مندرجات کا رخ کریں

حجر الاسود

ویکی شیعہ سے
(حجر الأسود سے رجوع مکرر)
خانہ کعبہ میں حجر الاسود کا مقام

حجرِ الاسود، ایک سیاہ رنگ کا مبارک پتھر ہے جو خانہ کعبہ کی مشرقی دیوار میں نصب ہے۔ یہ پتھر روی زمین پر تعمیر ہونے والی پہلی عبادت گاہ، یعنی بیت اللہ، کا واحد باقی ماندہ حصہ ہے۔ امام باقرؑ کی روایت کے مطابق حجرِ اسود زمین پر موجود تین جنتی پتھروں میں سے ایک ہے۔

پیغمبرِ اکرمؐ نے حجرِ اسود کو چھونے اورلمس کرنے کی تاکید کی ہے، اور مسلمان فقہاء اسے ایک مستحب عمل قرار دیتےہیں۔ طوافِ کعبہ کا آغاز اور اختتام اسی پتھر کے سامنے سے ہوتا ہے۔ ہر واجب اور مستحب طواف کے دوران دائیں ہاتھ سے اس پتھر کو چھونے اور اسے بوسہ دینے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو اس کی طرف اشارہ کر کے اپنے عہد و پیمان کی تجدید کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔

تاریخی منابع میں بیان ہوا ہے کہ جب محمد بن حنفیہ نے امامت کے مسئلے میں امام زین العابدینؑ کی مخالفت کی تو امامؑ نے حجرِ اسود کو حَکَم قرار دیا جس پر اس پتھر نے امام زین العابدینؑ کی امامت کی گواہی دی۔

تاریخ کے مختلف ادوار میں حجرِ اسود متعدد بار حملوں کا نشانہ بنا جن میں مختلف افراد نے اسے نقصان پہنچانے یا چوری کرنے کی کوشش کی، اور بعض مواقع پر وہ ان میں کامیاب بھی ہوئے۔

تعارف اور اہمیت

خدا نے حجرِ اسود کو پیدا کیا اور پھر بندوں سے عہد لیا۔ اس کے بعد خدا نے حجر سے فرمایا: اس عہد کو اپنے اندر محفوظ رکھو۔ مؤمنین (حجر کو چھو کر) اپنے عہد پر پابندی کا اظہار کرتے ہیں۔[1]

حجرِ اسود ایک سیاہ رنگ کا پتھر ہے جو خانہ کعبہ کے مشرقی رکن[2] میں نصب ہے[3] اور اسی مناسبت سے خانہ کعبہ کے مشرقی رکن کو، "رکنِ حجرِ اسود" بھی کہا جاتا ہے۔[4] حجر الاسود مسلمانوں کےیہاں معنویت کے لحاظ سے بے حد اہمیت کا حامل ہے۔[5]

یہ پتھر مسجد الحرام کی دیوار میں سطح زمین سے ڈیڑھ میٹر اونچائی پر نصب ہے۔[2] حجرِ اسود کو چاندی کے ایک خول میں رکھا گیا ہے۔ اس وقت اس پتھر کے صرف آٹھ چھوٹے ٹکڑے باقی ہیں، جن میں سب سے بڑا ٹکڑا ایک کھجور کے دانے کے برابر ہے۔[6]

امام باقرؑ سے منقول ایک روایت کے مطابق تین پتھر جنت سے زمین پر لائے گئے، جن میں سے ایک حجرِ اسود ہے۔[7]

قرآن مجید میں حجرِ اسود کا ذکر صراحتاً نہیں آیا، لیکن سورہ آل عمران میں بیت اللہ کو "آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ؛ (روشن نشانیاں)" کا حامل قرار دیا گیا ہے۔[8] مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں حجرِ اسود کو کعبہ کی ان واضح نشانیوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔[9]

مسلمانوں کےخلیفہ دوم کے مطابق حجرِ اسود ایک معمولی پتھر ہے جو انسانوں کو نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتا اور اس سے محبت کرنا بھی صرف رسول اللہؐ کی محبت کی وجہ سے جائز ہے۔ اس کے جواب میں امام علیؑ نے فرمایا کہ خدا اس پتھر کو قیامت کے دن زندہ کرے گا، جبکہ اس کی ایک زبان اور دو ہونٹ ہوں گے، اور یہ ان لوگوں کے حق میں گواہی دے گا جو اپنے عہد و پیمان پر قائم رہے ہیں۔ امامؑ کے مطابق یہ پتھر خدا کے دائیں ہاتھ کی مانند ہے، جس کے ذریعے لوگ خدا کی بیعت کرتے ہیں۔[10]

رسول اللہؐ نے عمرہ القضاء کے دوران اونٹنی پر سوار ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کیا[11] اور اپنے عصا سے حجرِ اسود کا استلام (چھونا) کیا۔[12]

فضیلت

علی شریعتی:
ابتداء میں حجر الاسود کو اپنے دائیں ہاتھ سے چھونا چاہیے۔ یہ پتھر ہاتھ کی علامت ہے، دائیں ہاتھ، خدا کا دایاں ہاتھ! اور اب خدا نے اپنا دایاں ہاتھ تمہارے سامنے پیش کیا ہے، اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھاؤ، اور خدا کے ساتھ بیعت کرو، اس کے ساتھ عہد کرو، اپنے پچھلے تمام عہد و پیمانوں کو توڑ دو، اور انہیں باطل کر دو۔[13]

رسول اکرمؐ نے حجر الاسود کو چھونے اور لمس کرنے کی تاکید کی ہے اور اس پتھر کو خدا کے دائیں ہاتھ سے تشبیہ دی ہے۔[14] شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ جوادی آملی (پیدائش: سنہ 1933ء) کے مطابق حجر الاسود کو چھونا اور لمس کرنا گویا ایسا ہے کہ مسلمان خدا کی ذات کے ساتھ بیعت کر رہے ہوں۔[15] بعض علماء نبی اکرمؐ کے قول کا یوں مفہوم لیتے ہیں کہ انسان حجر الاسود کے ذریعے سعادت حاصل کر سکتے ہیں۔[16] اسی طرح ایک روایت میں آیا ہے کہ امام زمانہ (عج) ظہور کے بعد حجر الاسود پر ٹیک لگا کر تشریف فرما ہونگے اور لوگ آپ کی بیعت کریں گے۔[17]

تفسیر نمونہ میں اس پتھر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ پتھر کسی عبادت گاہ کی تعمیر میں استعمال ہونے والی سب سے قدیمی چیز ہے۔ کیونکہ زمین پر موجود تمام معابد یا عبادت گاہیں حتیٰ خانہ کعبہ کی کئی بار تعمیر نو ہوئی اور اس دوران ان کی تعمیراتی مواد میں تبدیلی آئی، لیکن یہ پتھر ہزاروں سال گزرنے کے باوجود اس عبادت گاہ کے ایک مستقل حصہ کے طور پر اپنی جگہ پر قائم ہے۔[18]

شیعہ تاریخی مصادر میں حجر الاسود کے پاس مخصوص دعائیں پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔[19] خانہ کعبہ کا طواف اسی پتھر سے شروع ہوتا ہے اور اسی پتھر پر ختم ہوتا ہے۔[20] ہر واجب اور مستحب طواف میں سفارش کی گئی ہے کہ دائیں ہاتھ سے اس پتھر کو لمس کیا جائے، اس کا بوسا لیا جائے، اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو اس کی طرف اشارہ کر کے اپنے عہد و پیمان کی تجدید کی جائے۔[21]

یہ بھی کہا گیا ہے کہ تاریخ میں کبھی بھی، حتیٰ جاہلیت کے دور میں جہاں اس کا بہت زیادہ احترام کیا جاتا تھا، بتوں کی طرح حجر الاسود کی پوجا نہیں ہوئی، بلکہ یہ ہمیشہ توحید خالص اور شرک سے انکار کی علامت رہا ہے۔[22]

استلام حجر

استلام حجر، تبرک کی نیت سے حجر الاسود کو چھونے اور چومنے کے عمل کو کہا جاتا ہے۔[23] احادیث میں اس پتھر کو چھونے اور چومنے کی سفارش کی گئی ہے۔[24] شیعہ اور اہل سنت فقہاء کے نزدیک استلام حجر الاسود ایک مستحب عمل ہے۔[25]

علامہ طباطبائی نے تفسیر المیزان میں حجر الاسود کو چھونے اور چومنے کو اس بات کی دلیل قرار دیا ہے کہ وہ تمام روایات اور آیات جو شعائر الہی کی تعظیم اور نبی اکرمؐ اور ان کے اہل بیتؑ سے محبت کی تاکید کرتی ہیں، بالکل درست ہیں اور ان میں شرک کا کوئی شائبہ نہیں ہے۔[26]

مبداء اور رنگ

حجر الاسود کی ایک تصویر

حجر الاسود کو ایک جنتی پتھر قرار دیا گیا ہے۔[27] بعض روایات کے مطابق حجر الاسود اصل میں ایک فرشتہ تھا جو تمام فرشتوں سے پہلے میثاقِ الٰہی پر عمل کرنے کا پابند ہوا اور خدا نے اسے اپنی تمام مخلوقات پر امین مقرر کیا۔[28]

ایک روایت کے مطابق حضرت آدمؑ نے اس جنتی پتھر کو خانہ کعبہ کی تعمیر میں استعمال کیا تھا۔[29] حضرت ابراہیمؑ کے زمانے میں جب خانہ کعبہ کی تعمیر نو ہوئی تو یہ پتھر کوہِ ابوقبیس پر موجود تھا اور حضرت ابراہیم نے اسے وہاں سے لاکر خانہ کعبہ پر نصب کیا۔[30]

بعض احادیث میں آیا ہے کہ یہ پتھر ابتدا میں انتہائی سفید تھا، لیکن انسانوں کے گناہوں[7] اور کافروں[31]، مجرموں اور منافقوں کے چھونے کی وجہ سے سیاہ ہو گیا۔[32] یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کی شدید سیاہی مختلف ادوار میں خانہ کعبہ کی بار بار آتشزدگی کی وجہ سے ہوئی ہے۔[33]

شیعہ مفسر محمد جواد مغنیہ (پیدائش: 1322 قمری)، کا ماننا ہے کہ حجر الاسود کے جنتی ہونے اور شروع میں سفید ہونے کے بعد سیاہ ہونے کی باتیں سب خبرِ واحد یا قصہ کہانیوں کا حصہ ہے، ہمیں ان باتوں کو قبول کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔[34]

مربوطہ تاریخی واقعات

رسول اکرمؐ کی بعثت سے پانچ سال قبل خانہ کعبہ کی تعمیر نو کے دوران، قریش کا ہر قبیلہ حجر الاسود کو نصب کرنے کا خواہشمند تھا۔ اختلاف شدت اختیار کر گیا، لیکن آخر میں حضرت محمدؐ کی تجویز پر حجر الاسود کو ایک کپڑے میں رکھا گیا اور اس کے کونوں کو قریش کے سرداروں کے ہاتھوں میں تھما کر اسے مقررہ جگہ تک لے جایا گیا، جب وہاں پہنچا تو حضرت محمدؐ نے اپنے ہاتھوں سے حجر الاسود کو اٹھا کر اس کی مخصوص جگہ پر رکھ دیا۔[35]

چھٹی صدی ہجری کے شیعہ عالم دین ابن حمزہ طوسی[36] اور دیگر مؤرخین[37] کے مطابق محمد بن حنفیہ نے امام سجادؑ کے ساتھ امامت کے مسئلے میں اختلاف کیا۔ امام سجادؑ نے ان سے گفتگو کی لیکن وہ قائل نہ ہوا۔ آخر کار امام سجادؑ نے حجر الاسود کو حَکَم (فیصلہ کرنے والا) قرار دیا۔ خدا کے حکم سے، حجر الاسود نے امام سجادؑ کی امامت کی گواہی دی۔ قطب راوندی نے کتاب الخرائج میں نقل کیا ہے کہ اس واقعے کے بعد، محمد بن حنفیہ نے امام سجادؑ کے قدموں کا بوسہ لیا اور تسلیم کیا کہ امامت آپ کا حق ہے۔ راوندی نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ یہ واقعہ اصل میں امام سجادؑ کی امامت کے سلسلے میں عوام کے درمیان موجود شکوک و شبہات کو ختم کرنے کے لیے پیش آیا تھا۔[38]

تاریخ کے مختلف ادوار میں حجر الاسود پر متعدد حملے ہوئے اور بہت سے افراد نے اسے نقصان پہنچانے یا چوری کرنے کی کوشش کی۔[39] ذی الحجہ سنہ 317 ہجری میں قرامطیوں نے مکہ پر حملہ کیا۔ انہوں نے حجر الاسود کو کعبہ سے نکال کر اپنے دارالحکومت لے گیا۔ سنہ 339 ہجری میں انہوں نے ایک بڑی رقم کے عوض حجر الاسود کو واپس خانہ کعبہ لوٹا دیا۔[40]

حوالہ جات

  1. مجلسی، بحارالأنوار، 1403ھ، ج96، ص221۔
  2. 2.0 2.1 صفری فروشانی، مکہ در بستر تاریخ، 1386شمسی، ص92۔
  3. دہخدا، «حجر الاسود»، سایت واژہ یاب۔
  4. فرقانی، سرزمین یادہا و نشانہا، 1379شمسی، ص59۔
  5. حاج‌منوچہری، «حجرالاسود»، 1391شمسی، ج20، ص189۔
  6. «حجر الأسود»، سایت الرئاسۃ العامۃ لشؤون المسجد الحرام و المسجد النبوی۔
  7. 7.0 7.1 طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج1، ص383۔
  8. سورہ آل‌عمران، آیہ97۔
  9. فیض کاشانی، تفسیر الصافی، 1415ھ، ج1، ص358۔
  10. شیخ حرّ عاملی، وسائل الشیعۃ، 1409، ج13، ص320–321۔
  11. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج2، ص736۔
  12. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج2، ص735۔
  13. شریعتی، «حج»، سایت دکتر علی شریعتی۔
  14. شیخ صدوق، علل الشرائع، 1385شمسی، ج‏2، ص424۔
  15. «پیام آیت اللہ جوادی آملی بہ حجاج بیت اللہ الحرام»، سایت ایسنا۔
  16. راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، 1423ھ، ص894۔
  17. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص185۔
  18. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج3، ص10۔
  19. حر عاملی، وسائل الشیعۃ، 1409ھ، ج13، ص313۔
  20. «حجر الاسود»، سایت الرئاسۃ العامۃ لشؤون المسجد الحرام و المسجد النبوی۔
  21. حر عاملی، وسائل الشیعۃ، 1409ھ، ج13، ص316۔
  22. پروازی ایزدی، «حجر الاسود»، ج12، ص676۔
  23. مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1390شمسی، ج1، ص482۔
  24. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص403۔
  25. حاج‌منوچہری، «حجرالاسود»، 1391شمسی، ج20، ص189 و 190۔
  26. طباطبایی، المیزان، 1374شمسی، ج10، ص296۔
  27. عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ھ، ج1، ص60۔
  28. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص185۔
  29. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص186۔
  30. بحرانی، البرہان، 1416ھ، ج1، ص330۔
  31. قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج1، ص62۔
  32. مجلسی، بحار الأنوار، 1403ھ، ج96، ص220۔
  33. پروازی ایزدی، «حجر الاسود»، ج12، ص675۔
  34. مغنیہ، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج1، ص203–204۔
  35. ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1997م، ج3، ص487۔
  36. ابن‌حمزہ طوسی، الثاقب فی المناقب، 1419ھ، ص349۔
  37. ابن عبدالوہاب، عیون المعجزات، قم، ص71۔
  38. راوندی، الخرائج و الجرائح، 1409ھ، ج1، ص258۔
  39. صبری باشا، موسوعۃ مرآۃ الحرمین الشریفین وجزیرۃ العرب،، 2004ء، ج2، ص841۔
  40. دفتری، تاریخ و عقاید اسماعیلیہ، 1376شمسی، ص190–192۔

مآخذ

  • ابن‌حمزہ طوسی، محمد بن علی، الثاقب فی المناقب، محقق و مصحح، نبیل رضا علوان، قم، انتشارات انصاریان، چاپ سوم، 1419ھ۔
  • ابن‌عبدالوہاب، حسین بن عبدالوہاب، عیون المعجزات، قم، مکتبۃ الداوری، چاپ اول، بی‌تا۔
  • ابن‌کثیر دمشقی‏، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، 1407ھ۔
  • بحرانی، سیدہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، تہران، بنیاد بعثت، چاپ اول، 1416ھ۔
  • پروازی ایزدی، نرگس، «حجرالأسود»، دانشنامہ جہان اسلام، تہران، بنیاد دایرہ المعارف اسلامی، 1387ہجری شمسی۔
  • «پیام آیت اللہ جوادی آملی بہ حجاج بیت اللہ الحرام»، سایت ایسنا، تاریخ درج مطلب: 29مرداد 1397شمسی، تاریخ مشاہدہ: 31 مرداد 1401ہجری شمسی۔
  • حاج‌منوچہری، فرامرز، «حجرالاسود»، دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، تہران، مرکز دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، 1391ہجری شمسی۔
  • «حجر الأسود»، سایت الرئاسۃ العامۃ لشؤون المسجد الحرام و المسجد النبوی، تاریخ مشاہدہ: 31 مرداد 1401ہجری شمسی۔
  • حر عاملی، وسائل الشیعۃ، قم، مؤسسہ آل‌البیت(ع)، 1409ھ۔
  • دفتری فرہاد، تاریخ و عقاید اسماعیلیہ، ترجمہ فریدون بدرہ‌ای، تہران، فرزان روز، 1376ہجری شمسی۔
  • دہخدا، «حجرالأسود»، سایت واژہ یاب، تاریخ مشاہدہ: 31 مرداد 1401ہجری شمسی۔
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، تحقیق: صفوان عدنان داودی، دمشق، بیروت، دارالقلم‏، الدار الشامیۃ، چاپ اول، 1412ھ۔
  • راوندی، قطب‌الدین، الخرائج و الجرائح، ناشر: مؤسسہ امام مہدى عجل اللہ تعالى فرجہ الشريف‌، قم ،چاپ اول، 1409ھ۔
  • شریعتی، علی، «حج»، سایت دکتر علی شریعتی، تاریخ مشاہدہ: 31 مرداد 1401ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، علل الشرائع، قم، کتاب فروشی داوری، چاپ اول، 1385ہجری شمسی۔
  • صبری باشا، ایوب، موسوعۃ مرآۃ الحرمین الشریفین و جزیرۃ العرب ترجمہ: ماجدہ معروف، حسین مجیب المصری، عبدالغزیز عوض، قاہرہ، دارالآفاق العربیۃ، 2004م۔
  • صفری فروشانی، نعمت‌اللہ، مکہ در بستر تاریخ، قم، مرکز جہانی علوم انسانی، 1386ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1374ہجری شمسی۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ: محمد جواد بلاغی‏، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر، محقق و مصحح: ہاشم رسولی محلاتی، تہران، المطبعۃ العلمیۃ، 1380ھ۔
  • فرقانی، محمد، سرزمین یادہا و نشانہا، تہران، چاپ مشعر، 1379ہجری شمسی۔
  • فیض کاشانی، ملامحسن، تفسیر الصافی، تحقیق: حسین اعلمی، تہران، انتشارات الصدر، چاپ دوم، 1415ھ۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، محقق و مصحح: سیدطیب موسوی جزائری،‏ قم، دارالکتاب، چاپ سوم، 1404ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح: علی‌اکبر غفاری، محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، 1407ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • مغنیہ، محمد جواد، تفسیر الکاشف، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1424ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1374ہجری شمسی۔
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، تحقیق: مارسدن جونس، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی، چاپ سوم، 1409ھ۔
  • مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت، قم،‌ مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، 1390ہجری شمسی۔