سورہ طارق چھیاسیواں(86واں) سورہ ہے جو مکی سورتوں میں سے شمار ہوتا ہے اور قرآن کے ۳۰ویں سپارے میں موجود ہے۔ طارق ستارہ کے معنا میں ہے۔ سورے کی ابتدا میں طارق کی قسم کھائی گئی اسی وجہ سے اس سورے کا نام طارق رکھا گیا ہے۔ سورہ طارق میں معاد کے بارے گفتگو کرتے ہوئے خداوند بیان کرتا ہے کہ وہ انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ یہ سورت قرآن کی اہمیت، اس کی آیات کو قاطع اور واضح بیان کرتا ہے۔
بروج | سورۂ طارق | اعلی | |||||||||||||||||||||||
|
اس سورت کی نویں آیت مشہور آیات میں شمار ہوتی ہے کہ جس میں قیامت کو یوم تبلی السرائر(وہ دن جس روز راز فاش ہو جائیں گے) کو کہا گیا ہے۔ پیامبر(ص) سے مروی ہے کہ جو شکص سورہ طارق تلاوت کرے گا تو خدا آسمان میں موجود ہر ستارے کے بدلے میں دس نیکیاں عطا کرے گا۔
تعارف
- وجہ تسمیہ
اس سورہ کے ابتدا میں آسمان اور طارق نامی ستارے کی قسم اٹھانے کی وجہ سے سورت کو طارق کہا جاتا ہے[1] طارق یہاں ستارہ[2] کے معنا میں ایسا موجود ہے جو رات کو طلوع کرتا ہے۔[3]
- ترتیب و محل نزول
سورہ طارق جزو مکی سورت ہے اور ترتیب نزول کے لحاظ سے 36واں سورت ہے جو پیامبر(ص) پر نازل ہوئی ہے۔ موجودہ قرآن میں سورتوں کی ترتیب کے مطابق یہ 86ویں نمبر ہے۔[4] و در جزء سیام قرآن جای دارد.
- تعداد آیات و دیگر ویژگیہا
سورہ طارق ۱۷ آیہ، ۶۱ کلمہ و ۲۵۴ حرف دارد. این سورہ بہ لحاظ حجمی جزو سورہہای مفصلات (دارای آیات کوتاہ) است و از سورہہایی است کہ با سوگند آغاز میشوند.[5]
مضامین
تفسیر نمونہ کے مطابق اس سورت کے دو اساسی مطالب ہیں: ۱. معاد، ۲. قرآن، اس کی قدر و قیمت اور اہمیت۔ خداوند سورت کے آغاز میں قسمیں اٹھانے کے بعد انسان کے محافظ فرشتوں کی طرف اشارہ کرتا اور پھر امکان معاد، انسان کی پہلی زندگی اور نطفے سے پیدائش کی یاد دہانی کرواتا ہے۔ اس سے نتیجہ لیتا ہے کہ خدا وند نہایت بے قدر و قیمت ایک قطرے سے انسان خلق کرنے کی قدرت رکھتا ہے نیز اسے دوبارہ پلٹانے پر بھی قادر ہے۔ بعد والے مرحلے میں متعدد معنا دار قسموں کے ساتھ قیامت کی کچھ خصوصیات اور اہمیت قرآن بیان کرتا ہے آخرکار کافروں ڈرانے اور دھمکانے کے ساتھ اس سورت کو تمام کرتا ہے۔[6]
انسان کی جمسانی معاد کے اثبات کی دلائل | |||||||
پہلی دلیل؛ آیہ۱-۴ موت کے بعد روح کا محفوظ رہنا | |||||||
دوسری دلیل؛آیہ۵-۱۰ جہندہ پانی سے انسان کی خلقت کرنے پر اللہ کی قدرت | |||||||
تیسری دلیل؛ آیہ۱۱-۱۴ نظام خلقت میں معاد کا قانون | |||||||
نتیجہ؛ آیہ۱۵-۱۷ معاد جسمانی کے انکار میں کافروں کی چالاکیاں کہیں نہیں پہنچ پاتیں | |||||||
مشہور آیات
- يَوْمَ تُبْلَى السَّرَائِر(آیہ ۹)
ترجمہ: جس دن سب پوشیدہ راز کھل جائیں گے۔
یہ پہلی آیت کے تسلسل میں کہتی ہے کہ خدا انسان کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے، نیز قیامت کی توصیف بیان کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس روز تمام پوشیدہ اشیا سے پردے اٹھا دئے جائیں گے۔ تفسیر نمونہ واضح کرنے کے متعلق لکھتی ہے کہ صاحبان ایمان کیلئے بھیدوں کا فاش ہوجانا مایہ افتخار اور نعمتوں میں اضافہ ہونا ہے جبکہ مجرموں کیلئے مایہ شرمساری، خواری و خفت کا منشا ہے اور کس قدر برائیاں انسان نے اپنے اندر چھپا رکھی ہیں اور بالآخر اس روز تمام مخلوق کے سامنے شرمسار ہو گا۔[8]
متن سورہ
سورہ طارق
|
ترجمہ
|
---|---|
وَالسَّمَاء وَالطَّارِقِ ﴿1﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الطَّارِقُ ﴿2﴾ النَّجْمُ الثَّاقِبُ ﴿3﴾ إِن كُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَيْہَا حَافِظٌ ﴿4﴾ فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ مِمَّ خُلِقَ ﴿5﴾ خُلِقَ مِن مَّاء دَافِقٍ ﴿6﴾ يَخْرُجُ مِن بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ ﴿7﴾ إِنَّہُ عَلَى رَجْعِہِ لَقَادِرٌ ﴿8﴾ يَوْمَ تُبْلَى السَّرَائِرُ ﴿9﴾ فَمَا لَہُ مِن قُوَّةٍ وَلَا نَاصِرٍ ﴿10﴾ وَالسَّمَاء ذَاتِ الرَّجْعِ ﴿11﴾ وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ ﴿12﴾ إِنَّہُ لَقَوْلٌ فَصْلٌ ﴿13﴾ وَمَا ہُوَ بِالْہَزْلِ ﴿14﴾ إِنَّہُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا ﴿15﴾ وَأَكِيدُ كَيْدًا ﴿16﴾ فَمَہِّلِ الْكَافِرِينَ أَمْہِلْہُمْ رُوَيْدًا ﴿17﴾ |
قَسم ہے آسمان کی اور رات کو نمودار ہو نے والے کی۔ (1) اورتمہیں کیا معلوم کہ رات کو نمودار ہو نے والا کیا ہے؟ (2) وہ چمکتا ہوا تاراہے۔ (3) کوئی متنفس ایسا نہیں ہے جس پرکوئی نگہبان نہ ہو۔ (4) سو انسان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے؟ (5) اچھل کر نکلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔ (6) جو ریڑھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔ (7) بےشک وہ (خدا) اس کے لوٹا سکنے (دوبارہ پیدا کرنے) پر قادر ہے۔ (8) جس دن سب پوشیدہ راز کھل جائیں گے۔ (9) پس اس وقت نہ خود انسان کے پاس کوئی طاقت ہوگی اور نہ کوئی مددگار ہوگا۔ (10) قَسم ہے بارش والے آسمان کی۔ (11) اور (نباتات کے ذریعہ سے) پھٹ جانے والی زمین کی۔ (12) کہ وہ (قرآن) قولِ فیصل ہے۔ (13) کوئی ہنسی مذاق نہیں ہے۔ (14) بےشک وہ (کافر لوگ) کچھ چالیں چل رہے ہیں۔ (15) اور میں بھی (ان کیخلاف) ایک چال چل رہا ہوں۔ (16) تو (اے رسول(ص)) ان (کافروں) کو مہلت دے دیجئے ان کو تھوڑی سی مہلت دے دیجئے۔ (17) |
پچھلی سورت: سورہ بروج | سورہ طارق | اگلی سورت:سورہ اعلی |
1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آلعمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس |
حوالہ جات
- ↑ دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۶۳.
- ↑ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ذیل واژہ «طرق».
- ↑ دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۶۳.
- ↑ معرفت، آموزش علوم قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۱۶۶.
- ↑ دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۶۳.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۶،ص ۳۵۶.
- ↑ خامہگر، محمد، ساختار سورہہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۶، ص۳۶۸.
مآخذ
- قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
- دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی ، ج2، کوشش بہاء الدین خرمشاہی، تہران: دوستان-ناہید، 1377ہجری شمسی۔