رَمْیِ جَمَرات (شیطان کو کنکریاں مارنا) مناسک حج میں ایک واجب عمل ہے جس کے معنی منا میں بنائے گئے شیطان کے کے مجسموں پر سات کنکریاں مارنے کے ہیں۔ یہ عمل سرزمین مِنا میں عید قربان اور اس کے دو دن بعد انجام دیا جاتا ہے۔ یہ عمل ایک طرح سے حضرت ابراہیمؑ کے اعمال کی پیروی میں انجام دئے جاتے ہیں۔

رمی جمرات کی پرانی تصویر

معانی

جَمْرَہ جس کا جمع "جَمَرات" اور "جِمار" ہے عربی زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معنی آگ کا گولا، کنکری وغیرہ ہے۔[1] دینی اصطلاح میں جمرات یا جمرات ثلاث‌ سرزمین مِنا میں تین مخصوص جگہوں کا نام ہے جہاں پتھر کے ستون بنے ہوئے ہیں۔اسے جمرہ اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ یہاں حاجیوں کی طرف سے شیطان کے مجسمے کی طرف پھینکنے والی کنکریاں جمع ہوتے ہیں یا اس وجہ سے کہ لوگ اس کے ارد گرد جمع ہوتے ہیں اس وجہ سے اسے یہ نام دیا گیا ہے۔[2] "رَمْی" سے مراد پھینکنا اور مارنا ہے۔ [3]

فقہی نقطہ نگاہ سے اگر جَمرَہ سے مراد نصب شدہ ستون ہوں تو کنکریوں کا انہیں لگنا "رمی" کے صحیح ہونے کی شرط ہے لیکن اگر اس سے مراد کنکریوں کے جمع ہونے کی جگہ ہو تو کنکریوں کا مذکورہ ستونوں پر لگنا شرط نہیں ہے۔[4]

رمی جمرات تاریخ کے آئینے میں

روایات کے مطابق پہلا شخص جس نے سرزمین منا میں شیطان پر پتھر مارا وہ حضرت آدم(ع) تھا؛[5][6]

ایک اور روایت میں امام علی،[7] امام سجاد اور امام کاظم(ع) نے رمی جمرات کے سنت بنے کی علت اور وجہ بیان فرماتے ہوئے حضرت ابراہیم پر شیطان کے ظاہر ہونے کے واقعے کو بیان فرمایا ہے۔ جس میں حضرت ابراہیم کو اپنے بیٹے اسماعیل کی قربانی پیش کرنے کا حکم ہوا تھا اور جب اسے ذبح کرنے کیلئے منا لے گئے تو تین جگہوں پر شیطان ظاہر ہوا تو حضرت ابراہیم نے اس پر کنکریاں ماری جو اس وقت ایک سنت بن گئی ہے۔

رمی جمرات زمانہ جاہلیت میں بھی مناسک حج کا حصہ تھا۔ [8] اور جناب ابوطالب سے ایک شعر میں رمی جمرات کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[9]

 
جمرات کا قدیم اور جدید ساختار
 
جمرات ثلاث پل بنانے سے پہلے
 
جمرات کا پل اور عمارتیں

جمرات ثلاث

  • جمرہ اولیٰ : یہ جمرہ مسجد خیف سے قریب اور مکہ سے سب سے زیادہ دور موجود ہے۔[10]
  • جمرہ وُسْطیٰ: جمرہ اولی اور جمرہ عقبہ کے درمیان واقع ہے۔ پرانے زمانے میں صرف ایک ستون یک شکل میں تھا لیکن سنہ 1425 ہجری قمری میں انجام دینے والے تعمریات کے بعد اب ایک دیورا یک شکل میں موجود ہے جس کی لمبائی 25 میتر جبکہ چوڑائی ایک میٹر ہے۔[11]
  • جمرہ عَقَبِہ: مکہ سے سب سے زیادہ قریب یہی ہے۔ پہلے زمانے میں جمرہ عقبہ ایک پہاڑ کے اندر واقع تھا اور جو حصہ باہر تھا اسی پر کنکریاں ماری جاتی تھیں۔ سنہ۱۳۷۶ قمری میں پہاڑ کو توڑ کر اس جمرہ کے اطراف کو بھی خالی کیا گیا اور سنہ ۱۴۲۵ قمری میں انجام پانے والے تغییرات کے بعد ایک دیوار کی شکل میں موجود ہے جس کی لمبائی 25 میٹر جبکہ چوڑائی ایک میٹر ہے۔ جمرہ عقبہ کو "جمرہ قُصویٰ"، "جمرہ کُبری"، "جمرہ عُظمی"، "جمرہ اَخیرہ"، "جمرہ عُلیا" اور "جمرہ ثالثہ" بھی کہا جاتا ہے۔[12]

جمرہ وُسطیٰ اور جمرہ اولی کے درمیان فاصلہ تقریبا ۱۵۶ میٹر، جبکہ جمرہ عقبہ کے ساتھ اس کا فاصلہ ۱۱۶ میٹر ہے۔[13]

آخری سالوں میں رمی میں سہولت پیدا کرنے کی خاطر کئی پل تعمیر کی گئی ہیں جن کی وجہ سے جمرات کی موجودہ شکل بالکل بدل گیئ ہے.[14] لیکن پھر بھی لوگوں کی کثیر تعداد حادثے کا شکار ہوتے ہیں جن میں سنہ 2015 میں واقع ہونے والا حادثہ منا نہایت جانی نقصان کا حامل ہے۔ بعض مراجع تقلید رمی جمرات میں آسانی پیدا کرنے کی خاطر مختلف فتاوا بھی صادر کر چکے ہیں۔[15]

زمان رمی جمرات

رمی جمرات عید قربان اور اس کے بعد دو دن انجام پاتے ہیں۔ اس کا وقت مشہور قول کے مطابق طلوع آفتاب سے غروب تک ہے۔ مگر یہ کہ کسی کو کوئی غذر شرعی کی وجہ سے مقررہ وقت میں انجام نہ دے سکے جیسے بیمار اور عمر رسیدہ حضرات۔[16]

عید قربان کے دن رمی جمرات

عید قربان کے دن مشعرالحرام میں وقوف کے بعد جب حاجی منا پہنچ جاتے ہیں تو سب سے پہلے "جمرہ عقبہ" کو کنکریاں مارتے ہیں اسکے بعد قربانی اور حلق یا تقصیر انجام دیتے ہیں۔ ہر دفعہ سات کنکریاں مارنا ضروری ہے جو انسان خود اپنے ہاتھ سے پھینکے جائیں اور ممکنہ صورت میں ان کے جمرہ پر لگنے کے حوالے سے اطمینان پیدا کرنا ضرور ہے۔

ایام تشریق میں رمی

حاجیوں کو ذی الحجہ کی بارہویں اور تیرہویں تاریخ کو بھی بالترتیب جمرہ اولیٰ، جمرہ وُسْطیٰ اور جمرہ عَقَبہ کو کنکریاں مارنا واجب ہے۔ اس کام کیلئے سورج کے نکلنے سے لے کر غروب تک وقت ہے۔ اگر کوئی حاجی تیرہویں رات کو بھی منا میں ٹھرے تو تیرہویں دن بھی تینوں جمرات کو کنکریاں مارنا واجب ہے۔

خواتین کا رمی جمرات

خواتین وقوف مشعر کو عید قربان کی رات انجام دے کر اسی رات منا جا کر راتوں رات جمرہ عقبہ کو کنکریاں مار سکتی ہیں۔ لیکن باقی دو جمرہ کو دن کے وقت کنکریاں مارنا ضروری ہے۔ مگر یہ کہ کوئی شرعی عذر کی وجہ سے اسے دن کے وقت انجام نہ دے سکیں تو اس صورت میں باقی رمی جمرات کو بھی رات کے وقت انجام دے سکتی ہیں۔[17]

کنکریوں کی شرائط

  • کنکریوں کو انگلی کی نوک اور اسے سے چہوٹا ہونا چاہئے۔ لیکن ریت کی طرح نہایت ہی باریک بھی نہ ہو۔
  • مسجد الحرام اور مسجد خَیف کے علاقے کا چنی گئی ہو۔ بعض مراجع نے حرم کے پورے علاقے کو استثنا قرار دیا ہے۔
  • "بکر" ہونا چاہئے؛ یعنی استعمال شدہ نہ ہو دوسرے لفظوں میں خود شخص مورد نظر یا کوئی اور شخص نے اسے استعمال نہ کیا ہو۔
  • مباح ہو نہ غصبی۔
  • مستحب ہے کنکریوں کو مشعر الحرام سے جمع کیا جائے۔[18]

کنکریاں مارنے کی شرائط

  • قصد قربت۔
  • کنکریوں کا جمرات پر لگنا۔
  • ہاتھ سے مارنا۔
  • کنکریوں کو ایک ایک کر کے مارا جائے نہ ایک ساتھ یا دو دو یا تین تین کرکے۔[19]
  • جو اشخاص رمی جمرات انجام نہیں دے سکتے جیسے بیمار حضرات اگر ان کا عذر رمی جمرات کے مقررہ پورے وقت باقی رہے تو کسی اور کو نائب بنانے کے ذریعے مارنا ضروری ہے۔[20]

رمی کے مستحبات

  • مارتے وقت طہارت کے ساتھ ہونا۔
  • رمی سے پہلے اس دعا کا پڑھنا: اَللّہمَّ ہذِہ حَصَیاتِی فَأَحْصِہنَّ لی وَ ارْفَعْہنَّ فِی عَمَلی
  • کنکریاں مارتے وقت کہیں: اَللّہ اَکبَرُ، اَللّہمَّ ادْحَرْ عَنِّی الشَّیطانَ، اللّہمَّ تَصدِیقاً بِکتابِک وَ عَلی سُنَّۃ نَبِیک، اللّہمَّ اجْعَلْہ لی حَجّاً مَبْرُوراً وَ عَمَلاً مَقْبُولاً وَ سَعْیاً مَشْکوراً وَ ذَنْباً مَغْفُور۔
  • کھڑے ہو کر رمی کرنا۔[21]

مآخذ

  • فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام ج۴ ص۱۴۷ - ۱۵۰
  • مناسک حج مطابق فتاوای امام خمینی و مراجع معظم تقلید، محمدرضا محمودی، مرکز تحقیقات حج بعثہ مقام معظم رہبری، نشر مشعر، چاپ چہارم، ۱۳۸۷ش

حوالہ جات

  1. ابن فارس‌، ذیل «جمر»
  2. ابن منظور، لسان العرب، ذیل «جمر»
  3. دہخدا، لغتنامہ، ذیل واژہ رمی.
  4. سایت حوزہ
  5. صدوق، علل الشرائع، قم، مکتبۃ الداوری، صص ۴۲۳; شیخ حر عاملی، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسۃ آل البیت، ج۱۴، ص۵۴ و ۵۵
  6. امام صادق(ع) سے منقول ہے : پہلا شخص جس نے رمی جمرہ انجام دیا وہ حضرت آدم(ع) تھا۔ کیونکہ جب خدا نے حضرت آدم سے توبہ کرانے کا ارادہ کیا تو جبرائیل کو ان کے پاس بھیجا اور جبرائیل نے کہا: خداوند عالم نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ کو بعض ایسے مناسک اور اعمال کی تعلیم دوں جن کی وجہ سے آپ کی توبہ قبول ہوگی۔ اس کی بعد جبرائیل نے حضرت آدم کو مختلف مشاعر (عرفات، مشعر اور منا) لے گیا اور جب جبرائیل اسے منا سے خانہ کعبہ کی طرف لے جانا چاہا تو جمرہ عقبہ کے پاس شیطان ظاہر ہوا اور اس سے کہا کہاں کا رادہ ہے؟ جبرائیل نے حضرت آدم سے کہا: اسے سات کنکریاں مارو اور ہر کنکر کے مارتے ہوئی اللہ اکبر کہو، حضرت آدم نے جبرئیل کے کہنے پر عمل کیا تو شیطان چلا گیا۔ جبرئیل نے دوسرے دن حضرت آدم کا ہاتھ پکڑ کر پھر اسی مقام پر پہنچا تو شیطان دوبارہ ظارہ ہوا، جبرئیل نے حضرت آدم سے کہا اسے سات کنکریاں مارو اور ہر کنکر کے مارتے وقت اللہ اکبر کہو، حضرت آدم نے ایسا کیا تو شیطان دوبارہ چلال گیا لیکن جمرہ وسطی کی مقام پر دوبارہ ظاہر ہوا اور حضرت آدم سے کہا کہاں جارہے ہو؟ جبرئیل نے کہا شیطان کو سات کنکریاں مارو اور ہر کنکری کے مانے کے ساتھ اللہ اکبر کہو، جب حضرت آدم نے ایسا کیا تو شیطان فرار اختیا کر گیا۔ اس عمل کو چار دن تکرار کیا اس کے بعد جبرئیل نے حضرت آدم سے کہا اس کے بعد شیطان کو کبھی نہیں دیکھو گے۔ صدوق، علل الشرائع، قم، مکتبۃ الداوری، صص ۴۲۳; شیخ حر عاملی، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسۃ آل البیت، ج۱۴، ص۴۰۱، بحارالانوار، چاپ بیروت، ج۹۶، باب علل الحج و افعالہ، ح۵ و ح۱۴
  7. بحارالانوار، چاپ بیروت، ج۹۶، ص۳۹، ح۱۶
  8. ابن ہشام، سیرۃالنبی، قاہرہ، مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی، ج۱، ص۱۲۵ و ۱۲۶
  9. وبالجَمْرۃ الکبری اذا صَمَدوا لہا *** یؤُمون قَذْفاً رأسہا بالجنادل؛ ابن ہشام، سیرۃالنبی، قاہرہ، مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی، ج۱، ص۲۹۳
  10. فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام؛ جلد۳، صفحہ ۱۰۳-۱۰۴
  11. فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، جلد۳، صفحہ۱۰۵
  12. فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام؛ جلد۳، صفحہ ۱۰۴
  13. محمد بن اسحاق فاکہی‌، اخبار مکۃ فی قدیم الدہر و حدیثہ‌، ج۴‌، ص۳۰۷، چاپ عبدالملک بن عبداللّہ بن دہیش‌، بیروت ۱۴۱۹/۱۹۹۸
  14. سایت حج
  15. سایت حوزہ
  16. مناسک حج، م۹۹۶ و م۹۹۷
  17. مناسک حج، م۱۰۰۰
  18. مناسک حج، ص۴۲۶-۴۳۰
  19. مناسک حج، ص۴۲۶-۴۳۰
  20. مناسک حج، م۱۰۲۱
  21. مناسک حج، م۱۰۲۷