صحیفہ سجادیہ کی اٹھارویں دعا
| کوائف | |
|---|---|
| موضوع: | آرزوں کی تکمیل اور بلاؤں کے ٹل جانے کی بنا پرخدا کا شکر |
| مأثور/غیرمأثور: | مأثور |
| صادرہ از: | امام سجادؑ |
| راوی: | متوکل بن ہارون |
| شیعہ منابع: | صحیفہ سجادیہ |
| مشہور دعائیں اور زیارات | |
| دعائے توسل • دعائے کمیل • دعائے ندبہ • دعائے سمات • دعائے فرج • دعائے عہد • دعائے ابوحمزہ ثمالی • زیارت عاشورا • زیارت جامعہ کبیرہ • زیارت وارث • زیارت امیناللہ • زیارت اربعین | |
صحیفہ سجادیہ کی اٹھارہویں دعاء امام سجادؑ سے منقول اور ماثور ہے، اپؑ نے اس دعا کو بلاء و مصیبت کے ٹل جانے اور حاجتوں کے قبول ہونے پر پڑھی ہے۔ حضرت امام زین العابدینؑ نے اس دعا میں انسان پر بلا نازل ہونے کے فلسفہ اور اس کی مصلحت کو بیان کیا ہے نیز اچھی سرنوشت و تقدیر اور بلاؤں کے برطرف ہونے پر خدا کا شکر ادا کیا ہے۔
دیگر دعاؤں کی طرح اس دعا کی بھی صحیفہ سجادیہ کی شرحوں میں جیسے حسین انصاریان کی کتاب دیارعاشقان میں اور حسن ممدوحی کرمانشاہی کی کتاب شہود و شناخت میں فارسی زبان میں شرح کی گئی ہے اور سید علی خان مدنی کی کتاب ریاض السالکین میں عربی زبان میں شرح کی گئی ہے۔
تعلیمات
صحیفہ سجادیہ کی اٹھارہویں دعا وہ دعا ہے جسے امام سجادؑ پریشانیوں اور بلاوں کے ٹل جانے یا اپنی مرادوں کے پوری ہونے کے وقت پڑھا کرتے تھے ۔ حوزہ علمیہ قم میں فلسفہ کے استاد، مجتھد ممدوحی کرمانشاہی فرماتے ہیں کہ یہ دعا اس بات کی نشانی ہے کہ امام سجّادؑ ہرحال میں خدا اور اخرت کی جانب متوجہ رہے ہیں، [1] امام سجادؑ کے دہن مبارک پر جاری ہونے والی تین بندوں [2] پر مشتمل اس دعا کی تعلیمات مندرجہ ذیل ہیں :
- اچھی تقدیر اور حالات پر خدا کا شکر۔
- رحمت خدا کی درخواست عافیت اور سلامتی سے بہتر ہے۔
- دنیاوی زندگی، آخرت کی حقیقی زندگی کا مقدّمہ ہے۔
- ہر بلا کے ٹلنے جانے کے بعد خدا کی شکر ادا کرنا۔
- خدا اور کائنات کی معرفت خوش نصیبی کا راستہ ۔
- انسانوں پر بلاء نازل ہونے کی مصلحت۔
- جس کا سر انجام نابودی ہو وہ حقیر و ناچیز ہے۔ (دنیا کی نعمتیں)
- جس کا سرانجام ابدی ہو قابل قدر اور اہم ہے۔ (اخروی نعمتیں)
- آخرت کا سکون دنیا کے سکون سے بہتر ہے۔[3]
شرحیں
اس پندرہویں دعاء کا بھی صحیفہ سجادیہ کی شرحوں میں جیسے حسین انصاریان کی کتاب دیار عاشقان [4] میں اور حسن ممدوحی کرمانشاہی کی کتاب شہود و شناخت [5] میں اور سید احمد فہری کی کتاب شرح و ترجمہ صحیفہ سجادیہ[6] میں فارسی زبان میں شرح کی گئی ہے۔
اسی طرح اس دعا کی بعض دیگر کتابوں میں بھی جیسے، سید علی خان مدنی کی کتاب ریاض السالکین [7] میں ، جواد مغنیہ کی کتاب فی ظلال الصحیفہ السجادیہ [8] میں ، محمد بن محمد دارابی [9] کی کتاب ریاض العارفین میں اور سید محمد حسین فضل الله [10] کی کتاب آفاق الروح میں، عربی زبان میں شرح کی گئی ہے۔ اور اس دعا کے الفاظ کی فیض کاشانی کی کتاب تعلیقات علی الصحیفۃ السجادیۃ [11] میں اورعزالدین جزائری کی کتاب شرح الصحیفہ السجادیہ [12] میں تشریح کی گئی ہے۔
دعا کا متن اور ترجمہ
وَ كَانَ مِنْ دُعَائِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ إِذَا دُفِعَ عَنْهُ مَا يَحْذَرُ، أَوْ عُجِّلَ لَهُ مَطْلَبُهُ
اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى حُسْنِ قَضَائِكَ، وَ بِمَا صَرَفْتَ عَنِّي مِنْ بَلَائِكَ، فَلَا تَجْعَلْ حَظِّي مِنْ رَحْمَتِكَ مَا عَجَّلْتَ لِي مِنْ عَافِيَتِكَ فَأَكُونَ قَدْ شَقِيتُ بِمَا أَحْبَبْتُ وَ سَعِدَ غَيْرِي بِمَا كَرِهْتُ.
وَ إِنْ يَكُنْ مَا ظَلِلْتُ فِيهِ أَوْ بِتُّ فِيهِ مِنْ هَذِهِ الْعَافِيَةِ بَيْنَ يَدَيْ بَلَاءٍ لَا يَنْقَطِعُ وَ وِزْرٍ لاَ يَرْتَفِعُ فَقَدِّمْ لِي مَا أَخَّرْتَ، وَ أَخِّرْ عَنّي مَا قَدَّمْتَ.
فَغَيْرُ كَثِيرٍ مَا عَاقِبَتُهُ الْفَنَاءُ، وَ غَيْرُ قَلِيلٍ مَا عَاقِبَتُهُ الْبَقَاءُ، وَ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ.
دفع بلیات یا حاجات کی قبولیت کے دوران حضرت کی دعا
اے اللہ ! تیرے ہی لیے حمد و ستائش ہے تیرے بہترین فیصلہ پر اور اس بات پر کہ تو نے بلاؤں کا رخ مجھ سے موڑ دیا۔ تو میرا حصہ اپنی رحمت میں سے صرف اس دنیوی تندرستی میں منحصر نہ کر دے کہ میں اپنی اس پسندیدہ چیز کی وجہ سے (آخرت کی) سعادتوں سے محروم رہوں اور دوسرا میری نا پسندیدہ چیز کی وجہ سے خوش بختی و سعادت حاصل کر لے جائے۔
اور اگر یہ تندرستی کہ جس میں دن گزارا ہے یا رات بسر کی ہے کسی لازوال مصیبت کا پیش خیمہ اور کسی دائمی وبال کی تمہید بن جائے تو جس (زحمت و اندوہ) کو تو نے موخر کیا ہے اسے مقدم کر دے اور جس (صحت و عافیت) کو مقدم کیا اسے موخر کر دے۔
کیونکہ جس چیز کا نتیجہ فنا ہو وہ زیادہ نہیں اورجس کا انجام بقا ہو وہ کم نہیں۔ اے اللہ تو محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما۔
حوالہ جات
- ↑ ممدوحی، شہود و شناخت، 1388ش، ج2، ص166۔
- ↑ ترجمہ و شرح دعای ہجدہم صحیفہ سجادیہ، سایت عرفان۔
- ↑ انصاریان، دیار عاشقان، 1373ش، ج6، ص103-104؛ ممدوحی، شہود و شناخت، 1388ش، ج2، ص166-174۔
- ↑ انصاریان، دیار عاشقان، 1371ش، ج5، ص295-363۔
- ↑ ممدوحی، کتاب شہود و شناخت، 1388ش، ج2، ص57-74۔
- ↑ فہری، شرح و تفسیر صحیفہ سجادیہ، 1388ش، ج2، ص109-114۔
- ↑ مدنی شیرازی، ریاض السالکین، 1435ھ، ج2، ص325-400.
- ↑ مغنیہ، فی ظلال الصحیفہ، 1428ھ، ص141-153.
- ↑ دارابی، ریاض العارفین، 1379ش، ص127-132.
- ↑ فضل الله، آفاق الروح، 1420ھ، ج1، ص199-259.
- ↑ فیض کاشانی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، 1407ھ، ص33-34.
- ↑ جزایری ، شرح الصحیفہ السجادیہ ، 1402، ص94-95۔
مآخذ
- انصاریان، حسین، دیار عاشقان: تفسیر جامع صحیفہ سجادیہ، تہران، پیام آزادی، 1372شمسی ہجری۔
- جزایری، عزالدین، شرح الصحیفة السجادیة، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1402ھ۔
- دارابی، محمد بن محمد، ریاض العارفین فی شرح الصحیفہ السجادیہ، تحقیق حسین درگاہی، تہران، نشر اسوہ، 1379 شمسی ہجری۔
- فضل اللہ، سید محمد حسین، آفاق الروح، بیروت، دارالمالک، 1420ھ۔
- فہری، سید احمد، شرح و ترجمہ صحیفہ سجادیہ، تہران، اسوہ، 1388شمسی ہجری۔
- فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، تہران، مؤسسہ البحوث و التحقیقات الثقافیہ، 1407ھ۔
- مدنی شیرازی، سید علی خان، ریاض السالکین فی شرح صحیفۃ سید الساجدین، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، 1435ھ۔
- مغنیہ، محمد جواد، فی ظلال الصحیفہ السجادیہ، قم، دار الکتاب الاسلامی، 1428ھ۔
- ممدوحی کرمانشاہی، حسن، شہود و شناخت، ترجمہ و شرح صحیفہ سجادیہ، مقدمہ آیت اللہ جوادی آملی، قم، بوستان کتاب، 1388شمسی ہجری۔