے ان سے یہ یہ باتیں کیں!

کہنے لگا: استغفراللہ میں توبہ کرتا ہوں۔

عمر بن خطاب نے ایسے مواقع پر اپنے معمول کے مطابق کہا: یا رسول اللہ(ص)! آپ اجازت دیں کہ میں اس کا سر قلم کردوں!

رسول اللہ(ص) نے فرمایا: نہیں! میں نہیں چاہتا کہ کفار کے درمیان یہ بات پھیل جائے کہ محمد اپنے پیروکاروں کو مار دیتا ہے۔

ابو بکر نے عیینہ پر لعنت ملامت کی اور اس کو پچھلی جنگوں میں اس کے معاندانہ کردار یاد دلایا۔

عیینہ نے کہا: ہے ابو بکر! میں خدا سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور اس کی درگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور اس کے بعد ایسی غلطی نہیں کروں گا۔[14]

میں کنیز حاصل کرنے آيا ہوں!

مسلمان طائف سے روانہ ہوئے اور قلعے کے قریب مجاہدین مسلمانوں کی تعداد میں کمی آئی تو "سعد بن عبید بن عمرو بن علاج ثقفی" نے قلعے کے اوپر سے بآواز بلند کہا: "ہمارا قبیلہ ڈٹا ہوا ہے"، تو عیینہ بن حصن فزاری ـ جو بظاہر مسلمانوں کی صفوں میں شامل تھا ـ نے جواب دیا: "ہاں! تم بہت محترم اور نامی گرامی اور بزرگوار اور کریم لوگ ہو"۔ عمرو بن عاص نے عیینہ سے کہا: "خدا تمہیں ہلاک کردے، تم اس مشرک قوم کی مداحی کررہے جو رسول خدا(ص) کے خلاف لڑ رہی ہے؟" تو عیینہ نے کہا "خدا کی قسم! میں تمہارے ساتھ ثقیف کے خلاف لڑنے کی غرض سے نہیں آیا ہوں؛ میں اس لئے آیا ہوں کہ اگر محمد طائف کو فتح کریں اور مجھے ثقیف میں سے کوئی لونڈی ملے تا کہ اس کے ساتھ ہمبستر ہوجاؤں اور شاید اس سے مجھے کوئی بیٹا ملے کیونکہ ثقیف مبارک لوگ ہیں"۔ عمرو نے یہ ماجرا رسول اللہ(ص) کو کہہ سنایا۔ آپ(ص) نے مسکراتے ہوئے فرمایا: "اس احمق سردار کو اپنے حال پر چھوڑو"۔[15]۔[16]۔[17]

مخنثین کے عورتوں کا پاس آنا جانا ممنوع

مخنثین (= ہیجڑے) ان افراد کو کہا جاتا ہے جو جنسیت کے لحاظ سے نہ تو مرد ہیں اور نہ ہی عورتیں ہیں؛ یا وہ افراد جو اپنا حلیہ اور بھیس بدل کر عورتوں کی شکل میں ظاہر ہوں۔ اہل سنت کے بعض مآخذ میں ام سلمہ سے منقول ہے کہ انھوں نے کہا: طائف کے محاصرے کے ایام میں میرے بھائی عبداللہ کے پاس ایک مخنث آیا اور میرے بھائی سے کہا: کل اگر خدا طائف کو تمہارے لئے مسخر کرے اور تم ثقیف پر فتح پاؤ تو میں تمہیں غیلان کی بیٹی کے پاس لے جاؤں گا / گی جو چاہنے کے قابل ہے تا کہ تم اس کو لونڈی کے طور پر اختیار کرسکو۔ رسول خدا(ص) نے اس کی باتیں سن لیں اور خواتین سے مخاطب ہوکر فرمایا: "لا يدخلن هؤلاء عليكن"
(ترجمہ: انہیں ہرگز تمہارے ہاں داخل نہيں ہونا چاہئے، یا تمہیں ہرگز انہیں اپنے ہاں نہیں آنے دینا چاہئے)۔[18]

دوسرے واقعے کا تعلق ماتع نامی شخص سے تھا جو رسول خدا(ص) کی خالہ کے موالی میں سے تھا۔ آپ(ص) کو خبر دی گئی کہ ماتع نے خالد بن ولید سے کہا ہے کہ: "طائف کی فتح کے بعد "بادیہ بنت غیلان" سے غفلت نہ کرنا کیونکہ وہ حسن و جمال کے لحاظ سے فلاں اور فلاں ہے"؛ اور جیسا کہ شاعر نے کہا ہے "وہ کچھ ایسی ہے کہ دوسروں کی نگاہوں کو اپنے اوپر جما کر رکھتی ہے اور اس کا چہرہ گوشت سے بھرا ہوا نہیں ہے اور اس کی سفیدی سرخی مائل اور پھول کی مانند ہے"۔ آپ(ص) نے جب دیکھا کہ وہ اس طرح کے خیالات کا حامل شخص ہے تو اس کو مدینہ سے دور ایک مقام پر جلا وطن کیا۔ بعد میں جب اس شخص نے اپنی ضروریات کے حوالے سے شکایت کی تو آپ(ص) نے اجازت دی کہ ہر جمعہ کے روز مدینہ آیا کرے۔ یہ شخص عمر کی خلافت کے آخر تک بھی وہیں تھا اور عثمان کے دور میں اس کی جلاوطنی ختم کردی گئی اور مدینہ واپس آیا۔[19]۔[20]

طائف سے واپسی

واپسی کا موضوع پیش آیا تو کچھ لوگوں نے مخالفت کی اور بعض لوگ عمر کے پاس گئے لیکن انھوں نے حدیبیہ میں اپنا تجربہ یاد تھا؛ چنانچہ کہنے لگے: میں نے وہ دن دیکھا جب میں نے اس قدر شک و تردد کیا اور رسول اللہ(ص) کے ساتھ اس لب و لہجے میں بات کی، جو اے کاش میں نہ کرتا۔[21]

بہرحال رسول اللہ(ص) نے طائف کو چھوڑ دیا اور کچھ عرصہ بعد طائف کا وفد مدینہ میں رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام کو ثقیف میں رواج ملا۔

بعض مآخذ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے خواب دیکھا جس کی بنا پر آپ(ص) نے واپسی کا سفر اختیار کیا۔[22] خواب کے اس قصے کا مفہوم رسول اللہ(ص) کے بجائے دوسروں کی آگہی اور دور اندیشی پر تاکید کرتا ہے! بعض روایات میں ہے کہ آپ(ص) کو قلعہ فتح کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی جس پر عمر نے درشت لہجے میں سوالات کئے،[23] جو درحقیقت آپ(ص) کی عصمت پر سوال اٹھانے کے مترادف تھے۔[24]

جعفر سبحانی اپنی کتاب فروغ ابدیت میں لکھتے ہیں: تمام تر روشیں بروئے کار لانے کے بعد معلوم ہوا کہ طائف کا قلعہ کھولنے کے لئے مزید جدوجہد اور صبر و حوصلے کی ضرورت ہے اور دوسری طرف سے موسمی حالات اور سپاہ اسلام کے وسائل اس علاقے میں مزید توقف کرنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے؛ کیونکہ:

  • محاصرے کے دوران 13 مسلمان شہید ہوئے جن میں سے 7 افراد کا تعلق مہاجرین سے، 4 کا انصار سے اور ایک فرد کا تعلق ایک قبیلے سے تھا۔ مسلمانوں میں سے متعدد افراد حنین میں مشرکین کے مکارانہ حملے میں جام شہادت نوش کرگئے تھے جن کے نام کہیں ذکر نہیں ہوئے ہیں؛ چنانچہ مسلمانوں کے حوصلے میں ایک قسم کی تھکاوٹ اور اکتاہٹ دکھائی دینے لگی تھی۔
  • دوسری بات یہ کہ شوال ختم ہورہا تھا اور ذوالقعدہ کا مہینہ حلول کرنے کو تھا اور اس مہینے میں عرب اقوام کے ہاں حرام تھی اور اسلام نے اس سنت صالحہ کو استحکام بخشا۔
    اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ رسول خدا(ص) نے 5 شوال کو مکہ سے حنین کی طرف عزیمت فرمائی؛ جنگ حنین میں تقریبا 5 دن کا وقت صرف ہوا اور آپ(ص) نے وہیں سے طائف کا رخ کیا اور طائف کا محاصرہ بھی تقریبا 20 روز تک جاری رہا۔ [25] جبکہ ابن سعد نے یہ مدت 40 روز بیان کی ہے۔ [26] بہرحال اس سنت کے تحت ضروری تھا کہ محاصرہ جلد از جلد اٹھایا جائے؛ تا کہ ثقفی عرب آپ(ص) پر سنت صالحہ کی پامالی کا الزام نہ لگائیں۔
  • علاوہ ازیں، حج کے ایام بھی قریب تھے اور اس سال حج کا انتظام مسلمانوں کے ذمے تھا جبکہ قبل ازاں مشرکین یہ انتظام سنبھالتے تھے۔ حج کا عظیم اور شاندار اجتماع تبلیغ اسلام کے لئے بہترین مواقع فراہم کرتے تھے اور رسول اللہ(ص) کو ان مواقع سے پہلی بار بھرپور فائدہ اٹھانا تھا اور دوسرے مسائل کی طرف توجہ دینا چاہتے تھے جو ایک قلعے کی تسخیر سے بدرجہ ہا اہم تھے۔

چنانچہ ان مسائل کو دیکھتے ہوئے رسول اکرم(ص) نے طائف کا محاصرہ ختم کیا اور اپنی سپاہ کے ساتھ جعرانہ کی طرف روانہ ہوئے؛ جہاں قیدیوں اور غنائم کو محفوظ کیا گیا تھا۔[27]

جعرانہ کی طرف عزیمت

رسول خدا(ص) طائف کا محاصرہ اٹھا کر جعرانہ کی طرف تشریف فرما ہوئے؛ جہاں کہ جنگ حنین کے غنائم اور جنگی قیدیوں کو رکھا گیا۔ تقریبا 6000 بڑے اور بچے بطور قیدی، 24000 اونٹ اور بےشمار بھیڑ بکریاں۔[28] یہ قیدی ہوازن اپنے ساتھ میدان جنگ میں لے کر آئے تھے۔

قیدیوں کی رہائی

ہوازن کے بھاگے ہوئے عمائدین نے یہ صورت حال دیکھی تو ایک وفد کی صورت میں رسول اللہ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ(ص) سے عفو و بخشش اور قیدیوں کی رہائی کی درخواست کی۔ رسول اللہ(ص) نے فرمایا کہ آپ(ص) یا تو ان کے اموال انہیں لوٹا دیں گے یا پھر ان کے قیدی ان کے سپرد کریں گے۔ ہوازن کے عمائدین نے فطری طور پر قیدیوں کی رہائی کی درخواست کی۔ بعدازاں رسول اکرم(ص) نے فرمایا: میں قیدیوں میں اپنا حق نیز عبد المطلب کے فرزندوں کا حق تمہیں بخش دیتا ہوں؛ نماز ظہر کے بعد اٹھو اور اعلان کرو کہ "ہم اپنی خواتین اور بچوں کو تمہارے ہاں شفیع قرار دیتے ہیں اور مسلمین کو رسول خدا(ص کے ہاں"۔ انھوں نے ایسا ہی کیا اور رسول خدا(ص) نے فرمایا: "میں نے اپنا اور بنو عبدالمطلب کا حق انہیں بخش دیا جس کے بعد مہاجرین اور انصار نے بھی اپنا حصہ بخش دیا۔[29]۔[30]

بنو فزارہ کے زعیم عیینہ، بنو تمیم کے اقرع بن حابس اور بنو سلیم کے عباس بن مرداس سمیت بعضذ افراد اپنے حصے کے قیدی بخشنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے؛ تاہم عرب قبائل نے اپنے بزرگوں کے ارادے کے برعکس رسول اللہ(ص) کی رضا و خوشنودی کی غرض سے اپنا حصہ بخش دیا اور وہ خود بھی آخرکار راضی ہوگئے۔ رسول اکرم(ص) نے ہوازن کے عمائدین سے مالک بن عوف کے بارے میں پوچھا کہ کہاں ہے؟ جب آپ(ص) نے سنا کہ وہ طائف میں ہے تو فرمایا: کہہ دو کہ اگر اسلام قبول کرے تو اس کا خاندان 100 اونٹوں کے ہمراہ اس کے سپرد کروں گا۔ مالک نے اسلام قبول کرنے کے بعد چند اشعار کے ضمن میں کہا:

ما إن رأيت ولا سمعت بمثله
في الناس كلهم بمثل محمد
أو فی وأعطى للجزيل إذا اجتدى
ومتى تشأ يخبرك عما في غد

میں نے نہ دیکھا نہ سنا کہ کوئی محمد(ص) جیسا ہو
جو اس قدر باوفا اور صاحب جود و سخا ہو؛ اور جب چاہو وہ تم کو کل کی خبر دیتا ہے

رسول اکرم(ص) نے مالک بن عوف کو ان لوگوں کی زعامت عطا کی جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا۔[31] نیز مروی ہے کہ مالک رات کے وقت خفیہ طور پر اپنے قبیلے سے نکل کر مدینہ میں رسول اللہ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام قبول کیا اور 100 اونٹوں پر مشتمل انعام وصول کیا اور اپنے خاندان کو بھی اپنی تحویل میں لیا۔ وہ بعدازاں "ّثقیف" کے مد مقابل کھڑا ہوگیا اور فضا کو ان کے لئے تنگ کردیا۔[32]۔[33]

حدیث سدرہ، رسول اللہ(ص) کا اعجاز

شیعہ اور بعض سنی مآخذ میں منقول ہے کہ غزوہ طائف کے دوران یا بقول یعقوبی جعرانہ کی طرف واپسی کے وقت، طائف کے قریب بیری (= سدر) اور کیکر (یا ببول = طلح) کے درختوں سے بھری "نجب" نامی وادی سے گذر رہے تھے۔ آپ(ص) اپنی سواری کی پیٹھ پر سوار تھے جب آپ(ع) گہری نیند سوگئے۔ سواری کے بیری کے درخت کے سامنے پہنچی تو درخت بیچ میں سے چھد گیا اور سواری درخت کے دو حصوں کے بیچ سے گذر گئی۔ یہ درخت ہمارے (متعلقہ کتب کے مصنفین کے) زمانے تک اسی حالت میں موجود ہے جو دو شاخوں پر مشتمل ہے۔[34]۔[35]۔[36]۔[37]۔[38]

یہ رسول خدا(ص) کے معجزات میں صرف ایک معجزہ ہے جب کہ آپ(ص) کے معجزات کی تعداد، بعض روایات کے مطابق، 1000 تک پہنچتی ہے۔[39]

مال غنیمت کی تقسیم پر اصرار اور بعض اعتراضات

جنگ حنین کے قیدی اپنے قبیلے سے جا ملے، رسول اکرم(ص) روانہ ہوئے مگر لوگوں نے مسلسل اصرار کیا کہ باقی ماندہ اونٹوں اور بھیڑ بکریوں کو بھی تقسیم کریں۔ اصرار اس قدر شدید تھا کہ آپ(ص) کی ردا آپ کے دوش مبارک سے اٹھ گئی۔ بہرحال آپ(ص) کھڑے ہوئے اور فرمایا: "میں ان اموال میں خمس کے سوا کسی چیز کا مالک نہیں ہوں اور اگر کسی نے کوئی چیز اٹھائی ہے فورا لوٹا دے خواہ وہ شیئے چھوٹی ہی کیوں نہ ہو۔[40] آنحضرت(ص) نے اموال کو تقسیم کیا اور بعض مشرکین اور اور ان نو مسلموں کو ـ جن کے دلوں پر شرک کی حکمرانی تھی ـ خاص حصے عطا کئے۔ یہ لوگ مؤلفۃ قلوبہم کا مصداق تھے۔ اور ابن اسحق اور ابن سعد نے ان افراد کی ایک فہرست اپنی کتب "السیرۃ النبویۃ"، اور "الطبقات الکبری" میں درج کی ہے۔ ابو سفیان اور اس کے دو بیٹے معاویہ اور یزید، عیینہ بن حصن الفزاری، حکیم بن حزام اور صفوان بن امیہ کے نام اس فہرست میں شامل ہیں۔[41] ان میں سے ہر ایک کا حصہ 100 اونٹوں اور کچھ سونے یا چاندی پر مشتمل تھا۔

عباس بن مرداس کا قصہ

رسول اللہ(ص) نے عباس بن مرداس کو 4 اونٹ دیئے تو اس نے اشعار کہہ کر آپ(ص) کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے آپ(ص) پر ملامت کی۔ چنانچہ آپ(ص) نے فرمایا: : "اقطعوا لسانه عنّی۔" ترجمہ: اس کی زبان مجھ سے کاٹ ڈالو۔ چنانچہ اس کو 100 یا 50 اونٹ دے دیئے گئے۔[42]

طبرسی کی روایت

طبرسی نے اپنی کتاب اعلام الوری باعلام الہدی میں لکھا ہے کہ عباس بن مرداس کے اعتراض کے بعد علی(ع) سے مخاطب ہوکر فرمایا: "اٹھو اور اس کی زبان کاٹ دو"۔

عباس بن مرداس کہتا ہے: خدا کی قسم! رسول اللہ(ص) کا یہ کلام مجھ پر جنگ خثعم کے دن آپ(ص) کے کلام سے زیادہ گراں گذرا؛ علی(ع) نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے باہر کی طرف کھینچا؛ یا علی(ع)! کیا آپ واقعی میری زبان کاٹ ڈالیں گے؟!

علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا: "میں تمہارے بارے میں رسول اللہ(ص) کے فرمان پر عمل کروں گا"۔ عباس کہتا ہے: علی(ع) مجھے اونٹوں کے طویلے میں لے گئے اور فرمایا: "اب 4 سے لے کر 100 تک میں سے کسی عدد کا انتخاب کرو اور ان اونٹوں میں سے اپنی مرضی کے مطابق لے لو۔

عباس کہتا ہے: میں نے عرض کیا: "میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کس قدر شریف، سخی اور کریم اور حلیم و بردبار اور کس قدر صاحب دانش و کمال ہیں آپ؛ آپ خود راہنمائی کریں کہ میں کیا کروں؟"

علی(ع) نے فرمایا: "رسول خدا(ص) نے تمہیں مہاجرین میں شمار کیا اور 4 اونٹ بطور حصہ عطا کئے، چاہو تو 4 اونٹ لے لو یا 100 اونٹ لینے والوں (= طلقاء اور مؤلفۃ قلوہہم) میں شامل ہوجاؤ"۔ میں نے کہا: "میں اسی پر راضی ہوں"۔

جعیل بن سراقہ کا قصہ

دوسرے واقعے میں سعد بن ابی وقاص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے عیینہ بن حصن اور اقرع بن حابس میں سے ہر ایک کو 100، 100 اونٹ دیئے اور جعیل بن سراقہ الضمری کو کچھ بھی عطا نہیں کیا۔

رسول اللہ(ص) نے فرمایا:

"أما والذي نفسي بيده لجعيل بن سراقة خير من طلاع الأرض لكلّها مثل عيينة والأقرع ولكني تألّفتهما ليسلما وو‎كلت جعيل بن سراقة إلی إسلامه۔" ترجمہ: اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جعیل بن سراقہ ایسی پوری زمین سے بہتر ہے جو عیینہ اور اقرع سے بھری پڑی ہو، میں نے درحقیقت ان دو کے دلوں کو جیت لیا تا کہ اسلام قبول کریں اور جعیل بن سراقہ کو اس اسلام کے حوالے کیا جس پر وہ کاربند ہے۔[43]۔[44]

مؤلفۃ قلوبہم کے مصادیق کا حال

جیسا کہ کہا گیا مؤلفۃ قلوبہم ایک قرآنی[45] اصطلاح ہے جو بعد کے زمانوں میں اس عنوان کے مصداقوں کے لئے اچھے پس منظر کا حامل ثابت نہیں ہوئی۔ اس کا قاعدہ یہ ہے کہ مجاہدین کے درمیان غنائم کی تقسیم کے بعد جو کچھ خمس کے عنوان سے رسول خدا(ص) کے ہاتھ میں تھا اس میں سے مذکورہ افراد کو بھی حصہ دیا گیا؛ اگرچہ مآخذ میں اس قاعدے کی طرف اشارہ نہیں ہوا ہے۔ واقدی کا کہنا ہے کہ لوگوں کو شمار کیا گیا اور بعدازاں ہر ایک کو 4 اونٹ یا 40 بھیڑیں بطور حصہ عطا ہوئیں۔[46]

ذوالخویصرہ کی گستاخی اور رسول اللہ(ص) کی پیشنگوئی

مروی ہے کہ ذو الخویصرہ نامی شخص ـ جس نے بعد کے زمانوں میں خوارج کی قیادت سنبھالی ـ رسول اللہ(ص) کے مد مقابل آکھڑا ہوا اور کہا: "دیکھ رہا ہوں کہ آپ عدل کے مطابق عمل نہیں کررہے ہیں!!"؛ رسول خدا(ص) نے فرمایا: وائے ہو تم پر! اگر میں عدل کے مطابق عمل نہ کروں تو کون ایسا کرے گا؟[47]۔[48] ابن اسحق نے یہی روایت امام محمد بن علی بن الحسین(ع) سے نقل کی ہے۔[49]

ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) مال غنیمت تقسیم کررہے تھے اور ہم آپ(ص) کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک تمیمی شخص آیا جس کو "ذوالخویصرہ" کہا جاتا تھا۔ اس شخص نے کہا اے رسول خدا(ص)! اموال کی تقسیم میں عدل و انصاف سے کام لیں۔

آپ(ص) نے جواب دیا: وائے ہو تم پر! میں انصاف نہیں کروں گا تو کون کرے گا؛ تم اپنے اس کلام میں گھاٹے کا شکار ہوئے جو تم نے یہ ناروا الزام مجھ پر لگایا۔

عمر بن خطاب نے عرض کیا: یا رسول اللہ(ص) اجازت دیں میں اس کا سر قلم کروں!

فرمایا: اس کو اپنے حال پر چھوڑو، یہ اپنے پیروکاروں کا ایک گروہ اکٹھا کرلے گا جو نماز اور روزے میں بہت زیادہ کوشش کریں گے اور تم اپنی عبادت ان کے سامنے ناچیز دیکھو گے؛ یہ قرآن کی تلاوت، بہت کریں گے لیکن قرآن ان کے گلے تک محدود رہے گا؛ یہ جماعت اسلام سے اس طرح سے خارج ہوگا، جس طرح کہ تیر کمان سے نکلتا ہے؛ ایک سیاہ فام مرد مستقبل میں اس جماعت میں آکر شامل ہوگا جس کے بازو پر عورت کے پستان کی مانند گوشت کا لوتھڑا لٹکا ہوا ہوگا جو مسلسل حرکت میں ہوگا۔ یہ شخص اپنی جماعت کے ہمراہ لوگوں کی بہترین جماعت کے خلاف بغاوت کرے گی۔

ابو سعید خدری کہتے ہیں: میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ حدیث رسول خدا(ص) سے سن چکا ہوں نیز گواہی دیتا ہوں کہ علی بن ابی طالب(ع) نے اس جماعت کے خلاف جنگ لڑی اور میں آنجناب کی خدمت میں حاضر تھا۔ امیرالمؤمنین(ع) نے حکم دیا کہ اس مرد کو لایا جائے، اس کو لایا گیا تو میں نے اس علامت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا جو رسول اللہ(ص) نے بیان کی تھی۔

بخاری نے یہ حدیث اپنی کتاب صحیح بخاری، "کتاب بدء الخلق"، باب "علامات النبوۃ فی الاسلام" میں نقل کی ہے۔[50]۔[51]۔[52] یہ داستان جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر الدر المنثور میں نقل کی ہے۔[53]

آیت کریمہ کا نزول

خداوند متعال سورہ توبہ میں ارشاد فرماتا ہے:

وَمِنْهُم مَّن يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ (ترجمہ: اور ان میں سے کوئی کوئی ایسا بھی ہے جو اموال زکوٰة کے بارے میں آپ پر نکتہ چینی کرتا ہے)[؟–58]۔[54]

جلال الدین سیوطی نے بخاری، نسائی، ابن جریر طبری، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابوالشیخ اور ابن مردویہ کے حوالے سے ابو سعید خدری سے ـ رسول اللہ(ص) کی پیشنگوئی اور جنگ نہروان میں امیرالمؤمنین(ع) کے ہاتھوں خوارج کی ہلاکت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ـ روایت کی ہے کہ مذکورہ آیت کریمہ اسی موقع پر نازل ہوئی اور اس آیت میں نکتہ چینی کرنے والا شخص "ذوالخویصرہ" ہی ہے۔[55]

انصار کی شکایت

ایک مسئلہ انصار کی شکایت کا مسئلہ تھا جنہوں نے محسوس کیا تھا کہ 10 سالہ جنگ اور جدوجہد کے بعد اب رسول خدا(ص) قریش کی طرف زیادہ توجہ کررہے ہيں! حتی کہ حسان بن ثابت نے اپنے اشعار میں انصار کے جذبات کو بیان کیا۔ حسان کی شکایت یہ تھی کہ "یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ بنو سلیم جیسوں کو انصار پر مقدم رکھا جائے حالانکہ انصار نے آپ(ص) کو پناہ دی تھی اور بنو سلیم کا پس منظر معاندانہ رہا تھا؛ انصار کو اللہ نے انصار کا عنوان دیا ہے کیونکہ انھوں نے مختلف جنگوں میں دین خدا کی مسلسل حمایت کی تھی"۔[56]

بات یہاں تک بڑھ گئی کہ سعد بن عبادہ رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا؛ آپ(ص) کو انصار کی شکایت سے آگاہ کیا اور کہا: "میں خود ہی ان ہی شکوہ کرنے والوں میں سے ایک ہوں!۔[57]

انصار سے خطاب

رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ انصار کو جمع کیا جائے اور ان سے مخاطب ہوکر فرمایا:

"اے گروہ انصار! یہ کیا باتیں ہیں جو میں تمہاری طرف سے سن رہا ہوں؟ کیا تم گمراہ نہیں تھے اور خداوند متعال نے تمہیں میرے وسیلے سے ہدایت نہیں دی؟ کیا تم غریب و نادار نہیں تھے اور خداوند متعال نے تمہیں بےنیاز اور غنی نہیں کیا؟ کیا تم آپس میں دشمن نہیں تھے اور خداوند متعال نے تمہیں متحد نہیں کیا؟ کیا تم جواب نہیں دیتے؟"
کہنے لگے: ہم کیا کہیں یا رسول اللہ؟
رسول خدا(ص) نے فرمایا:
 :"تم کہہ سکتے ہو کہ اے محمد! آپ ایسے حال میں ہماری طرف آئے جب لوگ آپ کو جھٹلا رہے تھے چنانچہ ہم نے آپ کی تصدیق کردی؛ جب آپ(ص) بالکل تنہا تھے ہم نے آپ کی حمایت کی، آپ بےگھر تھے ہم نے آپ کو پناہ دی؛
اے گروہ انصار! تم نے اپنے دل کی آنکھیں دنیا پر جما رکھی ہیں جس کو میں نے ان لوگوں (مشرکین اور نو مسلموں) کے اسلام لانے کا وسیلہ قرار دیا؛ اور تمہیں اپنے دین، اسلام کے سپرد کیا؟ کیا تم اس بات سے خوشنود نہیں ہو کہ لوگ اونٹوں اور بھیڑ بکریوں کو لے کر چلے جائیں اور تم رسول خدا(ص) کو اپنے ساتھ لے جاؤ؟
اس خدا کی قسم جسے کے قبضۂ قدرت میں محمد کی جان ہے، اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار کا حصہ ہوتا؛ اگر لوگ ایک راستے پر گامزن ہوجائیں اور انصار دوسرے راستے پر تو میں انصار کے ساتھ ہونگا۔ خداوندا! انصار پر اور انصار کی اولاد پر رحمت نازل فرما
"
؛
اس اثناء میں انصار روئے اور رسول اللہ(ص) سے اپنی رضا و خوشنودی کا اظہار کیا۔[58]۔[59]۔[60] انصار مطمئن ہوئے اور رسول اللہ(ص) عمرہ کے لئے جعرانہ سے احرام باندھا۔[61]

غزوہ طائف؛ امیرالمؤمنین(ع): کردار اور فضائل

علی(ع) کی بت شکنی اور شہاب کی ہلاکت

محاصرہ طائف کے دوران رسول اللہ(ص) امیرالمؤمنین(ع) کو کچھ سواروں کے ساتھ طائف کے نواح میں روانہ کیا اور حکم دیا کہ جو ملے پامال کردیں اور جہاں بھی بت نظر آئے توڑ دیں۔ راستے میں ـ رات کی تاریکی ـ امیرالمؤمنین(ع) کی خثعمی جنگجؤوں سے مڈ بھیڑ ہوئی۔ ان میں سے "شہاب" نامی شخص دستے سے باہر آیا اور مبارز طلب کیا۔ امیرالمؤمنین(ع) نے یوں رجز پڑھا:

إنّ على كلّ رئيس حقّا
أن يروى الصّعدة او تدقّا

بےشک ہر رئیس کی ذمہ داری ہے کہ اپنا نیزہ دشمن کے خون سے سیراب کرے یا نیزے کو دشمن کے نیزوں کا شکار ہوجائے۔[62]

اور آپ(ع) نے شہاب پر حملہ کیا اور ایک ہی ضربت سے اسے ہلاک کر ڈالا۔

بعدازاں بتوں کو توڑ کر واپس آئے اور رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ آپ(ص) ابھی طائف کا محاصرہ کئے ہوئے تھے۔

پیغمبر اکرم(ص) نے علی(ع) کو دیکھا تو فتح کی تکبیر کہی اور علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کر آپ(ع) کو ایک طرف لے گئے اور آپ(ع) سے تنہائی میں طویل گفتگو (= نجوی) کی۔ مروی ہے عمر نے یہ حال دیکھا تو کہا: "کیا آپ علی کے ساتھ خفیہ گفتگو کرتے ہیں اور ہم سے ایسی گفتگو نہیں کرتے؟"؛ رسول اللہ(ص) نے فرمایا:

يا عمر! ما انا انتجيته ولكنّ اللّه انتجاه۔؛ اے عمر یہ میں نہیں ہوں جو علی(ع) کے ساتھ خفیہ گفتگو کررہا ہوں بلکہ یہ اللہ تعالی ہے جو ان کے ساتھ رازداری میں گفتگو کررہا ہے۔ یہ روایت شیعہ مآخذ کے علاوہ سنی مآخذ میں بھی نقل ہوئی ہے۔[63]۔[64][65]

نافع بن غیلان کی ہلاکت

بعدازاں ثقیف سے تعلق رکھنے والا بہادر جنگجو "نافع بن غیلان" اپنے قبیلے کے بعد افراد کے ہمراہ طائف کے قلعے سے باہر آیا۔ علی(ع) نے پیغمبر خدا(ص) کی ہدایت پر اس کا تعاقب کیا اور طائف کے نواحی قریئے "وج" میں نافع کو آلیا اور دو بدو لڑائی میں اس کو ہلاک کردیا جس کی وجہ سے دشمن کے قلعے میں شدید خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی؛ یہاں تک کہ نافع اس کے بعد مشرکین ایک بڑی جماعت قلعے سے باہری آئی اور سب نے اسلام قبول کیا۔


۔[66]۔[67]۔[68]۔خطا در حوالہ: Closing </ref> missing for <ref> tag امیرالمؤمنین کے ہاتھوں نافع بن غیلان کی ہلاکت سے متعلق روایت یعقوبی نے بھی نقل کی ہے۔[69]

علی(ع)، رسول اللہ(ص) جیسے!

ایک اہم نکتہ جس سے آپ(ص) نے کبھی غفلت نہیں فرمائی، علی(ع) کی فضیلت بیان کرنے اور آپ(ص) سے اپنے الہی رشتے کے اظہار سے عبارت تھا۔

فَسَوي کی روایت نے نقل کی ہے؛ اس نے عبدالرحمن بن عوف سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فتح مکہ کے بعد طائف کی طرف عزیمت فرمائی اور 18 یا 19 روز تک اس شہر کو محاصرے میں رکھا لیکن طائف فتح نہ ہوسکا؛ چنانچہ آپ(ص) نے اٹھ کر اہلیان طائف سے مخاطب ہوکر کرتے ہوئے فرمایا:

اے لوگو! تمہارے ہاں سے میرے چلے جانے کا وقت آن پہنچا ہے، میں تمہیں اپنی "عترت" کے بارے میں وصیت کرتا ہوں؛ میری اور تمہاری وعدہ گاہ "حوض کوثر" ہے۔ اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم [مشرکین طائف] کو نماز قائم کرنا پڑے گی؛ زکوۃ ادا کرنا پڑے گی، اگر ایسا نہ کروگے تو جان لو کہ میں اپنے جیسے مرد کو بھیجوں گا جو تمہارے جنگجؤوں کے سر قلم کرے گا اور تمہارے خاندانوں کو قید کرلے گا۔

لوگوں نے تصور کیا کہ رسول اللہ(ص) جیسے مرد سے مراد ابو بکر یا عمر ہونگے لیکن :آپ(ص) نے علی(ع) کا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا: وہ شخص یہ (علی(ع)) ہیں۔[70]

عمرہ کی ادائیگی، حاکم کا تقرر اور مدینہ کی جانب واپسی

رسول خدا(ص) نے زیادہ تر مال غنیمت کو تقسیم کیا اور فرمایا کہ باقیمانہ غنائم کو مر الظہران میں "مجنہ" نامی مقام پر منتقل کیا جائے؛ یوں آپ جعرانہ میں 13 دن گذارنے کے بعد[71] عمرہ کی ادائیگی کی نیت سے احرام باندھ کر مکہ تشریف فرما ہوئے؛ عمرہ بجا لایا اور عتاب بن اسید کو مکہ کا انتظام سونپا اور مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔

آپ(ص) نے عمرہ ماہ ذوالقعدہ میں ادا کیا اور اسی مہینے کے آخری ایام میں ـ اور بعض اقوال کے مطابق 23 یا 24 ذوالقعدہ کو مدینہ تشریف لائے۔ اس سال لوگوں نے حج کے فرائض عتاب بن اسید کی قیادت میں ادا کئے۔[72]

غزوہ طائف کے ثمرات

جعفرمرتضی العاملی اپنی کتاب الصحیح من سیرة النبی الاعظم(ص) میں رقمطراز ہیں:

رسول اللہ(ص) نے وہ سب کچھ حاصل کیا جو آپ(ص) غزوہ طائف سے حاصل کرنا چاہتے تھے جس میں اللہ کا فضل، [آپ(ص) کی قائدانہ صلاحیتوں] اور علی(ع) کے جہاد کا کردار واضح ہے۔ ثقیف کا وفد آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ آپ(ص) ان کا محاصرہ اٹھائیں۔ آپ(ص) مکہ پلٹ آئے تو ان کا ایک وفد اسلام قبول کرنے کے لئے آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا۔

چنانچہ خواب والے افسانے کی تعبیر[73] والی بات "کہ آپ اس محاصرے سے وہ سب حاصل نہیں کرسکیں گے جو آپ نے ارادہ فرمایا ہے"، درست نہیں ہے۔ اس بات میں بھی کوئی صداقت نہیں ہے کہ ثقیف کا وفد کی آمد اگلے سال ماہ رمضان تک مؤخر ہوا!۔[74]

اگر ہم یہ دعوی قبول بھی کریں کہ آپ(ص) نے ان کی درخواست کے بغیر ہی طائف کا محاصرہ ختم کرکے واپس آئے ہیں تو اس دعوے کا جواب کیا ہے کہ "آپ(ص) طائف کو زبردستی فتح کرنا چاہتے تھے لیکن ایسا نہ کرسکے اور اپنا ارادہ بدل دیا اور مکہ پلٹ آئے؟"؛ حالانکہ زیادہ احتمال یہی ہے کہ آپ(ص) اہلیان طائف کو محاصرے اور منجنیقوں کے خوف کا مزہ چکھانا چاہتے تھے اور پھر انہیں چھوڑ دینا چاہتے تھے کہ وہ خود اپنے احوال کے بارے میں تدبر کریں اور جاتے ہوئے اپنے خطبے میں بھی آپ(ص) نے طائف والوں کو یہی تلقین فرمائی تھی کہ "اسلام قبول کرو ورنہ میں تمہاری طرف اپنے جیسا آدمی بھیجوں گا۔۔۔۔[75]

چنانچہ رسول اللہ(ص) نے ان کے وفود کے ساتھ نیک سلوک کیا جس سے معلوم ہوتا ہے آپ(ص) انہیں ہٹ دھرمی اور ضد اور دشمنی کی بجائے تدبر اور قبول اسلام کی طرف راغب کرنا چاہتے تھے؛ آپ ہدایت اور گمراہی کے راستے ان کے سامنے واضح کرنا چاہتے تھے۔

وہ تجارت اور پھلوں پر گذر اور کاروبار تجارت کرتے تھے اور اب وہ علاقے میں گوشہ نشینی پر مجبور نظر آرہے تھے؛ جبکہ غزوہ طائف میں مشرکین کو علی(ع) کے ہاتھوں نقصان اٹھانا پڑا تھا اور اب آپ(ص) فرما رہے تھے کہ میں ان ہی کو تمہاری طرف روانہ کروں گا؛ جن کے سامنے ڈٹ جانا ممکن نہ ہوگا۔

رسول خدا(ص) نے انہیں اس حال پر چھوڑ دیا اور تاریخ اس کے بہت اچھے نتائج اور ثقیف میں اسلام کے فروغ کی بخوبی گواہی دیتی ہے اور یہ سب آپ(ص) کے تدبر کا نتیجہ ہے۔[76]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص96۔
  2. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص97۔
  3. الواقدي، المغازي، ج3، ص924۔
  4. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص102۔
  5. الصالحي الشامي، سبل الهدی والرشاد، ج5، ص503۔
  6. الصالحي الشامي، سبل الهدی والرشاد، ج5، ص558۔
  7. الواقدي، المغازي، ج3، ص928۔
  8. مستدرك الوسائل، ج11، ص97۔
  9. الواقدي، المغازي، ج3، ص931۔
  10. الواقدي، المغازي، ج3، ص937۔
  11. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص120۔
  12. الواقدي، المغازي، ج3، ص927۔
  13. الصالحي الشامي، سبل الهدی والرشاد، ج5، ص557۔
  14. الحلبی، السيرة الحلبية، ج3، ص168۔
  15. الطبري، محمد بن جرير، تاريخ الامم والملوک، ج2، ص355۔
  16. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص123۔
  17. ابن کثیر، السیرة النبویة، ج3، ص626۔
  18. ابن کثیر، السيرة النبوية، ج3، ص660۔
  19. الواقدي، المغازي، ج3، صص 33-934۔
  20. العاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم(ص)، ج25، ص93 تا 107۔
  21. الواقدي، المغازي، ج3، ص936۔
  22. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص122۔
  23. الحلبي، السيرة الحلبية، ج3، ص168۔
  24. العاملي، الصحیح من سیرة النبي الاعظم، ج25، ص118۔
  25. ابن هشام، السیرة النبوية، ج4، ص121۔
  26. ابن سعد، در الطبقات الکبری، ج 2، ص 159۔
  27. سبحانی تبریزی، فروغ ابدیت، ج2، صص266-267۔
  28. الواقدي، المغازي، ج3، ص943۔
  29. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص128۔
  30. الواقدي، المغازي، ج3، ص951۔
  31. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص130-131۔
  32. آیتی، چكيده تاريخ پيامبر اسلام صلي‌ الله‌ عليه‌ وآله، چکیده ص359۔
  33. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص131۔
  34. ابن شهرآشوب، المناقب : ج1، ص117۔
  35. الطبرسي، اعلام الوری، ج1، ص88۔
  36. الدر النظيم في معرفة الأئمّة اللهاميم، ص136۔
  37. المجلسي، بحار الانوار، ج17، ص375۔
  38. الحلبی، السيرة الحلبية، ج3، ص170۔۔
  39. الطبرسي، اعلام الوری، ج1، ص88۔
  40. الواقدي، المغازي، ج3، ص943۔
  41. ابن سعد، طبقات الکبری، ج2، صص 153-154۔
  42. الواقدي، المغازي، ج3، ص947۔
  43. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص495-496۔
  44. الواقدي، المغازي، ج3، ص948۔
  45. سوره توبه، آیه 60۔
  46. الواقدي، المغازي، ج3، ص949۔
  47. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص136۔
  48. الواقدي، المغازي، ج3، ص948۔
  49. ابن اسحاق، السيرة النبوية، ج 1-2، ص587۔
  50. الطبرسی، اعلام الوری، ج1، صص241-242۔
  51. البخاری، صحیح بخاری، ج4، ص200۔
  52. رسولی محلاتی، زندگانی محمد، پیامبر اسلام، ج2، ص316۔
  53. السیوطی، الدر المنثور، ج3، ص250-251
  54. سوره توبه، آیه 58۔
  55. السیوطی، الدر المنثور، وہی ماخذ۔
  56. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، صص137-138۔
  57. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص138۔
  58. ابن هشام، وہی ماخذ۔
  59. الواقدي، المغازي، ج3، صص 957-958۔
  60. ابن سعد، طبقات الكبری، ج2، ص154۔
  61. الحلبی، السيرة الحلبية، ج3، ص183۔
  62. المفيد، الإرشاد، ج1، ص151۔
  63. الطبرانی، المجم الکبیر، ج2، ص186۔
  64. الاصبهاني، ذكر أخبار إصبهان، ج1، ص141۔
  65. ابن الاثير، اسد الغابة في معرفة الصحابة، ج4، ص27۔
  66. العلامة الحلي، المستجاد من الإرشاد، ص91-92-93۔
  67. محمدى اشتهاردى، نگاهى بر زندگى دوازده امام (ع)، صص114 تا 116۔
  68. رجوع کریں: اعلام الوری، ص233-234۔
  69. تايخ يعقوبى، ج 2 / ص 64۔
  70. المعرفة والتاريخ، ج1، ص283۔
  71. الحلبی، السيرة الحلبية، ج3، ص183۔
  72. ابن هشام، السیرة النبویة، ج4، ص139 تا 141۔
  73. ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص122۔
  74. ابن کثیر، البدایة والنهایة، ج4، ص402۔
  75. المعرفة والتاريخ، ج1،ص 283۔
  76. العاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم(ص)، ج25، ص85-86۔

مآخذ

  • مضمون کا ماخذ: جعفریان، رسول، سيره رسول خدا صلي‌الله عليه و آله و سلم‌، محاصره طائف۔
  • قرآن کریم، اردو ترجمہ: سید علی نقی نقوی (لکھنوی)۔
  • آيتي، محمدابراهيم (1294-1343)، چكيده تاريخ پيامبر اسلام صلي‌ الله‌ عليه‌ وآله، به‌ كوشش‌: ابوالقاسم‌ گرجي‌؛ تلخيص‌ جعفر شريعتمداري، موسسه تحقيقات و نشر معارف اهل البيت (ع)۔
  • ابن الاثير، علي بن أبي الكرم محمد بن محمد الشيباني، اسد الغابة في معرفة الصحابة، انتشارات اسماعيليان تهران – ایران۔
  • ابن إسحاق، محمد بن إسحاق بن يسار المطلبي، السيرة النبوية، أحمد فريد المزيدي، دار الكتب العلمية، 1424ه‍ / 2004ع‍۔
  • ابن سعد، أبو عبد الله محمد بن سعد، البصري، البغدادي (المتوفى: 230هـ)، المحقق: إحسان عباس، الناشر: دار صادر - بيروت الطبعة: الأولى، 1968ع‍۔
  • ابن شهر اشوب، محمد بن على السروى المازندرانى، مناقب آل أبى طالب، تصحيح وشرح: لجنة من أساتذة النجف الاشرف، المكتبة والمطبعة الحيدرية في النجف، 1376 ه‍ / 1956ع‍
  • ابن كثير الدمشقي، ابو الفداء اسماعيل، البداية والنهاية، تحقیق: علي شيري، دار إحياء التراث العربي، طبعة جديدة محققة الطبعة الاولى 1408 ه‍ / 1988 ع‍
  • ابن کثیر، ابو الفداء اسماعیل، السيرة النبوية لابن کثیر، مصطفی عبدالواحد، دارالمعرفة، بیروت لبنان ۔ 1396 ه‍ / 1987ع‍۔
  • ابن هشام، عبد الملك، أبو محمد، السيرة النبوية، عمر عبد السلام تدمري، دار الكتاب العربي، الطبعة الثالثة ـ بيروت، 1410 ه‍ / 1990ع‍۔
  • البخاری، محمد بن اسماعیل الجعفی (194 - 256ه‍)، الجامع المسند الصحیح المختصر، المشرف: محمد زهیر بن ناصر بن ناصی، دار الطوق النجاة، بیروت - لبنان 1422 ه‍
  • محمدى اشتهاردى، محمد، نگاهى بر زندگى دوازده امام (ع) (ترجمه کتاب المستجاد من الارشاد علامه حلی)، دفتر انتشارات اسلامى وابسته به جامعه مدرّسين حوزه علميّه قم۔
  • ابن کثیر، ابو الفداء اسماعیل، السيرة النبوية لابن کثیر، مصطفی عبدالواحد، دارالمعرفة، بیروت لبنان ۔ 1396 ه‍ / 1987ع‍۔
  • ابن سعد، أبو عبد الله محمد بن سعد، البصري، البغدادي (المتوفى: 230هـ)، المحقق: إحسان عباس، الناشر: دار صادر - بيروت الطبعة: الأولى، 1968ع‍۔
  • الاصبهاني، الحافظ أبى نعيم أحمد بن عبد الله، كتاب ذكر أخبار إصبهان تأليف الامام، طبع في مدينة ليدن المحروسة بمطبعة بريل 1934 ع‍
  • الحلبي، علي بن برهان الدين، السيرة الحلبية المسمى بـ (إنسان العيون في سيرة الأمين المأمون)، دار النشر / دار المعرفة ــ بيروت۔
  • الحلي، علامه حسن بن يوسف، (648- 726 ه‍)، المستجاد من کتاب الارشاد، تحقیق: محمود البدري، 1956، [خلاصه کتاب "الارشاد في معرفة حجج الله علي العباد (شیخ مفید)"]، قم، بنیاد معارف اسلامی، قم 1375 ه‍ ش / 1417 ه‍ ق۔
  • رسولی، سید هاشم، زندگانی محمد(ص) پیامبر اسلام (ترجمه: السیرة النبویه ابن هشام)، تهران: انتشارات کتابچی، چاپ نهم سال 1375 ه‍ ش۔
  • سبحانی تبریزی، جعفر، فروغ ابدیت، قم: بوستان کتاب قم، چاپ بیست و یکم، 1385هجری شمسی۔
  • السيوطي، جلال الدين عبد الرحمن ابن أبى بكر، الدر المنثور في التفسير بالمأثور،ـ دار المعرفة للطباعة والنشر بيروت - لبنان
  • الشامي، الشيخ جمال الدين يوسف بن حاتم، الدرّ النظيم في مناقب الأئمّة اللهاميم، تحقيق ونشر: مؤسسة النشر الاسلامي التابعة لجماعة المدرسين، قم المشرفة، الطبعة الاولى 1420هـ
  • الطبراني، سليمان بن احمد (260 ه‍ - 360 ه‍)، المعجم الكبير، المحقق: حمدي عبد المجيد السلفي، الطبعة الثانية وزارة الأوقاف والشؤون الدينية، مطبعة الزهراء الحديثة، الموصل، العراق، الطبعة الثانية، 1984ع‍
  • الطبرسي، الفضل بن الحسن، 468 - 548 ه‍. 36 إعلام الورى بأعلام الهدى، تحقيق والنشر: مؤسسة ال البيت عليهم السلام لإحياء التراث، قم 1417ه‍
  • الطبري، أبو جعفر محمد بن جرير، تاريخ الامم والملوك، [قوبلت هذه الطبعة على النسخة المطبوعة] بمطبعة " بريل " بمدينة ليدن في سنة 1879ع‍۔
  • العاملي، جعفر مرتضی، (ولادت: ۱۹۴۴ع‍)، الصحيح من سيرة النبي الأعظم(ص)، نشر: سحرگاهان، 1419ه‍ ق / 1377ه‍ ش / افست طبع: دار السيرة، طبع بیروت۔
  • الفسوي، أبو يُوسُف يعقوب بن سُفيان، [ت: 277هـ]، المعرفة والتاريخ، المحقق: د ـ أكرم ضياء العُمَري، الناشر: مؤسسة الرسالة ـ بيروت سنة النشر: 1401 هـ
  • المفيد، الشيخ محمد بن محمد بن النعمان العكبري البغدادي (336 - 413 ه‍)، الارشاد في معرفة حجج الله علي العباد، تحقيق والنشر: مؤسسة ال البيت (ع) لاحیاء التراث، قم 1413ه‍
  • الواقدی، محمد بن عمر، المغازی؛ بیروت، مؤسسه اعلمی، چاپ سوم، 1409ه‍
  • اليعقوبي، أحمد بن أبي يعقوب بن جعفر، تاريخ اليعقوبي، مؤسسه ونشر فرهنگ اهل بيت (ع) - قم ۔ دار صادر بيروت 1379ه‍ / 1960ع‍۔
پچھلا غزوہ:
حنین
رسول اللہ(ص) کے غزوات
غزوہ طائف
اگلا غزوہ:
تبوک