رافضی
رافضی عربی زبان کا ایک طنز آمیز لفظ ہے جو زيد بن على بن الحسين کو اکیلا چھوڑ کر ان کے لشکر سے الگ ہونے والوں کیلئے بولا جاتا تھا۔ بعض اہل سنت بطور طنز سارے اہل تشیع کو رافضى ہی کہتے ہیں کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ شیعہ خلفائے ثلاثہ کی خلافت کو نہیں مانتے اور انہیں ترک کرتے ہیں۔ شیعہ، بعض احادیث کی روشنی میں مذکورہ معنی میں "رفض" کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں۔
لغوی اور اصطلاحی معنی
رافضی مادہ "ر ـ ف ـ ض" سے (یاء نسبتی کے ہمراہ) اسم فاعل کا صیغہ ہے جس کے معنی اس شخص یا گروہ کے ہیں جنہوں نے اپنے لیڈر یا رہبر کو تنہا چھوڑ دیا ہو۔ اس کی جمع "روافض" ہے۔[1]
ابوالحسن اشعری (متوفی330ھ)، امامیہ کو رافضی سے تعبیر کرتے ہوئے انہیں شیعوں کا ایک فرقہ قرار دیتے ہیں اور انہیں رافضی کہنے کی وجہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ انہوں نے ابوبکر اور عمر کی خلافت کو قبول نہیں کیا اور ان سے منہ موڑ لیا اس لیے انہیں رافضی کہا جاتا ہے۔[2]
ان كان رفضاً حب آل محمد *** فلیشهد الثقلان انی رافضی (ترجمہ: اگر آل محمد کی محبت رفض ہے تو جن و انس گواہ رہنا میں رافضی ہوں)
آیت اللہ جعفر سبحانی کے نزدیک رافضی ایک سیاسی اصطلاح ہے جس کا اطلاق حکومت وقت کے مخالفین پر ہوتا ہے اور شیعہ رسول خدا ؐ کے بعد برسر اقتدار آنے والے خلفاء کی خلافت کو قبول نہیں کرتے تھے اس لیے انہیں یہ نام دیا گیا۔[3]
تاریخی پس منظر
بعض ماہرین لغت کے مطابق "رافضی" شیعوں کے ایک گروہ کا لقب تھا۔ انہوں نے اپنے لیڈر یعنی زید بن علی سے منہ موڑ لیا تھا چونکہ وہ انہیں صحابہ خاص کر شیخین پر لعن طعن سے منع کرتا تھا۔ یہ لقب بعد میں صحابہ پر لعن طعن کو جائز سمجھنے والوں کیلئے استعمال کیا جانے لگا۔[4] اس واقعے پر کچھ اعتراضات وارد کئے گئے ہیں؛ جو یہ ہیں:
اس لفظ کا زیدبن علی سے پہلے رائج ہونا
معاویہ کے دور میں
- معاویہ نے عمروعاص کے نام ایک خط میں مروان کے ہمراہ حضرت علیؑ کے مخالفین کو بصرہ کے رافضی کے نام سے یاد کیا ہے۔ اس تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی حکومت چاہے وہ حق ہو یا باطل، کی مخالفت کرنے والوں کو رافضی کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف سے جب معاویہ نے اپنے حامیوں کو اس لقب سے یاد کیا ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت یہ لفظ منفی معنی میں استعمال نہیں ہوتا تھا۔[5]
- ابن اعثم نے معاویہ کے عمروعاص کے نام ایک خط کو نقل کیا ہے جس میں معاویہ حضرت علیؑ کے حامیوں کو بصرہ کے رافضی کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔[6]
امام باقرؑ کے زمانے میں
احمد بن محمد بن خالد برقی اپنی کتاب المحاسن (کتاب) میں دو حدیثیں نقل کرتے ہیں جن کے مطابق قیام زید سے پہلے امام باقرؑ کے دور میں بھی یہ لفظ رائج تھا۔
- ابوالجارود کہتے ہیں: ایک شخص نے امام باقرؑ سے عرض کیا: یا ابن رسول اللہ! لوگ ہم (شیعوں) کو "رافضی" کہتے ہیں۔ امامؑ نے اپنے سینہ اطہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
میں بھی رافضی ہوں۔ (اس کو تین دفعہ تکرار فرمایا)۔ [7] - ابو بصیر کہتے ہیں: امام باقرؑ سے عرض کیا: میں آپ پر قربان جاؤں ہم شیعوں کا ایک نام رکھا گیا ہے جس کے بہانے حکومتی کارندے ہمارے جان و مال پر ظلم و ستم کو روا سمجھتے ہیں۔ امامؑ نے فرمایا: وہ نام کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: رافضی۔
امامؑ نے فرمایا: فرعون کے لشکر سے 70 لوگوں نے اسے رفض (یعنی چھوڑ) کر کے حضرت موسیؑ کا ساتھ دیا تھا اور یہ لوگ دوسروں سے زیادہ اپنے دین پر قائم تھے اور سب سے زیادہ ہارون سے محبت کرتے تھے۔ اس وقت حضرت موسیؑ نے انہیں رافضی کا لقب دیا۔ خدا کی طرف سے حضرت موسیٰ پر وحی نازل ہوئی کہ یہ نام تورات میں ان لوگوں کیلئے ثبت کرو کیونکہ میں نے ان کیلئے یہ نام انتخاب کیا ہے۔ اس کے بعد امامؑ نے فرمایا: خدا نے یہ نام تم(شیعوں) کیلئے بھی انتخاب کیا ہے۔[8]
شیعہ احادیث میں اس لفظ کا استعمال
- امام صادقؑ کو خبر دی گئی کہ عمّار دہنی نے ایک دن ابن ابی لیلی (کوفہ کے قاضی) کے روبرو گواہی دی، اس موقع پر قاضی نے اس سے کہا: "اے عمّار! ہم تمہیں جانتے ہیں کہ تم رافضی ہو، اس بنا پر تمہاری گواہی قابل قبول نہیں ہے، یہاں سے چلے جاؤ"۔ عمار کھڑے ہو گئے اس حالت میں کہ ان کا بدن کانپ رہا تھا اور وہ رو رہے تھے۔
ابن ابی لیلیٰ نے کہا: "اے عمّار! تم ایک دانشمند آدمی ہو اگر اس نام سے راضی نہیں ہو تو اس مذہب کو چھوڑ دو اس صورت میں تم ہمارے بھائی بن جاؤ گے۔"
عمّار نے کہا:
- "نہیں! ایسا نہیں ہے جو تم خیال کر رہے ہو بلکہ میرا رونا اپنے اور تمہارے لئے تھا۔ اپنے لئے اس وجہ سے کہ تم نے مجھے ایک بلند مقام و منزلت کی طرف نسبت دی جبکہ میں اپنے آپ کو اس مقام کے لائق نہیں سمجھتا ہوں! تم نے مجھے رافضی کہا حالانکہ امام صادقؑ فرماتے ہیں: پہلی مرتبہ اس نام سے فرعون کے ان جادوگروں کو پکارا گیا جو حضرت موسیٰ کی حقانیت کو دیکھ کر فرعون اور اس کے حکم سے روگردانی کرتے ہوئے حضرت موسیٰ کی جماعت میں شامل ہو گئے تھے اور اس راہ میں انہوں نے ہر قسم کے آزارو اذیت کو خندہ پیشانی سے قبول کیا اس موقع پر فرعون نے انہیں رافضی کہا تھا۔ پس رافضی وہ شخص ہے جو ہر اس چیز سے منہ موڑ لےجو خدا کی بارگاہ میں ناپسند ہو اور تمہارے لئے میں اس لئے رو رہا تھا کہ تم نے کیسے یہ جرأت کی کہ ایک اچھے نام کو برا جانا اور تم خوفزدہ نہ ہوئے کہ بروز قیامت اس عظیم جرم کے حوالے سے خدا کے سامنے کیا جواب دو گے۔؟!
حضرت امام صادقؑ نے جب یہ واقعہ سنا تو فرمایا:
- "اگر عمّار نے آسمان اور زمین سے بھی بڑا کوئی گناہ انجام دیا ہو تب بھی ان کے ان جملوں سے ان کے سارے گناہ محو ہو جائیں گے اور یہ کام ان کے نیک اعمال اور حسنات میں یوں اضافہ کرے گا جیسے رائی برابر چیز کو دنیا سے ہزار گنا بڑا کر دیا جائے۔"
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
منابع
- اس مقالے کے کچھ اقتباسات دائرۃ المعارف کی پانچویں جلد «معارف و معاریف» مؤلفہ سید مصطفی حسینی دشتی، سے اخذ کیے گئے ہیں۔
- ابن اعثم، أبو محمد أحمد(م 314)، الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالأضواء، ط الأولی، 1411ھ۔
- ابن منظور، لسان العرب،دار صادر، بیروت، 2003ء۔
- الاشعری، ابوالحسن، مقالات الاسلامیین واختلاف المصلین، بتحقیق محمد محیی الدین عبدالحمید، القاہرۃ: مکتبۃ النہضۃ المصریۃ، 1369ق/1950ء۔
- برقی، احمد بن محمد بن خالد، محاسن، مصحح جلال الدین محدث، دارالکتب الاسلامیہ، قم، 1371ھ۔
- سبحانی، جعفر، بحوث فی الملل و النحل، موسسۃ النشر الاسلامی، قم، 1420ھ۔
- شافعی،محمد بن ادریس، دیوان شافعی،دار احیاء التراث العربی، چاپ چہارم، 1402ھ۔
- فیومی، احمد بن محمد، المصباح المنیر،دار الہجرہ، قم، بیتا۔
- نصر بن مزاحم المنقری (م 212)، وقعۃ صفین، تحقیق عبد السلام محمد ہارون، القاہرۃ، المؤسسۃ العربیۃالحدیثۃ، الطبعۃ الثانیۃ، 1382، افست قم، منشورات مکتبۃ المرعشی النجفی، 1404۔
- یعقوبی احمد بن أبی یعقوب یعقوبی (م بعد 292)،تاريخ اليعقوبى، بيروت ، دار صادر، بى تا۔
- لغتنامہ دہخدا