حجۃ الوداع

حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
جانبدار
علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
غیر جامع
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
(حچۃ الوداع سے رجوع مکرر)

حِجَّۃُ الوَداع پیغمبر اکرمؐ کے آخری حج کو کہا جاتا ہے جس میں آپ نے مختلف اسلامی مناطق سے آئے ہوئے مسلمانوں سے وداع فرمایا تھا۔ رسول اکرمؐ نے مدینہ ہجرت کے بعد عمرہ کی نیت سے تین اور حج کی نیت سے صرف ایک دفعہ یعنی رحلت سے کچھ عرصہ پہلے مکہ کا سفر فرمایا۔

شیعوں کے مطابق پیغمبراکرمؐ نے اس سفر سے واپسی پر خدا کے حکم سے غدیر خم کے مقام پر حضرت علیؑ کی امامت اور ولایت کا اعلان فرمایا اور وہاں موجود تمام مسلمانوں سے حضرت علیؑ کی بیعت کرنے کا حکم دیا اس بنا پر یہ حج شیعہ تاریخ میں ایک اہم واقعہ شمار ہوتا ہے۔

اس حج کا دوسرا نام حِجَّۃُالبَلاغ ہے کیونکہ اس سفر سے واپسی کے وقت رسول خداؐ پر آیت تبلیغ نازل ہوئی۔ اسی طرح اسے حِجَّۃُالاسلام بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ واحد حج ہے جسے پیغمبر اکرمؐ نے اسلامی معاشرے کی قیام کے بعد اسلامی احکام کے تحت ادا فرمایا تھا۔

آیت تبلیغ

يَا أَيُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللّہُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّہَ لاَ يَہْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
ترجمہ: اے پیغمبر ! جو اللہ کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے، اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو اس کا کچھ پیغام پہنچایا ہی نہیں اور اللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت کرے گا، بلاشبہ اللہ کافروں کو منزل تک نہیں پہنچایا کرتا۔

سورہ مائدہ آیت 67۔
اکمال دین اور اتمام نعمت

الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ فَلاَ تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً
ترجمہ: آج کافر لوگ تمہارے دین کی طرف سے نااُمیدہو گئے ہیں تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کر لیا۔

سورہ مائدہ آیت 3۔


سفر کا آغاز

اعلان حجّ

وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالاً وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ترجمہ: اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو تو وہ آئیں گے تمہاری آواز پر پیادہ پا اور ہر لاغر سواری پر کہ آئیں گی (وہ سواریاں) ہر دور دراز راستے سے۔

سورہ حج آیت 27۔

معاویہ بن عمار کی ایک مفصل حدیث میں آیا ہے کہ امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا:[1] رسول خداؐ ہجرت کے بعد 10 سال مدینہ میں مقیم رہے اور حج کے لئے نہیں گئے لیکن جب اعلان حج کی آیت: وَأَذِّنْ فِى النّاسِ بِالْحَجِّ (ترجمہ: اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو)[؟؟][2] نازل ہوئی تو آپؐ نے اعلان کیا کہ امسال حج کے لئے مکہ جائیں گے۔ مدینہ کے باشندے اور بادیہ نشین سب مدینہ میں جمع ہوئے تاکہ رسول اللہؐ کے ساتھ حج ادا کریں۔ سنہ 10 ہجری کے ماہ ذوالقعدۃ الحرام کے چار دن باقی تھے جب آپؐ مکہ روانہ ہوئے۔[3]

اہل سنت کی کتب میں ہے کہ آپؐ نے ذوالْحُلَیفہ کی میقات میں ایک رات گذاری اور مکہ کی طرف روانہ ہوئے[4]۔[5]۔[6] تاہم امام صادق(ع) کے مطابق آپؐ میقات پہنچے تو اسی دن محرِم ہوئے اور میقات میں ٹہرے بغیر مکہ روانہ ہوئے۔[7]

حج کے اعلان عام کے بعد مہاجرین اور انصار اور حتی کہ مکہ کے اطراف اور یمن کے عوام مکہ روانہ ہوئے تاکہ اعمال حج کو براہ راست رسول اللہؐ سے سیکھ لیں اور آپؐ کے پہلے باضابطہ حج میں آپؐ کے ساتھ رہیں۔ اور پھر آپؐ نے یہ اشارے بھی دیئے تھے کہ یہ آپؐ کا آخری حج ہے چنانچہ مسلمان دوہرے اشتیاق کے ساتھ حج کے لئے روانہ ہوئے تھے۔ ایک لاکھ بیس ہزار افراد (اور بعض روایات کے مطابق اس سے بھی زیادہ) مسلمانوں نے مراسمات حج میں شرکت کی؛ ستر ہزار افراد مدینہ سے حج میں شرکت کرنے کے لئے مکہ روانہ ہوئے تھے اور لبیک کہنے والے مدینہ سے مکہ تک متصل ہوچکے تھے۔ رسول اللہؐ مدینہ سے روانہ ہونے والے حجاج کے ہمراہ 10 دن کے بعد مکہ پہنچے۔

اميرالمؤمنين(ع) جو دعوت اسلام اور خمس و زکٰوۃ اور جزیہ وصول کرنے کے لئے نجران اور یمن گئے تھے یمن کے بارہ ہزار مسلمانوں کے لئے حج بجا لانے کے لئے مکہ پہنچے۔

امام علی(ع)، ـ جو ایک جماعت کے ساتھ یمن سے آئے تھے ـ مکہ میں رسول اللہؐ سے آملے۔[8]۔[9]

مناسک حج کی تعلیم

میقات میں آپؐ نے لوگوں کو آدابِ احرام سکھائے۔ آپؐ نے ابتداء میں غسل کیا اور حج قِران کے لئے احرام باندھا۔[10]۔[11] آپؐ کا احرام یمن کے بنے ہوئے سوتی کپڑے کے دو ان سلے ٹکڑوں پر مشتمل تھا جس میں وصال کے بعد آپ کو کفن دیا گیا،[12] اس کے بعد آپؐ نے نماز ظہر مسجد شجرہ میں ادا کی[13] اور اس کے بعد اس اونٹ کی کوہان پر ایک نشان لگایا جو آپؐ قربانی کے لئے اپنے ساتھ مکہ لے جارہے تھے۔[14]۔[15]

بعد میں ان مقامات پر مسلمانوں نے کئی مساجد تعمیر کیں جہاں رسول اللہؐ نے نماز ادا کی تھی یا آرام کے لئے ٹہرے تھے۔[16]۔[17]

رسول اللہؐ نے مکہ کے قریب "ذی طُوٰى"، کے مقام پر ایک رات آرام کیا[18] اور چار ذوالحجۃ الحرام کی شام کو مکہ پہنچے۔[19]

اعمال حج

مفصل مضمون: اعمال حج

طواف اور نماز

طواف

ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَہُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَہُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ
ترجمہ: پھر وہ اپنے جسم کی کثافت دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور اس قدیم گھر کا طواف کریں۔

سورہ حج، آیت 29۔

اگلے روز رسول اکرمؐ باب بنی شیبہ سے مسجد الحرام میں داخل ہوئے[20]۔[21] اور کعبہ کی طرف چلے گئے اور حجر الأسود پر ہاتھ پھیرا (اور اصطلاحاً استلام حجر کا عمل انجام دیا) اور اس کے بعد کعبہ کا طواف کیا۔[22] پیغمبر اکرمؐ نے اونٹ پر سوار ہوکر طواف کیا۔[23] اور طواف کے آخر میں حجر الأسود پر ہاتھ پھیرا[24] اور اس کا بوسہ لیا اور طویل مدت تک گریہ کیا،[25] اس کے بعد مقام ابراہیم کی پشت پر دو رکعت نماز طواف ادا کی۔[26]۔[27]

سعی

صفا اور مروہ

إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِن شَعَآئِرِ اللّہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْہِ أَن يَطَّوَّفَ بِہِمَا وَمَن تَطَوَّعَ خَيْراً فَإِنَّ اللّہَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ
ترجمہ: بلاشبہ صفا و مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں تو جو شخص خانہ کعبہ کا حج یا عمرہ بجا لائے اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا کہ وہ ان دونوں کا چکر لگا لے اور جو شوق و رغبت کے ساتھ کچھ نیکی کرے تو اللہ قدر دان ہے، جاننے والا۔

سورہ بقرہ آیت 158۔

نماز کے بعد آپؐ نے زمزم کے کنویں سے پانی پیا اور کوہ صفا کی طرف گئے[28]۔[29] اور فرمایا کہ چونکہ خداوند متعال نے پہلے صفا کا ذکر کیا ہے[30] ہم صفا اور مروہ کے درمیان سعی کا آغاز صفا سے کرتے ہیں۔[31][32] کوہ صفا پر مستقر ہوئے تو کعبہ کے رکن یمانى کی طرف رخ کیا اور کافی دیر تک ذکر و ثنائے پروردگار میں مصروف رہے،[33] اور اس کے بعد صفا سے مروہ کی طرف روانہ ہوئے۔ کچھ راستہ رمل کرکے اور ﴿دلکی چال) چلے[34] مروہ پہنچے تو رکے اور دعا پڑھی۔[35] ظاہراً آپؐ نے یہ راستہ سوار ہوکر طے کیا ہے۔[36]۔[37]

مِنٰی و عرفات کی طرف روانگی

آٹھ ذوالحجہ کو غروب آفتاب کے وقت رسول اکرمؐ مسلمانوں کے ساتھ مِنٰی کی طرف روانہ ہوئے اور رات وہیں بسر کی اور نو ذوالحجہ کی صبح عرفات کی طرف روانہ ہوئے۔ قافلہ عرفات کے قریب نَمِرَہ (وادى عُرَنہ) کے مقام پر پہنچا، اور وہیں رکا اور مسلمانوں نے خیمے نصب کئے اور رسول خداؐ نے اپنا تاریخی خطبہ یہیں دیا؛ رسول خداؐ کا قافلہ اس کے بعد عرفات پہنچا اور وہیں توقف کیا اور غروب آفتاب تک ذکر الہی اور دعا میں مصروف رہا۔[38]۔[39]۔[40]۔[41]۔[42]

ایک روایت کے مطابق امام صادق(ع)، عید غدیر، یعنى اٹھارہ ذوالحجہ، جمعہ کا دن تھا۔[43] اس روایت کے مطابق عرفات میں آپؐ کے وقوف کی تاریخ نو ذوالحجۃ الحرام تھی؛ لیکن اہل سنّت مورخ سیوطی نے خلیفہ دوم سے نقل کیا ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر وقوف عرفات جمعہ کے دن تھا۔ [44] الزحیلی نے بھی لکھا ہے کہ صحیحین سے ثابت ہے کہ جس عرفہ کے روز نبیؐ نے عرفات میں وقوف کیا، وہ روز جمعہ تھا۔[45]

مشعر (مزدلفہ) میں وقوف

عرفات و مشعر (مزدلفہ)

فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُواْ اللّہَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْكُرُوہُ كَمَا ہَدَاكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِہِ لَمِنَ الضَّآلِّينَ
ترجمہ: جب عرفات سے روانہ ہو تو مشعر الحرام کے حدود میں اللہ کو یاد کرو اور اس کے ذکر میں مشغول ہو جس طرح وہ تمہیں راہ پرلایا، حالانکہ تم اس کے پہلے بہکے ہوؤں میں تھے۔

سورہ بقرہ، آیت 198۔

غروب آفتاب کے وقت رسول اکرمؐ اونٹ پر سوار ہوئے اور مزدلفہ (مشعرالحرام) کی طرف روانہ ہوئے[46]۔[47]۔[48] اور مسلمانوں کو ہدایت کی کہ عرفات سے مشعرالحرام تک کا راستہ آہستگی سے طے کریں۔[49]۔[50] حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|حضرت محمدؐ]] نے مشعرالحرام کے مناسب مقام پر مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک ساتھ ادا کیں[51] اور تھوڑا سا آرام کیا۔ سحر کے وقت عبادت اور ذکر پروردگار میں مصروف ہوئے جو موسم حج کے لئے اللہ کے مؤکد احکام میں سے ہے۔[52]

کنکریاں پھینکنا

طلوع آفتاب کے ساتھ ہی آپؐ منٰی کی طرف روانہ ہوئے اور سیدھے بڑے شیطان گئے اور اس کی طرف سات کنکریاں پھینک دیں۔[53]۔[54]۔[55]

قربانی

رسول اللہؐ اس کے بعد قربانگاہ (مسلخ) تشریف لے گئے اور اس اونٹ کی قربانی دی جو آپؐ مدینہ سے ساتھ لائے تھے[56]، تیس سے زائد اونٹ حضرت علی(ع) کو دیئے کہ اپنی طرف سے قربان کردیں اور خود 60 سے زائد اونٹوں کی قربانی دی۔ ان دونوں نے اپنی قربانی کا تھوڑا سا گوشت خود تناول فرمایا اور باقی گوشت بطور صدقہ دیا۔[57]۔[58]۔[59]

اس کے بعد آپؐ نے عبداللہ بن حراثہ (یا حارثہ) سے اپنے سر مبارک کے بال منڈوائے[60]۔[61] اور آپؐ اپنے ذاتی فرائض انجام دینے اور اعمال حج کے بارے میں لوگوں کے سوالات کا جواب دینے کے بعد،[62] مکہ تشریف فرما ہوئے اور کعبہ کا طواف کیا اور نماز ظہر مسجد الحرام میں ادا کی،[63]۔[64] اور اس کے بعد منٰی کی طرف پلٹ گئے اور تیسرے دن تک (ایام تشریق کے دوران) وہیں قیام کیا اور رمىِ جمرہ کے بعد منٰی سے خارج ہوئے۔[65]

رسول اللہؐ نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے کے بعد حج تمتع ـ جو عمرہ اور حج پر مشتمل ہے ـ کے احکام مسلمانوں کے سکھا دیئے۔ جبکہ اس وقت تک مسلمان احکام حج میں صرف حج اِفراد اور حجِ قِران سے واقف تھے اور ایام حج میں عمرہ کو ناجائز سمجھتے تھے، اسی بنا پر "بعض مسلمانوں" نے اس حکم کو "بمشکل" قبول کیا![66]۔[67]

اس سفر کی خصوصیات

خطبہ خیف

رسول اللہؐ نے فرمایا:
نصراللہ عبد اسمع مقالتي فوعاہا وحفظہا وبلغہا من لم يسمعہا، فرب حامل فقہ غير فقيہ ورب حامل فقہ إلي من ہو أفقہ منہ
ترجمہ: خدا مدد کرے اس کی جو میری باتیں سن کر یاد رکھے اور ان لوگوں کو بھی سنائے جنہوں نے نہیں سنیں؛ کتنے ہیں وہ جو [فقہ]] کے حامل ہیں لیکن خود فقیہ نہیں ہیں؛ کتنے ہیں وہ جو فقہ کے حامل ہیں اور اس کو ایسے لوگوں کی طرف لے کر جاتے ہیں جو ان فقیہ تر ہیں۔

کلینی، الکافی، ج1 ص403 و 403۔

رسول اللہؐ نے مکہ میں داخلے سے آٹھ ذوالحجہ تک کسی گھر میں قیام نہیں کیا بلکہ مکہ کے باہر اَبْطَح (بَطحاء) کے مقام پر ایک خیمے میں قیام پذیر رہے۔[68]۔[69]

اس سفر میں رسول اللہؐ نے یمن کے بنے ہوئے کپڑوں کا پردہ بنا کر کعبہ پر لٹکایا۔[70]۔[71][72]۔[73]


خطبہ خیف

رسول اللہؐ نے فرمایا:
ثلاث لا يغل عليہن قلب امريء مسلم: إخلاص العمل للہ والنصيحہ لأئمۃ المسلمين واللزوم لجماعتہم
ترجمہ: تین چیزیں ہیں جو مسلمان شخص کا دل ان کی نسبت خیانت نہيں کرتا۔ 1۔ عمل کو اخلاص کے ساتھ اللہ کے لئے انجام دینا اور تمام امور میں توحید و یکتا پرستی کو مقدم رکھنا، 2۔ ائمۂ مسلمین کی خیرخواہی کرنا، ان سے تعلق استوار رکھنا، انہیں اپنے ساتھ شریک کرنا، واقعات کی صحیح خبر رسانی کرنا، مکمل راہنمائی لینا اور راہنمائی پر درست عمل کرنا، 3۔ مؤمنین کے ساتھ ہمہ جہت اتحاد کا تحفظ کرنا، ان کی جماعت سے جدا نہ ہونا۔

کلینی، الکافی، ج1 ص403 و 403۔

رسول اللہؐ نے اہلیان مکہ اور وہاں کے مجاورین کو ہدایت دی کہ مَطاف، حجرالأسود، مقام ابراہیم(ع)، نیز نماز جماعت کی صف اول کو 10 ذوالقعدہ سے [ایام حج کے اخر تک] حجاج کے لئے مختص کیا کریں۔[74]

رسول اللہؐ نے اپنے سابقین (مؤمنین) کی مانند حجاج کو اطعام کیا اور کھانا کھلایا۔[75]

مروی ہے کہ منٰی کے مقام پر واقع مسجد خیف میں بھی رسول اللہؐ میں بھی ایک مختصر سا خطبہ دیا۔[76]۔[77]۔[78]

مسجد خیف میں رسول اللہؐ کے اہم نکات:[79]

خدا مدد کرے اس کی جو :

  • میری باتیں سن کر یاد رکھیں،
  • میری باتیں ان تک پہنچائیں جنہوں نے میرا کلام نہیں سنا۔
  • کتنے زيادہ ہیں وہ فقیہ جو فقہ کے حامل ہیں مگر اور ان لوگوں کو بھی سنائے جنہوں نے نہیں سنیں؛ کتنے ہیں وہ جو [فقہ]] کے حامل ہیں لیکن خود فقیہ نہیں ہیں؛ اور
  • کتنے زیادہ ہیں وہ جو فقہ اور سمجھ بوجھ لے کر ان کو سناتے ہیں اور سکھانے کی کوشش کرتے ہیں جو ان سے کہیں زیادہ بڑے فقیہ ہیں!!

تین چیزیں ایسی ہیں:

  • عمل کو اخلاص کے ساتھ اللہ کے لئے انجام دینا اور تمام امور میں توحید و یکتا پرستی کو مقدم رکھنا،
  • ائمۂ مسلمین کی خیرخواہی کرنا، ان سے تعلق استوار رکھنا، انہیں اپنے ساتھ شریک کرنا، انہیں واقعات کی صحیح خبر رسانی کرنا، مکمل راہنمائی لینا اور راہنمائی پر درست عمل کرنا،
  • مؤمنین کے ساتھ ہمہ جہت اتحاد کا تحفظ کرنا، ان کی جماعت سے جدا نہ ہونا۔

رسول اللہؐ نے مکہ سے مدینہ پلٹتے وقت غدیر خم کے مقام پر ولایت امیرالمؤمنین(ع) کا اعلان کیا جس کے بعد اصحاب نے امیرالمؤمنین(ع) کے ہاتھ پر مسلمانوں کے ولی اور حاکم و سرپرست کے عنوان سے بیعت کی۔

حج سے واپسی

13 ذوالحجہ سنہ 10 ہجری کو اعمال و مراسمات حج مکمل ہونے کے بعد رسول اکرمؐ ظہر سے قبل منٰی سے مکہ واپس پلٹ گئے اور ابطح کے مقام پر خیمہ لگایا[80]۔[81] اور مسلمانوں کو مناسک و اعمال حج بجا لانے کے بعد اپنے گھر بار اور وطن کی طرف واپسی میں عجلت کریں[82]۔[83]۔[84] اور خود بھی 14 ذوالحجہ کو فجر سے قبل مکہ سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔[85]

غدیر خم کے مقام اعلان ولایت

رسول خداؐ کا سفر حج میں اٹھائیس سے تیس دن تک کا عرصہ لگا۔ آیت اکمال دین[86] ان آیات میں سے ایک ہے جو قطعی طور پر حجۃالوداع کے دوران نازل ہوئی ہیں۔[87]

اٹھارہ ذوالحجہ کو جُحْفہ کے قریب غدیر خُم کے مقام پر پہنچے؛ وہاں رسول اکرمؐ نے اللہ کے فرمان پر[88] امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کو اپنے جانشین کے طور پر مقرر کیا۔[89]۔[90]

براء بن عازب کہتے ہیں: میں حجۃ الوداع کے سفر میں رسول خداؐ کی خدمت میں حاضر تھا؛ جب ہم [[غدیر خم کے مقام پر پہنچے؛ آپؐ کے حکم پر اس علاقے کو صاف کیا گیا اور پھر علی(ع) کو اپنی دائیں جانب قرار دیا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر لوگوں سے کہا: کیا میں تمہارا صاحب اختیار نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا؛ کیوں نہیں! ہمارا پورا آختیار آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اور آپؐ نے امام علی(ع) کا ہاتھ اوپر کو اٹھا کر فرمایا: میں جس کا مولا ہوں یہ علی(ع) اس کے مولا ہیں۔ خداوندا! علی کے دوست کو دوست رکھ اور ان کے دشمن کو دشمن رکھ ... پس عمر بن خطاب نے امام علی(ع) سے کہا: اے علی! یہ منصب آپ کو مبارک ہو کیونکہ تم میرے اور تمام مؤمنین کے مولا ہوئے۔[91]۔[92]۔[93]۔[94] بحرانی نے اہل سنت کے 89 مآخذ اور اہل تشیع کے 43 مآخذ سے ایسی ہی حدیث نقل کی ہے۔ [95]

بعدازاں قافلہ مدینہ کی جانب روانہ ہوا اور احتمالا 24 ذوالحجہ کو مدینہ پہنچا۔[96] ذوالحجہ کے آخری ایام میں آپہ مدینہ میں تھے۔[97]

حاجیوں کی تعداد

اس سفر میں حاجیوں کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے، اس بنا پر ایک لاکھ بیس ہزار سے ایک لاکھ پچاس ہزار تک ذکر کیا گیا ہے جن میں سے اکثر پیدل اس سفر پر آئے تھے۔ [98]۔ لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ اس سفر میں پچاس ہزار سے زیادہ حجاج نے شرکت نہیں کی تھی۔[99]

متعلقہ مآخذ

حوالہ جات

  1. رجوع کریں: کلینى، ج 4، ص 245ـ248۔
  2. سورہ حج آیت 27۔
  3. نیز رجوع کریں: طوسى، تہذیب‌الاحكام، ج5،ص454؛ واقدى، ج3، ص1089؛ ‌ابن ‌سعد کا کہنا ہے کہ ذوالقعدہ میں پانچ دن باقی تھے: طبقات، ج2، ص:173۔
  4. بخارى، ج2، ص147۔
  5. ابوداوود، سنن، ج2، ص375۔
  6. بیہقى، سنن، ج 7، ص 83۔
  7. کلینى، الکافی، ج 4، ص 248ـ249۔
  8. مسلم‌بن حجاج، ج1 ص888۔
  9. کلینى، ج 4، ص 246۔
  10. کلینى، ج 4، ص 245۔
  11. مجلسى، بحار الانوار، ج17، ص111۔
  12. کلینى، ج 4، ص 339۔
  13. کلینى، ج4، ص248ـ249
  14. واقدى، ج 3، ص1090۔
  15. فیروزآبادى، سفرالسعادۃ، ص70۔
  16. رجوع کریں: مرجانى، ص280ـ290۔۔
  17. سمہودى، ج3، ص1001ـ1020۔
  18. مسلم‌بن حجاج، الصحیح، ج 1، ص 919۔
  19. کلینى، ج 4، ص 245
  20. واقدى، ج3، ص1097۔
  21. کلینى، ج4، ص250۔
  22. کلینى، ج4، ص 245
  23. واثقى، حجۃالوداع كما رواہا اہل‌البیت، ص 106ـ110۔
  24. کلینى، ج4، ص 245
  25. ابن‌ماجہ، سنن، ج 2، ص 982۔
  26. مسلم‌بن حجاج، ج 1، ص 887۔
  27. کلینى، ج 4، ص 245، 249ـ 250۔
  28. کلینى، ج4، ص250۔
  29. ابو منصور حسن بن زين الدين عاملي (ابن شہید ثانى)، ج3، ص260۔
  30. رجوع کریں: سورہ بقرہ آیت 158۔
  31. مسلم‌بن حجاج، ج 1، ص 888۔
  32. کلینى، ج4، ص245۔
  33. کلینى، ج 4، ص 246۔
  34. رجوع کریں: مسلم‌بن حجاج، ج 1، ص 888۔
  35. کلینى، ج 4، ص 246۔
  36. رجوع کریں: واقدى، ج3، ص1099۔
  37. واثقى، ص133ـ 135۔
  38. مسلم‌بن حجاج، ج 1، ص 889ـ890۔
  39. نیز رجوع کریں: کلینى، ج 4، ص 246ـ 247۔
  40. نعمان‌بن محمد قاضی‌نعمان، دعائم‌الاسلام و ذكرالحلال و الحرام و القضایا و الاحكام، ج 1، ص 319۔
  41. خطبے کی اہمیت اور مضامین سے آگہی کے لئے رجوع کریں: مسلم‌بن حجاج، صحیح مسلم، ج 1، ص 889ـ890۔
  42. واثقى، حجۃالوداع كما رواہا اہل‌البیت، ص 176ـ191۔
  43. رجوع کریں: ابن بابویہ، كتاب الخصال، 1362ہجری شمسی، ج 2، ص 394۔
  44. سیوطی درالمنثور، ج3، ص19
  45. وہبۃ الزحيلي، الفقہ الاسلامی وادلّتہ ، ج3، ص213۔
  46. مسلم‌بن حجاج، ج 1، ص 890ـ 891۔
  47. کلینى، ج 4، ص 247۔
  48. بیہقى، السنن الكبرى، ج7، ص260۔
  49. کلینى، ج4، ص247۔
  50. طوسى، ج5، ص187۔
  51. طوسى، ج5، ص188۔
  52. واثقى، ص 211ـ216
  53. مسلم‌بن حجاج، ج1، ص891ـ892۔
  54. قاضى نعمان، ج1، ص 322ـ323۔
  55. نورى، ج10، ص67۔
  56. کلینى، ج4، ص248۔
  57. مسلم‌بن حجاج، ج 1، ص 892۔
  58. کلینى، ج4، ص247۔
  59. طوسى، ج5، ص227۔
  60. کلینى، ج 4، ص250۔
  61. طوسى، ج5، ص 458۔
  62. رجوع کریں: قاضى نعمان، ج 1، ص330۔
  63. مسلم‌بن حجاج، ج 1، ص 892۔
  64. کلینى، ج 4، ص 248۔
  65. کلینى، ج 4، ص 248۔
  66. مسلم‌بن حجاج، ج 1، ص 888ـ889۔
  67. کلینى، ج 4، ص 246۔
  68. واقدى ،ج3، ص1099۔
  69. کلینى، ج 4، ص 246۔
  70. واقدى، ج 3، ص1100۔
  71. ازرقى، ج1، ص253۔
  72. مسعودى، ص276۔
  73. فاسى، شِفاء الغَرام بأخبار البلد الحرام، ج 1، ص230۔
  74. متقى، ج3، جزء5، ص22۔
  75. ابن فہد، اتحاف الورى باخبار ام‌القرى، ج 1، ص 567۔
  76. کلینى، ج 1، ص403ـ404۔
  77. ابن‌ماجہ، ج1، ص84ـ85۔۔
  78. یعقوبى، ج 2، ص 102۔۔
  79. کلینی، الكافی ج1 ص403-404۔
  80. واقدى، ج 3، ص 1099ـ1100۔
  81. کلینى، ج 1، ص403ـ404۔
  82. دارقطنى، ج 1، جزء2، ص 300۔
  83. حاکم نیشابورى، ج 1، ص 477۔
  84. متقى ہندیو کنزالعمال، ج3، جزء5، ص11۔
  85. ابن‌ابی‌شیبہ، ج 4، ص 496۔
  86. رجوع کریں سورہ مائدہ آیت 3 (آیت اکمال دین و اتمام نعمت)۔
  87. عیاشى؛ بحرانى؛ طباطبائى، ذیل آیہ
  88. رجوع کریں: سورہ مائدہ آیت 67 (آیت تبلیغ)۔
  89. رجوع کریں: ابن‌مغازلى، ص 16ـ18۔
  90. امینى، ج 1، ص 508ـ541۔
  91. ابن کثیر، البدايۃ والنہايۃ، ج5، ص208 و ج7، ص 346۔
  92. ذخائر العقبى، محب الدین طبرى ط قاہرہ، 1356، ص67۔
  93. ابن صباغ، فصول المہمۃ، ج2 ص23۔
  94. نسائى، خصائص، ط نجف، سال 1369 ہجرى ص31۔
  95. بحرانى، کتاب غايۃ المرام، ص 79۔
  96. واثقى، ص 335۔
  97. رجوع کریں: ابن‌ہشام، السیرہ، ج 4، ص 253۔
  98. ابن‌بابویہ، 1414، ج 2، ص 295، طوسى، ج 5، ص 11، سبط ابن‌جوزى، ص 37، پانویس 1، کردى، ج 1، جزء2، ص 229، امینى، ج 1، ص 32۔
  99. واثقى، ص 337ـ342

مآخذ

  • قرآن كریم۔ ترجمہ: سید علی نقی نقوی (لکھنوی)
  • ابن ابی‌شیبہ، المصنَّف فى الاحادیث و الآثار، بیروت 1414ہجری۔
  • ابن‌بابویہ، كتاب الخصال، چاپ علی‌اكبر غفارى، قم 1362ہجری شمسی۔
  • ہمو، كتاب مَن لایحضُرُہ‌الفقیہ، چاپ علی‌اكبر غفارى، قم 1414ہجری۔
  • ابن‌سعد، الطبقات الکبری (بیروت)۔
  • ابو منصور حسن بن زين الدين عاملي (ابن شہید ثانى)، منتقى الجمان فى الاحادیث الصحاح و الحسان، چاپ علی‌اكبر غفارى، قم 1362ـ1365ہجری۔
  • ابن‌فہد، اتحاف‌الورى باخبار ام‌القرى، چاپ فہیم محمد شلتوت، مكہ ]1983ـ 1984عیسوی۔
  • ابن‌ماجہ، سنن ابن‌ماجۃ، استانبول 1401ہجری/1981عیسوی۔
  • ابن‌مغازلى، مناقب الامام علی‌بن‌ابی‌طالب علیہ‌السلام، چاپ محمدباقر بہبودى، بیروت 1403ہجری/1983عیسوی۔
  • ابن‌ہشام،السیرۃالنبویۃ، چاپ مصطفی‌سقا، ابراہیم ابیارى، و عبدالحفیظ شلبى، قاہرہ 1355ہجری/1936عیسوی۔
  • سلیمان‌بن‌اشعث ابوداوود، سنن‌ابی‌داود، استانبول1401ہجری/1981عیسوی۔
  • محمدبن عبداللّہ‌ازرقى، اخبار مكۃ و ماجاء فیہامن‌الآثار، چاپ رشدى صالح‌ملحس، بیروت 1403 ہجری/1983، چاپ افست قم 1369ہجری شمسی۔
  • عبدالحسین‌امینى، الغدیر فى الكتاب و السنۃ والادب، قم1416 ـ 1422ہجری/1995ـ2002عیسوی۔
  • ہاشم‌بن‌سلیمان بحرانى،البرہان فى تفسیرالقرآن، چاپ محمودبن‌جعفر موسوی‌زرندى، تہران 1334ش، چاپ‌افست قم، بی‌تا۔
  • محمدبن‌اسماعیل‌بخارى، صحیح ‌البخارى ،]چاپ محمد ذہنی‌افندى، استانبول1401ہجری/1981عیسوی۔
  • احمدبن‌حسین بیہقى، السنن الكبرى، بیروت 1424ہجری/ 2003عیسوی۔
  • محمدبن عبداللّہ حاكم نیشابورى، المستدرك علی‌الصحیحین، و بذیلہ التلخیص للحافظ الذہبى، بیروت: دارالمعرفۃ، بی‌تا۔
  • علی‌بن‌عمر دارقطنى، سنن‌الدارقطنى، چاپ عبداللّہ ہاشم یمانی‌مدنى، مدینہ1386ہجری/1966عیسوی۔
  • سبط ابن‌جوزى، تذكرۃ الخواص، بیروت 1401ہجری/1981عیسوی۔
  • علی‌بن عبداللّہ سمہودى، وفاءالوفا بأخبار دارالمصطفى، چاپ محمد محیی‌الدین عبدالحمید، بیروت 1404ہجری/ 1984عیسوی۔
  • سیوطى، تفسیر درالمنثور۔
  • طباطبائى، تفسیر المیزان۔
  • محمدبن حسن طوسى، تہذیب‌الاحكام، چاپ حسن موسوى خرسان، بیروت 1401ہجری/ 1981عیسوی۔
  • محمدبن مسعود عیاشى، التفسیر، قم 1421ہجری۔
  • محمدبن احمد فاسى، شِفاء الغَرام بأخبار البلدالحرام، چاپ ایمن فؤاد سید و مصطفى محمد ذہبى، مكہ 1999عیسوی۔
  • محمد بن ‌یعقوب فیروزآبادى، سفرالسعادۃ، بیروت1398ہجری/1978عیسوی۔
  • نعمان‌بن محمد قاضی‌نعمان، دعائم‌الاسلام و ذكرالحلال و الحرام و القضایا و الاحكام، چاپ آصف‌بن علی‌اصغر فیضى، قاہرہ، 1963ـ 1965عیسوی چاپ افست، قم،بی‌تا۔
  • محمدطاہر كردى،التاریخ‌القویم لمكۃ و بیت‌اللّہ الكریم، بیروت 1420ہجری/2000عیسوی۔
  • كلینى، الکافی۔
  • علی‌بن حسام‌الدین متقى، كنز العمال فى سنن الاقوال و الافعال، چاپ محمود عمر دمیاطى، بیروت 1419ہجری/ 1998عیسوی۔
  • محمدباقربن محمدتقى مجلسى، مرآۃالعقول فى شرح اخبار آل‌الرسول، ج 17، چاپ محسن حسینى امینى، تہران 1365ہجری۔
  • عبداللّہ‌بن عبدالملك مرجانى، بہجۃ النفوس و الاسرار فى تاریخ دارالہجرۃ المختار، چاپ محمد شوقى مكى، ریاض 1425ہجری۔
  • مسعودى، تنبیہ۔
  • مسلم‌بن حجاج، صحیح مسلم، چاپ محمدفؤاد عبدالباقى، استانبول 1401 ہجری/1981عیسوی۔
  • حسین‌بن محمدتقى نورى، مستدرك الوسائل و مستنبط‌المسائل، قم 1407ـ1408ہجری۔
  • حسین واثقى، حجۃالوداع كما رواہا اہل‌البیت، قم 1425ہجری۔
  • محمدبن عمر واقدى، كتاب‌المغازى، چاپ مارسدن جونز، لندن 1966عیسوی۔
  • یعقوبى، تاریخ۔
  • ذخائر العقبى في مناقب ذوي القربى, محب الدين أحمد بن عبد اللہ الطبري (المتوفى: 694ہـ)
  • وہبۃ الزحيلي، الفقہ الإسلامي وأدلتہ۔
  • البدايۃ والنہايۃ، ابن كثير إسماعيل بن عمر الدمشقي المتوفی سنۃ 774ہـ۔
  • أبو عبد الرحمن أحمد بن شعيب النسائي‌، السنن: الخصائص۔
  • ابن صباغ مالکی ، شیخ نورالدین علی بن محمد، فصول المہمۃ۔ ط نجف، سال 1369 ہجرى۔
  • بَحرانی، سيد ہاشم بن سلیمان، غایہ المرام و حجہ الخصام فی تعیین الامام من طریق الخاص و العام۔


بیرونی روابط